Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 8

سورة المرسلات

فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ ۙ﴿۸﴾

So when the stars are obliterated

پس جب ستارے بے نور کر دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then when the stars lose their lights. meaning, their light will leave. This is similar to Allah's statement, وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ And when the stars fall. (81:2) It is also similar to His statement, وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ And when the stars have fallen and scattered. (82:2) Then Allah says, وَإِذَا السَّمَاء فُرِجَتْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 طَمْس کے معنی مٹ جانے اور بےنشان ہونے کے ہیں، یعنی جب ستاروں کی روشنی ختم بلکہ ان کا نشان تک مٹ جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاذا النجوم طمست…:” اقتت “ اصل میں ” وقتت “ تھا۔ ” التوقیت “ وقت مقرر کرنا۔ یہاں سے اس دن کی کچھ نشانیاں بیان فرمئایں کہ اس دن ت اورں کی روشنی جاتی رہے گی۔ (دیکھیے انشقاق : ١- انفطار : ١۔ نبا : ١٨-١٩ فرقان : ٢٥) اور پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا۔ (دیکھیے طہ : ١٠٥- واقعہ : ١ تا ٦ ۔ حاقہ ؎ ١٣ تا ١٥۔ مزمل : ١٤۔ قارعہ : ٥) اور وہ وقت آجائے گا جو رسولوں کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا کہ ایک دن انہیں جمع کیا جائے گا اور وہ اپنی اپنی امت کو دین حق پہنچانے کی شہادت دیں گے۔ (دیکھیے نسائ ٤١: مائدہ : ١٠٩) یہ سب چیزیں کس دن کے لئے موخر کی گئی ہیں ؟ فیصلے کے دن کے لئے ۔ پھر اس دن کی عظمت وہیبت بیان کرنے کیلئے فرمایا :” اور تھجے کس چیز نے معلوم کروایا کہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟ “ مطلب یہ ہے کہ کوئی انداز ہی نہیں کرسکتا کہ وہ دن کتنا عظ یم ہے کہ آپ کو بتاسکے۔ ہاں ، اللہ تعالیٰ خود کچھ بتادے تو الگ بات ہے۔ مختصر یہ کہ وہ دن اتنا خوف ناک ہے کہ جھٹلانے والوں کے لئے اس دن ” ویل “ یعنی خرابی اور بربادی ہے۔ اس سورت میں ” ویل یومئذ المکذبین “ دس مرتبہ آیا ہے، تکرار سے مقصود اس دن سے زیادہ سے زیادہ ڈرانا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۝ ٨ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ طمس الطَّمْسُ : إزالةُ الأثرِ بالمحو . قال تعالی: فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] ، رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] ، أي : أزل صورتها، وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] ، أي : أزلنا ضوأها وصورتها كما يُطْمَسُ الأثرُ ، وقوله : مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] ، منهم من قال : عنی ذلک في الدّنيا، وهو أن يصير علی وجوههم الشّعر فتصیر صورهم کصورة القردة والکلاب «3» ، ومنهم من قال : ذلك هو في الآخرة إشارة إلى ما قال : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ، وهو أن تصیر عيونهم في قفاهم، وقیل : معناه يردّهم عن الهداية إلى الضّلالة کقوله : وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] ، وقیل : عنی بالوجوه الأعيان والرّؤساء، ومعناه : نجعل رؤساء هم أذنابا، وذلک أعظم سبب البوار . ( ط م س ) الطمس کے معنی کسی چیز کا نام ونشان مٹادینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] جب ستاروں کی روشنی جاتی رہے گی ۔ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] اے پروردگار ان کے مال و دولت کو تباہ وبرباد کردے یعنی ان کا نامونشان مٹادے ۔ وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر اندھا کردیں ۔ یعنی آنکھوں کی روشنی سلب کرلیں اور انکار نشان مٹادیں جس طرح کہ کسی کو مٹادیا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] قبل اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ کر ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ دنیا ان کے چہروں کو بگاڑنا مراد ہے مثلا ان کے چہروں پر بال اگادیں ۔ ان کی صورتیں بندروں اور کتوں جیسی کردی جائیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرت میں ہوگا جس کی طرف کہ آیت : ۔ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا میں اشارہ پایا جاتا ہے اور چہروں کو مٹانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھیں گدی پر پر لگادی جائیں اور یاہدایت سے گمراہی کی طرف لوٹا دینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] اور باوجود جاننے بوجھنے کے ( گمراہ ہورہا ہے نہ تو خدا نے بھی اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی ۔ بعض نے کہا ہے کہ وجوہ سے قوم کے اعیان اکابر مراد اور معنی یہ ہیں کہ ہم بڑے بڑے سر داروں کو رعیت اور محکوم بنادیں اس سے بڑھ کر اور کونسی ہلاکت ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ١٥) اب اللہ تعالیٰ اس کا وقت بیان فرماتے ہیں کہ جب ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور جب تمام پیغمبر جمع کیے جائیں گے اور تمام وقت معینہ پر ہوں گے اور کسی دن کے لیے یہ معاملہ ملتوی رکھا گیا ہے مخلوقات کے فیصلہ کے دن کے لیے اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ فیصلہ کا دن کیسا ہے تو اس روز یعنی قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ ۔ } ” پس جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔ “ یعنی بےنور کردیے جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, when they lose their light and lustre.

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :4 یعنی بے نور ہو جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہو جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:8) فاذا النجوم طمست : فاذا شرطیہ ہے اسی طرح اگلی آیات نمبر 9، 10، 11 میں اذا شرطیہ ہے اور سارے جملے شرطیے ہیں جن کا جواب محذوف ہے۔ یعنی اس روز اہل جنت اور اہل دوزخ کو جدا جدا کردیا جائے گا۔ طمست۔ ماضی مجہول واحد مؤنث غائب۔ طمس (باب ضرب و نصر) مصدر۔ وہ مٹائی گئی ۔ یا بمعنی مستقبل۔ وہ مٹائی جائے گی۔ (وہ ستارے مٹا دئیے جائیں گے۔ بےنور کر دئیے جائیں گے۔ طمس کا استعمال متعدی اور غیر متعدی دونوں طرح پر ہوتا ہے۔ یعنی مٹانے اور محو کردینے کے معنی بھی آتے ہیں۔ اور ہٹ جانے اور محو ہوجانے کے بھی۔ آیت ہذا میں بعض اہل لغت نے اس کے معنی ” جب ستارے مٹائے جائیں “ لئے ہیں۔ لیکن ابن سیدہ نے محکم میں تصریح کی ہے کہ نجم، قمر، بصر، کے ساتھ جب طمس کا استعمال ہوگا تو ” بےنور ہونے “ اور ” روشنی زائل ہوجانے “ کے معنی ہوں گے۔ اسی طرح ازہری نے تھذیب اللغۃ میں لکھا ہے کہ طموس الکواکب کے معنی ستاروں کے بےنور ہونے اور روشنی ماند پڑجانے کے ہیں۔ اس اعتبار سے آیت ہذا میں ستاروں کا بےنور ہونا اور ماند پڑجانا مراد ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاذا النجوم ............................ للمکذبین جب ستارے ماند پڑجائیں گے اور ان کی روشنی چلی جائے گی۔ اور جب آسمان میں دراڑیں پڑجائیں گی اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑادیئے جائیں گے۔ اس قسم کے مناظر اور مشاہد کو قرآن کی مختلف سورتوں میں مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ نظر آنے والی کائنات ایسی نہ رہے گی اور اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ یہ کر ات سماوی ریزہ ریزہ ہوں گے۔ بہت عظیم دھماکے ہوں گے ، یہ عظیم دھماکے ایسے ہی ہوں گے جس طرح کے دھماکے معمولی پیمانے ، وہ زلزلوں اور آتش فشانی کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔ گویا قیامت کے دن یہ زلزلے ، دھماکے معمولی پیمانے کے ، وہ زلزلوں اور آتش فشانی کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔ گویا قیامت کے دن یہ زلزلے ، دھماکے ، آتش فشانی کے واقعات بہت بڑے پیمانے پر ہوں گے۔ جس طرح عید اور شب قدر کے موقعہ پر بچے آتش فشانی کرتے ہیں یا مثلاً ایٹمی دھماکے اور ہائیڈروجن کے دھماکے۔ لیکن پوری کائنات کے کر ات کے باہم ٹکرانے سے جو ہولناکیاں پیدا ہوں گی وہ بہت عظیم ہوں گے۔ وہ انسانی تصور سے بالا ہیں اور ان دھماکوں کے بعد پھر انسانوں کا زندہ موجود رہنا اور تماشے دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان دھماکوں اور ہولناکیوں کے بعد پھر یہ سورت بتاتی ہے کہ ایک دوسرا عظیم واقعہ ہوگا اور وہ یہ کہ رسولوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے فریضہ رسالت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کریں۔ آدم (علیہ السلام) سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک رسولوں کی حاضری کا وقت آجائے گا۔ اور یہ حساب و کتاب اس قدر عظیم ہوگا جس کے لئے اس پوری کائنات کے اندر زلزلہ برپا کرکے میدان ہموار کیا گیا۔ زمینی زندگی کے تمام فیصلے اب ہوں گے۔ اور ہر فیصلے اللہ کے احکام کے تحت ہوں گے۔ اور تمام نسلوں کے انجام کا آخری فیصلہ کردیا جائے گا۔ قرآن کریم نے اس مسئلے کو نہایت ہی ہولناک انداز میں پیش کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی عظیم حقیقت ہے۔ اس قدر عظیم کہ انسان اچھی طرح اس کا اور اک بھی نہیں کرسکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قیامت کے دن کی کیفیت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ستارے بےنور ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے اور حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) وقت مقرر پر جمع کیے جائیں گے اس وقت فیصلہ کیا جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” فاذ النجوم “ یہ تخویف اخروی ہے اور اس میں قیامت کا ہولناک منظر بیان کیا گیا ہے اور یہ ” انما توعدون “ سے متعلق ہے حاصل یہ کہ جزاء اور سزا ضرور ہوگی۔ یہ معاندین اب تو نہیں مانتے لیکن جب قیامت قائم ہوگی تو ان کا کیا حال ہوگا جب تارے بےنور کردئیے جائیں گے اور آسمان ٹکڑے ٹکڑے کردئیے جائیں گے اور پہاڑ ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے اور انبیاء و رسل (علیہم السلام) کو میعاد مقررہ پر جمع کیا جائے گا۔ ان کو یہ میعاد کس دن کے لیے دی گئی تھی ؟ لیوم الفصل یہ ماقبل کا بیان ہے یعنی ان کو یہ میعاد مخلق کے درمیان فیصلہ کے دن کے لیے دی گئی تھی۔ یہی وہ دن ہے جس کے وہ منتظر تھے۔ ” وما ادراک ما یوم الفصل “ یہ سوال قیامت کی شدت و عظمت کے اظہار کے لیے ہے تمہیں کیا معلوم وہ فیصلہ کا دن کیا ہے اس کا تو بیان بھی نہیں ہوسکتا۔ ” ویل یومئذ للمکذبین “ ان جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت اور ویل ہے کہ ایسے ہولناک دن سے بھی نہیں ڈرتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) سو جب ستارے ہٹا دیئے جائیں۔ یعنی ستارے بےنور ہوجائیں۔