Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 22

سورة الدھر

اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا ﴿۲۲﴾٪  19

[And it will be said], "Indeed, this is for you a reward, and your effort has been appreciated."

۔ ( کہا جائے گا ) کہ یہ ہے تمہارے اعمال کا بدلہ اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, this is a reward for you, and your endeavor has been accepted. meaning, this will be said to them in honor of them and as a goodness towards them. This is as Allah says, كُلُواْ وَاشْرَبُواْ هَنِييَاً بِمَأ أَسْلَفْتُمْ فِى الاٌّيَّامِ الْخَالِيَةِ Eat and drink at ease for that which you have sent forth before you in days past! (69:24) Allah also says, وَنُودُواْ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ And it will be cried out to them: "This is the Paradise which you have inherited for what you used to do." (7:43) Then Allah says, وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا and your endeavor has been accepted. meaning, `Allah the Exalted will reward you for a small amount (of deeds) with a large amount (of reward).'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی یہ نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ دنیا میں میری خاطر جو تم نے مصیبتیں برداشت کیں اور میرے احکام کی پابندیوں کا خیال رکھا۔ تمہاری ان محنتوں کی آج پوری قدر کی جاتی ہے اور ان کا تمہیں بیش بہا بدلہ دیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان ھذا کان لکم جآء …:” یہ سب کچھ تمہارے اعمال کا بدلا ہے اور تمہاری کوشش قدر کی ہوئی ہے “ یہ بات جنتیوں سے کہی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں تھوڑی سی عمر کے اعمال کے بدلے میں ابدالآباد کی یہ نعت میں عطا فرمائے گا۔ اس سے بڑھ کر قدر دانی کیا ہو ست کی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاۗءً وَّكَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا ([ It will be said to them,] This is a reward for you, and your effort has been appreciated....76:22). Allah will address the inmates of Paradise once they have entered Paradise, and will announce to them that the amazing bounties are granted to them as a reward for their good deeds they had done in the world, and their deeds have been appreciated by Allah. These expressions will be made to them by way of congratulation. For the people of love, the Divine congratulatory expressions will outweigh all the other blessings of Paradise put together. The congratulatory words are a proof positive of Divine pleasure. Having mentioned the general blessings of the inmates of Paradise, special blessings that are conferred on the Holy Prophet are listed. Firstly, the blessing in the form of the revelation of the Qur&an is mentioned. The Holy Prophet is, then, directed that the opponents and obdurate non-believers will obstinately reject the message and persecute him. So, he is to submit patiently to Allah&s decision, and he should not obey any sinner or ungrateful person. Secondly, he is commanded to pronounce the name of Allah, and worship Him day and night. Further, he should prostrate before Him, during the night, and pronounce His purity for long times at night. This preoccupation will serve as a remedy for the non-believers& persecution. Towards the conclusion of the passage, the verse shows the reason for the persistence of the obdurate infidels. These ignoramus are intoxicated with the fleeting pleasures of this world, and have neglected the Hereafter, whereas if they had pondered in their own being or existence, they would have recognised and understood their Creator and Maker. نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُمْ ۚ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِيْلًا (We have created them and have made their joints strong. And whenever We will, We would replace them with others like them, a total replacement. ...76:28) Miracles of Nature Respecting Human Joints This verse alludes to the fact that even though man&s limbs and organs are perpetually in motion, and the wear and tear on them is phenomenal, they continue to function from birth to death. When machines made of iron or steel wear out and require regular servicing to remain functioning for even a short period, man&s body, made of soft tissues and muscles, functions for decades and scores of years without maintenance. Let us take the joints of the fingers [ or other joints of the human body ]. They are moved vigorously in different ways in an uncountable number of times. Heavy pressure and force is applied to them for seventy to eighty years [ on an average ], yet the finger joints [ and other joints ] remain intact. It is certainly only Allah Who makes this possible. &Glorious is Allah, the Best of Creators!& Alhamdu1i11ah The Commentary on Surah Ad-Dahr Ends here

اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاۗءً وَّكَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا، یعنی اہل جنت کو جنت میں پہنچنے کے بعد حق تعالیٰ کی طرف سے خطاب ہوگا کہ جنت کی یہ مخیر العقول نعمتیں سب تمہارے ان اعمال کی جزاء ہے جو تم نے دنیا میں کئے تھے اور تمہارے عمل اللہ کے نزدیک مقبول ہوگئے۔ یہ کلمات ان کو بطور مبارکباد کے کہے جائیں گے۔ اہل عشق و محبت سے پوچھئے تو جنت کی ساری نعمتیں ایک طرف اور رب العالمین کا یہ فرمانا ایک طرف سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے کہ اس میں حق تعالیٰ ان کو اپنی رضا کامل کی سند دے رہے ہیں۔ عام اہل جنت کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد خاص ان انعامات کا ذکر کیا گیا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مبذول ہوئے ان میں سب سے بڑا انعام تنزیل قرآن ہے اس انعام عظیم کا ذکر کرنے کے بعد اول تو آپ کو اس کی ہدایت کی گئی کہ مخالفین و کفار کی طرف سے جو ضد و انکار اور ان کی ایذاؤں کی تکلیف آپ کو پہنچتی ہے آپ اس پر صبر سے کام لیں۔ دوسرے اللہ کی عبادت کو دن رات کا مشغلہ بنائیں اسی سے کفار کی اذیت کا بھی ازالہ ہوگا۔ آخر میں معاند کفار کے کفر پر جمے رہنے کی وجہ بتلائی گئی کہ یہ جاہل دنیا کی سطحی سرسری اور فانی لذتوں میں ایسے مست ہوگئے کہ انجام کو یعنی آخرت کو بھلا بیٹھے حالانکہ ہم نے دنیا میں بھی خود ان کے وجود میں ایسی چیزیں رکھی تھیں کہ ان میں غور کرتے تو اپنے خالق ومالک کو پہچانتے۔ مثلاً نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهم یعنی ہم نے ہی ان کو پیدا کیا اور ان کے وجود کی صنعت میں ایک خاص کمال یہ رکھا کہ اس کے جوڑ بند مضبوط و مستحکم بنائے۔ انسانی جوڑ بند میں کرشمہ قدرت :۔ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ انسا ناپنے ایک جوڑ بند پر نظر ڈالے کہ بتقاضائے حکمت و راحت انسانی جوڑ دیکھنے میں نرم و نازک معلوم ہوتے ہیں اور نرم نرم پٹھوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جس کا طبعی تقاضا یہ تھا کہ سال دو سال ہی میں یہ جوڑوں کے بندھن اور اعصاب گھس جاتے اور ٹوٹ جاتے خصوصاً جبکہ دن رات وہ حرکت میں رہتے ہیں موڑے توڑے جاتے ہیں اتنی شبانہ روز حرکت کیساتھ تو لوہے کے اسپرنگ بھی سال دو سال میں گھس کر ٹوٹ جاتے ہیں یہ نرم و نازک پھٹے دیکھو کس طرح اعضاء کے جوڑوں کو باندھے ہوئے ہیں نہ گھستے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔ انسان اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں کو دیکھے اور حساب لگائے کہ عمر بھر میں ان جوڑوں نے کتنی حرکتیں کی ہیں کیسے کیسے زور اور دباؤ ان پر ڈالے گئے ہیں کہ اگر فولاد بھی ہوتا تو گھس گیا ہوتا مگر یہ جوڑ ہیں جو ستر اسی سال چلنے پر بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ تبارک اللہ احسن الخالقین۔ تمت سورة الدھر بحمداللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢{ اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَـکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۔ } ” (اور کہا جائے گا : ) یہ تم لوگوں کے لیے بدلہ ہے ‘ اور تمہاری جدوجہد مقبول ہوچکی ہے۔ “ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں غلبہ دین کے لیے جو جدوجہد کرتے رہے تھے وہ اللہ کے ہاں قبول کرلی گئی ہے اور اس کی قدردانی کے طور پر تم لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 In the original, kana sa yu kum mashkura: "your endeavours have been accepted and recognized." Sa`i implies the entire lifework that a person accomplished in the world, the works and objectives to which he applied his energies and abilities; and its being mashkur means that Allah has appreciated it. Shukr when expressed by the servant to God implies his gratefulness to Him for His blessings, and when it is expressed by God for the servant, it means that He has appreciated his services. It is indeed highly kind of the Master that He should appreciate the endeavours of the servant when the servant has only carried out his duties according to the Master's will.

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :26 اصل الفاظ ہیں کان سعیکم مشکورا ۔ یعنی تمہاری سعی مشکور ہوئی ۔ سعی سے مراد وہ پورا کارنامہ حیات ہے جو بندے نے دنیا میں انجام دیا ۔ جن کاموں میں اس نے محنتیں اور جن مقاصد کے لیے اس نے اپنی کوششیں صرف کیں ان سب کا مجموعہ اس کی سعی ہے اور اس کے مشکور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں وہ قابل قدر قرار پائی ۔ شکریہ جب بندے کی طرف سے خدا کے لیے ہو تو اس سے مراد اس کی نعمتوں پر احسان مندی ہوتی ہے ، اور جب خدا کی طرف سے بندے کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی خدمات کی قدر فرمائی ۔ آقا کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ بندہ جب اس کی مرضی کے مطابق اپنا فرض انجام دے تو وہ اس کا شکریہ ادا کر ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:22) ان ھذا کان لکم جزائ : ان حرف تحقیق ھذا اسم اشارہ جس کا مشار الیہ وہ نعمتیں اور فیوض ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ جو ابرار کو ان کے اعمال صالحہ کے بدلے میں جنت میں ان کو دئیے جائیں گے۔ ھذا۔ اسم کان لکم جزاء خبر کان۔ جملہ سے قبل عبارت قیل لہم محذوف ہے۔ یعنی اہل جنت سے کہا جائے گا یہ تھی تمہاری جزاء اور تمہاری دنیاوی کوششوں ایمان اور عمل صالح اور محبت الٰہی کا بدلہ جو تمہارے لئے پہلے سے تیار تھا۔ وکان سعیکم مشکورا۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے کان فعل ناقص ۔ سعیکم مضاف مضاف الیہ۔ اسم کان مشکورا اس کی خبر۔ اور کہا جائے گا، تمہاری کوششیں مقبول ہوئیں۔ مشکورا کا معنی مقبول ، پسندیدہ، ستائش کے لائق ۔ قابل ثواب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھذا ........................ مشکورا عالم بالا سے یہ تقریر ان کے اعزاز میں ہوگی ، چناچہ ان کلمات کی وجہ سے ان انعامات کی قدروقیمت دوچند ہوجاتی ہے۔ ان الفاظ پر انعامات جنت کی یہ تفصیلات ختم ہوتی ہیں۔ اور یوں لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ قیدوبند اور آگ وسلاسل سے بھاگو اور ان نعمتوں میں داخل ہوجاﺅ۔ ابھی وقت ہے اور دونوں راستے تمہارے لئے کھلے ہیں۔ جنت کی طرف اس پکار کی انتہا پر اور جنت کی خوشگوار نعمتوں کے ذکر کے بعد ، اب ان مشرکین کے حالات کو لیا جاتا ہے ، جو عناد میں مبتلا ہیں اور تکذیب پر اصرار کررہے ہیں ، جو دعوت اسلامی کی حقیقت کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔ اور وہ دعوت اسلامی کے معاملے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سودا بازی کرنا چاہتے ہیں۔ یا وہ چاہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض ایسی باتوں کو ترک کردیں جن سے ان کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سودا بازی کرتے ہیں اور دوسری طرف اہل ایمان پر تشدد کرتے ہیں۔ ان کو ایذائیں دیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور خود بھلائی ، جنت اور نعیم میں مقیم سے منہ موڑتے ہیں۔ ان حالات میں اس سورت کا یہ آخری حصہ آتا ہے اور ان مسائل پر قرآن کے مخصوص انداز پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا (رح) ٠٠٢٢﴾ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ یقین جانو یہ تمہارا صلہ ہے اور تم نے جو کوشش کی تھی (یعنی نیک کاموں میں لگے تھے) وہ مقبول ہوگئی اور اس کی قدر دانی کی گئی جو اس انعام و اکرام کا ذریعہ بن گئی) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” ان ھذا “ جنت کی یہ تمام نعمتیں اور آسائشیں تمہارے ایمان و عمل کی جزاء ہے اور تمہاری تمام نیک کوششوں کی قدر کی گئی اور یہ سب اسی کی جزاء ہے۔ دنیا میں تم نے اپنے ایمان و عمل کا کسی سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا اور نہ کسی سے اپنے عملوں پر شکر گذاری اور خراج تحسین کی خواہش کی۔ آج ہم نے تمہارے تھوڑے کاموں پر زیادہ اجر وثواب عطا کیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) بلاشبہ یہ نعمتیں تمہارے صلہ اور بدلا ہیں اور تمہاری سعی اور کوشش جو دنیا میں کیا کرتے تھے مقبول ہوئی اور ٹھکانے لگ گئی۔ یعنی یہ جنت کی تمام نعمتیں اس فرماں برداری اور اطاعت کا صلہ ہیں جو تم دنیا میں بجالاتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہاری کوشش مقبول ہوئی اور تمہاری سعی ٹھکانے لگی۔