Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 19

سورة الأنفال

اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَکُمُ الۡفَتۡحُ ۚ وَ اِنۡ تَنۡتَہُوۡا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَعُدۡ ۚ وَ لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡکُمۡ فِئَتُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَوۡ کَثُرَتۡ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۹﴾٪  16

If you [disbelievers] seek the victory - the defeat has come to you. And if you desist [from hostilities], it is best for you; but if you return [to war], We will return, and never will you be availed by your [large] company at all, even if it should increase; and [that is] because Allah is with the believers.

اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا اور اگر باز آجاؤ تو یہ تمہارے لئے نہایت خوب ہے اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کام کریں گے اور تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیادہ ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کے ساتھ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Response to the Disbelievers Who ask for a Judgement Allah says to the disbeliever, إِن تَسْتَفْتِحُواْ ... If you ask for a judgement, you invoked Allah for victory, judgement and a decision between you and your believing nemesis, and you got what you asked for. Muhammad bin Ishaq and several others reported from Az-Zuhri from Abdullah bin Thalabah bin Suayr who said that; Abu Jahl said on the day of Badr, "O Allah! Whichever of the two camps (pagans and Muslims) severed the relation of the womb and brought us what is not familiar, then destroy him this day." This Ayah was later on revealed, إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَاءكُمُ الْفَتْحُ ... If you ask for a judgement, then now has the judgement come unto you, until the end of the Ayah. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Thalabah said, "Abu Jahl asked for (Allah's judgment) when he said upon facing the Muslims, `O Allah! Those among us who severed the relations of the womb and brought forth what we do not recognize, then destroy him this day."' This was also recorded by An-Nasa'i in the Book of Tafsir (of his Sunan) and Al-Hakim in his Mustadrak, and he said, "It is Sahih according to the criteria of the Two Sheikhs, and they did not record it." Similar statements were reported from Ibn Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak, Qatadah, Yazid bin Ruwman and several others. As-Suddi commented, "Before the idolators left Makkah for Badr, they clung to the curtains covering the Ka`bah and supplicated to Allah for victory, `O Allah! Give victory to the exalted among the two armies, the most honored among the two groups, and the most righteous among the two tribes.' Allah revealed the Ayah, إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَاءكُمُ الْفَتْحُ ... If you ask for a judgement, then now has the judgement come unto you. Allah says here, `I accepted your supplication and Muhammad gained the victory."' Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said; "This is Allah the Most High's answer to their supplication; وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ And (remember) when they said: "O Allah! If this is indeed the truth from you.." (8:32) Allah said next, ... وَإِن تَنتَهُواْ ... and if you cease... from your disbelief and rejection of Allah and His Messenger, ... فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ... it will be better for you, in this life and the Hereafter. Allah said, ... وَإِن تَعُودُواْ نَعُدْ ... and if you return, so shall We return... This is similar to another Ayah, وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا but if you return (to sins), We shall return (to Our punishment). (17:8) meaning, `if you persist in your disbelief and misguidance, We shall repeat the defeat that you suffered,' ... وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِيَتُكُمْ شَيْيًا وَلَوْ كَثُرَتْ ... and your forces will be of no avail to you, however numerous they be... for even if you gather whatever forces you can, then know that those whom Allah is with cannot be defeated, ... وَأَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُوْمِنِينَ and verily, Allah is with the believers. in reference to the Prophet's group, the side of the chosen Messenger.

ایمان والوں کا متعین و مددگار اللہ عز اسمہ اللہ تعالی کافروں سے فرما رہا ہے کہ تم یہ دعائیں کرتے تھے کہ ہم میں اور مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے جو حق پر ہوا سے غالب کر دے اور اس کی مد فرمائے تو اب تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہوگئی مسلمان بحکم الٰہی اپنے دشمنوں پر غالب آگئے ۔ ابو جہل نے بدر والے دن کہا تھا کہ اے اللہ ہم میں سے جو رشتوں ناتوں کا توڑنے والا ہو اور غیر معروف چیز لے کر آیا ہو اسے توکل کی لڑائی میں شکست دے پس اللہ تعالیٰ نے یہی کیا اور یہ اور اس کا لشکر ہار گئے ، مکے سے نکلنے سے پہلے ان مشرکوں نے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ الٰہی دونوں لشکروں میں سے تیرے نزدیک جو اعلیٰ ہو اور زیادہ بزرگ ہو اور زیادہ بہتری والا ہو تو اس کی مدد کر ۔ پس اس آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ لو اللہ کی مدد آ گئی تمہارا کہا ہوا پورا ہوگیا ۔ ہم نے اپنے نبی کو جو ہمارے نزدیک بزرگ ، بہتر اور اعلیٰ تھے غالب کر دیا ۔ خود قرآن نے ان کی دعا نقل کی ہے کہ یہ کہتے تھے دعا ( وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32؀ ) 8- الانفال:32 ) ، الٰہی اگر یہ تیری جانب سے راست ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر لا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اب بھی تم اپنے کفر سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کو نہ جھٹلاؤ تو دونوں جہان میں بھلائی پاؤ گے اور اگر پھر تم نے یہی کفر و گمراہی کو تو ہم بھی اسی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں تمہیں پست کریں گے ۔ اگر تم نے پھر اسی طرح فتح مانگی تو ہم پھر اپنے نیک بندوں پر اپنی مدد اتاریں گے لیکن اول قول قوی ہے ۔ یاد رکھو گو تم سب کے سب مل کر چڑھائی کرو تمہاری تعداد کتنی ہی بڑھ جائے اپنے تمام لشکر جمع کر لو لیکن سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ۔ ظاہر ہے کہ خالق کائنات مومنوں کے ساتھ ہے اس لئے کہ وہ اس کے رسول کے ساتھ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 ابو جہل وغیرہ روسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ ' اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کردے ' اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لئے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمادی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لئے اب تم کفر سے باز آجاؤ، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] کافروں کو اپنی سرگرمیوں سے رک جانے کی نصیحت :۔ کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم دعویٰ میں سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا ؟ (٣٢ : ٢٨) یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان کب فیصلہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا خطاب انہیں ہزیمت خوردہ کافروں سے ہے کہ اب وہ فیصلہ آچکا ہے۔ جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ کس طرح حالات کی ناسازی کے باوجود مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی ہے۔ لہذا اب بھی اگر راہ راست پر آجاؤ تو یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور اگر پھر تم نے پہلی سی نافرمانی، مخالفت اور سرکشی والی روش اختیار کی تو ہم پھر تمہیں اسی طرح سزا دیں گے اور جس طرح آج تمہارا لاؤ لشکر کسی کام نہیں آسکا۔ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ساتھی اور حامی و ناصر خود ان کا پروردگار ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ابو جہل وغیرہ نے کعبہ کا پردہ پکڑ کر یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ ہم دونوں فریقوں سے جو اعلیٰ و افضل ہے اسے فتح نصیب فرما اور فساد مچانے والے کو مغلوب کر۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ && اب فیصلہ تمہارے پاس آچکا۔ && اس بات کا فیصلہ کردیا کہ ان دونوں فریقوں میں اعلیٰ و افضل کون سا فریق تھا اور مفسد کون سا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ : فتح کا معنی یہاں فیصلہ ہے، جیسا کہ کفار کہتے تھے : (مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ السجدۃ : ٢٨ ] ” یہ فیصلہ کب ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ “ عبداللہ بن ثعلبہ (رض) بیان فرماتے ہیں : ” جب (بدر کے دن) لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ابوجہل نے کہا، اے اللہ ! ہم میں سے جو شخص زیادہ رشتوں کو توڑنے والا اور ہمارے سامنے غیر معروف بات پیش کرنے والا ہے، اسے آج صبح ہلاک کر دے، تو یہ فیصلہ طلب کرنے والا ابوجہل تھا۔ “ [ مستدرک حاکم ٢؍٣٢٨، ح : ٣٢٦٤۔ أحمد : ٥؍٤٣١، ح : ٢٣٦٦١، و صححہ شعیب أرنؤوط۔ السنن الکبریٰ للنسائی : ٦؍٣٥٠، ح : ١١٢٠١ ] ” اگر تم فیصلہ چاہو۔ “ یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ انھوں نے مکہ سے روانہ ہوتے وقت اور ابوجہل نے معرکۂ بدر سے پہلے یہ دعا کی تھی : ” اے اللہ ! ہم میں سے جو حق پر ہے اسے غالب اور جو باطل پر ہے اسے رسوا کر۔ “ گویا یہاں ” الْفَتْحُ “ کا معنی حکم اور فیصلہ ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑی کہتے ہیں : (مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ ) یعنی کب فیصلہ ہوگا، سو اب فرمایا کہ یہ فیصلہ آپہنچا۔ “ (موضح) وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ : یعنی اگر پھر مسلمانوں کی مخالفت اور ان سے جنگ کرو گے تو ہم پھر تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے، اگرچہ تمہاری جماعت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ : ” اَنَّ “ سے پہلے کئی الفاظ مقدر مانے جاسکتے ہیں، آسان یہ ہے کہ اس جملے کو ” وَاعْلَمُوْا “ کا مفعول مان لیا جائے، یعنی جان لو کہ یقیناً اللہ مومنوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It is interesting that these dimwitted people were under the impression that they were the ones higher and superior and better-guided as compared to Muslims, therefore, they surmised that the prayer they were making was in their own favour. They actually wanted that Allah would, through their prayer, give His verdict as to who was true and who was false. Thus, when they win, their victory would become the Divine verdict on their being on the side of truth. But, they did not know that the prayer they were making was really a curse for their own selves, and that it was a supplication for the good of Muslims. After the end of the battle came, the Qur&an told them: إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ (If you pray for victory, |"victory|" has come upon you) that is, &if you are looking for a Divine verdict, that is before you - truth has triumphed and falsehood has been defeated. Then: وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ (if you give up it is better for you) that is, &now is the time when, if you abandon your disbelief and hostility, it will turn out to be better for you.& And, if you still decide to revert back to your wicked¬ness and the threat of armed aggression, then, Allah too will revert back and support Muslims: وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ (And if you repeat, We shall repeat). In that case, the consequence would be: وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَ‌تْ (And your people shall not suffice you at all, even though they are many in number) that is, &your numerical superiority and group strength shall be of no avail against the help and, support given by Allah.& As for the help and support of Allah: ti; (Allah is with the believers) that is, &how can any group or power work for you when Allah Ta` ala, the very possessor of absolute power, is with the Muslims?&

یہ بیوقوف تو یوں سمجھ رہے تھے کہ بمقابلہ مسلمانوں کے ہم ہی اعلی و افضل اور زیادہ ہدایت پر ہیں اس لئے یہ دعا ہمارے حق میں ہے اور اس دعا کے ذریعہ وہ یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے۔ اور جب ہم فتح پائیں تو یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے حق پر ہونے کا فیصلہ ہوگا۔ مگر ان کو یہ خبر نہ تھی کہ اس دعا میں درحقیقت وہ اپنے لئے بددعا اور مسلمانوں کے لئے دعا کر رہے ہیں انجام جنگ سامنے آنے کے بعد قرآن کریم نے ان کو بتلایا (آیت) اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ، یعنی اگر تم خدائی فیصلہ چاہتے ہو تو وہ سامنے آچکا کہ حق کو فتح اور باطل کو شکست ہوگئی۔ (آیت) وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اور اگر تم اب بھی اپنے کفر وعناد سے باز آگئے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے (آیت) وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ اور اگر تم پھر اپنی شرارت اور جنگ کی طرف لوٹے تو ہم بھی مسلمانوں کی امداد کی طرف لوٹیں گے۔ (آیت) وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ یعنی تمہاری جماعت اور جتھا کتنا ہی زیادہ ہو اللہ تعالیٰ کی نصرت کے مقابلہ میں تمہیں کچھ کام نہ دے گا۔ (آیت) وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ یعنی کوئی جماعت تمہیں کیا کام دے سکتی ہے جب کہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَسْـتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَنْتَہُوْا فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ۝ ٠ ۚ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ۝ ٠ ۙ وَاَنَّ اللہَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٩ ۧ اسْتِفْتَاحُ : طلب الفتح أو الفتاح . قال : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال/ 19] ، أي : إن طلبتم الظّفر أو طلبتم الفتاح۔ أي : الحکم أو طلبتم مبدأ الخیرات۔ فقد جاء کم ذلک بمجیء النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم . وقوله : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة/ 89] الاستفتاح کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال/ 19] ( کافرو) اگر تم محمدؤ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی ۔ یعنی اگر تم کامیابی یا فیصلہ طلب کرتے ہو تو وہ آچکا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مبدء خیرات طلب کرتے ہو تو آنحضرت کی بعثت سے تمہیں مل چکا ہے اور آیت کریمہ : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة/ 89] اور وہ پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی فِئَةُ ( جماعت) والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اگر تم مدد طلب کرتے تو مدد تو تمہارے مقابلہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے لیے آچکی ہے کیوں کہ ابوجہل نے لڑائی شروع ہونے اور شکست کھانے سے پہلے دعا کی تھی کہ الہ العالمین دونوں ادیان میں جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو سب سے افضل ہو اس کی مدد فرما، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمائی۔ اور اگر تم قتال اور کفر سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور اگر تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کی تیاری کرو گے تو پھر بدر کی طرح ہم دوبارہ تمہارا خاتمہ کردیں گے اور تمہاری جماعت خواہ کتنی بھی زیادہ ہو، عذاب الہی کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہ آئے گی اور اللہ تعالیٰ کی مدد ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ان تستفتحوافقد “۔ (الخ) حضرت امام حاکم (رح) نے عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ دعا کرنے میں ابوجہل تھا کیوں کہ اس نے مقابلہ کے وقت کہا ” اے اللہ جو ہم میں قاطع رحم ہو اور ایسی باتیں کرتا ہو جن کا اسے علم نہ ہو اس کو ہلاک کردے تو اس کے حق میں یہ استفتاح تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ “ اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا۔ (الخ) اور ابن ابی حاتم (رح) نے عطیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابوجہل نے دعا کی اے اللہ دونوں جماعتوں میں جو زیادہ عزت و شرافت والی ہو اس کی مدد فرما، چناچہ یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ ج) ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کن فتح کے ذریعے بتادیا کہ اس کی تائید و نصرت کس گروہ کے ساتھ ہے۔ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا پوری طرح واضح ہوگیا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. Before marching out from Makka the unbelievers held the covering of the Ka'bah and prayed: 'O God! Grant victory to the better of the two parties.' Abu Jahl, in particular invoked God's judgement: 'O God! Grant victory to the one who is in the right and cause humiliation to the wrong-doer.' God answered these prayers fully and the outcome of the battle clearly pointed to the party which was in the right.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :15 مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کر ۔ اور ابوجہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو برسر حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کردے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کردیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اور برسرِ حق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ اللہ تعالیٰ کفار کی طرف خطاب کر کے فرماتا ہے کہ تم جو ہر وقت اللہ سے مدد چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم لوگ اپنے مخالف مومنین پر کب فتح یاب ہونگے تو دیکھ لو تمہارا سوال پورا ہوگیا فتح بھی ہوگئی اور تمہارے مومنوں کے درمیان فیصلہ بھی ہوگیا امام احمدو نسائی نے عبداللہ بن ثعلبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ابوجہل نے بدر کے دن یہ کہا تھا کہ یا اللہ ہم کو وہ باتیں دکھا جو ہماری سمجھ سے باہر ہوں یہ اس نے بطور طلب مدد کے کہا تھا اسی روز صبح کو وہ ذلیل ہوا اور یہ آیت اتری اسی کے موافق ابن عباس (رض) فرماتے ہیں حاکم نے عبداللہ بن ثعلبہ (رض) کی اس حدیث کو صحیح کہا ہے سدی کا قول یہ ہے کہ مشرکین مکہ سے بدر کی طرف جب چلے تھے تو کعبہ کا پردہ پکڑ کر اللہ سے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ اعلیٰ لشکر اور بزرگ گروہ اور اچھے قبیلہ کو فتح نصیب کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم فتح چاہتے ہو جو تم کہتے ہو ویسا ہی ہوگا کہ اللہ کہے رسول فتح یاب ہوں گے اور تمہیں شکست ہوگی اب آگے اللہ پاک نے مشرکوں سے فرمایا کہ اگر اب بھی تم اپنے کفر اور گمراہی سے باز رہو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور اگر تم پھر اسی کفر کی حالت پر رہے تو ہم بھی پھر ایسا ہی تمہیں ذلیل و خوار کریں گے سدی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر پھر تم فتح چاہو گے تو ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح یاب کریں گے پھر فرمایا کہ اگر بڑے سے بڑا لشکر بھی لے کر آئے گے تو بھی کچھ مفید نہ ہوگا اور کچھ کام نہ چلے گا کیونکہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے ہمیشہ انہیں کو فتح دے گا اور اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرانے والے ہمیشہ ذلیل رہیں گے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:19) فستفتحوا۔ تم فتح چاہتے ہو۔ تم فیصلہ چاہتے ہو۔ (باب استفعال) استفتاح سے جمع مذکر حاضر۔ ان شرطیہ کے آنے سے نون اعرابی حذف ہوگیا ہے۔ اصل میں تستفتحون تھا۔ فتح الحاکم بین الناس۔ حاکم نے لوگوں کے درمیان فیصلہ دیا۔ الفتاح صیغہ مبالغہ۔ قاضی۔ فیصلہ کرنے والا۔ یہاں خطاب کافروں سے ہے انہوں نے انصاف مانگا تھا کہ جب کفار مکہ سے روازنہ ہوئے تھے تو غلاف کعبہ کو پکڑ کر انہوں نے دعا مانگی تھی اللہم ان کان محمد علی الحق نانصرہ وان کنا عمل الحق فانصرنا (اے اللہ اگر محمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) حق پر ہیں تو ان کو فتح دے اور اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں فتح دے۔ سو ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر تم فیصلہ کے طلب گار تھے فقد جائکم الفتح تو لو فیصلہ تمہارے پاس آپہنچا۔ ان تنتھوا۔ اگر تم باز آجاؤ۔ انتھاء (افتعال) مصدر سے مضارع ۔ جمع مذکر حاضر۔ ان شرطیہ کی رو سے نون اعرابی گرگیا۔ ان تعردوا۔ اگر تم پھر کرو گے (شرارت) عود سے مضارع جممع مذکر حاضر۔ نون اعرابی بوجہ ان شرطیہ ساقط ہوگیا۔ نعد۔ مضارع جمع متکلم ۔ عود مصدر (باب نصر) ہم بھی دوبارہ کریں گے۔ (یعنی ہم بھی پھر تمہیں سزا دیں گے) ۔ تغنی۔ وہ کام آئے گی۔ وہ کفایت کرے گی۔ اغناء سے مضارع واحد مؤنث غائب ۔ فئتکم۔ تمہارا گروہ۔ تمہاری جمعیت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہ خطاب کفار سے ہے کی ن کہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت انہوں نے کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! دونوں گر وہوں ( یعنی ہم اور مسلمانوں) میں سے جو اعلیٰ اور ہدایت یافتہ ہو اسے فتح نصیب کر اور ابو جہل نے معرکہ بدر سے پہلی یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ! ہم میں سے جو برسرحق ہے اسے غالب اور جو سرباطل ہے اسے رسو اکر۔ ( ابن جریروغیرہ) اس صورت میں الفتح صاحب لکھتے ہیں ہیں۔ مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑ ی کہتے ہیں متی حذا الفتح یعنی کب ہوگا یہ فیصلہ سو اب فرمایا کہ یہ ٖفیصلہ آپہنچا۔ ( مو ضح)9 یعنی پھر مسلمانوں کی مخالفت اور اس نے جنگ کرو گے،10 اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد جس کے شامل حال ہو اے کون شکست دے سکتا ہے۔ ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 19 تا 24 لغات القرآن۔ تستفتحوا۔ تم فیصلہ چاہتے ہو۔ تنتھوا۔ تم رک جائو۔ تعودوا۔ تم پلٹ جائو گے۔ نعد۔ ہم پلٹ جائیں گے۔ لن تغنی۔ ہرگز فائدہ نہ دے گا۔ فئۃ۔ جماعت۔ گروہ۔ کثرت۔ بہت ہے۔ سمعنا۔ ہم نے سن لیا۔ شرا الدواب۔ جان داروں میں بدترین۔ الصم۔ بہرے۔ البکم۔ گونگے۔ اسمع۔ وہ سنوا دیتا۔ استجیبوا۔ تم حکم مانو۔ دعاکم۔ اس نے تمہیں بلایا۔ یحییکم۔ وہ تمہیں زندگی دیتا ہے۔ یحول۔ (حول) ۔ وہ آڑ بن جاتا ہے۔ بیچ میں آجاتا ہے۔ المراء۔ مرد۔ تشریح : ان آیات میں چند بہت ہی بناندی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ (1) جب مکہ کے کفار مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے اس وقت لشکر کفار کے سرداروں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اللہ سے جو دعا کی تھی وہ یہ تھی کہ : ” اے اللہ دونوں لشکروں میں جو اعلیٰ و افضل ہو، دونوں فریقوں میں جو زیادہ ہدایت پر ہو، دونوں جماعتوں میں سے جو زیادہ کریم اور شریف ہو اور دونوں میں سے جو دین افضل ہو اس کو فتح عطا فرمایا “ ان جاہلوں اور احمقوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہر بات میں وہی اعلیٰ وارفع ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ (رض) حق پر نہیں ہیں (نعوذ باللہ) اسی لئے انہوں نے اس کوش گمانی میں ایسی دعا کی جو خودان کے حق میں الٹ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تم تو حق کی فتح چاہتے تھے تو لو تمہارے سامنے حق کی فتح آگئی ہے اگر تم اب بھی باز آجائو تو بہتر ہے تو بہ کے دروازے ابھی کھلے ہوئے ہیں اگر تم اپنی پرانی روش سے باز آجائو تو اس دنیا اور آخرت میں فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن اگر تم نے وہی حرکتیں جاری رکھیں تو ہم بھی سابقہ نتائج دکھا دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی متوجہ کردیا کہ اگر تم دوبارہ لائو لشکر لے کر آئو گے تو تمہاری کثرت تمہارے کام نہ آسکے گی اور تم منہ کی کھا کر واپس لوٹو گے۔ یہ قرآن کریم کی ایک پیشین گوئی بھی تھی کہ یہ کفار اپنی روش سے باز نہ آئیں گے اور اپنی طاقت کو اپنی کثرت کے گھمنڈ می آزماتے رہیں گے لیکن اللہ نے اس طرف اشارہ کردیا کہ اللہ اور اس کی ساری کائنات کی قوتیں اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ (2) ۔ ان آیات میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ : جب تم نے اللہ کے ایک معبود ہونے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا زبانی اور قلبی اقرار کرلیا ہے تو آگے بڑھو اور اپنے عمل کو اس کی شہادت بناد و۔ لیکن تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے زبانی اقرار تو کرلیا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو انہوں نے بھاگ نکلنے کے ہزار راستے تلاش کر لئے، اور بہرے ، گونگے، بےعقل جانوروں کی طرح ہوگئے۔ فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے گی تو ہر کامیابی نصبع ہوگی لیکن اگر بہرے گونگے بن کر زندگی گزاری گئی تو بدنصیبی ہی مقدر بن سکے گی۔ تمام جان داروں میں واحد ذمہ دار اگر ہے تو وہ انسان ہے وہی ” خلیفۃ اللہ فی الارض “ یعنی زمین میں انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اگر اس نے اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کیا۔ اس نے ایک کان سے سن اور دوسرے کان سے اڑا دیا تو یہ اس کی شان اور رتبہ کے خلاف بات ہوگی جو زبان سے دوسروں کو نہ سنائے جو اللہ کی آیات میں غوروفکر نہ کرے نہ سمجھے نہ سمجھائے تو کیا وہ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین نہیں ہوگا ؟ دین اسلام کو سمجھنے کے لئے سننا اور پڑھنا یعنی سمع و بصرکا استعمال ضروری ہے علم کی تعریف قرآن کریم میں بار بار آئی ہے۔ پڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید کو نازل کیا ہے جس کی ابتداء ہی ” اقراء بسم ربک “ ( اپنے رب کے نام سے پڑھو) سے ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ساتھ اپنے عظیم رسول کو بھی بھیجا ہے جو ان آیتوں کو پڑھ کر سناتے ہیں جو اس کتاب کی تعلیم دیتے اور اس کی حکمتوں کو بیان کرتے ہیں اور دلوں کے زنگ کو مانجھ کو صاف کرتے ہیں فرمایا کہ جو شخص ان کا حکم سنے گا، انکا کہ ان مانے گا ان کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ ہی کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا۔ سننے والے چار طرح کے ہوتے ہیں (1) وہ جو کانوں سے سنتے ہیں مگر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے نہ فہم نہ عقیدہ نہ عمل (2) وہ جو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں مگر نہ عقیدہ نہ عمل (3) وہ جو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اور عقیدہ بھی رکھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ (4) وہ جو سنتے ہیں سمجھتے ہیں۔ ایمان لاتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں سمعنا واطعنا ان کا بنیادی عقیدہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم والوں کو ان آیات میں ” شر الدواب “ (جان داروں میں بدترین) کہا گیا ہے دوسری قسم والے کفار اور منافقین ہیں تیسری گناہ گار مسلمانوں کی ہے جو حق سے قریب تر ہیں چوتھی قسم ان مومنوں کی ہے جو اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنیو الے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں اور جو کچھ وہ سنتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونے والے ہیں۔ ایمان والوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب تم نے دیکھ لیا کہ فتح و نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے اور زندگی کے ہر میدان میں وہ اہل ا ایمان کی مدد کرتا ہے تا لازم ہے کہ تم اپنے اپنے ایمان کو اور پختہ کرلو اور جب کبھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سنو تو اس پر فورا عمل کرو ہچکچاہٹ بہانہ اور پیچھے ہٹنا یہ سب باتیں ایمان کے خلاف ہیں۔ فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا کہ جب ان کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ بہرے گونگے بن کر رہ گئے۔ جنگ بدر میں بعض منافقین بہانے بنا کر پیچھے ہٹ گئے تھے میدان کارزار تک کوئی نہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کو وہاں تک جانے کی توفیق ہی نہیں دی گئی تھی اگر وہ وہاں جاتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگتے، جاسوسی کرتے یا دشمنوں سے جا کر مل جاتے اگر ان میں بھلائی کا کچھ مادہ ہوتا تو اللہ انہیں سننے اور عمل کرنے کی توفیق ضرور دیتا یہ اہل ایمان کے لئے اچھا ہی ہوا کہ صرف سچائی پر قائم لوگوں نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا اور منافقین اس میدان کا رزار تک نہ پہنچ سکے۔ (3) آخر میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں ایک ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری زندگی ہے تو لپک کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات پر عمل کرو۔ فرمایا گیا کہ جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں ملت کی زندگی ہے۔ اور ملت ہی کی زندگی سے افراد کی زندگی وابستہ ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ کون جہاد میں شریک ہوا اور کون بہانے بناتا رہا۔ وہ ہر انسان کے دل میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کی ایک ایک نبض کو پہنچانتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ اس دنیا سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن ایک دن تم سب کو اس کے پاس جمع ہر کر اپنا اپنا حساب پیش کرنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بدر کی ذلت کے بعد کفار کو انتباہ۔ قریش خاندانی سردار اور بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں معزز اور محترم سمجھے جاتے تھے۔ اس پر انھیں بڑا ناز اور فخر تھا۔ لیکن حق کی پے درپے مخالفت اور بدر میں ذلت ناک شکست کی وجہ سے اس قدر ذلیل ہوئے کہ ان کا نام اور مقام خاک میں مل گیا۔ یہاں مفسرین نے ایک عجب واقعہ نقل کیا ہے کہ بدر کی طرف نکلنے سے پہلے۔ سرداران قریش اور ابو جہل نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر یہ دعا کی کہ اے کعبہ کے رب ! تیری نگاہ میں مسلمانوں اور ہم میں جو حق پر ہے اسے کامیابی عنایت فرما۔ (جامع البیان ) ہو سکتا ہے یہاں اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ جس حق کے لیے تم فتح کے طلبگار ہوئے تھے اس حق پر صرف نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے ہمکنار فرمایا۔ لہٰذا تمہاری دعا کے نتیجہ میں جب حق ظاہر ہوچکا تو پھر تمہیں اس حق کی مخالفت سے باز آنا چاہیے۔ یہی تمہاری دنیا و آخرت کے لیے بہتر ہے۔ اگر تم باز آنے کے بجائے پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے پلٹو گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی پہلے کی طرح امداد کرے گا اور تمہیں تمہاری عددی قوت اور جنگی ساز و سامان کی کثرت کا کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا ساتھی ہے۔ چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لیے اپنے وسائل کو یکجا کرکے متحد ہو کر نکلے تو کفار کی کثرت اور ساز و سامان کی بہتات انھیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکی۔ وہ اپنے سے کمزور اور تھوڑے مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیشہ ذلیل و خوار ہوئے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہو تو کفار کی کثرت مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ٢۔ اگر کلمہ گو پکے مومن ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی ہمیشہ مدد فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی مدد کے بغیر جنگ میں اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی : ١۔ تھوڑی جماعتیں اللہ کی مدد سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں۔ (البقرۃ : ٢٤٩) ٢۔ اے ایمان والو ! جب تمہارا کسی لشکر سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ سے مدد کی دعا کرو۔ (الانفال : ٥٣) ٣۔ نہیں ہے کوئی گروہ جو ان کی مدد کرے اللہ تعالیٰ کے سوا۔ (الکہف : ٤٣) ٤۔ بدر میں دو جماعتوں کے لڑنے میں تمہارے لیے عبرت تھی۔ اللہ طاقت دیتا ہے اپنی مدد سے جسے چاہتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٥۔ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم مومن بن جاؤ۔ ( آل عمران : ١٣٩) تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب بات یہاں تک پہنچی کہ ” اللہ کافروں کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے “ یہاں سے روئے سخن کفار کی طرف موڑ دیا جاتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اس معرکے سے پہلے ہی فیصلہ چاہتے تھے اور اللہ کے سامنے دست بدعا تھے کہ اے اللہ دو مقابل فریقین میں سے جو گمراہ ہے ، یہ جنگ اس کے خلاف کردے۔ جو ایسی باتیں کرتا ہے جو معروف نہیں ہیں ، اسے تباہ کردے اور جو صلہ رحمی کے خلاف ہے ، اسے ہلاک کردے۔ یہ دعاء ابوجہل نے کی تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے جنگ کا فیصلہ ان کے خلاف کردیا اور اب ان کو خطاب کرکے ان پر طنز کیا جاتا ہے کہ تم ہی تو تھے جو بد دعاء کرتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ بدر میں جو کچھ ہوا ، وہ اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ہوا اور یہ کہ کفار کی کثرت اور اجتماع نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ کیونکہ اللہ کی سنت جاریہ کو وہ بدل نہ سکتے تھے اور اللہ مومنین کے ساتھ تھا۔ ۔۔۔ اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ۔۔۔ تم یہ دعائے فیصلہ کرتے تھے کہ مسلمانوں اور مشرکوں میں سے جو بھی حق پر ہو ، اللہ یہ جنگ اس کے حق میں کردے یا یہ کہ فریقین میں سے جو گمراہ اور صلہ رحمی کے خلاف موقف اختیار کر رہا ہو اس کے خلاف کردے۔ اللہ نے یہ دعا قبول کرلی۔ جنگ تمہارے خلاف کردی۔ اس سے تمہاری بات کی تصدیق ہوگئی اور جنگ گمراہ تر فریق کے خلاف فیصل ہوگئی۔ اگر تم فی الواقعہ گمراہ فریق کو معلوم کرنا چاہتے تھے ، بھائی چارے کے خلاف فریق کو معلوم کرنا چاہتے تھے ، تو تمہیں معلوم ہوگیا کہ یہ کون سا فریق ہے۔ لہذا تمہارا فرض تو یہ ہے کہ تم نتائج جنگ دیکھ کر اسلام کی طرف آجاؤ اور شرک و کفر کو ترک کردو اور مسلمانوں اور رسول اللہ کے خلاف معاندانہ رویہ چھوڑ دو ۔ اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ۚ وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۔ (ان کافروں سے کہہ دو ) ـاگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو ، فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔ اب باز آجاآ ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اور کے بعد ایک ڈراوا بھی وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ ـورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے۔ اور انجام سب کو معلوم ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں کثرت افواج فیصلہ کن نہیں ہوا کرتی اور نہ نتائج اس طرح بدل سکتے ہیں۔ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ ۔ اور تمہاری جمعیت ، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو ، تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی۔ اگر اللہ مسلمانوں کی طرف ہو تو کفار کی جمعیت کچھ بھی نہیں کرسکتی اور یہاں صورت یہ ہے : وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہ اس رنگ میں جو معرکہ ہوگا ، اس میں دونوں اطراف کی قوتوں کے درمیان کوئی توازن نہیں ہے۔ مومنین کے ساتھ اللہ ہے اور اللہ ان کے ساتھ صف میں ہوگا اور کفار کے ساتھ صرف ان ہی جیسے آدمی ہیں۔ یہ دوسری صف میں ہوں گے اور ایسے فریقین کے درمیان معرکے کا نتیجہ پہلے سے معلوم ہے۔ مشرکین عرب بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے تھے۔ اللہ کے بارے میں ان کا تصور اور معرفت اس قدر سطحی نہ تھی اور نہ پیچیدہ تھی جس طرح بعد کے ادوار میں کفار نے اللہ کے بارے میں سطحی نظریات اختیار کیے۔ کیو کہ عربوں کا شرک اس نوعیت کا نہ تھا کہ وہ ذات باری کے صاف منکر ہوں۔ نہ یہ کہ وہ حقیقت سے بالکل بےبہرہ ہوں۔ ان کا شرک صرف یہ تھا کہ وہ عبودیت اور بندگی صرف اللہ کے لیے مخصوص نہ کرتے تھے اس طرح کہ وہ ہدایت اور قوانین صرف اللہ سے اخذ کرتے ہوں۔ اس قدر شرک بھی در اصل ان کی معرفت الوہیت کے ساتھ لگا نہ کھاتا تھا۔ اس سے قبل ہم اس معرکے واقعات میں یہ بات نقل کر آئے ہیں کہ خفاف بن ایما ابن رحضۃ الغفاری یا ان کے والد ایما ابن رحضۃ الغفاری نے لشکر قریش کو اپنے بیتے کے ہاتھ کچھ مویشی دے کر بھیجا اور یہ مویشی بطور ہدایہ ان کو دیے۔ اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اسلحہ اور جوان بھی دے دوں۔ قریش نے اس کے بیٹے کے ذریعے یہ جواب دیا کہ ” تم نے صلہ رحمی کا حق ادا کردیا اور تم پر جو فرض تھا وہ تم نے ادا کردیا۔ خدا کی قسم اگر ہماری جنگ انسانوں سے ہو تو ہم اس قدر کمزور نہیں ہیں اور اگر ہماری جنگ خدا کے ساتھ ہو۔۔ جیسا کہ محمد خیال کرتے ہیں۔۔ تو اللہ کے مقابلے میں کوئی انسان نہیں لڑ سکتا “۔ اسی طرح کی ایک بات اخنس ابن شریق کی کتب سیرت میں موجود ہے۔ انہوں نے بنی زہرہ سے کہا اور یہ دونوں اس وقت مشرک تھے ” اے بنی زہرہ ، اللہ نے تمہارے اموال کو بچا لیا اور تمہارے ساتھی مخرقہ ابن نوفل بسلامت آگئے۔ اور خود ابوجہل (جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ کا فرعون قرار دیا ، کی ایک دعا کتب سیرت میں منقول ہے : ” اے اللہ ہم میں سے جو بھائی چارے کے خلاف ہے ، اور ایسی باتیں کرتا ہے جو معروف نہیں ہیں تو کل اس کے دشمن بن جائیں “۔ اسی طرح حکیم ابن حزام کا قول ، جب ان کے پاس عتبہ ابن ربیعہ کا پیغام آیا کہ اس جنگ سے لوٹ آؤ۔ اس نے کہا : ” خدا کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم واپس نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ نہ کردے “۔ ذات باری کے متعلق ان کا یہ تصور بہرحال تھا اور ہر موقعہ پر وہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ وہ ملحد تھے اور خدا کو مانتے اور جانتے نہ تھے۔ یا یہ نہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کرسکتا۔ یا وہ یہ نہ سمجھتے تھے کہ فریقین میں فیصلہ کرنے والا اللہ ہے اور اس کے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ان کے شرک کی ابتداء یہاں سے ہوئی تھی کہ وہ نظام زندگی کے بارے میں ہدایات صرف اللہ سے نہ لیتے تھے ، غیر اللہ سے بھی لیتے تھے حالانکہ وہ ذات باری کا بھی جیسا کہ ہم نے بیان کیا ، اعتراف کرتے تھے۔ اور یہ وہ بات ہے جس میں آج کے مسلمان اور اس وقت کے مشرک برارب ہیں۔ حالانکہ آج کے مسلمان یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ دین محمد پر ہیں جبکہ اس وقت کے مشرکین مکہ میں یہ عقیدہ رکھتے تھے اور اس بات کے مدعی تھے کہ وہ اپنے باپ ابراہیم کے دین پر ہیح۔ اور یہی وجہ ہے کہ ابوجہل ، ابوجہل ہونے کے باوجود اللہ سے فیصلہ طلب کر رہا تھا۔ ” اے اللہ ، ہم میں سے جو زیادہ بھائی چارے کے خلاف ہو ، اور جس کی بات زیادہ عرف کے خلاف ہو ، کل اس کے دشمن بن جائیں “ یہ تھے اس کے الفاظ۔ رہے وہ بت جن کے بارے میں یہ بات متعارف ہے کہ وہ ان کی پرستش کرتے تھے ، ان کے بارے میں ان کا اعتقاد یہ تھا کہ وہ بھی اسی طرح الہ میں جس طرح اللہ الہ ہے ، خدا کے بارے میں ان کے اعتقادی تصورات کے بارے میں قرآن کریم نے یہ تصریح کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ ان بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : والذین اتخذوا من دونہ اولیاٗ مانعبدہم الا لیقربونا الی اللہ زلفی۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو ولی بنایا (کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔ یہ تھا ان کا تصور الہ یعنی یہ الہ ان کے سفارشی ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کا حقیقی شرک یہی تھا کہ وہ اپنے معبودوں کو اللہ کے دربار میں سفارشی تصور کرتے تھے اور نہ ان کا اسلام صرف یہ تھا کہ وہ ان سفارشیوں کا انکار کردیتے تھے ، ورنہ وہ لوگ جو حنفاٗ کہلاتے تھے اور جو بتوں کو نہ پوجتے تھے وہ مسلمان تصور ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں اللہ وحدہ کو حاکم تصور کیا جائے ، اور جو لوگ اللہ کو وحدہ حاکم اور مطاع تصور نہیں کرتے وہ چاہے جس زمان و مکان میں ہوں ، وہ شرک میں ہیں۔ ان کو اس شرک سے ان کا یہ عقیدہ نہیں نکال سکتا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے یعنی محض اعتقادی تصور اور صرف یہ بات بھی ان کو شرک سے نہیں نکال سکتی کہ وہ بندگی کے مراسم صرف اللہ کے سامنے بجا لائیں کیونکہ اس حد تک آج کے مسلمانوں کو صرف حنفاء جاسکتا ہے۔ مسلمان ، مسلمان تب تصور ہوں گے جب اسلام کے تمام حلقوں اور کڑیوں کو ملا سکیں۔ یعنی وہ اللہ کو ایک سمجھنے اس کی عبادت بجا لانے اور اسے الہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حاکمیت کا اقرار بھی کریں۔ اس کے احکام ، اس کے قوانین ، اس کی مقرر کردہ اقدار کو تسلیم کریں۔ صرف یہی اسلامی حقیقی اسلام ہے اور یہی اسلام کلمہ شہادت میں بیان ہوا ہے۔ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کا یہی مفہوم ہے۔ اور یہی مفہوم اسلامی عقائد اور اسلامی معاشرے میں معروف اور معتبر ہے۔ اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ جو اس مفہوم کے اعتبار سے کلمہ طیبہ کا اقرار کریں وہ ایک اجتماعی شکل میں منظم اور متحرک ہوں اور ان کی اپنی مسلم قیادت ہو اور وہ تمام جاہلی آلودگیوں سے اس طرح نکل کر باہر آجائیں جس طرح مکھن سے بال نکل آتا ہے۔ جو لوگ حقیقتاً مسلمان بننا چاہتے ہیں ، ان کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیں۔ اس لیے ان کو اس بات سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ وہ محض عقیدے یا محض مراسم عبودیت کی وجہ سے مسلمان ہوگئے ہیں۔ صرف ان باتوں سے لوگ حقیقی مسلمان نہیں بن جاتے ، جب تک وہ اللہ وحدہ کو اپنا حاکم تصور نہ کریں۔ اور تمام دوسرے لوگوں کی حاکمیت کا اقرار نہ کردیں۔ اور جب تک وہ پنی تمام ہمدردیاں اور دوستیاں جاہلی معاشروں سے واپس نہیں لے لیتے۔ یہ غلط فہمی بہت سے مخلص اور نیک مسلمانوں کو لاحق ہے۔ در اصل ایسے مخلص لوگ فی الحقیقت اسلام چاہتے ہیں لیکن وہ دھوکے میں مبتلا ہیں ، لہذا ایسے مخلص مسلمانوں کا فرض ہے کہ پہلے وہ اسلام کی ماہیت کے بارے میں ذہنوں سے غلط فہمی دور کردیں اور یہ معلوم کرلیں کہ جن لوگوں کو وہ مشرکین عرب کہتے ہیں وہ عقائد اور اعمال میں وہ ان سے مختلف نہ تھے وہ اللہ کی ذات کو مانتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ، اپنے بتوں کو وہ اللہ کے ہاں سفارش تصور کرتے تھے۔ ان کا اصلی شرک ، شرک فی الحاکمیت تھا ، اعتقادی نہ تھا۔ جب عام مخلص مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اسلام کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھیں تو پھر وہ لوگ جو اقامت دین کا کام کرتے ہیں اور عالم واقعہ میں اسلامی نظام زندگی اور اللہ کی حاکمیت کا احیاٗ چاہتے ہیں ان پر تو فرض ہے کہ اس حقیقت کو نہایت ہی واضح طور پر اور اس کی گہرائی تک سمجھیں۔ اور اس بارے میں وہ کوئی مجمل بات نہ کریں اور نہ شف شف کریں۔ لوگوں کو دو ٹوک انداز میں اور واضح طور پر بتا دیں کہ حقیقی اسلام یہ ہے۔ یہ ان کے کام کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر کوئی تحریک اس سے ادنی انحراف بھی کرے گی تو وہ گمراہ ہوجائے گی اور وہ غلط اساسوں پر تعمیر شروع کردے گی۔ اگرچہ اس کے رکن مخلص ہوں اور تحریک خود عظیم جدوجہد کرنے والی ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین سے اللہ تعالیٰ کا خطاب مفسرین نے لکھا ہے کہ ابو جہل نے بدر کے دن لڑائی ہونے سے پہلے یوں دعا کی تھی کہ اے اللہ ! یہ جو دو جماعتیں ہیں (ایک مومنین دوسرے مشرکین) ان میں سے جو بھی قطع رحمی میں بڑھ کر ہو اور جو ایسی چیز لے کر آیا ہو جسے ہم نہیں جانتے آج کی صبح اسے شکست دے دینا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب مشرکین بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو کعبہ شریف کے پردے پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اور یوں کہا کہ اے اللہ دونوں لشکروں میں سے جو لشکر آپ کے نزدیک اعلیٰ ، اکرم اور بہتر ہو اس کی مدد فرمائیے۔ (ص ٢٩٦ ج ٢) ایک روایت میں یوں ہے کہ جب بدر کے دن دونوں جماعتیں مقابل ہوئیں تو ابو جہل نے کہا اے اللہ ہمارا دین قدیم ہے اور محمد کا دین نیا ہے۔ دونوں دینوں میں جو دین آپ کو محبوب ہو اور آپ اس سے راضی ہوں اسی دین کے اصحاب کی مدد کیجیے (روح المعانی ص ١٨٧ ج ٩) مشرکین نے یہ دعا کی تھی جن میں ابو جہل پیش پیش تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دعاء قبول فرمائی اور جو دین اللہ کے نزدیک محبوب تھا اسی دین (یعنی اسلام) کے ماننے والوں کی مدد فرمائی اور ان کو فتح یاب فرمایا، آیت بالا میں اسی کا ذکر ہے کہ تم نے جو دعا کی تھی اور حق و باطل کا فیصلہ چاہا تھا وہ فیصلہ تمہارے سامنے آگیا اہل حق کی اللہ نے مدد فرمائی، اب تمہیں اپنی دعاء کے مطابق بھی کفر پر باقی رہنے کا کوئی موقعہ نہیں رہا۔ (وَ اِنْ تَنْتَھُوْا فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ) (اور اگر تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی سے اور آپ کے مقابلہ میں جنگ کے لیے آمادہ ہونے سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) یہ خطاب ان کافروں کو ہے جو قید کرلیے گئے اور جو کافر مکہ معظمہ ہی میں رہ گئے تھے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی ان سے فرمایا (وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ ) اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے، جو پہلے کیا تھا یعنی اگر تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرنے کے منصوبے بنائے اور جنگ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو پھر ہم وہی کریں گے جو مذکورہ جنگ یعنی غزوۂ بدر کے موقع پر کیا یعنی اہل ایمان کی مدد کریں گے ان کو فتح یابی دیں گے اور پھر تم ذلیل و خوار ہو گے (وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِءَتُکُمْ شَیْءًا وَّ لَوْ کَثُرَتْ ) اور یہ جو تم اپنی جماعت کو بڑی دیکھ رہے ہو اور اس کی جمعیت پر بھروسہ کر رہے ہو یہ کتنی بھی زیادہ ہوجائے تمہیں کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی، (وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور اللہ مومنین کے ساتھ ہے) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مشرکین عرب اور خاص کر مشرکین مکہ کے لیے اس بات کے سوچنے کی گنجائش نہیں رہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف پھر جنگ کرنے کا ارادہ کریں جب کہ اللہ نے ہمیشہ کے لیے مستقل اعلان فرما دیا کہ (وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) لیکن مشرکین کی پھر بھی آنکھیں نہ کھلیں اور غزوہ احزاب میں پھر قبیلوں اور جماعتوں کو لے کر مدینہ منورہ پر چڑھ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کی بہت بڑی بھاری جمعیت تتر بتر ہو کر بھاگ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہے اگر اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہوتی تو کفار تھوڑے سے مسلمانوں کو جو ابتدائے اسلام میں تھے بالکل ہی ختم کردیتے اور دین اسلام بالکل ہی آگے نہ بڑھتا۔ لیکن کافروں کی ہزاروں تدبیریں فیل ہوئیں۔ میدان جہاد میں ان کی بڑی بڑی بھاری جماعتیں مغلوب ہوئیں، ان میں سے لاکھوں مقتول ہوئے اور الحمدللہ ایمان ہمیشہ بڑھتا چڑھتا رہا اور آج بھی کافروں کی تدبیریں فیل ہیں ان کے دلوں میں ان کے گھروں میں ان کی موجودہ نسلوں میں اسلام داخل ہو رہا ہے۔ یورپ و امریکہ میں روزانہ اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ و لقد صدق اللہ و ان اللہ مع المومنین ( یقیناً اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ مومنین کے ساتھ ہے) دنیا میں جو کہیں مسلمانوں کی شکست ہے وہ ان کے فسق کی وجہ سے ہے۔ اسلام کے اعمال پر مستقیم نہیں ہیں۔ اخلاص سے بھی خالی ہیں۔ لہٰذا دشمنوں کے نرغے میں آجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21: خطاب مشرکین سے ہے اور استفتاح کے معنی طلب فیصلہ کے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا “ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ ” (اعراف رکوع 11) ۔ مشرکین مکہ ہجرت سے پہلےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے۔ “ مَتیٰ ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن ” (سجدہ رکوع 3) ۔ یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان صادق و کاذب اور محق و مبطل کا فیصلہ کب ہوگا۔ فرمایا لو ہم نے فیصلہ کردیا جسے تم نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ہم نے بےسرو سامان اور مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں تمہارے سامان جنگ سے لیس عظیم لشکر کو کس طرح پٹوا دیا، ان کے ہاتھوں تمہیں ذلت آمیز شکست دی اور عرب سے تمہاری طاقت و قوت کا خاتمہ کردیا۔ اب اگر تم پیغمبر (علیہ السلام) کی مخالفت اور کفر و شرک کا سے باز آجاؤ تو اسی میں تمہاری دنیوی اور اخروی بہتری ہے۔ لیکن اگر تم باز نہ آئے اور پیغمبر (علیہ السلام) سے برسر پیکار ہوگئے تو ہم پھر تمہارا یہی حشر کریں گے اور تمہارا جتھا اور تمہاری فوج کثرت عدد اور سامان حرب کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی “ وَ اَنَّ اللّٰه مَعَ الْمُوْمِنِیْنَ ” واؤ کے بعد “ اِعْلَمُوْا ” مقدر ہے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ کی مدد اور نصرت تو ایمان والوں ہی کے ساتھ ہوگی۔ کیونکہ اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے۔ “ وان سنة اللہ تعالیٰ جاریة فی نصر المومنین و خذلان الکافرین ” (روح ج 9 ص 188) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 اے اہل مکہ اگر تم کو فیصلے کی خواہش تھی تو فیصلہ تمہارے پاس آگیا اور اب اگر تم باز آجائو تو تمہارے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم باز نہ آئوگے اور پھر وہی کروگے تو ہم بھی پھر یہی کریں گے اور تمہاری جمعیت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آئے گی اور یقین مانو ! اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ یعنی فیصلہ مانگا کرتے تھے سو فیصلہ آپہنچا۔ اب تم کو چاہئے کہ تم اسلام کی مخالفت اور مسلمانوں کی ایذا رسانی سے باز آجائو تو یہ تمہارے حق میں اچھا ہے اور اگر تم پھر وہی ناشائستہ حرکات کروگے اور مسلمانوں کو ستائوگے تو ہم پھر تم کو عذاب دیں گے اور تم کو مغلوب کردیں گے اور تمہاری جماعت اور تمہارا گروہ خواہ کتنا ہی زیادہ ہو تم کو خدا کے عذاب سے بچانہ سکے گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مکہ کی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا قول نقل فرمایا کہ ہر گھڑی کہتے ہیں۔ متیٰ ہذا الفتح یعنی کب ہوگا یہ فیصلہ اب جواب فرمایا کہ یہ فیصلہ آپہنچا اور اگر باز آئو۔ یعنی کفر سے اور اگر پھر کرو گے یعنی لڑائی تو ہم پھر کریں گے یعنی مدد۔ 12