Surat un Naziaat
Surah: 79
Verse: 24
سورة النازعات
فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی ﴿۲۴﴾۫ ۖ
And said, "I am your most exalted lord."
تم سب کا رب میں ہی ہوں ۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی ﴿۲۴﴾۫ ۖ
And said, "I am your most exalted lord."
تم سب کا رب میں ہی ہوں ۔
Saying; I am your lord, most high." Ibn `Abbas and Mujahid both said, "This is the word which Fir`awn said after he said, مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرِى `I have not known of any other god for you all other than me for the past forty years."' Allah then says, فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاْأخِرَةِ وَالاْأُولَى
[١٧] فرعون کا رعایا میں پروپیگنڈا :۔ میدان مقابلہ میں مات کھانے کے بعد بہت سے لوگ درپردہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے لگے تو فرعون بہت سیخ پا ہوگیا۔ اس نے ایک دوسرا پینترا بدلا اور لوگوں سے کہنے لگا تم لوگ میرے مقابلہ میں اس شخص کی پیروی کرنے لگے ہو جو میرے مقابلہ میں ایک کمزور اور حقیر انسان ہے جبکہ میں تمہارا سب سے بڑا حکمران ہوں۔ تمہارے تمام وسائل معاش بھی میرے ہاتھ میں ہیں۔ فرعون نے اپنے آپ کو ان معنوں میں رب الاعلیٰ نہیں کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو خالق کائنات سمجھتا تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کائنات کا خالق ومالک سمجھتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا معبود بھی نہیں کہتا تھا بلکہ وہ تو خود سورج دیوتا کی پرستش کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملک میں سب سے بڑا سیاسی اقتدار کا مالک اور حکمران سمجھتا تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ اس ملک میں سب سے بڑا سیاسی مقتدر اعلیٰ میں ہوں۔ میرے بغیر یہاں کسی دوسرے کا قانون یا حکم نہیں چل سکتا۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٢٤ ۡ ۖ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
آیت ٢٤{ فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ۔ } ” پس کہا کہ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا ربّ ! “ ظاہر ہے فرعون نے خود کو ” ربّ “ اس معنی میں نہیں کہا تھا کہ وہ اس کائنات کا یا اپنے ملک کے لوگوں کا خالق ہے ‘ بلکہ وہ تو خود باطل معبودوں کو پوجتا تھا ( سورة الاعراف کی آیت ١٢٧ سے ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں نے پوجا پاٹ کے لیے اپنے کچھ معبود بھی بنا رکھے تھے) ۔ پھر اس کی رعیت میں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے سامنے وہ پیدا ہوا ہوگا اور جنہوں نے اس کا بچپن بھی دیکھا ہوگا۔ گویا اسے خود بھی معلوم تھا اور اس کی رعیت کے تمام لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے اور بحیثیت انسان وہ دوسرے عام انسانوں جیسا ہی ہے۔ چناچہ اس کا مذکورہ دعویٰ دراصل حکومت اوراقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہونے کا دعویٰ تھا۔ اپنے اس دعوے کی مزید وضاحت اس نے ان الفاظ میں کی تھی : { یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج } (الزخرف : ٥١) ” اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ “ کہ دیکھو اس پورے ملک پر میرا حکم چلتا ہے ‘ پورے ملک کا نہری نظام بھی میرے تابع ہے ‘ میں جسے جو چاہوں عطا کروں اور جسے چاہوں محروم رکھوں ‘ میں مطلق اختیار اور اقتدار کا مالک ہوں۔ یہ تھا اس کا اصل دعویٰ اور یہی دعویٰ اپنے زمانے میں نمرود کا بھی تھا۔ یہ دعویٰ دراصل اللہ تعالیٰ کے اقتدار و اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس لحاظ سے بہت بڑا شرک ہے۔ آج بدقسمتی سے یہ سیاسی شرک ” عوام کی حکومت “ کے لیبل کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ نمرودی اور فرعونی دور میں تو شرک کی گندگی کا یہ ٹوکرا کوئی ایک شخص اٹھائے پھرتا تھا ‘ یعنی ” حاکمیت “ کا دعوے دار کوئی ایک شخص ہوا کرتا تھا ‘ جبکہ آج اس گندگی کو تولوں اور ماشوں میں بانٹ کر ملک کے ہر شہری کو اس میں حصہ دار بنا دیا گیا ہے۔ ” جدید دور “ میں اس سیاسی شرک کو نئے بھیس میں متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی تعبیر علامہ اقبال نے اپنی نظم ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کی ہے : ؎ ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
11 This proclamation of Pharaoh has been mentioned at several places in the Qur'an. On one occasion he said to the Prophet Moses: "lf you took another one as a deity beside me, I would cast you in the prison." (Ash-Shua`ra': 29) . On another occasion he had addressed his courtiers, saying: "O chiefs, I do not know of any other god of yours than myself. (Al-Qasas.: 38) . By this Pharaoh did not mean, nor could he ever mean, that he himself was the creator of the universe and he had made the world, nor that he denied the existence of Allah and claimed to be lord of the universe, nor that he regarded only himself as a deity of the people in the religious sense. In the Qur'an itself there is a clear testimony that as regards religion he himself worshipped other gods. Once his courtiers said to him: "Will you leave Moses and his people free to spread chaos in the land, and let them discard you and your deities?" (Al A`raf: 127) . And in the Qur'an itself this saying of the Pharaoh also has been cited: "Had Moses been sent by Allah, why were not bracelets of gold sent down to him, or a company of angels as attendants?" (AzZukhruf: 53) . Thus, in fact, he called himself a god and supreme deity not in the religious but in the political sense. What he meant was that he possessed the sovereign rights: no one beside him had the right to rule in his kingdom and there was no superior power whose orders could be enforced in the land. (For further explanation. see E.N. 85 of Al-A`raf, E.N. 21 of Ta Ha, E.N.'s 24, 26 of AshShua'ra', E-N.'s 52, 53 of Al-Qasas E.N. 49 of Az-Zukhruf) .
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :11 فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک موقع پر اس نے حضرت موسی سے کہا کہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنایا تو میں تمہیں قید کر دوں گا ۔ ( الشعراء آیت 29 ) ۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں لوگوں کو خطاب کر کے کہا اے سرداران قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے ۔ ( القصص ، آیت 38 ) ۔ ان ساری باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا اور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے ۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا ۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا ۔ قرآن مجید ہی میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا تھا ۔ چنانچہ اس کے اہل دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ کیا آپ موسی اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں؟ ( الاعراف ، آیت127 ) ۔ اور قرآن میں فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں نے اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں کیوں نہ آئے؟ ( الزخرف ، آیت 53 ) ۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں نہیں بلکہ سیاسی معنی میں اپنےآپ کو الہ اور رب اعلی کہتا تھا ، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار اعلی کا مالک میں ہوں ، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے ، اور میرے اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جس کا فرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 85 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 21 ۔ الشعراء ، حواشی 24 ۔ 26 ۔ القصص ، حواشی 52 ۔ 53 ۔ جلد چہارم ، الزخرف ، حاشیہ 49 ) ۔
(79:24) فقال انا ربکم الاعلی : ف عاطفہ، انا ربکم الاعلیٰ ۔ نادی کا بیان ہے۔ (یعنی فرعون نے نداء میں یہ) کہا کہ میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ مجھ سے اوپر کوئی رب نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ تمہارے کام کے کرتا دھرتا ہیں میں ان سب سے بڑا ہوں۔ یا اس کلام سے مراد فرعون کی یہ تھی کہ یہ بت دیوتا ہیں اور میں ان کا بھی دیوتا ہوں۔ اور تمہارا بھی (المدارک، الخازن، المظہری)
ف 14 آخرت میں دوزخ کا ایندھن بنے گا۔ اور دنیا میں ڈوب کر مرا۔
انا ربکم الاعلیٰ (24:79) ” میں ہی تمہارا رب اعلیٰ ہوں “۔ اگر اس کی قوم میں ایمان ہوتا ، عزت نفس ہوتی۔ وہ ایک آزاد قوم ہوتی اور ذی شعور قوم ہوتی تو اسے یہ بات کہنے کی جرات نہ ہوتی۔ کیونکہ وہ تو جانتا تھا کہ وہ تو دوسروں کی طرح ایک محتاج اور ضعیف بندہ ہے۔ وہ کوئی فوق الفطرت قوت نہیں رکھتا۔ اگر مکھی اور مچھر بھی اس سے کچھ لے بھاگے تو اس کی افواج اور وہ اسے نہیں پکڑ سکتے۔
﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٞۖ٠٠٢٤﴾ (اور اپنا دعویٰ دہرا دیا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں یعنی سب سے بڑا رب ہوں) لیکن اس کی ہر تدبیر ناکام ہوئی اور بالآخر ہلاک ہوا دنیا میں بھی سزا پائی، یعنی اپنے لشکروں سمیت سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا اور آخرت میں بھی دوزخ میں داخل ہوگا بلکہ دوزخ میں داخل ہوتے وقت اپنی قوم سے آگے آگے ہوگا۔ سورة ٴ ہود میں فرمایا ﴿ يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ﴾ (قیامت کے دن اپنی قوم سے آگے ہوگا سو انہیں دوزخ میں پہنچا دے گا) ۔ سورة القصص میں فرمایا ﴿وَ اَتْبَعْنٰهُمْ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً ١ۚ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِيْنَ (رح) ٠٠٤٢﴾ (اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور وہ لوگ قیامت کے دن بدحال ہوں گے) ۔
(24) یوں کہا میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار اور رب ہوں۔ شایدوہی جادوگروں کا جمع کرنا مراد ہے مجمع جب اکٹھا ہوگیا تو بلند آواز سے ایک تقریر کی اور اس میں لوگوں کو سمجھایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برائی کی اور اپنی ربوبیت کا اعلان کیا اور اعلیٰ کا وصف مدح کے طور پر بڑھا دیا مطلب یہ ہے کہ میں ہی تمہارا محسن ہوں تمہارا مرتی ہوں۔ انا لاغیر جب میں ہی ہوں تو اس موسیٰ کو کس نے بھیجا ہے فرعون کسی دوسرے رب کا قائل ہی نہیں تھا۔ سورة قصص میں گزرچکا ہے۔ ماعلمت لکم من الہ غیری۔ آگے حضرت حق جل مجدہ اس کی گرفت کا ذکر فرماتے ہیں۔