Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 29
سورة المدثر
لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ ﴿۲۹﴾ۚ ۖ
Blackening the skins.
کھال کو جھلسا دیتی ہے ۔
لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ ﴿۲۹﴾ۚ ۖ
Blackening the skins.
کھال کو جھلسا دیتی ہے ۔
Scorching for the humans! Mujahid said, "This means for the skin." Qatadah said, "This means burning the skin." Ibn `Abbas said, "Burning the skin of man." Concerning Allah's statement, عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ
(لو احۃ للبشر :” لواحۃ “ ” لاح یلوح “ (ن) اور ” لوح یلوح “ (تفعیل ) کا معنی جلانا، متغیر کرنا بھی آتا ہے اور ظاہر ہونا اور چمکنا بھی آتا ہے۔” البشر “” بشرۃ “ کی جمع ہے ، کھالیں، یا ” البشر “ بمعنی ٓدمی ہے۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ وہ کھالوں کی وجلا کر سیاہ کردینے والی ہے (کھالوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ آدمی کو اپنے جس حسن و جمال پر نازل ہوتا ہے وہ اسی کھال ہی کی وجہ سے ہوتا ہے) یا وہ آدمیوں کو جلا دینے والی ہے۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہے کہ وہ جسم پر چمکتی ہوئی نظر آئے گی۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” جیسے لوہا دہکتا سرخ نظر آتا ہے، آدمی کے پنڈے پر وہ سرخ نظر آئے گی۔ “ (موضح)
لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ ٢٩ ۚ لوح اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به . ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔
آیت ٢٩{ لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ ۔ } ” انسان کی کھال کو جھلسا ڈالنے والی ۔ “ نہ تو اس کا عذاب ختم ہوگا اور نہ ہی اس میں جلتے ہوئے انسان کو موت آئے گی۔
16 After saying that it will leave nothing of the body unconsumed, making mention of "scorching of the skin" separately seems to be somewhat unnecessary. But this form of the punishment has been mentioned separately in particular because it is the skin of a man's face and body which actually makes his personality prominent, and it is its ugliness which makes him feel most ill at ease. He is not so grieved at the internal troubles of his body as, for instance, at his face being ugly, or that there should be spots on the skin of the exposed parts of his body, abhorrent to others. That is why it has been said: If the people who feel proud of their personalities in the world because of having handsome faces and splendid bodies, treat the Revelations of Allah mockingly, as did Walid bin al-Mughirah, their faces will be scorched and their skins burnt black.
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :16 یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں سے کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی ، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیر ضروری سا محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایاں کرنے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بد نمائی اسے سب سے زیادہ کھلتی ہے ۔ اندرونی اعضاء میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو ، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بد نما ہو جائے ، یا اس کے جسم کے کھلے حصوں کی جلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص اس سے گھن کھانے لگے ۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شاندار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں ، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہ روش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلا کر کوئلے کی طرح سیاہ کر دی جائے گی ۔
(74:29) لواحۃ للبشر۔ (ہی مبتداء محذوف) لواحۃ خبر۔ للبشر متعلق خبر۔ لواحۃ صیغہ مبالغہ ہے لوح مادہ۔ پیاس کی شدت ، تختہ، ظہور، تلویح (تفعیل) مصدر۔ بمعنی رنگ کا بگاڑ دینا۔ گرمی سے سوختہ کردینا۔ جھلسا دینا۔ بشر جمع بشرۃ کی۔ کھال کی ظاہری سطح کو کہتے ہیں۔ انسان کو بشر اسی لئے کہتے ہیں کہ اور حیوانوں میں تو کسی کی کھال اون سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور کسی کی بالوں سے مگر انسان کی کھال سب حیوانات کے خلاف کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ لفظ بشر کا استعمال واحد، جمع دونوں کے لئے یکساں طور پر ہوتا ہے۔ ہاں تثنیہ میں بشرین آیا ہے۔ جیسے فقالوا انؤمن لبشرین مثلنا (23:47) کہنے لگے کہ کیا ہم ان اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں۔ قرآن مجید میں انسان کے ظاہری جسم اور حبثہ کو ” بشر “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے :۔ (1) لواحۃ کا معنی ظاہر لے کر اور بشر کا معنی آدمی لے کر حسن بصری اور ابن کیسان نے آیت کا ترجمہ کیا ہے۔ دوزخ آدمی کے سامنے نمایاں ہوگئی یا ظاہر ہوگئی۔ اسی طرح کا معنی آیت : وبرزت الجحیم للغوین (26:91) اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ، میں آیا ہے۔ (2) لیکن لواحۃ کا معنی رنگ بگاڑ دینے والی۔ گرمی کی وجہ سے جھلسا دینے والی اور بشر کا معنی کھال کی بیرونی سطح لے کر جمہور نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ (وہ دوزخ یعنی سقر) آدمی کی کھال کو جھلسا دینے والی ہوگی ، (کلام کے سیاق وسباق میں یہی معنی بہتر ہیں)
ف 4 بشر کے ایکم عنی ” کھال “ کے ہیں اور دوسرے معنی ” لوگوں “ کے اس لئے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ لوگوں (یعنی دوزخیوں) کو (جلا کر) کالا کر دے گی۔
لواحہ للبشر (29:74) ” کھال جھلس دینے والی ہے “۔ جس طرح سورة معارج میں کہا گیا۔ تدعوا ................ وتولی (70:17) ” یہ ہر اس شخص کو بلاتی ہے جو پیٹھ پھیر کر جائے اور منہ موڑے “۔ وہ سب کو اپنی طرف بلانے والی ہے اور اس کا منظر بہت ہی خوفناک ہے .... پھر اس کے اوپر چوکیدار اور نگران کھڑے ہیں :
(29) وہ سقر یعنی دوزخ کھال کو جلا کر جھلسا کر سیاہ کردینے والی ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ سقر درکات جہنم میں سے ایک درک کا نام ہے جس کی آگ بہت تیز ہے بشر کا ترجمہ بعض حضرات نے انسان اور آدمی کیا ہے یعنی وہ آگ آدمیوں کو جلا کر سیاہ کردیگی۔ بعض حضرات نے نواحۃ کو لاح یلوت سے لے کر یہ ترجمہ کیا ہے ، نظر آتی ہے پنڈلی پر یعنی وہ آگ اس طرح رگ وپے میں جذب ہوجائیگی کہ بدن کے اوپر سے نظر آتی ہوگی جس طرح تپتے ہوئے لال لوہے میں آگ دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال ان آیتوں پر حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو کچھ لکھا ہے وہ ذیل میں ہم نقل کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب پھونکے صور، پھر وحیداً پر فرماتے ہیں یعنی اپنے باپ کے ہاں ایک بیٹا جس کا شریک نہ ہوا اور بھائی یا اکا دنیا کی لیاقت میں۔ پھر فرماتے ہیں کہتے ہیں یہ ولید کافر کو فرمایا وہ دور دور ملک دیکھ آتا تھا کافروں نے اس کو کہا تو سن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا پڑھتا ہے تجویز کر کہ کیا ہے۔ حضرت نے پڑھا تب اس نے منہ بنا کر کہا کہ یہ جادو ہے۔ صعورا پر فرماتے ہیں دوزخ میں ایک پہاڑ ہے سیدھا کافروں ک و اس پر ہمیشہ چڑھوادیں گے یہ بھی ایک عذاب ہے، پھر فرماتے ہیں جیسے لوہا دہکتا سرخ نظر آتا ہے آدمی کے پنڈے پر وہ سرخ نظر آئے گا۔