Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 10

سورة الدھر

اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا ﴿۱۰﴾

Indeed, We fear from our Lord a Day austere and distressful."

بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی والا ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, We fear from our Lord a Day that is `Abus and Qamtarir. meaning, `we only do this so that perhaps Allah may have mercy on us and treat us with gentleness on the Day that is `Abus and Qamtarir.' Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas, "`Abus means difficult and Qamtarir means long." Ikrimah and others said from Ibn Abbas, يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (a Day that is `Abus and Qamtarir, hard and distressful, that will make the faces look horrible from extreme dislike to it). "The disbeliever will frown on that day until sweat will flow between his eyes like tar." Mujahid said, "Abus `Abis means (frowning with) the two lips and Qamtarir means drawing up the face in a scowl." Sa`id bin Jubayr and Qatadah said, "Faces will be made to frown due to dismay. Qamtarir is the contraction of the forehead and what is between the two eyes due to dismay." Ibn Zayd said, " `Abus is the evil and Qamtarir is the severity." Some Details concerning the Reward of the Righteous in Paradise and what it contains of Delights Allah says, فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی وہ دن نہایت سخت ہوگا اور سختیوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پر بڑا لمبا ہوگا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی احسان کرنے والے نیکی کرنے اور شکریہ تک کی توقع نہ رکھنے کے باوجود اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے عمل میں کوئی تقصیر باقی نہ رہ جائے۔ اور اس دن ہم سے باز پرس نہ ہو جس کے نظارہ سے ہی سب کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ہیبت اور دہشت طاری ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انا نخاف من ربنا…:” عبوساً “ تیوری چڑھانے والا، منہ بنانے والا۔” قمطریراً “ سخت تیوری چڑھانے والا۔ سوال یہ ہے کہ اس دن کو ” عبوساً “ اور ” قمطریراً “ کیوں کہا گیا ، جبکہ تیوری چڑھانا اور منہ بگاڑانا آدمی کا کام ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس دن کی ہیبت اور سختی کی منظر کشی کے لئے اسے ایک ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا ہے جس کے منہ اور ماتھے پر غصے کی وجہ سیسخت تیوری چڑھی ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ جس طرح ” نھنارہ صائم “ (اس کا دن روزہ دار ہے) اور ” لیلہ قائم “ (اس کی رات قیام کرنے والی ہے) میں صیام وق یام کی نسبت دن اور رتا کی طرف کردی ہے، حالانکہ روزہ رکھنا اورق یام کرنا آدمی کا کام ہے، اسی طرح یہاں بھی اگرچہ دن کو تیوری چڑھانے والا کہا ہے مگر مراد یہ ہے کہ اس دن میں کافر کا چہرہ سخت تیوری والا اور بگڑا ہوا ہوگا، جیسے فرمایا :(وجوہ یومئذ باسرۃ) (القیامۃ : ٢٣)” کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔ “ (٢) انا نخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً “ (یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہوگا) میں ان جاہل صوفیوں کا رد ہے جو قیامت یا جہنم کے خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اخلاص سے کے خلاف سمجھتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۝ ١٠ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ عبس العُبُوسُ : قُطُوبُ الوجهِ من ضيق الصّدر . قال تعالی: عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس/ 1] ، ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر/ 22] ، ومنه قيل : يوم عَبُوسٌ. قال تعالی: يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان/ 10] ، وباعتبار ذلک قيل العَبَسُ : لِمَا يَبِسَ علی هُلْبِ الذَّنَبِ من البعر والبول، وعَبِسَ الوسخُ علی وجهه ( ع ب س ) العبوس ( ض ) کے معنی سینہ کی تنگی سے چہرہ پر شکن پڑے نے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ عَبَسَ وَتَوَلَّى[ عبس/ 1] تر شر د ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ [ المدثر/ 22] پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا لیا ۔ اور اسی سے یوم عبوس ہے جس کے معنی سخت اور بھیانک دن کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان/ 10] اس دن سے جو ( چہروں کو ) شکن آلود اور دلوں کو سخت مضطر کردینے والا ہے ۔ اور اسی اعتبار سے العبس اس گو برادر پیشاب کو کہتے ہیں جو اونٹ کی دم کے بولوں کے ساتھ لگ کر خشک ہوجاتا ہے عبس الوسخ علی وجھہ اس کے چہرہ پر میل کچیل جم گئی ۔ قمطر قوله تعالی: عَبُوساً قَمْطَرِيراً [ الإنسان/ 10] أي : شدیدا . يقال : قَمْطَرِيرٌ وقَمَاطِيرٌ. ( ق م ط ر ) القمطریر سخت ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] جو ( چہروں کو ) کریہہ المنظر اور دلوں ) کو سخت ( مضطر ) کردینے والا ۔ قمطریر ۔ ایک لغت میں قماطر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا ۔ } ” ہم تو ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جس کی اداسی بڑی ہولناک ہوگی۔ “ عَبُوْس کا لفظ ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہ آتی ہو ‘ بلکہ غصہ اور وحشت برستی ہو۔ جب کہ قمطریر کا معنی ہے بہت سخت ‘ بہت کرخت ‘ ہولناک اور طویل۔ چناچہ یہاں اس سے مراد میدانِ محشر کی وہ کیفیت ہے جس کی وجہ سے کھرب ہا کھرب انسان متفکر ّاور پریشان ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کے آثار تک نظر نہیں آئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:10) انا نخاف من ربنا : اطعام لہ پہلی علت لوجہ اللہ تھی۔ یہ دوسری علت ہے گویا حرف عطف اور حرف جر کو حذف کرکے لوجہ اللہ پر عطف کردیا گیا ہے۔ اصل کلام یوں تھا :۔ نطعمکم طمعا وخوفا من اللہ یعنی اللہ کی خوشنودی اور ثواب کی طلب میں اور اللہ کے عذاب اور غضب کے خوف سے ہم تم کو کھانا کھلاتے ہیں۔ من ربنا کا معنی ہے من عذاب ربنا یعنی ہم اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یوما عبوسا قمطریرا : یوما منصوب بوجہ مفعول فیہ ہونے کے یا بوجہ ظرفیت کے ” یہ عذاب اس دن ہوگا “ یا اس دن کے عذاب سے۔ جو عبوس اور قمطریر ہوگا۔ عبوسا قمطریرا دونوں بوجہ یوما کی صفت کے منصوب ہیں۔ عبوسا : منہ بنانے والا۔ تیوری چڑھانے والا۔ ترش رو، سخت، منہ بگاڑ دینے والا۔ عبس وعبوس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ قرآن پاک میں یہ یوما کی صفت واقع ہوا ہے۔ علامہ احمد فیومی نے مصباح میں لکھا ہے کہ :۔ عبد الیوم کے معنی ہیں دن کے سخت ہونے کے۔ اس اعتبار سے یوم عبوس کے معنی سخت دن کے ہیں۔ اور قاموس میں یوما عبوسا کی تشریح میں لکھا ہے :۔ ای کریھا تعبس منہ الوجوہ۔ ایسا مکروہ دن کہ جس سے منہ بگڑ جائیں علامہ خازن نے تصریح کی ہے کہ :۔ یوم کو جو عبوس سے موصوف کیا ہے یہ مجاز ہے جس طرح کہ نھارہ صائم بولتے ہیں اور اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے کہ جس نے اس دن کا روز ہ رکھا ہے۔ غرض مطلب یہ ہوا کہ اس دن میں لوگوں کے چہرے اس کے ہول اور شدت سے بگڑ جائیں گے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ :۔ چونکہ اس دن میں سختی اور شدت ہے اس لئے اس کو عبوس سے موصوف کیا گیا ہے۔ قمطریرا : مصیبت اور رنج کا بہت طویل دن۔ (یعنی روز قیامت) اصل محاورے میں قمطرت الناقۃ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی دم اٹھا کر ناک چڑھا کر، منہ بنا کر مکروہ شکل اختیار کرلے۔ اسی معنی کی مناسبت سے ہر مکروہ، برے۔ رنج وہ دن کے لئے استعمال ہونے لگا۔ اصل مادہ فطر ہے۔ م زائدہ ہے۔ جملہ سابقہ کی طرح یہ جملہ بھی حالیہ ہے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ ہم ڈرتے ہیں اس روز کے اللہ کے عذاب سے جو بڑا ترش اور سخت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی جس کی شدت اور ہولناکی سے چہرے اداس ہوں گے اور ان کی تیوری چڑھی ہوگی، مراد قیامت کا دن ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوف آخرت سے کوئی کام کرنا خلاف اخلاص اور ابتغاء مرضاة کے منافی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا ٠٠١٠﴾ (یہ بھی اللہ کے نیک بندوں کا قول ہے، وہ قیامت کے دن کا استحضار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے رب سے سخت دن کا اندیشہ رکھتے ہیں یعنی ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ قیامت کے سخت دن میں اللہ تعالیٰ ہماری گرفت نہ فرمائے۔ لفظ عبوس فعول کے وزن پر ہے جس کا معنی منہ بگاڑنا اور ناراضگی اور ترش روئی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ اور قمطریر بھی تقریباً اسی معنی میں ہے لیکن یہ بہت زیادہ منہ بگاڑنے پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ قرطبی نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ عبوس وہ ہے جو ہونٹوں سے منہ بگاڑے اور قمطریر وہ ہے جو پیشانی سے اور بھنوؤں سے چہرہ بگاڑ کر سامنے آئے قیامت کے دن کو عبوساً اور قمطریرا دونوں صفات سے متصف فرمایا ہے اس لیے عبوس کا ترجمہ سخت اور قمطریرا کا ترجمہ تلخ کیا گیا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو دن نہایت ترش روا اور نہایت سخت ہوگا۔ دن کی صفت عبوس کے ساتھ مجازاً ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس دن لوگوں کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ وہ دن بڑا تلخ اور نہایت سخت ہوگا اس دن کا ہم کو اندیشہ لگا ہوا ہے اور ہم کو اندیشہ لگا ہوا ہے اور ہم اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں کہ اس دن ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوا اور یہ کھانا کھلانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو یا نہ ہو۔