Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 21

سورة الأنفال

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ ہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And do not be like those who say, "We have heard," while they do not hear.

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ سنتے ( سناتے کچھ ) نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And be not like those who say: "We have heard," but they hear not. Ibn Ishaq said that; this Ayah refers to the hypocrites, who pretend to hear and obey, while in fact they do neither. Allah declares that these are the most wicked creatures among the Children of Adam,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی سن لینے کے باوجود، عمل نہ کرنا، یہ کافروں کا طریقہ ہے، تم اس رویے سے بچو۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ، گونگا، غیر عاقل اور بدترین خلائق قرار دیا گیا ہے۔ دَوَبّ ، دَا بَّۃ، کی جمع ہے، جو بھی زمین پر چلنے پھرنے والی چیز ہے وہ دابہ ہے۔ مراد مخلوقات ہے۔ یعنی یہ سب سے بدتر ہیں جو حق کے ... معاملے میں بہرے گونگے اور غیر عاقل ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] یہاں سننے سے مراد اس کو قبول کرنا ہے اور اس آیت میں روئے سخن بالخصوص منافقوں کی طرف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا : ان سے مراد مشرکین، منافقین اور اہل کتاب ہیں جو کانوں سے تو اللہ اور اس کے رسول کا کلام سنتے ہیں، مگر اس طرح کہ وہ نہیں سنتے، کیونکہ نہ وہ دل سے سنتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں، ان کا سننا نہ سننے کے برابر ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٤٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

For added emphasis on the same subject, it was said in the second verse (21): وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ (and do not be like those who say, |"we have heard|" while they do not listen). Meant here are common disbelievers who claim to be listening but make no such claim about believing. Also meant here are the hypocrites who go beyond the elementary lis... tening which they already do. In fact, they also claim to understand what that they listen to and to believe in it as well. But, the truth of the matter is that they both remain deprived of genuine deliberation and correct understanding. Therefore, their listening falls under the category of not listening. So, Muslims have been forbidden from becoming like them.  Show more

دوسری آیت میں اسی مضمون کی مزید تاکید کے لئے ارشاد فرمایا (آیت) وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ، یعنی تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت سنا سنایا کچھ نہیں۔ ان لوگوں سے مراد عام کفار بھی ہیں جو سننے کا دعوی کرتے ہیں ... اعتقاد کا نہیں کرتے۔ اور منافقین بھی ہیں جو سننے کے ساتھ سمجھنے اور اعتقاد رکھنے کے بھی مدعی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ غور و فکر اور صحیح سمجھ سے یہ دونوں محروم ہیں اس لئے ان کا سننا نہ سننے کے حکم میں ہے مسلمانوں کو ان لوگوں کے مشابہ ہونے سے منع فرمایا گیا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ۝ ٢١ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعم... ل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اور اطاعت میں یا نافرمانی کرنے میں عبد دار اور نضر بن حارث وغیرہ کی طرح مت بنو، جو زبان سے دعوی اطاعت کا کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اطاعت نہیں کرتے اور ان ہی لوگوں کے بارے میں اگلی آیت نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ ) ۔ یعنی صرف زبان سے سَمِعْنَا کہہ دیتے ہیں مگر ان کے دل اپنے خیالات اور مفادات پر ہی ڈیرے جمائے رہتے ہیں۔ اطاعت پر ان کی طبیعت میں یکسوئی پیدا ہی نہیں ہوتی۔ چناچہ اس طرح کے سننے کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. In the present context, 'hearing' means taking heed with a view to obey'. The verse alludes to those hypocrites who professed to believe and yet were not willing to carry out the commands of God.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :16 یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جو ماننے اور قبول کرنے کے معنی میں ہوتا ہے ۔ اشارہ ان منافقین کی طرف ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے تھے مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٣۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیت میں مومنوں کو خطاب کر کے یہ فرمایا تھا کہ تم ہر ایک امر میں خدا اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اور ہر باب میں ان کے حکم سے پیٹھ نہ پھیرو کیونکہ تم قرآن کی پند و نصیحت کی باتیں اور سمجھتے ہو اور اس کی تصدیق کرتے ہو اس کے بعد اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ان ل... وگوں کی خصلت نہ اختیار کرو جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم سنتے میں اور حقیقت یہ ہے کہ سنتے نہیں ہیں کیونکہ سننے کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اس سے کچھ نفع بھی حاصل ہو یہ منافقین یا مشرکین خدا کا کلام صرف کانوں سے سنتے ہیں مگر اس سے کوئی نفع نہیں اٹھاتے اس لئے ان کا سننا اور نہ سننا دونوں برابر ہیں پھر اللہ پاک نے یہ بیان فرمایا کہ یہ لوگ چار پایوں سے بھی بدتر بالکل بہرے گونگے ہیں کچھ سمجھ ہی نہیں رکھتے ان سے تو جانور بھی اچھے ہیں کہ وہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرتے ہیں جو جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس امر میں وہ خدا کا مطیع ہے انسان ہیں جو اللہ کی عبادت کے لئے بنائے گئے مگر انہوں نے اس سے انکار کیا اس لئے یہ چوپایوں سے بدتر ٹھہرے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ لوگ منجملہ قریش کے عبدالدار بن قصی کے قبیلہ کے چند لوگ تھے جو کہتے تھے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو شریعت لائے ہیں اس سے بہرے گونگے ہیں یہ لوگ سب کے سب سوائے دو شخصوں کے جنگ احد میں مارے گئے ان میں سے دو شخص بچے تھے مصعب بن عمیر اور سوبیط بن حرملہ یہ دونوں مسلمان ہوئے پھر اللہ پاک نے اپنے علم ازلی کے موافق ان کے سننے میں بھلائی اور بہتری دیکھتے تو ان کو اس کے سننے کی توفیق دے دیتے لیکن اللہ کے علم ازلی کے موافق یہ نتیجہ قرار پا چکا ہے کہ اگر بالفرض انہیں سننے اور سمجھنے کی توفیق بھی دے دی جائے تو بھی یہ لوگ نہیں سنیں گے بلکہ نصیحت سے پیٹھ پھیرنے لگیں گے اور اس سننے سے کوئی نفع نہیں اٹھائیں گے اور عناد اور کفر کی وجہ سے نصیحت کے نفع سے پہلو تہی کریں گے بعضے مفسروں نے یہاں یہ بیان کیا ہے کہ قبیلہ عبدالدار کے لوگ جن کا ذکر ابھی ہوچکا کہ وہ حضرت کا کالام سننے کے وقت یہ کہتے تھے ہم بہرے گونگے ہیں یہ لوگ آنحضرت صلعم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے باپ قصی کو آپ زندہ کردیں تاکہ ہم اس سے دریافت کرلیں اگر وہ آپ کی رسالت کے متعلق گواہی دیگا تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اسی کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں کو اقصی کی باتیں بھی سنادی جاویں تو بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور نصیحت کے سننے سے پیٹھ پھیرلیں گے اور دلی کفر کو وجہ سے ایمان لانے سے انکار ہی کریں گے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ (رض) بن عمربن الع اس کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے جو دنیا کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں ہونے والا تھا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑے لوگوں کی مثال بری زمین کی اور قرآن شریف کی مثال مینہ کی فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم آلہی میں جو لوگ برے ٹھہر چکے ہیں ان کے دل میں اسی طرح قرآن کی نصیحت کچھ اثر نہیں کرتی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی کچھ اثر نہیں کرتا اسی واسطے وہ بہروں کی طرح قرآن کی نصیحت نہیں سنتے اور گونگوں کی طرح حق بات کا اقرار زبان پر نہیں لاسکتے اسی واسطے ایمان داروں کو ایسے لوگوں کی عادتوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 مراد منا فق ہیں یا مشرکین اور یہود کا جو کان سے تو اللہ تعالیٰ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنتے ہیں مگر ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا یہ سننا اور نہ سننا برابر ہے۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ ثمرہ اعتقاد سے سننے کا عمل ہے جب عمل نہ ہوا تو بعض وجوہ سے مشابہ اسی کے ہوگیا کہ جیسے اعتقاد کے ساتھ سناہی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اور اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ کچھ نہیں سنتے۔ یعنی کافر تو اعتقاد ہی نہیں رکھتے اور منافق اعتقاد کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عمل وہ بھی نہیں کرتے اس لئے ان کا سننا نہ سننے کے برابر ہے۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔ جو کچھ سنیں اس پر اعتقا... د کے ساتھ عمل بھی کریں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جیسے یہود نے حکم توریت زور آوری سے قبول کیا اور دل سے ناقبول رکھا جیسے منافق زبان سے حکمبردار ہیں اور دل سے نہیں۔ 12  Show more