Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 42

سورة النازعات

یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾

They ask you, [O Muhammad], about the Hour: when is its arrival?

لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی ؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے واقع کا صحیح وقت کیا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا :” مرسھا “ ارسی یرسی “ (افعال) سے مصدر ہو تو معنی ہوگا ” اس کا وقوع یا قیام “ اور اگر ظرف ہو تو معنی ہے ” اس کے قیام کا وقت۔ “ کافر لوگ یہ سوال بار بار کرتے تھے، اس سے ان کا مقصد قیامت کا وقتا ور تاریخ معلوم کرنا نہیں تھا بلکہ اسے جھٹلانا اور اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَۃِ اَيَّانَ مُرْسٰـىہَا۝ ٤٢ ۭ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ أَيَّانَ عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات/ 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي : أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و : ( ایان ) ایان ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔{ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ } ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے { أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ } ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال تعالی: ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها من : أجریت، وأَرْسَيْتُ ، فالمُرْسَى يقال للمصدر، والمکان، والزمان، والمفعول، وقرئ : ( مجريها ومرسيها) ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ اور قرآن میں جو ہے ۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها«3» اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے ۔ تو یہ اجریت وارسیت ( باب افعال ) سے موخوذ ہے ۔ اور مرسی کا لفظ مصدر میمی آتا ہے اور صیغہ ظرف زمان ومکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت نذکورۃ الصدر میں ایک قرات وقرئ : ( مجريها ومرسيها) بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد کفار مکہ آپ سے بطور تعریض کے قیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کب قائم ہوگی۔ شان نزول : يَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ (الخ) حاکم اور ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم سے قیامت کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا یہاں تک کہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم، ضحاک عن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ مشرین مکہ نے نبی اکرم سے بطور استہزاء کے دریافت کیا کہ قیامت کب قائم ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے اخیر تک آپ پر یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 The disbelievers of Makkah asked this question of the Holy Prophet over and over again. By this they did not mean to know the time and date of the coming of Resurrection but to mock it. (For further explanation, see E.N. 35 of Surah Al-Mulk) .

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :22 کفار مکہ رسول اللہ سے یہ سوال بار بار کرتے تھے اور اس سے مقصود قیامت کی آمد کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد ششم ، تفسیر سورہ ملک ، حاشیہ 35 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ ٤٦۔ نسائی ‘ مستدرک ٤ ؎ حاکم مسند بزار مسند عبد بن حمید وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب تک یہ آیتیں نازل نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک ٹھٹھے کے طور پر اکثر مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کا حال پوچھا کرتے تھے جب یہ آیتیں نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے جتلایا کہ قیامت کے آنے کا وقت سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں تو مشرکنا مکہ اور ٹھٹھے کی باتیں کرتے تھے مگر عاجز آ کر قیامت کا حال پوچھنا انہوں نے کم کردیا تھا۔ ان روایتوں میں بعض صحیح ہیں اور باقی کی تقویت صحیح روایتوں سے ہوجاتی ہے۔ صحیح ٥ ؎ حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے سائل کی صورت بن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کے چند مسئلے پوچھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب دیئے۔ جب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس بات سے میں اور تم دونوں انجان ہیں غرض بہت سی صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سوا اللہ تعالیٰ کے قیامت کے آنے کا وقت کسی انسان یا فرشتے کو معلوم نہیں ہے۔ صحیح ١ ؎ حدیثوں میں ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہوگا اس لئے اس کے اور اس کی آفتوں کے مقابلہ میں حشر اور قیامت کے منکروں کو دنیا کا رہنا بالکل تھوڑا نظر آئے گا۔ (٤ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣١٤ ج ٦۔ ) (٥ ؎ صحیح مسلم کتاب الایمان ص ٢٧ ج ١) ١ ؎ صحیح مسلم باب اثم مانع الزکوٰۃ ص ٣١٨ ج ١

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:42) یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں ۔ پوچھتے ہیں۔ دریافت کرتے ہیں۔ الساعۃ۔ یعنی قیامت۔ ایان۔ اسم ظرف زمان مبنی برفتح۔ مبتدا۔ مرسھا مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا کی خبر۔ یہ جملہ سوال کا بیان ہے۔ ایان : منی کے قریب المعنی ہے اور کسی شے کا وقت معلوم کرنے کے لئے آتا ہے۔ بعض لوگ اس کی اصل ای اوان بمعنی ” کونسا وقت “ بتاتے ہیں۔ الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء کیا گیا پھر ی کو ی میں ادغام کیا گیا ایان ہوگیا۔ مرسی مصدر میمی ہے اور ارساء (افعال) مصدر (لام و متعدی) سے اسم ظرف زمان و مکان کی ہے۔ ارسا ارساء بمعنی ٹھیرنا۔ ثابت ہونا۔ (بحری جہاز کو) لنگر انداز کرنا۔ (کھونٹے کو زمین میں) گاڑنا۔ (نیز ملاحظہ ہو 79:32 متذکرۃ الصدر) ترجمہ :۔ (اے پیغمبر لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کہیں اس کا تھل بیڑا بھی ہے (یعنی کب واقع ہوگی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اس کا وقوع (یاقیام) کب ہوگا ؟ “ متعدد آیات میں گزرچکا ہے کہ کافر یہ سوال معلومات کے لئے نہیں بلکہ ازراہ مذاق کیا کرتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورت کی ابتدائی آیات میں قیامت کے ثبوت دئیے گئے ہیں اس کا اختتام بھی انہیں دلائل پر کیا گیا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل مکہ مختلف موقعوں پر مختلف الفاظ اور انداز میں سوال کرتے کہ قیامت کب آئے گی۔ اس سوال کے انہیں کئی جواب دیئے گئے جن کے بنیادی طور پر دو مفہوم ہیں۔ ١۔ کوئی اقرار کرے یا انکار کرے قیامت ہر صورت واقع ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو اس کا وقت جاننے کی بجائے اس کے احتساب کا فکر کرنا چاہیے۔ کفار کے سوال کا جہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اے رسول ! لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کے کا وقت پوچھتے ہیں کہ وہ کب اور کس وقت واقع ہوگی ان سے فرمائیں ! کہ قیامت کا وقت نہ بتلانے میں بھی تمہارے لیے نصیحت ہے۔ اس لیے تمہیں اس کے وقت کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے ایمان اور عمل کی فکر کرنی چاہیے۔ جہاں تک اس کے واقع ہونے کے وقت کا تعلق ہے وہ صرف آپ کا رب جانتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف قیامت کی جوابدہی اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرانا ہے البتہ قیامت اس قدر خوفناک ہوگی کہ مجرموں کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ وہ کتنی مدت دنیا میں قیام پذیر رہے ہیں۔ قیامت کی سختی کی وجہ سے یہ لوگ حواس باختہ ہوں گے جس بنا پر خیال کریں گے کہ ہم دنیا میں صبح کی چند گھڑیاں رہے ہیں یا پھر مغرب کا مختصر وقت۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس سورت میں عقل وخرد کی تاروں پر ایک شدید چوٹ لگائی جاتی ہے جس سے ایک طویل نغمہ بلند ہوتا ہے۔ یسئلونک ................................ اوضحھا ہٹ دھرمی میں ڈوبے ہوئے مشرکین جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی روز قیامت کی یہ ہولناکیاں سنتے اور قرآن میں قیامت کے برپا ہونے کے عظیم واقعات اور افراتفری اور ہنگامہ عظیم کی بات سنتے کہ وہ اں حساب و کتاب ہوگا اور جزاء وسزا ہوگی تو وہ فوراً سوال کردیتے۔ ایان مرسھا (42:79) ” آخر وہ گھڑی کب آکر ٹھہرے گی ؟ “۔ یہ تو تھا ان کا سوال۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” یسئلونک “ یہ شکوی ہے۔ ” مرسی “ مصدر ہے بمعنی ” ارساء “ یعنی اقامت۔ مشرکین آپ سے بطور استہزاء سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آئیگی اور کب اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر فرمائے گا۔ یریدون متی یقیمہا اللہ تعالیٰ ویکونہا الخ (روح) ۔ ” فیم انت من ذکریھا “ یہ مشرکین کے سوال کا رد اور اس پر انکار ہے آپ کس بنیاد پر ان کے سامنے قیامت کا وقت معین بیان کریں گے اس کا وقت معین تو خود آپ کو بھی معلوم نہیں اس کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف راجع اور منتہی ہے اور اس کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں، تو پھر یہ لوگ آپ سے کیوں سوال کرتے ہیں۔ الیہ عز وجل انتھاء علمہا لیس لاحد منہ شتی کائنا ما کان فلای شیء یسئلونک عنہا (روح ج 30 ص 37) ۔ ” الی ربک منتہا “ ای منتہی علمہا فلا یوجد عند غیرہ علم الساعۃ (قرطبی ج 19 ص 207) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) یہ منکر آپ سے پیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ اس کا قیام اور وقوع کب ہوگا۔ یعنی جب قیامت کا ذکر کریں تو بطور استہزاء اور انکار دریافت کرتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی اور اس وعدہ قیامت کا وقت کب ہے آگے اس کا جواب ہے۔