Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 17

سورة النازعات

اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿۱۷﴾۫ ۖ

"Go to Pharaoh. Indeed, he has transgressed.

۔ ( کہ ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Go to Fir`awn; verily, he has transgressed all bounds. meaning, he has become haughty, rebellious and arrogant. فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَى أَن تَزَكَّى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی کفر و معصیت اور تکبر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] فرعون کے پاس جانے کا حکم :۔ نبوت عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جو ذمہ داری لگائی وہ آپ کے لیے بڑی کڑی آزمائش تھی۔ آپ کے ہاتھ سے اتفاقاً ایک قبطی کی موت واقع ہوگئی تھی ایک خیر خواہ کی اطلاع پر کہ آپ کے قتل کے مشورے فرعونی پارلیمنٹ میں ہو رہے ہیں آپ عارضی طور پر مدین کی ج... انب چلے گئے اس وجہ سے فرعون کی حکومت آپ کو مجرم سمجھتی تھی۔ آپ کا نام ریکارڈ پر موجود تھا۔ علاوہ ازیں فرعون ایک انتہائی مغرور اور سرکش حکمران تھا جسے اس قسم کا پیغام پہنچانا بذات خود جان جوکھوں کا کام تھا۔ ان خطرات کا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے دوران اظہار بھی کیا تھا اور یہ ایک طویل قصہ ہے جس کا ذکر پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہاں ایسی سب باتوں کو حذف کردیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١٩(١) اذھب الی فرعون…: فرعون کے پاس جانے کا حکم دینے کے ساتھ اسے دی جانے والی دعوت بھی سکھلائی، دعوت کے الفاظ میں اختصار کے باوجود نرمی اور ترغیب و ترہیب واضح طور پر نمایاں ہیں۔ سورة طہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہ اورن (علیہ السلام) کو فرمایا تھا :(فقولا لہ قولاً لیناً لعلہ یتذکراویخشی) (طہ...  : ٣٣)” فرعون سے نرم بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔ “ (٢) انہ طغی :” یقیناً وہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ “ فرعون کا حد سے بڑھنا ایک تو بندگی کی حد سے بڑھ کر یہ کہنا تھا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں، دوسرا خلق خدا پر اس کی طغیانی یہ تھی کہ اس نے قوم کو طبقوں میں تقسیم کر کے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے بیٹے ذبح کرتا اور عورتیں زندہ رکھتا تھا۔ (٣) فقل ھل لک …” تزکی “ پاک ہوجائے، یعنی شرک و کفر کی گندگی سے پاک ہوجائے۔ ” فتخشی “ پس تو ڈر جائے، یعنی اپنے رب کا راستہ معلوم ہوجانے کے بعد تو ڈر جائے کہ پروردگار اپنی دی ہوئی حکوتم چھین کر نعمتوں کی جگہ اپنی گرفت ہی میں نہ لے لے، چناچہ تو اس ڈر سے اس کا شریک بننے اور بندوں پر ظلم کرنے سے بچ جائے، کیونکہ دل میں ڈر علم ہی سے پیدا ہوتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٓوا) (فاطر : ٢٨)” اللہ سے صرف اس کے علم والے بندے ہی ڈرتے ہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝ ١٧ ۡ ۖ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے...  : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ٢٠) کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑا تکبر اور کفر اختیار کیا ہے اور اس سے کہو کہ اے فرعون کیا تجھے اس بات کی خواہش ہے کہ تو درست ہوجائے اور توحید خداوندی کا قائل ہوجائے اور میں تجھ کو تیرے پروردگار کی طرف بلاؤں تو تو اس سے ڈرنے لگے اور اسلام قبول کرے، پھر موسیٰ نے اس کو بڑی نشانی یعنی عصا اور ی... د بیضا دکھایا تو اس نے اس کے اللہ کی جانب سے ہونے کو جھٹلایا اور اسے قبول نہیں کیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی ۔ } ” کہ جائو فرعون کے پاس ‘ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس حکم کے تحت اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس گئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:17) اذھب الی فرعون انہ طغی : یہ جملہ نداء کی تفسیر ہے یا اس سے قبل وقال محذوف ہے۔ اور (اس سے) کہا کہ فرعون کی طرف جاؤ ۔۔ الخ۔ طغی : طغیان (باب فتح) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے جب نگاہ اپنی حد سے نکل جاتی ہے تو بہکنے لگتی ہے اور اسی طرح پانی جب اپنی حد سے متجاوز ہوتا ہے تو طغیانی آج... اتی ہے۔ طغی کا استعمال ان دونوں معنوں میں اسی اعتبار سے ہے۔ انہ طغی : ای تجاوز الحد فی الکفر والفساد۔ کفر اور فساد میں حد سے نکل گیا ہے۔ طغیان مصدر سے جب فعل وادی ہوتا ہے تو باب نصر سے آتا ہے طغی یطغوا طغیان۔ اور جب فعل یائی ہوتا ہے تو فتح اور سمع دونوں سے آتا ہے ۔ طغی یطغی طغیان وطغی یطغی طغیان۔ قرآن مجید میں باب فتح سے آیا ہے۔ انہ طغی علت ہے جملہ سابقہ کی۔ آپ فرعون کے پاس جائیں کیونکہ وہ کفر و فساد میں حد سے بڑھ گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی بندگی کی حدود سے نکل کر خدائی تک کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذھب .................... فتخشیٰ (19:79) ” فرعون کے پاس جاوہ سرکش ہوگیا ہے ، اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لئے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو ؟ “۔ اذھب .................... طغی (17:79) ”’ فرعون کے پاس جاﺅوہ سرکش ہوگیا ہے “۔ سرکشی...  ایسا گناہ ہے کہ اسے واقع ہی نہیں ہونا چاہئے اور اگر یہ سرزد ہوجائے تو اسے باقی نہیں رہنا چاہئے۔ یہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ اللہ سرکشی کو پسند نہیں کرتا ، سرکشی کے نتیجے میں بیشمار مکروہات جنم لیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بلند ترین انبیاء میں سے ایک ممتاز نبی کو صرف اس لئے بھیجا کہ فرعون کی سرکشی کو مٹادے اور یہ ڈیوٹی اللہ نے ان کے ساتھ خود ہمکلام ہوکر لگائی۔ براہ راست یہ حکم دیا گیا اور یہ مشن ان کے سپرد کیا گیا تاکہ یہ ممتاز نمائندہ اس شر کو ختم کرے۔ اور دنیا سے اس فساد کو دور کرے ، یہ ایک نہایت ہی کریہہ فعل ہے کہ حکمرانوں میں سے کوئی سرکش اور ظالم ہو۔ اسی لئے اللہ نے بذات خود براہ راست یہ مشن اپنے ایک بندے کے سپرد کیا۔ اور حکم دیا کہ اس شخص کو اس حالت سے نکال کر انصاف کی راہوں پر لے آﺅ، اگر وہ نہ آئے تو اس پر دنیا وآخرت کی سزا اور عذاب نازل کرنے کا جواز پیدا ہو۔ اذھب ........................ طغی (17:79) ” فرعون کے پاس جاﺅ کہ وہ ظالم و سرکش ہوگیا ہے “۔ اس کے بعد اللہ اپنے بندے کو یہ بھی سکھاتا ہے کہ اس سرکش اور ظالم کے دربار میں انہوں نے اپنا پیغام اور دعوت کس اسلوب میں پیش کرنی ہے۔ نہایت نرم ، پرکشش اور محبت بھرے انداز میں۔ شاید کہ وہ باز آجائے اور اس کے دل میں بات اترجائے۔ اور اللہ کے غضب اور عذاب سے بچ نکلے۔ فقل ھل .................... تزکی (18:79) ” کیا تو اس کے لئے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے “۔ کیا تو اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس سرکشی اور ظلم کی گندگی سے نکل آئے۔ اور اللہ کی نافرمانیوں کو ترک کردے۔ کیا تو نماز ، دعا اور برکت کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ واھدیک ................ فتخشی (19:79) ” اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو ؟ “ کیا تیرے اندر یہ خواہش ہے کہ تو اپنے رب کے راستے کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کرے۔ اگر تو رب کی راہوں پر چلے گا تو تیرے دل میں رب کا خوف پیدا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ظالم اور سرکش تب ہی بنتا ہے جب اپنے رب سے دور چلا جائے۔ راہ حق بھلا دے اور سنگدل ہوکر فساد اختیار کرے۔ اس طرح وہ آخر کار سرکشی اور ظلم کو اپناوطیرہ بنالیتا ہے۔ یہ بات تو اس وقت کی گئی ہے جب اللہ کی جانب سے آواز آئی اور یہ عظیم مشن حضرت موسیٰ کے سپرد کیا گیا اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں پہنچے۔ تو انہوں نے یہی بات دہرائی جو اللہ نے سکھائی کہ ایسا کہو ، لیکن تبلیغ کے وقت کی جو منظر کشی کی گئی اس میں اس کا تذکرہ نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ویسا ہی کہا ہوگا جس طرح اللہ نے فرمایا کہ یوں کہو۔ لہٰذا سپردگی مشن کے وقت جو بات کہی گئی اسے یہاں حذف کردیا اور بات مختصر کردی اب یہاں آکر یہ منظر نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور آخری بات کہی جاتی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) کہ تم فرعون کے پاس جائو کیونکہ وہ حد سے تجاوز کر گیا ہے یعنی شرارت میں حد سے بہت آگے نکل گیا ہے اور بڑی شرارت پر اترآیا ہے۔