Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 34

سورة الأنفال

وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۴﴾

But why should Allah not punish them while they obstruct [people] from al-Masjid al- Haram and they were not [fit to be] its guardians? Its [true] guardians are not but the righteous, but most of them do not know.

اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالٰی سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں ، جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں ۔ اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں ، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators deserved Allah's Torment after Their Atrocities Allah states that the idolators deserved the torment, but He did not torment them in honor of the Prophet residing among them. After Allah allowed the Prophet to migrate away from them, He sent His torment upon them on the day of Badr. During that battle, the chief pagans were killed, or captured. Allah also directed them to seek forgiveness for the sins, Shirk and wickedness they indulged in. If it was not for the fact that there were some weak Muslims living among the Makkan pagans, those Muslims who invoked Allah for His forgiveness, Allah would have sent down to them the torment that could never be averted. Allah did not do that on account of the weak, ill-treated, and oppressed believers living among them, as He reiterated about the day at Al-Hudaybiyyah, هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْىَ مَعْكُوفاً أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّوْمِنُونَ وَنِسَأءٌ مُّوْمِنَـتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَيُوهُمْ فَتُصِيبَكمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِى رَحْمَتِهِ مَن يَشَأءُ لَوْ تَزَيَّلُواْ لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً They are the ones who disbelieved and hindered you from Al-Masjid Al-Haram (at Makkah) and detained the sacrificial animals from reaching their place of sacrifice. Had there not been believing men and believing women whom you did not know, that you may kill them and on whose account a sin would have been committed by you without (your) knowledge, that Allah might bring into His mercy whom He wills if they (the believers and the disbelievers) had been apart, We verily, would have punished those of them who disbelieved with painful torment. (48:25) Allah said here, وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ And why should not Allah punish them while they hinder (men) from Al-Masjid Al-Haram, and they are not its guardians! None can be its guardians except those who have Taqwa, but most of them know not. Allah asks, `why would not He torment them while they are stopping Muslims from going to Al-Masjid Al-Haram, thus hindering the believers, its own people, from praying and performing Tawaf in it' Allah said, ... وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ ... And they are not its guardians. None can be its guardians except those who have Taqwa, meaning, the Prophet and his Companions are the true dwellers (or worthy maintainers) of Al-Masjid Al-Haram, not the pagans. Allah said in other Ayah, مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَـهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ أُوْلَـيِكَ حَبِطَتْ أَعْمَـلُهُمْ وَفِى النَّارِ هُمْ خَـلِدُونَ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـجِدَ اللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَوةَ وَءاتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللَّهَ فَعَسَى أُوْلَـيِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ It is not for the polytheists, to maintain the Masjids of Allah, while they witness disbelief against themselves. The works of such are in vain and in the Fire shall they abide. The Masjids of Allah shall be maintained only by those who believe in Allah and the Last Day; perform the Salah, and give the Zakah and fear none but Allah. It is they who are on true guidance. (9:17-18) and, وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ But a greater (transgression) with Allah is to prevent mankind from following the way of Allah, to disbelieve in Him, to prevent access to Al-Masjid Al-Haram (at Makkah), and to drive out its inhabitants, (2:217) Urwah, As-Suddi and Muhammad bin Ishaq said that Allah's statement, إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (None can be its guardians except those who have Taqwa), refers to Muhammad and his Companions, may Allah be pleased with them all. Mujahid explained that; this Ayah is about the Mujahidin (in Allah's cause), whomever and wherever they may be. Allah then mentioned the practice of the pagans next to Al-Masjid Al-Haram and the respect they observed in its vicinity,

ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ ، یعنی یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے ، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوٰۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیز گاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں ، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی ، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے ، تولار چلی ، چیخ اور زلزلے آئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چناچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے حالانکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، زبردستی بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب عظیم رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] تولیت کعبہ کے لئے شرائط & کفار مکہ کا بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ :۔ یعنی ان لوگوں کے عذاب کے مستحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر ان پر عذاب نہیں آ رہا تو اس کی مندرجہ بالا وجوہ ہیں اور ان کے عذاب کے مستحق ہونے کی بھی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ انہوں نے مسلمانوں پر بیت اللہ میں داخلہ پر پابندی لگا رکھی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے متولی ہیں کیونکہ ہم سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ حالانکہ متولی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے ہی روک دے۔ نیز یہ کہ تولیت کے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہو اور وہ موحد تھے۔ مشرک نہیں تھے۔ یعنی اگر اولاد ابراہیم مشرک ہے تو اس سے تولیت چھین کر اس شخص کو دی جائے گی جو موحد اور پرہیزگار ہو خواہ وہ اولاد ابراہیم سے ہو یا نہ ہو۔ کعبہ کی تولیت کے لیے شرط اول پرہیزگاری اور اللہ کا تقویٰ ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونا نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ : اس آیت میں ان کے عذاب کا مستحق ہونے کی چند وجہیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کے مسجد حرام میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ زبردستی مسجد حرام کے مالک اور متولی بنے بیٹھے ہیں، حالانکہ کعبہ کی تولیت صرف موحدین متقین کا حق ہے، مشرکین کا نہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٧، ١٨) تیسری یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی شان کے لائق اور اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کرنے کے بجائے تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر قوالی کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ اس لیے ان پر عذاب کیوں نہ آئے، عذاب آئے گا اور ضرور آئے گا۔ پچھلی آیت میں جس عذاب کی نفی کی تھی وہ تھا جس سے قوموں کا نام و نشان مٹ جاتا تھا، یعنی عذاب استیصال۔ اس آیت میں اس عذاب کا ذکر ہے جو قحط، خوف اور جنگ کی صورت میں عبرت کے لیے ان پر مسلط ہوا، دیکھیے سورة نحل (١١٢، ١١٣) ، سورة سجدہ (٢١) اور سورة دخان (١٠ تا ١٦) یہ عذاب جنگ بدر، قحط، بھوک، خوف اور آخر میں فتح مکہ کی صورت میں اہل مکہ پر مسلط ہوا۔ جس سے ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، یا قید ہوئے اور جو مرنے سے بچ گئے وہ آخر کار اسلام میں داخل ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was said in previous verses that the disbelievers of Makkah were though deserving, because of their disbelief and denial, of heavenly punishment coming down upon them, but the presence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Makkah was a prohibitive factor against the coming of a mass punishment on them. Then, after his migration to Madinah, such punishment would still not come upon them because of the weaker ones among Muslims who, while living in Makkah, kept seeking forgiveness from Allah. In the verses quoted above, it has been stated that though their due punishment was advanced till later either for the sake of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or in consideration of the weaker ones among Muslims, they should not make the mistake of thinking that they are no more deserving of punishment. The fact is that their being deserv¬ing of punishment is loud and clear. Then, other than their disbelief and denial, there are many more crimes committed by them because of which punishment should be visiting them positively. The first two verses (34, 35) list three such crimes by them. 1. Firstly, these people are themselves just not worthy of going into the Sacred Mosque and devote to acts of worship there as due - and these very people prevent Muslims who wish to go there to devote themselves to acts of worship, Salah, Tawaf etc. Here, the reference is to the event at Hudaibiyah when, in the Hijrah year 6, the Holy Proph¬et (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had reached there with his Sahabah (رض) in order to perform ` Umrah at Makkah - and the disbelievers of Makkah had prevented him from doing so and had compelled him to go back. 2. Secondly, for no sane reason, these people assume and claim that they were the custodians of the Sacred Mosque whereby they would let anyone they permit come in and not permit anyone they did not wish to come in. This thinking of theirs was a combination of two misunderstand¬ings. To begin with, they took themselves to be the custodians of the Sacred Mosque although no Kafir can become the custodian of any mosque. Then, they thought that a custodian had the right to stop anyone he wished from entering into the mosque - while, a masjid or mosque is a House of God and no one has the right to stop anyone from coming in it. Of course, exempted are particular situations in which there be the apprehension of someone desecrating the mosque or caus¬ing pain to other makers of Salah there. For example, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Shield your masjid from small children, and insane individuals, and from mutual disputations. Small children mean chil¬dren who have no sense of purity or impurity, therefore, the danger of the later is predominant. Then, the same danger of impurity as well as the danger of causing pain to those making Salah exists in the case of someone insane. As for mutual disputations, it amounts to desecration of the masjid and is also a source of causing pain to people making Sa¬lah there. In the light of the Hadith quoted above, the custodian (mutawalli ( of the masjid does have the right not to allow such small children and insane individuals into the masjid, and see to it that no one indulges in mutual disputes in the masjid - but, in the absence of such situa-tions, no custodian of a masjid has the right to stop a Muslim from coming into the masjid. In the first verse cited above, it has been considered sufficient to state that there was no way these people could be taken as custodians of the Sacred Mosque when the rule was that only God-fearing Mus¬lims could become its custodian. From here we learn that the custodi¬an of a masjid should be a practicing-observing Muslim, in faith and conduct. And there are some commentators who take the pronoun in: إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ as reverting to Allah Ta` ala which would mean: only the God-fearing can be the Awliya of Allah.& According to the Tafsir mentioned immediately above, the outcome of the verse would be that those who, despite acting contrary to Sha¬ri` ah and Sunnah, claim to be a Waliyy of Allah are liars and those who take such people to be a Waliyy of Allah are down in deception.

خلاصہ تفسیر اور ( ان موانع کے سبب عذاب خارق نازل نہ ہونے سے باکل ہی عذاب سے مطمئن نہ ہوجائیں کیونکہ جس طرح امور مذکورہ مانع عذاب ہیں اسی طرح ان کی حرکتیں مقتضی عذاب بھی ہیں پس مانع کا اثر عذاب خارق میں ظاہر ہوا اور مقتضی کا اثر نفس عذاب میں ظاہر ہوگا کہ عذاب غیر خارق ان پر نازل ہوگا چناچہ اس مقتضی کا بیان فرماتے ہیں کہ) ان کا کیا استحقاق ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ (بالکل ہی معمولی) سزا ( بھی) نہ دے حالانکہ ( ان کی یہ حرکتیں مقتضی سزا کی ہیں مثلا) وہ لوگ ( پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو) مسجد حرام ( میں جانے اور اس میں نماز پڑھنے اور اس میں طواف کرنے) سے روکتے ہیں ( جیسا حدیبیہ میں حقیقةً روکا جس کا قصہ سورة بقرہ میں گزر چکا اور زمانہ قیام مکہ میں حکمًا روکا کہ اس قدر تنگ کیا کہ ہجرت کی ضرورت ہوئی) حالانکہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی ( بننے کے بھی لائق) نہیں ( اور عابدین کو روکنا تو درکنار رہا جس کا اختیار خود متولی کو بھی نہیں ہوتا) اس کے متولی ( بننے کے لائق) تو سوا متقیوں کے ( کہ وہ اہل ایمان ہیں) اور کوئی بھی اشخاص نہیں لیکن ان میں اکثر لوگ ( اپنی نالائقی کا) علم نہیں رکھتے ( خواہ علم ہی نہ ہو یا یہ کہ جب اس علم پر عمل نہ کیا تو وہ مثل عدم علم کے ہے غرض جو سچ مچ نمازی تھے ان کو تو مسجد سے اس طرح روکا) اور ( خود مسجد کا کیسا حق ادا کیا اور اس میں کیسی اچھی نماز پڑھی جس کا بیان یہ ہے کہ) ان کی نماز خانہ کعبہ ( مذکور بعنوان مسجد حرام) کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا ( یعنی بجائے نماز کے ان کی یہ نامعقول حرکتیں ہوتی تھیں) سو ( ان حرکات کا ضرور مقتضا ہے کہ ان پر کوئی نہ کوئی عذاب گو وہ معمولی اور عادی ہو نازل کرکے ان کو خطاب کیا جائے کہ لو) اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے کفر کے سبب (جس کا ایک اثر وہ قول ہے لَوْ نَشَاۗءُ اور ایک اثر وہ قول ہے۔ اِنْ كَانَ هٰذَا الخ اور ایک اثر وہ فعل ہے۔ يَصُدُّوْنَ الخ اور ایک اثر وہ فعل ہے مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً الخ۔ چناچہ غزوات متعددہ میں یہ سزا واقع ہوئی جیسا کہ اس سورت کے رکوع دوم میں بھی ہے (آیت) ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ الخ بعد ذلک با نھم شآقآوا الخ کے یہاں تک تو ان لوگوں کے اقوال و اعمال بدنیہ کا ذکر تھا آگے ان کے اعمال مالیہ کا بیان ہے کہ) بلا شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے ( یعنی دین سے لوگوں کو) روکیں ( چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ اور مخالفت کے سامان جمع کرنے میں ظاہر ہے کہ جو خرچ ہوتا تھا اس میں یہی غرض تھی) سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو ( اسی غرض کے لئے) خرچ کرتے ہی رہیں گے ( مگر) پھر ( آخر میں جب آثار ناکامی کے محسوس ہوں گے) وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہوجائیں گے ( کہ خواہ مخواہ خرچ کیا اور) پھر ( آخر) مغلوب ( ہی) ہوجائیں گے ( جس سے حسرت ضیاع اموال کے ساتھ یہ دوسری حسرت مغلوبیت کی جمع ہوجائے گی) اور ( یہ سزا و حسرت و مغلوبیت تو ان کی دنیا میں ہے باقی آخرت کی سزا وہ الگ ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف ( لے جانے کے لئے قیامت میں) جمع کیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک ( لوگوں) کو پاک (لوگوں) سے الگ کردے ( کیونکہ جب دوزخیوں کو دوزخ کی طرف لائیں گے ظاہر ہے کہ اہل جنت ان سے علیحدہ رہ جائیں گے) اور ( ان سے الگ کرکے) ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے یعنی ان سب کو متصل کرد پھر ( متصل کرکے) ان سب کو جہنم میں ڈال دے ایسے ہی لوگ پورے خسارہ میں ہیں ( جس کا کہیں منتہی نہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ ( اپنے کفر سے) باز آجائیں گے ( اور اسلام قبول کرلیں گے) تو ان کے سارے گناہ جو ( اسلام سے) پہلے ہوچکے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے ( یہ حکم تو حالت اسلام کا ہوا) اور اگر اپنی وہی ( کفر کی عادت رکھیں گے تو ( ان کو سنا دیجئے کہ) کفار سابقین کے حق میں ( ہمارا) قانون نافذ ہوچکا ہے ( کہ دنیا میں ہلاک اور آخرت میں عذاب وہی تمہارے لئے ہوگا چناچہ قتل سے ہلاک بھی ہوئے اور غیر کفار عرب کا ہلاک ذمی ہونا بھی ہے تم جانو) معارف و مسائل پچھلی آیتوں میں یہ بتلایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ اپنے کفر و انکار کی وجہ اگرچہ اس کے مستحق ہیں کہ ان پر آسمانی عذاب آجائے لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں موجود ہونا عذاب عام آنے سے مانع ہے اور ہجرت کے بعد ان ضعفاء مسلمین کی وجہ سے ایسا عذاب نہیں آتا جو مکہ میں رہ کر اللہ سے استغفار کرتے ہیں۔ مذکورہ آیتوں میں یہ بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ضعفاء مسلمین کی رعایت سے اگر دنیا میں ان کا عذاب ٹل ہی گیا تو ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ عذاب کے مستحق نہیں بلکہ ان کا استحقاق عذاب کھلا ہوا ہے اور علاوہ کفر و انکار کے اور بھی ان کے ایسے جرائم میں جن کی وجہ سے ان پر عذاب آجانا چاہئے۔ ان دونوں آیتوں میں ان کے تین جرم شمار کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ یہ لوگ خود تو مسجد حرام میں عبادت گزاری کے قابل ہی نہیں اور جو مسلمان وہاں عبادت نماز طواف وغیرہ ادا کرنا چاہتے ہیں ان کو آنے سے روک دیتے ہیں۔ اس میں واقعہ حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے جب کہ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ پہنچے تھے اور مشرکین مکہ نے آپ کو روک کر واپس جانے پر مجبور کیا تھا۔ دوسرا جرم یہ فرمایا کہ یہ بیوقوف یوں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسجد حرام کے متولی ہیں جس کو چاہیں اس میں آنے کی اجازت دیں جس کو چاہیں نہ دیں۔ ان کا یہ خیال دو غلط فہمیوں کا نتیجہ تھا۔ اول یہ کہ اپنے آپ کو مسجد حرام کا متولی سمجھا حالانکہ کوئی کافر کسی مسجد کا متولی نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ متولی کو یہ حق ہے کہ جس کو چاہے مسجد میں آنے سے روک دے۔ جبکہ مسجد خانہ خدا ہے اس میں آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں بجز ایسی خاص صورتوں کے جن میں مسجد کی بےحرمتی یا دوسرے نمازیوں کی تکلیف کا اندیشہ ہو۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی مسجدوں کو بچاؤ چھوٹے بچوں سے، اور پاگل آدمیوں سے اور باہمی جھگڑوں سے، چھوٹے بچوں سے مراد وہ بچے ہیں جن سے ناپاکی کا خطرہ ہے، اور پاگل سے ناپاکی کا بھی خطرہ ہے اور نمازیوں کی ایذاء کا بھی۔ اس حدیث کی رو سے متولی مسجد کے لئے یہ تو حق ہے کہ ایسے چھوٹے بچوں، پاگلوں کو مسجد میں نہ آنے دے اور باہمی جھگڑے مسجد میں نہ ہونے دے لیکن بغیر ایس صورتوں کے کسی مسلمان کو مسجد سے روکنے کا کسی متولی مسجد کو حق نہیں۔ قرآن کریم کی آیت متذکرہ میں صرف پہلی بات بیان کرنے پر اکتفاء کیا کہ ان لوگوں کو مسجد حرام کا متولی کیسے مانا جائے۔ جب کہ اصول یہ ہے کہ اس کے متولی صرف متقی مسلمان ہی ہو سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کا متولی مسلمان دیندار پرہیزگار ہونا چاہئے اور بعض حضرات مفسرین نے (آیت) اِنْ اَوْلِيَاۗؤ ُ هٗٓ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع قرار دے کر یہ معنی لکھے ہیں کہ اللہ کے ولی صرف متقی پرہیزگار لوگ ہوسکتے ہیں۔ اس تفسیر کے مطابق آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ جو لوگ شریعت و سنت کے خلاف عمل کرنے کے باوجود ولی اللہ ہونے کا دعوی کریں وہ جھوٹے ہیں اور جو ایسے لوگوں کو ولی اللہ سمجھیں وہ دھوکے میں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَہُمْ اَلَّا يُعَذِّبَہُمُ اللہُ وَہُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَہٗ۝ ٠ ۭ اِنْ اَوْلِيَاۗؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٤ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ مَسْجِدُ : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔ حَرَمُ ( محترم) والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) اور جب آپ ان کے ہاں سے تشریف لے آئے تو اب ان کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک نہ کرے وہ تو حدیبیہ کے سال رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو مسجد حرام کا طواف کرنے سے بھی منع کرتے ہیں حالانکہ وہ مسجد کے متولی بننے کے بھی مستحق نہیں، اس کے حقیقی متولی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی جماعت ہے جو کہ کفر وشرک اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں مگر ان میں سے سب اس چیز کی خبر نہیں رکھتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ومالہم الا یعذبھم اللہ “۔ (الخ) اس کے بعد آپ مدینہ منورہ آگئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “۔ کیوں کہ مسلمانوں میں سے کچھ حضرات مکہ مکرمہ میں باقی رہ گئے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہتے تھے، جب وہ حضرات بھی مکہ مکرمہ سے تشریف لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ” وما لھم الا یعذبھم اللہ “۔ کہ ان کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ذرا سی سزا بھی نہ دے چناچہ فتح مکہ کی اجازت دی گئی اور یہی وہ عذاب ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یعنی اگرچہ مذکورہ بالا دو وجہ سے ان پر دُنیا میں کوئی عام عذاب تو نہیں آیا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کفر وشرک کے علاوہ ان کی ایک خرابی یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں، جیسا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے واقعے میں پیچھے گذرچکا ہے۔ (دیکھئے اس سورت کا ابتدائی تعارف) لہٰذا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے صحابہ مکہ مکرَّمہ سے نکل جائیں گے توان پر جزوی عذاب آئے گا، جو بعد میں فتح مکہ کی صورت میں سامنے آیا، اور پھر آخرت میں ان کو مکمل عذاب ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو یہ آیت اتری تھی وما کان اللہ لیعذ بھم وانت فیہم جس میں فرمایا تھا کہ جب تک اللہ کے رسول ان لوگوں میں ہیں اللہ پاک ان پر عذاب نہیں کرے گا پھر جب آپ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے تو یہ آیت اتری وما کان اللہ لیعذبھم تا وھم یستغفرون جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک ان کفار مکہ پر عذاب نہیں کریگا کیونکہ کچھ لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جو استغفار کرتے ہیں یہ بقیہ مسلمان تھے جو مکہ میں رہ گئے تھے پھر یہ لوگ وہاں سے جب نکل گئے تو یہ آیت اتری جس میں فرمایا کہ اب کیا وجہ ہے جو اللہ ان پر عذاب نہ کرے کیونکہ وہ دونوں سبب جن کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آتا تھا اب باقی نہیں رہے نہ اللہ کے رسول وہاں رہے اور نہ وہ لوگ رہے جو استغفار کیا کرتے تھے مفسروں نے اس عذاب کے متعلق اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں کہ یہ عذاب وہ ہے جو بدر کی لڑائی میں ان مشرکوں کو نصیب ہوا بہت سے ان میں کے قتل ہوئے بہتر گرفتار ہوئے ان کے مال اسباب لوٹے گئے اور بعضوں کا قول ہے کہ عذاب وہ ہے جو فتح مکہ کے روز ان پر ہوا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں مراد اس سے آخرت کا عذاب ہے اور اس سے اوپر کی آیت میں جس عذاب کی بابت روکے جانے کا ذکر ہے وہ عذاب دینا ہے پھر اللہ پاک نے عذاب کرنے کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ اپنی گمان میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ کعبہ کے متولی اور مالک ہیں اور حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو اس کے طواف کرنے سے روکتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھنے دیتے ہیں پھر ان کے اس دعوے کو یوں جھوٹا کیا کہ یہ لوگ کیونکر خانہ کعبہ کے متولی ہوسکتے ہیں اس کے متولی تو متقی ہیں جو غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے ہیں معتبر سند سے تفسیر ابن مردویہ میں حضرت انس (رض) کی روایت ہے اس میں انس (رض) بن مالک کہتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا اولیا آپ کے کون ہیں آپ نے فرمایا ہر متقی اور یہ آیت پڑھی ان اولیائہ الا المتقون ولکن اکثرھم لایعلمون اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اس لئے کعبہ کا حق دار خیال کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں مگر ان میں کے اکثر لوگوں کو یہ خبر نہیں کہ جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ نہیں ہے اس واسطے جو لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد بھی ہیں اور ان کے طریقہ پر بھی ہیں کعبہ کے متولی ہونے کی وہ ہی زیادہ حق دار ہیں مستدرک حاکم اور بیہقی میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن عالی خاندانی کچھ کام نہ آوے گی بلکہ اس دن ہر شخص کی پرہیز گاری کام آوے گی حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ایک مشرک شخص کو کعبہ کے طواف سے منع فرمایا تھا آیت میں پرہیز گار لوگوں کی فضیلت کا اور مشرکوں کے کعبہ کے متولی ٹھہرنے کے لائق نہ ہونے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:34) ومالہم۔ اور کیا عذر ہے ان کے لئے ۔ کیا وجہ ۔ کیا امر مانع رہ گیا ہے ان کے لئے۔ یصدون۔ صد یصد (نصر) سے مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ باز رکھتے ہیں۔ وہ روکتے ہیں ۔ اولیاء ہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب المسجد الحرام کی طرف راجع ہے۔ اولیاء اس کے متولی۔ اس کی ولایت کے مستحق۔ مضاف ۔ ہ مضاف الیہ۔ اولیاء جمع ہے اس کا واحد ولی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس پر انہوں نے ایسی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے کسی توحید پرست انسان کو اس کا طواف کرنے یا اس میں عبادت کر نیکی اجازت نہیں دیتے اس عذاب سے عذاب استیصال مراد نہیں ہے بلکہ ان کا مسلمانوں ہو ہونے والی جنگوں میں قید اور قتل ہونا مراد ہے۔ چناچہ جنگ بدر میں میں ان کے بڑے بڑے سے سردارمارے گئے اور ان میں بہت سے لوگ قید ہوئے اور پھر حدیبہ کے بعد فتح مکہ کی اجازت دیدی گئی ( ابن کثیر)9 یعنی جو شرک پر ییز کرنے والے ہیں اور وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انکے صحابہ (رض) ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سے سوال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر پرہیز گار مومن مبری آل ہے، ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 34 تا 40 لغات القرآن۔ مکاء۔ سیٹیاں۔ تصدیۃ۔ (صدی) ۔ تالیاں بجانا۔ لیصدوا۔ تاکہ وہ روک دیں۔ لیمیز۔ (یمیز) تاکہ وہ الگ الگ کردے۔ الخبیث۔ گندگی۔ الطیب۔ پاکیزگی۔ یرکم۔ (رحکم) ۔ وہ ڈھیر بنا دے گا۔ گٹھا بنا دے گا۔ ان ینتھوا۔ اور اگر وہ رک جائیں۔ سلف۔ گزر گیا۔ ان یعودوا۔ اور اگر وہ پلٹ جائیں۔ مضت۔ گزر گئی۔ سنت الاولین۔ پہلے لوگوں کا طریقہ۔ مولی۔ ستھی۔ نعم المولیٰ ۔ بہترین ساتھی۔ نعم النصیر۔ بہترین مددگار۔ تشریح : قریش مکہ نے خیر مانگے کے بجائے اللہ سے یہ مانگا کہ ان پر پتھروں کی بارش کردی جائے یا درد ناک عذاب بھیج دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بدر کے میدان میں زبردست شکست تمہارے لئے اس لئے عذاب الیم ہے کہ اس نے قریش کی دھاک ختم کردی اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ان کے بہترین لیڈر اور کمانڈر یا مار دئیے گئے یا قید کر لئے گئے اور وہی مسلمان جن کو سب سے کمزور سمجھ لیا گیا تھا ہر ذہن پر چھا گئے تھے پتھروں کے مقابل میں ان کے لئے زیادہ سخت سزا اور عذاب ہے۔ ان آیات میں قریش مکہ کے چند اہم گناہ گنوائے گئے ہیں جو ان پر سخت سزاؤں کو جواز بھی بنتی ہیں یہ سزائیں غزورہ بدر سے شروع ہو کر فتح مکہ پر ختم ہوتی ہیں جو ان کمزور مسلمانوں کے ذریعہ ان کو دلوائی گئیں جن پر تیرہ سال تک عرب کی سرزین کو نہ صرف تنگ کردیا گیا تھا بلکہ ان سے ہر خوشی کو چھین لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کے گناہوں کی فہرست تو طویل ہے چند گناہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 1) ان کا پہلا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے گھر اور مسجد حرام میں اللہ کا نا م لینے اور بیت اللہ کے طواف سے مسلمانوں کو روکا، انکا گھمنڈ یہ تھا کہ وہ مسجد حرام کے متولی ہیں ان کا یہ اختیار ہے کہ جس کو چاہیں آنے دیں اور جس سے ناراض ہوں اس کو اس سے روک دیں۔ قرآن کریم کا جواب یہ ہے کہ مسجد حرام اور بیت اللہ کسی شخص یا قوم کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ناسمجھ بچے، دیوانے، جھگڑنے والے اور بےحرمیت کرنے والے اور کافروں کے سوا کسی کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے سے روکنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے دوسرے یہ کہ مسجد کا متولی اور منتظم وہی ہوسکتا ہے جو پرہیز گار ہو۔ فرمایا کہ موجودہ قریش نے پرہیز گار ہیں نہ دین دار کوئی اللہ کا نام لیتا تو اس کو ہر اساں کرنے کے لئے سیٹیاں بجانا تالیاں پیٹنا ننگے ہو کر طواف کرنا ہر ظلم و جبر کے طریقے کو اختیار کرنا۔ کیا ان کی یہی عبادت ہے ؟ قریش کی جنگی دھاک اور ہیبت تو میدان بدر میں ختم ہو کر رہ گئی تھی اب عرب قبائل پر انکی دھونس تھی وہ یہ تھی کہ ہم خانہ کعبہ کے متولی ہیں اس لئے منظور نظر ہیں اس کو بھی قرآن کریم کے اس جواب نے ہلا کر رکھ دیا کہ مسجد کا متولی ظالم و جابر اور بدکار نہیں ہوسکتا۔ پھر اللہ نے ان کی نماز کے متعلق بیان کرکے کہ وہ سیٹیاں اور تالیاں پیٹنے کو عبادت سمجھتے ہیں یہ واضح فرمادیا کہ یہ انتہائی غلط اور ناسمجھی کی بات ہے۔ اللہ کے اس ارشاد نے ان کی عبادت کے ڈھول کا پول کھول کر رکھدیا۔ 2) قریش کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف سازشیں کرتے ہیں بلکہ یہ کفار و مشرکین بار بار مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ اور اللہ کے راستے سے روکنے پر خرچ کرتے ہیں چناچہ جنگ بدر، احد اور احزاب میں انہوں نے بہت سرمایہ لگا یا اور گنوایا۔ سوائے حسرت و افسوس اور پچھتاوے کے ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ فرمایا کہ یہ لوگ اپنا سرمایہ مال دولت اسی طرح اسلام دشمنی میں لگاتے رہیں گے اور گنواتے رہیں گے مگر ہر کوشش کا نتیجہ ان کی توقع کے برعکس ہی نکل رہا ہے اور نکلتا رہے گا۔ فرمایا کہ ” ایک دن وہ مغلوب ہر کر رہیں گے ” ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی پیشن گوئ فرما دی ہے اور دوسری پیشن گوئی یہ فرما دی ہے کہ کفار ایک دن جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو انبار در انبار جمع کرکے ان کو گندگی کا ڈھیر بنا دے گا۔ اور پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے گا۔ یہ آیت ایک طرف آیت وعید ہے اور دوسری طرف آیت وعدہ ہے۔ فرمایا ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہہ دیجئے کہ تم اپنی نیچ حرکتوں سے باز آجائو۔ اگر تم باز آگئے اور ان حرکتوں سے رک گئے تو اب تک جو کچھ کرچکے ہو اللہ اسے معاف فرما دے گا اور آیت وعدہ کے ساتھ دعوت بصیرت و عبرت بھی ہے۔ ” اگر وہی حرکتیں کرو گے تو دیکھ لو پہلی قوموں کے ساتھ اللہ کا کیا معاملہ ہوا ہے “۔ ان آیات میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گیء ہے کہ اے مومنو ! تم اس وقت تک قتال و جہاد کرتے رہو جب تک فتنہ دنیا سے مٹ نہ جائے۔ سورة بقرہ کی آیات نمبر 193 میں ارشاد ہے کہ ” تم ان سے قتال کرتے رہو یہاں تکہ کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لئے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سو اور کسی سے دست درازی جائز نہیں ہے۔ ان آیات میں اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں نہ صرف جہاد بلکہ قتال (جنگ) کو عین عبادت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ اسلام دنیا سے کفارو مشرکین کو نہیں بلکہ کفر شرک کے فتنے کو مٹانے کی بات کرتا ہے۔ کیونکہ اسلام انسانوں سے نہیں مشرکین مملکت اسلامیہ میں رہتے ہیں تو شوق سے رہیں ان کو اپنے عقیدے پر چنے کی اور عبادت کرنے اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے کی آزادی ہے۔ اگر وہ فتنہ پیدا نہ کر رہے ہوں تو ان سے قتال کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر وہ فتنہ اٹھا رہے ہوں اور اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہے ہوں تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی اقدامات کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر وہ جزیہ دے کر پر امن شہری بن کر رہتے ہیں تو ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ آیت نمبر 39 میں فرمایا گیا کہ : اس کی بہترین تفسیر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے جس کو بخاری ومسلم میں نقل کیا گیا ہے آپ نے فرمایا۔ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کو قبول قبول نہ کرلیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو ان کے خون اور مال و آبرو سب محفوط ہوجائیں گے۔ البتہ اسلامی قانون کے ماتحت کسی جرم کی وجہ سے ان کو سزا دی جاسکتی ہے۔ ان کے دلوں کا حساب اللہ پر ہے گا کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ اور اعمال اسلام کو قبول کررہے ہیں یا یہ نفاق کی کوئی چال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے محض اپنی جان بچانے کی خاطر یا کسی جنگی یا سیاسی مصلحت کے طور پر اسلام لانے کا اقرار کیا ہے تو پھر بھی اللہ کا حکم ہے انہیں امان دی جائے۔ اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے جب تک پورے طور پر ان کی منافقت ثابت نہ ہوجائے۔ اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے۔ اللہ ہی ان کے لئے بہتر فیصلہ فرما سکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق اور دین اسلام کی جاذبیت ہے کہ تاریخ میں اب تک ایسا نہیں ہوا کہ گروہ کے گروہ نے منافقت کے ارادے سے کلمہ پڑھا ہو۔ انفرادی طور پر بھی منافقت کا ارادہ بہت شاذو نادر ہے۔ ابو دائود میں مختلف صحابہ کرام (رض) سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جو شخص کسی معاہدہ پر (یعنی ایسے شخص پر جس نے اسلامی حکومت کی اطاعت اور وفاداری کا عہد کرلیا ہو) ظلم کرے یا اس کو نقصان پہنچائے یا اس سے کوئی ایسا کام لے جو اس کی طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہو یا اس کی کوئی چیز اس کی دلی رضا مندی کے بغیر حاصل کرلے تو میں قیامت کے دن اس مسلمان کے خلاف اس معاہدہ شخص کی حمایت کروں گا۔ آیت نمبر 40 میں فرمایا گیا ہے کہ : اگر کوئی معاہد فرد یا جماعت اپنے معادہ سے پھرجائے۔ یا اگر مشرکین و کفار اپنی پست حرکتیں جاری رکھیں تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ تمہارا بہترین حامی و ناصر ہے۔ جب تمہیں اس کی حمایت و نصرت حاصل ہے تو اس میں ان دشمنان اسلام سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی مسجد حرام میں جانے اور اس میں نماز پڑھنے اور اس میں طواف کرنے سے روکتے تھے۔ 1۔ خواہ علم ہی نہ ہو یا یہ کہ جب اس علم پر عمل نہ کیا تو وہ مثل عدم علم کے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر اپنے لیے عذاب کی دعا کی جس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ انھیں عذاب نہ دینے کی و جہ یہ ہے کہ ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے استغفار کرنے والے ساتھی یہاں موجود ہیں۔ حالانکہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ کیونکہ یہ مسجد حرام میں توحید کی دعوت دینے سے روکتے ہیں۔ جب کہ بیت اللہ کی بناء کا مقصد ہی اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کی توحید کا پرچار ہے۔ لیکن یہ بیت اللہ کی تولیت کے زعم میں آکر اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں جبکہ مسجد کی تولیت کا مطلب صرف اس کی خدمت کرنا ہے۔ یہ لوگ اپنے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے اس لائق نہیں رہے کہ مسجد حرام کی تولیت کے منصب پر سرفراز رہیں۔ مسجد حرام اور دیگر مساجد کی تولیت کا استحقاق صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر شرک و بدعت سے اجتناب کرتے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں جانتی۔ اہل مکہ کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنے کے ساتھ یہ جرم بھی تھا کہ جب آپ بیت اللہ میں نماز پڑھتے یا توحید کی دعوت دیتے تو یہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔ اس پر انھیں عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کو اشارہ دیا گیا ہے کہ عنقریب بیت اللہ کا انتظام و انصرام تمہارے سپرد کیا جائے گا۔ جس کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت پیش گوئی فرمائی جب آپ نے ہجرت سے پہلے عثمان بن طلحہ (رض) سے بیت اللہ کی چابی طلب کی تاکہ بیت اللہ کے اندر داخل ہو کر نفل ادا کرسکیں۔ لیکن اس نے بڑی رعونت کے ساتھ چابی دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ اے عثمان وہ وقت کیسا ہوگا جب یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی جس کو چاہوں گا دوں گا۔ عثمان بن طلحہ نے کہا کیا اشراف مکہ اس وقت مرچکے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ مکہ فتح کرنے کے بعد آپ نے عثمان سے چابی طلب کی اس نے سر جھکاتے ہوئے چابی آپ کی خدمت میں پیش کردی۔ آپ نے بیت اللہ کے اندر داخل ہو کر نفل ادا کیے بعد ازاں عثمان بن طلحہ کو چابی عطا کرتے ہوئے فرمایا۔ عثمان اسے اپنے پاس رکھو جو تجھ سے چابی چھیننے کی کوشش کرے گا وہ ظالم ہوگا۔ اس موقعہ پر حضرت علی (رض) نے درخواست کی کہ زم زم کا کنٹرول ہمارے پاس ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ بیت اللہ کی چابی بھی۔ ہمیں عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس موقعہ پر عثمان بن طلحہ (رض) نے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ مسائل ١۔ لوگوں کو مسجد حرام سے روکنا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ ٢۔ مساجد اور مسجد حرام کی تولیت صرف صاحب تقویٰ لوگوں کے پاس ہونی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مسجد سے روکنا جائز نہیں : ١۔ مسجد سے روکنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٢۔ مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٤) ٣۔ مسجد سے روکنے والے سزا کے مستحق ہیں۔ (الانفال : ٣٤) ٤۔ مسجدیں تو اللہ کا گھر ہوتی ہیں۔ (الجن : ١٨) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تو کفار آپ پر آوازیں کستے تھے۔ (الجن : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان پر یہ عذاب اس لیے نہیں لیٹ ہورہا ہے جس کا وہ دعوی کرتے تھے کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں یا وہ بیت اللہ کے متولی ہیں۔ یہ تو ان کا محض دعوی ہی دعوی تھا ، اس کی کوئی اساس نہ تھی۔ یہ لوگ در اصل اس گھر کے خادم اور متولی تھے ہی نہیں۔ یہ تو اس گھر کے دشمن تھے۔ انہوں نے زبردستی اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ کوئی ترکہ تو تھا نہیں جو آباؤ اجداد سے وراثت میں لیا جاتا۔ بیت اللہ کی تولیت کا حق تو اللہ کے متقی بندوں کا حق ہے۔ ان کا یہ دعوی کہ وہ حضرت ابراہیم کے وارث ہیں ، یہ بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ سچائی کا تعلق خون اور نسب سے نہیں ہوتا۔ سچائی میں وراثت تو دین اور عقیدے کی وراثت ہوتی ہے۔ کہ دریں راہ فلان ابن فلاں چیزی نیست حضرت ابراہیم کے وارث تو اہل تقوی ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اس گھر کو تعمیر کیا تاکہ لوگ اس کی زیارت کریں اور تم اس سے روکتے ہو اور تم نے اس کی تولیت کو بھی مستحق لوگوں سے چھین لیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی عبادت یہ تھی کہ بیت اللہ کے قریب سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے تھے گزشتہ آیت میں یہ بتایا تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف فرما ہوتے ہوئے اور اہل مکہ کے استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا اور اس آیت میں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب کیوں نہ دے حالانکہ ان کی حرکتیں ایسی ہیں جو سزا کی مقتضی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور وہاں عبادت و طواف کرنے سے روک دیا پھر جب ٦ ہجری میں آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو مسجد حرام تک نہ پہنچنے دیا اور عمرہ نہ کرنے دیا، ان کی حرکت اس قابل ہے کہ ان پر عذاب نازل کردیا جائے کفر اور کافرانہ حرکتوں کی وجہ سے یہ لوگ عذاب کے مستحق ہیں، مکہ معظمہ میں تو عمومی عذاب نہ آیا لیکن بدر میں سردار ان قریش مقتول ہوئے۔ علامہ بغوی (رح) نے معالم التنزیل (ص ٢٤٦ ج ٢) میں بعض حضرات کا قول نقل کیا ہے کہ (وَ مَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ ) سے عمومی عذاب مراد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سب ہی ایک ایک کر کے ہلاک نہ کیے جائیں گے اور (وَ مَا لَھُمْ اَلَّا یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ ) میں عذاب بالسیف مراد ہے یعنی ان کی حرکتوں کی وجہ سے وہ اہل ایمان کی تلوار کی زد میں آئیں گے اور مقتول ہوں گے اور ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ پہلی آیت میں دنیوی عذاب کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں آخرت کے عذاب کا ذکر ہے۔ دوسرے قول کے مطابق تفسیر کرنے سے (فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ) کا ارتباط زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا (وَ مَا کَانُوْٓااَوْ لِیَآءَہٗ ) کہ یہ لوگ مسجد کے اولیاء یعنی اس کے متولی نہیں ہیں۔ کعبہ شریف داعی توحید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا ہے کعبہ اور مسجد حرام پر اہل شرک کو تسلط رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے پھر فرمایا (اِنَّ اَوْلِیَآؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ) کہ مسجد حرام کے متولی وہی ہیں جو اہل تقویٰ ہیں (جو کفر اور شرک سے بچتے ہیں) مطلب یہ ہے کہ اس کی تولیت کا استحقاق اہل ایمان کو ہے جو بعد میں فتح مکہ کے دن متولی ہوگئے، اس دن کافروں کا تسلط ختم ہوا اور مشرکین کچھ مارے گئے اور بہت سے مسلمان ہوگئے (وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) اور لیکن ان میں سے اکثر یہ بات نہیں جانتے کہ انہیں مسجد حرام کے متولی ہونے کا استحقاق نہیں ہے اور بعض جو اس بات کو جانتے ہیں وہ عناد پر تلے ہوئے ہیں۔ (کمافی الروح ص ٢٠٣ ج ٩) اس کے بعد اہل مکہ کی عبادت کا تذکرہ فرمایا جس کو وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اپنے خیال میں مسجد کے متولی بھی تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہم عبادت کر کے تولیت کا حق ادا کر رہے ہیں اور ان کی عبادت یہ تھی کہ مسجد حرام میں سیٹیاں بجاتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے (جتنے بھی شیطانی دھندے ہوتے ہیں ان میں سیٹیاں، تالیاں، ڈھول، باجے ضرور ہی ہوتے ہیں) اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے مستحق عذاب ہوئے، آخرت میں تو ہر کافر کو عذاب ہونا ہی ہے، دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ اہل مکہ بھی اسلام قبول نہ کرنے سے عذاب میں مبتلا ہوئے جن میں ایک واقعہ بدر کی شکست اور ہزیمت کا بھی ہے۔ اہل مکہ کو زمانہء شرک میں جو یہ خیال تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی ہیں اور بحق تولیت ہمیں مسجد حرام سے روکنے کا اختیار ہے اس خیال کی تردید فرمائی کہ اہل کفر مسجد حرام کے متولی نہیں ہوسکتے۔ نیز وہ یوں سمجھتے تھے کہ ہم مسجد حرام کو آباد رکھتے ہیں اس میں عبادت کرتے ہیں اگر مسلمانوں کو اس میں عبادت کرنے سے روک دیا تو کیا ہوا ؟ ہم خود عبادت گزار ہیں۔ ان کی اس بات کی بھی تردید فرما دیا کہ تمہاری عبادت شیطانی دھندہ ہے۔ تالیاں پیٹنا، سیٹیاں بجانا یہ کہاں کی عبادت ہے ؟ اس سے تو مسجد حرام کی بےحرمتی ہوتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36: مکہ معظمہ میں مشرکین پر عذاب نہ بھیجنے کی وجوہ بیان کرنے کے بعد فرمایا مگر یہ لوگ اپنے انکار و جحود اور ضد وعناد کی وجہ سے عذاب کے مستحق ضرور ہیں۔ کیونکہ ان کے تمام اعمال و افعال خدا اور رسول کے احکام کے خلاف ہیں اور حد یہ ہے کہ وہ ایمان والوں، اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبرداروں کو مسجد حرام (بیت اللہ) سے روک رہے ہیں (جیسا کہ عام الحدیبیہ میں انہوں نے ایسا کیا) حالانکہ وہ بیت اللہ کے متولی نہیں تھے اور نہ وہ بیت اللہ کی تولیت کے لائق اور اس کے حقدار ہی ہیں۔ کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ بیت اللہ کی تولیت کا حق صرف انہی لوگوں کو پہنچتا ہے جو اللہ کے اس گھر کو شرک کی نجاست سے پاک رکھیں اور وہ مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔ “ اي وماکانوا مستحقین ولایة المسجد الحرام مع شرکھم (اِنْ اَوْلِیَاءُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْن) من الشرک الذین الا یعبدون فیه غیر اللہ تعالیٰ والمراد بھم المسلمون ” (روح ج 9 ص 202) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 اور جو حرکات وہ کررہے ہیں ان حرکات کے بعد کیا حق ہے اور کون سا استحقاق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کچھ بھی عذاب نہ کرے یعنی غیر خارق عادت عذاب نہ کیا جائے جبکہ وہ مسلمانو کو مسجد حرام سے روکتے ہیں حالانکہ وہ لوگ اس مسجد حرام کی تولیت کے اہل بھی نہیں ہیں اس مسجد حرام کی تولیت کے حقدار تو سوائے متقی لوگوں کے کوئی دوسرا شخص نہیں ہوسکتا لیکن ان کافروں میں سے اکثر اس حقیقت کو نہیں جانتے۔ یعنی ان کافروں کی حرکات مذمومہ کی یہ حالت ہے کہ یہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مسجد حرام میں آنے سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام کی تولیت کا حقدار اپنے کو سمجھتے ہیں ان حرکات مذمومہ کے بعد وہ یقیناً سزا کے مستحق ہیں پھر ان کو سزا کیوں نہ دی جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قریش آپ کو اولاد ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ کر کعبہ کے مختر ٹھہراتے تھے اور مسلمانوں کو آنے نہ دیتے سو فرمایا کہ اولاد ابراہیم جو پرہیزگار ہو اسی کا حق ہے اور بےانصافوں کا حق نہیں کہ جس سے آپ ناخوش ہوئے۔