Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 25

سورة الأنفال

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۵﴾

And fear a trial which will not strike those who have wronged among you exclusively, and know that Allah is severe in penalty.

اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning against an encompassing Fitnah Allah warns; وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَأصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ And fear the Fitnah (affliction and trial) which affects not in particular (only) those of you who do wrong, and know that Allah is severe in punishment. Allah warns His believing servants of a Fitnah, trial and test, that encompasses the wicked and those around them. Therefore, such Fitnah will not be restricted to the sinners and evildoers. Rather, it will reach the others if the sins are not stopped and prevented. Imam Ahmad recorded that Mutarrif said, "We asked Az-Zubayr, `O Abu Abdullah! What brought you here (for the battle of Al-Jamal)! You abandoned the Khalifah who was assassinated (Uthman, may Allah be pleased with him) and then came asking for revenge for his blood!' He said, `We recited at the time of the Messenger of Allah, and Abu Bakr, Umar and Uthman, وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَأصَّةً ... And fear the Fitnah (affliction and trial) which affects not in particular (only) those of you who do wrong, We did not think that this Ayah was about us too, until it reached us as it did."' Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said that; the Ayah, وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَأصَّةً (And fear the Fitnah (affliction and trial) which affects not in particular (only) those of you who do wrong), refers to the Companions of the Prophet in particular. In another narration from Ibn Abbas, he said, "Allah commanded the believers to stop evil from flourishing among them, so that Allah does not encompass them all in the torment (Fitnah)." This, indeed, is a very good explanation, prompting Mujahid to comment about Allah's statement, وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَأصَّةً (And fear the Fitnah (affliction and trial) which affects not in particular (only) those of you who do wrong), "Is for you too!" Several said similarly, such as Ad-Dahhak and Yazid bin Abi Habib and several others. Ibn Mas`ud said, "There is none among you but there is something that represents a Fitnah for him, for Allah said, إِنَّمَأ أَمْوَلُكُمْ وَأَوْلَـدُكُمْ فِتْنَةٌ Your wealth and your children are only a trial (Fitnah)... (64:15) Therefore, when you seek refuge, seek it with Allah from the Fitnah that causes misguidance." Ibn Jarir collected this Hadith. The view that the warning in this Ayah addresses the Companions and all others is true, even though the speech in the Ayah was directed at the Companions. There are Hadiths that warn against Fitnah in general, thus providing the correctness of this explanation. Similarly there will be a separate book in which this subject will be discussed, Allah willing, as also is the case with the Imams, there being a number of writings about this. Of the most precise things that have been mentioned under this topic, is what was recorded by Imam Ahmad from Hudhayfah bin Al-Yaman that the Messenger of Allah said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُم By He in Whose Hand is my soul! You will enjoin righteousness and forbid evil, or Allah will send a punishment upon you from Him; you will supplicate then to Him, but He will not answer your supplication. Imam Ahmad recorded that Abu Ar-Riqad said, "I heard Hudhayfah saying, `A person used to utter one word during the time of the Messenger of Allah and become a hypocrite on account of it. I now hear such words from one of you four times in the same sitting. Surely, you will enjoin good, forbid evil and encourage each other to do good or Allah will surround you all with torment, or make the wicked among you become your leaders. The righteous among you will then supplicate, but their supplication will not be accepted."' Imam Ahmad recorded that An-Nu`man bin Bashir said that the Prophet gave a speech in which he said, while pointing to his ears with two of his fingers, مَثَلُ الْقَايِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا وَالْمُدَاهِنِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ رَكِبُوا سَفِينَةً فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا وَأَوْعَرَهَا وَشَرَّهَا وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَهَا فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوُا الْمَاءَ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوقَهُمْ فَأذُوْهُمْ فَقَالُوا لَوْ خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا فَاسْتَقَيْنَا مِنْهُ وَلَمْ نُوْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ تَرَكُوهُمْ وَأَمْرَهُمْ هَلَكُوا جَمِيعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا جَمِيعًا The parable of the person abiding by Allah's order and restrictions in comparison to those who violate them, or sit idle while they are being violated, is that of those who drew lots for their seats in a boat. Some of them got seats in the lower part, which is the most rough and worst part, and the others in the upper. When the former needed water, they had to go up to bring water and that troubled the others, so they said, `Let us make a hole in our share of the ship and get water, saving those who are above us from troubling them, so, if the people in the upper part let the others do what they suggested, all the people of the ship would be destroyed, but if they prevented them, both parties would be safe. This was recorded by Al-Bukhari, but not Muslim, in the Book of Partnerships and the Book of Witnesses. It was also recorded by At-Tirmidhi through a different route of narration. Imam Ahmad recorded that Umm Salamah, the Prophet's wife, said, "I heard the Messenger of Allah saying, إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَاصِي فِي أُمَّتِي عَمَّهُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِه If sins become apparent in my Ummah, Allah will surround them with punishment from Him. I said, `O Allah's Messenger! Will they have righteous people among them then?' He said, بَلَى Yes. I asked, `What will happen to them?' He said, يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ ثُمَّ يَصِيرُونَ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللهِ وَرِضْوَان They will be stricken as the people, but they will end up with Allah's forgiveness and pleasure." Imam Ahmad recorded that Jarir said that the Messenger of Allah said, مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي هُمْ أَعَزُّ وَأَكْثَرُ مِمَّنْ يَعْمَلُونَ ثُمَّ لَمْ يُغَيِّرُوهُ إِلاَّ عَمَّهُمُ اللهُ بِعِقَاب Every people among whom sins are being committed, while they are mightier and more numerous than those who do wrong, yet they did nothing to stop them, then Allah will surround them all with punishment. Ibn Majah collected this Hadith.

برائیوں سے نہ روکنا عذاب الٰہی کا سبب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے کہ اس امتحان اور اس محنت اور فتنے کا خوف رکھو جو گنہگاروں بدکاروں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ اس بلاء کی وبا عام ہوگی ۔ حضرت زبیر سے لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ تمہیں کونسی چیز لائی ہے؟ تم نے مقتول خلیفہ کو دھوکہ دیا پھر اس کے خون کے بدلے کی جستجو میں تم آئے اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس آیت ( واتقوا الخ ) ، کو پڑھتے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے اہل ہیں یہاں تک کہ یہ واقعات رونما ہوئے اور روایت میں ہے کہ عہد نبوی میں ہی ہم اس آیت سے ڈرا دئے گئے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے ساتھ مخصوص کر دیئے گئے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ آیت خاصتاً اہل بدر کے بارے میں اتری ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپس میں خوب لڑے بھڑے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے خاص اصحاب رسول ہیں ۔ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرما رہا کہ وہ آپس میں کسی خلاف شرع کام کو باقی اور جاری نہ رہنے دیں ۔ ورنہ اللہ کے عام عذاب میں سب پکڑ لئے جائیں گے ۔ یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے مجاہد کہتے ہیں یہ حکم تمہارے لئے بھی ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص فتنے میں مشغول ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں پس تم میں سے جو بھی پناہ مانگے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ہر گمراہ کن فتنے سے پناہ طلب کر لیا کرے ۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس فرمان میں صحابہ اور غری صحابہ سب کو تنبیہ ہے گو خطاب انہی سے ہے اسی پر دلالت ان احادیث کی ہے جو فتنے سے ڈرانے کیلئے ہیں گو ان کے بیان میں ائمہ کرام کی مستقل تصانیف ہیں لیکن بعض مخصوص حدیثیں ہم یہاں بھی وارد کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فرمائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے ( مسند احمد ) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے ۔ اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا ۔ ( مسند احمد ) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہو جاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا ( مسند ) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے ، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا ۔ نیچے والے پانی لینے کے لئے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے اور یہ بھی ( بخاری ) ایک اور حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا ۔ حضرت ام سلمہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضامندی ملے گی ( مسند احمد ) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہوگا سزا میں سب شامل رہیں گے ( مسند و ابو داؤد وغیرہ ) اور روایت میں ہے کہ کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس بڑائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ نے فرمایا عذاب عام ہوگا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] برائی کو روکنا ہر ایک پر واجب ہے :۔ اس آیت میں اجتماعی زندگی کے فتنہ سے بچاؤ اور نھی عن المنکر کے فریضہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی معاشرہ میں اللہ کے رسول کی نافرمانی یا کوئی برائی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس کا بروقت نوٹس نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برائی معاشرہ میں پھیل جاتی ہے تو اس برائی کی پاداش میں اللہ کی طرف سے جو عذاب آئے گا وہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ممکن نہ رہے گا کہ جو لوگ یہ برائی کا کام نہیں کرتے تھے وہ بچ جائیں۔ کیونکہ ان لوگوں کا جرم یہ ہوتا ہے کہ جب وہ برائی پیدا ہوئی یا بڑھنے لگی تھی تو اس وقت انہوں نے اسے روکنے میں غفلت کیوں کی تھی، اگر وہ روکتے تو سب لوگ عذاب سے بچ سکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : ” فِتْنَةً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ” عظیم فتنہ “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر ہمہ گیر عذاب بھیج دیتا ہے۔ (ابن کثیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعا کرو گے مگر وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍ ٣٨٨، ٣٨٩، ح : ٢٣٣٠١، عن حذیفۃ بن یمان (رض) وحسنہ شعیب أرنؤوط ] اصحاب سبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے والوں کا قصہ اس کی ایک مثال ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٦٤ تا ١٦٧) ۔ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ : مطلب یہ ہے کہ حکم کی بجا آوری میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے، دم بدم مشکل میں پڑتا ہے، دوسرے نیک لوگوں کے عمل میں سستی اختیار کرنے سے گنہگار بالکل ہی عمل چھوڑ بیٹھیں گے، تو رسم بد پھیلے گی، اس کا وبال سب پر پڑے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After having described some details of the battle of Badr and Divine blessings conferred on Muslims therein, the Holy Qur&an has offered words of good counsel to Muslims as based on the outcome of the Battle. This presentation begins from: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ (0 those who believe, respond to Allah and His Messenger - 8:24). The verses cited immediately above appear in continuation to the same. Out of these, the first verse (25) carries an instruction to stay safe from a sin particularly, a sin the severe punishment of which does not remain restricted to only those who commit sins in a society. In fact, people who have committed no sin also get afflicted by it. Which sin is that? The answers given by commentators vary. Some say: This sin is the forsaking of the struggle to Bid the Fair and Forbid the Unfair (amr bi&l-ma` ruf and nahy&l-munkar). Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said: Allah Ta` ala has commanded Mus¬lims that they should not allow any crime or sin to take roots in their social environment because, if they failed to do so, that is, did not forbid it despite seeing such crimes and sins and despite having the abili¬ty or capacity to stop it or to forbid it, then, Allah Ta` ala will universal¬ize His punishment for all of them which will spare neither the sinners nor the sinless. The sinless mentioned here are people who are no accomplices of sinners in their initial sin, but they have certainly committed the sin of avoiding or abandoning the Divinely ordained duty of Bidding the Fair. Therefore, let there be no doubt here about the statement made. For example, here it is not valid to say that the passing on of the pun¬ishment of a sin committed by someone else to another person is injus¬tice and that it is contrary to the Qur&anic injunction: لَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ (No bearer of burden shall bear the burden of another person - 35:18) - because, here the sinners have been seized for the initial sin they themselves had committed while the sinless were seized for the sin of hav¬ing abandoned the obligation of Bidding the Fair. Thus, no one&s sin was placed on the shoulders of someone else. According to a narration of Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) and Sayyidah ` A&ishah (رض) appearing in Sharh al-Sunnah and Ma’ alim of Imam al-Baghawi, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said : Allah Ta` ala does not subject common people with the punishment of some sin committed by a particular group among them - unless, there emerges a situation in which they see sin being committed around them and have the ability to stop it as well, yet, if they did not stop it, then, at that time, the punishment from Al¬lah surrounds all of them. Also reported authentically in Tirmidhi, Abu Dawud and elsewhere is that Sayyidna Abu Bakr (رض) said in one of his sermons: I have heard the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) say: When people see an oppres¬sor and do not step forward and hold his hand from inflicting injustice, then, the time is near that Allah Ta` ala makes His punishment fall on all of them alike. According to a narration from Sayyidna Nu` man ibn Bashir report¬ed in the Sahih of al-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Those who commit the sin of transgressing the limits set by Allah and those who ignore them knowingly or accommodate them psychophantly, that is, they do not try to stop them from that sin, are like passengers on two decks of a ship, the upper and the lower. People on the lower deck come up to procure water from the upper deck which causes dis¬comfort for people there. Keeping this in view, the people of the lower deck opt for making a hole in the bottom of the boat and get their sup-ply of water from there. Now, if the people of the upper deck see this misconduct and elect not to check and stop them from doing something like that, then, it is obvious, the water will fill into the whole boat and when the people of the lower deck will drown in it, those on the upper deck will not remain safe either, for they too will drown with the oth¬ers. It is on the basis of these narrations that many commentators have declared that the word: فِتنَہ (fitnah) in this verse refers to this very sin, that is, the forsaking of the obligation of Bidding the Fair and Forbidding the Unfair. It appears in Tafsir Mazhari that this sin means the sin of the abandonment of Jihad especially at a time when a general call for Jihad is given to common Muslims from their Amir, a call on which depends the security and defence of Islamic hallmarks. The reason is that this is a time when the curse of forsaking Jihad does not fall only on those who forsake Jihad but it also falls on the whole body of Muslims. Because Kuffar run over Muslim areas, women and children and old peo¬ple and many innocent Muslims become victims of their killing and plunder. Their lives and properties are endangered. If that be the situ¬ation, &punishment& would mean worldly distress and hardships. The factual evidence of this explanation is that those who forsake Jihad have been condemned in the previous verses as well. Previous verses, such as: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ‌ ﴿١٥﴾ (while a group from the believers were averse to it - 8:5) and: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ‌ ﴿١٥﴾|" ( O those who believe, when you face the disbelievers marching to battle, then do not turn your backs on them - 8:15) have appeared in support of this approach to the problem. The same thing happened at the battle of Badr when some Muslims wavered with their choice of suitable conduct. They left their se¬curity post on the hills and came down. When this happened, the ill ef¬fects of their action did not remain restricted to those who had made the error, in fact, they hit the entire Muslim army, so much so that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم was himself injured in this battle.

خلاصہ تفسیر اور ( جس طرح تم پر اپنی اصلاح کے متعلق اطاعت واجب ہے اسی طرح یہ بھی اطاعت واجبہ میں داخل ہے کہ بقدر وسع دوسروں کی اصلاح میں بطریق امر بالمعروف و نہی عن المنکر بالید یا باللسان ترک اختلاط یا نفرت بالقلب جو کہ آخری درجہ ہے کوشش کرو ورنہ درصورت مداہنت ان منکرات کا وبال جیسا مرتکبین منکرات پر واقع ہوگا ایسا ہی کسی درجہ میں ان مداہنت کرنے والوں پر بھی واقع ہوگا جب یہ بات ہے تو) تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں میں مرتکب ہوئے ہیں ( بلکہ ان گناہوں کو دیکھ کر جنہوں نے مداہنت کی ہے وہ بھی اس میں شریک ہوں گے اور اس سے بچنا یہی ہے کہ مداہنت مت کرو) اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں ( ان کی سزا سے خوف کرکے مداہنت سے بچو) اور ( اس غرض سے کہ نعمتوں کے یاد کرنے سے اطاعت منعم کا شوق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اور خاص کر) اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم ( ایک وقت میں یعنی قبل ہجرت عدد میں بھی) قلیل تھے ( اور قوت کے اعتبار سے بھی) سرزمین ( مکہ) میں کمزور شمار کئے جاتے تھے ( اور غایت ضعف حالت میں) اللہ تعالیٰ نے تم کو ( مدینہ میں اطمینان سے) رہنے کو جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی ( سامان سے بھی اور مردم شماری کو زیادہ کرنے سے بھی جس سے قلت اور استضعاف اور خوف اختطاف سب زائل ہوگیا) اور ( صرف یہی نہیں کہ تمہاری مصیبت ہی کو دور کردیا ہو بلکہ اعلی درجہ کی خوشحالی بھی عطا فرمائی کہ دشمنوں پر تم کو غلبہ دے کر کثرت فتوحات سے) تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم ( ان نعمتوں کا) شکر کرو ( اور بڑا شکر یہ ہے کہ اطاعت کرو) اے ایمان والوں ( ہم مخالفت اور معصیت سے اس لئے ممانعت کرتے ہیں کہ اللہ اور رسول کے تم پر کچھ حقوق ہیں جن کا نفع تمہاری ہی طرف عائد ہوتا ہے اور معصیت سے ان حقوق میں خلل پڑتا ہے جس سے واقع میں تمہارے ہی نفع میں خلل پڑتا ہے جب یہ بات ہے تو) تم اللہ اور رسول کے حقوق میں خلل مت ڈالو اور ( باعتبار انجام کے اس مضمون کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تم) اپنی قابل حفاظت چیزوں میں (کہ وہ تمہارے منافع ہیں جو اعمال پر مرتب ہوتے ہیں) خلل مت ڈالو اور تم تو ( اس کا مضر ہونا) جانتے ہو اور ( اکثر اوقات مال و اولاد کی محبت مخل اطاعت ہوجاتی ہے اس لئے تم کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ) تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے ( کہ دیکھیں کون ان کی محبت کو ترجیح دیتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دیتا ہے سو تم اس کی محبت کو ترجیح مت دینا) اور ( اگر ان کے منافع کی طرف نظر جائے تو تم) اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ( ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں) بڑا بھاری اجر ( موجود) ہے ( کہ اس کے سامنے یہ فانی منفعتیں محض ہیچ ہیں) ۔ معارف ومسائل قرآن کریم نے غزوہ بدر کی کچھ تفصیلات اور اس میں مسلمانوں پر اپنے انعامات کا ذکر فرمانے کے بعد اس سے حاصل شدہ نتائج اور پھر اس کے مناسب مسلمانوں کو کچھ پند و نصیحت کے ارشادات بیان فرمائے ہیں جن کا سلسلہ (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ سے شروع ہوا ہے۔ اسی سلسلہ کی یہ آیات ہیں جو اوپر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی آیت میں ایسے گناہ سے بچنے کی خاص طور پر ہدایت کی گئی ہے جس کا عذاب شدید صرف گناہ کرنے والوں پر محدود نہیں رہتا بلکہ ناکردہ گناہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ گناہ کو نسا ہے اس میں علماء تفسیر کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ گناہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کی جد و جہد کا ترک کردینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم و گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہنے دیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے اس کو منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گناہگار بچیں گے نہ بےگناہ۔ اور بےگناہ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اصل گناہ میں ان کے ساتھ شریک نہیں مگر امر بالمعروف کے ترک کردینے کے گناہگار وہ بھی ہیں اس لئے یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک کے گناہ کا عذاب دوسرے پر ڈالنا بےانصافی اور قرآنی فیصلہ (آیت) اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہاں گناہگار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امر بالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔ امام بغوی نے شرح السنہ اور معالم میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود و صدیقہ عائشہ (رض) یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کے گناہ کا عذاب عام لوگوں پر نہیں ڈالتے جب تک کہ ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ماحول میں گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور ان کو یہ قدرت بھی ہو کہ اس کو روک سکیں اس کے باوجود انہوں نے اس کو روکا نہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب ان سب کو گھیر لیتا ہے۔ اور ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں۔ صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قانونی حدود توڑنے والے گناہگار ہیں اور جو لوگ ان کو دیکھ کر مدہنت کرنے والے ہیں، یعنی باوجود قدرت کے ان کو گناہ سے نہیں روکتے ان دونوں طبقوں کی مشال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کے دو طبقے ہوں اور نیچے کے طبقہ والے اوپر آکر اپنی ضرورت کے لئے پانی لیتے ہوں جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کریں نیچے والے یہ دیکھ کر یہ صورت اختیار کریں کہ کشتی کے نچلے حصہ میں سوراخ کرکے اس سے اپنے لئے پانی حاصل کریں اور اوپر کے لوگ ان کی اس حرکت کو دیکھیں اور منع نہ کریں تو ظاہر ہے کہ پانی پوری کشتی میں بھر جائے گا اور جب نیچے والے غرق ہوں گے تو اوپر والے بھی ڈوبنے سے نہ بچیں گے۔ ان روایات کی بنا پر بہت سے حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا کہ اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی گناہ یعنی امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا ترک کردینا ہے۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس گناہ سے مراد ترک جہاد کا گناہ ہے خصوصا اس وقت جبکہ امیر المومنین کی طرف سے جہاد کی دعوت عام مسلمانوں کو دے دی جائے اور سلامی شعائر کی حفاظت اس پر موقوف ہو کیونکہ اس وقت ترک جہاد کا وبال صرف تارکین جہاد پر نہیں بلکہ پورے مسلمانوں پر پڑتا ہے۔ کفار کے غلبہ کے سبب عورتیں بچے بوڑھے اور بہت سے بےگناہ مسلمان قتل و غارت کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کے جان و مال خطرہ میں پڑجاتے ہیں۔ اس صورت میں عذاب سے مراد دنیوی مصائب اور تکلیفیں ہوں گی۔ اور قرینہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ پچلھی آیات میں بھی ترک جہاد کرنے والوں پر ملامت کی گئی ہے (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۔ اور (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ۔ وغیرہ آیات سابقہ اسی بیان میں آئی ہیں۔ اور غزوہ احد میں جبکہ چند مسلمانوں کو لغزش ہوئی کہ گھاٹی کی حفاظت چھوڑ کر نیچے آگئے تو اس کی مصیبت صرف غلطی کرنے والوں پر نہیں بلکہ پورے مسلم لشکر پر پڑی یہاں تک کہ خود رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معرکہ میں زخم آیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝ ٠ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٢٥ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں خص التّخصیص والاختصاص والخصوصيّة والتّخصّص : تفرّد بعض الشیء بما لا يشارکه فيه الجملة، وذلک خلاف العموم، والتّعمّم، والتّعمیم، وخُصَّان الرّجل : من يختصّه بضرب من الکرامة، والْخاصَّةُ : ضدّ العامّة، قال تعالی: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال/ 25] ، أي : بل تعمّكم، وقد خَصَّهُ بکذا يخصّه، واختصّه يختصّه، قال : يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 74] ، وخُصَاصُ البیت : فرجة، وعبّر عن الفقر الذي لم يسدّ بالخصاصة، كما عبّر عنه بالخلّة، قال : وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ [ الحشر/ 9] ، وإن شئت قلت من الخصاص، والخُصُّ : بيت من قصب أو شجر، وذلک لما يرى فيه من الخصاصة . ( خ ص ص ) التخصیص والاختصاص والخصومیۃ والتخصیص کسی چیز کے بعض افرادکو دوسروں سے الگ کرکے ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنا یہ ۔ المعمو والتعمم والتعمیم کی ضد ہے ۔ خصان الرجل ۔ جن پر خصوصی نوازش کرتا ہو۔ الخاصۃ ۔ یہ عامۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال/ 25] اور اس فتنے سے ڈر و وجو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں یعنی ) بلکہ سب پر واقع ہوگا ۔ خصہ بکذا واختصہ ۔ کسی کو کسی چیز کے ساتھ مختص کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 74] جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرلیتا ہے ۔ خصاص البیت مکان میں شگاف کو کہتے ہیں ۔ اسی سے خصاصۃ اس فقر اور احتیاج کو کہتے ہیں جو ختم نہ ہوئی ہو ۔ اس قسم کے فقر کو خلۃ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ [ الحشر/ 9] اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو ۔ لہذا آپ اسے خصاص سے ماخوذ قرار دے سکتے ہیں ۔ الخص ۔ بانس یا لکڑی کا جھونپڑ اور اسے خص اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جھرکے نظر آتے ہیں ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔ عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فتنہ کا مفہوم قول باری ہے واتقوافتنۃ لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ۔ اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو) الفتنۃ کی تفسیر میں کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ اس کے معنی وہی ہیں جو اس آیت انما اموالکم والولادکم فتنۃ۔ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں) میں موجود لفظ فتنہ کے ہیں حسن کا قول ہے کہ فتنہ وبال اور آفت کو کہتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد عذاب ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ اس شادمانی کا نام ہے جس کے تحت لوگ مست ہو کر ظلم ڈھانے پر اتر آتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اندر کسی منکر اور خلاف شریعت کام کو جگہ نہ دیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب نازل کرے گا جس کی لپیٹ میں تمام لوگ آجائیں گے۔ ان ہی معنوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے سوال کیا کیا ہم ہلاک کردیئے جائیں گے جبکہ ہمارے درمیان صالحین بھی ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” ہاں ! جب برائی کی کثرت ہوجائے گی۔ “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کسی قوم کے اندر معاصی کا ارتکاب کیا جارہا ہو اور ارتکاب کرنے والوں کی اکثریت ہو لیکن وہ ان معاصی کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسا سخت عذاب نازل کرے گا جو اپنی لپیٹ میں سب کو لے لے گا “ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت کے ذریعے اس عذاب سے ڈرایا ہے جو اپنی لپیٹ میں نافرمانوں اور فرمانبرداروں سب کو لے لے گا۔ اگر فرمانبردار ان معاصی کے آگے بند نہیں باندھیں گے۔ ایک قول ہے کہ فتنہ اس لحاظ سے عام ہوگا کہ خوشحالی و شادمانی اور اس کے تحت پیدا ہونے والی برائیاں جب کسی معاشرہ کو اپنے پنجے میں جکڑ لیں گی تو اس کا نقصان ہر شخص کو لاحق ہوگا اور ہر فرد اس سے متاثر ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) اور تم لوگ ہر ایک مصیبت سے بچو جو کہ ظالم ومظلوم سب کو شامل ہوگی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج) یہ بھی قانون خداوندی ہے اور اس سے پہلے بھی اس قانون کا حوالہ دیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کسی جرم کا براہ راست ارتکاب کرنا ہی صرف جرم نہیں ہے ‘ بلکہ کسی فرض کی عدم ادائیگی کا فعل بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً ایک مسلمان ذاتی طور پر گناہوں سے بچ کر بھی رہتا ہے اور نیکی کے کاموں میں بھی حتی الوسع حصہ لیتا ہے۔ وہ صدقہ و خیرات بھی دیتا ہے اور نماز ‘ روزہ کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ تو وہ کرتا ہے مگر دوسری طرف اللہ اور اس کے دین کی نصرت ‘ اقامت دین کی جدوجہد اور اس جدوجہد میں اپنے مال اور اپنے وقت کی قربانی جیسے فرائض سے پہلو تہی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے تو ایسا شخص بھی گویا مجرم ہے اور عذاب کی صورت میں وہ اس کی لپیٹ سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لحاظ سے یہ دل دہلا دینے والی آیت ہے۔ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) ۔ اب اگلی آیت کو خصوصی طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے پڑھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. This refers to those widespread social evils whose baneful effects are not confined only to those addicted to them, but which affect even those who, although they might not be addicted to those sins, are a part of that society. For example, if filth is found at just a few places in a locality it will possibly affect only those who have not kept themselves or their houses clean. However, if it becomes widespread and no one is concerned with removing uncleanliness and maintaining sanitary conditions, then everything including water and soil will become contaminated. As a result, if epidemics break out, they will not only afflict those who were responsible for spreading filth and themselves lived in unsanitary conditions, but virtually all the residents of that locality. What is true of unsanitary conditions in a physical sense, also holds true for filth and uncleanliness in a moral sense. If immoral practices remain confined to a few people here and there but the overall moral concern of the society prevents those practices from becoming widespread and public, their harmful effects remain limited. But when the collective conscience of the society is weakened to a point whereby immoral practices are not suppressed, when people indulge in evils without any sense of shame and even go around vaunting their immoral deeds, when good people adopt a passive attitude and are content with being righteous merely in their own lives and are unconcerned with or silent about collective evils, then the entire society invites its doom. Such a society then becomes the victim of a scourge that does not distinguish between the grain and the chaff. What God's directive seeks to impress upon people is that the reformatory mission of the Prophet (peace be on him) and the cause he was inviting people to was the source of life and well-being for them both individually and collectively. People should bear in mind that if they fail to participate wholeheartedly in the task to which they were invited and remain silent spectators to rampant evils, that would invite a scourge that would embrace all. It would afflict even those individuals who neither themselves committed evils nor were instrumental in spreading them and who might in fact have been righteous in their personal conduct. This point was emphasized earlier (see al-A'raf 7: 163-6) and was illustrated by reference to the Sabbath-breakers, and constitutes the underlying Islamic philosophy for waging war for purposes of reform.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :20 س سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں ۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں ۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو ۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں ۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو اسن کے نقصانات محدود رہتے ہیں ۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے ، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اس میں نہیں رہتی ، جب اس کے درمیان برے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھا لنے اور پھیلانے لگتے ہیں ، اور جب اچھے لوگ بے عملی ( Passive attitude ) اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں ، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ۔ پس اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول جس اصلاح وہدایت کے کام کے لیے اٹھا ہے اور تمہیں جس خدمت میں ہاتھ بٹناے کے لیے بلا رہا ہے اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمہارے لیے زندگی ہے ۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جا سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے تو وہ فتنہ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی خواہ بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں ، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں ۔ یہ وہی بات ہے جس کو سورہ اعراف آیات ١٦۳ ۔ ١٦٦ میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جاچکا ہے اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اس آیت کریمہ میں ایک اور اہم حکم بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک شریعت پر عمل کرلے، اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی برائی پھیل رہی ہے تو اپنی طاقت کی حد تک اس کو روکنے کی کوشش کرے، اگر لوگ اپنے فریضے میں کوتاہی کریں اور اس برائی کا کوئی وبال آئے تو وہ وبال صرف ان لوگوں کی حد تک محدود نہیں رہے گا جو اس برائی میں براہ راست ملوث تھے ؛ بلکہ جو لوگ اس برائی کا خود تو ارتکاب نہیں کررہے تھے مگر دوسروں کو اس سے روکتے بھی نہیں تھے وہ بھی اس وبال کا شکار ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ ٢٦۔ یہ خاص لوگوں کے بدعمل کرنے کے سبب سے عام لوگوں پر بلا آجانے کا ذکر ہے جس کے خوف سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس آیت میں ڈرایا ہے تفسیر اس آیت کی اس حدیث میں ہے جس کو ابن ماجہ اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں چند صحابہ سے روایت کیا ہے حاصل ان روایتوں کا یہ ہے کہ جب کچھ لوگ کسی بستی میں بداعمالی کرنے لگیں گے اور اس بستی کے باقی لوگ ان بداعمال لوگوں کو وعظ نصیحت سے اس بداعمالی سے نہ روکیں گے تو اس طرح کی ساری بستی پر بلا آوے گی یہ حدیث سن کر لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت اس بستی میں نیک عمل کرنے والے جو لوگ تھے ان کے نیک عملوں کا کیا نتیجہ ہوا آپ نے فرمایا مرنے کے بعد ان کے عملوں کا بدلا ان کو ملے گا مگر دنیا میں تو تمام بستی پر بلا آجاوے گی اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ جس بستی میں خلاف شریعت کام ہوتے ہوں وہاں جن لوگوں کو وعظ نصیحت کی طاقت ہو وہ ہرگز وعظ نصیحت سے باز نہ رہیں کیونکہ وعظ نصیحت کے چھوڑنے سے تمام بستی پر بلا آجانے کا خوف ہے زینب بنت حجش (رض) کی اسی مضمون کی ایک حدیث مختصر طور پر صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہے جس سے باقی روایتوں کو تقویت ہوجاتی ہے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی ہجرت سے پہلے کی کمزوری کی حالت یاد دلا کر ہجرت کے بعد غیبی مدد سے ان کی حالت جو درست ہوگئی ہے اس کی شکر گذاری کا ارشاد فرمایا ہے جس سے مطلب یہ ہے کہ اس شکر گذاری کو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کی جا کر دین کی باتوں کی ایسی وعظ ونصیحت کے پیرا یہ میں ادا کرنا چاہئے تاکہ اس کی شکر گذاری کے بدلہ میں غیبی مدد روز بروز بڑھے اور اسلام کی ترقی ہو اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ جب تک مسلمان میں اس شکر گذاری کا عمل رہا اسلام کو روزبروز ترقی رہی جب سے یہ عمل اٹھ گیا اسلام کی ترقی بھی اٹھ گئی۔ صحیح بخاری ومسلم میں عمرو بن عوف (رض) انصاری کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ دستی کا کچھ خوف نہیں ہے مجھ کو تو یہ خوف ہے کہ جب ان میں حکومت دولت سب کچھ پچھلی امتوں کی طرح آجاوے اور اس کی شکر گذاری ان سے نہ ہو سکے تو اس ناشکری کے وبال میں کہیں پہلی امتوں کی طرح یہ لوگ بھی نہ پکڑے جاویں آخری آیت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے اور تاریخ خلفاء کے دیکھنے سے اس ناشکری کا اور ناشکری کے وبال کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:25) خاصۃ۔ خاص کر ۔ چن کر۔ خص سے جس کے معنی مخصوص کرنے کے ہیں۔ یہ یا تو الذین ظلموا منکم کو مخصوص کرنے کے لئے ہے یعنی ڑدو اس فتنہ سے جس کی شامت اعمال مخصوص طور پر ان ہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کا ارتکاب کیا ہو۔ (بلکہ دوسرے بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں) مراد اس سے اجتماعی فتنے ہیں مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غافل ہوجانا۔ ترک جہاد۔ میدان جہاد سے فرار وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف و نہی ان المنکر فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس ہمہ گیر عذاب بھیجے گا۔ ( ابن کثیر)6 مطلب یہ ہے کہ حکم کی بجا آوری میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے دم بدم مشکل میں پڑتا ہے۔ دوسرے نیکوں کی کاہلی سے گنہنگار بالکل چھوڑ بیٹھیں گے تو رسم بد پھلیے گی اس کا وبال سب پر پڑے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 25 تا 26 لغات القرآن۔ لا تصیبن۔ تمہی نہیں پہنچے گا۔ یتخطف۔ وہ اچک لے گا۔ اوی۔ اس نے ٹھکانا دیا۔ اید۔ اس نے قوت دی۔ بنصرہ۔ اپنی مدد سے ۔ تشریح : قرآن کریم میں اس بات کو بار بار ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب کسی بستی میں کوئی وبا آتی ہے تو اس کی لپیٹ میں صرف وہی لوگ نہیں آتے جنہوں نے گندگی پھیلا کر وبا کو دعوت دی ہے بلکہ وہ تمام لوگ بھی آجاتے ہیں جو اپنی انفرادی زندگی مین بہت صاف ستھرے رہے ہوں۔ اسی طرح جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اس کی زد مین نہ صرف قصور اور خطار کار پکڑے جاتے ہیں بلکہ وہ سب لوگ بھی آجاتے ہیں جو شخصی زندگی میں بڑے پاک دامن ہیں۔ اس لئے ہر صاحب ایمان پر فرض ہے کہ وہ ان گناہوں کو جو وبائے عام کی صورت اختیار کرسکتے ہیں بنیادوں پر ہی اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ ورنہ اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو اس سیلاب میں ہر کس و ناکس بہہ جائے گا۔ اس وبا اور گناہ کو جڑ پرو روکنے کی تدبیر یہ ہے تبلیغ و نصیحت کے کسی پہلو کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ تبلیغ و نصیحت انفرادی سطح سے اٹھا کر اجتماعی سطح تک بلند کی جائے۔ ایک ایسی تنظیمی اور اجتماعی کوشش اور جدوجہد جو برے لوگوں کو ان کی برائی سے روکنے اور اچھے لوگوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے میں معاون ہو پھر بھی اگر بری اور گندگی ذہنیت کے لوگ ماننے کیلئے تیار نہ ہوں تو ان کے خلاف جماعتی طور پر کسی جہا د سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ یہی بات سورة الاعراف کی آیات 123 تا 166 میں اصحاب السبیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہی گئی ہے۔ جب عذاب الٰہی آیا تو لپیٹ میں وہ بھی آگئے جو نہایت نیک اور پاکباز تھے صرف وہی لوگ بچائے گئے جنہوں نے اللہ کا دین پہنچانے کی جدوجہد کی تھی۔ پچھلی آیات میں کہا گیا ہے کہ جہاد روح حیات ہے اور ملت ہی کی زندگی سے افراد کی زندگی وابستہ ہے۔ اسی سورت میں بات کو ایک اور انداز سے دہرایا گیا ہے کہ جب سیلاب آئے گا تو وہ نیک و بد سب کو بہا کرلے جائے گا۔ اس لئے اس سیلاب کے آگے مضبوط باندھنے کی ضرورت ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبد اللہ (رض) ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اپنے حلقہ اثر میں کسی جرم اور گناہ کو جڑ نہ پکڑنے دیں ورنہ گناہ گار اور بےگناہ سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ لوگ جب کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردے (ترمذی) ۔ صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قانونی حدود توڑنے کے گناہگار ہیں اور جو لوگ قدرت کے باوجود انہیں گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز میں اوپر نیچے دو طبقے ہوں نیچے والوں نے پانی حاصل کرنے کے لئے جہاز میں سوراخ کردیا۔ اوپر والے ان کی اس حرکت کو دیکھ رہے ہوں مگر منع نہ کرتے ہوں جب جہاز ڈوبے تو اوپر والے اور نیچے والے دونوں ہی پانی میں غرق ہوجائیں گے۔ چناچہ تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ” فتنہ “ سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کردینا ہے یعنی خیر کے کاموں کو پھیلانا اور برے کاموں سے روکنے کا سلسلہ جب بند ہوجائے گا تو پھر اللہ کا عذاب ایسی بستی کی طرف متوجہ ہوجایا کرتا ہے۔ بعض مفسرین نے لفظ ” فتنہ “ سے مراد ترک جہاد لیا ہے خصوصاً اس وقت جب کہ مسلمانوں کے خلیفہ وقت نے جہاد کی عام دعوت دیدی ہو اس وقت ترک جہاد کا وبال عوام و خواص سب پر پڑے گا۔ اور قرینہ یہ ہے کہ اس کی پچھلی آیات میں بھی ترک جہاد کرنے والوں اور میدان جنگ سے بھاگنے والوں کی مذمت کی ہے۔ سورۃ الانفال میں جہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ وہ چھبتی ہوئی مثال پیش کی ہے جو سب پر ابھی بیتی ہے۔ یعنی ابھی کتنے دنوں کی بات ہے کہ تم مکہ مکرمہ میں مختسر تھے کمزور ومجبور اور بےکس تھے اور ہر وقت ڈرے سہمے رہتے تھے کہ کہیں کفار تمہیں چٹکیوں میں مسل دیں۔ لیکن اللہ کے حکم سے تم نے ہجرت کی اپنوں کو چھوڑا اور مدینہ کو اپنا ٹھکانا بنایا اس نے تمہیں ٹھکانا عطا فرمایا پھر تم نے اللہ کی راہ میں (بدر میں) جہاد کیا بےسروسامانی کے باوجود اس نے تمہیں فتح و نصرت عطا فرمائی سامان واسباب کے دروازے تم پر کھل گئے اور ساری دنیا پر تمہاری دھاک بیٹھ گئی اگر ہجرت اور جہاد نہ کرتے تو یہ سب کچھ حاصل نہ ہوتا اور دشمن تمہیں فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتا اس لئے ہجرت اور جہاد کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائو۔ شکر گزاری صرف یہی نہیں ہے کہ زبانی طو رپر ہی شکر ادا کردیا جائے بلکہ دین اسلام کی بقاء ترقی اور عظمت کے لئے اور باطل سے ٹکرانے کی مزید تیاری جاری رکھی جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ بلکہ ان گناہوں کو دیکھ کر جنہوں نے مداہنت کی ہے وہ بھی اس میں شریک ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے لاپروائی کریں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے تو پھر فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو انسان کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے۔ یعنی مسلمان اور امت کی بقا اسی وقت تک ہے۔ جب تک اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے رہیں گے۔ جب مسلمان اس کو چھوڑ دیں گے تو پھر من حیث القوم آزمائش اور فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے یہاں ڈرایا گیا ہے کہ اے مسلمانو اس آزمائش سے بچو جس میں صرف برے لوگ ہی نہیں مبتلا ہوں گے بلکہ اس آزمائش اور فتنہ کی لپیٹ میں مخلص مسلمان بھی آجائیں گے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ شدید پکڑنے والا ہے۔ قرب قیامت کا ذکر کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے قریب لوگوں سے ایمان اٹھ جائے گا اور فتنے اس طرح نازل ہوں گے جس طرح تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ان فتنوں سے ایماندار بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ مسلمانوں کو اس فتنہ سے متنبہ کرنے کے لیے پے درپے زور دار چار الفاظ بولے گئے ہیں۔ ١۔ فتنہ سے بچ جاؤ۔ ٢۔ نیک لوگ بھی اس فتنہ سے نہیں بچ سکیں گے۔ ٣۔ خبردار ہوجاؤ۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ شدیدترین عذاب والا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جب لوگ نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیں گے۔ تو پھر وہ اس فتنہ خاصہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعٰی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِہَا فَقَالَ قَاءِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمْ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِی قُلُوبِکُمْ الْوَہْنَ فَقَالَ قَاءِلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا الْوَہْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ ) [ رواہ ابو داود : کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام ] ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب لوگ تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک صحابی نے عرض کی ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے ؟ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں بلکہ تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تم اس وقت سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح ہوگے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب ودبدبہ ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں ” وہن “ ڈال دیا جائے گا۔ کسی صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! وہن کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے کراہت۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی مَکَانَہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الفتن، بَاب لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی یُغْبَطَ أَہْلُ الْقُبُورِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا تو خواہش کرے گا کاش ! میں آج اس کی جگہ ہوتا۔ “ مسائل ١۔ اجتماعی آزمائش سے نیک لوگ بھی نہیں بچ سکتے۔ ٢۔ فتنہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ پر فتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی مشکل ہوجائے گی۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی مختلف صورتیں : ١۔ ہم تمہیں کسی چیز کے خوف، بھوک، مال اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٢۔ کیا لوگوں نے تصور کرلیا ہے کہ وہ ایمان کا اقرار کریں اور انہیں آزمایا نہ جائے۔ (العنکبوت : ٢) ٣۔ یقیناً تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اہل ایمان کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ کہیں جہاد فی سبیل اللہ کے عمل کو چھوڑ نہ دیں اور اس دعوت کو چھوڑ نہ دیں جو آب حیات ہے۔ کیونکہ جہاد کا مطلب دنیا سے منکر کو مٹانا ہے ، جو سب کے لیے مضر ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ابتلا اور مصیبت فتنہ ہے۔ اور وہ سوسائٹی جو اپنے بعض نادانوں کو کسی بھی صورت میں ظلم کرنے دیتی ہے ، اور ظالموں کی راہ نہیں روکتی ان کا مقابلہ نہیں کرتی ، یہ سوسائٹی اس بات کی مستحق ہے کہ وہ پوری کی پوری فساد کی لپیٹ میں آجائے۔ یاد رہے کہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کی راہ میں رکاوت ڈالنے سے اور کوئی بڑا فساد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اسلام ایک نظام ہے جس کے تمام اجزاء ایک دوسرے کے لیے کفیل ہیں۔ یہ ایک مثبت نظام ہے اور یہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے ماننے والے افراد باہم ظلم کریں اور اس سوسائٹی میں فساد پھیلے چہ جائیکہ اس سوسائٹی میں اللہ کا مکمل دین ہی معطل ہو ، بلکہ اللہ کا اقتدار اعلیٰ ، اس کی حاکمیت اور الوہیت کا انکار ہو۔ اس کی جگہ انسانوں کی بندگی قائم ہو اور یہ سوسائٹی خاموش رہے اور پھر یہ توقع بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو فتنے اور مصیبت سے بچائے گا۔ اس لیے کہ ذاتی طور پر وہ صالح ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایسے فتنہ سے بچو جو خاص کر گناہگاروں پر واقع نہ ہوگا اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ گناہوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جو فتنہ یعنی عذاب اور و بال آتا ہے وہ صرف انہی لوگوں کو محدود نہیں رہتا جنہوں نے گناہ کیے بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے جب گناہ گاروں پر عذاب آتا ہے تو وہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان گناہوں کے مرتکب نہیں جن کی وجہ سے عذاب آیا لیکن چونکہ ان لوگوں نے گناہوں سے روکنے کا فریضہ ادا نہیں کیا اور اپنی نیکیوں میں لگے رہے اور گناہگاروں کو گناہوں سے نہیں روکا اس لیے یہ لوگ بھی مبتلائے عذاب ہوتے ہیں۔ متعدد احادیث میں اس کی تصریح وارد ہوئی ہے۔ نھی عن المنکر چھوڑنے پر وعیدیں : حضرت جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی قوم میں اگر کوئی ایسا شخص ہو جو گناہوں کے کام کرتا ہو اور وہ لوگ روکنے پر قدرت رکھتے ہوئے اسے نہ روکتے ہوں تو ان لوگوں کی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ ان پر عام عذاب بھیج دے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٧) حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گناہوں میں پڑنے والوں اور گناہ ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی ایک مثال بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ایک کشتی ہے اس میں دو طبقے ہیں، قرعہ ڈال کر آپس میں طے کرلیا کہ کون لوگ اوپر کے حصہ میں جگہ لیں اور کون لوگ نیچے والے طبقہ میں بیٹھیں، جب اپنے اپنے حصوں میں بیٹھ گئے تو جو لوگ نیچے ہیں وہ پانی لینے کے لیے اوپر جاتے ہیں، اوپر والے لوگ ان کے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں (جب نیچے والوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ ہمارے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو) انہوں نے ایک کلھاڑا لیا اور کشتی میں نیچے سوراخ کرنے لگے اوپر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور ہم اوپر جاتے ہیں تو تمہیں تکلیف ہوتی ہے (لہٰذا ہم یہیں سے پانی لے لیں گے) تو اب اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں گے (تاکہ سوراخ نہ کریں) تو ان کو بھی بچا لیں گے اور اپنی جان کو بھی بچا لیں گے۔ اور اگر ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا تو ان کو بھی ہلاک کردیں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کردیں گے۔ (رواہ البخاری ص ٣٣٩ ج ١۔ ٣٦٩ ج ٢) معلوم ہوا کہ جہاں خود نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے وہاں اس کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ کرنے والوں کو گناہ کرنے سے روکتے رہیں، اگر ایسا نہ کیا تو عذاب آنے کی صورت میں سبھی مبتلائے عذاب ہوں گے۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ فلاں شہر کو اس کے رہنے والوں سمیٹ الٹ دو ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے رب بلاشبہ ان لوگوں میں آپ کا ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کے برابر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی (کیا اس کو بھی عذاب میں شامل کردیا جائے) ؟ اللہ کا ارشاد ہوا کہ اس شہر کو اس شخص پر اور بستی والوں پر الٹ دو ۔ کیونکہ میرے بارے میں اس کے چہرہ میں کبھی تغیر نہیں آیا ١ ؂ یعنی یہ شخص زبان اور ہاتھ سے تو لوگوں کو گناہوں سے کیا روکتا اس کے چہرہ پر گناہوں کو دیکھ کر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے جب عذاب آتا ہے تو اس وقت دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے امر المعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا پھر اس سے دعا مانگو گے اور وہ قبول نہ فرمائے گا۔ (رواہ الترمذی) بعض حضرات نے اس آیت تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں اس فتنہ کا ذکر ہے جو ترک جہاد کی وجہ سے عوام و خواص سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دین اور شعائردین کی حفاظت اور عامۃ المسلمین کی حفاظت جہاد قائم رکھنے میں ہے مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے کہ جہاد کرتے ہی رہیں اگرچہ کافر حملہ آور نہ ہوں اور اگر حملہ آور ہوجائیں تو پھر کوئی گنجائش کسی کو جہاد سے پیچھے ہٹنے کی ہے ہی نہیں۔ جہاد کا سلسلہ جاری نہ رکھنے کی ہی وجہ سے دشمن کو آگے بڑھنے کی جرأت ہوتی ہے اور جب دشمن چڑھ آتے ہیں تو بچوں بوڑھوں اور عورتوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا جہاد جاری رکھا جائے اور اس سے پہلو تہی نہ کریں ورنہ عوام و خواص مصیبت میں گھر جائیں گے۔ ١ ؂ مشکوۃ المصابیح ص ٤٣٨۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی قوم جہاد چھوڑ دے گی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیج دے گا۔ (مجمع الزوائد ص ٢٨٤ ج ٥ عن الطبرانی فی الاوسط) آخر میں فرمایا (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) (اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب والا ہے) اس کا مراقبہ کریں اور گناہوں سے بچتے رہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27: زجر مع تخویف اور ایسے گناہ اور فتنہ سے بچو جس کے برے ارات نہ صرف اس کے بلا واسطہ مرتکب تک محدود رہیں بلکہ قوم کے دوسرے افراد بھی ان کی لپیٹ میں آجائیں مثلاً جہاد میں سستی اور کمزوری دکھانا اس کا خمیازہ نہ صرف مجاہدین کو بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مداہنت جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بدعات و منکرات عام ہوجائیں اور پورا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ بےادب تنہا نہ خود را دشت بد بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 اور تم اس بلا اور وبال سے ڈرتے رہو جس کا اثر صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہیں رہتا جو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ بات خوب جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ یعنی جب کوئی وبال آتا ہے تو اس میں سب ہی مبتلا ہوجاتے ہیں مجرم بھی اور مداہن بھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حکم میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے دم بدم اور وہ کام زیادہ مشکل پڑتا ہے دوسرے نیکوں کی کاہلی سے گنہگار بالکل چھوڑ دیں گے تو رسم بد پھیلے گی اور اس کا وبال سب پر پڑے گا جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جاویں پھر شکست پڑے تو دلیر بھی نہ تھام سکیں۔ 12 خلاصہ یہ … کہ خود بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور دوسروں کو بھی ترغیب و تحریص دلائو خاموش نہ رہو ورنہ عا فتنہ سے محفوظ نہ رہوگے۔