Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 7

سورة المدثر

وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾

But for your Lord be patient.

اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And be patient for the sake of your Lord! meaning, make your patience with their harms be for the Face of your Lord, the Mighty and Majestic. This was stated by Mujahid. Ibrahim An-Nakha`i said, "Be patient in your giving for the sake of Allah, the Mighty and Majestic." Reminding of the Day of Judgement Concerning Allah's statement, فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ ...    Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولربک فاصبر : یعنی آپ کسی پر جو احسان کریں یا کسی کو جو عطیہ دیں اس کی جزا صرف اپنے رب ہی سے لینے کے لئے صبر کریں۔” ولربک فاصبر “ میں یہ معنی بھی داخل ہے کہ آپ کو حق کا پیغام پہنچانے میں بہت سے مصائب و مشکلات کا سامنا ہوگا، عرب و عجم سے لڑائی درپیش ہوگ ی، آپ ان تمام مصائب پر صبر کریں اور یہ صبر صرف ... اور صرف اپنے رب کو رضای کرنے کے لئے ہو، اس ہمت اور اولوالعزمی کے بغیر دعوت کا کام سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ لقمان نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا :(وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور) (لقمان : ١٨) ” اور نیکی کا حکم کر اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، یقیناً یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Injunction [ 6] وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ( and for the sake of your Lord, observe patience 74:7) The word sabr literally signifies &to restrain oneself. In the Qur&anic context, the word has a very wide scope. It signifies to bind oneself to the laws of Allah, to restrain oneself from things made unlawful by Allah, and to control oneself, as far as possible, from unnecessary bewailing and com... plaining in times of difficulties and hardships. Thus this injunction is rather comprehensive which embraces almost the entire religion. On this occasion, the Holy Prophet is directed to observe patience, particularly because the earlier verses have directed him to invite the people towards the true faith and to avoid the infidelity and shirk. It is obvious that he will be opposed and persecuted by the forces of evil, as the result of his missionary efforts. He should, therefore, be ready to bear all opposition and persecution with patience and fortitude. Having given these few injunctions to the Holy Prophet, the verses further refer to the Hereafter and its horrors. The word naqur means &trumpet& and the verb nuqira means &to blow into the trumpet so that it makes a loud high sound&. After stating that the Day of Doom will be very horrible for all the infidels, a particular arrogant and conceited disbeliever has been described. He was a great mischief-maker and the gravity of his punishment will befit the enormity and gravity of his sins.  Show more

چھٹاحکم وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر، صبر کے لفظی معنی اپنے نفس کو روکنے اور قابو میں رکھنے کے ہیں اسلئے صبر کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر اپنے نفس کو قائم رکھے اور یہ بھی داخل ہے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے نفس کو روکے اور یہ بھی داخل ہے کہ مصائب اور تکلیف میں اپنے ... اختیار کی حد تک جزع فزع اور شکایت سے بچے اسلئے یہ حکم ایک جامع حکم ہے جو تقریباً پورے دین کو شامل ہے اس موقع پر اس حکم کی خصوصیت ممکن ہے اسلئے بھی ہو کہ اوپر کی آیات میں آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ عام خلق خدا تعالیٰ کو دین حق کی طرف دعوت دیں کفر و شرک اور معاصی سے روکیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مخالفت و عداوت اور ایذاء رسانی پر آمادہ ہوجائیں گے اس لئے داعی حق کو صبر وضبط کا خوگر ہونا چاہئے۔ یہ چند احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دینے کے بعد قیامت اور اس کے ہولناک ہونیکا ذکر ہے۔ ناقور کے معنے صور کے ہیں اور نقر سے مراد صور میں پھونک مار کر آواز نکالنے کے ہیں۔ اور روز قیامت کا سبھی کفار کے لئے سخت وشدید ہونا بیان فرمانے کے بعد ایک خاص شریر کافر کے حالات اور اسکے عذاب شدید کا بیان ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۝ ٧ ۭ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ ... يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ۔ } ” اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔ “ یہ اس آیت کا وہ ترجمہ ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن میں قبل ازیں متعدد بار یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ صبر کے ساتھ جب ” ل “ آتا ہے تو اس کے معنی میں انتظار کا مفہوم آجاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ ... وآلہ وسلم) اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجیے اور جو بھی حکم آئے اس پر عمل کیجیے۔ سورت کا پہلا حصہ ان ابتدائی سات آیات پر مشتمل ہے اور اس حصے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب تھا۔ اب اگلی آیت سے اس سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ حصہ تین مختصر آیات پر مشتمل ہے اور ان آیات میں قیامت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 That is, "The task that is being entrusted to you is full of hazards: you will meet with great hardships and difficulties and troubles on this way: even your own people will turn hostile to you and the whole of Arabia will become your enemy. Yet you should endure with patience, for the sake of your Lord, whatever you may have to face in this way, and carry out all your duties firmly and resolute... ly. Fear, greed, friendship, enmity, love, all these will hinder your way, but you should stand your ground firmly and steadfastly." These were the very preliminary instructions which Allah gave His Messenger (upon whom be peace) at the time when He commanded him to arise and start the work of Prophethood. If a person ponders over these brief sentences and their meaning his heart will testify that no better instructions could be given W a Prophet at the commencement of his prophetic mission. In these he was told what he was required to do, what kind of life, morals and dealings he should adopt, and taught with what intention, mentality and mode of thought he should go about his mission and also forewarned what kind of conditions he would meet with in the performance of his mission and how he would have to face and overcome them Today the people who, blinded by their prejudices, say that these words were. God forbid, uttered by the Holy Prophet (upon whom be peace) during epileptic fits, should study these sentences carefully and judge for themselves whether these are the product of any epileptic fits, or the instructions of a God, which He gave to His Servant while appointing him to the mission of Apostleship.  Show more

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :7 یعنی یہ کام جو تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے ، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے ۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا ۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی ۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا ۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے اپنے رب ... کی خاطر اس پر صبر کرنا اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا ۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف طمع ، لالچ ، دوستی ، دشمنی ، محبت ہر چیز تمہارے راستے میں حائل ہو گی ۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا ۔ یہ تھیں وہ اولین ہدایات جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اس وقت دی تھیں جب اس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں ۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں ۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے ، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہیں ، اور یہ تعلیم بھی دی دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت ، کس ذہنیت اور کس طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبردار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آنا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہو گا ۔ آج جو لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ کہتے کہ معاذ اللہ صرع کے دوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر ان فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صرع کے کسی دورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اِسلام کی تبلیغ کا حکم ہوا تو اس بات کا پورا اندیشہ تھا کہ کافر لوگ آپ کو ستائیں گے۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ فی الحال مسلح جدوجہد نہیں کرنی ہے، صبر سے کام لینا ہے، اور ان کی زیادتیوں کی اصل سزا اُنہیں اس وقت ملے گی جب قیامت کے لئے صور پھونکا جائے گا جس کا ذِکر اگلی ا... ٓیت میں آرہا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:7) ولربک فاصبر : اصل کلام تھا واصبر لربک فاصبر حکم صبر کی تکرار تائید کے لئے ہے یا اقسام صبر کے گوناگوں ہونے کے زیر اثر۔ علماء کے اس بارے میں اقوال ہیں :۔ (1) اللہ کی خوشنودی اور ثواب کی طلب میں اس کی طاعت۔ حکم۔ ممانعت اور مصائب پر صبر کرو۔ (2) تم کو جو دکھ دیا جائے اس پر صبر کرو۔ (مجاہد) (3) ... تم پر عرب و عجم کے مقابلہ کا جو بار عظیم پڑا ہے اس بار کو اٹھانے میں صبر کرو۔ (4) قضاء خداوندی پر اللہ کے لئے صابر رہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(5) آخر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ جو بھی پیش آئے ، آپ صبر کریں۔ ولربک فاصبر (74:7) ” اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو “۔ قرآن کریم میں دعوت اسلامی کے سلسلے میں اللہ بار بار صبر کی تلقین فرماتا ہے ، اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دعوت اسلامی کی راہ میں صبر ہی اصل سازو ساما... ن ہے۔ یہ ایک چومجھی لڑائی ہوتی ہے ، ایک طرف خوداپنی خواہشات اور میلانات کے خلاف جنگ کرنا ہوتی ہے ، دوسری جانب دعوت اسلامی کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنا ہوتی ہے۔ یہ دشمن شیطانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور مفادات و خواہشات کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ پھر طویل جدوجہد اور قلت وسائل اور اجر سب کا سب اخروی ہوتا ہے۔ اس دنیا کا کوئی مفاد اس جہد سے وابستہ نہیں ہوتا۔ ان حالات کے ساتھ بھی لڑنا پڑتا ہے۔ خالص رضائے الٰہی کے لئے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ اہم ہدایات دے دی گئیں تو اب بتایا جاتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس سے آپ نے لوگوں کو ڈرانا ہے۔ ایک چٹکی میں اس بات کو سامنے لایا جاتا ہے۔ وہ خوفناک دن ان کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے جس سے آپ نے لوگوں کو ڈرانا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْؕ٠٠٧﴾ (اور اپنے رب کے لیے صبر کیے رہو) چونکہ آپ کو دعوت کا کام کرنے کا حکم ہوا اور اس میں مخاطبین سے تکلیف پہنچنا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے انذار کے حکم کے ساتھ اصطبار کا حکم بھی فرما دیا یعنی آپ دعوت توحید کے کام پر جمے رہیں اور دشمنوں سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرتے رہیں او... ر یہ صبر اللہ کی رضا کے لیے ہو جب اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو صبر کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا ثواب ملنے کی امید تکلیف کو آسان بنا دے گی۔ قال اللہ تعالیٰ ﴿اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ٠٠١٠﴾  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور اپنے پروردگار کے لئے مصائب کو برداشت کیجئے۔ جس طرح پہلی سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلطف اور مہربانی کے ساتھ خطاب فرمایا تھا اسی طرح اس سورت میں بھی حضور ہی کو خطاب فرمایا ہے ۔ مدثر اصل میں متدثر ہے تاکو داں سے بدل کر دال میں ادغام کردیا ہے ، اس سے مدثر ہوگیا ہے۔ دثار اوپ... ر کے کپڑے کو کہتے ہیں جس طرح شعار نیچے کے کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے الانصار وثار والناس شعار، مدثر اس شخص کو کہتے ہیں جو سردی اور ٹھنڈ کی وجہ سے اپنے کپڑوں پر کوئی کپڑا اوپر سے اوڑھ لے اور کوئی گرم کپڑا اوپر سے لپیٹ لے۔ پہلی سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا تھا عبادت کرنے اور رات میں قیام کرنے کا تاکہ نفس میں استعداد پیدا ہو، یہاں ارشاد ہے کھڑے ہو اور خدا کی مخلوق کو احکام سنائو اور آنے والی آفات سے بچائو گویا پہلی سورت میں ارشاد تھا کمال کا اور اس سورت میں ارشاد ہے تکمیل کا۔ یعنی جب تم میں ہر قسم کا کمال پیدا ہوگیا اور تم ہر اعتبار سیاکمل ہوگئے تو اب دوسروں کو بھی اپنے کمال کا فیض پہنچائو اور دوسروں کی اصلاح کرو۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ سب سے پہلے غار حرا میں سورہو اقراء کی چند آیتیں نازل ہوئیں اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا جس کو فترۃ الوحی کا زمانہ کہتے ہیں، اس زمانے میں آپ کو بہت اشتیاق ہوا اور وحی کی لذت بہت یاد آئی۔ چنانچہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا سے تشریف لارہے تھے کہ آپ کو آواز آئی جیسے کوئی پکارتا ہے آپ نے دائیں بائیں دیکھا پیچھے پھر کر دیکھا کوئی نظر نہ آیا، جب اوپر نگاہ کی تو آسمان و زمین کے درمیان حضرت جبرئیل کو ان کی اصل حالت پر دیکھا کہ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور آسمان کے کنارے ان کے پروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اس حالت میں دیکھ کر آپ پر بہت خوف طاری ہوا اور بعض کہتے ہیں کہ آپ بےہوش ہوگئے اور جب ہوش ایا تو کپکپاتے ہوئے مکان میں تشریف لائے اور حضرت خدیجہ (رض) سے کہا مجھے کپڑا اڑھائو ۔ غرض جب کپڑا اوڑھ کر کپڑے میں لپٹ گئے تب یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ سورہ مدثر اور سوروہ اقراء کے متعلق دو قول مشہور ہیں بعض کہتے ہیں کہ مدثر سب سے پہلے نازل ہوئی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ پہلے اقراء نازل ہوئی ہے جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ سب سے پیشتر اقراء کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں اور اس کے بعد فترت کا کچھ دنوں زمانہ رہا پھر اس سردی اور کپکپی کی حالت میں جب آپ نے اوپر کپڑا اوڑھ لیا تب سورة مدثر کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔ جمہور کی رائے صحیح ہے حقیقی ابتداء وحی کی تو سورة اقراء ہے اور فترۃ کے بعد کی ابتداء سورة مدثر سے ہوئی ہے سورة مزمل اور سورة مدثر سے اہل سلوک نے خرقہ پوشی کے لوازم کا اخراج کیا ہے۔ کما قال الشاہ عبدالعزیز الدہلوی (رح) ۔ بہرحال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبت آمیز خطاب سے مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا اے بالا پوش میں لپٹنے والے کھڑے ہوجائیے اور دوسرے لوگ جو غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور آبائی رسومات میں مبتلا ہوکر اپنے خالق سے بھٹک گئے ہیں ان کو خوف دلا کر اور ڈراکر راہ راست پر لائیے اور ان کی تکمیل کیجئے۔ صرف انذار اور ڈرانے کو فرمایا چونکہ تبلیغ کا ابتدائی دور تھا اس لئے ان آیتوں میں بشارت کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ اس وقت مسلمان صرف گنتی ہی کے تھے نیز یہ کہ اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو یعنی اللہ اکبر کہا کرو یہ کہ انسانوں کے سامنے اللہ کی عظمت اور اس کی بڑائی بیان کرو تاکہ لوگ اس کی عظمت و جلال سے ڈر کر اس کو مانیں اور جن کمزورچیزوں کو خدا کے مقابلے میں پوج رہے ہیں ان کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ ہی کی پرستش کیا کریں اور اپنے کپڑوں کو خوب پاک رکھو ثیاب سے مراد ظاہری اور باطنی ہر قسم کی پاکی مراد ہے ۔ عرب میں ثیاب بول کر ذات مراد لیا کرتے تھے یعنی اپنی صفات اور اخلاق کو خوب پاکیزہ رکھیے یا جس طرح کپڑوں کو ظاہری نجاست سے پاک کیجئے اسی طرح باطنی نجاست سے بھی پاک کیجئے یعنی کپڑاناجائز کمائی سے نہ خریدا جائے اور طریقہ استعمال بھی ناجائز نہ ہو۔ یعنی مرد کا کپڑا ریشمی نہ ہو یا ٹخنون سے نیچی ازارنہ ہو۔ غرض بہت جامع ارشاد ہے جس کے بیشمار معنی ہوسکتے ہیں اور ہر قسم کی پلیدگی سے دور رہیے فاسد اعتقاد براخلق ، جھوٹ غرض وہ تمام چیزیں جن کا روح پر برا اثر ہوتا ہو خواہ وہ بت پرستی ہو یامعاملات کی خرابی ہو ان تمام قسم کی برائیوں اور گنہگاروں سے پرہیز رکھیے کیونکہ دوسرے لوگوں کی اصلاح اور درستی جب ہی ہوسکے گی جب آپ خود ان سب برائیوں سے پاک ہوں اور کسی کیساتھ اس نیت سے سلوک نہ کیجئے اور احسان نہ کر ئیے کہ آپ اس سے بدلے میں زیادہ حاصل کریں جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ دولت مند اور تونگروں کے ساتھ انسان اس غرض سے کچھ سلوک کرتا ہے کہ ان سے جو کچھ معاوضہ حاصل ہوگا وہ میرے سلوک سے زائد ہوگا خواہ وہ احسان مالی ہو یا قرآن کی تعلیم اور احکام الٰہی کی تبلیغ ہو۔ بہرحال کسی قسم کا احسان اس غرض سے نہ کیجئے کہ اس سے جو حاصل ہوگا وہ ہمارے احسان سے زائد ہوگا یہ بلند ہمتی کی بات فرمائی کہ نبوت کی شان کے بھی شایاں ہے کہ نہ کسی پر احسان جتائو نہ اس غرض سے کسی پر احسان کرو کہ تم اپنے احسان سے زیادہ وصول کرو۔ بعض حضرات نے اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہ حکم حضور کے لئے مخصوص تھا بشرطیکہ یہ بھی تحریم کے لئے ہو۔ بہرحال اس قسم کا خیال دل میں آنا تلویث باطن اور کم ہمتی کا سبب ہے اس لئے اس سے منع فرمایا ولاتمنن تستکثر اور اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لئے صبر کیجئے یعنی ہر قسم کی تکالیف اور مصائب اور ایذارسانی کے مواقع پر صبر اور برداشت کرو۔ اور صبر لوجہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے خوشنودی پیش نظر ہو۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام صفات جلیلہ سیآراستہ ہونے کا حکم فرمایا خواہ وہ صفات ظاہری ہوں یا باطنی ہوں۔ بدن کی پاکی کا ان آیات میں ذکر نہیں فرمایا، ثوب کی پاکی، لطافت جسم کی پاکی کو مستلزم ہے کیونکہ جس کا دن نجس ہوگا اس کے کپڑے پاک نہیں رہ سکتے جسم کی تلویث سے کپڑوں کا ملوث ہونا یقینی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ سورت اتری تب خلق کو دعوت کا حکم ہوا اور نماز کا نماز کے ساتھ تکبیر ہے اور کپڑے پاک رہنے اور کھتری سے بچنا یا کھتری کہا بت کو کہ وہ اکثر دودھ اور تیل آلودہ رہتا ہے اور یہ ہمت سکھائی کہ کسی کو دے اس سے بدلہ نہ چاہ اپنے رب کے دینے پر شاکررہ۔ ان آیات کی تفسیر لوگوں نے مختلف طریقوں سے بیان کی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ الفاظ کی وسعت اور جامعیت کی بنا پر کئی طرح تفسیر ہوسکتی ہے لیکن ہم نے آسان اور مشہور طریقہ اختیار کیا ہے جیسا کہ شاہ صاحب (رح) کے خلاصے سے معلوم ہوگیا ہوگا کھتری کبھی پہلے گندی چیز کو کہتے ہوں گے یا کیچڑ وغیرہ یا میل کو کہتے ہوں گے آج کل یہ لفظ دہلی میں متروک ہے۔ بہرحال رجز کے معنی گندی اور پلیدگی کئے گئے ہیں آگے قیامت کا ذکر فرمایا۔ فترۃ وحی کے بعد یہ وحی کی پہلی آیتیں ہیں جس میں پیغمبر کو اپنی تہذیب اور غیروں کی تہذیب سے آگاہ کیا گیا۔  Show more