Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 30

سورة الأنفال

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۳۰﴾

And [remember, O Muhammad], when those who disbelieved plotted against you to restrain you or kill you or evict you [from Makkah]. But they plan, and Allah plans. And Allah is the best of planners.

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Makkans plot to kill the Prophet, imprison Him or expel Him from Makkah Allah reminds; وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ... And (remember) when the disbelievers plotted against you to imprison you, or to kill you, or to expel you (from your home, Makkah); they were plotting and Allah too was plotting; and Allah is the best of plotters. Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah said, لِيُثْبِتُوكَ (Liyuthbituka), means "to imprison you." As-Suddi said, "Ithbat is to confine or to shackle." Imam Muhammad bin Ishaq bin Yasar, the author of Al-Maghazi, reported from Abdullah bin Abi Najih, from Mujahid, from Ibn Abbas, "Some of the chiefs of the various tribes of Quraysh gathered in Dar An-Nadwah (their conference area) and Iblis (Shaytan) met them in the shape of an eminent old man. When they saw him, they asked, `Who are you?' He said, `An old man from Najd. I heard that you are having a meeting, and I wished to attend your meeting. You will benefit from my opinion and advice.' They said, `Agreed, come in.' He entered with them. Iblis said, `You have to think about this man (Muhammad)! By Allah, he will soon overwhelm you with his matter (religion).' One of them said, `Imprison him, restrained in chains, until he dies just like the poets before him all died, such as Zuhayr and An-Nabighah! Verily, he is a poet like they were.' The old man from Najd, the enemy of Allah, commented, `By Allah! This is not a good idea. His Lord will release him from his prison to his companions, who will liberate him from your hands. They will protect him from you and they might expel you from your land.' They said, `This old man said the truth. Therefore, seek an opinion other than this one.' Another one of them said, `Expel him from your land, so that you are free from his trouble! If he leaves your land, you will not be bothered by what he does or where he goes, as long as he is not among you to bring you troubles, he will be with someone else.' The old man from Najd replied, `By Allah! This is not a good opinion. Have you forgotten his sweet talk and eloquence, as well as, how his speech captures the hearts By Allah! This way, he will collect even more followers among Arabs, who will gather against you and attack you in your own land, expel you and kill your chiefs.' They said, `He has said the truth, by Allah! Therefore, seek an opinion other than this one.' Abu Jahl, may Allah curse him, spoke next, `By Allah! I have an idea that no one else has suggested yet, and I see no better opinion for you. Choose a strong, socially elevated young man from each tribe, and give each one of them a sharp sword. Then they would all strike Muhammad at the same time with their swords and kill him. Hence, his blood would be shed by all tribes. This way, his tribe, Banu Hashim, would realize that they cannot wage war against all of the Quraysh tribes and would be forced to agree to accept the blood money; we would have brought comfort to ourselves and stopped him from bothering us.' The old man from Najd commented, `By Allah! This man has expressed the best opinion, and I do not support any other opinion.' They quickly ended their meeting and started preparing for the implementation of this plan. Jibril came to the Prophet and commanded him not to sleep in his bed that night and conveyed to him the news of their plot. The Messenger of Allah did not sleep in his house that night, and Allah gave him permission to migrate. After the Messenger migrated to Al-Madinah, Allah revealed to him Surah Al-Anfal reminding him of His favors and the bounties He gave him, وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ And (remember) when the disbelievers plotted against you to imprison you, or to kill you, or to expel you (from Makkah); they were plotting and Allah too was plotting; and Allah is the best of plotters. Allah replied to the pagans' statement that they should await the death of the Prophet, just as the poets before him perished, as they claimed, أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ Or do they say: "He is a poet! We await for him some calamity by time!" (52:30) As-Suddi narrated a similar story. Allah next tells; ... وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ...they were plotting and Allah too was plotting, and Allah is the best of plotters. Muhammad bin Ishaq reported from Muhammad bin Jafar bin Az-Zubayr, from Urwah bin Az-Zubayr who commented on Allah's statement, "I (Allah) plotted against them with My sure planning, and I saved you (O Muhammad) from them."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کافروں نے یہی تین ارادے کئے تھے جب ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کفار کے راز اور ان کے پوشیدہ چالیں معلوم بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ تین شور یکر رہے ہیں ۔ اس نے تعجب ہو کر پوچھا کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ آپ نے فرمایا میرے پروردگر نے ، اس نے کہا آپ کا پروردگار بہترین پروردگار ہے ، تم اس کی خیر خواہی میں ہی رہنا ۔ آپ نے فرمایا میں اس کی خیر خواہی کیا کرتا وہ خو دمیری حفاظت اور بھلائی کرتا ہے ۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے لیکن اس واقعہ میں ابو طالب کا ذکر بہت غریب بلکہ منکر ہے اس لئے کہ آیت تو مدینے میں اتری ہے اور کافروں کا یہ مشورہ ہجرت کی رات تھا اور یہ واقعہ ابو طالب کی موت کے تقریباً تین سال کے بعد کا ہے ۔ اسی کی موت نے ان کی جراتیں دوبالا کر دی تھیں ، اس ہمت اور نصرت کے بعد ہی تو کافروں نے آپ کی ایذاء دہی پر کمر باندھی تھی ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے دارالندوہ میں جمع ہونے کا ارادہ کیا ۔ ملعون ابلیس انہیں ایک بہت بڑے مقطع بزرگ کی صورت میں ملا ۔ انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے کہا اہل نجد کا شیخ ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ لوگ آج ایک مشورے کی غرض سے جمع ہونے والے ہیں ، میں بھی حاضر ہوا کہ اس مجلس میں شامل ہو جاؤں اور رائے میں اور خیر خواہی میں کوئی کمی نہ کروں ۔ آخرمجلس جمع ہوئی تو اس نے کہا اس شخص کے بارے میں پورے غور و خوض سے کوئی صحیہ رائے قائم کرلو ۔ واللہ اس نے تو سب کا ناک میں دم کر دیا ہے ۔ وہ دلوں پر کیسے قبضہ کر لیتا ہے؟ کوئی نہیں جو اس کی باتوں کا بھوکوں کی طرح مشتاق نہ رہت اہو ۔ واللہ اگر تم نے اسے یہاں سے نکالا تو وہ اپنی شیریں زبانی اور آتش بیانی سے ہزارہا ساتھی پیدا کر لے گا اور پھر جو ادھر کا رخ کرے گا تو تمہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا پھر تو تمہارے شریفوں کو تہ تیغ کر کے تم سب کو یہاں سے بیک بینی و دوگوش نکال باہر کرے گا ۔ سب نے کہا شیخ جی سچ فرماتے ہیں اور کوئی رائے پیش کرو اس پر ابو جہل ملعون نے کہا ایک رائے میری سن لو ۔ میرا خیال ہے کہ تم سب کے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی ، بس یہی رائے ٹھیک ہے ، تم اس پر بےکھٹکے عمل کرو ۔ سب نے کہا چچا بیان فرما ئیے! اس نے کہا ہر قبیلے سے ایک نوجوان جری بہادر شریف مانا ہوا شخص چن لو یہ سب نوجوان ایک ساتھ اس پر حملہ کریں اور اپنی تلواروں سے اس کے ٹکڑے اڑا دیں پھر تو اس کے قبیلے کے لوگ یعنی بنی ہاشم کو یہ تو ہمت نہ ہو گی قریش کے تمام قبیلوں سے لڑیں کیونکہ ہر قبیلے کا ایک نوجوان اس کے قتل میں شریک ہو گا ۔ اس کا خون تمام قبائل قریش میں بٹا ہوا ہو گا ناچار وہ دیت لینے پر آمادہ ہو جائیں گے ، ہم اس بلا سے چھوٹ جائیں گے اور اس شخص کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اب تو شیخ تندی اجھل پڑا اور کہنے لگا اللہ جانتا ہے واللہ بس یہی ایک رائے بالکل ٹھیک ہے اس کے سوا کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی بس یہی کرو اور اس قصے کو ختم کرو اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ یہ پختہ فیصلہ کر کے یہ مجلس برخاست ہوئی ۔ وہیں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے فرمایا آج کی رات آپ اپنے گھر میں اپنے بسترے پر نہ سوئیں کافروں نے آپ کے خلاف آج میٹنگ میں یہ تجویز طے کی ہے ۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا اس رات آپ اپنے گھر اپنے بستر پر نہ لیٹے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی اور آپ کے مدینے پہنچ جانے کے بعد اس آیت میں اپنے اس احسان کا زکر فرمایا اور ان کے اس فریب کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ام یقولون شاعر الخ ، اس دن کا نام ہی یوم الزحمہ ہو گیا ۔ ان کے انہی ارادوں کا ذکر آیت وان کا دو الیستفزونک میں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں اللہ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ قریشیوں نے جمع ہو کر مکر کا ارادہ کیا ۔ جبرائیل علیہ اسللام نے آپ کو خبر کر دی اور کہا کہ آج آپ اس مکان میں نہ سوئیں جہاں سویا کرتے تھے ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنے بسترے پر اپنی سبز چادر اوڑھا کر لیٹنے کو فرمایا اور آپ باہر آئے ۔ قریش کے مختلف قبیلوں کا مقررہ جتھا آپ کے دراوزے کو گھیرے کھڑا تھا ۔ آپ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اور کنکر بھر کر ان کے سروں اور آنکھوں میں ڈال کر سورہ یاسین کی فھم لا یبصرون تک کی تلاوت کرتے ہوئے نکل گئے ۔ صحیح ابن حبان اور مستدرک ہاکم میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتی ہوئی آئیں آپ نے دریافت فرمایا کہ پیاری بیٹی کیوں رو رہی ہو؟ عرض کیا کہ ابا جی کیسے نہ روؤں یہ قریش خانہ کعبہ میں جمع ہیں لات و عزیٰ کی قسمیں کھا کر یہ طے کیا ہے کہ ہر قبیلے کے لوگ آپ کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوں اور ایک ساتھ حملہ کر کے قتل کر دیں تاکہ الزام سب پر آئے اور ایک بلوہ قرارپائے کوئی خاص شخص قاتل نہ ٹھہرے آپ نے فرمایا بیٹی پانی لاؤ پانی آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسجد حرام کی طرف چلے انہوں نے آپ کو دیکھا اور دیکھتے ہی غل مچایا کہ لو وہ آ گیا اٹھو اسی وقت ان کے سر جھک گئے ٹھوڑیاں سینے سے لگ گئیں نگاہ اونچی نہ کر سکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر ان کی طرف پھینکی اور فرمایا یہ منہالٹے ہو جائیں گے یہ چہرے برباد ہو جائیں جس شخص پر ان کنکرکیوں میں سے کوئی کنکر پڑا وہ ہی بدر والے دن کفر کی حالت میں قتل کیا گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ مکے میں رات کو مشرکوں کا مشورہ ہوا ۔ کسی نے کہا صبح کو اسے قید کر دو ، کسی نے کہا مار ڈالو ، کسی نے کہا دیس نکالا دے دو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا ۔ اس رات حضرت علی آپ کے بسترے پر سوئے اور آپ مکے سے نکل کھڑے ہوئے ۔ غار میں جا کر بیٹھے رہے ۔ مشرکین یہ سمجھ کر کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بسترے پر لیٹے ہوئے ہیں سار رات پہرہ دیتے رہے صبح سب کود کر اندر پہنچے دیکھا تو حضرت علی ہیں ساری تدبیر چوپٹ ہو گئی پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ آپ نے اپنی لا علمی ظاہر کی ۔ یہ لوگ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے اس پہاڑ تک پہنچ گئے ۔ وہاں سے پھر کوئی پتہ نہ چلا سکا ۔ پہاڑ پر چڑھ گئے ، اس غار کے پاس سے گذرے لیکن دیکھا کہ وہاں مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے کہنے لگے اگر اس میں جاتے تو یہ جالا کیسے ثابت رہ جاتا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتین اسی غار میں گذاریں ۔ پس فرماتا ہے کہ انہوں نے مکر کیا میں بھی ان سے ایسی مضبوط چال چلا کہ آج تجھے ان سے بجا کر لے ہی آیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یہ اس سازش کا تذکرہ جو روسائے مکہ نے ایک رات دار الندہ میں تیار کی تھی اور بالاخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دیکر جان چھوٹ جائے۔ 30۔ 2 چناچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سازش سے آگاہ فرمادیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کرسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١ ٣] آپ کو قید & جلاوطن یا قتل کرنے کا مشورہ :۔ جب کچھ مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں مکہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر یہ خطرہ ہمارے قابو سے نکل جائے گا۔ لہذا جیسے بھی ممکن ہو اس کا علاج فوری طور پر سوچنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے دارالندوہ میں میٹنگ کی اور شرکائے مجلس سے تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ اسے پابہ زنجیر کر کے قید کردیا جائے۔ شیطان جو خود اس میٹنگ میں انسانی صورت میں حاضر ہوا تھا کہنے لگا : یہ تجویز درست نہیں۔ کیونکہ اس کے پیروکار اس کے اس قدر جانثار ہیں کہ وہ اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی اس کو کسی نہ کسی وقت چھڑا لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا اسے یہاں سے جلاوطن کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم از کم ہم تو ہر روز کی بک بک سے نجات پاجائیں گے۔ شیطان نے کہا یہ تجویز بھی درست نہیں۔ کیونکہ اس شخص کے کلام اور بیان میں اتنا جادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہیں اس کے جانثار پیدا ہوجائیں گے۔ پھر وہ انہیں لے کر کسی وقت بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بعد میں ابو جہل بولا کہ ہم سب قبائل میں سے ایک ایک نوجوان لے لیں اور یہ سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یکبارگی حملہ کر کے اسے جان سے ہی ختم کردیں۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لامحالہ خون بہا پر فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کر حصہ رسدی ادا کردیں گے۔ یہ رائے سن کر شیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں مقرر ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب باہر نکلے تو سب یکبارگی اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیں۔ آپ کی ہجرت کا فوری سبب :۔ ادھر یہ مشورے ہو رہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ آپ کڑکتی دوپہر میں، جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں، چھپتے چھپاتے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے گھر گئے اور انہیں بتلایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے سیدنا ابو بکرصدیق (رض) پہلے ہی اس موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ چناچہ سیدنا ابو بکرصدیق (رض) کے ہمراہ چھپتے چھپاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ (اس کی تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی) اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ گھر سے نہ نکلے تو پھر وہ خود اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا علی (رض) کے سوا کوئی موجود نہیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ جا چکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اللہ نے ان کی اس پورے ہاؤس کی منظور کردہ تدبیر کو بری طرح ناکام بنادیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جب تقریباً تمام صحابہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، علی (رض) اور اکّا دکّا مسلمان مکہ میں رہ گئے تو کفار کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو وہ ہمارے لیے ایسا خطرہ ثابت ہوں گے جو ہمارے قابو سے باہر ہوگا۔ چناچہ ان کی دار الندوہ میں مجلس ہوئی، جس میں تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا خلاصہ بیان فرمایا ہے، ایک رائے یہ تھی کہ آپ کو قید کردیں اور موت تک وہاں سے نہ نکلنے دیں، اس پر یہ امکان سامنے آیا کہ ان کے ساتھی کار روائی کرکے انھیں چھڑا لیں گے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ انھیں قتل کردیا جائے، اس پر آپ کے خاندان بنو عبد مناف کے ساتھ لڑائی کا خطرہ سامنے آیا اور ایک مشورہ یہ آیا کہ ہم خود ہی انھیں مکہ سے نکال دیں، جہاں چاہیں جائیں، ہماری تو جان چھوٹے گی، اس پر یہ خطرہ سامنے آیا کہ وہ اپنے صدق و امانت، خوش خلقی اور خوش کلامی سے لوگوں کو اکٹھا کرکے تم پر حملہ آور ہوں گے۔ آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ ہر قبیلے سے ایک نوجوان لیا جائے، وہ سب رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیں، آپ جونہی باہر نکلیں وہ سب مل کر حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیں۔ بنو عبد مناف کس کس سے لڑیں گے، آخر دیت پر راضی ہوجائیں گے۔ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو ان کی سازش کی اطلاع دے دی اور یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی ہے۔ آپ اس رات اپنے بستر پر نہیں سوئے، بلکہ علی (رض) کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ کافر ساری رات انتظار میں رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خفیہ تدبیر سے کفار کی سازش کو ناکام کرکے آپ کو بحفاظت نکال لیا، اگلے دن آپ نے ابوبکر (رض) کی معیت میں ہجرت فرمائی۔ سیرت کی تمام کتابوں میں یہ قصہ مذکور ہے جس کا یہ خلاصہ قرآن مجید کے مطابق ہے۔ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہجرت کی رات علی (رض) نے اپنی جان کا سودا کیا، وہ یہ کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر اوڑھی اور آپ کی جگہ سو گئے۔ “ [ أحمد : ١؍٣٣٠، ٣٣١، ح : ٣٠٦٢۔ مستدرک حاکم : ٣؍٤، ح ٤٢٦٤۔ وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ہجرت کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٤٠) اور ” مکر “ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٥٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (30) points out to a particular reward and favour of Allah Ta` ala which has been conferred on the Holy Prophet (رض) ، the noble Companions (رض) and, in fact, on the whole world. This came to be before the Hijrah when the Holy Prophet (رض) was encircled by the disbelievers and they were planning to detain or kill him. Then, Allah Ta` ala made their unholy intentions lick dust and made it possible for the Holy Prophet (رض) to reach the city of Madinah in perfect safety. The related incident has been reported in Tafsir Ibn Kathir and Tafsir Mazhari on the authority of narrations from Muhammad ibn Ishaq, Imam Ahmad, Ibn Jarir and others. According to details of this incident, when the news about visiting residents of Madinah embracing Islam became known in Makkah, the Quraysh of Makkah started worrying about it. They thought that the matter of people becoming Muslims was something restricted to Makkah upto that point of time, an area where they held all power in their hands. But, as Islam had started spreading in Madinah, many Companions (رض) of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had migrated to that city, it went to prove that Muslims had another center in Madinah where they could assemble a fighting force against them and possibly decide to attack. Alongwith this, they also realized that this was just the beginning when only some Companions (رض) have migrated to Madinah. There was strong likelihood that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) may also go and join them. Therefore, the notable chiefs of Makkah called a special meeting for mutual consultations at Dar al-Nadwah. This place called Dar al-Nadwah was the home of Qusay ibn Kilab and was located close to al-Masjid al-Haram. These people used it as the place where they met to consult on national problems. During the Islamic period, it has been merged in al-Masjid al-Haram. It is said that the present Bab al-Ziyadat was the place known as Dar al-Nadwah. As customary, the Quraysh chiefs met at Dar al-Nadwah for this significant consultation. All known leaders from the Quraysh such as Abu Jahl, Nadhr ibn Harith, ` Utbah, Shaybah, Umaiyyah ibn Khalaf, Abu Sufyan and others participated. The agenda considered was how to confront and block the rising power of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Islam. Before this consultative meeting could be called to order, there ap¬peared Iblis, the accursed, in the guise of an aged ` Arab Shaykh. Peo¬ple on the door of Dar al-Nadwah asked: Who are you and why have you come here? The answer given was: I am a resident of Najd. I have been told that you have assembled here to discuss an important na¬tional issue. So, as a well-wisher of our people, I am here in the hope that I too may be able to tender some useful advice on the matter un¬der consideration. His plea was heard. He was called in. Then, began the process of suggestions on the subject. According to a narration reported by Su¬haili, it was suggested by Abu al-Bakhtari ibn Hisham that &he& (meaning the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) should be chained and de-tained in a house. The door should be locked and he should be left there until he dies, God forbid, his own death. Hearing this, the Shaykh of Najd - Iblis, the accursed - said: This proposal is not sound for if you did that, this action is not going to remain hidden. In fact, it will be publicized far too widely. Then, you already know how good his Companions (رض) are in staking their lives for his sake. It is quite possible that these people may get together, attack you and rescue their prison¬er from your detention. This caused voices to rise from all sides which supported the view of the Shaykh of Najd as sound. After that, Abu al-Aswad proposed that &he& should be expelled out from Makkah. Let him go out of here and do whatever he wishes to do. This will make our city safe from the disorder generated by him and, when we do so, we shall be doing no fighting and killing. Hearing this, the Shaykh of Najd once again said: This proposal too is not sound. Do you not realize how soft-spoken a person he is? When people hear him talk, they are totally charmed by him. If he was left free like that, he would soon assemble a powerful group around him and attack you and defeat you. Now, it was Abu Jahl&s turn to speak. He said: None of you seems to have understood what must be really done. Here is my plan of action. I propose that we pick out one young man from each tribe out of all tribes of Arabia and arm each one of them with a lethal sword. Then, all of them, moving jointly and sud¬denly, attack and kill him. This action will at least deliver us from the problems engineered by him. Now, remains the aftermath of this killing. His tribe, Banu ` Abd Munaf, may rise with their claim of retaliation against the killing, something we are legally bound to face. So, in such a situation, when the actual killing was done, not by one single person, instead, by one person from each tribe, then, the claim of Qisas, that is, taking life for life, cannot hold good after all. What would remain valid will be only the claim for blood money or property against diyah. That we shall collect from all tribes, give it to them and be done with it. When the Shaykh of Najd, Iblis, the accursed in disguise, heard this, he said: This is it. Nothing else is going to work. The whole as¬sembly voted in his favour and it was resolved that this sinister plan would be put into action exactly the same night. What these ignorant people could not understand was the unseen power of the prophets, may they all be blessed. As a consequence, two things happened. On the one hand, Archangel Jibra&il (علیہ السلام) informed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about everything that had transpired at their meeting at Dar al-Nadwah giving him a counter-plan whereby he would not sleep in his bed that night and telling him that Allah Ta` ala has allowed him to migrate from Makkah. On the other hand, by the fall of the evening, the Quraysh young men put a cordon round the house of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When he saw this, he ordered Sayyidna ` Ali al-Murtada (رض) that he should sleep in the Prophet&s bed that night giving him the good news that the plan was though full of a danger to his life obviously, yet the enemies would not be able to harm him in any way. Happy to be at his service, Sayyidna Ali (رض) عنہ went into his bed. But, the problem was as to how the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was to get out of this siege. This difficulty was resolved by Allah Ta` ala through a miracle when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) acting under the command of Allah Ta` ala, came out with a handful of dust in one of his hands, responded to what his besiegers were saying about him, but it so happened that Allah Ta` ala turned their sights and minds away from him in a way that none of them saw him even though he passed by them throwing dust on their heads. When he was gone, some visitor asked them as to why were they standing there. They said that they were waiting for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Thereupon, the visitor told them: You must be dreaming. He has already gone from here and while going he had been throwing dust on the heads of everyone among you. They all felt their heads with their hands which confirmed the fact that everyone&s head had a deposit of dust on it. When they went into the house, Sayyidna ` Ali (رض) was lying in the bed of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but the way he was tossing and turning in the bed made it possible for the besiegers to realize that he was not Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) therefore, they did not ven¬ture to kill him. After carrying out their operation of siege right through the morning, these people went back disappointed and dis¬graced. This night and the event of Sayyidna ` Ali (رض) staking his life for the sake of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) therein is rated to be among special merits credited to Sayyidna al-Murtada (رض) . The three suggestions made to deal with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) during the consultative meeting of Quraysh chiefs have been mentioned by the Holy Qur&an in the verse: وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ (And [ remember ] when the disbelievers were plotting against you to hold you [ in detention ] or to kill you or to expel you - 30). But, Allah Ta` ala made all their plans and projections go to dust. That is why it was said towards the end: وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ (and Allah is the best of those who plot - 30). It means that Allah is the best of planners. His plan pales out all plans - as demonstrated in this case. Lexically, the Arabic word: مَکر (makr: translated as &plot& ) means restricting one&s adversary from carrying out his intention through some stratagem or plan. Then, if this action is taken for a good purpose, this type of &makr& is commendable and good - and should it be done for some evil purpose, it is blameworthy and bad. Therefore, this word can be used for man, and for Allah Ta&ala as well. But, it is used for Allah only in an environment where the context and contrast of speech does not lend to any doubt of makr which is blameworthy (Mazhari) as it is here. At this place, it is also noteworthy that the words used at the end of the verse are in the indefinite tense which denotes present and fu¬ture. It was said: وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ (And they were plotting and Allah was plotting - 30), that is, they will keep plotting to hurt believers while Al¬lah Ta&ala will keep plotting to thwart and frustrate their plots. The hint given therein is that this will continue to remain a lasting mark of disbelievers that they go about engineering designs to hurt Muslims - while, in the same way, the help and support of Allah Ta&ala shall also keep repulsing their evil designs against true believers.

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے ایک خاص انعام و احسان کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پر بلکہ پوری دنیا پر ہوا ہے۔ کہ قبل از ہجرت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے نرغہ میں تھے اور وہ آپ کے قید یا قتل کرنے کے مشورے کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلامت و عافیت مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ جس کا واقعہ تفسیر ابن کثیر اور مظہری میں بروایت محمد بن اسحاق و امام احمد و ابن جریر وغیرہ یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب مدینہ طیبہ سے آنے والے انصار کا مسلمان ہوجانا مکہ میں مشہور ہوا تو قریش مکہ کو یہ فکر دامنگیر ہوگئی کہ اب تک تو ان کا معاملہ صرف مکہ میں دائر تھا جہاں ہر طرح کی قوت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اب جب کہ مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا اور بہت سے صحابہ کرام ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو اب ان کا ایک مرکز مدینہ طیبہ قائم ہوگیا جہاں یہ ہر طرح کی قوت ہمارے خلاف جمع کرسکتے ہیں اور پھر ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اور ان کو یہ بھی احساس ہوگیا کہ اب تک تو کچھ صحابہ کرام ہی ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے ہیں اب یہ بھی قوی امکان ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہاں چلے جائیں اس لئے رؤ ساء مکہ نے مشورہ کے لئے دارالندوہ میں ایک خاص مجلس طلب کی۔ دارالند وہ مسجد حرام کے متصل قصی بن کلاب کا مکان تھا جس کو ان لوگوں نے قومی مسائل میں مشورہ اور مجلس کرنے کے لئے مخصوص کر رکھا تھا اور زمانہ اسلام میں اس کو مسجد حرام میں داخل کرلیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ باب الزیادات ہی وہ جگہ تھی جس کو دارالندوہ کہا جاتا تھا۔ حسب عادت اس مہم مشورہ کے لئے قریشی سرداروں کا اجتماع دارالندوہ میں ہوا جس میں ابوجہل، نضر بن حارث، عتبہ، امیہ بن خلف، ابو سفیان وغیرہ قریش کے تمام نمایاں اشخاص شامل ہوئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلہ کی تدبیریں زیر غور آئیں۔ ابھی مشورہ کی مجلس شروع ہی ہوئی تھی کہ ابلیس لعین ایک سن رسیدہ عربی شیخ کی صورت میں دارالندوہ کے دروازہ پر آکھڑا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم کون ہو کیوں آئے ہو۔ بتلایا کہ میں نجد کا باشندہ ہوں مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگ ایک اہم مشورہ کر رہے ہیں تو قومی ہمدردی کے پیش نظر میں بھی حاضر ہوگیا کہ ممکن ہے میں کوئی مفید مشورہ دے سکوں۔ یہ سن کر اس کو اندر بلا لیا گیا اور مشورہ شروع ہوا تو سہیلی کی روایت کے مطابق ابو البختری ابن ہشام نے یہ مشورہ پیش کیا کہ ان کو یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آہنی زنجیروں میں قید کر کے مکان کا دروازہ بند کردیا جائے اور چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ معاذ اللہ وہ آپ اپنی موت مرجائیں یہ سن کر شیخ نجدی ابلیس لعین نے کہا کہ یہ رائے صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو معاملہ چھپے گا نہیں بلکہ اس کی شہرت دور دور پہنچ جائے گی اور ان کے صحابہ اور رفقاء کے فدائیانہ کا رنامے تمہارے سامنے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ جمع ہو کر تم پر حملہ کردیں اور اپنے قیدی کو تم سے چھڑا لیں۔ سب طرف سے آوزیں اٹھیں کہ شیخ نجدی کی بات صحیح ہے اس کے بعد ابوالاسود نے یہ رائے پیش کی کہ ان کو مکہ سے نکال دیا جائے یہ باہر جاکر جو چاہیں کرتے رہیں ہمارا شہر ان کے فساد سے مامون ہوجائے گا۔ اور ہمیں کچھ جنگ وجدال بھی کرنا نہ پڑے گا۔ شیخ نجدی یہ سن کر پھر بولا کہ یہ رائے بھی صحیح نہیں، کیا تمیھیں معلوم نہیں کہ وہ کیسے شیریں کلام آدمی ہیں لوگ ان کا کلام سن کر مفتون اور مسحور ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا تو بہت جلد اپنی طاقتور جماعت بنالیں گے اور تم پر حملہ کرکے شکست دے دیں گے۔ اب ابوجہل بولا کہ جو کرنے کا کام ہے تم میں سے کسی نے نہیں سمجھا۔ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے وہ یہ کہ ہم عرب کے سب قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا ایک نوجوان لے لیں اور ہر ایک کو عمدہ کام کرنے والی تلوار دے دیں۔ یہ سب لوگ یکبارگی ان پر حملہ کرکے قتل کردیں۔ ہم ان کے فساد سے تو اس طرح نجات حاصل کرلیں۔ اب رہا ان کے قبیلہ بنو عبد مناف کا مطالبہ جو ان کے قتل کا سبب ہم پر عائد ہوگا سو ایسی صورت میں جب کہ قتل کسی ایک نے نہیں بلکہ ہر قبیلہ کے ایک ایک شخص نے کیا ہے تو قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینے کا مطالبہ تو باقی نہیں رہ سکتا۔ صرف خون بہا یا دیت کے مال کا مطالبہ رہ جائے گا وہ ہم سب قبیلوں سے جمع کرکے ان کو دے دیں گے اور بےفکر ہوجائیں گے۔ شیخ نجدی ابلیس لعین نے یہ سن کر کہا کہ بس رائے یہی ہے اور اس کے سوا کوئی چیز کارگر نہیں۔ پوری مجلس نے اسی کے حق میں رائے دے دی اور آج ہی رات میں اپنا یہ ناپاک عزم پورا کرنے کا تہیہ کرلیا گیا۔ مگر انبیاء (علیہم السلام) کی غیبی طاقت کو یہ جاہل کیا سمجھ سکتے تھے۔ اس طرف جبرئیل امین نے ان کے دارالمشورہ کی ساری کیفیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کرکے یہ تدبیر بتلائی کہ آج رات میں آپ اپنے بسترے پر آرام نہ کریں اور بتلایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ادھر مشورہ کے مطابق شام ہی سے قریشی نوجوانوں نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھا تو حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کو حکم دیا کہ آج کی رات وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بسترے پر آرام کریں اور یہ خوشخبری سنا دی کہ اگرچہ بظاہر اس میں آپ کی جان کا خطرہ ہے مگر دشمن آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ حضرت علی مرتضی نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا اور آپ کے بستر پر لیٹ گئے مگر اب مشکل یہ درپیش تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس محاصرہ سے کیسے نکلیں۔ اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے ذریعہ حل کیا وہ یہ کہ بامر الہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مٹھی میں مٹی بھر کر باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے جو کچھ آپ کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اس کا جواب دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی نظروں اور فکروں کو آپ کی طرف سے پھیر دیا کہ کسی نے آپ کو نہ دیکھا حالانکہ آپ ان میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے نکلے چلے گئے۔ آپ کے تشریف لے جا نے کے بعد کسی آنے والے نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو تو انہوں نے بتلایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتظار میں۔ اس نے کہا کہ تم کس خام خیالی میں ہو وہ تو یہاں سے نکل کر جا بھی چکے ہیں اور تم میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا تو اس کی تصدیق ہوئی کہ ہر ایک کے سر پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے مگر محاصرہ کرنے والوں نے ان کے کروٹیں بدلنے سے پہچان لیا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں اس لئے قتل پر اقدام نہیں کیا۔ صبح تک محاصرہ کرنے کے بعد یہ لوگ خائب و خاسر ہو کر واپس ہوگئے۔ یہ رات اور اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا حضرت علی مرتضی کے خاص فضائل میں سے ہے۔ قریشی سرداروں کے مشورہ میں جو تین رائیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش کی گئی تھیں ان تینوں کو قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر فرمایا (آیت) وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۔ یعنی وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب کہ کفار آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کریں یا قتل کردیں یا شہر بدر کردیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سب تدبیریں خاک میں ملادیں۔ اسی لئے آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہتر تدبیر کرنے والے ہیں۔ جو ساری تدبیروں پر غالب آجاتی ہے جیسا کہ اس واقعہ میں مشاہدہ ہوا۔ لفظ مکر کے معنی عربی لغت میں یہ ہیں کہ کسی حیلہ و تدبیر کے ذریعہ اپنے مقابل شخص کو اس کے ارادہ سے روک دیا جائے۔ پھر اگر یہ کام کسی نیک مقصد سے کیا جائے تو یہ مکر محمود اور اچھا ہے اور کسی برے مقصد سے کیا جائے تو مذموم اور برا ہے اس لئے یہ لفظ انسان کے لئے بھی بولا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے صرف ایسے ماحول میں استعمال ہوتا ہے جہاں کلام کے سیاق اور تقابل کے ذریعہ مکر مذموم کا شبہ نہ ہوسکے ( مظہر ی) جیسے یہاں ہے۔ اس جگہ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آخر آیت میں جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ بصیغہ مضارع ہیں جو حال و استقبال کے معنی پر دلالت کرتا ہے ارشاد فرمایا (آیت) وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ یعنی وہ اہل ایمان کی ایذا رسانی کی تدبیریں کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیروں کے ناکام کرنے کی تدبیر کرتے رہیں گے اس میں اشارہ ہے کہ کفار کا یہ دائمی شعار رہے گا کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کریں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد بھی ہمشہ ہی سچے مسلمانوں سے ان کی تدبیروں کو دفع کرتی رہے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ۝ ٠ ۭ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۝ ٣٠ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) اور جب دارالندوہ میں ابوجہل اور اس کی جماعت کے لوگ آپ کے بارے میں بڑی بڑی تدبیریں سوچ رہے تھے تو عمرو بن ہشام کہنے لگا کہ آپ کو قید کرلیں اور ابوجہل بن ہشام کا مشورہ یہ تھا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں اور ابو البختری بن ہشام کی رائے تھی کہ آپ کو جلاوطن کردیں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ کو قتل کرنے اور ایذا پہنچانے کے بارے میں اپنی منصوبہ بندی کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ بدر کے روز ان لوگوں کے قتل اور نیست ونابود ہوجانے کی سکیم فرما رہے تھے اور سب سے زیادہ اچھی سکیم اور تدبیر کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” واذ یمکربک الذین “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش کی ایک جماعت اور ہر ایک قبیلہ کے شرفا دار الندوہ میں جانے کے لیے جمع ہوئے، راستہ میں ان کو شیطان ایک بہت بوڑھے شخص کی شکل میں ملا، جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو دریافت کیا کہ تو کون ہے ؟ شیطان بولا کہ میں اہل نجد کا ایک شیخ ہوں، میں نے سنا کہ تم سب لوگ جمع ہورہے ہو تو اس لیے میں بھی آگیا تاکہ میرے مشورہ سے تم محروم نہ ہو، چناچہ یہ ابلیس بھی ان لوگوں کے ساتھ اندر چلا گیا اور جا کر کہنے لگا کہ اچھا اس شخص یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں غور کرو تو کسی نے کہا کہ ان کو مضبوط بیڑیوں میں قید کرکے ڈال دو ، یہاں تک کہ ان پر مدت گزر جائے تو جیسا کہ پہلے شعرا زھیر اور نابغہ وغیرہ ہلاک ہوئے ہیں یہ بھی ہلاک ہوجائیں گے کیوں کہ یہ بھی ان ہی میں سے ہے۔ ان کی یہ تدبیر سن کر اللہ تعالیٰ کا دشمن نجدی بوڑھا نے کہا یہ تمہاری رائے ٹھیک نہیں کیوں کہ ان کے قید کی جگہ سے ان ساتھیوں تک کوئی سبیل نکل جائے گی، اور وہ سب ایک دم آکر ہجوم کرجائیں گے جس کی وجہ سے تمہارے ہاتھوں سے ان کو لے جائیں گے اور پھر تم سے انکی حفاظت کریں گے اور تم پر وہ اطمینان نہیں کریں گے اور انکو تمہارے شہر سے لے جائیں گے لہٰذا اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو، تو کسی نے کہا ان کو اپنے ہاں سے نکال دو اور ان سے راحت حاصل کروکیون کہ جب وہ تمہارے ہاں سے چلے جائیں گے تو انکی باتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ تو یہ نجدی بوڑھا نے کہا خدا کی قسم یہ بھی تمہاری ٹھیک رائے نہیں ہے کیا تم ان کی زبان کی مٹھاس اور سلاست بیان اور دلوں میں اتر جانے والی باتیں نہیں سنتے ہو، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا کلام عرب کے سامنے پیش کیا تو سب عرب ان کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پھر سب تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں تمہارے شہر سے نکال دیں گے، تمہارے شرفاء کو قتل کردیں گے سب نے اس رائے کو پسند کیا تو بوڑھا کہنے لگا کہ اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو تو ابوجہل کہنے لگا کہ اب میں ایسے رائے پیش کرتا ہوں جو تم میں سے ابھی تک کسی کو نہیں سوجھی اور اس کے علاوہ تم دوسرے رائے بھی پسند نہیں کرو گے، سب نے کہا وہ کیا رائے ہے ؟ ابوجہل کہنے لگا کہ ہر ایک قبیلہ سے ایک دلیر اور بہادر نوجوان کا انتخاب کرلو اور پھر ان میں سے ہر ایک نوجوان کو ایک تلوار دے دو اور اس کے بعد سب مل کر ایک ساتھ (العیاذباللہ) آپ کو قتل کردیں، اس طریقہ سے قتل کرنے میں آپ کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس قبیلہ بنی ہاشم میں پورے قریش سے مقابلہ کی قدرت ہوگی، جب بنی ہاشم یہ مشکل صورتحال دیکھیں گے تو دیت قبول کرلیں گے اور ہمیں ان سے سکون سے مل جائے گا اور ہم سے ان کی تکالیف دور ہوجائیں گی، یہ سن کر نجدی بوڑھا کہنے لگا خدا کی قسم رائے صحیح ہے، اس سے بہتر اور کوئی رائے نہیں ہوسکتی، چناچہ سب اس رائے پر متفق ہو کر چلے گئے۔ دوسری طرف جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ جس بستر پر آپ رات کو آرام فرماتے ہیں، آج اس پر آرام نہ فرمائیں اور آپ کی قوم کے مکر سے آپ کو خبردار کیا گیا۔ لہذا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات اپنے گھر میں آرام نہیں کیا اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا لہٰذا چناچہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ پر یہ آیات اتریں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے اس انعام کو جو آپ پر فرما دیا تھا یاد دلارہا ہے یعنی اس واقعہ کا بھی ذکر کریں جب کہ کافر لوگ آپ کے متعلق تدبیریں بنا رہے تھے۔ ابن جریر (رح) نے بواسطہ عبید بن عمیر (رح) ، مطلب بن ابی وداعۃ سے روایت کیا ہے کہ ابو طالب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ کی قوم آپ کے بارے میں کیا مشورہ کررہی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ مجھے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے یا جلاوطن کرنے کی تیاری کررہی ہے، ابوطالب نے کہا کہ آپ کو اس کی کس نے خبردی آپ نے فرمایا میرے اللہ تعالیٰ نے، ابوطالب کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارا ہے ان کو نیکی کے بارے میں کہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کو وصیت کروں بلکہ وہ مجھے وصیت فرماتے ہیں، اس پر یہ آیت اتری کہ اس واقعہ کو بھی یاد کیجیے (الخ) ۔ حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ ابوطالب کا اس میں ذکر غریب بلکہ منکر ہے کیوں کہ یہ واقعہ ہجرت کی رات کو پیش آیا ہے اور ہجرت ابوطالب کے فوت ہونے کے تین سال بعد ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کردیں یا قتل کردیں یا (مکہ سے) نکال دیں۔ یہ ان سازشوں کا ذکر ہے جو قریش مکہ ہجرت سے پہلے کے زمانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کر رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ان کے باقی تمام حربے ناکام ہوگئے تو وہ (نعوذ باللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے درپے ہوگئے اور اس بارے میں سنجیدگی سے صلاح مشورے کرنے لگے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. Apprehending the Prophet's migration to Madina, the Quraysh convened a high-level council attended by all the tribal chiefs at Dar al-Nadwah (Council House) to decide on a decisive course of action against the Prophet (peace be on him). They realized that once the Prophet (peace be on him) left Makka, he would be beyond their reach, rendering them helpless in face of a formidable threat. A group of them was of the view that the Prophet (peace be on him) should be imprisoned for life and kept in chains. This proposal was, however, turned down on the ground that the Prophet's detention would not deter his followers from preaching Islam and that they would seize the first opportunity to release the Prophet (peace be on him) even at the risk to their own lives. Another group suggested that the Prophet (peace be on him) should be exiled, for this would remove the mischief and subversion far from Makka, and it would not matter where he spent his days nor what he did, for Makka would be immune from his influence. This proposal, too, was discarded for fear of the Prophet's persuasiveness and eloquence, and his ability to win the hearts of the people of other tribes and thus pose a greater threat in the future. Finally, Abu Jahl suggested that a band of young men drawn from all the different clans of the Quraysh should jointly pounce upon the Prophet (peace be on him) and kill him. In such a case the responsibility for his blood would rest upon all the clans of the Quray'sh. It would thus become impossible for 'Abd Manaf, the Prophet's clan. to take revenge on any one particular clan. Such a move would compel the Prophet's relatives to drop their claims for retaliation and force them to settle for blood-money. Accordingly, the young men charged with the execution of this plan were selected, and were advised of the exact place and time at which they were expected to carry out the crime. Not only that, the would-be assassins did indeed arrive at the appointed place at the appointed time. However, before they could harm him the Prophet (peace be on him) managed to escape safely. The Ouraysh plot was thus frustrated at the eleventh hour. (See Ibn Hisham, vol. 1, pp. 480-2. See also Ibn Kathir's comments on the verse - Ed.)

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :25 یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ چلے جائیں گے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے اکہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دارالنَّدوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّ باب کس طرح کیا جا ئے ۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے ۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے ۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو ۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے ، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا ۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے ، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے ، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہوگا ۔ آخر کار ابوجہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں ۔ اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خون بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے ۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا ، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا ، حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا ، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: یہ آیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ کررہی ہے، کفار مکہ نے جب یہ دیکھا کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور مدینہ منورہ میں بڑی تعداد مسلمان ہوچکی ہے، تو انہوں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی اس میں مختلف تجویزیں پیش کی گئیں، یہ آیت ان تمام تجویزوں کا ذکر کررہی ہے، یعنی گرفتاری، قتل، اور جلا وطنی، آخر میں فیصلہ یہ ہوا تھا کہ مختلف قبیلوں سے ایک ایک نوجوان لے کر سب یکبارگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوں، اللہ تعالیٰ نے یہ ساری باتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے بتادیں اور ہجرت کا حکم دے دیا، آپ کے گھر کا محاصرہ ہوچکا تھا، مگر آپ وہاں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اس طرح نکل آئے کہ وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، تفصیلی واقعہ سیرت کی کتابوں میں موجود ہے اور معارف القرآن میں بھی اس آیت کے تحت بیان ہوا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ مسند امام احمد بن حنبل تفسیر کلبی ‘ مغازی محمد بن اسحاق اور تفسیر ابن بی حاتم میں جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کہ مکہ میں دارالندوہ ایک مشورہ کی جگہ قریش نے قرار دے رکھی تھی وہاں ایک جماعت قریش نے ایک بڈھے سے پوچھا تو کون شخص ہے بڈھے نے کہا خدا کی طرف کا رہنے والا میں ایک شخص ہوں میں نے سنا تھا کہ تم لوگ ایک مشورہ کی غرض سے آج جمع ہوئے ہو اس لئے میں نے چاہا کہ میں بھی اس مشورہ میں شریک ہو کر تمہارا مشورہ سنوں اور جو کچھ میری رائے ہو وہ میں بھی تمہارے سامنے ظاہر کروں اس جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اچھا کیا مضائقہ ہے آؤ تم بھی مشورہ میں شریک ہوجاؤ حقیقت میں وہ شیطان تھا جو ایک بوڑھے کی صورت میں آیا تھا غرض مشورہ شروع ہوا اور ایک شخص نے کہا اس شخص کو قید میں رکھنا چاہئے بڈھے نے اس رائے کو ناپسند کیا اور کہا ہے اس شخص کے ساتھی قید میں سے ضرور چھوڑا لے جاویں گے ایک شخص نے کہا اپنی بستی سے اس شخص کو نکال دینا چاہئے بڈھے نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا کہ وہ شخص بڑا فیصح ہے باہر کے لوگوں کو اپنا حامی بنالیویگا اور ” لوگ تمہاری بستی پر چڑھائی کر کے تمہاری بستی کو چھین لیویں گے بڈھے ملعون نے بہر حال اس کو پسند کیا اور مشورہ کی مجلس برخاست ہوئی اتنے میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تشریف لائے اور جس جگہ ہمیشہ آپ سویا کرتے تھے وہاں کے سونے سے آپ کو منع کیا اور اس سارے مشورہ کی خبردی اور کا حکم دیا اور حضرت علی (رض) آنحضرت کی چادراوڑھ کر آنحضرت کی جگہ سوئے اور آنحضرت ثور پہاڑ کے غار میں چلے گئے اور کفار نے بجائے آنحضرت کے حضرت علی (رض) کو دیکھا تو حضرت علی (رض) سے آنحضرت کو پوچھا حضرت علی (رض) کہا مجھ کو معلوم نہیں کفار آنحضرت کی تلاش میں نکلے اور ثور پہاڑ چڑھے وہاں غار کو دیکھا تو اس پر اللہ کے حکم سے مکڑی نے جالا بن دیا تھا اس واسطے کفارنے سوچا کہ اگر اس غار میں جاتے تو مکڑی کا جالا کیوں کر قائم رہتا غرض کفار ڈھونڈ ڈھانڈ کر خالی واپس آئے اور آپ تین راتیں اسی غار میں رہے اور پھر مدینہ کو تشریف لے گئے غار میں رہنے کا اور مدینہ کے سفر کا ذکر آگے آویگا یہاں اسی قدر ذکر ہے کہ کفار نے مشورہ کر کے آنحضرت کے ساتھ مکرجو کرنا چاہا تھا اس کے تذکرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اس قصہ میں ابوطالب کا ذکر بعض مفسرین نے جو کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے اس واسطے کہ یہ قصہ ہجرت کی رات کا ہے اور ابوطالب کا انتقال اس سے تین برس پہلے ہوچکا ہے۔ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک راوی عثمان بن عمر وجوزی ہے جس کو بعضے علماء نے ضعیف ٹھہرایا ہے لیکن ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔ یہ ابن حبان نسائی کے شاگردوں اور حاکم کے استاد ہیں اور ان کی تصنیفات معتبر ہیں حاکم کہا کرتے تھے کہ یہ ابن حبان علم کا گویا ایک خزانہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر اپنے فضل کا ذکر فرما کر اس میت میں یہ جتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپن فضل سے بدر کی لڑائی میں جو اپنے رسول کی مدد کی ہے وہ مدد کچھ اسی لڑائی آنحضرت نہیں ہے کیونکہ اس لڑائی میں تو کچھ اوپر تین سو آدمی بھی اللہ کے رسول کے ساتھ تھے ہجرت سے پہلے ان مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول کو اکیلا سوتا ہوا پا کر اللہ کے رسول پر حملہ کرنا چاہا تھا اللہ تعالیٰ نے جب بھی اپنے رسول کی ایسی ہی مدد کی تھی کہ اللہ کی مدد اور حکمت کے آگے مشرکین مکہ اور سب مشرکوں کے سردار ابلیس علیہ اللعنۃ کا سارا مشورہ بیکار ہوگیا ابو سعید خدری (رض) کی جس شفاعت کی حدیث کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے اوپر گذرا اس آیت کی تفسیر میں اس کو بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کہ ملانے سے اللہ کے فضل کا حال معلوم ہوتا ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:30) لیثبتوک۔ لام تعلیل کے لئے۔ یثبتوا۔ اثبات (افعال) سے مضارع جمع مذکر غائب تاکہ تم قید کرلیں ۔ گرفتار کرلیں۔ باندھ لیں۔ یمکر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ وہ خفیہ تدبیریں کر رہے تھے۔ یا کر رہا تھا (ملاحظہ ہو 7:99)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 آیت واذکر و اذانتم قلیل الخ میں مو منوں پر انعام ذکر فرمایا تھا اب اس آیت میں آنحضرت پر اپے انعام کا ذکر کیا ہے جو یحبل لکم فر قانا کی ایک مثال ہی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مکہ میں تھے لیکن قریش کو یقین ہوگیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی عنقریب مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں اسی وقت انہوں نے اپنے دارالند وہ میں رؤسا مکہ کا ایک نمائندہ اجتماعی بلایا کہ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کسی قطعی فیصلہ پر پہنچا جاسکے اس اجتماع میں شیطان بھی ایک بوڑھے نجدی کی شکل میں شریک ہوگیا۔ کسی نے تجویز پیش کی کہ اس شخص ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیڑیا پہناکر کسی جگہ قید کردیا جائے اور مرتے دم تک رہ انہ کیا جائے لیکن اس بوڑھے نے اس تجویز کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ اس کے جو ساتھی قید سے باہر ہیں وہ برابر وقوت پکڑ تے اور اسے چھڑانے کے لیے زور لگاتے رہیں گے، دوسری تجویز یہ آئی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال باہر کیا جائے کیونکہ جب یہ ہم میں مو جود نہ ہوگا تو ہمیں اس سے کوئی بحث نہ ہوگی کہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے لیکن اس بوڑھے نے اسے بھی یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ یہ شخص جادو بیان ہے جہاں جائے گا اپنے گرد لوگوں کو جمع کرلے گا آخر کار ابو جہل نے یہ تجویز پیش کی اور اس بوڑھے نے بھی اس کی پرزور تائید کی کہ تمام قبائل میں ایک نوجوان کو منتخب کیا جائے اور پھر یہ تمام نوجوان مل کر یکبارگی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ٹوٹ پڑیں اور اس کا کام تما کردیں اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا۔ اور بنو عبد مناکو دیت قبول کرلینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا، چناچہ اس تجویز کے مطابق نو جوان منتخب کئے گئے اور وہ ایک مقررہ رات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر جمع ہوگئے کہ جو نہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر نکلیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یکبارگی حملہ کردیا جائے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکی آنکھوں میں خاک جھو نکتے ہوئے اپنے گھر سے نکل گئے اور انکی ساری خفیہ تجویز ناکام ہو کر رہ گئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معجزہ سیرت کی تمام کتابوں میں مذکور ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت عین قر ان کے مطابق ہے ( رازی، ابن کثیر)3 یعنی انہوں نے سازش کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ سازش ناکام کردی نیز معنی مکر کے لیے دیکھئے سورة آل عمران آیت 54 (رازی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 30 تا 33 لغات القرآن۔ یمکر۔ وہ تدبیر کرتا ہے۔ لیثبوک۔ تاکہ وہ تجھے قید کرلیں۔ خیر الماکرین۔ بہترین تدبیر کرنے والا۔ اساطیر۔ (اسطورۃ) ۔ پرانی کہانیاں۔ لکھی ہوئی چیز۔ اللھم۔ میرے اللہ۔ امطر۔ برسادے۔ حجارۃ۔ (حجر) ۔ پتھر۔ انت فیھم۔ تو ان میں ہے ) (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں ہیں) ۔ یستغفرون۔ وہ معافی مانگتے ہیں۔ تشریح : وہ آخری دن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرتے سے پہلے شہر مکہ میں تھے۔ اور بہت سے صحابہ کرام (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے حبشہ اور دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے کفار مکہ آثار و قرائن سے یقین کرچکے تھے کہ اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہجرت کر جانے والے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہجرت کی صورت میں ان کے سامنے کیا کیا خطرات پیش آئیں گے اس لئے آگے کی پالیس طے کرنے کے لئے کفار و مشرکین کے سرداروں میں ایک اہم اجلاس ” دار الندوہ “ میں ہوا جس میں حبشہ میں سفارتی ناکامی اور مسلمانوں کی آہستہ آہستہ ہجرت نے کچھ سوالات ہر شخص کے ذہن میں پیدا کر دئیے تھے باہمی مشورہ ہو اور اس بات پر غور کیا گیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (1) قید کردیا جائے۔ (2) ان کو قتل کردیا جائے۔ (3) یا ان کو جلا وطن کردیا جائے۔ ان تمام باتوں میں اس بات کا خطرہ تھا کہ اس قبائلی نظام میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبیلہ بنو ہاشم ان سب اقدمات پر کوئی بھی انتقامی کاروائی کرسکتا ہے۔ ابوجہل کی اس تجویز پر سب نے اتفاق کرلیا کہ سب قبیلوں سے ایک ایک نوجوان کو لے لیا جائے وہ سب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر جمع ہوں سب کے پاس تیز تلواریں ہوں اور سب مل کر بیک وقت حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کردیں اور ان کی زندگی ختم کردیں (نعوذ باللہ) ان کا خیال تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبیلہ سارے قبیلوں سے بدلہ نہ لے سکے گا اور خون بہاراضی ہوجائے گا اور اس کا ادا کرنا انتا مشکل نہیں ہے۔ سب نے اس تجویز کو نہ صر فپسند کیا بلکہ یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ اس تجویز پر آج رات ہی عمل کیا جائے۔ اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل امین نے سارا واقعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے عظیم صحابی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے فوری طور پر مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جو ذہنی طور پر پہلے سے تیار تھے اور ایک اونٹ اسی وقت کے لئے تیار کر رکھا تھا وہ خوش ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جانے پر تیار ہوگئے۔ لوگوں کی بہت سے امانتیں آپ کے پاس تھیں آپ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جانا تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ میں سو رہا ہوں۔ اور صبح کو لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کرکے خود بھی مدینہ منورہ آجانا۔ چنانچہ اسی رات تمام دشمن قبیلوں کے نوجوان تلواریں لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر جمع ہوگئے صبح کو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نہیں نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) آپ کے بسترپر ہیں پوری قوم اس ناکامی پر تڑپ کر رہ گئی اور آپ کو تلاش کرنے کے لئے صحرا میں بکھر گئی۔ آپ نے غار ثور میں تین دن قیام کیا کفار تلاش کرتے کرتے مایوس ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑی احتیاط اور خاموشی سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنی جان پر کھیل کر اور ہر طرح کے خطرات مول لے کر اللہ کی اس امانت کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔ ادھر حضرت علی (رض) لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کر رہے تھے لیکن صدیق اکبر (رض) اللہ کی امانت یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت میں جاں نثاری کا عظی نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ وہ لوگ اپنی سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور اللہ جو بہترین تدبیریں کرنے والا ہے بہترین تدبیر فرما رہا تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی اس بات کو نقل کیا ہے کہ وہ کفار کہا کرتے تھے کہ جس قرآن کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں وہ اتنا عظیم کلام نہیں ہے کہ ہم نہ کہہ سکیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں اس میں سوائے پرانے زمانے کے قصوں کے اور کیا ہے وہ قرآن کریم کو حقیر سمجھتے تھے۔ اسی طرح صاحب قرآن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو نظر انداز کرکے کہتے کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس عذاب کو ہمارے اوپر لے آئیے۔ ہمارے اوپر پتھر برسانے ہیں تو پتھر برسا دیجئے یا جو درد ناک سے درد ناک عذاب ہو وہ ہم پر لے آئیے۔ اس کا جواب حق تعالیٰ شان نے یہ دیا کہ جب تک دو صورتیں رہیں گی اس وقت تک اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو نازل نہیں کرے گا۔ جب تک (1) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے اندر موجود ہیں (2) اور جب تک لوگ توبہ و استغفار کرتے رہیں گے۔ درحقیقت ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ اے کفار مکہ تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کا وجود تمہارے اندر اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے۔ سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ اللہ تو عذاب نازل کردیتا لیکن جب تک تمہارے اندر اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور استغفار کرنے والے صحابہ کرام (رض) موجود ہیں عذاب نازل نہیں کرے گا۔ لیکن جب تم نے اپنی سازشوں سے خود ہی اس نعمت کی ناقدری کی ہے اور تم ان دونوں سے محروم ہوگئے تو اب اللہ کا عذاب آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہجرت فرمانے کے بعد مکہ میں اتنا شدید قحط پڑا کہ لوگ کتے اور بلیاں ہی نہیں بلکہ گھاس تک کھانے پر مجبور ہوگئے تھے دوسرے یہ کہ مکہ کے کفار کا زوال اس دن سے شروع ہوگیا تھا جس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تھی جس کے نتیجے میں متعدد جنگوں میں رسوا کن شکستوں نے ساری دنیا میں ان کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا تھا اور فتح کہ کے بعد وہ وقت بھی آیا جب یہ سارے مجرم شرمندگی سے سر اور آنکھیں جھکائے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی جان و مال کی بھیک مانگ رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ حالات پر تبصرہ جاری ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو مکی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے احساس دلایا گیا کہ اپنا ماضی یاد کرو جب تم کمزور اور قلیل تھے تمہیں ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا کہ تمہارا دشمن تمہیں نیست و نابود نہ کردے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہاری نصرت و حمایت کی اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے سامنے آپ کی ہجرت کا پس منظر رکھا گیا ہے۔ اے نبی ! وہ وقت یاد کیجیے جب کفار نے یہ طے کیا تھا کہ آپ کو ہمیشہ کے لیے قید و بند کردیا جائے یا آپ کو قتل کردیا جائے یا پھر جلا وطن کردیا جائے۔ جب وہ آپ کے خلاف مکر و فریب اور سازشیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک فیصلہ کر رکھا تھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی فیصلہ اور تدبیر کرنے والا نہیں ہے۔ اہل مکہ آپ کی عظیم اور پر خلوص جدوجہد سے تنگ آکر۔ دارالندوہ میں بھرپور نمائندہ اجتماع کرتے ہیں۔ جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں ہر حر بہ استعمال کیا مگر وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ان حالات میں ہمیں فیصلہ کن اور آخری قدم اٹھانا چاہیے۔ مکہ کے ایک سردار نے یہ تجویز پیش کی کہ اسے تا حیات قید رکھا جائے۔ جس کی مخالفت کرتے ہوئے دوسروں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے ساتھی اپنی جانوں پر کھیل کر اسے چھڑوا نے کی کوشش کریں گے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ اسے جلاوطن کردیا جائے اس کا جواب یہ آیا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہمارے خلاف لوگوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ آخری تجویز ابو جہل نے پیش کی کہ اسے قتل کردینا چاہیے جس کی تائید میں مجلس میں بیٹھے ہوئے عجمی شیخ کی صورت میں شیطان نے کہا کہ میں اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اسے قتل کرنے کے لیے مکہ کے تمام خاندانوں سے ایک ایک جوان لیا جائے تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان خون بہا کا مطالبہ کرے تو یہ ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد نہ ہو سکے اور ہم سب اس کی دیت دے کر اس کے خاندان سے نجات پاجائیں گے۔ چناچہ اگلی رات آپ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا گیا حسب فیصلہ انھوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ اس وقت آپ کو بذریعہ وحی اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ آپ کی سبز دھاری دار چادر لے کر چار پائی پر لیٹ جائے۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے مٹی اٹھاتے ہوئے مکان کے چاروں طرف پھینکی جو کفار کے سروں پر پڑی۔ جس سے وہ مدہوش ہوگئے اس طرح آپ اپنے گھر سے باہر نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لے کر تین دن غار ثور میں روپوش رہے بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کو کامیاب فرمایا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی دست برد سے محفوظ رہے اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ تفصیل کے لیے سیرت کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ مسائل ١۔ کفار کی ہر سازش ناکام ہوئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور تدبیر ہمیشہ غالب رہتی ہے کیونکہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : ١۔ عیسائیوں نے خفیہ تدبیر کی اللہ نے وہ تدبیر انھی پر لوٹا دی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ٥٤) ٢۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی تدبیر کی سب تدبیر اللہ ہی کے لیے ہے۔ (الرعد : ٤٢) ٣۔ انھوں نے مکرو فریب کیا جبکہ اللہ نے بھی تدبیر کی لوگ اس کی تدبیر کو نہیں سمجھتے۔ (النمل : ٥٠) ٤۔ انھوں نے سازشیں کیں اللہ کے ہاں بہتر تدبیریں ہیں۔ (ابراہیم : ٤٦) ٥۔ کیا لوگ اللہ کی تدبیر سے بےخوف ہوگئے ہیں۔ (الاعراف : ٩٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 84 ایک نظر میں اس سورة میں سلسلہ کلام آگے بڑھتا ہے۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ واقعات ماضی کی روشنی میں جاری ہے۔ امت مسلمہ کے سامنے اس عظیم فتح کی تصویر کشی کرکے بتایا جاتا ہے کہ ذرا سوچو کہ تمہارا حال تمہارے ماضی کے مقابلے میں کس قدر بدل چکا ہے۔ کس قدر عظیم انقلاب چشم زدن میں برپا کردیا گیا ہے لیکن یہ کیونکر ہوا۔۔۔ ؟ محض فضل ربی اور تدبیر الہی کے ذریعے۔ اس عظیم انقلاب کو دیکھو ! اس کے مقابلے میں اموال و غنائم کس قدر حقیر ہیں۔ نیز تم نے جو قربانیاں دیں اور جو مشقتیں اٹھائیں وہ تمہیں تو بہت بڑی نظر آتی ہوں گی مگر اب نتائج کے مقابلے میں کس قدر حقیر ہیں۔ درس سابق میں یہ بیان کردیا گیا تھا کہ مکہ میں مسلمانوں کے حالات کس قدر خراب رہتے تھے ، اس جنگ سے قبل مدینہ میں بھی تمہاری پوزیشن کچھ اچھی نہ تھی۔ تم قلیل و ضعیف تھے۔ تم ہر وقت خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ مدینہ میں آ کر تم مامومن ہوئے اور اس جنگ اور نصرت کے بعد ، محض تدبیر الہی سے تم عزیز اور مقتدر ہوگئے۔ اس سبق میں مشرکین کے موقف کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تمہارے خلاف چالیں چل رہے تھے۔ ہجرت سے قدرے پہلے اور یہ دعوے کرتے تھے کہ یہ شخص جو آیات الہی پڑھتا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام گھڑ سکتے ہیں اور وہ بغض وعناد میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ عذاب الہی کا خود مقابلہ کرنے لگے کہ اگر دعوت اسلامی حق ہے تو ہم پر عذاب آجائے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ دعوت اسلامی کی راہ روکنے کے لیے اپنی قیمتی دولت بھی فضول خرچ کر رہے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ دنیا میں ناکام ہوں گے۔ اور آخرت میں جہنم کا ایندھن ہوں گے نیز دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ کافروں سے بات کرکے ان کو یہ اختیار دیں کہ وہ دو امور میں سے ایک کو قبول کرلیں۔ یا تو وہ کفر ، عناد اور اللہ اور رسول کے خلاف صف آرائی سے باز آجائیں ، اگر وہ ایسا کریں تو اللہ ان کی سابقہ کو تاہیاں جو دور جاہلیت میں کی گئیں ان کو معاف کردے گا۔ یا وہ لوٹ کر اس حالت میں چلے جائیں جس میں وہ تھے اور اس برے انجام سے دوچار ہوں جو ہر اس شخص کو نصیب ہوا جس نے اس راہ کو اختیار کیا۔ تب ان پر اللہ کی وہی سنت جاری ہوگی جس کا اللہ ارادہ کریں اور جس میں اس کی رضا ہو۔ آخر میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ان ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ان کفار کے ساتھ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں یہاں تک کہ کفار کے ہاتھ میں ایسی قوت نہ رہے جس میں مسلمانوں کے لیے خطرہ ہو۔ اس جہاں پر اللہ کی الوہیت قائم ہوجائے اور دین پر اللہ کے لیے خالص ہوجائے۔ اگر وہ سر تسلیم خم کردیں تو حضور ان سے یہ قبول کرلیں گے۔ رہی ان کی نیت تو اس پر معاملہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ کیو کہ اللہ خبیر وبصیر ہے۔ اگر وہ روگردانی کریں ، اسلام کے خلاف یہ جنگ جاری رکھیں اور اسلام کے خلاف ان کے بغض وعناد کا یہی عالم رہے اور اللہ وحدہ کی حاکمیت کا اعتراف نہ کریں اور اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے سانے نہ جھکیں تو مسلمان کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے۔ اس میں وہ صرف اللہ پر بھروسہ کریں گے جو ان کا سرپرست ہے۔ وہ اچھا سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔ درس نمبر 84 تشریح آیات : 30 ۔۔ تا۔۔ 40 تفسیر آیت 30 ۔ وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ اب حالات مکہ معظمہ کی اسکرین پر لائے جاتے ہیں ، جبکہ حالات کے اندر وہ انقلاب برپا نہ ہوا تھا جواب ہوچکا ہے۔ اہل مکہ اپنے موقف پر سختی سے جمے ہوئے تھے مقصد یہ ہے کہ حالات بہت اچھے رخ پر جا رہے ہیں اور مستقبل تابناک ہے ، لیکن اس میں تمہارا کوئی ذاتی کمال نہیں ہے یہ تو اللہ کی تدبیر اور تقدیر کی کارستانیاں ہیں۔ دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ابتداء میں جن لوگوں کو مخاطب کیا جا رہا تھا وہ تو حالات کے ان دونوں ادوار کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ ان ادوار سے ہوکر گزرے تھے۔ ان کے لیے تو سابقہ دور ماضی قریب تھا اور اس دور میں وہ جس خوف قلق میں مبتلا تھے وہ انہیں اچھی طرح یاد تھا حال میں جو اطمینان تھا وہ ان کے سامنے تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کیا مکاریاں کی گئی تھیں اور کی جا رہی ہیں اور کس طرح وہ ان میں سے کامیاب ہوکر گزرے ہیں۔ انہوں نے مشکلات سے نجات ہی نہیں پائی بلکہ ان میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ ان کی تدبیر یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کرکے بیڑیاں پہنا دیں یہاں تک کہ وہ رحلت کر جائیں یا انہیں قتل کردیں یا آپ کو مکہ سے خارج کردیں۔ انہوں نے ان تمام تجاویز پر غور کیا تھا اور آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ آپ کو قتل ہی کردیں۔ اس کام کو تمام قبائل کے نوجوان سر انجام دیں تاکہ آپ کا کون تمام قبائل پر منقسم ہوجائے۔ بنو ہاشم آپ کا بدلہ نہ لے سکیں آخر کار دیت پر راضی ہوجائیں۔ امام احمد نے روایت کی ہے۔ عبدالرزاق سے ، معمر سے ، عثمان جریر سے ، ۔۔ مولی عباس سے ، کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ و اذ یمکر بک کی تفسیر یہ ہے کہ ایک رات قریش نے مکہ میں باہم مشورہ کیا تو بعض نے کہا کہ جب وہ صبح نکلیں تو انہیں باندھ دیں یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں۔ بعض نے کہا اسے قتل کردیا جائے ، بعض نے کہا کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دے دی گئی۔ حضرت علی رات کو آپ کے بستر پر سوئے اور حضور نکل کر غار میں چھپ گئے لیکن مشرکین رات کو حضور کی چوکی کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو وہ حملہ آور ہوئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بستر پر حضرت علی سوئے ہوئے ہیں اور اللہ نے ان کی اس تدبیر کو ان پر الٹ دیا ہے تو انہوں نے حضرت علی پوچھا کہ تمہارے صاحب کہاں ہیں تو حضرت علی نے فرمایا : ” مجھے معلوم نہیں ہے “۔ چناچہ انہوں نے آپ کی پتہ براری شروع کی اور نقش قدم پر چل پڑے۔ جب وہ پہاڑ کے پاس پہنچے تو ان سے آپ کے قدموں کے آثار خلط ملط ہوگئے۔ وہ پہاڑ پر چڑھ گئے ، غار کے اوپر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر عنکبوت نے تانا بانا بن دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہاں داخل ہوئے ہوتے تو یہاں عنکبوت کا جالا نہ ہوتا۔ چناچہ حضور نے وہاں تین راتیں گزر دیں۔ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ : ” وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا ، اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے “۔ قرآن نے ان حالات کو جن الفاظ میں بیان کیا ، وہ نہایت ہی موثر ہیں جس سے قریش کی مجلس کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے ان کی تدابیر ، تجاویز اور چالیں سامنے آتی ہیں لیکن اللہ ان پر محیط ہے۔ ان کے معاملے میں اللہ کی چالیں سامنے آتی ہیں اور ان کی وجہ سے مشرکین کی تمام چالیں خاک میں مل جاتی ہیں لیکن انہیں آخر دم تک اس کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ یہ نہایت ہی مسحور کن تصویر کشی ہے ، اور نہایت خوفناک بھی ، کیونکہ کمزور انسان قادر مطلق کے مقابلے میں کر ہی کیا سکتے ہیں۔ اللہ قہار و جبار ہے اور ہر چیز پر محیط ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو اپنے مخصوص انداز و طرز پر بیان کرتا ہے کہ اسے پڑھ کر دل لرز اٹھتے ہیں اور انسانی شعور گہرائیوں تک متاثر ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر ہجرت سے پہلے مشرکین مکہ کے مشورے اس آیت میں سفر ہجرت کا سبب اور ابتدائی واقعہ مذکور ہے معالم التنزیل (ص ٢٤٣ ج ٢) میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب مدینہ منورہ میں حضرات انصار نے اسلام قبول کرلیا تو قریش مکہ خائف ہوئے اور مشورے کے لیے دارالند وہ (پنچائیت گھر) میں جمع ہوئے تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں غور کریں کہ اب آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ اس موقعہ پر ابلیس ملعون بھی ایک بڑے میاں کی صورت میں ظاہر ہوگیا۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ تو کون ہے کہنے لگا کہ میں شیخ نجدی ہوں۔ مجھے آپ لوگوں کے جمع ہونے کا پتہ چلا تو میں نے چاہا کہ تمہارے پاس حاضر ہوجاؤں اور اپنی خیر خواہانہ رائے سے تم لوگوں کو محروم نہ کروں، ان لوگوں نے اسے اپنے مشورے میں شریک کرلیا۔ مکہ والوں میں سے جو لوگ حاضر تھے ان میں سے ایک شخص ابو البختری بن ہشام بھی تھا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی اور کہنے لگا کہ میری رائے یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی گھر میں محبوس کر کے دروازہ بند کر دو صرف تھوڑا سا روشن دان کھلا رہے جس میں سے دانہ پانی ڈالتے رہو اور اس کی موت کا انتظار کرو، جیسے اس سے پہلے دوسرے شعراء ہلاک ہوگئے یہ بھی ہلاک ہوجائے گا۔ یہ سنتے ہی شیخ نجدی ابلیس چیخ اٹھا اور اس نے کہا یہ تو بری رائے ہے۔ اگر اس پر عمل کرو گے تو اس کے ماننے والے میدان میں آجائیں گے اور تم سے جنگ کر کے تمہارے ہاتھوں سے چھڑا لیں گے۔ یہ سن کر سب کہنے لگے شیخ نجدی نے صحیح کہا یہ رائے مصلحت کے خلاف ہے۔ اس کے بعد ہشام بن عمرو نے رائے دی اور کہنے لگا کہ میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ اس شخص کو کسی اونٹ پر بٹھا کر اپنے درمیان سے نکال دو آگے کہاں جائے کیا بنے تمہیں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ جب تمہارے یہاں سے چلا گیا تو تمہیں تو آرام مل ہی جائے گا، یہ سن کر ابلیس ملعون بولا کہ یہ رائے بھی صحیح نہیں تم اس شخص کو جانتے ہو تمہیں پتہ ہے کہ اس شخص کی گفتگو کتنی شیریں ہے اور زبان میں کتنی مٹھاس ہے۔ یہ بھی جانتے ہو کہ اس کی باتیں سن کرلو گ گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ اللہ کی قسم اگر تم نے اس رائے پر عمل کیا تو باہر جا کر بہت سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر کے حملہ آور ہوگا اور تمہیں وطن سے نکال دے گا۔ یہ سن کر اہل مجلس کہنے لگے کہ شیخ نجدی نے ٹھیک کہا۔ ابو جہل کا مشورہ اور شیطان کی تائید : اس کے بعد ابو جہل بولا اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں ایک ایسی رائے دونگا کہ اس کے علاوہ کوئی رائے ہے ہی نہیں۔ میری سمجھ میں یوں آتا ہے کہ قریش کے جتنے قبیلے ہیں ہر قبیلے میں سے ایک ایک خوب تکڑا نوجوان لیا جائے اور ہر ایک کو تلوار دیدی جائے۔ پھر یہ نو جوانوں کی جماعت یکبارگی مل کر حملہ کر کے قتل کر دے۔ ایسا کرنے سے تمام قبیلوں پر ان کے خون کی ذمہ داری آجائے گی اور میرے خیال میں بنی ہاشم قصاص لینے کے لیے مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ لہٰذا دیت قبول کرلیں گے اور سارے قریش مل کر دیت ادا کردیں گے۔ یہ سن کر ابلیس بولا، اس جوان آدمی نے صحیح رائے دی ہے اور یہ شخص تم میں سب سے اچھی رائے رکھنے والا ہے۔ اس نے جو رائے دی ہے میری خیال میں بھی اس کے علاوہ کوئی رائے درست نہیں ہے۔ سب نے اسی پر اتفاق کرلیا اور مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد، اور آپ کا صحیح سالم سفر ہجرت کے لیے روانہ ہوجانا : ادھر تو یہ لوگ متفرق ہوئے اور ادھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کے مشورہ سے باخبر کردیا اور عرض کیا کہ آپ جس گھر میں رات گزارا کرتے ہیں اس میں اس رات کو نہ رہیں ساتھ ہی انہوں نے مشرکین کے مشوروں سے آپ کو باخبر کردیا۔ آپ نے حضرت علی بن ابی طالب (رض) کو اپنی جگہ رات گزارنے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس کے بعد آپ سفر ہجرت کے لیے روانہ ہوگئے اور ایک مٹھی میں مٹی بھر کر دشمنوں کی طرف پھینک دی جو ان کے سروں میں بھر گئی اور آپ (اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلٰلًا فَھِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ ) پڑھتے ہوئے روانہ ہوگئے، آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی تھے۔ دونوں حضرات راتوں رات غار ثور میں پہنچ گئے آپ نے حضرت علی (رض) کو اپنی جگہ چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ امانتیں ادا کریں جو آپ کے پاس رکھی رہتی تھیں (سچائی اور امانتداری ایسی ہی چیز ہے جو سچے اور امانتدار شخص کا لوہا خود منوا دیتی ہے، اہل مکہ آپ سے دشمنی بھی کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی اپنی امانتیں رکھنے کے لیے آپ ہی کو منتخب کر رکھا تھا) ۔ مشرکین کی نا کامی : جب آپ حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ مکہ معظمہ سے تشریف لے گئے، تو مشرکین مکہ اس خیال سے کہ صبح اٹھ کر باہر تشریف لائیں گے، صبح ہوئی تو حضرت علی (رض) کو دیکھ کر حیران رہ گئے، ارادہ تھا کہ حملہ کریں لیکن جب دیکھا کہ جسے قتل کرنا تھا وہ موجود نہیں۔ لہٰذا اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ حضرت علی (رض) سے پوچھا کہ تمہارے دوست کہاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے پتہ نہیں ؟ لہٰذا قدموں کے نشانوں پرچلتے رہے یہاں تک کہ غار ثور تک پہنچ گئے وہاں دیکھا کہ غار کے دروازہ پر مکڑی نے جالا بن رکھا ہے یہ دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئے اور کہنے لگے کہ اگر اس کے اندر گئے ہوتے تو مکڑی کا جالا غار کے دروازہ پر کیسے ہوتا ؟ آپ اس غار میں تین دن تک تشریف فرما رہے اس کے بعد مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئے آیت بالا میں جو (وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) فرمایا ہے اس میں اسی واقعہ کا بیان ہے۔ دشمن اپنی تدبیر میں فیل ہوئے اور اللہ کی تدبیر غالب آئی۔ (البدایہ والنہایہ از ص ١٧٥ تا ص ١٨١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32 یہ “ اَلْاَنْفَالُ لِلّٰهِ الخ ” کی چھٹی علت ہے۔ مشرکین مکہ کے منتخب سرداروں نے ایک دفعہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مل کر میٹنگ کی جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے اثر اور آپ کے دین کو کس طرح ختم کیا جائے۔ چناچہ اس مجلس میں کئی رائیں پیش ہوئیں کسی نے کہا آپ کو قید کردیا جائے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے آخر میں ابوجہل نے آپ کو شہید کردینے کا مشورہ دیا۔ ابلیس جو عرب کے ایک تجربہ کار اور دانا شیخ نجدی کے روپ میں اس مجلس میں موجود تھا اس نے اس رائے کی بہت تعریف کی اور آخر کار بحث و تمحیص اور سوچ بچار کے بعد سب نے ابوجہل کے مشورے کی توثیق کردی۔ اس آیت میں اسی وقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مشرکین تو آپ کے بارے میں یہ منصوبے بنا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے مکر و فریب سے بچانے کی تدبیریں کر رہا تھا۔ چناچہ جو رات انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے مقرر کی تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے پہلے ہی اس کی اطلاع دے دی، جب مشرکین نے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت آپ نے اپنی جگہ حضرت علی کو سوجانے کا حکم دیا اور فرمایا بےفکر رہنا تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گی اور خود باہر تشریف لائے اور اللہ کے حکم کے مطابق مشرکین پر مٹھی بھر مٹی پھینک دی اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی آنکھیں بند کردیں اور آپ سب کے درمیان میں سے گذر گئے اور کسی نے بھی آپ کو نہ دیکھا۔ آپ وہاں سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لے کر مدینہ روانہ ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا منصوبہ ناکام کردیا۔ “ لِيُثْبِتُوْکَ اي لیحبسوک و يربطوک بالوثوق ” یعنی آپ کو زنجیر ڈال کر باندھ دیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 اور اے پیغمبر ! آپ اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب کافر آپ کے متعلق مختلف تدبیریں سوچ رہے تھے اور باہل مل کر تدبیریں کررہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو نکال دیں اور جلا وطن کردیں اور حالت یہ تھی کہ ایک طرف وہ سازشیں کرکے اپنی چال چل رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان کے توڑ کے لئے ایک اور چال چل رہا تھا اور سب دائوں کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ بہترین دائوں کرنے والا ہے۔ یعنی اس کی تدبیر مستحکم اور مضبوط ہوتی ہے اس کی چال اور اس کے دائو کا کوئی توڑ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ فرمایا کہ جیسے اللہ نے پیغمبر کو بچالیا ہے تو تمہارے گھر بار کو بھی بچا رکھے۔ 12