Surat ul Qiyama
Surah: 75
Verse: 20
سورة القيامة
کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾
No! But you love the immediate
نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی ( دنیا ) کی محبت رکھتے ہو ۔
کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾
No! But you love the immediate
نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی ( دنیا ) کی محبت رکھتے ہو ۔
کلا بل تحبون العاجلۃ …: یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے جو ” لاتحریک بہ لسانک “ سے پہلے چل رہا تھا۔ فرمایا تمہارے قیامت کا انکار کرنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ یہ ہے کہ تم دنیا سے محبت کرتے ہ اور اس کی محبت میں آخرت کو چھوڑ ہی بیٹھے ہو، کیونکہ دنیا جلدی ملنے والی اور نقد ہے جب کہ آخرت بعد میں آئے گی اور ادھار ہے، حالانکہ اس نقد کی راحتیں اور رنج عارضی ہیں اور آخرت ہمیشہ رہنے والی اور کہیں بہتر ہے، جیسا کہ فرمایا :(بل توثرون الحیوۃ الدنیا والاخرۃ خیر وابقی) (الاعلی : ١٦، ١٨) ” بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے وہ۔ حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔ “
كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ ٢٠ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
14 The theme is again resumed from where it was interrupted by the parenthesis. "By no means" implies; "You deny the Hereafter not because you regard the Creator of the universe as helpless to bring about Resurrection and raise the dead, but because of this and this other reason."
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :14 یہاں سے سلسلہ کلام پھر اسی مضمون کے ساتھ جڑ جاتا ہے جو بیچ کے جملہ معترضہ سے پہلے چلا آ رہا تھا ۔ ہرگز نہیں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے انکار آخرت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تم خالق کائنات کو قیامت برپا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے سے عاجز سمجھتے ہو ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے ۔
(75:20) کلام معترضہ ختم ہوا اب پھر قیامت اور اس کی نسبت انسانی طبائع کا تعلق بیان فرمایا جا رہا ہے۔ کلا : ہرگز نہیں۔ ردع عن انکار البعث : (انکار حشر پر یا زداشت ہے) مدارک۔ ای لیس الامر کما تزعمون انہ لا جزاء الیسر التفاسیر۔ بات یہ نہیں جیسا کہ تم خیال کرتے ہو کہ نہ حشر ہوگا نہ جزاء ہوگی۔ علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ کلا سے بازداشت کی گئی ہے خواہ انکار حشر پر یا فجور پر یا بےکار عذر پیش کرنے پر۔ بل تحبون العاجلۃ : بل حرف اضراب ہے تحبون مضارع جمع مذکر حاضر۔ احباب (افعال) مصدر۔ تم پسند کرتے ہو۔ تم محبت کرتے ہو۔ تم دوست رکھتے ہو۔ العاجلۃ : عجل وعجلۃ (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے جلد ملنے والی۔ دنیا اور دنیا کی آسودگی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بات یوں نہیں کہ نہ کوئی حشر ونشر ہوگا نہ جزاء و سزا۔ بلکہ تم ہی ہو کہ دنیا پر ریجھ گئے ہو۔
فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کا مرکزی مضمون قیامت کا قائم ہوناثابت کرنا ہے، اس بات کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو قسمیں اٹھائیں اور دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہوگی۔ قیامت کے انکار کے پیچھے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ جلد بازی کی وجہ سے انسان چاہتا ہے کہ جو اسے ملنا ہے وہ دنیا میں ہی مل جائے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ اس سوچ کی بنا پر وہ آخرت کو فراموش کردیتا ہے۔ جلدی کرنے والوں کے مقابلے میں وہ لوگ بہتر ہیں جو دنیا میں بھرپور کردار ادا کرنے کے باوجود آخرت کو نہیں بھولتے وہ دنیا کی خاطر جان بوجھ کر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے ان کی آخرت کھوٹی ہوجائے۔ قیامت کے دن ان لوگوں کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جائیں گے تو ان کے چہرے روشن اور ہشاش بشاش ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب کے انوار و تجلیات کو دیکھ رہے ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس منظر کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس دن کچھ چہرے ہشاش بشاش ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اَنَّ نَا سا قالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَعَمْ ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤیَۃِ الشَّمْسِ بالظَّھِیْرَۃِ صَحْوًا لَیْسَ مَعَھَا سَحَابٌ وَھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ صَحْوًا لَیْسَ فِیْھَا سَحَابٌ قَالُوْا لاَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا کَمَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اَحَدِھِمَا۔۔ ) (رواہ البخاری : باب (إِنَّ اللَّہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قیامت کے دن کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! کیا تم دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں سورج کو دیکھنے میں دقّت محسوس کرتے ہو ؟ کیا بادل نہ ہوں تو چودھویں رات میں چاند کے دیکھنے میں تنگی محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے جواب دیا، نہیں ! اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کے دیدار میں ہرگز مشکل نہیں پاؤ گے جس قدر تم ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں تنگی پاتے ہو۔۔ “
انداز بیان میں جو پہلی بات نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں دنیا کے لئے عاجلہ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس لفظ کے مفہوم میں ایک بات تو یہ ملحوظ ہے کہ یہ دنیا جلدی ختم ہونے والی چیز ہے ۔ اور اصل مقصود یہی بتانا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لفظ اس لئے بھی لایا ہے کہ اس سے قبل قرآن کے بارے میں جملہ معترضہ میں بھی یہ بات کہی گئی تھی۔ لا تجرک ................ بہ (75:16) د ’ وحی جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو “۔ اس دنیا اور اس کے ہر کام میں عجلت دراصل اس دنیا کی خصوصیت ہے۔ اور دنیا میں مفادات کے لئے شتابی اور قرآن کو جلد یاد کرنے کے عجلت دونوں اس دنیا کے رنگ ہیں۔ یہ قرآن کریم کا نہایت ہی لطیف اور گہرا اشارتی ہم آہنگی ہے اور یہ قرآنی انداز کلام ہے۔
قیامت کے دن کچھ چہرے ترو تازہ اور کچھ بدرونق ہوں گے، موت کے وقت انسان کی پریشانی نزول قرآن کے وقت جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد کرنے میں تکلیف ہوتی تھی اس کے بارے میں آپ کو تسلی دی کہ آپ مشقت میں نہ پڑیں آپ پہلے سن لیں پھر یاد کریں ہم آپ کو یاد کرا دیں گے اور اس کے احکام بھی آپ سے بیان کروا دیں گے یہ مضمون بیان فرما کر پھر قیامت سے متعلق مضمون شروع فرما دیا اور فرمایا ﴿كَلَّا ﴾ بیشک بات یہ ہے کہ مکذبین اور معاندین قرآن پر ایمان نہیں لاتے یہ ان کی گمراہی ہے ان کے نہ ماننے سے قیامت ٹلنے والی نہیں ہے، جیسا وہ غلط خیال کرتے ہیں ایسا ہرگز نہ ہوگا پھر ان کی گمراہی کا سبب بتایا۔ ﴿بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ٠٠٢٠﴾ (اے منکرو ! تم ایمان نہیں لاتے جو آخرت کا فکر مند بناتا ہے اور وہاں بلند درجات نصیب ہونے کا ذریعہ ہے بلکہ تم دنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو یہ دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت تمہیں ایمان نہیں لانے دیتی۔
9:۔ کلا، حرف ردع ہے۔ بل تحبون العاجلۃ، یہ بل یرید الانسان لیفجر امامہ سے متعلق ہے یعنی قیامت کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ تمہیں چاہئے کہ تم آخر پر ایمان لا کر دنیوی زندگی میں ایمان و عمل سے توشہ آخرت تیار کرو مگر تم ایسا نہیں کرتے ہو بلکہ دنیا کو پسند کرتے ہو اور آخرت کو نظر انداز کرتے ہو۔ دنیا کی خاطر تو بھاگ دوڑ میں مصروف ہو، لیکن آخرت کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہو۔