Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 4
سورة المدثر
وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾
And your clothing purify
اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر ۔
وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾
And your clothing purify
اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر ۔
And purify your garments! "This means, do not let your garments that you wear be from earnings that are unlawful." It has also been said, "Do not wear your clothes in disobedience." Muhammad bin Sirin said, وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (And purify your garments!) "This means clean them with water." Ibn Zayd said, "The idolators would not clean themselves, so Allah commanded him to clean himself and his garments." This view was preferred by Ibn Jarir. Sa`id bin Jubayr said, وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (And purify your garments!) "This means purify your heart and your intentions." Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi and Al-Hasan Al-Basri both said, "And beautify your character." Concerning Allah's statement, وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
4۔ 1 یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
[٤] دوسرا سبق : جسم اور لباس کی صفائی اور راہبانہ تصور :۔ یعنی اپنے کپڑے میل کچیل سے بھی اور نجاست سے بھی پاک صاف رکھیے۔ اور صاف ستھرا لباس استعمال کیا کیجئے اور جسم کو پاک صاف رکھیے۔ کیونکہ روح کی پاکیزگی کے لیے جسم اور لباس کی صفائی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس آیت میں ان راہبانہ تصورات کا پورا رد موجود ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جتنا گندہ اور میلا کچیلا رہے اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں محبوب اور مقدس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں جسم اور لباس کی صفائی کی جو اہمیت ہے اس ابتدائی حکم سے اس پر پوری روشنی پڑتی ہے۔
(١) وثیابک فطھر : کافر لوگ کتنے بھی صاف ستھرے ہوں اپنے کپڑے پاک نہیں رکھتے، نہ انہیں پیشاب سے پرہیز ہوتا ہے نہ استنجا کی فکر اور نہ غسل جنابت کا خیال۔ حکم ہوا کہ آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں۔ جب کپڑے پاک رکھنا ضروری ہے تو جسم پاک رکھنا تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہوا۔ آیت کے ظاہری الفاظ کا تقاضا یہی ہے اور سب سے پہلے مراد بھی یہی ہے۔ ہاں ، محاورہ میں پاک دامنی سے مراد گناہوں کی آلودگی سے پاک ہونا بھی ہوتا ہے، اسلئے یہ معنی بھی ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھو۔ طبری نے پہلا معنی زیادہ ظاہر قرار دیا ہے۔ (٢) ” وثیابک فطھر “ (اپنے کپڑے پاک رکھو) میں ٹخنے سے اوپر کپڑا اٹھا کر رکھنے کا حکم بھی داخل ہے، کیونکہ لٹکانے کی صورت میں اس کے پلید ہونے کا خطرہ بالکل ظاہر ہے۔
Injunction [ 3] وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (and purify your clothes... 74:4) The word thiyab is the plural of thaub. In its primary sense, it refers to &clothes or garment&. Metaphorically, the words thaub and libas at times refer to &action, heart, soul, moral character and religion.& Man&s body may also be referred to as libas&. The Holy Qur&an and Arabic idioms bear ample testimony to this. Scholars of tafsir have taken all these senses into account when interpreting this verse. The variant interpretations may not be suspected of contradiction or conflict. The different interpretations attached to the verse enrich its significance. Thus the verse would signify that the body and clothes must be kept clean from all kinds of physical impurity. The heart and soul must be kept clean from false beliefs and adulterating thoughts, and free from base morals or from moral decadence. From this it is deducible that it is forbidden to trail the pants or loin-cloth below the ankle, because this is likely to pollute the garment. The injunction of cleansing the garment may signify that the garment must not be made or bought of unlawful money. It must not be made in such a way as the sacred law does not permit. Apparently, the injunction of cleansing the clothes is not specific to prayers. The injunction applies under all conditions. Thus the jurists have ruled that it is not permitted to keep the body and clothes unclean, without necessity, even outside prayers. Likewise, it is not permitted to sit in an unclean place. In times of necessity, it would be an exception. [ Mazharil. The Holy Qur&an says: اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ &...Surely Allah loves those who are most repenting, and loves those who keep themselves pure.[ 2:222] & And according to a hadith narrative &Cleanliness is half the faith&. Therefore, a Muslim, under all conditions and circumstances, needs to keep his body, clothes and house clean and pure and also maintain his inner cleanliness of the heart. And Allah knows best!
تیسرا حکم یہ دیا گیا وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ، ثیاب ثوب کی جمع ہے اس کے اصلی اور حقیقی معنے کپڑے کے ہیں اور مجازی طور پر عمل کو بھی ثواب اور لباس کہا جاتا ہے، قلب اور نفس کو بھی اور خلق اور دین کو بھی، انسان کے جسم کو بھی لباس سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے شواہد قرآن اور محاورات عرب میں بکثرت ہیں۔ اس آیت میں حضرات مفسرین سے سبھی معافی منقول ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کوئی تضاد اور اختلاف نہیں۔ بطور عموم مجاز کے اگر ان الفاظ سے سبھی معنی مراد لئے جاویں تو کوئی بعد نہیں، اور معنے اس حکم کے یہ ہوں گے کہ اپنے کپڑوں اور جسم کو ظاہری ناپاکیوں سے پاک رکھئے قلب اور نفس کو باطل عقائد و خیالات سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک رکھیئے۔ پائجامہ یا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت بھی اس سے مستفاد ہوتی ہے کیونکہ نیچے لٹکے ہوئے کپڑوں کا آلودہ ہوجانا بعید نہیں تو تطہیر ثوب کے حکم میں یہ بھی آگیا کہ کپڑوں کا استعمال اس طرح کرو کہ نجات سے دور رہیں۔ اور کپڑوں کے پاک رکھنے میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ماحل حرام سے نہ بنائے جائیں کسی ایسی وضع وہیت کے نہ بنائے جائیں جو شرعاً ممنوع ہیں اور ظاہر آیت سے یہ ہے کہ یہ تطہیر ثوب کا حکم نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام حالات میں عام ہے اسی لئے فقہاء نے فرمایا ہے کہ غیر حالت نماز میں بھی بغیر کسی ضرورت کے جسم کو ناپاک رکھنا یا ناپاک کپڑے پہنے رکھنا یا ناپاک جگہ میں بیٹھے رہنا جائز نہیں، ضرورت کے اوقات مستثنیٰ ہیں (ازمظہری) اللہ تعالیٰ طہارت کو پسند فرماتے ہیں (آیت) ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین اور حدیث میں طہارت کو نصب ایمان قرار دیا ہے اس لئے مسلمان کو ہر حال میں اپنے جسم اور مکان اور لباس کو ظاہری طہارت کا بھی اہتمام رکھنا ضروری ہے اور قلب کی باطنی طہارت کا بھی۔ واللہ اعلم
وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ ٤ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔
کپڑوں کی طہارت قول باری ہے (وثیابک فطھر۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو) نماز کے لئے کپڑوں کو تمام نجاستوں سے پاک کرنے کے وجوب پر آیت دلالت کررہی ہے نیز یہ کہ ناپاک کپڑوں میں نماز جائز نہیں ہے کیونکہ کپڑوں کی تطہیر صرف نماز کے لئے ضروری ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار (رض) کو اپنے کپڑے دھوتے ہوئے دیکھا، پوچھا کہ کپڑے کیوں دھو رہے ہو ؟ حضرت عمار (رض) نے عرض کیا کہ اس میں نخامہ (ناک سے نکلنے والا بلغم) لگ گیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کپڑا صرف خون، پیشاب یا منی وغیرہ لگ جانے سے دھویا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کپڑے میں لگے ہوئے منی کو دھو دینے کا حکم دیا تھا جب کہ وہ ابھی گیلا ہو۔ بعض کا خیال ہے کہ آیت سے مراد وہ مفہوم ہے جس کی ابور زین نے روایت کی ہے کہ ” اپنے عمل کو درست کرو۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ” اپنے کپڑوں کو گناہوں سے پاک رکھو۔ “ عکرمہ کا قول ہے کہ آپ کو جسم سے پاخانہ وغیرہ لگے ہونے کی صورت میں کپڑے نہ پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ سب مجازی معنی ہیں۔ دلالت کے بغیر کلام کو ان معانی کی طرف موڑنا جائز نہیں ہے۔ مذکورہ بالا شخص نے اس سے یہ استدلال کیا ہے یہ گمان کرنا درست نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ آپ کو پیشاب وغیرہ سے اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دیا جائے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول میں شدید اختلال اور تناقض ہے نیز یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں سے کنارہ کش رہنے کا حکم دیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے (والرجزفا ھجر اور گندگی سے دور رہو) جب کہ یہ بات سب کہ معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے قبل اور نبوت کے بعد بتوں سے کنارہ کش رہے تھے ۔ اسی طرح آپ دونوں حالتوں کے اندر گناہوں اور گندگیوں سے مجتنب رہے تھے۔ جب ان چیزوں سے کنارہ کش رہنے کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرنا درست ہے جبکہ آپ پہلے ہی سے ان چیزوں سے کنارہ کش تھے تو پھر نماز کے لئے کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم بھی درج بالا امور کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (ولا تدع مع اللہ الھا اخر اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو) حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارا۔ یہ چیز مذکورہ بالا شخص کے قول کے تناقض اور اس کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔ ان صاحب کا یہ خیال ہے کہ زیر بحث آیت نماز یا وضو وغیرہ کے احکام کے نزول سے پہلے قرآن کی نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت ہے اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں زمانہ جاہلیت کے بتوں، شرک پرستی اور برے اعمال سے پاک رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس شخص نے اپنے اس قول کا خود شروع میں یہ کہہ کر نقض کردیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نجاست سے اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب آپ ہی خود سوچے کہ اس شخص کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں سے کنارہ کش رہنے کا حکم دینے کی ضرورت تھی ؟ اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ آپ پہلے بتوں سے مجتنب تھے لیکن اس کے باوجود اس شخص کے نزدیک آپ کو ترک اوثان کا خطاب جائز تھا تو پھر کپڑوں کو پاک رکھنے کا مسئلہ بھی اسی طرح ہونا ضروری ہے۔ اس شخص کا یہ کہنا کہ زیر بحث آیت کا نزول سب سے پہلے ہوا تھا لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے لئے کپڑوں کی تطہیر کا حکم فرض کے طور پر نہ دیا جائے۔ دوسری طرف حضرت عائشہ (رض) ، مجاہد اور عطاء سے مروی ہے کہ قرآن کی نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت (اقراباسم ربک الذی خلق۔ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا) ہے۔
اور اپنے دل کو خیانت سے پاک صاف رکھیے یا یہ کہ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔
آیت ٤{ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ۔ } ” اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ “ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا مقصد پاکیزہ ہے اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لباس بھی پاک اور صاف ہوناچاہیے۔ اس آیت کی صوفیانہ انداز میں ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” ثیاب “ سے صرف کپڑے ہی نہیں بلکہ اخلاق و کردار بھی مراد ہے۔ گویا اس حکم میں ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی شامل ہے۔
4 These are very comprehensive words, which are full of meaning. They mean this: "Keep your garments free from every filth and impurity, for the purity of the body and garments and the purity of the spirit are inter-linked and inter-dependent. " A pure spirit and an impure body with impure garments cannot live together. The society in which the Holy Prophet (upon whom be peace) had arisen with the invitation to Islam, was not only steeped in the evils of unbelief and immorality, but was also devoid of even the most elementary concepts of purity and cleanliness, and the Holy Prophet's task was to teach its members cleanliness in every way of life. Therefore he was instructed to establish and present a high standard of purity in his external life as well. Thus, it is the result of the same instruction that the Holy Prophet (upon whom be peace) gave mankind such detailed teaching about the cleanliness of the body and garments as is not possessed even by the most civilized nations of today, not to speak of the Arabs of the pre-Islamic days of ignorance. So much so that in most of the languages of the world there is no word synonymous with "taharat" ". On the contrary, in Islam every book of the Hadith and Fiqh begins with injunctions and instructions on taharat (purity) , which distinguishes between purity and impurity and gives minute details about the methods and means of obtaining purity. The second meaning of these words is: "Keep your garments neat and clean." The criterion of religiosity given to the world by the monastic concepts was that a man was holy to the extent he was unclean. If a person happened to put on neat clothes, he was looked upon as a worldly man, whereas the fact is that human nature abhors filth and uncleanness and even a person of ordinary fine taste loves to be associated only with a neat and clean person. On this very basis, for the one calling the people to Allah it was made imperative that externally also he should look so neat and clean that the people should regard him with esteem and his personality should not be stained in any way so as to repel others. The third meaning of this Divine Command is: "Keep your garments free from moral evils: your dress should be neat and clean but it should bear no tinge of vanity and pride, display and exhibition, pomp and show. " The dress is the first thing that introduces the personality of a person to others. The kind of dress a person wears makes the people judge at first sight what kind of a man he is. The dresses of the rulers and princes, the dresses of the religious functionaries, the dresses of the vain and conceited people, the dresses of the mean and shallow people, the dresses of the evil-natured and characterless people, all represent the tastes and tempers of those who wear them. The temper of the one calling to Allah is naturally different from all such people. Therefore, his dress also should necessarily be different from all of them. He should wear such a dress as .should make everyone else feel that he is a noble and refined person, who is not involved in any evil of the self. Its fourth meaning is: Keep away from moral evils. Ibn `Abbas, Ibrahim Nakha`i, Sha`bi, `Ata', Mujahid. Qatadah, Sa`id bin Jubair, Hasan Basri and other major commentators have given this very meaning to this verse: keep yourself morally pure and avoid all that is blameworthy. In Arabic usage also when it is said: "So and so is clean in his garments", it implies that he is morally good and pure; on the contrary, when it is said: "He is filthy in his garments", it means that he is dishonest and fraudulent in his dealings: he is unreliable.
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :4 یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو ، کیونکہ جسم و لباس کی پاگیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا ۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں طہارت کا ایک اعلی معیار قائم فرمائیں ۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کو طہارت جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار ، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے ، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو طہارت کا ہم معنی ہو ۔ بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو ۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیاہ میلا کچیلا ہو اتنا ہی زیادہ مقدس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیادار انسان ہے ۔ حالانکہ انسانی فطرت میل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو ۔ تیسرا مفہوم اس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس ستھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو ، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش ، ٹھاٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے ۔ لباس وہ اولین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے ۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ ریئسوں اور نوابوں کے لباس ، بد قوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس ، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے ، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے ۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو ۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، عطاء مجاہد ، قتادہ سعید بن جبیر ، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو ۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاہر الثیاب و فلان طاہر الذیل ، فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے ۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے برعکس کہتے ہیں فلان دنس الثیاب ، اس شخص کے کپڑے گندے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے ، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں ۔
(74:4) وثیابک فطھر۔ واؤ عاطفہ ثیابک مضاف مضاف الیہ۔ تیرے کپڑے ثیاب ثوب کی جمع ہے ثوب کے معنی کپڑے کے ہیں۔ یہ آیت جو امع الکلم میں سے ہے۔ (1) ثیاب سے مراد ظاہری کپڑے کے ہیں۔ اور اس سے مراد نفس بھی ہے۔ (راغب) (2) اس سے مراد دل بھی ہے۔ جو روح کا قالب ہے ۔ (روح البیان) (3) اس سے مراد اخلاق بھی ہیں جن کا تعلق مخلوق سے ہے اور اس سے مراد اعمال بھی ہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے یحشر المرء فی ثوبہ الذین مات فیہما ای عملہ الخبیث والطیب (روح البیان) انسان قیامت کے دن انہی کپڑوں میں اٹھے گا جن میں کہ وہ فوت ہوا۔ یعنی اپنے نیک و بد اعمال کے ساتھ۔ (4) اور اس سے مراد اہل و عیال بھی ہیں۔ والعرب تسمی الاہل ثوبا ولباسا اور اہل عرب اپنے اہل و عیال کو ثوب اور لباس کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ ھن لباس لکم وانتم لباس تھن (2:187) عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اور ابن سیرین اور ابن زید نے کہا ہے کہ اس آیت میں کپڑوں کو ہی پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فطھر میں ف جزائیہ ہے۔ ملاحظہ ہو 74:3 متذکرہ بالا۔ طھر امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے تطھیر (تفعیل) مصدر سے۔ بمعنی پاک کرو۔
ف 7 مراد حسی اور اخلاقی یا ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لئے کپڑوں کا پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث میں ہے الطھارۃ شطر الایمان کہ طہارت آدھا ایمان ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : نبوت کے آغاز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید ہدایات۔ دعوت دینے والے کی دعوت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا تو لوگ اس کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے دور بھاگ جائیں گے اس لیے نبوت کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درج ذیل ہدایات دی گئیں۔ 1 ۔ اپنے لباس کو صاف اور اجلا رکھیں، یاد رہے کہ اس زمانے میں لوگ اس شخص کو پارسا سمجھتے تھے جو دنیا کے امور سے الگ تھلگ رہتا اور صاف ستھرا لباس پہننے سے پرہیز کرتا تھا۔ اسلام ترک دنیا اور گندہ رہنے کو انتہائی ناپسند سمجھتا ہے، بیشک دین میں سادگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن انسان کا پاک اور صاف ستھرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ پاک صاف رہنے سے آدمی نا صرف دیکھنے میں معزز اور شائستہ نظر آتا ہے بلکہ اس کی طبیعت میں بھی خوشی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ 2 ۔ جس طرح لباس پاک صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح حکم ہے کہ انسان کو ہر قسم کی جسمانی اور اخلاقی غلاظت سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ ایک آدمی لباس کے اعتبار سے کتنا ہی صاف ستھرا رہتاہو اگر وہ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے گندہ ہے تو وہ کسی اچھے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، سب سے بڑی گندگی اخلاق اور اعتقاد کی گندگی شرک ہے۔ اس لیے کچھ اہل علم نے ” اَلرُّجْزَ “ سے مراد شرک لیا ہے کیونکہ قرآن مجید نے ایک مقام پر مشرک کو کھلے لفظوں میں گندہ قرار دیا ہے۔ (الحج : ٣٠) 3 ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس معاشرے اور قوم میں مبعوث کیا گیا وہ معاشرہ اور قوم ہر اعتبار سے گمراہی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ لوگ شرک کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ سمجھتے اور گمراہی کو دین ابراہیم کا نام دیتے تھے۔ اس معاشرے میں توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کو گمراہی سے نکالنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خود مشکلات کو دعوت دے رہا ہو اس لیے آپ کو صبر کی تلقین کی گئی۔ 4 ۔ ایک مسلمان کی دوسرے کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی توحید سمجھائے اور صراط مستقیم کی دعوت دے۔ صراط مستقیم کی طرف لانے والا شخص حقیقت میں دوسرے کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم اور خاتم المرسلین بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے مکہ والوں کی اصلاح کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانیت کے عظیم محسن تھے مگر مکہ والوں نے آپ کے احسان کا برا بدلا دیا جس پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا اور آپ کے دل میں اس سوچ کا آنا فطری بات تھی کہ میں ان کی خیرخواہی کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ اس سوچ سے بچنے کے لیے ابتدا میں ہی آپ کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ آپ نے تبلیغ یا کسی کے ساتھ نیکی اس لیے نہیں کرنی کہ وہ آپ کو اس کے بدلے میں کچھ دے اور نہ ہی اپنے کام کا کسی کو احسان جتلانا ہے بلکہ آپ کو کھلے الفاظ میں یہ کہنا ہے۔ (قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ ) (ص : ٨٦) ” میں اپنے کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ “ 5 ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جس راستے پر آپ کو گامزن کیا گیا ہے یہ مصائب کا راستہ ہے آپ کو مصائب برداشت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ ” پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور لوگوں کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے، انہیں یوں معلوم ہوگا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ “ (الاحقاف : ٣٥) مسائل ١۔ ہر آدمی بالخصوص ایک مبلّغ کو لباس پاک صاف رکھنے کے ساتھ ہر قسم کی ناپاکی سے بچے رہنا چاہیے۔ ٢۔ زیادہ طلب کرنے کے لیے کسی پر احسان نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اپنے رب کے لیے ہر حال میں صبر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی اہمیت اور اس کے فوائد : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٨۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠)
(2) دوسری ہدایت یہ دی جاتی ہے : وثیابک فطھر (74:4) ” اور اپنے کپڑے پاک رکھو “۔ یہ کنایہ ہے ، قلبی ، اخلاقی اور عملی پاکیزگی سے۔ شخصیت کی پاکیزگی ، جس میں ظاہری طہارت بھی شامل ہے اور وہ تمام معاملات بھی شامل ہیں جن کا کسی نہ کسی طریقے سے ذات نبی سے تعلق ہے اور روحانی اور اخلاقی پاکیزگی ہی میں انسان عالم بالا سے اشارات اخذ کرسکتا ہے۔ اور رسالت کے مزاج ہی میں پاکیزگی ہوتی ہے ، اس لئے یہاں پاکیزگی کا حکم دیا گیا۔ پھر فریضہ رسالت اور لوگوں تک پیغام پہنچانے اور ان کو ڈرانے اور مختلف قسم کے لوگوں ، مختلف قسم کی خواہشات اور مختلف قسم کے نشیب و فراز میں دعوت اسلامی کے کام کے لئے یہ ضروری تھا کہ آپ کا دامن ہر داغ اور دھبے سے پاک ہو۔ نیز فریضہ رسالت سپرد ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کے لوگوں میں جانا تھا۔ جن میں گندے لوگ بھی تھے اور غلیظ بھی۔ جو گندگی اور غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور آپ کا حکم یہ تھا کہ ان گندگیوں اور غلاظتوں میں ملوث ہوئے بغیر دعوت اسلامی کا فریضہ آپ نے سر انجام دینا ہے۔ یہ نہایت ہی اہم اور گہرا اشارہ ہے ، ان تمام لوگوں کے لئے جو دعوت اسلامی کا کام لے کر اٹھتے ہیں ، اور جو وارثین انبیاء کے مقام پر ہوتے ہیں اور جنہوں نے ہر قسم کے لوگوں کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔ ہر قسم کے حالات میں کام کرنا ہوتا ہے ، ہر قسم کے معاشروں اور سوسائٹیوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔
﴿ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۪ۙ﴾ (اور اپنے کپڑوں کو پاک کیجیے) اس میں ظاہری الفاظ میں تو کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم ہے لیکن حضرات مفسرین اور علمائے محققین نے اس سے یہ بات بھی مستنبط کی ہے کہ اپنے نفس کو اور قلب کو اخلاق رذیلہ غیر مرضیہ سے صاف اور پاک رکھیے کیونکہ جہاں کپڑوں کو غیر طاہر رکھنے کی اجازت نہ ہوگی وہاں قلب اور نفس کو پاک رکھنا کیونکر ضروری نہ ہوگا۔
3:۔ ” وثیابک فطہر “ اپنے عمل کی اصلاح کر اور اپنے نفس کو اخلاق فاضلہ اور شمائل جمیلہ سے آراستہ کرتا کہ تبلیغ و انذار کے مقصد میں کامیابی کی راہ ہموار ہوجائے۔ انہ امر لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالتخلق بالاخلاق الحسنۃ الموجبۃ لقبول الانذر بعد امرہ علیہ الصلاۃ والسالم بتخصیصہ ربہ عز وجل بالتکبیر الخ (روح ج 29 ص 118) ۔ ” والرجز فاھجر “ رجز سے اوثان اور معبودان باطل مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس، ابن زید، مجاہد اور عکرمہ رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ قال مجاھد وعکرمۃ یعنی الاوثان، دلیلہ قولہ تعالیٰ فاجتنبوا الرجس من الاوثان، وقالہ ابن عباس وابن زید (قرطبی ج 19 ص 65) ۔ یعنی معبودان باطل کی عبادت چھوڑے رہو۔ ” فاھجر “ سے احداث ہجران مراد نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ اب آپ عبادت اوثان چھوڑ دیں کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) تو صغیرہ گناہوں سے بھی معصوم ہوتے ہیں بلکہ مراد ہے دوام ہجران یعنی آپ عبادتِ اوثان کے ترک پر قائم اور ثابت قدم رہیں۔ المراد الدوام والثبات علی ھجر ذلک (روح) ۔ یا بتقدیر مضاف اہل رجر یعنی مشرکین مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے دور ہو۔ تائید : ” ولا تکونن من المشرکین “ (القصص رکوع 9) ۔ حاصل یہ ہے کہ آپ توحید کی دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیں جو آپ کا فریضہ ہے اس میں ذرہ بھر کوتاہی اور نرمی نہ ہونے پائے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔