Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 30
سورة المدثر
عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾
Over it are nineteen [angels].
اور اس میں انیس ( فرشتے مقرر ) ہیں ۔
عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾
Over it are nineteen [angels].
اور اس میں انیس ( فرشتے مقرر ) ہیں ۔
Over it are nineteen. meaning, the first of the guardians of Hell. They are magnificent in (their appearance) and harsh in their character.
[١٣] فرشتوں کا طریق :۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ جہنم میں مجرموں کو عذاب دینے کے لئے انیس قسم کے فرائض ہیں جن میں سے ہر فرض کی انجام دہی ایک ایک فرشتہ کی سر کردگی میں ہوگی۔ فرشتوں کی قوت کا اندازہ لگانا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔ ایک فرشتہ وہ کام کرسکتا ہے جو لاکھوں آدمی بھی مل کر نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ ایک فرشتہ اسی محدود دائرہ میں کام کرسکتا ہے جس میں کام کرنے پر وہ مامور ہے۔ مثلاً ملک الموت لاکھوں آدمیوں کی جان ایک آن میں نکال سکتا ہے مگر عورت کے پیٹ میں ایک بچہ کے اندر جان نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح سیدنا جبرئیل چشم زدن میں آسمانوں سے وحی تو لاسکتے ہیں مگر بارش برسانا ان کا کام نہیں۔ جس طرح کان دیکھ نہیں سکتا اور آنکھ سن نہیں سکتی۔ بلکہ یہ اعضاء وہی کام کرسکتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں اسی طرح جس فرشتے کو اللہ نے جس قسم کا عذاب کرنے پر مامور کیا ہے وہ اسی قسم کا عذاب دے سکے گا۔
(١) علیھا نسعۃ عشر…: اللہ تعالیٰ نے جب جہنم پر مامور اشخاص کی تعداد انیس (١٩) تو ساتھ ہی اسے ٹھٹھے اور مذاق کا جواب بھی ذکر کردیا جو کافر اڑا سکتے تھے اور انہوں نے اڑایا بھی کہ انیس (١٩) شخص ہم ہز اورں لاکھوں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟ فرمایا ہم نے جہنم پر جن لوگوں کو مقرر کیا ہے، وہ فرشتے ہیں اور فرشتہ تو ایک بھی ہو تو تم سب کے لئے کافی ہے۔ (٢) جہنم کے فرشتوں کی تعداد بتانے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ کافروں کی آزمائش ہوجائے گی، انہوں نے اپنے محب باطن کا جو اظہار کرنا ہے کرلیں گے، جو مذاق اڑانا ہے اڑا لیں گے اور اہل کتاب کو اس کے حق ہونے کا یقین ہوجائے گا، کیونکہ یہ تعداد ان کی کتاب کے مطابق ہے، یا وہ اپنی کتابوں کی وجہ سے فرشتوں کی غیر نفاق قوتوں کو جانتے ہیں اور ایمان والوں کا ایمان مزید بڑھ جائے گا اور الہ کتاب اور ایمان والوں کو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ وہاں کفار اور وہ لوگ جن کے دلوں میں حسد اور بغض کا مرض ہے، یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ مثال بیان کرنے سے کیا مقصد ہے ؟ فرمایا دیکھ لو ایک ہی بات ہے، مگر کسی کے حصے میں اس سے انکار آیا اور کسی کو ایمان و یقین کی دولت نصیب ہوگئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے مچھر اور اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال بیان کرنے پر ایمان والے تو اس کے حق ہونے کی تصدیق کریں گے اور کافر یہی کہیں گے کہ اس قسم کی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے ؟ (دیکھیے بقرہ : ٢٦) اور اہل ایمان تو قرآن کی محکم و متشابہ ہر قسم کی آیات پر بلا چون و چرا ایمان لائیں گے، مگر جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ جؤی کے لئے متشابہات کے پیچھے لگے رہیں گے۔ دیکھیے سورة آل عمران (٧) معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے آئے اس پر ہم یقین کریں اور ایمان لائیں خواہ اس کی حکمت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو، جب یہ اعتراضات فضول ہے کہ انسان ک ومٹی سے کیوں بنایا ؟ جنوں کو آگ سے کیوں بنایا ؟ بچہ ماں کے پیٹ میں نو ماہ کیوں رتا ہے ؟ انڈے سے بچہ کا کیس دنوں میں کیوں نکلتا ہے ؟ کچھوے کی عمر طویل کیوں ہوتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ، تو یہ اعتراض کیوں کہ جہنم پر اینس (١٩) فرشتے کیوں مقرر کئے ہیں ؟ ایمان والوں کے پاس اس قسم کی تمام باتوں ایک ہی جواب ہے کہ مالک کی مرضی ہے جو چاہے کرے۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے جہنم پر مامور فرشتوں کی تعداد انیس ہونے کی حکمت اپنی عقلی موشگافیوں سے بیان کی ہے جو سرا سر تکلف ہے۔ یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم۔ اب قرآن کی صاف آیات کے بعد انہیں قائل کرنے کے لئے کون سی چیز پیش کی جائے۔ (٣) وما یعلم جنود ربک الا ھو : یہ اسلئے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کارکنوں کی کمی ہے، یعنی فرشتے تو اس کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، اللہ کے پاس اتنے لشکر ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی انہیں جانتا ہی نہیں، پھر ان لشکروں میں سے ہر ایک کی تعداد بھی وہی جانتا ہے۔ حدیث معراج میں ساتویں آسمان کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فرفع لی البیت المعمور فسالت جبریل فقال ھذا البیت المعمور یصلی فیہ کل یوم سبعون الف ملک، اذا خرجوا لم یعودو الیہ آخرما علیھم) (بخاری، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ…: ٣٢٠٨)” پھر بیت معمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا، میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، جب نکل جاتے ہیں تو اپنے آخری وقت تک دوبارہ یہاں نہیں آسکتے۔ “ ’ وماھی “ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں ” سقر “ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
عَلَيْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ ٣٠ ۭ عشر العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] ، تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] ، وعَشَرْتُهُمْ أَعْشِرُهُمْ : صِرْتُ عَاشِرَهُمْ ، وعَشَرَهُمْ : أَخَذَ عُشْرَ مالِهِمْ ، وعَشَرْتُهُمْ : صيّرتُ مالهم عَشَرَةً ، وذلک أن تجعل التِّسْعَ عَشَرَةً ، ومِعْشَارُ الشّيءِ : عُشْرُهُ ، قال تعالی: وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] ، وناقة عُشَرَاءُ : مرّت من حملها عَشَرَةُ أشهرٍ ، وجمعها عِشَارٌ. قال تعالی: وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، وجاء وا عُشَارَى: عَشَرَةً عَشَرَةً ، والعُشَارِيُّ : ما طوله عَشَرَةُ أذرع، والعِشْرُ في الإظماء، وإبل عَوَاشِرُ ، وقَدَحٌ أَعْشَارٌ: منکسرٌ ، وأصله أن يكون علی عَشَرَةِ أقطاعٍ ، وعنه استعیر قول الشاعر : بسهميك في أَعْشَارِ قلب مقتّل والعُشُورُ في المصاحف : علامةُ العَشْرِ الآیاتِ ، والتَّعْشِيرُ : نُهَاقُ الحمیرِ لکونه عَشَرَةَ أصواتٍ ، ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] بیس آدمی ثابت قدم ۔ تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] انیس ( درواغے ) میں ان میں دسواں بن گیا عشرھم ان سے عشر یعنی مال کا دسواں حصہ وصول کیا ۔ عشرتھم میں نے ان کے مویشی دس بنادیئے یعنیپہلے نو تھے ان میں ایک اور شامل کر کے دس بنادیا معشار الشئی دسواں حصہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ ناقۃ عشرء دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اس کی جمع عشار آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، اور جب دس ماہ کی گابھن ( حاملہ ) اور نٹینیاں بیکار ہوجائیں گی ۔ جاؤ عشاری وہ دس دس افراد پر مشتعمل ٹولیاں بن کر آئے ۔ العشاری ہر وہ چیز دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشاری ہر وہ چیز جو دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشر اونٹوں کو پانی نہ پلانے کی مدت ( نودن ) ابل عواشر نودن کے پیا سے اونٹ قدح اعشار ٹوٹا ہوا پیالہ دراصل اعشار لا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو ٹوٹ کر دس ٹکڑے ہوگیا ہو اسی سے شاعر نے بطور استعارہ کہا ہے ( 311 ) بسھمیک فی اعشار قلب مقتل تم اپنی ( نگاہوں ) کے دونوں تیرے میرے شکستہ دل کے ٹکڑوں پر ( مارنا چاہتی ہو العشور کے معنی گدھے کی آواز کے ہیں کیونکہ گدھا جب آواز کرتا ہے تو دس مرتبہ آواز کرتا ہے
آیت ٣٠{ عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ ۔ } ” اس پر انیس (١٩) داروغے مقرر ہیں۔ “ آغازِ سورت سے یہاں تک پورا کلام ایک ہی اسلوب میں ہے ‘ یعنی چھوٹی چھوٹی آیات اور تیز ردھم۔ لیکن اب آگے ایک طویل آیت آرہی ہے۔ ایسی ہی ایک طویل آیت ہم سورة المزمل میں بھی پڑھ آئے ہیں ‘ بلکہ سورة المزمل کا دوسرا رکوع اسی ایک آیت پر مشتمل ہے ۔ جس طرح سورة المزمل کی مذکورہ آیت باقی سورت سے الگ بعد میں نازل ہوئی ‘ اسی طرح اس سورت کی یہ ایک آیت بھی بعد میں نازل ہوئی تھی۔ اس آیت میں دراصل مشرکین کی ان استہزائیہ باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کے معاملے کو انہوں نے مذاق بنا لیا تھا اور وہ اپنی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے اس بارے میں طرح طرح کے فقرے کستے رہتے تھے۔ ایک محفل میں ابوجہل نے کہا تھا : بھائیو ! تم نے سن لیا ‘ اس نبی کے خدا کی فوج صرف انیس سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے ؟ اس پر بنی جُمَح کا ایک زور آور پہلوان یوں گویا ہوا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں اکیلا سنبھال لوں گا ‘ باقی دو سے تم سب مل کر نمٹ لینا ۔ غرض وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر کے اللہ کے کلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب اس آیت میں ان کی ان باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے :
(74:30) علیہا تسعۃ عشر : اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں : یتسلط علی اہلہا تسعۃ عشر ملکا (کشاف) اس (جہنم یعنی سقر) کے دوزخیوں پر اللہ نے انیس فرشتے (مقرر) مسلط کر رکھے ہیں۔ علیہا میں ھا ضمیر کا مرجع سقر ہے : تسعۃ عشر اسم عدد جس کا معدود محذوف ہے یعنی فرشتے۔ تسعۃ عشر دو کلمات سے مرکب ہے اور دونوں جزء میں سے ہر ایک مبنی بر فتح ہے۔
“5 حضرت براء سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت کے ایک صحابی سے پوچھا کہ دوزخ کے داروغہ کہتے ہیں ؟ اسنے جواب دیا ” اللہ جانے اور اس کا رسول کس وقت آنحضرت کو بتانے کے لئے حضرت جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ (شوکانی)
5۔ حاصل یہ کہ فرشتے جن کی قوت معلوم ہے باوجودیکہ ان میں کا ایک بھی تمام اہل جہنم کی تعذیب کے لئے بس ہے پھر انیس فرشتوں کے مقرر ہونے سے ظاہر ہے کہ عذاب کا بہت ہی اہتمام ہوگا۔
علیھا ............ عشر (74:30) ” اس کے اوپر انیس کارکن مقرر ہیں “۔ یہ نگران ملائکہ ہیں۔ جو نہایت ہی شدید القوت ہیں یا ملائکہ کی صفت کی کوئی اور مخلوق ہے۔ یا ملائکہ کی ایک نوع ہے۔ بہرحال ، اللہ نے یہ بتایا کہ انیس ہیں۔ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ جہاں تک اہل ایمان کا تعلق ہے وہ چونکہ ذات باری تعالیٰ پر پختہ یقین رکھتے تھے تو انہوں نے کلام الٰہی سنتے ہی یقین کرلیا۔ اور ایسا رویہ اختیار کیا جس طرح بندے کو رب تعالیٰ کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے کوئی شک نہ کیا۔ رہے مشرک تو انہوں نے فرشتوں کی اس تعداد کو ایک فتنہ بنا دیا۔ کیونکہ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ ان کے دلوں میں ذات باری تعالیٰ کا مناسب احترام نہ تھا۔ وہ اس عظیم معاملے میں سنجیدہ ہی نہ تھے۔ اس لئے یہ سنتے ہی وہ طنز ومذاب کرنے لگے اور انہوں نے اسے عجیب شے سمجھ کر مذاق شروع کردیا۔ بعض نے کہا کیا تم میں سے دس آدمی ان انیس میں سے ایک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بعض نے کہا صرف دو کا مقابلہ تم کرلو باقی کو میرے ذمہ چھوڑ دو ۔ میں ان کا بندوبست کرلوں گا۔ اس قسم کی اندھی ، تنگ نظر اور ہٹ دھرم روح کے ساتھ انہوں نے اس کتاب عظیم کو لیا۔ آنے والی آیات اس بارے میں نازل ہوئیں۔ ان میں اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ اللہ کے غیب کے خفیہ خزانوں میں سے ایک نکتے کا علم کیوں ظاہر کیا گیا۔ اور یہ کہ انیس کی تعداد کیوں مقرر کی گئی ہے اور اس معاملے کو اللہ کے علم غیب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ جہنم اور اس کے فرشتوں اور کارکنوں کی تعداد کے ذکر سے کیا مطلوب اور مقصود ہے۔
(30) جہنم پر انیس فرشتے مقرر ہیں یعنی یہ فرشتے خزنہ جہنم ہیں ان میں ایک کا نام مالک ہے جس کو داروغہ کہا جاتا ہے ، بہرحال اس عدد پر کفار نے استہزاء کیا کہ بس انیس فرشتے ہیں اور ہم تو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے تو وہ ہم کو کیسے عذاب کرسکیں گے ہماری تعداد ان سے کہیں زائد ہوگی چناچہ آگے اس کا جواب ہے۔