Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 31

سورة المدثر

وَ مَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃً ۪ وَّ مَا جَعَلۡنَا عِدَّتَہُمۡ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۙ لِیَسۡتَیۡقِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ یَزۡدَادَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِیۡمَانًا وَّ لَا یَرۡتَابَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ وَ لِیَقُوۡلَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡکٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا یَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ مَا ہِیَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡبَشَرِ ﴿٪۳۱﴾  15

And We have not made the keepers of the Fire except angels. And We have not made their number except as a trial for those who disbelieve - that those who were given the Scripture will be convinced and those who have believed will increase in faith and those who were given the Scripture and the believers will not doubt and that those in whose hearts is hypocrisy and the disbelievers will say, "What does Allah intend by this as an example?" Thus does Allah leave astray whom He wills and guides whom He wills. And none knows the soldiers of your Lord except Him. And mention of the Fire is not but a reminder to humanity.

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور اہل ایمان کے ایمان اور اضافہ ہو جائے اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اور کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالٰی کی کیا مراد ہے؟ اس طرح اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Number of Guardians of Hell and what the Disbelievers said about that Allah says, وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ ... And We have set none as (Ashab) guardians of the Fire, meaning, its guardians. ... إِلاَّ مَلَيِكَةً but angels. Guardian angels, stern and severe. This is a refutation of the idolators of the Quraysh when they mentioned the number of guardian angels. Abu Jahl said, "O people of Quraysh! Are not every ten among you able to defeat one of them" So Allah said, وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلاَّ مَلَيِكَة ... And We have set none but angels as guardians of the Fire. meaning, extremely strong in their creation. They cannot be stood against nor defeated. It has been said that Abu Al-Ashaddayn, and his name was Kaladah bin Usayd bin Khalaf, said, "O people of Quraysh! You defend me against two of them and I will defend you against seventeen of them." He said this thinking himself to be very great. For they claimed that he achieved such strength that he would stand on a skin of cow hide and ten people would try to pull it out from under his feet, but the skin would be torn to pieces and still not be removed from under him. Concerning Allah's statement, ... وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا ... And We have fixed their number only as a trial for the disbelievers, meaning, `We only have mentioned their number as being nineteen as a test from Us for mankind.' ... لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ ... In order that the People of the Scripture may arrive at a certainty, meaning, so that they may know that this Messenger is true. For he speaks according to the same thing that they have with them of heavenly revealed Scriptures that came to the Prophets before him. Concerning Allah's statement, ... وَيَزْدَادَ الَّذِينَ امَنُوا إِيمَانًا ... and that the believers may increase in faith. meaning, to their faith. This is due to what they witness from the truthfulness of the information of their Prophet, Muhammad. ... وَلاَ يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُوْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ... and that no doubt may be left for the People of the Scripture and the believers, and that those in whose hearts is a disease, meaning, among the hypocrites. ... وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا ... and the disbelievers may say: "What does Allah intend by this example" meaning, they say, "What is the wisdom in mentioning this here" Allah says, ... كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء ... Thus Allah leads astray whom He wills and guides whom He wills. meaning, by way of examples like this, faith becomes firm in the hearts of some people and it is shaken with others. This has a profound wisdom and it is an irrefutable proof. None knows the Soldiers of Allah except Him. Allah says, ... وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُو ... And none can know the hosts of your Lord but He. meaning, none knows their number and their count except Allah. This is so that one does not make the mistake of thinking that they are only nineteen in all. It has been confirmed in the Hadith concerning Al-Isra' that is reported in the Two Sahihs and other collections, that the Messenger of Allah said in describing the Frequented House (Al-Bayt Al-Ma`mur), which is in the seventh heaven, فَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ لاَإ يَعُودُونَ إِلَيْهِ اخِرَ مَا عَلَيْهِم Seventy thousand angels enter into it every day and they do not return to it as it is all that is due upon them (one visit in their lifetime). Concerning Allah's statement, ... وَمَا هِيَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْبَشَرِ And this is nothing but a reminder to mankind. Mujahid and others said, وَمَا هِيَ And this is not. "This means the Hellfire which has been described." ... إِلاَّ ذِكْرَى لِلْبَشَرِ but a reminder to mankind. Then Allah says, كَلَّ وَالْقَمَرِ

سخت دل بےرحم فرشتے اور ابو جہل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بےرحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابو جہل نے کہا اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو نہ تھکا سکو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو الاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں ، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے ، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا ، امام ابن اسحاق نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے ، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں ( ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو ) واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لئے ، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا ، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا ، کہ اس رسول کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے ، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا ، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے ہیں ، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں ، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد عقول عشرہ اور نفوس تسعہ ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی؟ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا صوف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی ، مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے ۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو ۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے ، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پاسکتے بلک ہفریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بےساختہ یہ نکل جاتا کاش کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور حضرت ابو ذر سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے ، طبرانی میں ہے ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی ، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ، امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے سوال کیا کہ کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا ، آپ نے فرمایا آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں ، دوسری روایت میں ہے آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو ، اسی لئے فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے ۔ آیت ( وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ١٦٤؀ۙ ) 37- الصافات:164 ) یعنی ہم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں ، اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے ، دوسری روایت میں یہ قول حضرت ابن مسعود کا بیان کیا گیا ہے ، ایک اور سند سے یہ روایت حضرت ابن علاء بن سعد سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابو حجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو وہ شخص تو کھڑے ہوگئے لیکن ابو جحش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا من مٹی میں ملا دے تو تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا ، حضرت عمر نے فرمایا اور کون آئے گا آجا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا ، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا ابو حفص آج کیا بات ہے؟ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سر اتار لیتا تو اچھا تھا ، یہ سنتے ہی حضرت عمر یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے ۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابو جحش کی نماز سے بالکل بےنیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بیشمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے ، حضرت عمر نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسبیح کیا ہے؟ فرمایا آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں دعا ( سبحان ذی الملک والملکوت ) اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا ( سبحان ذی العزۃ والجبروت ) اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں دعا ( سبحان الحی الذی لا یموت ) عمر تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کرو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا کہا کبھی یہ کہو کبھی وہ پڑھو پہلے جو پڑھنے کو آپ نے فرمایا تھا وہ یہ تھا دعا ( اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جل وجھک ) یعنی اللہ تیرے ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے اور اسحاق مروزی جو راوی حدیث ہے اس سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن حضرت امام ابو داؤد امام نسائی امام عقیلی اور امام دار قطنی انہیں ضعیف کہتے ہیں ، امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کاتبوں کی مرویات صحیح ہیں ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابو قتادہ جمعی میں بھی کلام ہے ، تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا ؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا نہ اس کے حال کو معلوم کرایا ، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا ۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک حضرت سعید بن جبیر دوسری حضرت حسن بصری سے ، پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ حضرت عدی بن ارطاۃ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ۔ اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لئے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے ۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے ، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے ۔ جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے ، اس سے دور بھاگتا رہے ، یا اسے رد کرتا رہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہ مشرکین قریش کا رد ہے، جب جہنم کے دروغوں کا اللہ نے ذکر فرمایا تو ابو جہل نے جماعت قریش کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم میں سے ہر دس آدمیوں کا گروپ، ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا، بعض کہتے ہیں کہ کالدہ نامی شخص نے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا، کہا، تم سب صرف دو فرشتے سنبھال لینا، 17 فرشتوں کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ کہتے ہیں اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کشتی کا بھی کئی مرتبہ چلینج دیا اور ہر مرتبہ شکست کھائی مگر ایمان نہیں لایا، کہتے ہیں اس کے علاوہ رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کشتی لڑی تھی لیکن وہ شکست کھا کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر) مطلب یہ کہ یہ تعداد بھی ان کے مذاق یا آزمائش کا سبب بن گئی۔ 31۔ 2 یعنی جان لیں کہ رسول برحق ہے اور اس نے وہی بات کی ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی درج ہے۔ 31۔ 3 کہ اہل کتاب نے ان کے پیغمبر کی بات کی تصدیق کی ہے 31۔ 4 بیمار دلوں سے مراد منافقین ہیں یا پھر وہ جن کے دلوں میں شکوک تھے کیونکہ مکہ میں منافقین نہیں تھے۔ یعنی یہ پوچھیں گے کہ اس تعداد کو یہاں ذکر کرنے میں اللہ کی کیا حکمت ہے ؟ 31۔ 5 یعنی گذشتہ گمراہی کی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ اور جسے چاہتا ہے، راہ یاب کردیتا ہے، اس میں حکمت بالغہ ہوتی ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ 31۔ 6 یعنی کفار و مشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں 19 فرشتے ہی تو ہیں، جن پر قابو پانا کون سا مشکل کام ہے ؟ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ رب کے لشکر تو اتنے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہی نہیں۔ صرف فرشتے ہی اتنی تعداد میں ہیں کہ 70 ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمور میں داخل ہوتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ (صحیح بخاری) 31۔ 7 یعنی یہ جہنم اور اس پر مقرر فرشتے، انسانوں کی پند و نصیحت کے لئے ہیں کہ شاید وہ نافرمانیوں سے باز آجائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] انیس فرشتوں پر کافروں کا استہزا :۔ دوزخ پر انیس فرشتوں کے تقرر کی بات سن کر مشرکین ٹھٹھا کرنے لگے کہ ہم تو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ پھر اگر ہمارے لیے جہنم کے عذاب کی بات درست ہوئی بھی تو یہ انیس ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ ہم دس دس مل کر بھی ایک فرشتے کا مقابلہ نہ کرسکیں گے ؟ ان میں سے ایک پہلوان ٹائپ آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا۔ باقی دو سے تم نمٹ لینا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ تمہاری سوچ بالکل غلط ہے وہ داروغے ہیں تو انیس مگر وہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور تم کیا سمجھو کہ ایک فرشتہ کتنی قوت کا مالک ہوتا ہے ؟ [١٥] یعنی اہل کتاب اور مومن لوگ فرشتوں پر بن دیکھے ایمان لانے والے ہیں اور ان فرشتوں کی قوت اور قدرت کا بھی انہیں علم ہے۔ لہذا وہ کبھی ایسا استہزا نہیں کرسکتے بلکہ ایسی آیات سنکر ان کے دل دہل جاتے ہیں اور ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ [١٦] اس آیت میں مرض سے مراد شک کی بیماری ہے۔ یعنی منافق اور کافر دونوں ہی ہدایت کی باتوں سے محروم رہتے ہیں۔ یعنی ایک ہی بات یا ایک ہی مثال سے بدبخت آدمی گمراہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ سلیم الطبع آدمی اسی مثال سے ہدایت حاصل کرلیتا ہے۔ جس نے بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہو وہ ہر کام کی بات کو بھی ہنسی مذاق میں اڑا دیتا ہے اور جس کے دل میں اللہ کا خوف اور ہدایت کی طلب ہو اسی بات سے اس کے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ [١٧] اللہ کے لشکر :۔ فرشتے بھی اور فرشتوں کے علاوہ جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے لشکروں کا کام لے سکتا ہے۔ وہ ابابیلوں سے اصحاب الفیل کو پٹوا بھی سکتا ہے اور مروا بھی سکتا ہے۔ وہ ہواؤں کو حکم دے کر عاد جیسی قد آور، طاقتور اور سرکش قوم کا سرتوڑ سکتا ہے۔ بلکہ جس قدر بھی باطنی اسباب ہیں وہ سب اللہ کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اللہ کے لشکر ہیں جن سے وہ جس قسم کا کام لینا چاہے لے سکتا ہے۔ کافروں سے جہنم کے فرشتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسرے سب لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُو (...And no one knows the hosts of your Lord but He 74:31) Muqatil, among the leading authorities, says that this is rebuttal to Abu Jahl&s statement. When he heard this verse which says that there are nineteen angels in charge of Hell, he addressed the youth of Quraish and said that Muhammad has only nineteen companions, so there is nothing to worry about. Baihaqi records a narrative from Suddi that when verse 30 was revealed, a foolish Quraishi unbeliever, Abul-Asalain by name, spoke out: &0 nation of Quraish, I alone am sufficient for the nineteen. I will take care of ten with my right arm, and nine with my left arm. Thus I will put an end to all nineteen of them.& On this occasion, this verse was revealed. &0 fools, first of all one angel is sufficient for all. Moreover, the number nineteen refers to the chiefs of angels. Under each of these angels, the number of Allah&s angels is legion beyond human count or computation. Allah alone knows their number. They are ready at hand to carry out the punishment to the unbelievers and transgressors.& In the next verses, there is the mention of the Hereafter and its horrors. اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ (saqar: Hell) is one of the greatest things....74:35) The pronoun in the phrase innaha refers to saqar &Hell& which has been mentioned in one of the preceding verses. The word kubar is the plural of kubaa which is an adjective for dahiyah or musibah &calamity&. The verse purports to say that Hell which the unbelievers will enter will be one of the greatest calamities. Besides, there will be many different kinds of torments and tortures.

وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُو ائمہ تفسیر میں سے مقاتل نے فرمایا کہ یہ جواب ابوجہل کے کلام کا ہے اس نے جب یہ آیت سنی کہ جہنم کے خازن انیس فرشتے ہیں تو قریشی جوانوں کو خطاب کرکے کہنے لگا کہ محمد کے ساتھی تو فقط انیس ہیں اس کی تمہیں کیا فکر ہوسکتی ہے۔ اور بیہقی نے سدی سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی علیھا تسعھ عشر تو ایک بیہودہ کافر قریش جس کو ابوالاسلین کہا جاتا تھا بول اٹھا کہ اے قوم قریش کچھ فکر نہ کرو۔ ان انیس کے لئے تو میں اکیلا کافی ہوں میں اپنے داہنے بازو سے دس کو بائیں بازو سے نو کو دفع کرکے ان انیس کا خامہ کردونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ احمقو اول تو فرشتہ ایک بھی سب کے لئے لا تعداد فرشتے مقرر ہیں جن کا عدد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا آگے قیامت اور اہوال قیامت کا ذکر ہے اس میں فرمایا اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ ، انہا کی ضمیر سقر کی طرف راجع ہے جسکا ذکر اوپر کی آیات میں آیا ہے۔ کبر بضم کاف وفتح با کبریٰ کی جمع ہے یہ صفت ہے داہیتہ یا مصیبتہ کی معنے آیت کے یہ ہوئے کہ یہ سقر یعنی جہنم جس میں ان کو داخل کیا جائے گا بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں میں سے ایک ہے اس کے علاوہ اور طرح طرح کے عذاب ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَۃً۝ ٠ ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا وَّلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٠ ۙ وَلِيَقُوْلَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْكٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ ۭ وَمَا ھِيَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ۝ ٣١ ۧ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه . ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها . والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] ، ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے : فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔ (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے دوزخیوں پر صرف فرشتوں ہی کو مقرر کیا ہے اور ہم نے جو دوزخ کے خازنوں کی تعداد صرف اس لیے کم رکھی ہے جو کفار مکہ کی آزمائش کا ذریعہ ہے یعنی ابو الااسد بن اسید بن کلدہ کی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں سترہ فرشتوں کو کافی ہوں نو میری کمر پر ہوں گے اور آٹھ اپنے سینے پر لاد لوں گا اور دو کو تم سنبھال لینا تو یہ اس لیے مقرر کی ہے، تاکہ وہ لوگ یقین کرلیں جن کو توریت کا علم دیا گیا ہے یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی کیونکہ ان کی کتاب میں دوزخ کے خازنوں کی یہی تعداد مذکور ہے اور یہ بات معلوم ہو کر کہ ہماری کتاب میں بھی وہی چیز ہے جو کہ توریت میں ہے ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ جائے اور حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی جبکہ ان کی کتاب کے خلاف نہیں ہے اور مومنین بھی جبکہ یہ چیز توریت کے مخالف نہیں شک نہ کریں۔ تاکہ یہود و نصار سے یا یہ کہ کفار مکہ کہنے لگیں کہ خازنوں کی کم تعداد سے حق تعالیٰ کا کیا مقصد ہے اسی طرح اس عجیب مضمون سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جو ہدایت کا اہل ہوتا ہے اسے ہدایت عطا کرتا ہے اور فرشتوں کی تعداد سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، اور دوزخ کا حال بیان کرنا صرف آدمیوں کی نصیحت کے لیے کافی ہے کہ ان کو اس سے ڈرایا جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃًص } ” اور ہم نے نہیں مقرر کیے جہنم کے داروغے مگر فرشتے “ ان لوگوں کو فرشتوں کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ فرشتوں کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا ان کی حماقت ہے۔ { وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْالا } ” اور ہم نے نہیں ٹھہرائی ان کی یہ تعداد مگر کافروں کی آزمائش کے لیے “ { لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ } ” تاکہ جنہیں کتاب دی گئی تھی انہیں یقین آجائے “ جامع ترمذی کی ایک روایت کے مطابق جہنم کے انیس داروغوں کا ذکر تورات میں بھی ہے۔ اب ظاہر ہے اہل ِکتاب کے لیے تو قرآن کے حق میں یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ { وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا } ” اور جو اہل ایمان ہیں وہ ایمان میں بڑھیں “ اہل ایمان کے لیے تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر وحی ایمان میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہے۔ { وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ } ” اور نہ شک میں پڑیں اہل کتاب اور اہل ایمان “ { وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْکٰفِرُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًاط } ” اور تاکہ کہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور کفار بھی کہ بھلا اس سے اللہ کی کیا مراد ہے ؟ “ یعنی منافقین اور کفار اپنے من پسند تبصرے کرتے رہیں کہ جہنم کے فرشتوں کی تعداد بتانے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے۔ { کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ } ” اسی طرح اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “ { وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَط } ” اور کوئی نہیں جانتا آپ کے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے۔ “ { وَمَا ہِیَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْبَشَرِ ۔ } ” اور یہ آیات صرف انسانوں کی یاد دہانی کے لیے ہیں۔ “ اس کے بعد سورت کے آخر تک تمام آیات کا اسلوب اور آہنگ وہی ہے جو شروع سورت سے چلا آ رہا ہے ۔ یعنی چھوٹی چھوٹی آیات اور تیز ردھم۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 The whole passage from here to "none knows the hosts of your Lord but He Himself", is a parenthetical sentence, which has been inserted here to answer an objection of the disbelievers, who had started mocking it when they heard the Holy Prophet (upon whom be peace) say that 19 keepers had been appointed over Hell. Their objection was: "How strange that, on the one hand, we are told that all human beings, from the time of the Prophet Adam till Resurrection, who disbelieved and committed evil, will be cast into Hell. and, on the other, that there will be only 19 keepers, who will administer punishment to the countless numbers of men in such a huge Hell. " This caused a huge laughter among the chiefs of Quraish. Abu Jahl said: "Brothers, are you so powerless that even as many as ten of you at a time will not be able to overpower a single policeman of Hell?" At this a wrestler of the Bani Jumha said: `Well I will deal with and overpower at least 17 of them by myself; as for the remaining two, you all together can tackle them. " In response these sentences have been inserted as a parenthetical clause. 18 That is, "It is foolish on your part to compare the angelic powers to human powers. They will be angels, not men, and you cannot imagine what tremendous powers Allah has granted to the angels He has created." 19 That is, "Although apparently there was no need to mention the number of the keepers of Hell, yet We have mentioned it so that it becomes a trial for every such person who may be concealing any kind of unbelief in his heart. Such a man may be making a great display of his faith but if he conceals even a tinge of the doubt about the Godhead and supreme powers of God, or about Revelation and Prophethood, anywhere in his heart, his disbelief would immediately be exposed as soon as he would hear that only 19 policemen would control countless numbers of the culprits from among the jinn and men in such a huge jail and would also administer punishment to each of them individually. " 20 Some commentators have explained it thus: "As in the scriptures of the Jews and Christians themselves also the same number of the angels has been mentioned as keepers of Hell, they would be convinced of this thing's being truly from Allah as soon as they heard it." But in our opinion this commentary is not correct for two reasons. First, we have not been able to see anywhere in the existing scriptures of the Jews and Christians in spite of search that the number of the angels appointed over Hell is 19. Second, there are many things in the Qur'an, which also have been mentioned in the scriptures of the Jews and Christians, yet they explain them away, saying that the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has plagiarized these from their books. For these reasons the correct meaning of this statement in our opinion is: The Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) knew fully well that he would be ridiculed as soon as the disbelievers heard that 19 angels had been appointed over Hell, but in spite of this, he presented without the least hesitation and fear publicly before the people what had been revealed to him from Allah, and did not at all mind the jesting and mocking by the people. The pagans of Arabia were unaware of the unique distinction of the Prophets, but the followers of the earlier scriptures were fully aware that the Prophets in every age used to convey to their people intact whatever they received from God, whether it pleased them or displeased them. On this very basis it was to be expected of the Jews and the Christians that they would be convinced of the Prophet Muhammad's truth for only a Prophet could present an apparently strange thing without any hesitation before the people in an environment charged with antagonism and hostility. This also is evident that such a thing was shown by the Holy Prophet on many other occasions. Its most prominent example is the event of the mi'raj (ascension) which he related openly before a general assembly of the disbelievers and did not at all care how his opponents would behave and react after they had heard the story of the wonderful event. 21 It has been explained at several places in the Qur'an above that on the occasion of every trial when a believer remains steadfast to his faith, and forsaking the way of doubt and denial, disobedience or disloyalty to the faith, adopts the way of faith, obedience and loyalty to it, it increases and strengthens him all the more in faith and resignation (For explanation, see 'Al-Imran: 173, Al-Anfal: 2, At-Taubah: 124125, Al-Ahzab: 22, Al-Fath: 4 and the corresponding E.N.'s) . 22 As "sickness of the heart" in the Qur'an is generally understood to imply hypocrisy, seeing this word here some commentators have expressed the view that this verse was revealed at Madinah, for the hypocrites appeared at Madinah. But this view is not correct for several reasons. In the first place, the assertion itself that there were no hypocrites at Makkah is false, and its false-hood has been exposed in the Introduction to the Surah Al-`Ankabut and in its vv. 1011. Secondly, in our opinion it is not a correct way of writing commentary that in respect of a certain sentence occurring in a particular discourse which was revealed on a particular occasion, under particular circumstances, one should declare that it had been sent down on another occasion but has been inserted here without any relevance. The historical background of this part of Surah AlMuddaththir is fully well known to us from authentic traditions. This was revealed in connection with a particular event of the earliest period of the life at Makkah. The whole context bears full relevance to the event. What could, therefore, be the occasion in this context that this one sentence, if it was revealed many years later at Madinah, should have been inserted here? As for the question what is implied by the disease of the heart here, its answer is that it implies the disease of doubt. Not only in Makkah but in the entire world also there have been, and are, very few such people, who might deny God, Hereafter, Revelation, Prophethood, Heaven. Hell, etc. absolutely. In every age the greater majority by far has been of those people, who have been involved in the doubt whether there is God, or no God, Hereafter or no Hereafter, whether Heaven and Hell really exist, or are mere figments of the imagination, and whether the Messengers did really come and receive Revelation or not. This same doubt has led most people to unbelief, otherwise the number of such people in the world who denied these truths absolutely has never been great. For a person who has any common sense knows that there is no rational ground whatever for denying the possibility of the existence of these things, or of declaring them absolutely impossible. 23 This dces not mean that they accepted it as Divine word but wondered why Allah had said such a thing. But what they actually meant was: "A discourse which contained such an irrational and impossible thing could not be a Revelation from Allah." 24 That is, AIlah in this very way sometimes sends down in the course of His Revelations and Commandments such things as become a means of test and trial for the people. It is one and the same thing which a truth-loving, good-natured and right-minded person hears and understanding its right meaning in the right way, adopts the straight path, but which when heard by an obstinate, perverse and wilful wrongdoer, makes him to misconstrue it and make it a new excuse for fleeing from the truth. Since the first man is himself a lover of the truth, Allah grants him guidance, for it is not the way of Allah to lead the seekers after truth forcibly astray; and since the second man himself does not want guidance, but chooses only error for himself, Allah also pushes him on to the way of error and deviation, for it is also not the way of Allah to forcibly pull to the way of the truth him who has an aversion to the truth. (The question of Allah's granting guidance and misguidance has been fully explained at many places for example, see E.N.'s 10. 16, 19, 20 of Al-Baqarah; E.N. 173 of An-Nisa', E.N.'s 17, 28, 90 of AlAn`am, E.N. 13 of Yunus, E.N. 54 of Al-Kahf, E..N. 71 of Al-Qasas) 25 That is, none knows but Allah what different kinds and how many of the creatures He has created in the universe, what powers He has granted them, and what services He is taking from them. If the man clinging to the tiny globe of the earth seeing the tiny world around himself with his limited sight, is involved in the misunderstanding that the universe of God contains nothing but what he can perceive by his senses or by his instruments, this would only be his own shortsightedness, other wise this universe is so vast and limitless that it is not in the power of man to obtain full knowledge about any of the things here, not to speak of comprehending mentally the concept of all its vastnesses. 26 "The people may take heed" the people may recover their senses and wake up before they make themselves worthy of Hell and suffer its punishment, and should think of saving themselves from it.

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :17 یہاں سے لے کر تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر ان معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف 19 ہو گی ، اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا ۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف سے ہم سے یہ کہا جا رہا کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف 19 کارکن مقرر ہوں گے ۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا ۔ ابو جہل بولا ، بھائیو ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ا یک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے ؟ بنی جمح کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے 17 سے تو میں اکیلا نمٹ لوں گا ، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا ۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :18 یعنی ان کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے ۔ وہ آدمی نہیں ، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :19 یعنی بظاہر تو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کی جاتی ۔ لیکن ہم نے ان کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو ۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو ، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے با رے میں ، یا وحی و رسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد و حساب مجرم جنوں اور انسانوں کو صرف 19 سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فردا فردا ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے ، تو اس کا کفر فورا کھل کر باہر آ جائے گا ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :20 بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہل کتاب ( یہود و نصاری ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے ، اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالی ہی کی فرمائی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔ اول یہ کہ یہود و نصاری کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے ۔ دوسرے قرآن مجید میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کر لی ہیں ۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑایا جائے گا ، لیکن اس کے باوجود جو بات اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق و استہزاء کی ذرہ برابر پروا نہ کی ۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے ناواقف تھے ، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جو کا تو لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ یہ بات بھی وا ضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرز عمل بار ہا ظاہر ہوا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرہ برابر پروا نہ کی اس حیرت انگیز قصے کو سن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :21 یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شک و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفاداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، آیت 173 ۔ جلد دوم ، الانفال ، آیت 2 ، حاشیہ 6 ۔ التوبہ ، آیات 124 ۔ 125 ۔ حاشیہ 125 ۔ جلد چہارم ، الاحزاب ، آیت 22 ، حاشیہ 83 ۔ جلد پنجم ، الفتح ، آیت 4 ، حاشیہ 7 ) ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :22 قرآن مجید میں چونکہ بالعموم دل کی بیماری سے مراد منافقت لی جاتی ہے ، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے ۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکہ میں منافق موجود نہ تھے ، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم میں صفحہ 672 ، 674 اور 680 تا 682 پر واضح کر چکے ہیں ۔ دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو ، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا ۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے ۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ اس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے ۔ اس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اس ایک فقرے کو ، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا ، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا ؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے ۔ مکہ ہی میں نہیں ، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا ، آخرت ، وحی ، رسالت ، جنت ، دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں ۔ اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں ۔ آخرت ہو گی یا نہیں ، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا یہ محض افسانے ہیں ، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر وحی آتی تھی یا نہیں ۔ یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گیا ہے ، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر ان حقائق کا انکار کر دیا ہو ، کیونکہ جس آدمی میں ذرہ برابر بھی عقل کا مادہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ان امور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور انہیں قطعاً خارج از امکان قرار دینے کے لیے ہرگز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :23 اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی ۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :24 یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ا یک راستی پسند ، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اسی بات کو ایک ہٹ دھرم ، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا لیتا ہے ۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی اسے ہدایت بخش دیتا ہے ، کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے ۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے ، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے ۔ ( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: جلد اول ، البقرہ ، حواشی 10 ، 16 ، 19 ، 20 ۔ النساء ، حاشیہ 173 ۔ الانعام ، حواشی 17 ، 28 ، 90 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 13 ۔ جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 45 ۔ القصص ، حاشیہ 71 ) ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :25 یعنی اللہ تعالی نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں ، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں ، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے ، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے ، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے ۔ ورنہ یہ خدائی کا کارخانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے ، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے ۔ سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :26 یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آجائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ ٣٧۔ تفسیر ابن جریر ١ ؎ وغیرہ میں جو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب اوپر کی آیتوں میں یہ لفظ اترے کہ دوزخ پر انیس فرشتے تعینات ہیں تو ابوجہل نے قریش سے کہا کہ تم لوگ تو بہت بڑی قوم ہو تم میں سے سو سو شخص بھی اگر ایک ایک فرشتے سے بھگت لو گے تو انیس فرشتے تمہارا کیا کرسکتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ ان لوگوں کی عقل ماری گئی ہے جو یہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ انیس انسان نہیں جو سارے قریش مل کر ان سے بھگت لیں گے یہ تو فرشتے ہیں۔ ان میں کا تو ایک ایک ساری دنیا کے الٹ پلٹ کردینے کو کافی ہے۔ کیا ان لوگوں نے سنا نہیں کہ اللہ کے ایک فرشتے نے لوط کی قوم کو مع ان کی بستی کے اٹھا کر الٹ دیا۔ پھر فرمایا پچھلی کتابوں میں بھی ان فرشتوں کی تعداد یہی ہے اس لئے اہل کتاب کو اس گنتی کا حال سن کر قرآن کے کتاب آسمانی ہونے پر یقین بڑھ جائے گا اور ان کے یقین کا حال سن کر مسلمانوں کے یقین میں بھی ترقی ہوجائے گی۔ پھر فرمایا اللہ کے علم ازلی میں جو لوگ کافر اور منافق ٹھہر چکے ہیں وہ اس گنتی کو سن کر ایسی باتیں کریں گے جیسی باتیں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے کیں کیونکہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ کے علم میں نیک و بد کا اندازہ ٹھہر چکا ہے۔ اسی اندازہ سے اللہ ہر ایک کو لگا دیتا ہے۔ مجبور کرکے دوسرے ڈھنگ پر کسی کو نہیں لگاتا کہ مجبوری کا ایمان یا نیک عمل اس کی بارگاہ میں قبول نہیں۔ پھر فرمایا ان انیس فرشتوں پر کیا منحصر ہے ‘ آسمانوں پر تو اتنے فرشتے ہیں کہ چپہ بھر جگہ فرشتوں سے خالی نہیں۔ سوا اس کے آگ ‘ پانی ‘ ہوا یہ سب اللہ کے لشکر ہیں۔ پچھلی قومیں ان ہی لشکروں کی چڑھائی سے غارت ہوچکی ہیں اس کے لشکروں کا کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن کی آیتیں نہ انسانی کلام ہے نہ جادو ہے۔ بلکہ یہ تو انسان کو ایک نصیحت ہے پھر قسم کھا کر فرمایا کہ ان آیتوں میں جس دوزخ سے لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے وہ بڑی ڈر کی چیزوں میں سے ہے اسی طرح جنت بڑی رغبت کی چزم ہے ان کی طرف نیکی بدی سے قدم آگے بڑھانا پیچھے ہٹانا انسان کا کام ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٤ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:31) وما جعلنا اصحب النار الا ملئکۃ : واؤ عاطفہ ما نافیہ ہے۔ اصحب النار مضاف مضاف الیہ مل کر جعلنا کا مفعول ہے۔ الا حرف استثناء ملئکۃ مستثنیٰ اور ہم نے دوزخ پر داروغے فرشتوں کو ہی رکھا ہے۔ عدتھم : مضاف مضاف الیہ۔ ان کی تعداد، فتنۃ آزمائش، اور ان کی تعداد کافروں کے لئے ہم نے آزمائش بنائی ہے۔ لیستیقن لام تعلیل کے لئے ہے۔ یستیقن مضارع منصوب واحد مذکر غائب استیقان (استفعال) مصدر بمعنی واضح طور پر جان لینا۔ یقین کے ساتھ جان لیتا۔ یقین کا معنی ہے کسی بات کی قطعیت پر انسانی فہم کا قائم ہوجانا۔ چونکہ یقین علم حصولی کی صفت ہوتا ہے۔ اس لئے ملائکہ اور انسان کے علم کی صفت تو ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے علم کو موصوف بہ یقین نہیں کہا جاسکتا۔ لیستیقن، تاکہ وہ واضح طور پر جان لیں۔ (یعنی کافر لوگ) الذین اوتوا الکتب : الذین اسم موصول جمع مذکر، اوتوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر۔ وہ دئیے گئے۔ ان کو ملا۔ الکتب اسم مفعول۔ جن کی کتاب دی گئی اہل کتاب ، یعنی یہود و نصاری۔ ویزداد الذین امنوا واؤ عاطفہ۔ یزداد مضارع منصوب ۔ واحد مذکر غائب ازدیاد (افتعال) مصدر۔ تاکہ بڑھ جائے۔ زیادہ ہوجائے۔ ایمانا مفعول مطلق۔ اور تاکہ ایمان والوں کا ایمان بڑھے۔ ولا یرتاب الذین اوتوا الکتب والمؤمنون : واؤ عاطفہ، لا یرتاب مضارع منفی منصوب واحد مذکر غائب ارتیاب (افتعال) مصدر۔ بمعنی شک میں پڑنا۔ اور تاکہ اہل کتاب اور ایمان دار شک میں نہ پڑیں۔ ولیقول الذین فی قلوبہم مرض والکفرون : واؤ عاطفہ لام تعلیل کا مرض سے مراد نفاق ہے۔ اور تاکہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے اور کافر لوگ یہ کہیں ۔ ما ذا اراد اللہ بھذا مثلا : ماذا کیا چیز ہے۔ کیا ہے یہ۔ ماذا کی لفظی ساخت میں اختلاف ہے۔ کوئی اس کو مرکب کہتا ہے کوئی بسیط۔ اور بسیط کہنے والوں میں سے بعض قائل ہیں کہ ماذا پورا اسم جنس ہے یا موصول ہے الذی کا ہم معنی۔ یا پورا حرف استفہام ہے جیسے ماذا ینفقون قل العفو (2:219) اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں۔ کہہ دیں جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ (قرات غیر ابو عمر) ۔ مرکب کہنے والے کہتے ہیں کہ ماذا مرکب ہے ما استفہام اور ذا موصولہ سے۔ یا ما استفہامیہ اور ذا زائدہ سے۔ مثلا بیان۔ عجیب خبر، مثال۔ فائدہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے دوزخ کے کارکن فرشتے بنائے ہیں اور ان کی تعداد کو کافروں کے لئے فتنہ بنایا ہے تاکہ :۔ (1) لیستیقن ۔۔ اوتوا الکتب : تاکہ اہل کتاب کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا یقین کامل ہو۔ (2) ویزداد الذین ۔۔ اور تاکہ ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہوجائے۔ (3) ولا یرتاب الذین ۔۔ اور تاکہ اہل کتاب اور ایمان داروں کو آخرت کے بارے میں شک نہ ہو۔ (4) ولیقول الذین ۔۔ اور تاکہ جن کے دلوں میں شک ہے اور منکر ہیں یہ کہیں کہ اس مثل یعنی بیان سے اللہ تعالیٰ نے کیا ارادہ کیا ہے۔ یعنی وہ اس میں نکتہ چینی کرکے اور زیادہ گمراہ ہوں۔ اس لئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کذلک لیضل اللہ من یشاء و یھدی من یشاء اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ کذلک کاف حرف تشبیہ ذلک اسم اشارہ ۔ یعنی اس طرح یضل واحد مذکر غائب مضارع اضلال (افعال) مصدر۔ وہ گمراہ کرتا ہے۔ جنود جمع ہے جند کی بمعنی لشکر ۔ فوجیں۔ وما ہی : ما نافیہ ہے۔ ہی ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع سقر ہے۔ ذکری مصدر ہے ذکر یذکر کا۔ کثرت ذکر کے لئے ذکری بولا جاتا ہے۔ یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔ یہ محض انسان کی نصیحت کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی وہ آدمی نہیں ہیں کہ آدمیوں کی کوئی بڑی سے بڑی تعداد بھی انہیں مغلوب کرسکے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب ابوجہل نے یہ سنا کہ دوزخ کے دارہ خائوں کی تعداد انیس ہے تو کہنے لگا لوگو ! گواہ رہو کہ محمد (ﷺ) کے کل مددگار انیس ہیں اور تم اتنے ہو کہ تم میں سے سو آدمی بلکہ دس آدمی مل کر دوزخ کے ایک داروغہ پر غالب آجائیں گے۔ اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ (شوکانی)7 یعنی جب وہ دیکھیں گے کہ اہل کتاب جب وہ دیکھیں گے کہ اہل کتاب کی کتابیں قرآن کی تائید کر رہی ہیں تو قرآن اور پیغمبر پر ان کا ایمان مزید پختہ ہوجائے گا۔8 یعنی اس نے انیس داروغہ کیوں مقرر کئے ؟… معلم ہوا کہ اس قسم کے امور میں بحث اور نکتہ سنجی مسلمان کا کام نہیں ہے۔9 یعنی اللہ تعالیٰ کی لاتعداد مخلوقات کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جو اصل مقصود ہے جہنم کا حال بیان کرنے سے وہ وعدہ کی قلت یا کثرت یا تعیین یا انکشاف حکمت تخصیص یا عدم انکشاف پر موقوف نہیں، اور وہ اصل مقصود یہ ہے کہ وہاں کے عذاب کو سن کر ڈریں اور ایمان لاویں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ یہ فرشتے انیس ہیں اور مشرکین اس تعداد میں شک کرتے ہیں۔ وما جعلنا ............................ ملئکة (74:31) ” ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں “۔ تو یہ کارکن ان فرشتوں میں سے ہیں جو نہایت ہی قدرت والے ہیں اور ان کی طبیعت اور مزاج کو اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ نہایت ہی قوی ہیں اور ان کے بارے اللہ نے فرمایا ہے۔ لا یعصون .................... یومرون ” وہ ان احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور ان کو جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں “۔ یعنی وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور ان کے اندر اس بات کی طاقت ہے کہ اللہ جو حکم دے وہ اس کی تعمیل کریں ۔ اللہ نے ان کو ایسی قوت دے رکھی ہے کہ وہ ان کو جو حکم دے ، اس کی تعمیل وہ فوراً کردیں۔ اگر اللہ نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آگ کے اندر اللہ کے احکام کی تعمیل کریں تو اللہ نے ان کو قدرت دی ہے کہ وہ ایسے حالات میں کام کرسکیں۔ جس طرح اللہ نے ان کو سکھایا۔ لہٰذا ان فرشتوں کے ساتھ یہ بیچارے کب پنجہ آزمائی کرسکتے ہیں ، ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ ان فرشتوں کو وہ قابو کرلیں گے تو یہ محض جہالت کی وجہ سے کہا ، ان لوگوں کو دراصل اللہ کی قوتوں اور اللہ کی فوجوں کی طات کا کوئی پتہ ہی نہیں۔ اور یہ معلوم ہی نہیں کہ اپنے معاملات کو کس طرح چلاتا ہے۔ وما جعلنا ................ کفروا (74:31) ” اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کے لئے فتنہ بنادیا ہے “۔ یہ کافر دراصل ان فرشتوں کی تعداد پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ مقامات کیا ہیں جہاں تسلیم کے بغیر بات نہیں بنتی اور وہ مقامات کیا ہیں جہاں جدل وجدال اور بحث ومباحثے کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ معاملہ غسیلت کا ہے۔ اور اس میں تسلیم ورضا کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان غیبی شعبوں اور موضوعات پر انسان کے پاس نہ قلیل علم ہے اور نہ کثیر علم ہے۔ جب الہل نے اپنے نبی کے ذریعہ یہ اطلاع کردی اور نبی سچا ہے اور اللہ سچا ہے تو پھر بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انسان کا مقام یہ ہے کہ بس نبی کی بات تسلیم کرے اور یہ اطمینان رکھے کہ جس قدر خبر اللہ نے بتا دی اسی قدر بتانے میں خیر ہے اور اس میں مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسان مناقشہ اس موضوع پر کرسکتا ہے جس کے بارے میں اس کے پاس کوئی سابقہ علم ہو اور جدید علم کے بارے میں وہ اعتراض کرتا ہو۔ تو فرشتوں کی تعداد کے بارے میں انسان کے پاس سرے سے کوئی سابقہ علم ہی نہیں ہے اور یہ کہ ” وہ “ انیس ہیں تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کیا ہیں اور انیس کیوں ہیں ؟ تو اعتراض کرنے والے بیس پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں۔ آخر آسمان سات کیوں بنائے ہیں ، اس پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے اور انسان کو موجودہ شکل میں کیوں بنایا اور سوکھی مٹی سے کیوں بنایا اور جنوں کو آگ کے شعلہ سے کیوں بنایا ؟ اور انسان کیوں ماں کے پیٹ میں ٩ ماہ رہتا ہے اور کچھوے کیوں ہزار ہا سال زندہ رہتے ہیں اور یہ کیوں ؟ اور یہ کیوں ؟ جواب صرف یہی ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہے اور یہی حقیقی جواب ہے ایسے معاملات کا۔ لیستیقن ............................ والمومنون (74:31) ” تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے ، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں “۔ اور یہ دونوں فریق دوزخ کے نگرانوں کی تعداد میں یقین کا مواد پائیں گے اور اہل ایمان کا تو ایمان زیادہ ہوگا۔ رہے اہل کتاب ، تو ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی علم ضرور ہوگا۔ اور جب وہ سنیں گے کہ قرآن کریم بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے تو وہ بات درست ہے کیونکہ قرآن کریم کتب سابقہ کی تصدیق کرنے والا ہے۔ رہے اہل ایمان ، تو ان کا ایمان تو ہر نئی آیت کے بعد زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے دل کھلے ہیں اور عالم بالا سے ان کا بذریعہ رسول ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔ اور جو حقائق بھی وارد ہوتے ان کے ایمان میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ ان کے دلوں میں عنقریب یہ حکمت بیٹھ جائے گی کہ کیوں اللہ نے انیس فرشتے مقرر کیے ہیں ، کیونکہ اللہ کے نظام تخلیق وتدبیر میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور ان دونوں کے ذہن میں جب یہ حقیقت بیٹھ جائے گی تو یہ دونوں فریق شک نہ کریں گے کیونکہ یہ بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ ولیقول ............ مثلا (74:31) ” اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے “۔ یوں اس ایک ہی حقیقت کا اثر مختلف دلوں میں مختلف ہوتا ہے ، جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ یقین کرتے ہیں اور جو مومن ہیں ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور جن لوگوں کے دل میں بیماری ہے اور جو ضعیف الایمان اور منافق ہیں وہ حسرت واستعجاب میں پوچھتے ہیں : ماذارا ............ مثلا (74:31) ” اللہ کا اس بات سے مطلب کیا ہے ؟ “۔ کیونکہ اس تعداد کی حکمت وہ نہیں سمجھتے۔ اور نہ وہ اصولاً اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خالق کائنات کی تمام باتوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ وہ خدا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبروں کی تصدیق پیش کرتے ہیں اور نہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں خیر اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ کذلک .................... من یساء (74:31) ” اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخش دیتا ہے “۔” اسی طرح “ یعنی حقائق کے بیان کے ذریعہ اور آیات قرآنیہ کے بیان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مختلف دلوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ ایک گروہ اللہ کی مشیت کے مطابق ان سے ہدایت لیتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے نظام مشیت کے تحت گمراہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر امر کا آخری سبب اللہ کا ارادہ مطلقہ ہوتا ہے۔ ان انسانوں کو قدرت الٰہیہ نے دونوں طرز کی صلاحتیں دی ہیں۔ ان کے اندر ہدایت کی صلاحیت بھی ہے اور گمراہی کی صلاحیت بھی ہے۔ اور یہ صلاحیت اللہ کے نظام مشیت کے اندر ہے۔ پس جو گمراہ ہو ، وہ بھی مشیت کے اندر ہے اور جو ہدایت پائے وہ بھی اس دائرے کے اندر ہے ، کیونکہ ان کی تخلیق کے اندر دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ دونوں راستے ان کے لئے آسان کردیئے گئے ہیں ، جو کوئی جس راستہ کو اختیار کرتا ہے ، اللہ کے دائرہ مشیت کے اندر ہی ہوتا ہے اور یہ دائرہ اللہ کی گہری حکمت پر مبنی ہے۔ یہ تصور کہ اللہ کی مشیت مطلق اور بےقید ہے اور اس کائنات میں جو امر واقع ہوتا ہے وہ اس مشیت کے دائرہ کے اندر ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع تصور ہے اور یہ متکلمین کی ان محدود بحثوں سے وسیع تر ہے جو وہ انسان کی جبریت اور اختیار کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچنا ہی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جبرواختیار کی مباحث نہایت ہی تنگ زاویہ سے کی جاتی ہیں۔ یہ بحثیں انسان کی محدود سوچ ، محدود طرز استدلال کے انداز میں اور انسان کے محدود تصورات کے اندر کی جاتی ہیں جبکہ اللہ کے نظام مشیت کا تعلق اللہ کی غیر محدود الوہیت کے نظام سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت اور ضلالت کا راستہ بتا دیا اور وہ منہاج بھی بتادیا جس پر چل کر ہم سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اور وہ طریقے بھی بتادیئے جن کے ذریعہ انسان گمراہ ہوتے ہیں اور برے انجام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں مکلف نہیں بنایا کہ اس سے زیادہ بھی ہم جان لیں ، نہ اللہ نے اس سے زیادہ ہمیں قدرت اور طاقت دی ہے۔ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ میرا ارادہ بےقید ہے اور میں جو کچھ چاہتا ہوں وہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے فہم اور ادراک کے مطابق اللہ کی بےقید مشیت اور ارادہ مطلق کو سمجھنا چاہئے اور اس کے مطابق چلنا چاہئے۔ ہمیں اس منہاج پر چلنا چاہئے جس کے نتیجے میں ہدایت ملتی ہے اور اس منہاج سے بچنا چاہئے جس سے ہم گمراہ ہوتے ہیں اور ان سائل پر ہمیں فضول اور لاحاصل بحث نہیں کرنا چاہئے جن تک انسانی قوائے مدرکہ کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔ اس اصول کے مطابق متکلمین مسئلہ قدرواختیار کے موضوعات پر جو مباحث کیے ہیں وہ لا حاصل ہیں۔ ہم اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے کہ اللہ کی مشیت ہمارے بارے میں کیا کرتی ہے۔ البتہ ہم اس حقیقت کو پاسکتے ہیں کہ انسان اللہ کے فضل وکرم کے مستحق کس طرح ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی قوتیں ان کاموں میں صرف کریں جن کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اور اللہ کے پوشیدہ اور مشتبہ امور کو اللہ پر چھوڑدیں۔ جب اللہ کی مشیت ظاہر ہوجاتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی مشیت تھی اور ایسا ہوگیا۔ مشیت کے ظہور سے قبل ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہر مشیت کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ حکمت بھی اللہ جانتا ہے ، صرف اللہ وحدہ۔ یہ تو ہے ایک سچے مومن کا طریقہ کار۔ وما یعلم ................ الا ھو (٤٧ : ١٣) ” اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا “۔ اس لئے اللہ کی افواج ، ان کی حقیقت ان کے وظائف اور ان کی قوت کا ہمیں علم نہیں ہے ، کیونکہ یہ اللہ کے غیبی امور میں سے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ ان امور میں سے کسی چیز کا انکشاف کردے۔ اور اللہ جو بات کردے وہ فیصلہ کن اور اٹل ہوتی ہے۔ اللہ کے قول کے بعد کوئی مجادلہ نہیں کرسکتا ، کسی کو کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ کسی بات کے معلوم کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ کام کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ وماھی ................ للبشر (74:31) ” اور اس دوزخ کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لئے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو “۔ ھی کی ضمیر یا تو اللہ کے ” جنود “ کی طرف راجح ہے یا جہنم کی طرف۔ اور اس پر جو فرشتے ہیں ان کی طرف۔ اور یہ بھی اللہ کی افواج میں سے ہیں۔ اور ان کا ذکر لوگوں کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لئے کیا گیا ہے۔ محض جدل وجدال کے لئے نہیں۔ اللہ کے کلام سے صرف اہل ایمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ، رہے گمراہ دل ، تو وہ ان چیزوں کو محض جدل وجدال کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس غیبی حقیقت کی وضاحت اور ہدایت لینے اور گمراہ ہونے کے طریقے اور اسباب بتانے کے بعد اب حقیقت آخرت حقیقت جہنم اور رب تعالیٰ کی خفیہ قوتوں کو اس کائنات کے ظاہری مشاہد اور نشانیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ان ظاہری نشانیوں کو تو انسان دیکھتے ہوئے بھی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ غیبی حقائق معلوم کرنے کے لئے تیر تکے چلاتے ہیں ، حالانکہ ان ظاہری امور اور نشانات سے اللہ کے ارادے اور قوتیں اچھی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور ان ظاہری نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے بڑا مقصد اور ایک طاقتور ارادہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخ کے کارکن صرف فرشتے ہیں ان کی معینہ تعداد کافروں کے لیے فتنہ ہے، رب تعالیٰ شانہ کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ جب آیت بالا نازل ہوئی جس میں انیس فرشتوں کا ذکر ہے تو ابو جہل نے قریش سے کہا تمہارا ناس ہو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان ہے کہ دوزخ پر انیس فرشتے مقر رہیں تو کیا تم پہلوان ہوتے ہوئے ان سے مار کھائے جاؤ گے کیا تم میں سے ہر دس آدمی ایک فرشتے کے لیے کافی نہ ہوں گے وہیں اسید بن کلدہ بھی ایک شخص موجود تھا اس نے کہا کہ سترہ فرشتوں سے تو میں نمٹ لوں گا دس میری پیٹھ پر سات میرے پیٹ پر ہوں تو میں نمٹا دوں گا اور باقی دو سے تم نمٹ لینا، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس نے کہا کہ میں پل صراط پر تمہارے آگے آگے چلوں گا دس فرشتوں کو داہنے مونڈھے سے اور نو فرشتوں کو بائیں مونڈھے پر دھکیل دوں گا اور ہم پل صراط سے گزر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿ وَ مَا جَعَلْنَاۤ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓىِٕكَةً ١۪﴾ نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے کارکن فرشتے ہیں انسان نہیں ہیں تاکہ انسانوں پر قیاس کر کے کوئی شخص یوں نہ کہنے لگے کہ میں اتنے عدد سے نمٹ لوں گا۔ ہر فرشتے کی بہت زیادہ قوت ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک فرشتے کی قوت تمام جنات اور انسانوں کے برابر ہے۔ (الدار المنثور صفحہ ٢٨٤: ج ٦) ﴿ وَّ مَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ١ۙ﴾ (اور ہم نے کارکنان دوزخ کی جو مقدار رکھی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ کافرین کی جانچ اور امتحان ہو وہ اس کی تکذیب کریں اور گمراہی میں پڑیں) ۔ ﴿ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ﴾ (تاکہ وہ لوگ یقین کرلیں جنہیں کتب دی گئی ہے) ۔ یعنی یہود و نصاریٰ کے پاس جو کتابیں ہیں ان میں بھی یہ تذکرہ تھا کہ کارکنان دوزخ کی تعداد انیس ہے۔ اب جب انہوں نے اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کا یہ اعلان سنا جس میں فرشتوں کی یہی تعداد بتائی ہے تو انہیں یقین آجائے گا کہ واقعی قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اور اس طرح سے ایمان قبول کرنے کی رغبت ہوگی ﴿ وَ يَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِيْمَانًا﴾ (اور ان میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کا ایمان اور بڑھ جائے گا) ۔ ﴿ وَّ لَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ١ۙ ﴾ (اور اہل کتاب اور مومنین شک نہ کریں) کہ کارکنان دوزخ کی تعداد انیس ہے۔ ﴿ وَ لِيَقُوْلَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْكٰفِرُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَاد اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ١ؕ﴾ (اور تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور کافر لوگ یوں کہیں کہ اللہ نے اس عجیب مضمون سے کیا ارادہ کیا ہے) جن کے دلوں میں ایمان ہوتا ہے وہ اعتراض نہیں کرتے اللہ اور اس کے رسول کی جو بات سنتے ہیں فوراً مان لیتے ہیں۔ ﴿كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ ١ؕ﴾ (اللہ اسی طرح گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہے) اللہ تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ﴿ وَ مَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ١ؕ﴾ (اور آپ کے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے) ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ مشرکین کی اس بات کا جواب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار بس انیس ہی افراد ہیں، ارشاد فرمایا کہ آپ کے رب کے لشکر تو بہت زیادہ ہیں جنہیں صرف وہی جانتا ہے۔ (یہ انیس عدد تو اصل ذمہ دار ہیں اس کے خازن ہیں یعنی بڑے ذمہ دار ہیں اور ان کے اعوان و انصار بہت زیادہ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس وقت اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی، ہر باگ کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔ ﴿وَ مَا هِيَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْبَشَرِ (رح) ٠٠٣١﴾ (یعنی دوزخ کا ذکر اور اس کے احوال کا بیان صرف اس لیے ہے کہ انسان نصیحت حاصل کریں اور وہاں کے عذاب سے ڈر کر ایمان لائیں) ۔ لوگ ایمان تو لاتے نہیں انکار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مزید کفر میں اضافہ کردیتے ہیں۔ یہ منکرین کی بدبختی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وجعلنا “ فتنۃ، آزمائش یا گمراہی کا سبب۔ لیستیقن میں لام عاقبت کا ہے۔ اتنی کثیر تعداد میں دوزخیوں پر قابو پانے کے لیے فرشتوں کی تھوڑی سی جماعت کا مقرر کرنا اور پھر اس تعداد کا اظہار کفار و مشرکین کی آزمائش کے لیے ہے کہ وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں یا اس کا انکار کرتے ہیں اس کا مذاق اڑاتے ہیں چناچہ یہ آیت سن کر ابو جہل نے قریش سے کہا : قریش کے بہادر اور سخت گیر پہلوانو ! کیا تم میں سے دس دس جوان بھی ایک ایک پر قابو نہیں پا سکو گے ؟ اس پر ابولاشد بن اسید جمحی بولا : فکر کی کوئی بات نہیں سترہ کو تو میں اکیلا ہی سنبھال لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا، چونکہ کتب سابقہ میں بھی خزان جہنم کی یہی تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس لیے جب اہل کتاب اس آیت کو سنیں گے تو اس سے ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن کی سچائی کا یقین آجائیگا کیونکہ خبر ان کی مسلمہ کتابوں، تورات اور انجیل کے موافق ہے۔ ” ویزداد الذین امنوا “ اور اس سے مومنوں کو مزید اطمینان ہوجائے گا اور ان کے ایمان کو اور تقویت ملے گی۔ کیونکہ اہل کتاب نے بھی اسے مان لیا ہے۔ نیز وہ یہ آیت سن کر فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس لیے سچی ہے، ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ” ولا یرتاب الذین اوتوا الکتب والمومنون “ یہ مضمون سابق کی تاکید ہے یعنی اہل کتاب اور مؤمنین کو اس خبر کی سچائی میں شک باقی نہ رہے۔ 11:۔ ” ولیقول “ لیکن منافقین اور کفار ازراہ استہزاء و تمسخر کہیں گے کہ اس قلیل تعداد کے بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے ؟ کیا اتنے تھوڑے سے فرشتے ان بےحد و حساب دوزخیوں پر قابو پالیں گے ان فرشتوں کی تعداد تو کروڑوں سے بھی زیادہ ہونی چاہئے۔ یہ سورت مکیہ ہے اور مکہ میں کوئی منافق نہیں تھا اس لیے مطلب یہ ہے کہ بعد میں جب مدینہ کے منافق سنیں گے تو وہ اسی قسم کی باتیں کریں گے (قرطبی، روح) ۔ ” کذلک یضل اللہ “ اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے جیسا کہ ابو جہل اور دیگر مشرکین کو کیا اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے جیسا کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھائی۔ ایک ہی چیز بعض لوگوں کی گمراہی کا سبب ہوئی اور بعض لوگوں کے ایمان ویقین میں اضافہ اور قوت کا باعث بنی۔ جو شخص اپنے اختیار سے گمراہی پر رہنا چاہے اسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اور جو اپنے اختیار سے راہ ہدایت کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سیدھی راہ دکھتا ہے کسی پر جبر واکراہ نہیں یضل اللہ تعالیٰ من یشاء اضلالہ لصرف اختیارہ حسب استعدادہ السیئ الی جانب الضلال ویھدی من یشاء ھدایتہ لصرف اختیارہ حسب استعدادہ الحسن الی جانب الہدایتہ (روح ج 29 ص 128 محصلہ) ۔ 12:۔ ” وما یعلم “ اللہ تعالیٰ کے لشکروں کی تعداد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ انیس تو صرف دوزخ کے نگران اعلی ہیں ان کے ماتحت اور ان کے علاوہ زمین و آسمان میں جو فرشتوں کے لشکروں کے لشکر موجود ہیں وہ حد و حساب سے باہر ہیں، صحیح گنتی اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ ” وماھی الا ذکری للبشر “ یہ دوخ تو خلق خدا کے لیے عبرت اور نصیحت کا باعث ہے اس سے انہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا اندازہ لگانا چاہیے اس کے عذاب سے ڈرنا چاہیے اور انہیں سیدھی راہ، دین اسلام پر چلان چاہیے تاکہ اس کے دردناک عذاب سے بچ جائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور ہم نے دوزخ کے نگہبان اور کارکن سوائے فرشتوں کے اور کسی کو نہیں بنایا یعنی فرشتے بنائے ہیں اور ہم نے جو ان فرشتوں کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کی غرض سے رکھی ہے تو اس لئے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور اہل ایمان اپنے ایمان کے اعتبار سے اور زیادہ قوی ہوجائیں اور اہل کتاب اور مسلمان اس تعداد میں شک نہ کریں اور تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری اور وگ ہے وہ اور دین کے منکر یعنی منافق اور کافر یوں کہیں کہ آخر اس قسم کا عجیب مضمون اور اس قسم کی کہاوت بیان کرنے سے اللہ کا مقصد کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مثل سے کیا ارادہ کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےراہ کردیتا ہے اور گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے صحیح راہ دکھاتا ہے اور اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور آپ کے پروردگار کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا اور یہ دوزخ کا مضمون اور دوزخ کا حال بیان کرنا صرف بنی نوح انسان کے لئے ایک نصیحت ہے فرشتوں کی تعداد انیس بتائی یہ موکلان عذاب ہیں۔ بعض علماء نے اس تعداد کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ عقائد قطعیہ اور مامورات ومنہیات جن کو رفوع ایمان کہتے ہیں ان کی تعداد انیس ہے اس لئے ان کے منکروں پر انیس فرشتے مقرر کئے گئے ہیں بعض نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فرشتے مختلف کاموں پر مقرر ہیں۔ اور جو فرشتہ جس کام پر مقرر ہے وہ وہی کام کرتا ہے دوسرا نہیں کرسکتا۔ جیسے انسان کے اعضاء آنکھ دیکھنے کا کام کرتی ہیں وہ سننے کا کام نہیں کرسکتی ، کان سننے کا کام کرسکتا ہے وہ دیکھنے اور چکھنے کا کام نہیں کرسکتا، زبان چکھنے کا کام کرسکتی ہے تو وہ دیکھنے اور سننے کا کام نہیں کرسکتی۔ اسی طرح عذاب کی انواع واقسا م بھی انیس ہیں اور ہر فرشتہ ایک خاص قسم کے عذاب پر موکل ہے اور وہو وہی عذاب کرسکتا ہے جس طرح جبرئیل (علیہ السلام) بارش کا انتظام نہیں کرسکتے اسی طرح حضرت میکائیل (علیہ السلام) لوگوں کی جان قبض نہیں کرسکتے، اگرچہ ہر فرشتہ کتنی ہی طاقت کیوں نہ رکھتا ہو مگر وہ اپنے مفروضہ کام کے علاوہ دوسرا کام نہیں کرسکتا۔ پس اگر ایک ہی قسم کا عذاب مقصود ہوتا تو ایک ہی فرشتہ مقرر کیا جاتا لیکن چونکہ طرح طرح کا عذاب دینا مقصود ہے اس لئے انیس فرشتے مقرر کئے گئے۔ تسعنا عشر کے عدد سے شاید منکروں کو یہ خیال ہوا ہو کہ یہ انسان ہوں گے اس کا جواب دیا گیا کہ ہم نے جہنم کے کارکنان صرف فرشتے مقرر کئے ہیں آدمی نہیں مقرر کئے آگے اس تعداد پر اور چند غایات مرتب فرمائیں۔ کفار کے لئے موجب فتنہ ہو، چناچہ اس تعداد پر ان کا الجھنا اور ان کا گمراہ ہونا ظاہر ہے جیسا کہ آگے آئے گا اہل کتاب کا سنتے ہی یقین کرلینا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی پیغمبر برحق ہیں کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی تعداد فرشتوں کی انیس ہے یا یہ کہ وہ فرشتوں کی بےپناہ طاقت کے قائل تھے اب اگر ان کتابوں میں موجود نہ ہو تو شاید اور باتوں کی طرح یہ بھی ضائع ہوگیا ہوگا۔ بہرحال اس عدد پر اہل کتاب یقین کریں اور مسلمانوں کے ایمان کا کمال بڑھے اور کیفیت ایمان اور قوت ہو، نیز جب ایک چیز کا اور علم ہوا تو اس پر ایمان لانے سے اور افراد ایمان میں اضافہ ہو اس لئے یہاں ایمان کی زیادتی کیفا اور کما دونوں طرح ہوسکتی ہے ولا یرتاب تاکید کے طور پر فرمایا کہ نہ اہل کتاب کو کوئی انکار اور استہزا کا موقعہ ہو کیونکہ بات ایسی ہے جس کو وہ جانتے ہیں اور نہ مسلمانوں کو شک کی گنجائش ہو۔ بہرحال یہ تین باتیں ہوئیں اہل کتاب کا استیقان اہل ایمان کا ازدیادایمان اور اپنی حیثیت کے موافق دونوں کا عدم ارتیاب ۔ اہل کتاب کا اس بنا پر سنی ہوئی اور پڑھی ہوئی بات اس پیغمبر پر نازل ہوئی اور اہل ایمان ک و اس بنا پر کہ بدن تعلیم کے وہ بات فرمائی جو سابقہ انبیاء کہتے تھے۔ چوتھی بات اور چوتھی غایت کفار کی گمراہی کی تعداد کے تقرر کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ منافق اور کافر اس پر معترض ہوں گے اور کہیں گے کہ آخر اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصد کیا ہے یہ تعداد فرشتوں کی کیوں بیان کی گئی ہے تمام مخلوق کے سامنے یہ فرشتے کیا حقیقت رکھتے ہیں اور اگر یہ ایندھن جمع کرنے کے لئے ہیں تو بھی ناکافی ہوں گے اسی کو فرمایا کذلک یضل اللہ من یشآء ویھدی من یشآء کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست دیکھا کر اس کی رہنمائی فرماتا ہے یعنی ایک سیدھی سادھی بات پر الجھنا اور ہر حکم خداوندی کی مصلحت کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا اور اس پر ضد کرنا اور اس کا انکار کرنا یہی گمراہی کی علامتیں ہیں اور یہی وہ امور ہیں جن کیوجہ سے توفیق الٰہی اپنا دامن کھینچ لیتی ہے۔ آگے تتمہ ہے کہ انیس کی تعداد اور مصلحت کے درپے ہوکر الجھنا گمراہی ہے یہ تعداد کسی حکمت اور مصلحت سے ہے ورنہ آپ کے پروردگار کے لشکر یعنی فرشتوں کی تعداد کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اس قدر بیشمار فرشتوں کی موجودگی میں پھر خزنہ جہنم انیس کو مقرر کرنا ان کی غایت مصلحت ہے اور خدا جانے ان انیس کے اعوان و انصار کس قدر ہوں گے۔ مختلف روایات میں صرف جہنم کی باگیں تھامنے اور پکڑنے والوں کی تعداد ستر ہزار ہے کیا خوب فرمایا وما یعلم جنود ربک الا ھو، دوزخ کا مضمون بیان کرنے سے مقصد کیا تھا اور یہ بدنصیب گمراہ الجھ کر کس میں رہ گئے حالانکہ دوزخ کا حال بیان کرنا اور دوزخ کے مضمون کا بیان کرنا صرف انسانوں کی نصیحت کے لئے ہے دوزخ اور اس کے مقصد کا اظہار صرف لوگوں کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی کے لئے آگے پھر اس کی تفصیل مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ جو فرمایا کہ دوزخ پر مقرر ہیں انیس شخص کافر ٹھٹھا کرنے لگے کہ ہم ہزاروں ہیں انیس ہمارا کیا کریں گے ، تب یہ فرمایا کہ وہ آدمی نہیں فرشتے ہیں تم سب کے واسطے ایک ہی کفایت ہے مگر یہ گنتی بتائی ہے موافق اگلی کتابوں کے کہ اس کے سچ کی دلیل ہو۔