Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 27

سورة الدھر

اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ وَ یَذَرُوۡنَ وَرَآءَہُمۡ یَوۡمًا ثَقِیۡلًا ﴿۲۷﴾

Indeed, these [disbelievers] love the immediate and leave behind them a grave Day.

بیشک یہ لوگ جلدی ملنے والی ( دنیا ) کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑے دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, these love the present life of this world, and put behind them a heavy Day. meaning, the Day of Judgement. Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یعنی کفار مکہ اور ان جیسے دوسرے لوگ دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور ساری توجہ اسی پر ہے۔ 27۔ 2 یعنی قیامت کو، اس کی شدتوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے اسے بھاری دن کہا اور چھوڑنے کا مطلب ہے کہ اس کے لئے تیاری نہیں کرتے اور اس کی پروا نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یہ لوگ آخرت کے اس لیے منکر نہیں کہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، بلکہ اس لیے منکر ہیں کہ یہ صرف نقد کے گاہک ہیں۔ دنیا کی دلفریبیوں، دلکشیوں اور اس کے مال و دولت سے انہیں گہری محبت ہے۔ اور اسے اپنے پاس سمیٹ سمیٹ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ آخرت پر ایمان لانے کی صورت میں مال اکٹھا کرنے کی بجائے انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پھر اخروی زندگی پر ان کا کچھ یقین بھی نہیں۔ لہذا یہ اپنا فائدہ اسی میں دیکھتے ہیں کہ آخرت کا انکار کردیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان ھولآء یحبون العاجلۃ…: اس ایٓ میں کفار و فجار کے کفر وف سوق کا اصل سبب بیان فرمایا کہ ان کے نصیحت قبول نہ کرنے کا سبب حب دنیا ہے۔ دنیا چونکہ جلد ہاتھ آنے والی چیز ہے، اس لئے یہ اسی کو چاہتے ہیں اور قیامت کے بھاری دن سے غافل ہیں، بلکہ اس کے آنے کا یقین ہی نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ جب مرنے کے بعد گل سڑ گئے تو کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ آگے اس کا جواب ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَہُمْ يَوْمًا ثَــقِيْلًا۝ ٢٧ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ کفار مکہ تو صرف دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں اور آنے والے ایک بھاری دن کی تیاری کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧{ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآئَ ہُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا ۔ } ” یقینا یہ لوگ فوری ملنے والی چیز (دنیا) سے محبت کرتے ہیں اور ایک بھاری دن جو ان کے پیچھے آنے والا ہے ‘ اس کا دھیان چھوڑے بیٹھے ہیں۔ “ یعنی قیامت کا سخت دن : { یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا ۔ } (المزمل) ” وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا “۔ اس آیت کے مضمون کا ربط سورة القیامہ کی ان آیات کے ساتھ ہے : { کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ - وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ ۔ } ” ہرگز نہیں ! اصل میں تم لوگ عاجلہ (جلد ملنے والی چیز) سے محبت کرتے ہو۔ اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 That is, "The reason why the disbelieving Quraish still persist in the errors and deviations of belief and morality and why they turn a deaf ear to your invitation to the Truth is, in fact, their worship of the world and their heedlessness of the Hereafter. Therefore, the way being followed by a true God-worshipper is so different from and opposed to their way that there can be no question of any compromise between them. "

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :31 یعنی یہ کفار قریش جس وجہ سے اخلاق اور عقائد کی گمراہیوں پر مصر ہیں ، اور جس بنا پر آپ کی دعوت حق کے لیے ان کے کان بہرے ہو گئے ہیں ، وہ دراصل ان کی دنیا پرستی اور آخرت سے بے فکری و بے نیازی ہے ۔ اس لیے ایک سچے خدا پرست انسان کا راستہ ان کے راستے سے اتنا الگ ہے کہ دونوں کے درمیان کسی مصالحت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:27) ان ھوؤلاء یحبون العاجلۃ ویذرون وراء ہم یوما ثقیلا : ان حرف تحقیق ہے۔ خبر کی تحقیق و تاکید مزید کے لئے آتا ہے۔ اپنے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے۔ ھؤلاء اسم اشارہ اسم ان۔ یحبون العاجلۃ جملہ فعلیہ خبر۔ ان۔ یحبون مضارع جمع مذکر غائب۔ احباب (افعال) مصدر۔ وہ پسند کرتے ہیں۔ وہ دوست رکھتے ہیں۔ وہ محبت رکھتے ہیں۔ العاجلۃ : جلد ملنے والی، دنیا اور دنیا کی آسودگی مراد ہے۔ عجل اور عجلۃ (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ ترجمہ :۔ بیشک یہ لوگ جلد آنے والی (یعنی دنیا) کو پسند کرتے ہیں۔ ویذرون ۔۔ اس کا عطف یحبون ۔۔ پر ہے۔ اور یحبون کی طرح ان کی خبر ہے۔ یذرون جمع مذکر غائب وذر (باب سمع) مصدر سے بمعنی چھوڑ دینا۔ اس مصدر سے صرف مضارع اور امر کے صیغے آتے ہیں۔ اور چھوڑ دیتے ہیں۔ ورآء ھم مضاف مضاف الیہ۔ ان کے آگے یا پس پشت۔ یوما : یذرون کا مفعول۔ موصوف ثقیلا صفت یوما کی۔ ترجمہ :۔ اور اپنے پس پشت چھوڑ دیتے ہیں بھاری دن کو۔ یوم کو ثقیل اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن معاملہ بہت سخت ہوگا۔ گویا وہ دن سخت اور بھاری ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ یہ جو مکہ کے کافر لوگ ہیں یہ سب کچھ دنیا کے لئے کرتے ہیں اور اسی کے ہی خواہاں ہیں۔ اور آخرت کو انہوں نے بھلا رکھا ہے اس لئے آپ ان کے کہنے پر نہ چلیں ۔ گویا یہ پورا جملہ کفار کی اطاعت کی ممانعت کی علت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور نہ اس کی تیاری کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ صبر سے کام نہیں لیتے حقیقت یہ ہے کہ وہ اعتقاداً یا عملاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم سمجھتے ہیں۔ صبر کا معنٰی یہ ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ صبر نہ کرنے والا شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر آخرت کے مقابلے میں دنیا کے مفاد اور ترقی کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس لیے عجلت کرتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی مشکلات نہیں ہوتیں اگر وہ قیامت کی مشکلات کو اپنے سامنے رکھے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی مشکلات آخرت کی مصیبتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جس کے ذہن میں یہ عقیدہ پختہ ہوجائے۔ اسے صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ صبر کرنے سے ہی انسان قرآن کی تعلیمات پر عمل کرسکتا ہے۔ صبر کا دوسرا مفہوم مستقل مزاجی ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنا راستہ آسان کردیتا ہے کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسی نے اس کے وجود کو مضبوط بنایا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ ہم جب چاہیں تو لوگوں کی شکلیں بدل کر رکھ دیں ان الفاظ کے مفسرین نے تین مفہوم بتلائے ہیں۔ ١۔ ہم چاہیں تو انہیں ہلاک کرکے ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آئیں جو فکرو عمل کے اعتبار سے ان سے بہتر ہوں گے۔ ٢۔ ہم چاہیں تو ان کی شکلیں بدل دیں کیونکہ ہم نے ہی انہیں کمزور سے مضبوط بنایا ہے۔ ٣۔ ہم چاہیں تو انہیں موت کے بعد کسی اور شکل و صورت میں پیدا کریں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا وجود نازک اور ناتواں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے وجود کو درجہ بدرجہ مضبوط کرتا ہے انسان کو توانا بنانے اور صبر وشکر کا راستہ بتلانے کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا ہے چاہے۔ تو اپنے رب کا راستہ اختیار کرے نہ چاہے تو وہ کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرلے تاہم انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کچھ نہیں کرسکتا، یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے مہلت دی ہے۔ انسان کو آزمانے کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ماضی، حال اور مستقبل کو نہیں جانتا اسے تو سب کچھ معلوم ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو کھلا چھوڑ کر آزمائے کہ وہ اس کی رحمت کا حقدار بنتا ہے یا اس کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جو اس کی رحمت کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ہمت اور توفیق عطا فرمائے گا اور اسے اپنی رحمت میں داخل کرے گا، جو اس کی رحمت سے بےپرواہی اختیار کرے گا۔ اسے مہلت دی جائے گی اور وہ ظالموں میں شامل ہوگا اور ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہاں ایک مخصوص انداز میں ایک داعی کو تسلی دی گئی ہے کہ اس کا کام لوگوں کو بتلانا اور سمجھانا ہے۔ بیشک اس کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے کہ لوگ ہدایت یافتہ ہوجائیں مگر اسے یہ سمجھ لینا چا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ رب العزت چاہتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ ) (معجم الاوسط : باب من اسمہ محمد، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا، محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو اپنے لیے بڑی فکر سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پیدا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ ) (رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح) ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتا ہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ “ مسائل ١۔ بیشمار لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت کا دن بڑا بھاری ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے وجود کو مضبوط بنایا۔ جب چاہے وہ اس میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ کی نصیحت پر عمل کرنا اس کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ البتہ ظالموں کے لیے اذیت ناک ہوگا۔ تفسیر بالقرآن آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والے لوگوں کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بیشک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٣۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٩ ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھؤلآئ ........................ ثقیلا ” یہ لوگ تو جلدی حاصل کرنے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہیں اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظر انداز کردیتے ہیں “۔ یہ لوگ جن کی امیدیں نہایت ہی قریبی ہیں ، جو نہایت ہی چھوٹی چیزوں کو بڑی اور اہم سمجھتے ہیں ، جن کی سوچ اور جن کے مطالبے بہت ہی چھوٹے ہیں۔ یہ چھوٹے لوگ ہیں اور یہ اس دنیا ہی میں گم ہیں ، دنیا کے شب وروز ہی ان کے لئے اہم ہیں۔ اور وہ عظیم اور ثقیل دن اور بھاری ذمہ داریوں کا دن ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ حالانکہ وہ بہت ہی بھاری دن ہوگا۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی اطاعت کسی چیز میں نہیں کی جاسکتی۔ جن کا اتباع کسی راہ پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مومنین کے ساتھ کسی دورا ہے پر ملتے ہی نہیں ، کسی نکتے پر ہم مقصد نہیں۔ ان کی نظریں دنیا پر ہیں ، دنیا کے اقتدار اور مال واسباب پر ہیں ، جو نہایت ہی حقیر وقلیل قدروقیمت کی حامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اصل چیز سے غافل ہیں۔ یہ لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز کو حاصل کرتے ہیں اور وہ بھاری نتائج کا دن جب یہ زنجیروں اور طوق وسلاسل میں کجڑے ہوں گے اور سخت حساب و کتاب ہوگا۔ اسے یہ بھولے ہوئے ہیں۔ اس آیت میں روئے سخن تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کی طرف ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں اور ان کے ساتھ سلوک ایسا ہونا چاہئے لیکن بالواسطہ یہ ان لوگوں کی ایک قسم کی دھمکی ہے جو دنیا پرست ہیں اور دنیا کے اہتمامات میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ایسے دنیا پرست لوگ درحقیقت اسلامی تحریک کے کام کے نہیں۔ اب یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ ہی نے ان کو یہ حالات دیئے ہیں ، یہ قوت ، یہ مقام ، یہ شوکت ، ان کو اللہ ہی نے دی ہے۔ اور اللہ اس پر قادر ہے کہ ان لوگوں کو ضعیف وناتواں بنادے اور ان سے ان کی یہ حالت چھین لے لیکن اللہ کے کام گہری حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اس دنیا کو ایک طویل عرصے سے اپنی حکمتوں کے مطابق چلاتا آرہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ﴾ (بلاشبہ یہ لوگ جلدی والی چیز سے محبت کرتے ہیں) ۔ جو لوگ دین اسلام قبول نہیں کرتے تھے (اور اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ ان کے سامنے حق پیش ہوتا ہے تو نہیں مانتے) ان لوگوں کا حق سے منہ موڑنا اس لیے ہے کہ انہیں عاجلہ (جلدی والی چیز) یعنی دنیا محبوب اور مطلوب ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اسلام قبول کیا تو دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے نہ جائیداد رہے گی نہ گھر در اور عہدہ بھی جاتا رہے گا، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ موت کے بعد جو حق قبول نہ کرنے کی سزا ملے گی وہ بہت بڑی ہوگی اور ہمیشہ رہے گی کبھی نہ ٹلے گی یہ ہمیشہ والی سزا جس دن سامنے آئے گی اس دن کی مصیبت کا خیال نہیں کرتے، اسی کو فرمایا : ﴿ وَ يَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيْلًا ٠٠٢٧﴾ (یہ لوگ اپنے سامنے بڑے بھاری دن کو چھوڑے ہوئے ہیں) درحقیقت دنیا امتحان کی جگہ اور دنیا و آخرت دونوں سوتنیں ہیں ایک سے محبت کی تو دوسری گئی اور عجیب بات یہ ہے کہ جن کے پاس ذرا سی بھی دنیا نہیں ہے نہ مال ہے نہ جاہ نہ پیسہ نہ کوڑی نہ عہدہ نہ منصب نہ جاہ نہ عزت، وہ بھی کفر سے چپکے ہوئے ہیں۔ واللہ الہادی الی سبیل الرشاد۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” ان ھؤلاء “ یہ منکرین توحید و قیامت پر زجر ہے اور اس میں سورة قیامت کی آیتوں “ کلا بل تحبون العاجلۃ۔ وتذرون الاخرۃ “ کے مضمون کا اعادہ ہے۔ یہ لوگ صرف دنیا کے منافع چاہتے ہیں اور قیامت کے کٹھن اور ہولناک دن کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ وہ دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لیے ان کی تمام تگ و دو دنیا کی تحصیل کیلئے ہے اور آخرت پر چونکہ ان کا ایمان ہی نہٰں، اس لیے وہ اس سے بےاعتنائی برت رہے ہیں اور اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کر رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) کیونکہ یہ منکر دنیا کو دوست رکھتے اور دنیا کو پسند کرتے ہیں اور ایک بہت بھاری دن کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ یعنی چونکہ یہ دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور ان کو آخرت کا کوئی خیال نہیں ہے اور انہوں نے آخرت کو نظر انداز کررکھا ہے اور جو ہولناک دن آگے آنے والا ہے اس کو پس پشت ڈال رکھا ہے اس لئے یہ لوگ آپ کا کہنا نہیں مانتے اور آپ کی بات ان کی سمجھ میں نہیں بیٹھتی۔