Surat un Naziaat
Surah: 79
Verse: 34
سورة النازعات
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی ﴿۳۴﴾۫ ۖ
But when there comes the greatest Overwhelming Calamity -
پس جب وہ بڑی آفت ( قیامت ) آ جائے گی ۔
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی ﴿۳۴﴾۫ ۖ
But when there comes the greatest Overwhelming Calamity -
پس جب وہ بڑی آفت ( قیامت ) آ جائے گی ۔
The Day of Judgement, its Pleasures and Hell, and that its Time is not known Allah says, فَإِذَا جَاءتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى But when there comes the Great Catastrophe, This refers to the Day of Judgement. This has been said by Ibn Abbas. It has been called this because it will overcome every matter. It will be frightful and horrifying. As Allah says, وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ And the Hour will be more grievous and more bitter. (54:46) Then Allah says, يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الاِْنسَانُ مَا سَعَى
انتہائی ہولناک لرزہ خیز لمحات طامتہ الکبریٰ سے مراد قیامت کا دن ہے اس لئے کہ وہ ہولناک اور بڑے ہنگامے والا دن ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ 46 ) 54- القمر:46 ) یعنی قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے ، اس دن ابن آدم اپنے بھلے برے اعمال کو یاد کرے گا اور کافی نصیحت حاصل کر لے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23ۭ ) 89- الفجر:23 ) یعنی اس دن آدمی نصیحت حاصل کر لے گا لیکن آج کی نصیحت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ، لوگوں کے سامنے جہنم لائی جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے اس دن سرکشی کرنے والوں اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کو ٹھکانا جہنم ہو گا ، ان کی خوراک زقوم ہو گا اور ان کا پانی حمیم ہو گا ، ہاں ہمارے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہنے والوں ، اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں سے بچاتے رہنے والوں خوف اللہ دل میں رکھنے والوں اور برائیوں سے باز رہنے والوں کا ٹھکانا جنت ہے اور وہاں کی تمام نعمتوں کے حصہ دار صرف یہی ہیں ، پھر فرمایا کہ قیامت کے بارے میں تم سے سوال ہو رہے ہیں تم کہہ دو کہ نہ مجھے اس کا علم ہے نہ مخلوق میں سے کسی اور کو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ۔ اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہیں وہ زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے ، حالانکہ دراصل اس کا علم سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ، حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی جس وقت انسانی صورت میں آپ کے پاس آئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات آپ نے دیئے پھر یہی قیامت کے دن کے تعیین کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا جس سے پوچھتے ہو ، نہ وہ اسے جانتا ہے نہ خود پوچھنے والے کو اس کا علم ہے ، پھر فرمایا کہ اے نبی تم تو صرف لوگوں کے ڈرانے والے ہو اور اس سے نفع انہیں کو پہنچے گا جو اس خوفناک دن کا ڈر رکھتے ہیں اور تیاری کرلیں گے اور اس دن کے خطرے سے بچ جائیں گے ، باقی جو لوگ ہیں وہ آپ کے فرمان سے عبرت حاصل نہیں کریں گے بلکہ مخلافت کریں گے اور اس دن بدترین نقصان اور مہلک عذابوں میں گرفتار ہوں گے ، لوگ جب اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں جمع ہوں گے ، اس وقت اپنی دنیا کی زندگی انہیں بہت ہی تھوڑی نظر آئے گی اور ایسا معلوم ہو گا کہ صرف صبح کا یا صرف شام کا کچھ حصہ دنیا میں گزارا ہے ، ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو عشیہ کہتے ہیں اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن تک کے وقت کو ضحیٰ کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگی ۔ سورہ نازعات کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ رب العالمین ۔
[٢٤] الطّامۃ : الطَّمُّ بمعنی پانی سے بھرا ہوا اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور الطامہ ایسی آفت جو دوسری تمام مصیبتوں پر حاوی ہوجائے۔ اور الکبریٰ کا لفظ اس بڑی آفت کو مزید نمایاں کرنے کے لیے تاکید کے طور پر آیا ہے اور اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔
(فاذا جآء ت الطآمۃ الکبری :” الطآمۃ “ اس مصیبت کو کہتے ہیں جو ہر چیز پر چھا جائے، مراد قیامت ہے۔ مزید ہولناکی بیان کرنے کے لئے فرمایا ” الکبری “ کہ جو سب سے بڑی (مصیبت ) ہے۔
فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّۃُ الْكُبْرٰى ٣٤ ۡ ۖ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ طم الطَّمُّ : البحرُ المَطْمُومُ ، يقال له : الطَّمُّ والرَّمُّ ، وطَمَّ علی كذا، وسمِّيَت القیامةُ طَامَّةً لذلک . قال تعالی: فَإِذا جاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرى[ النازعات/ 34] . ( ط م م ) الطم کے معنی پانی سے بھرے ہوئے سمندر کے ہیں اور ایسے سمندر کو الطم والرم کہا جاتا ہے اور طم علٰی کذا کے معنی کیس پر چھا جانے اور اسے ڈھانپ لینا کے ہیں ۔ اسی سے قیامت کو طامۃ کہا گیا ہے کیونکہ اس کی مصیبت سب پر چھا جائے گی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَإِذا جاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرى[ النازعات/ 34] تو جب بڑی آفت آئے گی ۔
(٣٤۔ ٣٥) سو جس وقت قیامت قائم ہوگی اور اس کا ہنگامہ ہر ایک چیز کو گھیرے گا اس روز کافر یعنی نضر بن حارث اپنے اعمال کفریہ کا یاد کریں گے اور ان کو جان لیں گے۔
19 This implies the Resurrection for which the words at-Taammat alkubra have been used. Taammah by itself is a grievous calamity which afflicts everybody. Then it has been further qualified by the word kubra (great) , which shows that the mere word taammah is not enough to describe fully its intensity and severity.
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :19 اس سے مراد ہے قیامت اور اس کے لئے الطَّامَّۃُ الْکُبْریٰ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ طامّہ بجائےخود کسی ایسی بڑی آفت کو کہتے ہیں جو سب پر چھا جائے ۔ اس کے بعد اس کے لئے کُبریٰ کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ہے جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدّت کا تصوّر لانے کے لئے محض لفظ طامّہ بھی کافی نہیں ہے ۔
٣٤۔ ٤١۔ دنیا کی موجودات ایک دن اجڑ کر اس کے بعد سزا و جزا کا دوسرا نظام قائم ہوگا جس کا نام قیامت ہے طامہ اس آفت کو کہتے ہیں جس کی برداشت نہ ہو سکے۔ یہاں طامہ سے مطلب قیامت ہے۔ اس دن دوزخ کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لایا جائے گا سورج ایک میل کے فاصلہ کی بلندی پر آجائے گا۔ ادھر سورج کی گرمی اور ادھر دوزخ کی آگ کی گرمی۔ اس لئے پسینہ کی وہ حالت ہوگی کہ ہوش و حواس ٹھکانے نہ رہیں گے۔ نیکی بدی کے تولے جانے کا ‘ پل صراط پر گزرنے کا جدا خوف لگا ہوگا غرض ایسی ایسی خوفناک آفتیں اس دن آدمی کو پیش آنے والی ہیں جس کی برداشت اس قدر مشکل ہے کہ جس کو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے والساعۃ ادھیٰ وامر جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی گھڑی بڑی آفت اور سختی کی گھڑی ہے پھر جب انسان اس دن دیکھے گا کہ بغیر نیک عمل کے ان آفتوں سے نجات نہیں مل سکی تو اس وقت ہر شخص اپنے نیک و بد عملوں کو سوچے گا مگر اس وقت کا سوچنا کچھ فائدہ نہ دے گا اس وقت یہی انجام ہوگا کہ جس شخص نے فقط دنیا کے عیش و عشرت میں اپنی ساری عمر گنوائی اور اس عیش و عشرت میں عقبیٰ کو بالکل بھولا رہا وہ دوزخی قرار پائے گا اور جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہونے کا کھٹکا لگا رہا اور اس کھٹکے کے سبب سے وہ اپنے جی کے برے کاموں سے ہمیشہ روکتا اور نیک کاموں میں جی لگاتا رہا وہ جنتی ٹھہرے گا۔ ترمذی ١ ؎ مستدرک حاکم بیہقی طبرانی وغیرہ میں معتبر اسناد سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک وہ آدمی ہے جس نے دنیا میں بڑی عمر پائی اور نیک کاموں میں لگا رہا اور بد وہ ہے جس نے دنیا میں بڑی عمر پائی اور اس کو برے کاموں میں گنوایا۔ شداد ٢ ؎ بن اوس اور عبد اللہ بن عمر (رض) کی یہ روایتیں اوپر گزر چکی ہیں کہ وہ شخص بڑا کم عمل ہے جو عمر بھر برے کاموں میں لگا رہا اور پھر مرنے کے بعد راحت کی توقع رکھی۔ اس دن آدمی کو نیک عمل کی بڑی قدر ہوگی۔ چناچہ مسند ٣ ؎ امام احمد میں معتبر سند سے محمد بن ابی عمیرہ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص عمر بھر نیک کاموں میں جہاں تک ہوسکا لگا رہا اس کو بھی اس دن یہ پچھتاوا ہوگا کہ اس نے اور زیادہ نیک عمل کیوں نہیں کئے کہ زیادہ ثواب کا مستحق ٹھہرتا۔ ١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی طول العمر للمومن ص ٦٨ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١٠۔ ٣ ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ القیمۃ ص ٨٢ ج ٢۔
(79:34) فاذا جاءت الطامۃ الکبری۔ علامہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ ف سببیہ ہے یعنی جب اس کائنات کی ایجاد سے اللہ کا قادر ہونا ثابت ہوگیا اور قیامت کا امکان ہوگیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے حشر کا ثبوت بھی ہوچکا تو اب طامۃ الکبری کا لفظ بول کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے آنے کا وقت اور اس کے احوال بتا دئیے۔ یہ لفظ اس لئے اختیار کیا کہ (تفصیل بیان کرنے سے پہلے) عنوان سے ہی قیامت کے کچھ احوال معلوم ہوجائیں لغت میں طم کے معنی ہیں غلبہ۔ سمندر کو طم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ عرب ناقابل برداشت مصیبت کو طامۃ کہتے ہیں ۔ قیامت کو طامۃ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ حادثہ قیامت تمام حوادث و مصائب پر غالب ہے۔ (سب سے بڑی مصیبت ہے) ۔ الکبری، الطامۃ کی صفت تاکیدی ہے اور اذا ظرفیہ ہے (بمعنی جس وقت) لیکن معنی شرط کو متضمن ہے (بمعنی جب بھی) ۔
فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے قیامت کی ہولناکیوں اور ان کی کیفیت کو نہیں جانتے اس لیے قیامت کا انکار اور اس سے لاپرواہی کرتے ہیں۔ ان کی لاپرواہی کو دور کرنے کے لیے قیامت کی ہولناکیوں اور اس کی ہیبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس قیامت کا لوگ انکار کرتے ہیں اس کی ابتدا ہی ایسے زور دار دھماکے سے ہوگی کہ جو ہر چیز کو ہلا کے رکھ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا زمین آسما نوں میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اس کے لیے یہاں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ” اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی “ کا معنٰی کسی چیز کا لبالب بھرا ہونا ہے۔ ” الکبریٰ “ یعنی قیامت سب سے بڑی آفت ہوگی اور وہ اپنی حولناکیوں کے اعتبار سے ہمہ گیر ہوگی جس کی ابتدا اسرافیل کے صور سے ہوگی جونہی اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو ہر چیز ہل جائے گی۔ اس دن انسان اپنے کیے کے بارے میں فکر مند ہوگا اور ہر انسان اپنے ماضی کے بارے میں سوچ ہی رہا ہوگا کہ اس کے سامنے جہنم کھڑی کردی جائے گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جو اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے بچائے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ قرآن مجید نے اس مقام پر جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لیے دو بنیادی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کو سرکشی سے بچایا اور دنیا پر آخرت کو مقدم جانا اور ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتارہا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس کے الٹ زندگی اختیار کی وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ تعالیٰ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، ہر انسان دیکھ لے گا کہ اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے بیشک کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔ “ (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) مسائل ١۔ قیامت بہت بڑی آفت ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن جہنم لوگوں کے سامنے لائی جائے گی۔ ٤۔ جس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور دنیا کو آخرت سے مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ٥۔ جو اپنے رب سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور آخرت پر دنیا کو مقدم جانا وہ تباہ ہوجائے گا : ١۔ علم ہونے کے باوجود دو سروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٢۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٥) ٣۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ : ٤٨) ٤۔ خواہشات کی اتباع کرنے کی بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔ (المائدۃ : ٤٩) ٥۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٦۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٦) (القصص : ٥٠) ٧۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٨۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون : ٧١)
دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے اور اس کے لئے یہاں نہایت گہرائی اور حکمت سے نظام زندگی اور سامان حیات تیار کیا گیا ہے۔ اس کائنات کا نظام اور انسانی زندگی کے نظام کے درمیان گہراربط ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ چند روزہ متاع ہے اور ایک دن اسے ختم ہونا ہے۔ جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا تو اس زندگی کا نظام معطل ہوجائے گا۔ یہ چند روزہ زندگی ختم ہوگی۔ یہ عظیم کائنات ختم ہوگی۔ یہ بلندوبالا آسمان ، یہ بلند پہاڑ ، اور یہ وسیع و عریض زمین ، اور اس زمین کے اوپر برپا ہونے والی تمام کشمکش اور یہ سرگرمیاں سب کی سب ختم ہوجائیں گی کیونکہ یہ حادثہ بہت عظیم ہوگا اور بہت ہی عام ہوگا۔ یہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اب انسان کو یاد آئے گا کہ وہ کیا کچھ کرتا رہا ہے ، اب اسے اپنی تمام سرگرمیاں یاد آتی جائیں گی۔ زندگی کے واقعات یاد آتے جائیں گے۔ زندگی کی مصروفیات جنہوں نے انسان کو اس عظیم دن سے غافل کردیا تھا ، اب اسے سب کچھ یاد ہوگا ۔ لیکن اب اس کی یہ یادداشت اسے حسرت اور مایوسی کے سوا کچھ نے دے سکے گی۔ اب تو اس کے سامنے ایک دوسرا نقشہ ہوگا۔
ان آیات میں قیامت کا منظر بتایا ہے۔ ﴿ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى ﴾ جس کا ترجمہ بڑی مصیبت سے کیا گیا ہے یہ طم یَطُمُّ سے ماخوذ ہے جو بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے قیامت کے لیے اس لفظ کا اطلاق اس لیے کیا گیا کہ اس دن کی مصیبت ہر مصیبت پر غالب ہوگی۔ اس سے بڑی مصیبت اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : والطامة اعظم الدواھی لانہ من طم بمعنی علا کما وردفی المثل جری الوادی فطم علی القری وجاء السیل فطم الر کی وعلوھا علی الدواھی غلب تھا علیھا فیرجع لما ذكر، قیل فوصفھا بالکبریٰ للتاکید ولو فسر کونھا طامة بکونھا غالبة للخلائق لا یقدرون علی دفعھا لکان الوصف مخصصا، وقیل کونھا طامة باعتبار انھا تغلب وتفوق ماعرفوا من دواھی الدنیا وکونھا کبری باعتبار انھا اعظم من جمیع الدواھی مطلقا وقیل غیر ذلك۔ حضرت حسن بصری (رض) نے فرمایا کہ ﴿ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى ﴾ سے نفخہ ٔ ثانیہ (دوسری بار صور پھونکنا) مراد ہے۔ ارشاد فرمایا جس دن سب سے بڑی مصیبت آئے گی انسان یاد کرے گا اپنی کوششوں کو یعنی دنیا میں جو اعمال کیے تھے ان کو یاد کرے گا کیونکہ ان اعمال پر عذاب وثواب کا مدار ہوگا اور اس وقت جحیم یعنی دوزخ کو ظاہر کردیا جائے گا جسے سب دیکھنے والے دیکھ لیں گے۔ حساب و کتاب کے بعد جو فیصلے ہوں اس میں دو ہی جماعتیں ہوں گی ایک جماعت دوزخ میں اور ایک جماعت جنت میں جائے گی، جسے سورة الشوریٰ میں بیان فرمایا ہے : ﴿ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ ٠٠٧﴾ اور جو لوگ اعراف پر ہوں گے وہ بھی آخر میں جنت میں داخل ہوں گے جنت اور دوزخ کے داخلہ کی بنیاد بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ فَاَمَّا مَنْ طَغٰى ۙ٠٠٣٧ وَ اٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاۙ٠٠٣٨ فَاِنَّ الْجَحِيْمَ هِيَ الْمَاْوٰى ؕ٠٠٣٩﴾ (سو جس نے سرکشی کی اور دنیا والی زندگی کو ترجیح دی یعنی دنیا ہی کے کام کرتا رہا اور آخرت کی تیاری نہ کی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا) ۔ عام طور سے کفر کا اختیار کرنا اور حق ظاہر ہوتے ہوئے حق قبول نہ کرنا اسی لیے ہوتا ہے کہ دنیا کو ترجیح دیتے ہیں مال اور دولت اور کرسی چلے جانے کے ڈر سے حق قبول نہیں کرتے، یہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا ہے جو لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی گناہوں میں بھی منہمک رہتے ہیں اس کا باعث بھی دنیا کو ترجیح دینا ہوتا ہے۔ مال کی طلب یا جاہ اور شہرت اور عہدہ کا لالچ یہ چیزیں گناہوں پر ڈالتی ہیں فرائض و واجبات چھڑاتی ہیں اور کاروبار میں خیانت ملاوٹ وغیرہ کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، جو شخص آخرت کو ترجیح دے گا اور یہ یقین کرتے ہوئے زندگی گزارے گا کہ قیامت کے دن پیش ہونا ہے وہ دنیا کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ دنیا کی طلب حلال کما کر حلال مواقع پر خرچ کرنے کے لیے جائز ہے۔ البتہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا ہلاکت کا سبب ہے۔
13:۔ ” فاذا جاءت “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” الطامۃ الکبری “ سب سے بڑی مصیبت جو ہر چیز پر غالب آجائے اور جس کا مقابلہ نہ کیا جاسکے۔ مراد نفخہ ثانیہ ہے جس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی۔ ای الداھیۃ العظمی وھی النفخۃ الثانیۃ التی یکون معہا البعث قالہ ابن عباس۔ المبرد : الطامۃ عند العرب الداھیۃ التی لا تستطاع (قرطبی ج 19 ص 204) جب قیامت قائم ہوجائیگی اس دن ہر آدمی اپنے تمام نیک وبد اعمال کو یاد کرلے گا اور ہر ایک کو اپنے اعمال خیر و شر خود بخود یاد آجائیں گے۔