Surat un Naba
Surah: 78
Verse: 12
سورة النبأ
وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ﴿ۙ۱۲﴾
And constructed above you seven strong [heavens]
اورتمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے ۔
وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ﴿ۙ۱۲﴾
And constructed above you seven strong [heavens]
اورتمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے ۔
And We have built above you seven strong, meaning, the seven heavens in their vastness, loftiness, perfection, precision, and adornment with both stable and moving stars. Thus, Allah says, وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا
(وبنینا فوقکم سبعاً شداداً…: آدمی کے نیچے اور گرد و پیش کے عجائب کے بعد اوپر کے عجائب کی طرف توجہ دلائی۔ فرمایا ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسان بنائے جن میں نہ شگاف ہے نہ کوئی کمزوری نہ گرتے ہیں نہ وہاں کسی شیطان کا دخل ہے۔ ” شدیدۃ “ کی جمع ہے، محکم ، مضبوط۔
وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ١٢ ۙ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ : معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ : 225- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع . ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد |" عدد تام |" ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔
9 "Strong" in the sense that their boundaries are so strongly fortified that no change whatever occurs in them, nor does any of the countless stars and planets in the heavens, violating these boundaries, collide with the other, nor falls down to the earth. (For further explanation, see E.N. 34 of Al-Baqarah, E.N. 2 of Ar Ra'd, E.N.'s 8, 12 of Al-Hijr, E.N. 15 of AI-Mu'minun, E.N. 13 of Luqman, E.N. 37 of Ya Sin, E.N.'s 5, 6 of As-Saaffat, E.N. 90 of Al-Mu'min, E.N.'s 7, 8 of Surah Qaf) .
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :9 مضبوط کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ ان کی سرحدیں اتنی مستحکم ہیں کہ ان میں ذرہ برابر تغیر و تبدل نہیں ہونے پاتا اور ان سرحدوں کو پار کر کے عالم بالا کے بے شمار ستاروں اور سیاروں میں سے کوئی نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ تمہاری زمین پر آ گرتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 34 ۔ جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 2 ۔ الحجر ، حواشی 8 ، 12 ۔ جلد سوم ، المؤمنون ، حاشیہ 15 ۔ جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 13 ۔ یٰسین ، حاشیہ 37 ۔ الصافات ، حواشی 5 ۔ 6 ۔ المومن ، حاشیہ 90 ۔ جلد پنجم ، ق حواشی 7 ۔ 8 ) ۔
١٢۔ ١٦۔ زمین کے عجائبات کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں آسمانی عجائبات کا ذکر ہے سات چنائیوں سے سات آسمان مراد ہیں مضبوطی انکی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ ہزارہا برس سے بغیر کسی طرح کی مرمت کے بالکل بےسہاراکھڑے ہیں اور یہ تو اوپر گزرچکا ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کا راستہ کا فاصلہ ہے اور اسی قدر ہر ایک آسمان کا دل ہے۔ چمکتے ہوئے چراغ سے مراد سورج ہے کہ جس کی چمک ساری دنیا میں یکساں ہے۔ معصرات کے معنی میں سلف کے دو ١ ؎ قول ہیں ‘ ایک ہوا دوسراخوب برسنے والا بال۔ مطلب دونوں قولوں کا یہ ہے کہ پہلے ہوا آسمان پر چلتی ہے۔ اس سے بادل اکٹھے ہو کر جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے وہاں مینہ برستا ہے جس سے طرح طرح کا اناج میوہ اور جانروں کا چارہ پیدا ہوتا ہے۔ ماء ثجاجا کے معنی لگاتار بارش۔ الفافا کے معنی خوب گھنے کے درخت۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٢ ج ٤)
(78:12) وبنینا فوقکم سبعا شدادا۔ واؤ عاطفہ۔ بنینا ماضی جمع متکلم بنی یبنی بناء (باب ضرب۔ ب ، ن، ی مادہ) مصدر۔ بنانا۔ تعمیر کرنا۔ فوقکم مضاف مضاف الیہ۔ متعلق فعل۔ سبعا اسم عدد مفعول۔ سات (آسمان) موصوف۔ شدادا۔ صفت، مضبوط، سخت، شدید کی جمع۔ اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط (آسمان) بنائے۔
ف 9 کہ ہزاروں برس گزرنے پر بھی ان میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔
فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم تخلیقات کے مزید دلائل۔ اللہ تعالیٰ کی بےمثال تخلیقات میں آسمان بھی اس کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے جسے بغیر ستونوں کے کھڑا کیا گیا ہے اس کے حسن و کمال کے بارے میں ارشاد ہے : ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کا خلل نہیں پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں خلل نظر آتا ہے ؟ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر واپس پلٹ آئے گی۔ ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے شیطانوں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ “ (الملک : ٣ تا ٥) آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کے حصے کو روشن رکھنے کے لیے چمکتا ہوا سورج بنایا۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ یہ چمکنے اور بھڑکنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا ہے۔ سورج میں اس قدر حرارت اور حِدّت ہے کہ اگر یہ اپنے مدار سے چند میل نیچے آجائے تو ہر چیز تباہ ہو کر رہ جائے۔ یہ اللہ کی قدرت کا عظیم مظہر ہے کہ سورج کو ایک مقررہ فاصلے پر رکھا اور اس میں اتنی روشنی اور تپش پیدا کی ہے کہ جس سے نہ فضا میں رہنے والی مخلوق جلتی ہے اور نہ ہی نباتات کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اگر سورج زمین کو خاص مقدار میں روشنی اور حرارت نہ دے تو نہ فصلیں پک سکتی ہیں اور نہ ہی پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوگی۔ یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں اور پھر بادل بن کر زمین پر برستے ہیں۔ ” اَلْمُعْصِرَاتِ “ کا معنٰی پانی، نچوڑنے والے بادل اور ” ثَجَّاجاً “ کا معنٰی بہت برسنے والی بارش۔ اگر ایک مدت تک بارش کا سلسلہ بند ہوجائے تو ہر جاندار کی خوراک ختم ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا ثمرہ ہے کہ وہ بارش برسا کر اناج، سبزیاں اور باغات سے پھل پیدا کرتا ہے۔ آسمان اور سورج ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انسان گمان کرتا ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گے حالانکہ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی ان کے فنا ہونے کا وقت مقرر ہے۔ اس دن صور پھونکا جائے گا تو لوگ فوج در فوج زمین سے نکل کھڑے ہوں گے، قیامت کے دن آسمان کے بندھن کھول دیئے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں آسمان دروازوں کی شکل اختیار کر جائے گا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرپڑے گا۔ پہاڑ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریت کی صورت اختیار کرجائیں گے۔ ان آیات میں پہلی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا مختصر ذکر فرما کر قیامت کے دو مناظر پیش کیے ہیں۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ اسرافیل کے پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے ہر چیز تباہ ہوجائے گی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے سے انسان اپنے اپنے مرقد سے نکل کر گروہ درگروہ محشر کے میدان میں حاضر ہوجائیں گے۔ اس وقت حساب و کتاب ہوگا اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں انہیں کہا جائے گا کہ کیا تم وہی لوگ ہو جو ہمارے فرمودات کو جھٹلایا کرتے تھے، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا حساب و کتاب رکھنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ ہم نے ہر چیز کا ایک کتاب میں ا ندراج کر رکھا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو نافرمانوں کا ٹھکانہ ہے وہ اس میں مدت مدید تک پڑے رہیں گے اس میں نہ سکون پائیں گے اور نہ ہی پینے کے لیے کوئی ٹھنڈا مشروب ہوگا۔ سوائے اس کے کہ انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور جہنم کی پیپ دی جائے گی یہ سزا ان کے اعمال کا نتیجہ ہوگی اس لیے انہیں کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ کے لیے صرف عذاب ہی عذاب پاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اوپر سات آسمان بنائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے درمیان چمکتا اور بھڑکتا ہوا سورج بنایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں سے بارش نازل کرتا ہے اور بارش سے دانے، سبزیاں اور پھل پیدا کرتا ہے۔ ٤۔ قیامت کا ایک دن اور وقت مقر رہے۔ ٥۔ قیامت کے دن پہلی دفعہ صورپھونکنے سے آسمان دروازوں کی شکل اختیار کرجائے گا اور پہاڑ بالآخر بکھری ہوئی ریت کی طرح ہوجائیں گے۔ ٦۔ قیامت کے دن دوسری مرتبہ صورپھونکنے سے لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر فوج درفوج محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ ٧۔ اللہ کے نافرمانوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو ان کے رہنے کی بدترین جگہ ہے۔ ٨۔ جہنم میں نہ سایہ ہوگا اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈا پانی۔ ٩۔ جہنم کو کھولتا ہوا پانی اور ان کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ١٠۔ جہنمی کو اس یے جہنم میں جھونکا جائے گا کیونکہ وہ قیامت اور حساب و کتاب کا انکار کیا کرتے تھے۔ ١١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس لوح محفوظ میں ہر چیز کا اندراج کر رکھا ہے۔
وبنینا فوقکم ........................ الفافا (12:78 تا 16) ” اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا ، اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے غلہ سبزی اور گھنے باغ اگائیں “۔ اور وہ وسیع شداد جو انسان کے اوپر کھڑے کیے گئے وہ سات آسمان ہیں اور دوسری جگہ ان کو سات راستے کہا گیا ہے۔ ان سے حقیقی طور پر مقصود کیا ہے۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ سات کہکشانی ہے بھی ہوسکتے ہیں ، یہ کہکشانی مجموعے اس قدر بڑے ہیں کہ ان میں سے ایک ہی کہکشانی گروپ میں ستاروں کی تعداد ایک سو ملین کے لگ بھگ ہے۔ اور ان سات مجموعوں کا ہماری زمین اور ہمارے مجموعہ شمسی سے تعلق ہے اور ان ” وسیع شدا “ کا کوئی اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس بات کو للہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ اس کائنات کے بارے میں ہمارا موجودہ علم بہت زیادہ دکھائی دینے کے باوجود بہت ہی قلیل ہے۔ اس آیت میں جو کچھ بتایا گیا وہ یہ ہے کہ یہ سات آسمان نہایت مضبوط ہیں۔ ان کی عمارت نہایت پختہ ہے۔ اور اس قدر مضبوطی کے ساتھ باہم وگرپیوست کردیئے گئے ہیں کہ ان کے سنچے میں کسی جگہ ٹوٹ پھوٹ اور انفکاک ممکن نہیں ہے۔ اور یہ وہی ہیں جن کو ہم اس فضائے کائناتی میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن پر آسمانوں کا لفظ بولا جاتا ہے اور لوگ سمجھ لیتے ہیں اور دوسری چیز یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ سات مضبوط آسمان زمین سے بھی مربوط ہیں اور انسان اور تمام دوسری زندہ مخلوقات سے بھی مربوط ہیں۔ اس لئے ان سات مضبوط چیزوں کا ذکر انسان کی زندگی اور اس کے قیام وانصرام کی تدابیر کے ضمن میں کیا گیا۔