Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 16

سورة النبأ

وَّ جَنّٰتٍ اَلۡفَافًا ﴿ؕ۱۶﴾

And gardens of entwined growth.

اور گھنے باغ ( بھی اگائیں )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That We may produce therewith corn and vegetation, and gardens that are Alfaf. meaning, `so that We may bring out great abundance, goodness, benefit, and blessing through this water.' حَبّاً grains, This refers to that which is preserved for (the usage) of humans and cattle. وَنَبَاتاً and vegetations, meaning, vegetables that are eaten fresh. وَجَنَّـتٍ And gardens, meaning, gardens of various fruits, differing colors, and a wide variety of tastes and fragrances, even if it is ingathered at one location of the earth. This is why Allah says وَجَنَّـتٍ أَلْفَافاً (And gardens that are Alfaf). Ibn `Abbas and other said, "Alfaf means gathered." This is similar to Allah's statement, وَفِى الاٌّرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَـوِرَتٌ وَجَنَّـتٌ مِّنْ أَعْنَـبٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَنٌ وَغَيْرُ صِنْوَنٍ يُسْقَى بِمَأءٍ وَحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِى الاٍّكُلِ إِنَّ فِى ذلِكَ لايَـتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ And in the earth are neighboring tracts, and gardens of vines, and green crops, and date palms, growing into two or three from a single stem root, or otherwise, watered with the same water; yet some of them We make more excellent than others to eat. Verily, in these things there are Ayat for the people who understand. (13:4)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 شاخوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے درخت یعنی گھنے باغ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] بارش کا نزول اور روئیدگی :۔ پھر اسی سورج کی حرات سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر پانی کے قطرے بن کر برسنے لگتے ہیں۔ یہی بارش زمین سے نباتات اور درختوں کی روئیدگی کا سبب بنتی ہے اور یہی نباتات روئے زمین پر بسنے والی تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ اور زندگی کی بقا کا سبب بنتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا۝ ١٦ ۭ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ لفف قال تعالی: فَإِذا جاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] أي : منضمّا بعضکم إلى بعض . يقال : لَفَفْتُ الشیء لَفّاً ، وجاء وا ومن لَفَّ لِفَّهُمْ ، أي : من انضمّ إليهم، وقوله : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] أي : التفّ بعضها ببعض لکثرة الشّجر . قال : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] والْأَلَفُّ : الذي يتدانی فخذاه من سمنه، والْأَلَفُّ أيضا : السّمين الثقیل البطیء من الناس، ولَفَّ رأسه في ثيابه، والطّائر رأسه تحت جناحه، واللَّفِيفُ من الناس : المجتمعون من قبائل شتّى، وسمّى الخلیل کلّ كلمة اعتلّ منها حرفان أصليّان لفیفا . ( ل ف ف ) الففت الشئی لفا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مدغم کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے ۔ اور محاورہ ہے : جآء وا من لف لفھم یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے ۔ اور آیت کریمہ : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] اور گھنے گھنے باغ میں الفاف سے مراد ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں ۔ التف ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا ۔ قرآن میں ہے : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی سے پندلی لپٹ جائے گی ۔ الالف۔ وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی الف کہاجاتا ہے ۔ لف راسہ ۔ اس نے اپنے سر کو ( کپڑوں ) ۔۔۔ میں ) چھپالیا ۔ اللفیف۔ مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصل میں سے دو حرف علت ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 For the details of the wonderful manifestations of Allah Almighty's power and wisdom in making arrangements for the rain and the growth of vegetation thereby, set E.N. 53 (a) of An-Nahl, E.N. 17 of AI-Mu'minun, E.N. 5 of Ash-Shua'ra', E.N. 35 of Ar-Rum E.N. 19 of Fatir E.N. 29 of Ya Sin, E.N. 20 of Al-Mu'min, E.N.'s 10, 11 of Az-Zukhruf, E.N.'s 28 to 30 of Al-Waqi'ah. After presenting a number of the signs and testimonies, one after the other, in these verses, the deniers of the Resurrection and Hereafter have been exhorted, so as to say: "If you consider the earth and the mountains and your own creation, your sleep and wakefulness, and the system of the day and night intelligently, and consider the well-fortified system of the universe and the shining sun in the heavens, the rain falling from the clouds and the vegetables growing thereby, you will see two things very clearly: first, that all this could neither come into existence without a mighty power, nor continue to exist and function so regularly; second, that in each of these great wisdom is working and nothing that happens here is purposeless. Now, only a foolish person could say that the Bring Who by His power has brought these things into existence, does not have the power to destroy them and create them once again in some other form, and this also could be said only by an unreasonable person that the Wise Bring Who has not done anything without purpose in this universe, has given to man in His world understanding and intelligence, discrimination between good and evil, freedom to obey or disobey, and powers of appropriation over countless of His creatures, without any purpose and design: whether man uses and employs the things granted by Him in the right way or the wrong way, it dces not make any difference; whether man continues to do good throughout life till death, he will end up in the dust, or continues to do evil till death, he will likewise end up in the dust; neither the virtuous man will receive any reward for the good deeds nor the bad man will be held accountable for his evil deeds. These very arguments for life after death and Resurrection and Hereafter have been given here and there in the Qur'an, e.g. see E.N. 7 of ArRa'd, E.N. 9 of Ai-Hajj, E.N. 6 of Ar-Rum, .E.N.'s 10, 12 of Saba, E.N.'s 8, 9 of As-Saaffat.

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :11 زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کے جو جو حیرت انگیز کمالات کارفرما ہیں ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے: جلد دوم ، النحل حاشیہ 53 الف ۔ جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 17 ۔ الشعراء ، حاشیہ 5 ۔ الروم حاشیہ 35 ۔ جلد چہارم ، فاطر ، حاشیہ 19 ۔ یٰسین ، حاشیہ 29 ۔ المومن ، حاشیہ 20 ۔ الزخرف ، حواشی 10 ۔ 11 ۔ جلد پنجم ، الواقعہ ، حواشی 28 تا 30 ۔ ان آیات میں پے درپے بہت سے آثار و شواہد کو پیش کر کے قیامت اور آخرت کے منکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم آنکھیں کھول کر زمین اور پہاڑوں اور خود اپنی پیدائش اور اپنی نیند اور بیداری اور روز و شب کے اس انتظام کو دیکھو ، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اور آسمان کے چمکتے ہوئےسورج کو دیکھو ، بادلوں سے برسنے والی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو ، تو تمہیں دو باتیں ان میں نمایاں نظر آئیں گی ۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں آ سکتا ہے ، نہ اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر چیز کے اندر ایک عظیم حکمت کام کر رہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں ہو رہا ہے ۔ اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا ہے کہ جو قدرت ان ساری چیزوں کو وجود میں لانے پر قادر ہے وہ انہیں فنا کر دینے اور دوبارہ کسی اور صورت میں پیدا کر دینے پر قادر نہیں ہے ۔ اور یہ بات بھی صرف ایک بے عقل ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں کوئی کام بھی بے مقصد نہیں کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں انسان کو سمجھ بوجھ ، خیر و شر کی تمیز ، اطاعت و عصیان کی آزادی ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں ، انسان اس کی دی ہوئی چیزوں کو اچھی طرح استعمال کرے یا بری طرح ، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ، کوئی بھلائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی میں مل کر ختم ہو جائے گا اور برائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں مل کر ختم ہو جائے گا ، نہ بھلے کو اس کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا ، نہ برے سے اس کی برائی پر کوئی باز پرس ہو گی ۔ زندگی بعد موت اور قیامت و آخرت پر یہی دلائل ہیں جو جگہ جگہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 7 ۔ جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 9 ۔ الروم ، حاشیہ ، 6 ۔ جلد چہارم ، سبا ، حواشی 10 ، 12 ۔ الصافات ، حواشی 8 ۔ 9 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ان تمام چیزوں کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جو ذات ایسا نظام بنا اور چلا سکتی ہے اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اسی مناسبت نے آگے آخرت کا ذکر آرہا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور پتیوں میں لپٹے ہوئے یعنی گنجان باغ پیدا کریں، یعنی گیہوں ، جو ، چنا وغیرہ اور مختلف قسم کی گھاس سبزیاں وغیرہ اور ایسے باغ پیدا کریں جن میں بکثرت پتے ہوں اور درخت پاس پاس ہوں یعنی خوب گنجان باغ پیدا کریں۔ آگے یوم الفصل کی مختصر سی تفصیل ہے چونکہ اوپر والمرسلات میں یوم الفصل کا ذکر آیا تھا اس لئے یہاں اس کی مزید تفصیل مذکور ہے۔