Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 16

سورة الدھر

قَؔ‍وَارِیۡرَا۠ مِنۡ فِضَّۃٍ قَدَّرُوۡہَا تَقۡدِیۡرًا ﴿۱۶﴾

Clear glasses [made] from silver of which they have determined the measure.

شیشے بھی چاندی کے جن کو ( ساقی نے ) اندازے سے ناپ رکھا ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَوَارِيرَ مِن فِضَّةٍ ... (Qawarir) Crystal-clear, made of silver. Ibn `Abbas, Mujahid, Al-Hasan Al-Basri and others have all said, "It (Qawarir) is the whiteness of silver in the transparency of glass." Qawarir is only made of glass. So these cups are made of silver, but due to their fine thinness, what is inside of them will be visible from outside of them (as if they are glass). This is among the things of which there is nothing like in this world. Allah said, ... قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا They will determine the measure thereof. meaning, according to the amount that will quench their thirst. It will not be more than that nor less than it, rather it will be prepared in an amount that is suitable for quenching the thirst of their drinkers. This is the meaning of the statement of Ibn `Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Abu Salih, Qatadah, Ibn Abza, `Abdullah bin `Ubayd bin `Umayr, Ash-Sha`bi and Ibn Zayd. This was stated by Ibn Jarir and others. This is the most excellent provision, distinction and honor. The Ginger Drink and the Drink of Salsabil Allah says, وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلً

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی یہ برتن اور آب خورے چاندی اور شیشے سے بنے ہونگے، نہایت نفیس اور نازک۔ 16۔ 2 یعنی ان میں شراب ایسے اندازے سے ڈالی گئی ہوگی کہ جس سے وہ سیراب بھی ہوجائیں، تشنگی محسوس نہ کریں اور برتنوں اور جاموں میں بھی زائد نہ بچی رہے۔ مہمان نوازی کے اس طریقے میں بھی مہمانوں کی عزت افزائی ہی کا اہتمام ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] دنیا میں کئی قسم کے شیشے ایجاد ہوچکے ہیں۔ اور ایسی اشیاء بھی جو شیشے کے علاوہ ہونے کے باوجود شیشے کی طرح صاف شفاف بھی ہیں جیسے پلاسٹک کی اشیاء لیکن یہ چیزیں آتش گیر ہوتی ہیں جنت میں چاندی اور اس کے برتنوں کو شیشے کی طرح صاف شفاف بنادیا جائے گا اور یہ صنعت دنیا میں آج تک ایجاد نہیں ہوسکی اور شاید آئندہ بھی نہ ہوسکے۔ [١٩] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چاندی کے شیشہ نما برتنوں کو اتنی مخصوص مقدار میں ہی بھرا جائے گا۔ جتنی پینے والے کی طلب ہوگی، نہ انہیں اور مانگنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی یہ صورت ہوگی کہ برتن میں کچھ مشروب بچ جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَوَا۩رِيْرَا۟ مِنْ فِضَّةٍ (vessels of silver...76:16). Silver vessels in this world are dense which can never be like glass, and that which is made of glass can never be silver. Thus silver and glass are two contradictory concepts in this world. However, it is a characteristic of Paradise that its glasses will be as bright as silver, and as transparent and sparkling as crystal. Sayyidna Ibn ` Abbas said: The blessings given in Paradise have their likes in this world also, except these vessels that are made of silver, but as transparent as a mirror.|"

قواریرا من فضتہ دنیا میں چاندی کا برتن کشیف ہوتا ہے آئینہ کی طرح نہیں ہوسکتا اور جو کانچ سے تیار کیا جاتا ہے وہ چاندی نہیں ہوسکتا ان دونوں میں تضاد ہے مگر یہ جنت کی خصوصیت ہے کہ وہاں کی چاندی آئینہ کی طرح شفاف ہوگی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جنت میں جتنی چیزیں ملیں گی ان سب کی نظیر اور شبیہ دنیا میں بھی ملتی ہیں سوائے ان گلاسوں اور برتنوں کے جن کی ساخت چاندی سے ہے مگر آئینہ کی طرح شفاف ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَؔوَارِيْرَا۟ مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَا تَقْدِيْرًا۝ ١٦ قَوارِيرَا والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ، أي : من زجاج . القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔ فض الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر : انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها [ الجمعة/ 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] ، والفِضَّةُ اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة . ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة/ 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران/ 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ قَوَارِیْرَا مِنْ فِضَّۃٍ } ” ایسا شیشہ جو چاندی کا ہوگا “ دراصل وہ آب خورے یا جام انتہائی نفیس اور شفاف (crystal clear) چاندی سے بنے ہوں گے ‘ لیکن دیکھنے میں وہ شیشے جیسے ہوں گے۔ { قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا ۔ } ” ان کو (ساقیانِ جنت نے) بھرا ہوگا بھرپور اندازے کے مطابق۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 "In due measure": filled accurately according to the desire of every person, neither over-filled nor under-filled. In other words, the attendants of the dwellers of Paradise will be so judicious and discerning that they will have accurate judgement about everybody whom they serve wine as to how much of it he wishes to drink. (For the characteristics of the wine of Paradise, see As-Saaffat: 45-47 and the E.N.'s 24 to 27, Muhammad: 15 and E.N. 22, At-'tur; 23 and E.N. 18, Al-Waqi`ah: 19 and E.N. 10) .

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :18 یعنی وہ ہوگی تو چاندی کی مگر شیشے کی طرف شفاف ہو گی ۔ چاندی کی یہ قسم اس دنیا میں نہیں پائی جاتی ۔ یہ صرف جنت کی خصوصیت ہو گی کہ وہاں شیشے جیسی شفاف چاندی کے برتن اہل جنت کے دسترخوان پر پیش کیے جائیں گے ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :19 یعنی ہر شخص کے لیے اس کی خواہش کے ٹھیک اندازے کے مطابق ساغر بھر بھر کر دیے جائیں گے ۔ نہ وہ اس کی خواہش سے کم ہوں گے نہ زیادہ ۔ بالفاظ دیگر اہل جنت کے خدام اس قدر ہوشیار اور تمیزدار ہوں گے کہ وہ جس کی خدمت میں جام شراب پیش کریں گے اس کے متعلق ان کو پورا اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی شراب پینا چاہتا ہے ۔ ( جنت کی شراب کی خصوصیات کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الصافات ، آیات 45 تا 47 ، حواشی 24 تا 27 ۔ جلد پنجم ، سورہ محمد ، آیت 15 ، حاشیہ 22 ۔ الطور ، آیت 23 ، حاشیہ 18 ۔ الواقعہ ، آیت 19 ، حاشیہ 10 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یہ جنت کی ایک عجیب خصوصیت بیان فرمائی گئی ہے کہ عام طور سے چاندی شفاف نہیں ہوتی، اس لئے چاندی کا برتن شیشے کی طرح شفاف نہیں ہوسکتا، لیکن وہاں کے یہ گلاس چاندی کے ہونے کے باوجود شیشے کی طرح شفاف ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:16) قواریرا من فضۃ یہ جملہ بدل ہے پہلے قواریرا کا جو آیت 15 میں آیا ہے قدروھا تقدیرا۔ یہ جملہ صفت ہے قواریرا کی قدروا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ تقدیر (تفعیل) مصدر۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب کا مرجع قواریرا ہے۔ وہ (یعنی اہل جنت کے خادم) پینے والوں کی خواہش کے بقدر دیں گے۔ تقدیرا مفعول مطلق ہے اور تاکیدا لایا گیا ہے۔ ویسقون فیہا۔ واؤ عاطفہ، اس کا عطف جملہ یطاف علیہم پر ہے۔ یسقون مضارع مجہول جمع مذکر غائب سقی (باب ضرب) مصدر۔ اور وہ پلائے جائیں گے۔ یعنی ان کو پینے کے لئے دیا جائیگا۔ فیہا ای فی الجنۃ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان میں پینے کی چیز ٹھیک اتنی آئے گی جتنی جنتیوں کو پینے کی خواہش ہوگی، نہ کم اور نہ زیادہ، شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی ان کی پیاس برابر “۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں :” تم دنیا میں چاندی کو کوٹ کر چاہے مکھی کے پر کے برابر باریک کرلو، مگر وہ ایسی شفاف نہیں ہوسکتی کہ اس کے پیچھے سے پانی نظر آئے، لیکن جنت کی چاندی شیشے کی طرح شفاف ہوگی “۔ (فتح القدیر بحوالہ بیہقی وغیرہ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اس میں مشروب ایسے انداز سے بھرا ہوگا کہ نہ اس وقت کی خواہش میں کمی رہے، اور نہ اس سے بچے کہ دونوں میں بےلطفی ہوتی ہے، اور چاندی کے شیشے یہ معنی کہ سفیدی تو چاندی کی سی اور دنیا کی چاندی میں آرپار نظر نہیں آتا اور شیشہ میں یہاں ایسی سفیدی نہیں ہوتی پس یہ ایک عجیب چیز ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿قَدَّرُوْهَا تَقْدِيْرًا ٠٠١٦﴾ برتن اور آب خورے جن کا ذکر اوپر ہوا شراب سے بھرے ہوئے پیش کیے جائیں گے ان کے بھرنے اور پلانے پر جو خادم مامور ہوں گے وہ اس انداز سے انہیں پُر کریں گے کہ اس وقت جو پینے کی خواہش ہوگی اسی کے مطابق ان میں شراب بھریں گے نہ اس وقت کی خواہش میں کمی رہے گی اور نہ اس سے کچھ بچے گا کیونکہ یہ دونوں چیزیں بےلطفی کی ہوتی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) وہ شیشے چاندی کے ہوں گے جن کو بھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھرا ہوگا۔ یعنی کھانے کے لئے چاندی کے برتن ہوں گے اور پینے کے لئے چاندی کے آبخورے ہوں گے۔ کو ب ایسے آبخورے کو کہتے ہیں جس میں ٹونٹی نہ ہو۔ چاندی کو شیشہ فرمایا یعنی یہ آبخورے ہوں گے تو چاندی کے مگر شفاف ایسے ہوں گے جیسے شیشے جس طرح شیشے سے نگاہ پار ہوجاتی ہے اور شیشے کے گلاس میں جو بھرا ہو وہ بھی باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح چاندی کے آبخورے اتنے شفاف ہوں گے کہ اندر کی چیز باہر سے نظر آئیگی۔ اور یہ بات مخصوص ہوگی جنت میں دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی پھر ان آبخوروں کو پلاتے وقت بھرنے والے اس انداز سے بھریں گے جو پینے والے کو کافی ہوگا۔ یعنی نہ تو بچے گا کہ پھینکا جائے اور نہ پیاس باقی رہے گی کہ دوبارہ طلب کیا جائے یعنی جس قدر جنتی کی خواہش ہوگیا سی قدر شراب اس میں بھریں گے کہ نہ بچے اور نہ پیاس باقی رہے یہ پھرنے والے جنت کے خدام ہوں گے جو کھانے اور پینے کا سامان چاندی کے برتنوں میں اور چاندی کے آبخوروں میں لئے پھرتے ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان کی پیاس برابر شیشے پر روپے کے یعنی مروپا ایسا شفاف جیسا شیشہ۔