Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 29

سورة الدھر

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿۲۹﴾

Indeed, this is a reminder, so he who wills may take to his Lord a way.

یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی راہ لے لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ ... Verily, this is an admonition, meaning, this Surah is a reminder. ... فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلً so whosoever wills, let him take a path to his Lord. meaning, a path and a way. This means, whoever wishes to be guided by the Qur'an. This is similar to Allah's statement, وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ ءَامَنُواْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ And what loss have they if they had believed in Allah and in the Last Day. (4:39) Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی اس قرآن سے ہدایت حاصل کرے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] یہ قرآن تمہیں تمہاری فطرت کی یاددہانی کرانے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اور تمہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اس کی نصیحت کو قبول کرلو اور چاہے تو رد کردو۔ نہ قرآن تمہیں کسی بات پر مجبور بنانے کے لیے نازل کیا گیا ہے اور نہ حامل قرآن میں یہ قدرت ہے کہ تمہیں زبردستی راہ راست پر لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان ھذہ تذکرۃ…: یعنی یہ سورت یا موعظت نصیحت ہے، اس سے صحیح راستہ واضح ہوگیا ، کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا، اب جو چاہے اپنے رب کی طرح جانے کا راستہ اختیار کرلے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْكِرَۃٌ۝ ٠ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًا۝ ٢٩ تَّذْكِرَةُ والتَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . ( ذک ر ) تَّذْكِرَةُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ سورت اللہ کی طرف سے نصیحت ہے سو جو شخص چاہے وحدانیت اختیار کر کے اپنے رب کی طرف کا راستہ اختیار کرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩{ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌج } ” یقینا یہ تو ایک یاد دہانی ہے۔ “ { فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ۔ } ” تو جو چاہے اپنے ربّ کی طرف راستہ اختیار کرلے۔ “ یعنی جس کا جی چاہے اپنے رب کے قرب کا راستہ اختیار کرلے۔ اس مضمون کے حوالے سے صوفیاء کے ہاں سیر الی اللہ ‘ تقرب الی اللہ ‘ سلوک الی اللہ وغیرہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:29) ان ھذہ تذکرۃ : ان حرف تحقیق ۔ حر مشبہ بالفعل ھذہ (یہ سورة یا یہ آیات) اسم اشارہ واحد مؤنث (اسم ان) تذکرۃ۔ ان کی خبر، بروزن تفعلۃ باب تفعیل کا مصدر۔ یاد دہانی ، نصیحت، یاد کرنے کی چیز۔ ترجمہ ہوگا :۔ یہ (آیات یا یہ سورۃ) ایک نصیحت ہے (سب کے لئے) ۔ فمن شاء اتخذ الی ربہ سبیلا : ف عطف کے لئے ہے، بمعنی پس، پھر۔ من شرطیہ ہے۔ شاء ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ مشیئۃ (باب سمع) مصدر۔ شاء اصل میں شیء تھا۔ ی متحرک ماقبل مفتوح۔ اس کو الف سے بدلا۔ اس نے چاہا۔ اس نے ارادہ کیا۔ اتخذ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اتخاذ (افتعال) مصر ۔ بمعنی اختیار کرنا۔ پسند کرنا۔ سبیلا۔ راستہ۔ راہ۔ سبیل، منصوب بوجہ اتخذ کے مفعول ہونے کے ہے۔ سبیلا کا استعمال ہر اس شے کے لیے ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی شے تک پہنچا جاسکے خواہ وہ شے شر ہو یا خبر۔ نیز واضح راستہ بھی اس سے مراد لیا جاتا ہے۔ یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے وان یروا سبیل الرشد لایتخذوہ سبیلا اور اگر راستی کا راستہ دیکھیں تو اسے (اپنا) راستہ نہ بنائیں۔ اور بطور مؤنث بھی مستعمل ہے جیسے قل ھذہ سبیلی (12:108) کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر جس نے چاہا اس نے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرلیا۔ یا پس جس کا جی چاہے اپنے رب کے قریب کا راستہ اختیار کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھذہ .................... سبیلا اور اس کے بعد یہ تصریح بھی کردی جاتی ہے کہ اللہ کی مشیت بےقید ہے۔ اور ہر چیز اللہ کی مشیت کے مطابق ظہور پذیر ہوتی ہے۔ تاکہ لوگوں کی آخری توجہ اللہ کی طرف ہو۔ اور آخر کار سب لوگ اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔ انسان اپنی قوت پر مغرور ہونے کی بجائے اللہ کی قوت پر بھروسہ کرے۔ اور یہ عقیدہ رکھے کہ حقیقی قوت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے یعنی پوری طرح اللہ کے آگے جھک جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ١ۚ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا ٠٠٢٩﴾ (بلاشبہ یہ نصیحت ہے سو جو شخص چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے) ۔ ﴿ وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآء اللّٰهُ ١ؕ﴾ (اور اللہ کی مشیت کے بغیر تم کچھ نہیں چاہ سکتے) جو وہ چاہے گا وہی چاہو گے جو وہ چاہے گا وہی ہوگا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًاۗۖ٠٠٣٠﴾ (بیشک اللہ علیم ہے حکیم ہے) ﴿ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ ١ؕ﴾ (وہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمائے) ﴿ وَ الظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا (رح) ٠٠٣١﴾ (اور جو ظالم ہیں ان کے لیے اس نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے) ۔ وھذ آخر تفسیر سورة الانسان والحمد للہ الملیک الرحمن والصلٰوة والسلام علی سید ولد عدنان، وعلی آلہ وصحبہ الذین نقلوا القرآن، فلھم الاجر الی آخر الازمان۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” ان ھذہ “ یہ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے وہ عبرت و نصیحت کے لیے کافی ہے۔ اب جو چاہے اس کو مان کر اور اس پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کا راستہ یعنی اسلام اور توحید کا راستہ اختیار کرلے۔ ” وما تشاءون “ لیکن تمہارا ارادہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے صرف وہی ہدایت پر آئے گا جس کے ہدایت پر آنے کے ساتھ ارادہ خداوندی متعلق ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف ان لوگوں کی ہدایت سے متعلق ہوتا ہے جو منیب ہوں اور انصاف و اخلاص کے ساتھ راہ ہدایت کے طالب ہوں جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” ویھدی الیہ من ینیب “ (شوری رکوع 2) ۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) یہ مذکورہ مضمون ایک نصیحت ہے پس جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرے۔