The Idolators deserved Allah's Torment after Their Atrocities
Allah states that the idolators deserved the torment, but He did not torment them in honor of the Prophet residing among them. After Allah allowed the Prophet to migrate away from them, He sent His torment upon them on the day of Badr. During that battle, the chief pagans were killed, or captured. Allah also directed them to seek forgiveness for the sins, Shirk and wickedness they indulged in. If it was not for the fact that there were some weak Muslims living among the Makkan pagans, those Muslims who invoked Allah for His forgiveness, Allah would have sent down to them the torment that could never be averted. Allah did not do that on account of the weak, ill-treated, and oppressed believers living among them, as He reiterated about the day at Al-Hudaybiyyah,
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْىَ مَعْكُوفاً أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّوْمِنُونَ وَنِسَأءٌ مُّوْمِنَـتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَيُوهُمْ فَتُصِيبَكمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِى رَحْمَتِهِ مَن يَشَأءُ لَوْ تَزَيَّلُواْ لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً
They are the ones who disbelieved and hindered you from Al-Masjid Al-Haram (at Makkah) and detained the sacrificial animals from reaching their place of sacrifice. Had there not been believing men and believing women whom you did not know, that you may kill them and on whose account a sin would have been committed by you without (your) knowledge, that Allah might bring into His mercy whom He wills if they (the believers and the disbelievers) had been apart, We verily, would have punished those of them who disbelieved with painful torment. (48:25)
Allah said here,
وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ
And why should not Allah punish them while they hinder (men) from Al-Masjid Al-Haram, and they are not its guardians!
None can be its guardians except those who have Taqwa, but most of them know not.
Allah asks, `why would not He torment them while they are stopping Muslims from going to Al-Masjid Al-Haram, thus hindering the believers, its own people, from praying and performing Tawaf in it'
Allah said,
...
وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ
...
And they are not its guardians. None can be its guardians except those who have Taqwa,
meaning, the Prophet and his Companions are the true dwellers (or worthy maintainers) of Al-Masjid Al-Haram, not the pagans. Allah said in other Ayah,
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَـهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ أُوْلَـيِكَ حَبِطَتْ أَعْمَـلُهُمْ وَفِى النَّارِ هُمْ خَـلِدُونَ
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـجِدَ اللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَوةَ وَءاتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللَّهَ فَعَسَى أُوْلَـيِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ
It is not for the polytheists, to maintain the Masjids of Allah, while they witness disbelief against themselves. The works of such are in vain and in the Fire shall they abide.
The Masjids of Allah shall be maintained only by those who believe in Allah and the Last Day; perform the Salah, and give the Zakah and fear none but Allah. It is they who are on true guidance. (9:17-18)
and,
وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ
But a greater (transgression) with Allah is to prevent mankind from following the way of Allah, to disbelieve in Him, to prevent access to Al-Masjid Al-Haram (at Makkah), and to drive out its inhabitants, (2:217)
Urwah, As-Suddi and Muhammad bin Ishaq said that Allah's statement,
إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ
(None can be its guardians except those who have Taqwa),
refers to Muhammad and his Companions, may Allah be pleased with them all.
Mujahid explained that;
this Ayah is about the Mujahidin (in Allah's cause), whomever and wherever they may be.
Allah then mentioned the practice of the pagans next to Al-Masjid Al-Haram and the respect they observed in its vicinity,
ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ ، یعنی یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے ، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوٰۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیز گاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں ، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی ، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے ، تولار چلی ، چیخ اور زلزلے آئے ۔