Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 14

سورة النازعات

فَاِذَا ہُمۡ بِالسَّاہِرَۃِ ﴿ؕ۱۴﴾

And suddenly they will be [alert] upon the earth's surface.

کہ ( جس کے ظاہر ہوتے ہی ) وہ ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But it will be only a single Zajrah. When behold, they are at As-Sahirah. meaning, this is a matter that is from Allah that will not occur twice, nor will there be any opportunity to affirm it or verify it. The people will be standing and looking. This will be when Allah commands the angel Israfil to blow into the Sur, which will be the blowing of the resurrection. At that time the first people and the last people will all be standing before their Lord looking. This is as Allah says, يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً On the Day when He will call you, and you will answer with His praise and obedience, and you will think that you have stayed but a little while! (17:52) Allah has also said, وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50) Allah also says, وَمَأ أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ And the matter of the Hour is not but as a twinkling of the eye, or even nearer. (16:77) Allah then says, فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ When behold, they are at As-Sahirah. Ibn Abbas said, "As-Sahirah means the entire earth." Sa`id bin Jubayr, Qatadah and Abu Salih have all said this as well. Ikrimah, Al-Hasan, Ad-Dahhak, and Ibn Zayd have all said, "As-Sahirah means the face of the earth." Mujahid said, "They will be at its (the earth's) lowest part, and they will be brought out to highest part." Then he said, "As-Sahirah is a level place." Ar-Rabi` bin Anas said, فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ When behold, they are at As-Sahirah. "Allah says, يَوْمَ تُبَدَّلُ الاٌّرْضُ غَيْرَ الاٌّرْضِ وَالسَّمَـوَتُ وَبَرَزُواْ للَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ On the Day when the earth will be changed to another earth and so will be the heavens, and they will appear before Allah, the One, the Irresistible. (14:48) and He says, وَيَسْـَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّى نَسْفاً فَيَذَرُهَا قَاعاً صَفْصَفاً لااَّ تَرَى فِيهَا عِوَجاً وَلاا أَمْتاً And they ask you concerning the mountains: say, "My Lord will blast them and scatter them as particles of dust. Then He shall leave them as a level smooth plain. You will see therein nothing crooked or curved. (20:105-107) and Allah says, وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الاٌّرْضَ بَارِزَةً And the Day We shall cause the mountains to pass away, and you will see the earth as a leveled plain. (18:47) and the earth will be brought forth which will have mountains upon it, and it will not be considered from this earth (of this life). It will be an earth that no sin will be performed on it, nor will any blood be shed upon it.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی جس کام کو یہ کافر خلاف عقل اور ناممکن العمل سمجھ رہے ہیں۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جب دوسری مرتبہ صور پھونکا یا ڈانٹ پلائی جائے گی تو اس وقت سب اگلے پچھلے لوگ بلا توقف میدان حشر کی طرف اکٹھے ہونا شروع ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۝ ١٤ ۭ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) سهر السَّاهِرَةُ قيل : وجه الأرض، وقیل : هي أرض القیامة، وحقیقتها : التي يكثر الوطء بها، فكأنها سَهَرَتْ بذلک إشارة إلى قول الشاعر : تحرّك يقظان التّراب ونائمة والْأَسْهَرَانِ : عرقان في الأنف ( س ھ ر ) الساھرۃ کے معنی میدان یا روئے زمین کے ہیں قرآن میں ہے : السَّاهِرَةُ «4»اس وقت وہ ( سب ) میدان ( حشر ) میں آجمع ہوں گے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ساھرۃ سے مراد روئے زمین ( یعنی یہی زمین ) ہے اور بعض کے نزدیک ارض آخرت مراد ہے اور اصل میں ساھرۃ اس زمین کو کہتے ہیں جس پر کثرت سے آمد ورفت ہو ۔ گویا وہ آمد دروفت سے بیدار ہوچکی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 243 ) تحرک یقظان التراب ونائیتہ تو بیدار اور سوئی زمین مل جاتی ہے ۔ اور ناک کی دونوں رگوں کو اسھران کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بس وہ ایک ہی آواز ہوگی جس سے سب روئے زمین پر یا یہ کہ میدان حشر میں آموجود ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ ۔ } ” تو وہ سب کے سب ایک چٹیل میدان میں ہوں گے۔ “ نفخہ ثانیہ کے بعد سب کے سب انسان زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "They are mocking it as an impossibility, whereas it is not at all a difficult task for Allah for the performance of which He may have to make lengthy preparations. For it only a single shout or cry is enough at which your dust of ash will gather together from wherever it lay, and you will suddenly find yourself alive on the back of the earth. Thinking this return to be a return to loss, you may try to escape from it however hard you may, but it will inevitably take place; it cannot be averted by your denial, escape or mockery."

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ لوگ اسے ایک امر محال سمجھ کر اس کو ہنسی اڑا رہے ہیں ، حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کو انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں کی ضرورت ہو ۔ اس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑکی کافی ہے جس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ ، خواہ کہیں پڑی ہو ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جا ئے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے ۔ اس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو ، یہ تو ہو کر رہنی ہے ، تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رک نہیں سکتی ،

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:14) فاذا ہم بالساھرۃ : فاء عطف کے لئے ہے اور اذا مفاجاتیہ ہے۔ (اچانک اور ناگہاں کے معنی میں) ہے۔ اذا کے آنے سے ہم بالساھرۃ جو جملہ اسمیہ تھا جملہ فعلیہ کی قوت میں ہوگیا۔ اسی لئے اس کا عطف جملہ فعلیہ پر صحیح ہوگیا۔ مطلب یہ ہوگا کہ :۔ دنیا میں یہ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں مگر جب یہ زمین کے اوپر ایک میدان میں ہوں گے تو ناگہاں وہ وقت آہی جائے گا۔ اس صورت میں فانما ہی زجرۃ واحدۃ جملہ معترضہ ہوگا۔ جو معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ جس لرزہ کے یہ منکر ہیں اس کو لانا اللہ کے نزدیک آسان ہے کچھ دشوار نہیں ہے۔ (تفسیر مظہری) الساھرۃ : سھر (باب سمع) مصدر سے جس کے معنی نیند اڑجانے کے ہیں۔ سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ مفسرین کے اس کے متعلق کئی اقوال ہیں :۔ (1) ساھرہ سفید ہموار زمین کو کہتے ہیں۔ اس کے موسوم ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس پر چلنے والا خوف سے سوتا نہیں۔ دوم یہ کہ اس میں سراب رواں ہوتا ہے یہ عرب کے محاورہ عین ساھرۃ سے ماخوذ ہے۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ زمین کا نام ساہرہ اس لئے پڑا کہ شدت خود کے باعث اس میں انسان کی نیند اڑ جاتی ہے تو وہ زمین کہ جس کے اندر قیامت کے موقع پر کافر جمع ہوں گے نہایت ہی خوف میں ہوں گے لہٰذا اس زمین کا نام ساھرۃ اس بناء پر ہوا۔ (تفسیر کبیر امام رازی (رح)) (2) اس سے مراد روئے زمین ہے۔ سب لوگ زمین پر جمع ہوجائیں گے جو سفید ہوگی اور بالکل صاف اور خالی ہوگی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے اور جگہ ہے یوم تبدل الارض غیر الارض ۔۔ الخ (14:48) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہوجائے گی۔ اور آسمان بھی بدل جائیں گے اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد قہار کے روبرو پیش ہوگی۔ (تفسیر ابن کثیر) (3) اس کے معنی ہیں کہ لوگ قیامت کے دن موت کی نیند سے فورا جاگ اٹھیں گے یہ معنی زیادہ مناسب بھی ہیں کیونکہ موت کو خراب سے زیادہ مشابہت ہے اور سھر بیداری کو کہتے ہیں۔ حیات اخروی بیداری اور موت خواب سے بہت مشابہ ہے۔ (تفسیر حقانی) سورة یس میں ہے :۔ قالوا یویلنا من بعثنا من مرقدنا (36:52) کہیں گے اے ہے ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے (جگا) اٹھایا۔ (4) ثوری کہتے ہیں مراد اس سے شام کی زمین ہے۔ (ب) عثمان بن ابو العالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کی زمین ہے۔ (ج) وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اس سمراد بیت المقدس کی ایک طرف کا پہاڑ ہے۔ (د) قتادہ کہتے ہیں کہ جہنم کو بھی ساھرہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اقوال سب کے سب غریب ہیں۔ (تفسیر حقانی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ساھرۃ، دراصل روئے زمین کو کہتے ہیں مراد حشر کا میدان ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) کہ جس سے سب لوگ اسی وقت دفعتہ میدان میں آموجود ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اول تو استعجاب اور استصعاب ظاہر کرتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہونا بڑا مشکل ہے پھر مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ یہ واپسی ہم کو بہت نقصان دہ ہوگی کیونکہ ہم نے تو اس کے لئے کوئی کام کیا نہیں۔ حضرت حق تعالیٰ نے مشکل اور صعب ہونے کا جواب دیا کہ یہ سب کام تو ایک جھڑکی اور سخت آواز ہے ادھر نفخہ ثانیہ ہوا اور لوگ جمع ہوگئے ، آگے نبی کریم صلی علیہ وسلم کی تسلی اور مکذبین کے ڈرانے کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ارشاد ہوتا ہے۔