Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 12

سورة الأنفال

اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ ﴿ؕ۱۲﴾

[Remember] when your Lord inspired to the angels, "I am with you, so strengthen those who have believed. I will cast terror into the hearts of those who disbelieved, so strike [them] upon the necks and strike from them every fingertip."

اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَليِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِينَ امَنُواْ ... (Remember) when your Lord revealed to the angels, "Verily, I am with you, so keep firm those who have believed." This is a hidden favor that Allah has made known to the believers, so that they thank Him and are grateful to Him for it. Allah, glorified, exalted, blessed and praised be He, has revealed to the angels -- whom He sent to support His Prophet, religion and believing group -- to make the believers firmer. Allah's statement, ... سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرَّعْبَ ... I will cast terror into the hearts of those who have disbelieved. means, `you -- angels -- support the believers, strengthen their (battle) front against their enemies, thus, implementing My command to you. I will cast fear, disgrace and humiliation over those who defied My command and denied My Messenger, ... فَاضْرِبُواْ فَوْقَ الاَعْنَاقِ وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ so strike them over the necks, and smite over all their fingers and toes. strike them on their foreheads to tear them apart and over the necks to cut them off, and cut off their limbs, hands and feet. According to Ad-Dahhak and Atiyyah Al-`Awfi, فَوْقَ الاَعْنَاق (over the necks), refers to striking the forehead, or the neck, In support of the latter, Allah commanded the believers, فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّواْ الْوَثَاقَ So, when you meet (in fight Jihad in Allah's cause) those who disbelieve, smite (their) necks till when you have killed and wounded many of them, then bind a bond firmly (on them, take them as captives). (47:4) Ar-Rabi bin Anas said, "In the aftermath of Badr, the people used to recognize whomever the angels killed from those whom they killed, by the wounds over their necks, fingers and toes, because those parts had a mark as if they were branded by fire." Allah said, ... وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ and smite over all their fingers and toes. Ibn Jarir commented that this Ayah commands, "O believers! Strike every limb and finger on the hands and feet of your (disbelieving) enemies." Al-Awfi reported, that Ibn Abbas said about the battle of Badr that; Abu Jahl said, "Do not kill them (the Muslims), but capture them so that you make known to them what they did, their ridiculing your religion and shunning Al-Lat and Al-Uzza (two idols)." Allah than sent down to the angels, ... أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِينَ امَنُواْ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرَّعْبَ فَاضْرِبُواْ فَوْقَ الاَعْنَاقِ وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ... Verily, I am with you, so keep firm those who have believed. I will cast terror into the hearts of those who have disbelieved, so strike them over the necks, and smite over all their fingers and toes. In that battle, Abu Jahl (may Allah curse him) was killed along with sixty-nine men. `Uqbah bin Abu Mua`it was captured and then killed, thus bring the death toll of the pagans to seventy,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے اور خاص اپنی طرف سے جس جس طریقے سے مسلمانوں کی بدر میں مدد فرمائی اس کا بیان ہے۔ 12۔ 1 بَنَانِ ۔ ہاتھوں اور پیروں کے پور۔ یعنی ان کی انگلیوں کے اطراف (کنارے) یہ اطراف کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ معزور ہوجائیں گے۔ اسطرح وہ ہاتھوں سے تلوار چلانے کے اور پیروں سے بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] مسلمانوں کی قدرتی وسائل سے امداد :۔ اب یہاں سے ان قدرتی اسباب کا ذکر شروع ہوتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی فتح کا سبب بنے تھے اور یہ اسباب چار تھے۔ بالفاظ دیگر اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی چار طرح سے مدد فرمائی تھی اور اس ذکر سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب اس جنگ میں فتح کے قدرتی اسباب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے تو پھر تم مال غنیمت پر تنازعہ اور قبضہ کیسے کرسکتے ہو۔ یہ تو محض اللہ کی مدد سے تمہیں میسر آیا ہے۔ لہذا یہ مال اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے چاہے اسے تقسیم کرے گا۔ ہوا یہ تھا کہ میدان بدر میں مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے کافر پہنچ کر ایک پکی زمین پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کو پڑاؤ کے لیے میسر آئی ریتلی تھی۔ بلندی پر واقع تھی اور وہاں پانی نام کو نہ تھا اس کے بجائے گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ مسلمانون کو ایک تو پیاس نے ستایا ہوا تھا، دوسرے وضو اور طہارت کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا تھا۔ تیسرے سامنے کافروں کے مسلح لشکر جرار کو دیکھ کر سخت گھبراہٹ میں مبتلا تھے اور شیطان طرح طرح کے وسوسے ان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تمہیں خوراک تو درکنار پینے کو پانی بھی میسر نہیں پھر بھلا تم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیسے کرسکو گے ؟ اس حال میں اللہ کی مدد یوں مسلمانوں کے شامل حال ہوئی کہ رات کو زور سے بارش ہوئی جس کے تین فائدے ہوئے (١) مسلمانوں نے بڑے بڑے حوض بنا کر پانی جمع کرلیا۔ انہیں پینے اور نہانے دھونے کے لیے پانی میسر آگیا (٢) نیچے سے ریت جم گئی، جہاں پہلے قدم پھسلتے جاتے تھے وہاں جمنے شروع ہوگئے اس طرح وہ سب شیطانی وساوس دور ہوگئے جو شیطان مسلمانوں کے دلوں میں ڈال رہا تھا۔ (٣) یہی پانی کا ریلا جب بہہ کر کفار کے لشکر کی طرف گیا تو وہاں کیچڑ اور پھسلن پیدا ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی پہلی صورت تھی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ جنگ کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر غنودگی طاری کردی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو بدن سے تھکاوٹ دور ہوگئی۔ دوسرے کافروں کی جو ہیبت ذہنوں پر سوار تھی وہ دور ہوگئی۔ تازہ دم اور تازہ دماغ ہونے کی وجہ سے ان میں چستی پیدا ہوگئی۔ چناچہ جب آپ خود ساری رات عریش میں اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد اور آہ وزاری کرنے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی درخواست پر باہر نکلے تو اس وقت غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور جب اس حالت سے سنبھلے تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے :۔ ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45؀) 54 ۔ القمر :45) (بخاری، کتاب الجہاد باب ماقیل فی درع النبی) پھر آپ نے بڑے بڑے کافروں کے قتل ہوجانے کی خبر دی اور ان کے قتل کی جگہیں بھی صحابہ کرام (رض) کو دکھلادیں۔ تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جیسا کہ اوپر کے حاشیہ میں درج شدہ احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ صحابہ (رض) کہتے ہیں کہ جن کافروں کی موت فرشتوں کے ہاتھوں واقع ہوتی ہم اس لاش کو پوری طرح پہچان لیتے تھے۔ فرشتوں کی آمد سے جہاں مسلمانوں کے دلوں کو ثبات وقرار حاصل ہوا وہاں کافر سخت بددل اور مرعوب ہوگئے اور چوتھی صورت کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے بھی اپنے طور پر کچھ نہیں کرسکتے۔ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ : یہ چوتھا انعام ہے جو میدان بدر ہی میں نہیں بلکہ تمام جنگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت مسلمہ کو عطا ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ “ ان میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ” مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعے سے مدد دی گئی۔ “ [ بخاری، التیمم، بابٌ : ٣٣٥ ] اس کا باعث اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں کفار کا مشرک ہونا بیان فرمایا۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٥١) ۔ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ : گردنوں پر مارو، تاکہ ان کے ناپاک جسموں سے زمین پاک ہو اور ہاتھوں اور پاؤں کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ، تاکہ وہ ہاتھوں سے لڑ نہ سکیں اور پاؤں سے بھاگ نہ سکیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Being enumerated from the very beginning are blessings of Allah Ta` ala which descended upon His obedient servants. The events of the battle of Badr are parts of the same chain. Out of the many blessings bestowed by Allah Ta` ala during the battle of Badr, the very first blessing is the bringing out of Muslims for this Jihad, which finds mention in: كَمَا أَخْرَ‌جَكَ رَ‌بُّكَ (When your Lord made you leave your home - 5). The second blessing is the promise of providing the support of angels which has been made وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّـهُ (And when Allah was promising you - 7). The third blessing is the answer to the prayer made and the fulfill-ment of the promise of support given, which has been mentioned in: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ (When you were calling your Lord for help - 9). The fourth blessing finds its description in the first of the set of four verses cited immediately above (11). Mentioned here are two blessings for the believers: (1) The removal of anxiety and fatigue through a mass descension of drowsiness; and (2) the provision of water for them through rains which also made the battlefield smooth for them and muddy for the enemy. According to the details of what happened there, when this first ever confrontation between kufr (disbelief, infidelity) and Islam turned into a certain battle, the army of the disbelievers of Makkah had already reached and set up camp at a place which was located on high grounds with water close to them. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Companions (رض) arrived at that place, the lower part of valley fell to their lot. The Holy Qur&an has portrayed the layout of this battlefield in verse 42 of this very Surah by saying: إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ (When you were on the nearest cliff, and they were on the farthest one - 8:42) a detailed description of which shall appear later. The spot reaching where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had first camped was considered strategically inappropriate by Sayyidna Hubab ibn al-Mundhir (رض) who knew this territory well. Keeping this in view, he respectfully inquired: &Ya Rasulallah! Does this place you have selected happen to be in compliance to a command from Allah Ta` ala in which we have no say, or it has been taken to as simply based on opinion and expedience?& He said: No, this is not something Divinely ordained. This can be changed or relocated.& After that, Sayyidna Hubab ibn al-Mundhir (رض) submitted: &If so, it is better to move forward from this spot, reach a water source close to the armed force of Makkan chiefs and take it over. We are sure to have an abundant supply of water there.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) accepted his proposal, marched ahead, took over the spot with water, had a water tank built there and saw to it that an ample supply of water has been stored in it. After he had taken care of this strategic need, Sayyidna Sa&d ibn Mu` adh (رض) said: |"Ya Rasulallah! We would like to put up a shaded structure for you at a secure place where you could stay and where your riding animals could be nearby you. The plan behind this arrangement is that we shall wage our Jihad against the enemy and if Allah were to bless us with victory, then, our plan is well-served for this is what we like for you. But, God forbid, should things turn out otherwise, then, you would be in a position to ride your camel and go back to join the rest of your Companions left behind in Madinah - because, I am strongly inclined to believe that they are no less than us in terms of sacrifice for the cause and love for you. In fact, if they had any idea of the eventuality that you will have to fight against this armed force, then, none of them would have chosen to stay behind. I am sure when you are back in Madinah, they will continue to be your companions in the mission.& On this gallant and noble offer, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prayed for them. So, a ragtag awning of some modest sort was set up for him in which there was no one but he himself and Sayyidna Abu Bakr (رض) . Sayyidna Mu` adh (رض) sword in hand, stood on the door, guarding. This was the first night of confrontation. A bunch of three hundred and thirteen mostly unarmed souls stood against a thousand strong armed forces, being three times more in numbers. They had already occupied the better spot of the battlefield. The lower part of the valley which was sandy and difficult to move around had fallen to the lot of Muslims. Everyone was concerned. Anxiety was natural also started instigating some people: Here you are, claiming to be on the path of truth and at a time so crucial you are busy making Tahajjud prayers rather than go and take some rest. But, cast a look at the ground reality - you will see your enemy casting his heavy shadows on you being far superior to you from all angles. Under these conditions, Allah Ta` ala cast a unique kind of drowsiness on Muslims which made every Muslim, whether or not he intended to sleep, go to sleep compulsively. Hafiz al-Hadith, Abu Ya` la reports that Sayyidna Ali al-Murtada (رض) said: On that night of the battle of Badr, there remained no one from among us who did not go to sleep. Only the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) remained awake throughout the night and kept busy with the Salah of Tahajjud right through dawn. Quoting the Sahih, Ibn Kathir reports that, on that night, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was busy with the Salah of Tahajjud in his ` Arish, the twig-roofed hutment set up for him, he too was somewhat affected by drowsiness. But, immediately coming out of it with a smile, he said: |"0 Abu Bakr, here comes good news for you. This is Jibra&il (علیہ السلام) standing near the cliff& and saying this, he walked out of the hutment reciting the verse which follows: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (Soon the gathered group of the enemy will be defeated and they will turn [ their ] backs - 54:45). According to some narrations, when he came out, he pointed towards various spots and said: &This is the spot where Abu Jahl will be killed, and this is for so and so, and this is for so and so.& Then, events turned out to be precisely as he had indicated. (Tafsir Mazhari) And as it happened during the battle of Badr where Allah Ta&ala cast a particular kind of drowsiness on all Companions (رض) of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in order to remove their fatigue and tension, so it did during the battle of &Uhud. Sufyan al-Thawri (رح) reports ‘Abdullah ibn Masud (رض) that sleep during the state of war is a sign of peace and tranquility from Allah Ta` ala - and sleep during the state of Salah is from the Satan. (Ibn Kathir) The second blessing Muslims received that night was that rains came and totally overturned all battle plans. The spot occupied by the Quraysh army was hit by heavy rains which made it muddy and diffi¬cult to walk through. Then, the spot where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions (رض) were camped was sandy and difficult to walk through at the very outset. When rains came, this spot received the lighter part of it which helped firm up the sandy surface making the ground nice and easy to walk on. The first of the four verses appearing above (11) mentions these very two blessings - sleep and rain - which, by upturning the blueprint of the battlefield, washed off the Satanic scruples which were both¬ering some weak combatants, scruples like: &Here we are, on the side of truth, yet appear to be all subdued and overshadowed while there stands our enemy who is, despite being on the side of falsehood, basking in the sunshine of power, majesty and confidence!& So, Muslims are being told in this verse to remember the time when Allah was covering them up with drowsiness to make tranquility from Him descend upon them, and He was sending down rains upon them so that He purifies them with that water - and removes from them the impurity of Satanic instigations and scruples, and strengthens their hearts, and makes their feet firm. Mentioned in the second verse (12) is the fifth blessing which was beamed at Muslims in this battlefield of Badr. That came through the command addressed to the angels sent by Allah Ta` ala to help Muslims, in which He said: &I am with you. So, you make believers firm. I am going to cast terror into the hearts of disbelievers. So, strike over their necks, and smite them [ so as to even reach ] every finger-joint of theirs.& Here, the angels have been charged with two duties: (1) That they should encourage, exhort and empower Muslims with steadfastness which can be done either by appearing on the battlefield, increase their group strength and participate with them in fighting, or also by using their unobserved ability to dispose matters تَصَرُّف (tasarruf) they would make the hearts of Muslims firm and empower them to operate more effectively. (2) The second duty entrusted with them was that the angels should themselves engage in fighting and attack disbelievers. From this verse (at least for the purpose on hand), it is apparent that the angels did both. They acted upon the hearts of Muslims, increased their courage and strength, and took part in the actual fighting as well. This is also confirmed by some Hadith narrations which have been reported in details in Tafsir Al-Durr Al-Manthur and Mazhari and where eye witnesses to the participation of angels in actual fighting have been documented on the authority of the noble Sahabah. In the third verse (13), it was said that the reason for whatever happened during this confrontation between kufr and Islam was that those disbelievers were hostile to Allah and His Messenger and whoever becomes hostile to Allah and His Messenger, then, for him the punishment of Allah is customarily severe. This tells us that, on the one hand, Muslims were the blessed ones in the battle of Badr for victory became theirs. On the other hand, by sending punishment on disbelievers through Muslims, they were chastised a little for their evil doings - while, the much heavier punishment awaits them in the Hereafter - both of which have been described in the fourth verse (14) by saying: ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿١٤﴾ (That is what you have to taste, and for the disbelievers there is the punishment of the Fire). In other words, what is being said here is: This is a little punish¬ment from Us. So, taste it and better realize that, after this, the punishment of the fire of Jahannam is due to come for disbelievers, a punishment which is severe, lasting and unimaginable.

معارف ومسائل شروع سورة انفال سے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا بیان ہو رہا ہے جو اس کے فرمانبردار بندوں پر مبزول ہوئے۔ غزوہ بدر کے واقعات بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ غزوہ بدر میں جو انعامات حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے ان میں سے پہلا انعام تو خود اس جہاد کے لئے مسلمانوں کو نکالنا ہے جس کا بیان (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ میں ہوا ہے، دوسرا انعام فرشتوں کی مدد کا وعدہ ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ میں آیا ہے۔ تیسرا انعام دعا کی قبولیت اور مدد کا وعدہ پوا کرنا ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ ، میں ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں چوتھے انعام کا تذکرہ ہے جس میں مسلمانوں کے لئے دو نعمتوں کا ذکر ہے ایک سب پر نیند غالب آکر پریشانی اور تکان کا دور ہوجانا دوسرے بارش کے ذریعہ ان کے لئے پانی مہیا فرمانا اور میدان جنگ کو ان کے لئے ہموار اور دشمن کے لئے دلدل بنادینا۔ تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جس وقت کفر و اسلام کا یہ پہلا معرکہ ٹھن گیا تو کفار مکہ کا لشکر پہلے پہنچ کر ایک ایسے مقام پر پڑاؤ ڈال چکا تھا جو اونچائی پر تھا۔ پانی اس کے قریب تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام اس جگہ پہنچے تو وادی کے نچلے حصہ میں جگہ ملی۔ قرآن کریم نے اس میدان جنگ کا نقشہ اسی سورت کی بیالیسویں آیت میں اس طرح کھینچا ہے (آیت) اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي، جس کا مفصل بیان بعد میں آئے گا۔ جس جگہ پہنچ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اول قیام فرمایا۔ اس مقام کے واقف کار حضرت حباب بن منذر نے اس کو جنگی اعتبار سے نامناسب سمجھ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو مقام آپ نے اختیار فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جس میں ہمیں کوئی اختیار نہیں یا محض رائے اور مصلحت کے پیش نظر اختیار فرمایا گیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں یہ کوئی حکم خداوندی نہیں، اس میں تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے، تب حضرت حباب بن منذر نے عرض کیا کہ پھر تو بہتر ہے کہ اس مقام سے آگے بڑھ کر مکی سرداروں کے لشکر کے قریب ایک پانی کا مقام ہے اس پر قبضہ کیا جائے وہاں ہمیں پانی افراط کے ساتھ مل جائے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا مشورہ قبول فرمایا اور وہاں جاکر پانی پر قبضہ کیا ایک حوض پانی کے لئے بنا کر اس میں پانی کا ذخیرہ جمع فرمایا۔ اس سے مطمئن ہونے کے بعد حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم آپ کے لئے ایک سایہ بان کسی محفوظ جگہ میں بنادیں جہاں آپ مقیم رہیں اور آپ کی سواریاں بھی آپ کے پاس رہیں۔ منشاء اس کا یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلہ میں جہاد کریں گے اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح نصیب فرمائی تو یہی مقصد ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی دوسری صورت ہو تو آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر ان صحابہ کرام کے ساتھ جاملیں جو مدینہ طیبہ میں رہ گئے ہیں کیونکہ میرا گمان یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جانثاری اور آپ سے محبت میں ہم سے کم نہیں اور اگر ان کو آپ کے نکلنے کے وقت یہ خیال ہوتا کہ آپ کا اس مصلح لشکر سے مقابلہ ہوگا تو ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا، آپ مدینہ میں پہنچ جائیں گے تو وہ آپ کے رفیق کار رہیں گے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس جانبازانہ پیش کش پر دعائیں دیں۔ اور ایک مختصر سا سایہ بان آپ کے لئے بنادیا گیا جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر کے سوا کوئی نہ تھا۔ حضرت معاذ دروازہ پر حفاظت کے لئے تلوار لئے کھڑے تھے۔ معرکہ کی پہلی رات تھی۔ تین سو تیرہ بےسامان لوگوں کا مقابلہ اپنے سے تین گنی تعداد یعنی ایک ہزار مصلح فوج سے تھا۔ میدان جنگ کا بھی اچھا مقام ان کے قبضہ میں آچکا تھا۔ نچلا حصہ وہ بھی سخت ریتیلا جس میں چلنا دشوار مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ طبعی پریشانی اور فکر سب کو تھی، بعض لوگوں کے دل میں شیطان نے یہ وساوس بھی ڈالنے شروع کئے کہ تم لوگ اپنے آپ کو حق پر کہتے ہو اور اس وقت بھی بجائے آرام کرنے کے نماز تہجد وغیرہ میں مشغول ہو مگر حال یہ ہے کہ دشمن ہر حیثیت سے تم پر غالب اور تم سے بڑھا ہوا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک خاص قسم کی نیند مسلط فرمادی جس نے ہر مسلمان کو خواہ اس کا ارادہ سونے کا تھا یا نہیں جبرا سلادیا۔ حافظ حدیث ابو یعلی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی مرتضی نے فرمایا کہ غزوہ بدر کی اس رات میں ہم میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو سو نہ گیا ہو۔ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام رات بیدار رہ کر صبح تک نماز تہجد میں مشغول رہے۔ اور ابن کثیر نے بحوالہ صحیح نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس رات میں جب کہ اپنے عریش یعنی سائبان میں نماز تہجد میں مشغول تھے آپ کو بھی کسی قدر اونگھ آگئی مگر فورا ہی ہنستے ہوئے بیدار ہو کر فرمایا۔ اے ابوبکر خوشخبری سنو یہ جبرئیل (علیہ السلام) ٹیلہ کے قریب کھڑے ہیں اور یہ کہہ کر آپ سائبان سے باہر یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے (آیت) سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ، یعنی عنقریب دشمن کی جماعت ہار جائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے باہر نکل کر مخلتف جگہوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ ابو جہل کی قتل گاہ ہے یہ فلاں کی یہ فلاں کی۔ اور پھر ٹھیک اسی طرح واقعات پیش آئے ( تفسیر مظہری) اور جیسا غزوہ بدر میں تکان اور پریشانی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام پر خاص قسم کی نیند مسلط فرمائی اسی طرح غزوہ احد میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا۔ سفیان ثوری (رح) نے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود نقل کیا ہے کہ جنگ کی حالت میں نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن و اطمینان کی نشانی ہوتی ہے۔ اور نماز میں نیند شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) دوسری نعمت مسلمانوں کو اس رات میں یہ ملی کہ بارش ہوگئی جس نے میدان جنگ کا نقشہ بالکل پلٹ دیا، قریشی لشکر نے جس جگہ پر قبضہ کیا تھا وہاں تو بارش بہت تیز آئی اور میدان میں دلدل ہو کر چلنا مشکل ہوگیا۔ اور جس جگہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام مقیم تھے یہاں ریت کی وجہ سے چلنا مشکل تھا یہاں بارش ہلکی ہوئی جس نے تمام ریتے کو جما کر میدان کو نہایت ہموار خوشگوار بنادیا۔ آیت مذکورہ میں انھیں دو نعمتوں کا ذکر ہے نیند اور بارش جس نے میدان کارزار کا نقشہ پلٹ کر وہ شیطانی وساوس دھو ڈالے جو بعض کمزور لوگوں کو ستا رہے تھے کہ ہم حق پر ہونے کے باوجود مقہور و مغلوب نظر آتے ہیں اور دشمن باطل پر ہونے کے باوجود قوت و شوکت اور اطمینان کی حالت میں ہے۔ آیت مذکورہ میں فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا چین دینے کے لئے اور تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس پانی سے تم کو پاک کر دے۔ اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے۔ دوسری آیت میں پانچویں انعام کا ذکر ہے جو اس غزوہ بدر کے میدان کارزار میں مسلمانوں پر مبذول ہوا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیجے تھے ان کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کفار کی گردنوں پر حربہ مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ اس میں فرشتوں کو دو کام سپرد کئے گئے ایک یہ کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھائیں یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے میدان میں آکر ان کی جماعت کو بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لیں اور اس طرح بھی کہ اپنے تصرف سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کردیں اور ان میں قوت پیدا کردیں۔ دوسرا کام یہ بھی ان کے سپرد ہوا کہ فرشتے خود بھی قتال میں حصہ لیں اور کفار پر حملہ آور ہوں۔ اس آیت سے ظاہر یہی ہے کہ فرشتوں نے دونوں کام انجام دیئے، مسلمانوں کے دلوں میں تصرف کرکے ہمت و قوت بھی بڑھائی اور قتال میں بھی حصہ لیا۔ اور اس کی تائید چند روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے جو تفسیر درمنثور اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور قتال ملائکہ کی عینی شہادتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہیں۔ تیسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس معرکہ کفر و اسلام میں جو کچھ ہوا اس کا سبب یہ تھا کہ ان کفار نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی اور جو اللہ و رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب شدید اور سخت ہوا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غزوہ بدر میں ایک طرف تو مسلمانوں پر انعامات نازل ہوئے۔ فتح و نصرت ان کو حاصل ہوئی۔ دوسری طرف کفار پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے عذاب نازل فرما کر ان کی بدکرداریوں کی تھوڑی سی سزادے دی گئی۔ اور اس سے زیادہ بھاری سزا آخرت میں ہونے والی ہے جس کو چوتھی آیت میں بیان فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَاب النَّارِ ۔ یعنی یہ ہمارا تھوڑ سا عذاب ہے اس کو چکھو اور سمجھ لو کہ اس کے بعد کافروں کے لئے جہنم کا عذاب آنے والا ہے جو نہایت شدید و مدید اور ناقابل قیاس ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ ۭ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ كُلَّ بَنَانٍ۝ ١٢ ۭ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ رعب الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ : الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران/ 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي، ( ر ع ب ) الرعب ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب/ 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف/ 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔ ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ بنَانه البَنَان : الأصابع، قيل : سمّيت بذلک لأنّ بها صلاح الأحوال التي يمكن للإنسان أن يبنّ بها، يريد : أن يقيم بها، ويقال : أَبَنَّ بالمکان يُبِنُّ ولذلک خصّ في قوله تعالی: بَلى قادِرِينَ عَلى أَنْ نُسَوِّيَ بَنانَهُ [ القیامة/ 4] ، وقوله تعالی: وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، خصّه لأجل أنهم بها تقاتل وتدافع، والبَنَّة : الرائحة التي تبنّ بما تعلق به . ( ب ن ن ) البنان ( واحد بنانۃ ) کے معنی انگلیاں ریا ن کے اطراف کے ہیں یہ ابن بالمکان کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی جگہ اقامت پزیر ہونے کے ہیں اور چونکہ کسی جگہ اقامت کیلئے ضروریات زندگی کی اصلاح بھی انگلیوں سے ہوتی ہے اس لئے ان کو بنان کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : { بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ } ( سورة القیامة 4) ضرور کریں گے ( اور ) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پورا پورا درست کریں ۔ میں انگلیوں کی درستگی پر اپنی قدرت کا اظہار کیا ہے اسی طرح آیت : { وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ } ( سورة الأَنْفال 12) اور ان کا پور پور مار ( کر توڑ ) دو ۔ میں خاص کر ان کے پور پور کاٹ ڈالتے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ مدافعت اور مقاتلہ کا واحد ذریعہ ہیں ۔ البنتہ بو اچھی یا بری ۔ کیونکہ اس میں کسی چیز کے ساتھ لازم ہونے کی وجہ سے ٹھر نے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور جب آپ کے پروردگار نے ان امداد کے فرشتوں کو وحی کی، یا حکم دیا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں کہ لڑائی میں مومنوں کی مدد کرو فتح کی بشارت دے کر ان کی ہمت بڑھاؤں، میں ان کفار کے دلوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کا رعب ڈالے دیتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلآءِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط) ۔ وہی ایک ہزار فرشتے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ‘ انہیں میدان جنگ میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ رہنے کی ہدایت کا تذکرہ ہے۔ (سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ ) اللہ تعالیٰ نے کفار کو بھر پور مقابلے کے دوران دہشت زدہ کردیا تھا اور جب کوئی شخص اپنے حریف کے مقابلے میں دہشت زدہ ہوجائے تو اس کے اندر قوت مدافعت نہیں رہتی۔ پھر وہ گویا حملہ آور کے رحم وکرم پر ہوتا ہے ‘ وہ جدھر سے چاہے اسے چوٹ لگائے ‘ جدھر سے چاہے اسے مارے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10. In view of the general principle propounded in the Qur'an we presume that the angels did not take part in the actual fighting. What we may suggest is that the angels helped the Muslims and as a result their blows became more accurate and effective.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :10 جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا گیا ہوگا یہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں ، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہوگی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ ١٤۔ اللہ پاک نے فرشتے جو لشکر اسلام کی مدد کو بدر کی لڑائی میں بھیجے تھے ان کا حال یہ بیان فرمایا کہ مسلمان اس کا شکریہ ادا کریں اور یہ بھی فرمایا فرشتوں کو یہ حکم تھا کہ اے فرشتوں تم مومنوں کے دل کو جاکر مضبوط اور قوی کرو ہم کفار کے دلوں میں خوف ورعب ڈال دیں گے فرشتے آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے دل کو مضبوط کیا اور لڑائی میں مسلمانوں کا ہاتھ بھی بٹایا فرشتے انسان کی صورت میں ایک ایک صحابی کے پاس آکر کہتے تھے کہ ہم نے مشرکوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر مسلمان ہم پر حملہ کریں گے تو ہم بھاگ جائیں گے پھر اس بات کا چرچا مسلمانوں میں ہونے لگتا تھا اور ان کے دلوں کو قوت اور طاقت ہوتی تھی اور بعض مفسروں نے فثبتوا کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جس طرح شیطان کو انسان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی قدرت ہے اسی طرح فرشتوں کو بنی آدم کے دل میں نیک بات کے ڈالنے کی طاقت ہے اس کو تثبیت کہتے ہیں پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ کافروں کے سر پر مارو اور ہاتھ پر مونڈھے وغیرہ ہر ایک جوڑ پر ضرب لگاؤ یہ اس لئے فرمایا کہ سر پر چوٹ آنے سے جس طرح انسان بےقابو ہوجاتا ہے اسی طرح جوڑوں پر ضرب پہچنے سے بےبس ہوجاتا ہے پھر اس میں اٹھنے بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں رہتی ربیع بن انس (رض) کہتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مسلمان لوگ فرشتوں کے پڑجاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر کہا کہ ان لوگوں کو قتل نہ کرو زندہ گرفتار کر لوتا کہ ان کو معلوم ہوجاوے کہ ان لوگوں نے ہمارے دین پر طعن کی تھی اور لات اور عزے سے منحرف ہوئے تھے اس پر یہ آیت اتری اور چند مشرکوں کے قتل کے بعد ابوجہل قتل ہوا غرض بدر کی لڑائی میں کل ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی قید ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہ خدا اور رسول کی مخالفت کی سزا ہے ان مشرکوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی تھی یہ نہیں جانتے تھے کہ خدا بڑا سخت عذاب کرنے والا ہے پھر کافروں کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ اب تو دنیا میں یہ عذاب چکھ لو قتل و گرفتار ہو اور آخرت میں کفار کے واسطے الگ جہنم میں عذاب ہوگا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے جابر (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لشکر اسلام ایک میل کے راستہ پر بھی ہو تو دشمنوں کے دل پر لشکر اسلام کار عب چھا جاتا ہے صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص بدر کی لڑائی میں ایک مشرک پر اسلام کے دل میں رعب پیدا ہوجانے کا اور لشکر اسلام کی مدد کے طور پر فرشتوں کا منکرین اسلام سے لڑنے کا ذکر جو ان آیتوں میں ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:12) انی معکم۔ یوحی کا مفعول ہے۔ اور کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ ملائکہ کیلئے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ضمیر المؤمنین کیلئے ہے۔ فثبتوا۔ تم ثابت قدم رکھو۔ تم استوار کرو۔ تم قائم رکھو۔ امر جمع مذکر حاضر۔ (خطاب ملائکہ سے ہے) سالقی۔ القاء سے۔ مضارع واحد متکلم۔ میں ڈال دوں گا۔ فوق الاعناق۔ گردنوں پر۔ گردنوں کے اوپر کے حصوں پر۔ بنان۔ بنانۃ کی جمع ہے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے پوردے اور بدن کے جوڑوں کو بھی بنان کہتے ہیں۔ قرطبی لکھتے ہیں کہ : قیل المراد ببنان ھھنا اطواف الاصابع من الیدین و الرجلین۔ وقال الحضاک البنان کل مفصل یعنی بنان سے یہاں مراد ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے پور دے ہیں اور حضرت ضحاک کہتے ہیں۔ تمام جوڑوں کو بنان کہتے ہیں یہاں فوق الاعناق سر ہوتا ہے جو سب سے اہم حصہ جسم ہے۔ اور بنان انگلیوں کے پوردے ۔ سب سے چھوٹے حصہ جسم ہیں۔ ان دونوں کو بیان کرکے تمام حصص جسم کو مراد لیا ہے یعنی جسم کے کسی حصہ کو نہ چھوڑو۔ (مارو۔ مارو۔ خوب مارو۔ کسی حصہ جسم کو نہ چھوڑو) ۔ اوپر انی معکم کے تحت بیان ہوا کہ کم کی ضمیر جمع مذکر حاضر المؤمنین کی طرف راجع ہے امام رازی لکھتے ہیں کہ انی معکم کے متعلق دو قول ہیں :۔ (اول) یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وحی کی کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ یعنی فرشتوں کے ساتھ ہے کہ اس نے ان کو مسلمین کی مدد کے لئے بھیجا تھا۔ (دوم) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وحی کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہے پس تم (یعنی فرشتے) ان کی (مسلمانوں کی) مدد کرنا اور ان کو ثابت قدم رکھو۔ یہی سب سے بہتر ہے کیونکہ اس کلام سے (یعنی انی معکم سے) مقصود خوف و ردع کا ازالہ کرنا تھا اور کفار سے خوف و خطر مسلمانوں کو تھا نہ کہ فرشتوں کو۔ اسی طرح ناضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان میں بھی حکم مومنوں سے ہے کیونکہ ملائکہ ومحاربہ کے لئے نازل نہیں ہویت تھے۔ بلکہ یہ کام مومن مجاہدین کے ہاتھوں ہونا تھا۔ ملائکہ مؤمنین کی امدار اور تثبیت الاقدام کے لئے بھیجے گئے تھے۔ یعنی جملہ موجبات فتح وظفر عطا ہوچکے ۔ یعنی النعاس۔ الماء من السمائ۔ تطہیر الاجسام و الارواح۔ اذھاب رجز الشیطان ۔ ربط القلوب۔ تثبیت الاقدام۔ معیت خداوندی۔ القاء الرعب فی قلوب الکافرین۔ تو حکم ہوا کہ ناضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان۔ تو اب ہمت کرو اور کافروں کی گردنیں اڑا دو اور کاٹ کاٹ کر رکھ دو ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی ہاتھپاؤں کی انگلیوں کے جو ڑوں پر مارو کیونکہ لڑنے والا نہی جو ڑو نے سے زیادہ کام لیتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک عظیم معاملہ ہے ، اس معرکے میں فوج ملائکہ کے ساتھ خود اللہ بھی موجود ہیں اور ملائکہ اہل ایمان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ اس قدر عظیم معاملہ ہے جو کسی صورت میں بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ سوچئے ! ملائکہ کس طرح شریک ہوئے ؟ انہوں نے کتنے افراد کو مارا ؟ کس طرح مارا ؟ یہ ایک عظیم معاملہ ہے اور بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جو جماعت اقامت دین کا کام کرتی ہے اس میں اس کے ساتھ ملائکہ شریک ہوتے ہیں اور ملائکہ اس میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ مخلوقات رب العالمین میں ایک مخلوق ایسی ہے جسے ملائکہ کہا جاتا ہے کہ ان کی طبیعت اور ماہیت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں ہمیں صرف اس قدر علم دیا گیا ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ لہذا ہمیں اس کیفیت کا بھی علم نہیں جس کے مطابق اس مخلوق نے مومنین کی امداد کی۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ رب تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا کہ وہ مومنین کے لیے ثابت قدمی کا باعث ہوں اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں اور انہوں نے یہ کام کیا ، کیونکہ یہ وہ مخلوق ہے جو امر الہی کی پابند ہے۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کام کیسے کیا ؟ اللہ نے یہ حکم بھی دیا کہ کفار کی گردنوں پر وار کرو اور ان کے ایک ایک جوڑ پر وار کرو تاکہ یہ کام کے ہی نہ رہیں اور انہوں نے ایسا کیا۔ لیکن کیسے کیا ؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں اسی قدر علم ہے جو اللہ نے بتایا۔ پھر اللہ کا حکم یہ تھا کہ کفار کے دلوں کے اندر رعب ڈالا جائے اور یہ ڈال دیا گیا اور ایسا کردیا گیا۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن ہمیں اس کی کیفیات کا بھی علم نہیں ہے کیونکہ یہ کفار اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس پر کس طرح اثر ہوگا۔ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور وہ شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ان افعال کی کیفیات سے بحث کرنا ، دین اسلام کے مزاج کے خلاف ہے اور اس دین کی سنجیدگی کے ساتھ یہ طرز عمل لگا نہیں کھاتا۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ یہ ایک عملی دین ہے اور یہ عقیدہ اور نظریات و تصورات کو بھی عملی حد تک رکھتا ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں مسلمانوں کے علم الکلام کے اندر یہ مباحث زیادہ اہم ہوگئے اور یہ اس وقت ہوا کہ جب لوگ اسلام کے مثبت اور عملی کام سے فارغ ہوگئے اور علمی اور ثقافتی رنگ ان پر غالب ہوگیا۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ مسلمان میدان معرکہ ہوتے ، فرشتے ان کے ساتھ بزن کے عالم میں ہوتے اور فرشتوں اور مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتے تو یہ عملی صورت حال مسلمانوں کے لیے ، اس ثقافتی جدل وجدال سے زیادہ نفع بخش ہوتی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتوں کا قتال میں حصہ لینا اور اہل ایمان کے قلوب کو جمانا اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے اپنے بعض انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم مومنین کے قلوب کو جماؤ اور ان کو معرکہ میں ثابت رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی تمہارا مددگار ہوں۔ نیز یہ وعدہ فرمایا کہ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ مسلمان جم کر لڑے اور کافر مقتول ہوئے اور مغلوب ہوئے اور قیدی بنے۔ (فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ ) (اور مارو گردنوں پر) اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ فرشتوں کو حکم ہے کہ وہ مشرکین کو ماریں۔ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے جنگ کی اور بعض کافروں کو مارا، جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، فرشتوں کا بڑا کام مسلمانوں کو جمانا تھا اس کے ساتھ انہوں نے کچھ قتال میں بھی حصہ لیا۔ جنگ تو اللہ تعالیٰ نے صحابہ (رض) ہی سے کروائی لیکن فرشتوں کو بھی مددگار بنا دیا۔ اس میں یہ بتادیا گیا کہ ہر شخص کو اپنی محنت اور مجاہدہ پر ثواب ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مدد آئے یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ مسلمانوں میں خود اپنے ہی طور پر لڑنے اور جم کر مقابلہ کرنے کا جذبہ رہنا چاہئے۔ غزوۂ بدر میں فرشتوں کے قتال کرنے کے بارے میں متعدد روایات حدیث اور سِیَر کی کتابوں میں مروی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ بدر کے دن فرشتوں کی نشانی یہ تھی کہ انہوں نے عمامے باندھے ہوئے تھے جن کے شملے اپنی کمروں پر ڈال رکھے تھے۔ البتہ حضرت جبرائیل کا عمامہ زرد رنگ کا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ بدر کا ایک یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک مسلمان ایک مشرک کے پیچھے دوڑ رہا تھا اس نے اپنے سامنے کوڑا لگنے کی اور گھوڑ سوار کی آواز سنی جو اپنے گھوڑے کو یوں کہہ رہے تھا اقدم حیزوم کہ اے حیزوم آگے بڑھ (حیزوم اس فرشتہ کے گھوڑے کا نام تھا) اچانک وہ مسلمان کیا دیکھتا ہے کہ وہ مشرک اس کے سامنے چت پڑا ہوا ہے اس پر جو نظریں ڈالیں تو دیکھا کہ اس کی ناک پر ضرب کا نشان ہے اور اس کا چہرہ کوڑے کی ضرب سے چیر دیا گیا ہے۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی تو آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ ان فرشتوں کا کام ہے جو تیسرے آسمان سے مدد کے لیے آئے ہیں۔ (صحیح مسلم ص ٩٣ ج ٢) حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں نے مقتولین کی گردنوں کے اوپر مارا تھا اور ان کی انگلیوں کے پوروں پر ایسا نشان تھا جیسے آگ نے جلا دیا ہو۔ حضرت ابو بردہ (رض) نے بیان کیا کہ میں بدر کے دن کٹے ہوئے تین سر لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیئے اور عرض کیا کہ ان میں سے دو شخصوں کو تو ہم قتل کیا ہے اور تیسرے شخص کو ایک دراز قامت آدمی نے قتل کیا ہے۔ میں اس مقتول کا سر بھی لے آیا ہوں، آپ نے فرمایا وہ دراز قد فلاں فرشتہ تھا، سائب بن ابی حبیش نے بیان کیا جو (بدر کے دن قید کرلیے گئے تھے پھر بعد میں مسلمان ہوئے) کہ مجھے ایک خوب زیادہ بالوں والے دراز قد آدمی نے پکڑ کر باندھ دیا جو سفید گھوڑے پر سوار تھا، عبدالرحمن بن عوف نے مجھے بندھا ہوا دیکھا تو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے۔ آپ نے فرمایا تجھے کس نے قید کیا ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا یہ بات میں نے اس لیے کہی کہ میں اصل صورت حال بتانا نہیں چاہتا تھا (کہ ایسے ایسے شخص نے مجھے قید کیا) آپ نے فرمایا کہ تجھے ایک فرشتہ نے قید کیا ہے۔ بعض صحابہ (رض) نے یہ بھی بیان کیا کہ ہم مشرکین کے سر کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے تھے تو اس کا سر تلوار پہنچنے سے پہلے ہی جدا ہو کر گر جاتا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ص ٢٨١ ج ٣) (فَوْقَ الْاَعْنَاقِ ) سے سروں میں مارنا مراد ہے اور کُلَّ بَنَانٍ سے انگلیوں کے پورے مراد ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے پورا جسم مراد ہے۔ (کمافی روح المعانی) فَاضْرِبُوْا کا خطاب کس کو ہے ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ فرشتوں کو خطاب ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ فرشتوں کو اور حضرات صحابہ (رض) سب کو خطاب ہے۔ اعناق اور بنان کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمانے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ سروں کے کٹ جانے سے آدمی ضرور مرجاتا ہے اور انگلیوں کے پوروں پر مارا جائے تو اگرچہ مرتا نہیں مگر ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ جنگ کرنے سے عاجز رہ جاتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12: یہ پانچویں علت ہے۔ “ اِنِّیْ ” سے پہلے “ قُوْلُوْا ” محذوف ہے “ مَعَکُمْ ” میں “ کُمْ ” ضمیر سے مؤمنین مراد ہیں نہ کہ فرشتے تاکہ یہ اعتراض لازم نہ آئے کہ کیا فرشتے بھی ڈرتے تھے، ابلیس انسانی شکل میں نمودار ہو کر مشرکین کی حوصلہ افزائی اور مسلمانوں کی جو صلہ شکنی کر رہا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انسانی شکلوں میں مسلمانوں کی تائید و حمایت کے لیے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ جاؤ مسلمانوں کی تائید کرو اور ان سے کہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارا حامی و ناصر ہوں میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں۔ اور وہ خوف و رعب سے ہراساں ہو کر راہ فرار اختیار کریں گے یا “ مَعَکُمْ ” کی ضمیر سے فرشتے مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی تائید میں میں تمہارا مددگار اور ناصر ہوں اور یہ مطلب نہیں کہ میں تمہارا خوف دور کروں گا کیونکہ فرشتے کافروں سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ “ اي معینکم علی تثبیت المومنین و لا یمن حمله علی ازالة الخوف لان الملائکة لا یخافون من الکفرة اصلاً ” (روح ج 9 ص 177) ۔ 13:“ کُلَّ بَنَانٍ ” بنان، بنانة کی جمع ہے۔ یعنی ہاتھوں کی انگلیاں، انگلیوں کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ ہتھیار انگلیوں ہی سے تھامے جاتے ہیں یا یہ تمام بدن سے کنایہ ہے۔ “ لاجل انھم بھا یقاتلون و یدافعون والظاھر انھا حْیْة فی ذلک و بعضهم یقول انھا مجاز فیه من تسمیة الکل باسم الجزء ” (روح ج 9 ص 17) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 وہ وقت یاد کیجئے جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں کو یہ حکم کیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں سو تم ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں دل بڑھائو اور اہل ایمان کی ہمتیں مضبوط رکھو میں عنقریب ان کافروں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈال دوں گا سو تم ان منکرین کی گردنوں پر خوب ضرب لگائو اور ان منکرین کی ہر ایک پور اور جوڑ پر چوٹ مارو۔ یعنی حضرت حق نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارا مدد گارہوں تم اہل ایمان کے قلوب میں تثبیت القاکرو اور ان کے دلوں د کو بڑھائو میں کفار کے قلوب کو مرعوب کردوں گا۔ گردنوں پر مارنے کو فرمایا یعنی قتل کرو اور ان کے اعضاء کو بیکار کردو تاکہ حملہ کی طاقت باقی نہ رہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافروں کے دل قابل نہیں فرشتوں کے الہام کے سو رعب ڈالنا اپنے طرف لیا اور مسلمانوں کے دل ثابت کرنے کو حکم فرمایا اس جنگ میں فرشتے ہاتھوں سے بھی لڑے ہیں۔ 12