Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 19

سورة النازعات

وَ اَہۡدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخۡشٰی ﴿ۚ۱۹﴾

And let me guide you to your Lord so you would fear [Him]?'"

اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو ( اس سے ) ڈرنے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ ... And that I guide to your Lord, meaning, `I will guide you to the worship of your Lord.' ... فَتَخْشَى so that you fear, meaning, `so that your heart will become humble, obedient, and submissive to Him after it was hard, evil, and far away from goodness.' فَأَرَاهُ الاْأيَةَ الْكُبْرَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] فرعون کو اللہ کا پیغام پہنچانا :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی مقام پر ایک استدعا یہ بھی کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا کرکے میرے ہمراہ روانہ کیا جائے تاکہ کم از کم میرا ایک ساتھی تو میرا مددگار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ استدعا قبول فرمائی اور سیدنا ہارون کو نبی بنا کر آپ کے ہمراہ کردیا مگر ساتھ ہی یہ تاکید کردی کہ فرعون چونکہ متکبر اور بددماغ ہے لہذا اس سے جو بات کہنی ہو نہایت نرم لہجے میں کہنا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے ورنہ وہ جوش غضب میں بھڑک اٹھے گا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت نرم اور دل نشین انداز میں اسے سمجھایا کہ کیا تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ تم اس تکبر اور سرکشی کے رویہ سے باز آکر اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ۔ اس طرح تمہاری یہ دنیا کی زندگی بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میری رسالت کو تسلیم کرلو۔ میں تمہیں تمہارے پروردگار کی سیدھی راہ بتادوں گا۔ اگر تمہیں اپنے پروردگار کی صحیح معرفت حاصل ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تم میں اللہ کی خشیت اور خوف پیدا ہوجائے گا اور جو کام بھی کرو گے اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو گے اور یہ چیز تمہاری زندگی کو سنوارنے کا بہترین ذریعہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى۝ ١٩ ۚ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 Here, one should understand a few things well: (1) The dialogue that took place between the Prophet Moses and Allah Almighty at the time of appointing him to the office of Prophethood has been related at some places briefly and at others in full detail in the Qur'an as the occasion demanded. Here; brevity was the need; therefore, only a resume has been given. Fuller details are found in Ta Ha: 9-48, Ash-Shua`ra': 10-17, An=Naml: 7-12, AI-Qasas: 29-35. (2) The rebellion of the Pharaoh referred to here relates to his transgressing the bounds of service and rebelling both against the Creator and against His creatures. As for his rebellion against the Creator, it is being mentioned a little below when he gathered his people together and prolaimed: "I am your lord, the supreme." As against the creatures his rebellion was that he had divided his subjects into classes; he treated the weak classes tyrannically and had reduced his entire nation to slavery as has been mentioned in Al-Qasas: 4 and Az-Zukhruf: 54. (3) The instruction given to Moses was: "Go, you and your brother Aaron, to Pharaoh for he has transgressed all bounds. Talk to him gently; maybe that he is convinced by admonition or is imbued with fear." (Ta Ha: 44) . One model of the gentle speech has been given in these verses, which shows what right method a preacher should adopt when preaching to a perverted man. Other models are given in Ta Ha: 49-52, Ash-Shua`ra': 23-28, and Al-Qasas: 37. These verses are of those in which Allah has taught the correct methods of preaching Islam in the Qur'an. (4) The Prophet Moses had not been sent to Pharaoh only for the deliverance of the children of Israel as some people seem to think but the primary object of his appointment was to show Pharaoh and his people the right way, and the second object was that if he did not accept the right way, the children of Israel (who in fact were a Muslim people) should be taken out of his slavery and from Egypt. This thing becomes plain from these verses too, for there is no mention whatever in these of the deliverance of the children of Israel, but the Prophet Moses has been commanded to present the message of the Truth before Pharaoh, and this is confirmed by those verses also in which the Prophet Moses has preached Islam as well as demanded freedom of the children of Israel, e.g. see Al-A`raf 104-105, Ta Ha: 47-52, Ash-Shua ara': 16-17, 23-28. (For further explanation, see E.N. 74 of Yunus) . (5) Here, "to adopt purity" means to adopt purity of belief, morals and deeds, or, in other words, to accept Islam. Ibn Zaid says: "Wherever in the Qur'an the word tazakka (purity) has been use, it implies acceptance of Islam." As an example of this he has cited the following three verses: "And this is the reward of him who adopts purity", i.e. accepts Islam; "and what would make you know that he might adopt purity", i.e. becomes a Muslim (`Abasa:3) ; "And you would not be responsible if he did not adapt purity", i.e. did not become a Muslim (`Abasa: 7) . (Ibn Jarir) . (6) "That I may guide you to your Lord so that you may have fear (of Him) " means: "When you recognize your Lord and come to know that you are His slave, and not a free man, you will inevitably have fear of Him in your heart, for fear of God is the thing on which depends the right attitude of man in the world. Without the knowledge and fear of God no purity of the self can be possible."

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :8 یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیں: ( 1 ) حضرت موسی کو منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں ان کے اور اللہ کے درمیان ہوئی تھیں ان کو قرآن مجید میں حسب موقع کہیں مختصر اور کہیں مفصل بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا ، اس لیے ان کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سورۃ طہٰ ، آیات 9 تا 48 ، سورۃ شعراء آیات 10 تا 17 ، سورہ نمل ، آیات 7 تا 12 ، اور سورہ قصص ، آیات 29 تا 35 میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔ ( 2 ) فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق ، دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے ۔ خالق کے مقابلے میں اس سرکشی کا ذکر تو آگے آ رہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا ، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا ، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا ، جیسا کہ سورہ قصص آیت 4 اور سورہ زخرف آیت 54 میں بیان کیا گیا ہے ۔ ( 3 ) حضرت موسی علیہ السلام کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی ، تم اور ہارون دونوں بھائی اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے ۔ ( طہٰ ، آیت 44 ) اس نرم کلام کا ایک نمونہ تو ان آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے ۔ دوسرے نمونے سورہ ، آیات 49 تا 52 ، الشعراء ، 23 تا 28 ، اور القصص ، آیت 37 میں دیے گئے ہیں ۔ یہ منجملہ ان آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکمتِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے ۔ ( 4 ) حضرت موسی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے ، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، بلکہ ان کی بعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے ) اس کی غلامی سے چھڑا کر مصر سے نکلال لائیں ۔ یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے ، کیونکہ ان میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے سامنے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان مقامات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جہاں حضرت موسی نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے ۔ مثلا ملاحظہ ہو ( الاعراف ، آیات 104 تا 105 ۔ طہٰ ، آیات 47 تا 52 ۔ الشعراء ، آیات 16 ۔ 17 ۔ و 23 تا 28 ) ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 74 ) ۔ ( 5 ) یہاں پاکیزگی ( تزکی ) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کرنا یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کر لینا ہے ۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں ۔ و ذلک جزاؤ من تزکی ، اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی اسلام لائے ۔ وما یدریک لعلہ یزکی ، اور تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی مسلمان ہو جائے ۔ وما علیک الا یزکی ، اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے ۔ یعنی مسلمان نہ ہو ۔ ( ابن جریر ) ( 6 ) یہ ارشاد کہ میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو ( اس کا خوف ) تیرے دل میں پیدا ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تو اس کا بندہ ہے ، مردِ آزاد نہیں ہے ، تو لازماً تیرے دل میں اس کا خوف پیدا ہو گا ، اور خوف خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:19) واھدیک الی ربک فتخشی : جملہ معطوف ہے واؤ عاطفہ ہے۔ اھدیک کا عطف تزکی پر ہے۔ ف سببیہ ہے۔ اھدیک : اھدی مضارع کا صیغہ واحد متکلم منصوب بوجہ عمل ان جملہ سابقہ ھدایۃ (باب ضرب) مصدر ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ میں تجھ کو راہ بتاؤں ۔ میں تجھ کو راہ دکھاؤں۔ تخشی : خشیۃ (باب سمع) مصدر سے مضارع واحد مذکر حاضر۔ توڑ دے ۔ مطلب یہ ہے :۔ اور کیا تجھے اس بات کی خواہش ہے کہ میں تجھے اللہ کی معرفت، عبادت اور توحید کا راستہ دکھاؤں اور نتیجہ میں تو اس کے عذاب سے ڈرنے لگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور میں تیرے پروردگار کی جانب تیری رہنمائی کروں تو تو اس سے ڈر جائے۔ یعنی شرک اور دیگر اخلاق رذیلہ اور ظلم و سرکشی سے تو پاک ہوجائے اور تیری اصلاح ہوجائے اور جو برائیاں تجھ میں سلطنت کے غرور وتکبر سے پیدا ہوگئی ہیں وہ تجھ میں سے نکل جائیں اور تو سنور جائے اور بجائے برائیوں کے بھلائیوں سے آراستہ ہوجائے اور میں حضرت حق جل مجدہ کی ذات وصفات بیان کرکے اس کی معرفت کی جانب تیری رہنمائی کروں کہ تو اس سے ڈر جائے اور ڈر کر سنور جائے۔ والنازعات کی ان دونوں آیتوں میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور تبلیغ کا نچوڑ ہے ایک تزکیہ اور دوسرے خشیت اور یہی دونوں باتیں اصلاح باطن کے لئے بہت ضروری ہیں۔