Surat un Naba
Surah: 78
Verse: 31
سورة النبأ
اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا ﴿ۙ۳۱﴾
Indeed, for the righteous is attainment -
یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے ۔
اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا ﴿ۙ۳۱﴾
Indeed, for the righteous is attainment -
یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے ۔
The Great Success will be for Those Who have Taqwa Allah informs about the happy people and what He has prepared for them of esteem, and eternal pleasure. Allah says, إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا Verily, for those who have Taqwa, there will be a success; Ibn Abbas and Ad-Dahhak both said, "A place of enjoyable recreation." Mujahid and Qatadah both said, "They are successful and thus, they are saved from the Hellfire." The most obvious meaning here is the statement of Ibn Abbas, because Allah says after this, حَدَايِقَ (Hada'iq) ,And Hada'iq are gardens of palm trees and other things. حَدَايِقَ وَأَعْنَابًا
فضول اور گناہوں سے پاک دنیا نیک لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں جو نعمتیں و رحمتیں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ کامیاب مقصد ور اور نصیب دار ہیں کہ جہنم سے نجات پائی اور جنت میں پہنچ گئے ، حدائق کہتے ہیں کھجور وغیرہ کے باغات کو ، انہیں نوجوان کنواری حوریں بھی ملیں گی جو ابھرے ہوئے سینے والیاں اور ہم عمر ہوں گی ، جیسے کہ سورہ واقعہ کی تفسیر میں اس کا پورا بیان گزر چکا ، اس حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے لباس ہی اللہ کی رضا مندی کے ہوں گے ، بادل ان پر آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ بتاؤ ہم تم پر کیا برسائیں؟ پھر جو وہ فرمائیں گے ، بادل ان پر برسائیں گے یہاں تک کہ نوجوان کنواری لڑکیاں بھی ان پر برسیں گی ( ابن ابی حاتم ) انہیں شراب طہور کے چھلکتے ہوئے ، پاک صاف ، بھرپور جام پر جام ملیں گے جس پر نشہ نہ ہو گا کہ بیہودہ گوئی اور لغو باتیں منہ سے نکلیں اور کان میں پڑیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَلَا تَاْثِيْمٌ 23 ) 52- الطور:23 ) اس میں نہ لغو ہو گا نہ فضول گوئی اور نہ گناہ کی باتیں ، کوئی بات جھوٹ اور فضول نہ ہو گی ، وہ دارالسلام ہے جس میں کوئی عیب کی اور برائی کی بات ہی نہیں ، یہ ان پارسا بزرگوں کو جو کچھ بدلے ملے ہیں یہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہے جو اللہ کے فضل و کرم احسان و انعام کی بناء پر ملے ہیں ، بیحد کافی ، بکثرت اور بھرپور ہیں ۔ عرب کہتے ہیں اعطانی فاحسبنی انعام دیا اور بھرپور دیا اسی طرح کہتے ہیں حسبی اللہ یعنی اللہ مجھے ہر طرح کافی وافی ہے ۔
[٢٠] مَفَازًا کا لغوی مفہوم :۔ مَفَازًا : فاز بمعنی نجات حاصل کرنا اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرکے خیر و عافیت کے ساتھ سلامتی کی جگہ پہنچنا ہے۔ اسی لیے فاز الرجل اور فَوْزَ الرجل کے معنی مرنا اور ہلاک ہونا بھی آتا ہے اور اس میں تصور یہ ہے کہ انسان مر کر دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ گویا پرہیزگاروں کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہیں قیامت کے دن کے مصائب و آلام اور دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے اور وہ ایسے محفوظ اور سلامتی والے مقام پر پہنچا دیئے جائیں جہاں جہنم کے عذاب کی لو تک بھی نہ پہنچ سکے۔ رہا اس کے بعد جنت میں داخلہ اور جنت کی نعمتوں کا حصول تو وہ اللہ کے فضل اور مہربانی سے زائد انعام ہوگا۔ اور اس مضمون پر پہلے متعدد مقامات پر بحث گزر چکی ہے۔
ان للمتقین مفازاً : جہنم اور جہنمیوں کے بعد جنت اور جنتیوں کا ذکر ہے۔ یہاں متقین کا ذکر ان لوگوں کے مقابلے میں آیا ہے جنہیں کسی حساب کی توقع نہ تھی اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو بالکل جھٹلا دیا تھا، یعنی اعمال کے حساب سے ڈرنے والوں اور کفر و تکذیب سے ڈرنے والوں کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ” مفازاً “ مصدر ہو تو معنی ہے ” کامیابی “ اور ظرف ہو تو معنی ہے ” کامیابی کا مقام۔ “” مفازاً “ میں تنوین ” ایک بڑی “ کا مفہوم ادا کر رہی ہے۔
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا ٣١ ۙ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔
(٣١۔ ٣٣) کفر و شرک اور فواہش سے بچنے والوں کے لیے جنت میں نجات اور اللہ تعالیٰ کا قرب ہے اور مختلف قسم کے باغوں کے انگور ہیں اور دل بہلانے کو نوخاستہ ہم عمر عورتیں ہیں۔
19 Here, the word "righteous" has been used in contrast to those who did not expect any accountability and who had belied Allah's Revelations. Therefore, this word inevitably implies those people who believed in Allah's Revelations and lived in the world with the understanding that they had to render an account of their deeds ultimately.
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :19 یہاں متقیوں کا لفظ ان لوگوں کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا ۔ اس لیے لامحالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔
٣١۔ ٣٦۔ اوپر دوزخ اور دوزخیوں کا ذکر تھا اس کے مقابلے میں ان آیتوں میں جنت اور جنتیوں کا ذکر ہے حضرت ٢ ؎ عبد اللہ بن عباس نے مفازا کے معنی سیر گاہ کے کہے ہیں حدیقۃ وہ باغ ہے جس میں ہر طرح کے درخت ہوں انگور ایک خاص شان کا مزہ دار میوہ ہے اس لئے خاص طور پر اس کا نام جدا فرمایا۔ کو اعب سے مراد کنواری اور اتراب سے مراد ہم عمر عورتیں۔ دھاق کے معنی لبریز پیالہ شراب طہور کا۔ پھر فرمایا کہ دنیا کی شراب نوشی کے بعد جس طرح کی بےہودہ باتیں ہوتی ہیں جنت کی شراب نوشی کے بعد ایسی کوئی بات نہ ہوگی۔ جنت کو عطا اس لئے فرمایا کہ جس کسی کو جنت ملے گی وہ اللہ کے فضل سے عطا کے طور پر ملے گی ورنہ انسان کی کیا طاقت ہے کہ تھوڑی سی عمر کے نیک عملوں کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کی دنیا کی بیشمار نعموتوں کی شکر گزاری کو پورا کرکے جنت کی اس قدر بےحساب نعمتوں کو پاسکتا چناچہ واثلہ بن الاسقع سے مستدرک ١ ؎ حاکم وغیرہ میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ پچھلی امتوں میں ایک عابد تھا جس نے مدتوں ایک پہاڑ پر بیٹھ کر عبادت کی تھی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس عابد سے فرمائے گا کہ میری رحمت کے سبب سے جا جنت میں چلا جا۔ وہ عابد کہے گا یا اللہ میرے نیک عملوں کا بدلہ کہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر فرشتوں سے فرمائے گا اچھا اس کے نیک عملوں کا ان نعمتوں کے ساتھ تول کر اندازہ کیا جائے جو نعمتیں اس کو دنیا میں دی گئی تھیں اس اندازہ میں عابد کے سب نیک عمل فقط آنکھوں کی نعمت کے بدلے میں برابر ہوجائیں گے۔ ان ہی نعمتوں کا شکریہ آدمی کے ذمہ ہونے سے صحیح ٢ ؎ حدیثوں میں آیا ہے کہ بغیر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا عطا کے ساتھ حساب کا لفظ جو فرمایا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ حساب بھی ایک عطا ہے۔ کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ اکہرا ہونے کی جگہ دس سے لے کر سات سو تک کبھی اس سے بھی زیادہ کا حساب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ٹھہرایا ہے جس کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے۔ ٢ ؎ صحیح مسلم باب لن یدخل الجنۃ احد بعملہ الخ ص ٣٧٦ ج ٢۔ (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٠٨ ج ٦۔ ) (١ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ص ٧٦٣ ج ٤۔ لکن رواہ عن جابر (رض) و فی روایۃ الطبرانی عن واثلہ بن اثقع بمعناہ ص ٧٦٢ ج ٤)
(78:31) فائدہ : اب آیت ہذا سے ان لوگوں کے اوپر خدا کے لطف و کرم کا ذکر ہے جو روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے دربار میں حاضری کا خوف ان کو ہر گناہ سے باز رکھتا تھا۔ (ضیاء القرآن) ان للمتقین مفازا : مفازا مصدر بمعنی کامیابی۔ یہ فوز سے اسم ظرف بھی ہوسکتا ہے۔ الفوز کے معنی ہیں سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینا۔ مفازا اسم ان ہے۔ لہٰذا منصوب ہے۔ للمتقین اس کی خبر۔ ضرور پرہیزگاروں کے لئے کامیابی ہے۔
آیات ٣١ تا ٤٠۔ اسرار ومعارف۔ بے شک اللہ کی خلوص سے اطاعت کرنے والوں کے لیے یوم حشر مرادیں پانے کا دن ہے کہ انگوروں کے خوشوں سے لدے باغوں میں داخل ہوں گے اور نوخیز ہم عمربیبیاں ہوں گی اور چھلکتے جام ہوں گے ۔ حور۔ حور جنت کی مخلوق ہے جو نوخیز عورت ہوگی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر جنت کی حور اپنی ہتھیلی ظاہر کرے تو سورج ماند پڑجائے مگر یاد رہے یہ نوخیز بیبیاں دنیا کی بیبیاں بھی ہوں گی جو جنت میں داخل ہوں گی تب مرد اور عورت سب نوجوان کردیے جائیں گے اور ہمیشہ نوجوان رہیں گے اصل عزت و عظمت انکو نصیب ہوگی جو دنیا میں آئیں اور اللہ اور اس کے نبی پر ایمان لائیں اور دنیا کی مشکلات دکھ درد سہہ کر اطاعت کا حق ادا کیا حوریں ان کی کنیزیں ہوں گی جو مردوں پر حلال ہوں گی انہوں نے دنیا میں مکلف زندگی نہیں گزاری لہذا وہ عورت کی عظمت کے مقابل نہ ہوں گی بلکہ خادمائیں ہوں گی۔ جنت میں نہ کوئی فضول بات کرے گا اور نہ غلط بات ہوگی بلکہ وہ تو پروردگار کی طرف سے اجر کی بات ہے جو اس کی عطا سے بےحساب بڑھادیاجائے گا کہ وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور ساری مخلوق کا اس کی رحمت لامحدود ہے وہاں کسی کے بولنے کی گنجائش نہ رہے گی اتنادے گا کہ زبانیں گنگ ہوجائی گی جس روز جبرائیل امین اور فرشتے حاضر بارگاہ ہوکرجس کے بارے حکم ہوگا اس کی بات اور اس کا حساب پیش کرتے جائیں گے اور بالکل درست پیش کریں گے یہ انصاف کا دن ہوگا لہذا لوگو اگر خواہش رکھتے ہو تو اپنے رب کی اطاعت کرلو ہم نے تمہیں اس انجام کی خبر کردی کہ جب ہر کوئی اپنے کردار اور اس کے نتائج کو بچشم خود دیکھ لے گا اور جب حساب کتاب کے بعدجانور وغیرہ مٹی میں ملادیے جائیں گے تو کافر بھی حسرت بھرے لہجے میں کہے گا اے کاش مجھے مٹی کردیاجاتا اور عذاب آخرت سے بچ جاتا لہذا اس حسرت سے بچنے کے لیے آج وہ طریق حیات اختیار کروجو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی سزاؤں کے مقابلے میں جنت کے انعامات۔ جب محشر کے میدان میں لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا تو جہنمی کو جہنم کی طرف جانے کا حکم ہوگا اور جنتی کو جنت میں داخلے کی اجازت عطا فرمائی جائے گی۔ جونہی جنتی جنت کی طرف قدم اٹھائیں گے تو یہ اعلان ہوگا کہ اے خوش نصیبو ! تم اس جنت میں داخل ہوجاؤ جس میں تمہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی پریشانی، یہ ہے وہ کامیابی جس کے حصول کے لیے تم دنیا میں کوشش کیا کرتے تھے۔ جس جنت میں تمہیں داخلہ دیا جارہا ہے اس میں بڑے بڑے باغات ہیں جن میں انگور اور ہر قسم کے پھل موجود ہیں۔ وہاں جنتی مردوں کے لیے ان کی ہم عمر اور نہایت جوان خوبصورت حوریں ہوں گی۔ جنتی میں جنت نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے اور نہ ہی کوئی جھوٹ۔ یہاں جنت کے لیے ” مَفَازاً “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنٰی کامیابی حاصل کرنا اور ہر قسم کی پریشانی سے نجات پانا ہے۔ جنتی نہ صرف دنیا کے غموں اور پریشانیوں سے نجات پائیں گے بلکہ جہنم کی ہولناکیوں سے بھی بچالیے جائیں گے یہ آپ کے رب کی طرف سے بدلہ ہے جو نیک لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ملے گا۔ جنت میں ہر قسم کی نعمت اور آزادی ہوگی لیکن اس میں کسی قسم کی بےہودگی نہیں پائی جائے گی۔ (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) (آل عمران : ١٨٥) ” ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم پوری پوری جزا دیے جاؤ گے۔ جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ) ” اگر اہل کی عورتوں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے، نیز حور کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ (لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ إِلَی أَہْلِ الأَرْضِ لأَضَاءَ تْ مَا بَیْنَہُمَا) (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) ” اگر جنت کی حور آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔ “ مسائل ١۔ جنت میں جانے والے ہر لحاظ سے کامیاب ہوں گے۔ ٢۔ جنت میں دوسرے باغات کے ساتھ انگوروں کے باغ بھی ہوں گے۔ ٣۔ جنت میں جنتی کسی قسم کی جھوٹی اور بےہودہ بات نہیں سنیں گے۔ ٤۔ جنتی کو ان کے رب کی طرف سے پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنتی کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٥۔ جنتی میں جنت کو سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو ، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) (الرحمن : ٥٦) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن : ٧٦) ٨۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٩۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمر ہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ١٠۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ١١۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ١٢۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢)
پہلے منظر میں جہنم آراستہ و پیراستہ تھی۔ کفار کے ٹھکانے کے طور پر اور وہ یوں گھات میں تیار بیٹھی تھی جس طرح ایک شکاری گھات میں بیٹھتا ہے۔ اور ایک ایک شکار کرتا ہے۔ اسی طرح جہنم سے بھی کوئی بچ کر نہ نکل سکتا تھا۔ اس منظر میں یوں نظر آتا ہے کہ اہل جنت نجات اور کامیابی کے مقام پر فائز ہوچکے ہیں۔ اور یہ نجات اور کامیابی کی جگہ۔
اہل کفر اور اہل شرک کا انجام اور عذاب بتانے کے بعد متقی حضرات کے انعام و اکرام کا تذکرہ فرمایا، تقویٰ کے بہت سے درجات ہیں، سب سے بڑا تقویٰ یہ ہے کہ کفر و شرک سے بچے اور اس کے بعد گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ ہے اور اس کے بھی درجات مختلف ہیں حسب درجات انعامات ہیں فرمایا ﴿ اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًاۙ٠٠٣١﴾ (بلاشبہ تقویٰ والوں کے لیے کامیابی ہے) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ مفازا مصدر میمی ہو اور اگر اسم ظرف لیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ (متقیوں کے لیے کامیابی کی جگہ ہے) اس کے بعد کامیابی پر ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ﴿ حَدَآىِٕقَ وَ اَعْنَابًاۙ٠٠٣٢﴾ (یعنی ان حضرات کو باغیچے ملیں گے اور انگور ملیں گے) حدائق حدیقۃ کی جمع ہے جس باغ کی چار دیواری ہو اسے حدیقہ کہا جاتا ہے اور گو حدائق کے عموم میں انگور بھی داخل ہوگئے لیکن ان کو علیحدہ بھی ذکر فرمایا کیونکہ پھلوں کی یہ جنس دوسرے پھلوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتی ہے، مزید فرمایا ﴿وَّ كَوَاعِبَ﴾ اور ساتھ ہی اترابا بھی فرمایا۔ کا عب نوخیز لڑکی کو کہتے ہیں : التی تکعب ثدیاھا واستدار مع ارتفاع یسیر اور اتراب ترب کی جمع ہے جس کا ترجمہ ہم عمر کیا گیا ہے، اس میں یہ بات بتادی کہ وہاں میاں بیوی سب ہم عمر ہوں گے۔ دنیا میں عمروں کے بےت کے تفاوت میں جو زوجین کو بدمزگی پیش آتی رہتی ہے اسے جاننے والے جانتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں جانے والا جو شخص بھی اس دنیا سے رخصت ہوگا چھوٹا ہو یا بڑا (داخلہ جنت کے وقت) سب تیس سال کے کردیئے جائیں گے اس سے کبھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاح کا ایک واقعہ جو سورة ٴ واقعہ کے پہلے رکوع کے ختم پر ہم نے لکھا ہے اس کی بھی مراجعت کرلی جائے۔ ﴿ وَّ كَاْسًا دِهَاقًاؕ٠٠٣٤﴾ (اور متقیوں کے لیے لبالب بھرے ہوئے جام ہوں گے) یہاں قدروھا تقدیرا کے مضمون سے اشکال نہ کیا جائے کیونکہ جنہیں اور جس وقت پورا بھرا ہو اجام پینے کی رغبت ہوگی انہیں لبا لب پیش کیا جائے گا۔ ﴿ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّ لَا كِذّٰبًاۚ٠٠٣٥﴾ (وہاں نہ کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ کوئی جھوٹی بات) وہاں جو کچھ ہوگا سچ ہوگا اور نہ صرف یہ کہ کوئی غلط بات نہ ہوگی بلکہ جس بات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا وہ وہاں سننے میں بھی نہ آئے گی۔ ایسی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔
8:۔ ” اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ “۔ یہ شرک و کفر اور معاصی سے بچنے والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے مومنوں کو آخرت میں ہر مقصد و مطلب میں کامیابی اور ہر مکروہ اور ہر تکلیف سے نجات نصیب ہوگی۔ ” حَدَائِقَ “ یہ ” مَفَازًا “ سے بدل الاشتمال ہے اور اس میں مومنوں کی فوز و فلاح کی قدرے تفصیل ہے ان کو وہاں سے نوح کے باغات ملیں گے خصوصًا انگوروں کے۔ جنت میں ان کی مصاحبت ورفاقت کے لیے نوجوان عورتیں ہوں گے جو ان کی ہمعصر ہوں گی اور وہاں ان کو انواع و اقسام کے مشروبات کے چھلکتے ساغر پیش کیے جائیں گے۔ وہ جنت میں کوئی لغو، بیہودہ، اور جھوٹی بات نہیں سنیں گے اہل جنت ان خرافات سے پاک ہوں گے ان کی زبانوں سے کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں نکلے گی۔