Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 23

سورة الأنفال

وَ لَوۡ عَلِمَ اللّٰہُ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا لَّاَسۡمَعَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَسۡمَعَہُمۡ لَتَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۳﴾

Had Allah known any good in them, He would have made them hear. And if He had made them hear, they would [still] have turned away, while they were refusing.

اور اگر اللہ تعالٰی ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنادے تو ضرور روگردانی کریں گے بے رخی کرتے ہوئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَّسْمَعَهُمْ ... Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen. He would have helped them understand. However, this did not happen because there is no goodness in such people, for Allah knows that, ... وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ ... even if He had made them listen... and allowed them to understand, ... لَتَوَلَّوا... ْ ... they would but have turned..., intentionally and out of stubbornness, even after they comprehend, ... وَّهُم مُّعْرِضُونَ with aversion, (to the truth).   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی ان کے سماع کو نافع بناکر ان کو فہم صحیح عطا فرما دیتا، جس سے وہ حق کو قبول کرلیتے اور اسے اپنالیتے۔ لیکن چونکہ ان کے اندر خیر یعنی حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ فہم صحیح سے محروم ہیں۔ 23۔ 2 پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے۔ اس دوسرے سماع سے مراد مطلق سماع ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں حق...  بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض کریں گے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] بالآخر ایسے لوگوں میں بھلائی کا جوہر موجود ہی نہیں رہتا اور اگر لوگ اپنے آپ میں کچھ ایسا جوہر موجود رہنے دیتے تو اللہ تعالیٰ انہیں سنا بھی دیتا۔ مگر ان کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنا اور سمجھا بھی دی جائیں تو یہ ضدی اور معاند لوگ سمجھ کر بھی انہیں تسلیم و قبول کرنے پ... ر تیار نہ ہوں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ : یعنی اگر ان کے دل میں خیر یعنی حق کی طلب ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سننے کو نافع بنا کر ایمان و عمل کی توفیق دے دیتا۔ پہلے ” لَّاَسْمَعَهُمْ “ (انھیں ضرور سنوا دیتا) سے مراد وہ سنانا ہے جو دل سے ہو اور فائدہ مند ہو اور ” لَّواَسْمَعَهُمْ “ ... (اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا) سے مراد محض کانوں سے سنوانا ہے، یعنی اگر انھیں اسی حال میں کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں ہے، سنواتا تو یقیناً وہ منہ پھیر کر چل دیتے، یعنی ان لوگوں نے گناہوں کا ارتکاب کر کر کے اپنے اندر سے وہ استعداد ہی ختم کردی ہے جو ایمان اور راہ ہدایت کی پیروی کے لیے بیج کی حیثیت رکھتی ہے، پھر جب بیج ہی نہ ہو تو پھل کی امید کیا ہوسکتی ہے، چناچہ دوسری آیت میں فرمایا : (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) [ المطففین : ١٤ ] ” خبردار رہو کہ ان کے برے اعمال ان کے دلوں پر زنگ بن کر چھا گئے ہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (23), it was said: وَلَوْ عَلِمَ اللَّـهُ فِيهِمْ خَيْرً‌ا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٢٣﴾ (And had Allah seen in them some good, He would have made them listen. And had He made them listen, they would have turned away paying no heed). In other words, the sense of the verse is: Had Allah seen in them some pliability towards receiving ... good counsel, He would have blessed them with the ability to listen with faith - and if, in their present state of being with no desire to receive truth, He were to make them listen to what is true, they would have certainly turned away from it paying no heed. The word: خَیر (khayr: good) at this place means the desire to find out the truth, for it is the quest for truth which opens the doors of deliber¬ation and understanding and it is this very quest which enables one to believe and act. Thus, whoever has no quest for truth is as if he has no good in him. If such people did have some good in them, it is obvious that it would have been within the knowledge of Allah Ta` ala. Now, when they have no good in them as borne by the knowledge of Allah Ta` ala, it tells us that they stand deprived of every possible good in the real sense. Therefore, if they were to be invited to ponder, deliberate and believe in the truth within this state of deprivation, they would have never accepted it - rather, they would have turned away from it and run. This aversion, that is, would not be because of any flaw in the religion they may have noticed which made them reject it. In fact, they just did not pay heed to what was the truth. Incidentally, the stipulation made above also helps remove the nagging logical doubt which bothers many a learned people. They surmise that this is the first form of analogical deduction where the surrender of the middle premise seems to be yielding the wrong outcome. The answer is that the middle premise has not been repeated here because the sense of the first word لَّأَسْمَعَهُمْ (la asma&ahum: He would have made them listen) is separate from the second: وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ (wa lau asma&ahum: and had He made them listen) which carries its own sense apart from the first. Meant in the first is listening to accept and listening to benefit from, while the sense of the second is bland listening with nothing to it.  Show more

چوتھی آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی بھلائی دیکھتے تو ان کو اعتقاد کے ساتھ سننے کی توفیق بخش دیتے اور اگر ان کو بحالت موجودہ کہ ان میں طلب حق نہیں ہے حق بات سنا ... دیں تو وہ ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے۔ بھلائی سے مراد اس جگہ طلب حق ہے کہ طلب ہی کے ذریعہ تدبر اور فہم کے دروازے کھلتے ہیں اور اسی سے اعتقاد و عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ اور جس میں طلب حق نہیں گویا اس میں کوئی بھلائی نہیں، معنی یہ ہیں کہ اگر ان میں کوئی بھلائی موجود ہوتی تو ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی جب اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ ہر بھلائی سے محروم ہیں اور اس محرومی کی حالت میں اگر ان کو غور و تدبر اور اعتقاد حق کی دعوت دی جائے تو وہ ہرگز قبول نہ کریں گے بلکہ اس سے منہ پھیر کر بھاگیں گے۔ یعنی ان کی یہ روگردانی اس بنا پر نہ ہوگی کہ دین میں ان کو اعتراض کی بات نظر آگئی اس لئے نہیں مانا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حق بات پر دھیان ہی نہیں دیا۔ اس تقریر سے وہ منطقی شبہ بھی رفع ہوگیا جو اہل علم کے دلوں میں کھٹکتا ہے کہ یہ قیاس کی شکل اول ہے حد اوسط حذف کریں تو نتیجہ غلط نکل رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہاں حد اوسط مکرر نہیں کیونکہ پہلے لَّاَسْمَعَهُمْ کا مفہوم الگ ہے دوسرے اسمعھم کا الگ پہلے میں سماع قبول اور سماع نافع مراد ہے دوسرے میں خالی سماع۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ عَلِمَ اللہُ فِيْہِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ۝ ٠ ۭ وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٢٣ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. ق... يل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) اور اگر اللہ تعالیٰ بنی عبد دار وغیرہ میں کوئی خوبی دیکھتے تو انھیں ایمان کی دولت سے ضرور بہرہ ور فرماتے، اور اگر اس حالت میں ان کو ایمان کی توفیق دے دیں تو وہ ضرور اس سے روگردانی کرجائیں اور جھٹلانا شروع کردیں، اللہ تعالیٰ ان کی اس حالت کو بخوبی جانتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ط) (وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اندر کوئی صلاحیت پاتا تو ان کو سننے اور سمجھنے کی توفیق دے دیتا ‘ لیکن اگر انہیں بغیر صلاحیت کے تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی د... ی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو کفار کے لشکر کا سامنا کرنے میں پس و پیش کر رہے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. Such people have neither any love for the truth nor any desire to strive for it. Hence even if they were enabled by God to go forth to the battlefield. they would have turned on their heels at the very first sight of danger. That such people should be a part of the Muslim army might have led to greater harm than good.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :18 یعنی جب ان لوگوں کے اندر خود حق پرستی اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو انہیں اگر تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی بے تکلف بھاگ نکلتے اور ان کی معیت تمہارے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹی مضر ثابت ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: بھلائی سے یہاں مراد حق کی طلب اور جستجو ہے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، سننے سے مراد سمجھنا ہے، اس طرح اس آیت میں یہ اہم نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اس کو دیتا ہے جس کے دل میں حق کی طلب ہو، اگر کسی میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ غفلت کی حالت میں ... اس طرح زندگی گزاررہا ہو کہ بس جو کچھ میں کررہا ہوں ٹھیک کررہا ہوں اور مجھے کسی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو اول تو وہ حق بات کو سمجھنے ہی محروم رہتا ہے، اور اگر سمجھ بھی جائے تو اس کا نوٹس ہی نہیں لیتا اور حق سے بدستور منہ موڑے رہتا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:23) لاسمعہم۔ وہ ان کو ضرور سنا دیتا۔ اسماع (افعال) سے بمعنی سنا دینا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب لام برائے تاکید۔ وہم تعرضون۔ واؤ حالیہ۔ اور ہم معرضون حال ہے۔ درآنحالیکہ وہ روگردانی کرنے والے ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اگر انہیں اسی حال ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں ہے سناتا تو وہ منہ پھر کر چل دیے ہیں یعنی ان لوگوں نے گنا ہو کا ارتکاب کر کر ک کے اپنے اندر سے وہ استعداد ہی ختم کرلی ہے جو ایمان اور راہ ہدایت کی پیروی کے لیے بیج کی حثیت رکھتی ہے پھر جب یہ بیج نہ ہو تو پھل کی امید نہیں ہوسکتی چناچہ دوسری آیت میں فر... مایا کلا بل ران علی قلو بھم ماکونوا یکسبون حقیقت یہ ہے کہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ ( تطفیف۔ 14)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق نہیں سننا چاہتے تو نہ سنیں۔ اے مومنوں تمہیں ضرور اللہ اور اس کے رسول کی بات سننا اور ماننا چاہیے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا ارشاد سننے کے باوجود ایسا طرز حیات اختیار کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اسے سنا ہی نہیں۔ ان کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دے کر فرمایا...  یہ عقل و فکر سے عاری ہیں۔ سورة الاعراف آیت ١٧٩ میں ان لوگوں کو جانوروں سے بدتر شمار کرتے ہوئے انھیں غافل قرار دیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا ہے اگر اللہ تعالیٰ ان میں خیر کا جذبہ دیکھتا تو ان کو بات سننے، سمجھنے کی توفیق دیتا۔ کیونکہ یہ جانوروں کی طرح محض اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں سمجھتے نہیں۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے۔ اسی لیے انھیں ہدایت سے نہیں نوازا گیا۔ ایسے لوگوں کو اگر جبراً کوئی بات سنوائی جائے تو پھر بھی وہ اعراض کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے کہ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کیا گیا لیکن پھر بھی انھوں نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو جان بوجھ کر بات کو سننا اور اسے سمجھنا نہیں چاہتے لہٰذا اے مسلمانو ! تم اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرو۔ جب بھی تمہیں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلائے تم اس کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ یہی تمہارے زندہ اور عقل مند ہونے کا ثبوت ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا یہ معنیٰ نہیں کہ بندہ ہدایت طلب کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ بندے اور ہدایت کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہے جب کوئی شخص ہدایت سے ارادۃً انحراف کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے ارادے کے مطابق اس کو ہدایت کی طرف نہیں آنے دیتا کیونکہ ہدایت خیر ہے اور خیر ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے طالب اور اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اسی بات کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں بیان فرمایا۔ (عَن عَبْدَ اللّّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب تصریف اللہ القلوب کیف شاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن (رض) عاص فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے یہ فرماتے سنا کہ آدم کی اولاد کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جو ایک ہی دل کی طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ما جاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ اے اللہ دلوں کو پھیرے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔ “ (عن مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّین ] ” حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہدایت کے طالب کو ہی ہدایت سے نوازتا ہے۔ ٢۔ ہدایت نہ چاہنے والے کو جبراً ہدایت کی طرف بلایا جائے تو وہ پھر بھی اس سے اعراض کرتا ہے۔ ٣۔ ایماندار کو ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرنا چاہیے۔ ٤۔ جو شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے بےپروائی برتتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اور دور کردیتا ہے۔ ٥۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24: کچھ بھلائی اور اللہ کی طرف قدرے انابت “ لَاَسْمَعھُمْ ” ان کو حق بات سنا دیتا اور انہیں قبول کرنے کی توفیق دے دیتا۔ یعنی اگر ان کے دلوں میں انابت اور طلب حق کا جذبہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کو قبول حق کی وفیق دے دیتا۔ لیکن وہ انابت اور قبول حق کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس لیے اگر وہ حق بات سن کر اس ... کو مجھ بھی لیں تب بھی وہ اس سے اعراض کرکے چلتے بنیں گے۔ کیونکہ ان کی قوائے مدرکہ پر مہر جباریت ثبت ہوچکی ہے۔ “ لعنادھم و جحودھم الحق بعد ظھورھ ” (معالم و خازن ج 3 ص 17، ص 18) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 اور اگر اللہ تعالیٰ ان معاندین میں کوئی خوبی اور بھلائی جانتا یعنی کم از کم ان میں حق کی طلب ہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو ملنے کی توفیق عطا فرماتا اور وہ اگر ان کو موجودہ حالت میں سنا دے تو وہ ضرور بےرخی کے ساتھ پیٹھ پھیر کر الٹے پھرجائیں۔ یعنی جب ان میں ہدایت کی طلب نہیں اور ان میں صلاحیت نہیں ... ہر بھلائی کے عاری تو ان کی دست گیری کس بنا پر کی جائے اگر موجودہ حالت میں ان کو سنایا جائے تو یہ اعراض کریں گے اور منہ پھیر کر بےرخی کے ساتھ بھاگیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ نے ان کے دل میں ہدایت کی لیاقت نہیں رکھی جن میں لیاقت رکھی ہے انہی کو ہدایت دیتا ہے اور بغیر لیاقت جو سنتے ہیں وہ انکار کرتے ہیں۔ 12  Show more