Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 42

سورة الأنفال

اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ ۙ وَ لٰکِنۡ لِّیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا ۬ ۙ لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۴۲﴾

[Remember] when you were on the near side of the valley, and they were on the farther side, and the caravan was lower [in position] than you. If you had made an appointment [to meet], you would have missed the appointment. But [it was] so that Allah might accomplish a matter already destined - that those who perished [through disbelief] would perish upon evidence and those who lived [in faith] would live upon evidence; and indeed, Allah is Hearing and Knowing.

جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو دلیل پر ( یعنی یقین جان کر ) ہلاک ہو اور جو زندہ رہے ۔ وہ بھی دلیل پر ( حق پہچان کر ) زندہ رہے بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some Details of the Battle of Badr Allah describes Yawm Al-Furqan, (i.e. the day of Badr), إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا ... (And remember) when you (the Muslim army) were on the near side of the valley, camping in the closest entrance of the valley towards Al-Madinah, ... وَهُم ... and they, the idolators, who were camped, ... بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى ... on the farther side, from Al-Madinah, towards Makkah. ... وَالرَّكْبُ ... and the caravan, that was under the command of Abu Sufyan, with the wealth that it contained, ... أَسْفَلَ مِنكُمْ ... on the ground lower than you, closer to the sea, ... وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ ... even if you had made a mutual appointment to meet, you and the idolators, ... لااَخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ... you would certainly have failed in the appointment, Muhammad bin Ishaq said, "Yahya bin Abbad bin Abdullah bin Az-Zubayr narrated to me from his father about this Ayah "Had there been an appointed meeting set between you and them and you came to know of their superior numbers and your few forces, you would not have met them, ... وَلَـكِن لِّيَقْضِيَ اللّهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً ... but (you met) that Allah might accomplish a matter already ordained, Allah had decreed that He would bring glory to Islam and its people, while disgracing Shirk and its people. You (the companions) had no knowledge this would happen, but it was out of Allah's compassion that He did that." In a Hadith, Ka`b bin Malik said, "The Messenger of Allah and the Muslims marched to intercept the Quraysh caravan, but Allah made them meet their (armed) enemy without appointment." Muhammad bin Ishaq said that Yazid bin Ruwman narrated to him that Urwah bin Az-Zubayr said, "Upon approaching Badr, the Messenger of Allah sent Ali bin Abi Talib, Sa`d bin Abi Waqqas, Az-Zubayr bin Al-Awwam and several other Companions to spy the pagans. They captured two boys, a servant of Bani Sa`id bin Al-`As and a servant of Bani Al-Hajjaj, while they were bringing water for Quraysh. So they brought them to the Messenger of Allah, but found him praying. The Companions started interrogating the boys, asking them to whom they belonged. Both of them said that they were employees bringing water for Quraysh (army). The Companions were upset with that answer, since they thought that the boys belonged to Abu Sufyan (who was commanding the caravan). So they beat the two boys vehemently, who said finally that they belonged to Abu Sufyan. Thereupon companions left them alone. When the Prophet ended the prayer, he said, إَذَا صَدَّقَاكُمْ ضَرَبْتُمُوهُمَا وَإِذَا كَذَّبَاكُمْ تَرَكْتُمُوهُمَا صَدَقَا وَاللهِ إِنَّهُمَا لِقُرَيْشٍ أَخْبِرَانِي عَنْ قُرَيْش When they tell you the truth you beat them, but when they lie you let them go They have said the truth, by Allah! They belong to the Quraysh. addressing to the boys He said: Tell me the news about Quraysh. The two boys said, `They are behind this hill that you see, on the far side of the valley.' The Messenger of Allah asked, كَمِ الْقَوْمُ How many are they? They said, `They are many.' He asked, مَاعُدَّتُهُمْ How many? They said, `We do not know the precise number.' He asked, كَمْ يَنْحَرُونَ كُلَّ يَوْمٍ How many camels do they slaughter every day? They said, `Nine or ten a day.' The Messenger of Allah said, الْقَوْمُ مَا بَيْنَ التِّسْعمِايَةِ إِلَى الاَْلْف They are between nine-hundred and a thousand. He asked again, فَمَنْ فِيهِمْ مِنْ أَشْرَافِ قُرَيْشٍ Which chiefs of Quraysh are accompanying the army? They said, Utbah bin Rabiah, Shaybah bin Rabiah, Abu Al-Bakhtari bin Hisham, Hakim bin Hizam, Nawfal bin Khuwaylid, Al-Harith bin Amir bin Nawfal, Tu`aymah bin Adi bin Nawfal, An-Nadr bin Al-Harith, Zam`ah bin Al-Aswad, Abu Jahl bin Hisham, Umayyah bin Khalaf, Nabih and Munabbih sons of Al-Hajjaj, Suhayl bin Amr and Amr bin Abd Wadd. The Messenger of Allah said to the people, هَذِهِ مَكَّةُ قَدْ أَلْقَتْ إِلَيْكُمْ أَفَلَذَ كَبِدِهَا This is Makkah! She has brought you her most precious sons (its chiefs)!" Allah said, ... لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ... So that those who were to be destroyed might be destroyed after a clear evidence. Muhammad bin Ishaq commented, "So that those who disbelieve do so after witnessing clear evidence, proof and lessons, and those who believe do so after witnessing the same." This is a sound explanation. Allah says, He made you meet your enemy in one area without appointment, so that He gives you victory over them.' This way, `He will raise the word of truth above falsehood, so that the matter is made clear, the proof unequivocal and the evidence plain. Then there will be no more plea or doubt for anyone. Then, those destined to destruction by persisting in disbelief do so with evidence, aware that they are misguided and that proof has been established against them, وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ (and those who were to live might live), those who wish to believe do so, عَن بَيِّنَةٍ (after a clear evidence), and proof. Verily, faith is the life of the heart, as Allah said, أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَـهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِى النَّاسِ كَمَن Is he who was dead (without faith by ignorance and disbelief) and We gave him life (by knowledge and faith) and set for him a light (of belief) whereby he can walk among men ... (6:122) Allah said next, ... وَإِنَّ اللّهَ لَسَمِيعٌ ... And surely, Allah is All-Hearer, of your invocation, humility and requests for His help, ... عَلِيمٌ All-Knower. meaning; about you, and you deserve victory over your rebellious, disbelieving enemies.

اللہ تعالی نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکے کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہو جاتے ۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہو جائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا ۔ چنانچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے ۔ ابو سفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابو جہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکے سے نکلا ۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہو گئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بےخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے ۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی ۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی ۔ ادھر ابو سفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے ۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجورں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمھارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابو جہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا ۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے ۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں ۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کر دیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے ۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کر دیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا ۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہدیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ٠ ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے ۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک؟ انہوں نے کہا تعداد توہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتا سکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس ۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں ۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو البختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوفل ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، ابو جہل ، امیہ بن خلف ، منبہ بن حجاج ، سہیل بن عمرو ، عمرو بن عبدود ۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکے نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں ۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنا دیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کودیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے ۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر تھے اور کوئی نہ تھا ۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں ۔ باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر ۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں ۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط و قرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے ۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہو جائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے ( آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ ، ) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنا دیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے ۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع و زاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 دُنْیَاسے مراد وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے دور تھا۔ 42۔ 2 اس سے مراد تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام، جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ 42۔ 3 یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کئے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا اس لئے ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہوجائیں۔ 42۔ 4 یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کرچکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اس کنارے یا نزدیکی کنارے سے مراد وہ سمت ہے جو مدینہ کی طرف تھی اور پرلے کنارے سے مراد اس سے مخالف سمت ہے جو مکہ کی طرف تھی۔ [٤٥] جنگ بدر اضطراراً واقع ہوئی تھی :۔ یعنی مسلمان جب مدینہ سے نکلے تو جہاد کی غرض سے نہیں بلکہ تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ اسی وجہ سے غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں پر کوئی مواخذہ نہیں اور کافر اس غرض سے نہیں نکلے تھے کہ جنگ لڑیں گے بلکہ اپنے قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے۔ اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ قافلہ تو بچ بچا کر نکل آیا۔ اس طرح دونوں لشکروں کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوگئی، اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہو رہا تھا۔ [٤٦] یعنی اگر کافر اور مسلمان آپس میں لڑائی کے لیے کوئی عہد و پیمان کرتے تو عین ممکن تھا کہ دونوں فریق یا کوئی ایک فریق وعدہ خلافی کر کے مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر نہ پہنچ سکتا یا پہنچنے سے راہ فرار اختیار کرجاتا اور اس طرح یہ معرکہ حق و باطل وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ یہ جنگ واقع ہو کے رہی۔ [٤٧] جنگ بدر حق وباطل میں فیصلہ کن معرکہ تھا :۔ یعنی مرنے والے کافر بھی اور زندہ رہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حق پر کون فریق تھا اور کس فریق کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کا یہ انجام دیکھنے کے بعد پھر بھی جو کافر کفر پر ہی قائم رہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہی گور گردن پر رہے جو اسلام لانا چاہے تو وہ اللہ کی یہ واضح تائید دیکھ کر اسلام لائے اور اس کا اسی کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال شرک و کفر کے باطل ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت اللہ تعالیٰ نے سب کو دکھلا دیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا : جنگ کا محل وقوع ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ تم جس ارادے سے نکلے تھے کہ ہمیں وہ قافلہ مل جائے گا جو نہایت قیمتی ہے اور جس کے محافظ صرف تیس یا چالیس شخص ہیں، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں لڑائی کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ” عُدْوَۃٌ“ کنارا۔ ” الدُّنْيَا “ ” دُنُوٌّ“ ( قریب ہونا) میں سے ” أَدْنٰی “ کی مؤنث ہے، قریب ترین، یعنی تم وادی بدر کے اس سرے پر تھے جو مدینہ کے قریب ترین ہے۔ ” الْقُصْوٰي “ ” أَقْصٰی “ کی مؤنث ہے دور ترین، یعنی قریش اسی وادی بدر کے مدینہ سے دور والے کنارے پر تھے۔ ” وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ “ یعنی جس قافلے کی خاطر تم نکلے تھے وہ تم سے نیچے ساحل سمندر پر تھا، جہاں تمہارا پہنچنا اس وقت ممکن نہ تھا اور تم اور قریش کسی پیشگی ارادے کے بغیر ایک ہی وادی کے کناروں پر آ جمع ہوئے تھے، نہ انھیں تمہارا علم تھا نہ تمہیں ان کا اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ حق و باطل کا ٹکراؤ کروا کر حق واضح کر دے۔ اگر تم اور قریش وقت اور جگہ طے کر کے لڑائی کے لیے نکلتے تو یقیناً طے کردہ وعدے پر پہنچنے میں کمی بیشی ہوجاتی، یا تم اپنی تعداد اور تیاری کی کمی کی وجہ سے نہ پہنچتے، یا کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رعب سے خائف ہو کر نہ پہنچتے، مگر اللہ تعالیٰ کا تمہیں عین ایک ہی وادی میں لا جمع کرنا اس لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ پورا کر دے، یعنی مسلمانوں کو فتح اور کفار کو شکست ہو۔ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ : یعنی اس لیے کہ کفار کی اتنی کثرت اور تیاری اور مسلمانوں کی قلت اور بےسروسامانی کے باوجود مسلمانوں کی فتح کے ساتھ کفار پر حجت پوری ہوجائے اور اسلام کی حقانیت واضح ہوجائے، اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھ کر کافر رہے اور ہلاکت میں پڑے اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The battle of Badr was the first confrontation of Kufr and Islam which registered a practical proof of the superiority and veracity of Islam, even visibly and materially. Therefore, the Holy Qur&an has taken special steps to describe its details which appear in the verses cited above. Besides the many considerations of wisdom behind these details, one such consideration is to assert that there was just no possi¬bility, either visibly or technically, that Muslims will win and that the disbelievers of Makkah will be defeated. But, the unseen power of Al¬lah Ta` ala overturned all superiority of men and materials as well as its obvious causes. To give a clear picture of this event, the Holy Qur&an has virtually outlined in these verses a whole map of the bat¬tlefront at Badr. Now, before we explain these verses, let us glance over the lexical explanation of some words. The word: عُدْوَةِ (&udwah) refers to a side and the word: دُنیَا (dunya) is derived from: اَدنٰی (adna) which means nearer. When compared to the Hereafter, this world of ours is also called: دُنیَا (dunya) because, as re¬lated to the universe of the Hereafter, it is closer at hand for human beings. And the word: قُصْوَىٰ (quswa) is a derivation from: اَقصٰی (aqsa) which means farther. In verse 42, death has been mentioned against life. The Arabic words used here do not carry the outward sense of death and life. Instead, meant here is spiritual death and life, or destruction and salva¬tion. Spiritual life is Islam (belief in Allah and the Messenger) and &Iman (faith), and spiritual death is Shirk (polytheism) and Kufr (disbelief). The Holy Qur&an has used these words at several places in this very sense. For instance, earlier in Surah al-Anfal, it was said: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ O those who believe, respond to Allah and the Messenger when He calls you to what gives you life. (8:24). The life mentioned here is the real and eternal life which one is blessed with in return for &Iman and Islam. Now, we can move to a detailed explanation of the cited verses. Opening with almost a cartographic view of the war front at Badr, verse 42 tells us that Muslims were on the nearest cliff (عُدْوَةِ الدُّنْيَا) and the disbelievers were on the farthest one (عُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ ). The spot occupied by Muslims was on the side of the terrain closer to Madinah, while the disbelievers had taken the other side of the terrain which was farther from Madinah. As for the trade caravan of Abu Sufyan, the main cause of waging this Jihad, that too was closer to the army of disbelievers which had come from Makkah but was out of the range of attack by Muslims and moving by the sea shore at a distance of three miles. The purpose of focusing on this battle plan is to say that Muslims were lo¬cated at a spot totally unsuitable and wrong strategically, a spot from where they had no chance of overpowering the enemy, in fact, no chance of even saving their own lives - because, the &side of the terrain which was closer to Madinah happened to be a big sandy patch walk¬ing through which was hard and heavy. Then, they had no access to water around the spot they were in, while the side farther from Madi¬nah where the disbelievers had set up their camps was smooth terrain with a supply of water close by. Then, by pointing out to the two edges of the sides occupied by the two armies, it was made much too clear that the two forces were standing face to face, under which condition, it was not possible to con¬ceal the strength or weakness of one party from the other. In addition to that, it was also indicated that the army of the disbelievers of Mak¬kah was already at peace with the realization that their trade caravan had moved away from the attacking range of Muslims. Now, if they needed them at some stage, they too could come out to help them. As compared to them, Muslims were in trouble in terms of their location where they had no probability of getting support of men and materials from anywhere. Then, it is already settled, and known to every educat¬ed Muslim, that the total count of Muslim &army& was three hundred and thirteen, while that of the disbelievers was one thousand. Mus¬lims did not have sufficient number of mounts, nor did they have enough weapons. Against that, the army of the disbelievers was laced with everything. Besides, Muslims simply had not embarked on this Jihad as some armed force ready to fight a war. Being an emergency measure to block the passage of a trade caravan and to lower the morale of the en¬emy, only three hundred and thirteen Muslims had started off ill-prepared, ill-equipped. It was only all of a sudden that there they stood having to confront a thousand-strong force of armed men. This verse of the Qur&an tells us that this event, though it came to pass accidentally, with no intention behind it, but the truth. is that all that happens in this world, accidentally and involuntarily - though, it looks like some plain accident in terms of its level and form - is, in the sight of the Creator of the universe, nothing but the well-set chain of a formidable system. There is nothing in this system which can Be called abrupt or out of place. It will take the whole system to unravel itself to man, only then, man could find out the full range of wisdom hidden behind what was, supposedly, an accidental happening. Take this event of the battle of Badr as a test case. That it came to pass in an accidental and involuntary manner had its own wise consid¬erations as stated in: وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ (And had you rearranged it with each other, you would have deviated from the appointment - 42). It means that, had this battle also been fought like common battles around the world, fought with all possible survey of available options, mutual arguments and crisis resolutions, then, given the dictates of circumstances, this battle would have never been fought. In fact, dif¬ferences would have crept in one way or the other - either, Muslims themselves would have started thinking otherwise because of their be¬ing few and weak against adversaries who were many and strong; or that both parties, the disbelievers and the Muslims, might have not shown up on the battle ground as appointed mutually. As for Muslims, they would have not had the courage to initiate action in view of their being few and weak - and the disbelievers, in whose hearts Allah Ta` ala had already put the awe of Muslims, would have been scared to come out against them despite their superiority in number and strength. Therefore, that formidable Divine system created such conditions on both sides as. would not allow them time and occasion to think and understand. The people of Makkah were so overwhelmed by the dis¬turbing plaint from the trade caravan of Abu Sufyan that they were ready to march out without much deliberation. The Muslims were prompted by the thought that they were going to take care of an ordi¬nary trade caravan and not a formal armed force arrayed against them. But, Allah, the All-Knowing, the All-Wise, so willed that a war starts between them so that the consequences of the victory of Islam which are to emerge from behind this war become visibly manifest. Therefore, it was said: وَلَـٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرً‌ا كَانَ مَفْعُولًا (But [ it happened like this ] so that Allah might accomplish what was destined to be done - 42). It means that, despite conditions being what they were, the war had to be fought so that Allah might accomplish what was destined to be done. And destined to be done was that arrayed against an army of armed and equipped young men a thousand-strong, a motley group of three hundred and thirteen ill-equipped and hunger-stricken Muslims - and that too out of place in terms of the demanding war front – rams itself against what was a virtual mountain for them, then, the unbelievable happens. The mountain turns into smithereens. This insignifi¬cant group of men wins. This is nothing but an all too visible demon¬stration of the fact that some big power was operating behind them, something that thousand-strong army missed. Then, it is also evident that Muslims were supported because of Islam and the disbelievers re¬mained deprived because of their disbelief, something which gave eve¬ry sensible human a criterion to distinguish truth from evil and genu¬ine from the fake. Therefore, at the end of the verse, it was said: لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ (so that whoever is going to die may die know¬ingly, and whoever is going to live may live knowingly - 42). It means that the loud and clear veracity of Islam vis-a-vis the falsity and hor¬ror of Kufr and Shirk was exposed for ever so that anyone who opts for destruction should do so while fully realizing the consequences of his or her action, and anyone who goes on to live should also live with full realization of the choice so made. The caveat is: Let nothing be done unknowingly and mistakenly, so be on guard. The word: هَلَاكَت (halakah: death, destruction) in this verse means Kufr or disbelief while حَیَات (hayat : life) denotes Islam. In other words, once the truth has come out in the open, the probability and excuse of misunderstanding stand eliminated. Now, whoever takes to disbelief as his or her life style is going towards destruction with open eyes. And whoever takes to Islam takes to eternal life knowingly, consciously and deliberately. Then, it was said: وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ (And Allah is indeed All-Hearing, All-Knowing - 42) that is, He knows the secrets in everyone&s heart, even the nature of everyone&s belief and disbelief, as well as the due reward and punishment for it.

خلاصہ تفسیر یہ وہ وقت تھا کہ جب تم اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے اور وہ لوگ ( یعنی کفار) اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے ( ادھر والے سے مراد مدینہ سے نزدیک کا موقع اور ادھر والے سے مراد مدینہ سے دور کا موقع) اور وہ قافلہ ( قریش کا) تم سے نیچے کی طرف کو ( بچا ہوا) تھا ( یعنی سمندر کے کنارے کنارے جارہا تھا حاصل یہ کہ پورے جوش کا سامان جمع ہو رہا تھا کہ دونوں آپس میں آمنے سامنے تھے کہ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر جوش میں آئے ادھر قافلہ رستہ ہی میں تھا جس کی وجہ سے لشکر کفار کو اس کی حمایت کا خیال دلنشین ہوا جس سے اور جوش میں زیادتی ہو غرض وہ ایسا شدید وقت تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تم پر امداد غیبی نازل کی جیسا اوپر ارشاد ہوا ہے (آیت) اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) اور ( وہ تو مصلحت یہ ہوئی کہ اتفاقا مقابلہ ہوگیا ورنہ) اگر ( پہلے سے حسب معمول و عادت) تم اور وہ ( لڑائی کے لئے) کوئی بات ٹھہراتے ( کہ فلاں وقت لڑیں گے) تو ( مقتضا حالت موجودہ کا یہ تھا کہ) ضرور اس تقرر کے بارے میں تم میں اختلاف ہوتا ( یعنی خواہ صرف مسلمانوں میں باہم کہ بوجہ بےسرو سامانی کے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا اور خواہ کفار کے ساتھ اختلاف ہوتا جس کی وجہ اس طرف بےسرو سامانی اور اس طرف مسلمانوں کا رعب بہرحال دونوں طرح اس جنگ کی نوبت نہ آتی پس اس میں جو فوائد ہوئے وہ ظہور میں نہ آتے جن کا بیان لِّيَهْلِكَ میں آتا ہے) لیکن ( اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کردیا کہ اس کی نوبت نہیں آئی بلا قصد لڑائی ٹھن گئی) تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے یعنی تاکہ ( حق کا نشان ظاہر ہوجائے اور) جس کو برباد ( یعنی گمراہ) ہونا ہے وہ نشان آئے پیچھے برباد ہو اور جس کو زندہ ( یعنی ہدایت یافتہ) ہونا ہے وہ ( بھی) نشان آئے پیچھے زندہ ہو ( مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا لڑائی ہونا تاکہ ایک خاص طریق سے اسلام کا حق ہونا ظاہر ہوجائے کہ اس قلت عدد و کم سامانی پر مسلمان غالب آئے جو کہ خارق عادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام حق ہے پس اس سے حجت الہیہ تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا کہ جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق قبول کرلے گا۔ خلاصہ حکمت کا یہ ہوا کہ حق واضح ہوجائے) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں ( کہ اس وضوح کے بعد زبان اور قلب سے کون کفر کرتا ہے اور کون ایمان لاتا ہے اور) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے خواب میں آپ کو وہ لوگ کم دکھلائے ( چناچہ آپ نے صحابہ کو اس خواب کی خبر کی ان کے دل خوب قوی ہوگئے) اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو وہ لوگ زیادہ کرکے دکھا دیتے ( اور آپ صحابہ سے فرما دیتے) تو ( اے صحابہ) تمہاری ہمتیں ہار جاتیں اور اس امر ( قتال) میں تم میں باہم نزاع ( اور اختلاف) ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ( اس کم ہمتی اور اختلاف سے تم کو بچا لیا بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے ( اس کو معلوم تھا کہ اس طرح ضعف پیدا ہوگا اس طرح قوت، اس لئے ایسی تدبیر کی) اور ( صرف خواب ہی میں آپ کو کم دکھلانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تتمیم حکمت کے لئے بیداری میں مقابلہ کے وقت مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھلائی دیئے جیسا کہ بالعکس بھی ہوا جو کہ واقع کے مطابق بھی تھا چناچہ فرماتے ہیں کہ) اس وقت کو یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہے تھے اور ( اسی طرح) ان کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہے تھے تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے ( جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ الخ) اور سب مقدمے خدا ہی کی طرف رجوع کئے جائیں گے ( وہ ہالک اور حی یعنی گمراہ اور مہتد کو سزا و جزا دیں گے ) ۔ معارف ومسائل غزوہ بدر کفر و اسلام کا وہ پہلا معرکہ تھا جس نے ظاہری اور مادی طور پر بھی اسلام کی برتری اور حقانیت کا ثبوت دیا اس لئے قرآن کریم نے اس کی تفصیلات بیان کرنے کا خاص اہتمام فرمایا۔ آیات متذکرہ میں اسی کا بیان ہے۔ جس کے ذکر میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے علاوہ ایک خاص مصلحت اس کا اظہار ہے کہ اس معرکہ میں ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کے فتح پانے کا کوئی امکان نہ تھا اور مشرکین مکہ کی شکست کا کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی قوت نے سارے ساز و سامان اور ظاہری اسباب کی کایا پلٹ دی۔ اسی واقعہ کی وضاحت کے لئے ان آیات میں غزوہ بدر کے محاذجنگ کا پورا نقشہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے ان آیات کی تشریح سے پہلے چند الفاظ و لغات کی تشریح دیکھ لیجئے۔ عُدْوَةِ کے یعنی ایک جانب کے آتے ہیں اور لفظ دُّنْيَا ادنی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں قریب تر۔ آخرت کے مقابلہ میں اس جہان کو بھی دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم آخرت کی نسبت انسان کی طرف قریب تر ہے۔ اور لفظ قُصْوٰي اقصی سے بنا ہے اقصی کے معنی ہیں بعید تر۔ بیالیسویں آیت میں ہلاکت اور اس کے مقابلہ میں حیات کا ذکر آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے موت وحیات کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ معنوی موت وحیات یا ہلاکت و نجات مراد ہے۔ معنوی حیات اسلام و ایمان ہے اور موت شرک و کفر۔ قرآن کریم نے کئی جگہ یہ الفاظ اس معنی میں استعمال کئے۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی اے ایمان والو تم کہا مانو اللہ و رسول کا جب تم کو وہ ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات ہے۔ مراد حیات سے وہ حقیقی حیات اور دائمی راحت ہے جو ایمان و اسلام کے صلہ میں ملتی ہے۔ اب آیات کی تفسیر یہ ہوئی کہ : بیالیسویں آیت میں غزوہ بدر کے محاذ جنگ کا نقشہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان عُدْوَةِ دُّنْيَا کے پاس تھے اور کفار عُدْوَةِ قُصْوٰي کے پاس مسلمانوں کا مقام اس میدان کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ سے قریب تھا اور کفار میدان کے دوسرے کنارے پر تھے جو مدینہ سے بعید تھا۔ اور ابو سفیان کے تجارتی قافلہ جس کی وجہ سے یہ جہاد کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی مکہ سے آنے والے لشکر کفار سے قریب اور مسلمانوں کی زد سے باہر تین میل کے فاصلہ پر سمندر کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ اس نقشہ جنگ کے بیان سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنگی اعتبار سے مسلمان بالکل بےموقع غلط جگہ ٹھہرے تھے جہاں سے دشمن پر قابو پانے کا بلکہ اپنی جان بچانے کا بھی کوئی امکان ظاہری اعتبار سے نہ تھا۔ کیونکہ اس میدان کی وہ جانب جو مدینہ سے قریب تھی ایک ریتیلی زمین تھی جس میں چلنا بھی دو بھر تھا۔ پھر پانی کی کوئی جگہ ان کے پاس نہ تھی۔ اور مدینہ سے بعید والی جانب جس پر کفار نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا وہ صاف زمین تھی اور پانی بھی وہاں سے قریب تھا۔ اور اس میدان کے دونوں کناروں کا پتہ دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ دونوں لشکر باکل آمنے سامنے تھے کہ کسی کی طاقت یا ضعف دوسرے سے مخفی نہ رہ سکتا۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ مشرکین مکہ کے لشکر کو یہ بھی اطمینان حاصل تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے نکل چکا ہے اب اگر ہمیں ضرورت پڑے تو وہ بھی ہماری امداد کرسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل مسلمان اپنی جگہ کے اعتبار سے بھی تکلیف و پریشانی میں تھے اور کہیں سے کمک ملنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ اور یہ بات پہلے سے متعین اور ہر لکھے پڑھے آدمی کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ سواریوں کی تعداد کافی تھی اور نہ اسلحہ کی۔ اس کے بالمقابل لشکر کفار ان سب چیزوں سے آراستہ تھا۔ نہ مسلمان اس جہاد میں کسی مسلح لشکر سے جنگ کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ ہنگامی طور پر ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے اور دشمن کی قوت کو پست کرنے کے خیال سے صرف تین سو تیرہ مسلمان بےسامانی کے عالم میں نکل کھڑے ہوئے تھے اچانک غیر ارادی طور پر ایک ہزار جوانوں کے مسلح لشکر سے مقابلہ پڑگیا۔ قرآن کی اس آیت نے بتلایا کہ لوگوں کی نظر میں یہ واقعہ اگرچہ ایک اتفاقی حادثہ کی سورت میں بلا ارادہ پیش آیا۔ لیکن دنیا میں جتنے اتفاقات غیر اختیاری صورت سے پیش آیا کرتے ہیں ان کی سطح اور صورت اگرچہ محض اتفاقات کی ہوتی ہے لیکن خالق کائنات کی نظر میں وہ سب کے سب ایک مستحکم نظام کی لگی بندھی کڑیاں ہوتی ہیں ان میں کوئی چیز بےربط یا بےموقع نہیں ہوتی۔ جب وہ پورا انظام سامنے آجائے اس وقت انسان کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس اتفاقی واقعہ میں کیا کیا حکمتیں مستور تھیں۔ غزوہ بدر ہی کے واقعہ کو لے لیجئے اس کی اتفاقی اور غیر اختیاری صورت سے ظاہر ہونے میں یہ مصلحت تھی کہ (آیت) وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ، یعنی اگر عام دنیا کی جنگوں کی طرف یہ جنگ بھی تمام پہلوؤں پر غور و فکر اور باہمی قراردادوں کے ذریعہ لڑی جاتی تو حالات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ جنگ ہوتی ہی نہیں بلکہ اس میں اختلاف پڑجاتا خواہ اس طرح کہ خود مسلمانوں کی رائے اپنی قلت و کمزوری اور مقابل کی کثرت و قوت کو دیکھ کر مختلف ہوجاتی یا اس طرح کہ دونوں فریق اہل کفر و اہل اسلام مقررہ وعدہ پر میدان میں نہ پہنچتے۔ مسلمان تو اپنی قلت و کمزوری کو دیکھ کر اقدام کی ہمت نہ کرتے اور کفار پر حق تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب جمایا ہوا تھا وہ کثرت و قوت کے باوجود مقابلہ پر آنے سے گھبراتے۔ اس لئے قدرت کے مستحکم نظام نے دونوں طرف ایسے حالات پیدا کردیئے کہ زیادہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملے۔ مکہ والوں کو تو ابوسفیان کے قافلہ کی گھبرائی ہوئی فریاد نے ایک ہولناک صورت میں سامنے آکر بےسوچے سمجھے چلنے پر آمادہ کردیا۔ مسلمانوں کو اس خیال نے کہ ہمارے مقابلہ پر کوئی جنگی مسلح لشکر نہیں۔ ایک معمولی تجارتی قافلہ ہے۔ مگر علیم وخبیر کو منظور یہ تھا کہ دونوں میں باقاعدہ جنگ ہوجائے تاکہ اس جنگ کے پیچھے جو نتائج فتح اسلام کے ظہور میں آنے والے ہیں وہ سامنے آجائیں۔ اسی لئے فرمایا (آیت) وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا، یعنی ان حالات کے باوجود جنگ اس لئے ہو کر رہی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام کرنا ہے اس کی تکمیل کر دکھائے۔ اور وہ یہ تھا کہ ایک ہزار جوانوں کے مسلح باسامان لشکر کے مقابلہ میں تین سو تیرہ بےسرو سامان فاقہ زدہ مسلمانوں کی ایک ٹولی اور وہ بھی محاذجنگ کے اعتبار سے بےموقع جب اس پہاڑ سے ٹکراتی ہے تو یہ پہاڑ پاش پاش ہوجاتا ہے اور یہ چھوٹی سی جماعت فتح مند ہوتی ہے جو کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہے کہ اس جماعت کی پیٹھ پر کوئی بڑی قدرت اور طاقت کام کر رہی تھی جس سے یہ ایک ہزار کا لشکر محروم تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی تائید اسلام کی وجہ سے اور اس کی محرومی کفر کی وجہ سے تھی۔ جس سے حق و باطل اور کھرے کھوٹے کا پورا امتیاز ہر سمجھدار انسان کے سامنے آگیا۔ اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ (آیت) لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ ۔ یعنی واقعہ بدر میں اسلام کی کھلی حقانیت اور کفر و شرک کے باطل و مردود ہونے کو اس لئے کھول دیا گیا کہ آئندہ جو ہلاکت میں پڑے وہ دیکھ بھال کر پڑے اور جو زندہ رہے وہ بھی دیکھ بھال کر رہے۔ اندھیرے اور مغالطہ میں کوئی کام نہ ہو۔ اس آیت کے الفاظ میں ہلاکت سے مراد کفر اور حیات و زندگی سے مراد اسلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد غلط فہمی کا احتمال اور عذر تو ختم ہوگیا اب جو کفر اختیار کرتا ہے وہ دیکھتی آنکھوں ہلاکت کی طرف جارہا ہے اور جو اسلام اختیار کرتا ہے وہ دیکھ بھال کر دائمی زندگی اختیار کر رہا ہے پھر فرمایا (آیت) وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اللہ تعالیٰ خوب سننے والے جاننے والے ہیں کہ سب کے دلوں میں چپھے ہوئے کفر و ایمان تک ان کے سامنے ہیں اور ہر ایک کی سزا و جزاء بھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ۝ ٠ ۭ وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۝ ٠ ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝ ٠ۥۙ لِّـيَہْلِكَ مَنْ ہَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ اللہَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٤٢ ۙ ( العدوة) اسم بمعنی جانب الوادي أو حافّته، وزنه فعلة بضمّ الفاء وسکون العین . وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی قصی القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/ 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال . ( ق ص و ) القصی کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا ماکورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی ) ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( س ف ل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خمس کا مصرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خمس میں آپ کے حصے کے مصرف کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ سفیان نے قیس بن مسلم سے انہوں نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کے حصے اور آپ کے قرابت داروں کے حصے کے متعلق لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ ایک گروہ کا خیال یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کا حصہ آپ کی خلیفہ کو ملنا چاہیے۔ ایک اور گروہ کا خیال تھا کہ آپ کے قرابت داروں کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کو ملنا چاہیے پھر سب کا اس پر اجماع ہوگیا کہ یہ دونوں حصے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے سازوسامان اور ہتھیاروں کی تیاری نیز اس مقصد کے لئے گھوڑوں وغیرہ کی پرورش پر صرف کئے جائیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ زندہ تھے، آپ کی وفات کے بعد یہ حصہ بھی اسی طرح ساقط ہوگیا جس طرح صفی کا سقوط ہوگیا یعنی مال غنیمت میں آپ کے لئے مخصوص حصہ یا مخصوص چیز کا حکم آپ کی وفات کے ساتھ ہی ساقط ہوگیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے حصے کو نیز صفی کو مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا اور اسے اجتماعی ضرورت کے مصرف میں خرچ کرنے کے لئے نہیں رکھا گیا۔ آپ کے قرابت داروں کے حصے کے مصرف کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ جامع صغیر کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک خمس کو تین حصوں پر تقسیم کیا جائے اور ان حصوں کو فقراء مساکین اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کے لئے ایک خمس ہے یعنی مال غنیمت کے خمس کا پانچواں حصہ۔ قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ اور آیت میں مذکورہ تین اصناف یعنی تیامی، مساکین اور مسافروں میں سے ہر ایک صنف کے لئے پانچواں حصہ ہے۔ اس طرح مال غنیمت کے خمس کے پانچ حصے کئے جائیں گے سفیان ثوری کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مال غنیمت کے خمس میں سے پانچواں حصہ ہے اور باقیماندہ چار حصے ان اصناف کے لئے ہوں گے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر فرمایا ہے۔ امام مالک (رض) کا قول ہے کہ امام المسلمین اپنی صوابدید اور اجتہاد کے مطابق مال غنیمت کے خمس میں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کو دے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مال غنیمت کا خمس ان اصناف کے لئے ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت میں فرمایا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کا حصہ ان کے اغنیاء اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولذی القربی) ایک مجمل لفظ ہے جس بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے اس میں عموم نہیذں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوی القربیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ اس سے تمام لوگوں کے قرابت دار مراد نہیں ہیں۔ اس لئے یہ فقط مجمل بن گیا اور اسے بیان کی ضرورت پیش آ گئی۔ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار مراد ہیں۔ پھر ان سے کچھ حضرات کا قول ہے کہ آپ کے قرابت داروں میں سے خمس کے پانچویں حصے کے مستحقین صرف وہی لوگ تھے جو آپ کی نصرت کرتے تھے اور اس حصے کا استحقاق دو باتوں پر مبنی تھا، ایک قرابت داری اور دوسری نصرت، آپ کی وفات کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے آپ کے رشتہ دار جن کا آپ کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں تھا وہ فقر کی بناء پر اس حصے کے مستحق ہوں گے جس طرح دوسرے تمام فقراء اس کے مستحق ہیں۔ ان حضرات نے اپنے اس مسلک کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے زہری نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کچا حصہ بنو ہاشم اور بنو المطلب کے درمیان تقسیم کردیا تو میں اور عثمان آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ بنو ہاشم کو جو فضیلت حاصل ہے اس کا ہم انکار نہیں کرتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خاندان میں پیدا فرمایا، لیکن بنو المطلب کو آپ نے حصہ دیا اور ہمیں یعنی بنو عبد شمس کو محروم رکھا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ جب کہ آپ سے ان کی اور ہماری قرابت یکساں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” بنو المطلب نے میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا نہ زمانہ جاہلیت میں اور نہ ہی زمانہ اسلام میں، میرے لئے بنو ہاشم اور بنو المطلب ایک ہی چیز ہیں۔ “ یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلیوں کی تشبیک کی یعنی انہیں ایک دوسرے میں داخل کردیا۔ یہ روایت دو وجوہ سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صرف قرابت کی بناء پر اس حصے کا استحقاق نہیں ہوتا تھا۔ ایک وجہ تو یہ کہ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابت کے لحاظ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یکساں درجے پر تھے۔ لیکن آپ نے بنو المطلب کو حصہ دیا اور بنو شمس کو کوئی حصہ نہ دیا۔ گر قرابت کی بنا پر استحقاق ہوتا تو آپ ان دونوں خاندانوں کچو مساوی طور پر حصہ دیتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں ذوی القربیٰ کے ذکر میں جو اجمال تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل اس اجمال کا بیان اور اس کی تفصیل بن گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فعل جب بیان کے طور پر وارد وتا ہے تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت ک ساتھ نصرت کا بھی ذکر فرمایا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اللہ کے ہاں بھی یہی مراد ہے اس لء جن قرابت داروں کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ فقر کی بنا پر ذوی القربیٰ کے حصے کے مستحق ہوں گے۔ نیز چاروں خلفائے راشدین اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے دریافت کیا تھا کہ حضرت علی (رض) نے ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کس طرح کی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب آپ خلیفہ بنے تو اس معاملے میں آپ نے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کا طریقہ اپنایا۔ آپ یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ان دونوں حضرات کی مخالفت کا آپ پر الزام عائد کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر اس بارے میں حضرت علی (رض) کی اپنی بھی یہ رائے نہ ہوتی تو آپ ہرگز یہ فیصلہ نہ کرتے اس لئے کہ آپ نے بہت سے مسائل میں ان دونوں حضرات سے مختلف مسلک اختیار کیا تھا۔ مثلاً میراث میں دادا کے حصے کے متعلق اسی طرح وظائف میں یکسانیت کے بارے میں آپ کی رائے ان دونوں حضرات سے مختلف تھی۔ اسی طرح کئی اور مسائل ہیں جن میں آپ نے ان حضرات سے اختلاف کیا تھا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علی (رض) کو اس بارے میں حضر ابوبکر (رض) اور عمر (رض) سے اتفاق تھا کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف ان رشتہ داروں کو تھا جو فقراء تھے۔ جب چاروں خلفاء راشدین اس امر پر متفق ہوئے تو ان کے اجماع کی بنا پر اس مسئلے کی حجت اور قطعیت ثابت ہوگئی اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی۔ تم پر میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کے طریقے کی اتباع لازم ہے۔ ) یزید بن ہرمز نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب نجدہ حروری (خوراج کا ایک بڑا سردار) نے حضرت ابن عباس (رض) سے ذوی القربیٰ کے حصے کے متعلق دریافت کروایا تو آپ نے اسے جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ درج تھا۔ ” ہمارا خیال تھا کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے، حضرت عمر (رض) نے ہمارے خاندان والوں کو بلا کر یہ پیشکش کی تھی کہ اس حصے کی مد میں آنے والے مال سے ہم اپنی بین بیاہی اور بیوہ خواتین کی شادیاں کرا دیں اور قرض داروں کے قرض ادا کردیں لیکن ہم اس بات پر اڑ گئے تھے کہ یہ حصہ ہمیں نہ دیا جائے۔ ہماری قوم یعنی خاندان والوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ” بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں۔ لیکچن ہمارے بنو عم نے یہ بات تسلیم نہیں کی تھی۔ “ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ ان کی قوم نے جو سب کے سب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام تھے۔ یہ سمجھا تھا کہ یہ حصہ ان کے فقراء کے لئے ہے، اغنیاء کے لئے نہیں ہے۔ رہ گیا حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول کہ ” ہم سمجھتے ہیں تھے کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے۔ “ دراصل ان کی اپنی رائے تھی اور اسی بنا پر انہوں نے یہ بات کہی تھی، لیکن سنت اور خلفاء اربعہ کے متعفقہ طرزعمل کے مقابلہ میں اس رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے اس بیان کی روشنی میں جو انہوں نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے، حضرت عمر (رح) کے قول کی صحت پر زہری کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عبداللہ بن الحارث بن نوفل سے روایت کی ہے اور انہوں نے المطلب بن ربیعہ بن الحارث سے بیان کیا ہے کہ مطلب (رض) اور فضل بن عباس (رض) دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اور ہمارے پاس مہر میں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں صدقات کی وصولی پر مقرر کردیا جائے اور پھر ہم اس کی وصولی کر کے دوسرے عمال کی طرح آپ کو لا کردیں اور ان کی طرح اس میں سے ہمیں بھی حصہ مل جائے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا (ان الصدقۃ لا تنبغی لال محمد، انماھی اوساخ الناس) ۔ زکوٰۃ کا مال آل محمد کے گھروں میں نہیں جانا چاہیے تو یہ لوگوں کا میل کچیل ہے) پھر آپ نے محمیہ کو حکم دیا کہ ان دونوں کو مہر کی رقم کی مقدار خمس میں سے دے دیں۔ یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو مہر کی مقدار دینے کا حکم دیا تھا، انہیں نکاح کرنے کے لئے اتنی ہی مقدار کی ضرورت تھی۔ آپ نے انہیں ان کی ضرورت سے زائد دینے کا حکم نہیں دیا۔ خمس کو حصول کے مطابق تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی تقسیم کا مسئلہ امام المسلمین کی رائے اور اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (مالی من ھذا الامال الا الخمس والخمس مردود فیکم۔ اسمال غنیمت سے میرے لئے صرف پانچواں حصہ ہے اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہارے اوپر صرف کردیا جاتا ہے) آپ نے اس میں اپنی قرابت داری کی کوئی تخصیص نہیں کی اور دوسروں کو اس سے خارج نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ خمس کے معاملے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار دوسرے فقراء کی طرح ہیں اس میں ان کا صرف اتنا ہی حصہ ہوگا جو ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہوجائے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (یذھب کسری فلا کسری بعدہ ابدا و یذھب قیصر فلا قیصر بعدہ ابدا والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزھما فی سبیل اللہ۔ کسریٰ ، یعنی شہنشاہ ایران ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ قیصر یعنی شاہ روم ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لوگ ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے) آپ نے یہ بتایا کہ ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ ہوں گے۔ آپ نے ان خزانوں کے ساتھ کسی قوم کی تخصیص نہیں کی۔ خمس کی تقسیم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے خمس میں ان لوگوں کو بھی دیا تھا جو مولفۃ القلوب کے ضمن میں آتے تھے حالانکہ آیت خمس میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ آیت خمس میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا انہیں صرف فقر کی بنا پر مستحق قرار دیا گیا ہے۔ یہ یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل یعنی مسافر لوگ ہیں اس لئے ذوی القربیٰ بھی ایسے ہی لوگ ہونے چاہئیں۔ اس لئے کہ انہیں بھی خمس سے حصہ ملتا ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام کردیا گیا تو اس کی جگہ ان کے لئے خمس میں سے حصہ مقرر کردیا گیا اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس حصے کے صرف وہی لوگ حقدار بنیں جو ان میں سے فقراء ہوں۔ جس طرح اصل یعنی زکوٰۃ و صدقات کے صرف وہی لوگ مستحق قرار پائے جو فقراء و مساکین ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ خمس کا یہ حصہ اس اصل کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بنو ہاشم کے موالی یعنی ان کے آزاد کردہ غلاموں اور ان کے ساتھ عقد موالات کرنے والوں کے لئے زکوٰۃ و صدقات کا مال حلال نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ خمس کے حصے کے مستحقین میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہب ات غلط ہے۔ اس لئے کہ بنو ہاشم کے موالی کے لئے خمس کے اندر حصہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ فقراء ہوں جس طرح بنو ہاشم کے لئے حصہ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار فقر اور حاجت کی بنا پر خمس کے حصے کے حق دار شمار ہوتے ہیں تو پھر آیت میں خصوصیت کے ساتھ ان کے ذکر کی کیا وجہ ہے جب کہ یہ مساکین کے گروہ میں شامل ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ان کے ذکر کی وہی حیثیت ہے جو یتامیٰ اور ابن السبیل کے ذکر کی ہے حالانکہ یتامیٰ اور ابن السبیل فقر کی بنا پر ہی خمس کے حصے کے مستحق ہوتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جب خمس کو یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے مخصوص کردیا جس طرح صدقات کی اپنے اس قول کے ذریعے تخصیص کردی (انما الصدقات للفقراء والمساکین) تا آخر آیت۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا (ان الصدقۃ لا تحل لال محمد آل محمد کے لئے صدقات حلال نہیں) تو اگر آیت خمس میں ان قرابت داروں کا ذکر نہ ہوتا تو کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ خمس میں سے انہیں دینا جائز نہیں ہے جس طرح زکوٰۃ و صدقات میں سے انہیں دینا جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں ان کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ خمس کے مال میں ان کا حکم زکوۃ و صدقات کے مال کے حکم سے مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا حضرت عباس (رض) کو خمس میں سے دیا تھا، حالانکہ وہ مالدار تھے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خمس میں ذوالقربیٰ کا حصہ ان کے فقراء اور اغنیاء سب کے لئے ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جائے گا۔ ایک تو یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا تھا کہ آپ نے انہیں قرابت داری اور نصرت کی بنا پر خمس میں سے یہ حصہ دیا تھا۔ چناچہ آپ کا ارشاد ہے (انھم لم یفار قونی فی الجاھلیۃ ولا اسلام۔ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا) اس لئے قرابت اور نصرت میں یکسانیت کی بناء پر آپ کے تمام رشتہ دار خواہ وہ فقیر ہوں یا غنی خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کے یکساں مستحق ہوں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ شاید آپ نے حضرت عباس (رض) کو یہ حصہ فقراء بنی ہاشم کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے دیا ہو، خود ان کی ذات کو نہ دیا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار کون ہیں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار کون ہیں اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ آپ کے قرابت دار وہ لوگ ہیں جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل، یہ لوگ آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ زید بن ارقم سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ عبدالمطلب کا سارا گھرانہ اس میں داخل ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خمس میں سے حصہ دیا تھا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ پورا قبیلہ قریش حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرابت دار ہے۔ خمس میں ان سب کا حصہ ہے۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار تھا کہ اپنی صوابدید کے مطابق ان میں سے جسے چاہیں حصہ دے دیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن رشتہ داروں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے متعلق فقہاء کچا اتفاق ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں۔ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابتداری میں یکساں درجے پر ہیں۔ اگر بنو مطلب کا ایسے قرابت داروں میں شامل ہونا ضروری ہے جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے تو پھر بنو عبدشمس کا بھی ان کی طرح ہونا ضروری ہوگا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت داری میں بنو عبدشمس بنو مطلب کے ہم پلہ اور یکساں درجے پر ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مطلب کو خمس میں طے حصہ دیا تھا اور بنو عبدشمس کو نہیں دیا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بنو مطلب کو یہ حصہ آپ کی نصرت کرنے کی بنا پر ملا تھا اس لئے کہ آپ نے خود فرما دیا تھا کہ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ رہ گئی زکوۃ اور دیگر صدقات تو تمام فقہاء کے نزدیک اس کی تحریم کا نصرت سے کوی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بنو المطلب بنی عبدشمس کی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل میں سے نہیں ہیں جن پر زکوۃ حرام ہوتی ہے۔ بنو ہاشم کے موالی پر زکوۃ حرام ہوتی ہے حالانکہ ان کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی قرابت داری نہیں ہوتی۔ یہ لوگ قرابت کی بنیاد پر خمس کے مستحق نہیں ہوتے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خمس کے مال میں سے ایک خدمت گار طلب کیا تھا تو آپ نے انہیں تسبیحات پڑھنے کے لئے کہا تھا اور کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے حضرت فاطمہ (رض) کو خمس میں سے اس لئے نہیں دیا تھا کہ وہ آپ کے ذوی القربیٰ کے ضمن میں نہیں آتی تھیں اس لئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں سے بڑھ کر آپ کی قرابت دار تھیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھی اسی خطاب سے پکارا تھا جبکہ حضرت علی (رض) آپ کے ذوی القربی کے ضمن میں شامل تھے۔ اسی طرح آپ نے اپین بعض چچازاد بہنوں کو جب وہ حضرت فاطمہ (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خدمت گار طلب کرنے گئی تھیں فرما دیا تھا (سبتکن یتامی بدر، جو لوگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کی یتیم اولاد تم سے سبقت لے گئی) یعنی ان کی ضروریات پہلے پوری کردی گئیں جبکہ ان یتیموں میں ایے بھی تھے جن کا تعلق بنو ہاشم سے نہیں تھا۔ اس لئے کہ ان میں اکثر حضرات انصار کی اولاد تھی۔ اگر حضرت فاطمہ (رض) اور ان کے ساتھ جانے والی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچازاد بہن قرابت کی بنا پر کسی چیز کی مستحق ہوتیں جس سے انہیں روکنا جائز نہ ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز ان سے ان کا حق نہ روکتے اور کسی اور کو نہ دیتے۔ اس امر میں دو باتوں پر دلیل موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ آپ ان میں سے جسے چاہتے اس حصے میں سے دے دیتے۔ دوسری بات یہ کہ انہیں خمس میں سے دینے یا نہ دینے کا تحریم صدقات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ قریش کا سارا قبیلہ آپ کا قرابت دار ہے وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ جب قول باری (و انذر عشیرتک الاقربین اور اپنے کنبہ کے عزیزوں کو ڈراتے رہیں) کا نزول ہوا تو آپ نے قبیلہ قریش کے بطون یعنی مختلف شاخوں کا نام لے کر مثلاً ” اے بنی فہر، اے بنی عدی،۔ اے بنی فلاں وغیرہ “ ان سے فرمایا (انی نذیرلکم بین یدی عذاب شدید، میں تمہیں ایک زبردست عذاب کی آمد سے ڈرا رہا ہوں) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا : اے بنی کعب بن لوئی، اے بنی ہاشم۔ اے بنی قصی، اے بنی عبد مناف “ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے : ’ دشاید میں بنی ہاشم کو جمع کرلوں۔ “ بنو ہاشم کے افراد کی تعداد چالیس تھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبیلہ قریش سارے کا سارا آپ کا قرابت دار ہے اور خمس میں سے انہیں کچھ دینے کا معاملہ آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا تو آپ نے ان میں سے صرف ایسے لوگوں کو کچھ دیا، جنہوں نے آپ کی نصرت کی تھی۔ دوسروں کو کچھ نہیں دیا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں قرابت کے اسم کا ان سب پر اطلاق ہوتا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالا آیت کے نزول کے بعد ان سب کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اکٹھا کیا تھا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرابت کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوی القربیٰ کے ساتھ تین احکام کا تعلق ہوگیا۔ اول خمس کے ایک حصے میں ان کا استحقاق اس لئے کہ قول باری ہے (وللرسول ولذی القربی) تاہم ان شرطوں کے مطابق ان کا فقراء ہونا ضروری ہوگا جن کا ہم نے ان کے معتلق اختلاف رائے رکھنے والوں کے اقوال کی صورت میں ذکر کردیا ہے۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یہ آل علی، آل عباس، آل عقیل، آل جعفر اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ یہ اہل بیت نبی کہلاتے ہیں، بنو المطلب کے ساتھ اس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں شمار نہیں ہوتے۔ اگر یہ لوگ آپ کے اہل بیت میں داخل ہوتے تو اس صورت میں بنو امیہ بھی آپ کے اہل بیت اور آل میں شامل ہوتے جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بنی امیہ کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے بنو المطلب کو بھی یہی حیثیت ہوگی اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رشتہ داری کے اندر ان دونوں خاندانوں کو یکساں درجہ حاصل ہے۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنے قرابت داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کی تخصیص فرما دی۔ یہ چیز قبیلہ قریش کی تمام شاخوں کو شامل تھی جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ آیت (وانذر عشیرتک الاقربین) کے نزول پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے پورے قبیلے کو عذاب الٰہی سے ڈرایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ آیت کے نزول پر یہ طریق کار دین کی طرف بلانے کے لئے زیادہ موثر تھا اور اس کے ذریعہ اللہ کی طرف دعوت کے کام میں نرمی نہ دکھانے اور باہمی تعلقات الفت و نظرانداز کردینے کا بھوپر مظاہرہ ہوا تھا۔ اس لئے جب تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہوگیا ہو گا کہ آپ نے اپنے قبیلے کے لوگوں کی بت پرستی کو برداشت نہیں کیا بلکہ انہیں اس کے انجام سے ڈرایا اور انہیں اس سے روکا تو انہیں یہ محسوس ہوگیا ہو گا کہ آپ دوسرے لوگوں کی بت پرستی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر باہمی الفت و محبت اور رشتہ داری اس کے آڑے آسکتی تو پھر آپ کے قرابت دار تمام لوگوں سے بڑھ کر اس لحاظ کے مستحق ہوتے۔ یتیم کسے کہتے ہیں ؟ قول باری ہے (والیتامی) یتیم کے اصل معنی تنہا رہ جانے کے ہیں۔ اسی بناء پر ریگستان میں تنہا ٹیلے کو یتیمہ کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ عورت بھی یتیمہ کہلاتی ہے جو شادی کے جھمیلوں سے اپنے آپ کو الگ رکھتی ہے ۔ تاہم عرف عام میں یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ گزر چکا ہو۔ جب اس کا اطلاق ہوتا ہے تو اس سے فقیر کے معنی کا بھی احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاندان کے یتیموں کے لئے کچھ وصیت کر جائے اور اس خاندان میں بیشمار یتیم ہوں تو وصیت درست ہوگی اور ان میں جو فقراء ہوں گے انہیں یہ وصیت مل جائے گی نیز اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت زیر بحث میں یتیمی کے ساتھ فقر بھی مراد ہے اور مالدار یتیموں کا خمس کے اندر کوئی حق نہیں ہوتا۔ یتیم کے لفظ کا اطلاق اس نابالغ پر ہوتا ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، بالغ پر نہیں ہوتا اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ (لا یتم بعد حلم۔ بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں رہتی) ایک قول ہے کہ انسان کے سوا ہر جاندار کا بچہ اپنی ماں کے مرجانے پر یتیم کہلاتا ہے لیکن انسان کا بچہ باپ کے مرجانے پر یتیم شمار ہوتا ہے۔ ابن السبیل قول باری ہے (وابن السبیل) اس سے مراد وہ مسافر ہے جو اپنے گھر سے بچھڑ گیا ہو اور اسے اپنے گھر تک پہنچنے کے لئے مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہو خواہ گھر پر مال کیوں نہ موجود ہو۔ اس کی حیثیت اس فقیر جیسی ہوگی جس کے پاس کوئی مال نہیں، اس لئے کہ فقیر کو خمس میں سے دینے کے وجوب کی علت یہ ہے کہ اسے مال کی حاجت ہوتی ہے۔ اس لئے ایسا شخص جس کے پاس مال تو ہو لیکن اس کی دسترس سے باہر ہو اس شخص کی طرح ہوتا ہے جس کے پاس سرے سے مال ہی نہیں ہوتا۔ ان دونوں میں احتیاج کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مسکین کے متعلق فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے ہم اس کا صدقات کی آیت کی تفسیر میں ذکر کریں گے۔ جب تمام کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ابن السبیل اور یتیم اپنے نام اور لیبل کی بنا پر خمس کے اندر حصے کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ فقر اور حاجت مندی کی بنا پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ خمس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسے مساکین پر صرف کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب فقر استحقاق کی علت قرار پایا ہے تو پھر ذوی القربیٰ کے ذکر کا کیا فائدہ ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کے ذکر میں بہت بڑا فائدہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ جب آل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقات و زکوۃ کا مال حرام کردیا گیا تو کسی شخص کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ ان پر صدقات کی طرح خمس بھی حرام ہے کیونکہ خمس کا مصرف بھی فقراء تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں، ان کا ذکر کر کے یہ واضح فرما دیا کہ فقر کی بناء پر ذوی القربیٰ بھی خمس کے اندر حصوں کے حقدار ہوں گے اور انہیں اس علت کی بناء پر حصہ دینا جائز ہوگا۔ اس اعتراض سے خود معترض پر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ پھر اسے نام کی نبی اد پر یتیموں اور مسافروں کو خمس میں سے حصہ دینا چاہیے اور فقر و حاجت مندی کو نظرانداز کردینا چاہیے۔ اس لئے ذوی القربیٰ کی صورت میں اگر معترض کا اعتراف تسلیم کرلیا جائے تو یہی بات ابن السبیل اور یتامیٰ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ جب استحقاق فقر کی بنیاد پر ہوتا ہے تو پھر آیت خمس میں ابن السبیل اور یتامیٰ کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ یہ دونوں فقرز ہی کی بنا پر خمس کے اندر کسی حصے کا استحقاق رکھ سکتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) اے مومنوں کی جماعت جب کہ تم مدینہ منورہ سے قریب ایک گھاٹی کے اس طرف اور ابوجہل اور اس کے ساتھی مدینہ منورہ سے دور وادی کے پیچھے تھے اور ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا قافلہ دریا کے کنارا پر اس سے تین میل دور تھا اور اگر تم مدینہ منورہ میں لڑائی کے لیے کوئی اور بات طے کرتے تو مدینہ منورہ میں اس چیز کے بارے میں تمہارے اندر ضرور اختلاف ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کی مدد اور مال غنیمت کا دینا اور ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کا مارا جانا اور شکست کھانا منظور تھا، لہٰذا اس کی تکمیل کردی تاکہ جس کو اللہ تعالیٰ کفر پر ہلاک کرنا چاہے اس کو ہلاک فرما دے اس کے باوجود کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا اعلان ہوچکا ہو، اور اس اعلان کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ ایمان پر ثابت قدم رکھنا چاہے، اسے ثابت قدم رکھ دے یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کے اعلان کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ کافر رکھنا چاہے وہ کافر رہے اور جس کو ایمان پر ثابت قدم رکھنا چاہے وہ اس چیز کے بیان کے بعد بھی ایمان پر ثابت قدم رہے، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سننے والے اور ان کی قبولیت اور تمہاری مدد کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ بالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی) وادئ بدر دونوں اطراف سے تنگ ہے جب کہ درمیان میں میدان کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس وادی کا ایک تنگ کنارہ شمال کی طرف ہے جہاں سے شام کی طرف راستہ نکلتا ہے اور دوسرا کنارہ جنوب کی طرف ہے جہاں سے مکہ کو راستہ جاتا ہے۔ وادی میں سے ایک راستہ مشرق کی سمت بھی نکلتا ہے جو مدینہ کی طرف جاتا ہے۔ لہٰذا پرانے زمانے میں حاجیوں کے زیادہ تر فاقلے وادئ بدر سے ہی گزرتے تھے۔ اب نئی موٹر وے طریق الھجرۃ بن جانے سے لوگوں کو ان مقامات سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تدبیر کا ظہور ہوا کہ دونوں لشکر وادئ بدر میں ایک ساتھ پہنچے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے کہ جب قریش کا لشکر وادی کے دور والے (جنوبی) کنارے پر آپہنچا اور مشرق کی جانب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا لشکر لے کر اس کنارے پر پہنچ گئے جو مدینہ سے قریب تھا۔ (وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط) قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت نیچے ساحل سمندر کی طرف سے ہو کر گزر رہا تھا۔ ابوسفیان نے ایک طرف تو قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ والوں کو پیغام بھیج دیا تھا اور دوسری طرف اصل راستے کو چھوڑ دیا تھا جو وادی بدر سے ہو کر گزرتا تھا اور اب یہ قافلہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ بدر کے پہاڑی سلسلے سے آگے تہامہ کا میدان ہے جو ساحل سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ اور قافلہ اس وقت اس میدان کی بھی آخری حدود پر سمندر کی جانب تھا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قافلہ تم سے نچلی سطح پر تھا۔ (وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْْمِیْعٰدِلا) یعنی یہ تو اللہ کی مشیت کے تحت دونوں لشکر ٹھیک ایک ہی وقت پر وادی کے دونوں کناروں پر پہنچے تھے۔ اگر آپ لوگوں نے مقام معین پر پہنچنے کے لیے آپس میں کوئی وقت مقرر کیا ہوتا تو اس میں ضرور تقدیم و تاخیر ہوجاتی ‘ لیکن ہم نے دونوں لشکروں کو عین وقت پر ایک ساتھ آمنے سامنے لا کھڑا کیا ‘ کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ یہ ٹکراؤ ہوجائے اور اہل مکہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے۔ (وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً لا) (لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ ) یعنی حق کے واضح ہوجانے میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ اہل مکہ میں سے ان عوام کے لیے بھی حق کو پہچاننے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے جنہیں اب تک سرداروں نے گمراہ کر رکھا تھا۔ اگر اب بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ ہلاکت کے راستے پر ہی گامزن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ‘ مگر ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کو ہلاک ہی ہونا ہے تو ان میں سے ہر فرد حق کے پوری طرح واضح ہونے کے بعد ہلاک ہو۔ (وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ جو سیدھے راستے پر آنا چاہتا ہے وہ بھی اس بَیِّنَہ کی بنا پر سیدھے راستے پر آجائے اور حیات معنوی حاصل کرلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34. The living and the dead spoken of in the above verse do not signify the individuals who survived the battle or those killed during it. The reference here is to the ideological entities of Islam and Jahiliyah. 35. God is neither blind nor deaf nor ignorant. On the contrary, He is All-Knowing, All-Seeing, All-Wise. Hence, we find reflection of God's knowledge, wisdom and justice in history.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :34 یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا ۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :35 یعنی خدا اندھا ، بہرا ، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے ۔ اس کی خدائی میں اندھا دُھند کام نہیں ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: یہ میدانِ جنگ کا نقشہ بتایاجارہا ہے۔ ’’بدر‘‘ ایک ودای کا نام ہے، اُس کا وہ کنارہ جو مدینہ منورہ سے قریب تر ہے، اس پر مسلمانوں کا لشکر فروکش تھا، جو کنارہ مدینہ منورہ سے نسبۃً دُور ہے، اُس پر کفار کا لشکر تھا۔ اور قافلے سے مراد ابوسفیان کا قافلہ ہے جو اس وادی کے نیچے کی جانب ساحلِ سمندر کی طرف بچ کر نکل گیا تھا۔ تفصیل اس سورت کے شروع میں بیان ہوچکی ہے۔ 29: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب ایسے پیدا فرمادیئے کہ کفارِ مکہ سے باقاعدہ جنگ ٹھن گئی، ورنہ اگر دونوں فریق پہلے سے جنگ کے لئے کوئی وقت طے کرنا چاہتے تو اِختلاف ہوجاتا، مسلمان چونکہ بے سروسامان تھے، اس لئے باقاعدہ جنگ سے کتراتے، اور مشرکین کے دِلوں پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت تھی، اس لئے وہ بھی خواہش کے باوجود جنگ کو ٹلانا چاہتے۔ لیکن جب انہیں اپنا تجارتی قافلہ خطرے میں نظر آیا تو ان کے پاس جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، اور مسلمانوں کے سامنے جب لشکر آہی گیا تو وہ بھی لڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ یہ اسباب ہم نے اس لئے پیدا کئے کہ ایک مرتبہ فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی فتح ونصرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کھل کر سامنے آجائے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص کفر کرکے بربادی کا راستہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کے واضح ہونے کے بعد اِختیار کرے، اور جو شخص اسلام لاکر باعزت زندگی اختیار کرے، وہ بھی اس واضی دلیل کی روشنی میں کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ اللہ پاک نے اس آیت میں مسلمانوں پر اپنا یہ احسان جتلایا ہے کہ ہم نے کس طرح تم کو کفار کے مقابل کردیا اور کس خوبی سے جنگ کا سامان مہیا کردیا اگر تم لوگ ارادہ کر کے بھی آتے اور لڑائی کے لئے میعاد بھی مقرر کرلیتے تو یہ بات نصیب نہ ہوتی تم چلے تھے اور خیال سے اور اللہ پاک کا اور ارادہ تھا اس نے اپنا ارادہ پورا کردیا کیونکہ تمہاری حالت یہ تھی کہ ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کو چلے تھے اور مدینہ کے قریب جنگل اور ٹیلوں کے پاس تھے اور تمہارے مخالف قریش مدینہ سے بہت دور پر مکہ کے قریب تھے اور ابوسفیان کا قافلہ مدینہ سے تین میل پر دریا کے پاس اترا ہوا تھا کسی کو کسی کی خبر نہ تھی تمہارے پاؤں ریت کی زمین میں جمتے مشکل تھے اور تمہارے دونوں مخالف ایک سامنے ابوسفیان اچھی زمین پر اترا ہوا تھا دوسرے قریش تمہارے پیشت پر تھے تمہارے تعداد بہت ہی کم تھی دشمنوں کا لشکر شمار میں تم سے کہیں زیادہ تھا ایسی حالت میں ہم نے تمہیں ان لوگوں پر فتحیاب کیا محمد بن اسحاق اپنی سیرت میں یہ کہتے ہیں کہ جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے نکل کر صفرا مقام کے قریب پہنچے تو دو شخصوں کو بسیس بن عمر اور عدی بن ابی الرعباء کو ابوسفیان کی خبر کو بھیجا یہ دونوں جب بدر میں پہنچے تو ایک ٹیلہ پر اوٹنوں کو بٹھا کر پانی کی فکر میں گئے دریا کے کنارہ پر دو لڑکیاں جھگڑ رہی تھیں ایک نے کہا کہ میرا حق دے دے دوسری نے کہا کل لشکر آئے گا تو دے دوں گی اتنے میں مجدی بن عمر وابوسفیان کی طرف کا آدمی آیا اور اس نے ان دونوں لڑکیوں کے پاس آکر کہا کہ تم سچ کہتی ہو بسیس وعدی یہ سن کر مشکوں میں پانی بھر کر چلے گئے اور حضرت کو آکر خبر دی کہ ابوسفیان آگیا ہے ابوسفیان جب مجدی سے ملا تو پوچھا کہ یہاں تو نے کسی غیر کی تو آہٹ نہیں پائی اس نے کہا کہ نہیں مگر دو سوار آئے تھے اور مشکوں میں پانی بھر کر چلے گئے ابوسفیان اس ٹیلہ کے پاس آیا جہاں اونٹ بیٹھے تھے وہاں اس نے اونٹوں کی مینگنیاں دیکھیں اور ان کو توڑا تو ان میں کھجور کی گٹھلیاں پائیں اور کہنے لگا کہ یہ چارہ یثرب کا ہے اور جلدی سے اپنے قافلہ میں واپس آیا اور دریا کے کنارہ پر قافلہ اتار کر اچھی طرح سے اس کی مضبوطی و نگہبانی کرلی اور پھر قریش کو کہلا بھیجا کہ اب تمہارے آنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے حفاظت کرلی ہے تم واپس چلے جاؤ ابوجہل نے یہ خبر سن کر کہا ہم تو واپس نہیں جائیں گے بدر میں تین روز قیام کریں گے یہاں ٹھہر کر اونٹ ذبح کر کے کھائیں گے شراب پئیں گے گانے سنیں گے عرب ہماری آمد کی خبر سن کر ہیمشہ ہم سے ڈرا کریں گے غرض کہ یہ تو اس رنگ میں تھے اور حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریب بدرپہنچ کر حضرت علی (رض) ابن ابی طالب اور سعدبن ابی وقاص (رض) اور زبیر بن عوام (رض) کو چند اشخاص دیگر تجسس کے لئے روانہ کیا یہ لوگ بنی سعد بن عاص اور بنی حجاج کے غلام کو پکڑ کر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے آپ نماز پڑھ رہے تھے اس لئے آپ کے صحابہ نے ان دونوں سے پوچھا تم کسی کے غلام ہو ان دونوں نے کہا ہم قریش میں پانی بھرنے کو آئے تھے مگر انہوں نے ان دونوں کو جھوٹا سمجھا اور سمجھے کہ یہ ابوسفیان کے غلام ہیں اور ان کو مارنے لگے جب وہ دونوں غلام عاجز ہوئے تو ناچار انہوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم ابوسفیان کے قافلہ کے لوگ ہیں اس کے بعد صحابہ نے انہیں چھوڑ دیا اتنے میں حضرت نماز سے فارغ ہوگئے اور فرمایا کہ جب وہ غلام سچ بولے تو تم نے انہیں مارا اور جب جھوٹ بولے تو چھوڑ دیا واللہ یہ قریش کے آدمی تھے پھر اور لوگوں سے پوچھا کہ قریش کی خبر بتلاؤ لوگوں نے کہا وہ دور کی گھاٹی میں ہیں آپ نے فرمایا کتنے لوگ ہیں انہوں نے کہا یہ نہیں معلوم مگر بہت ہیں پھر آپ نے فرمایا اچھا کتنے اونٹ روز ذبح کئے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نو دس اونٹ روز ذبح کئے جاتے ہیں آپ نے فرمایا نو سو سے ایک ہزار تک کی ان کی تعداد ہے پھر پوچھا کہ قریش کے اشراف لوگوں میں کون کون آیا ہے انہوں نے بتلایا عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ۔ ابوالنجتری بن ہشام حکیم بن حزام۔ نوفل بن خویلد حارث بن عامر بن نوفل۔ طعمہ بن عدی نضر بن حارث۔ زمعہ بن اسود۔ ابوجہل۔ امیہ بن خلف اور بنیہ و منبہ حجام کے بیٹے۔ سیلن بن عمرو۔ عمرو بن عبدو۔ ان لوگوں کے نام سن کر فرمایا مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو پھینک دیا ہے یہ لوگ چیدہ چیدہ شخص ہیں جو آج پھنسے ہیں پھر سعد بن معاذ (رض) نے جو انصاری میں تھے کہ کہ حضرت ہم آپ کے واسطے چھپر تیار کردیں اس میں آپ جا بیٹھیں اور ہم دشمنوں سے مقابلہ کریں اللہ نے فتح دی تو یہی ہمارا مقصود ہے اگر خدانخواستہ کوئی معاملہ نوع گر ہوا تو آپ اپنے باقی لوگوں میں جاملیں پھر انہوں نے اور انصار کے متعلق یہ بات کہی کہ آپ سے وہ لوگ پیچھے رہ گئے جو ہم سے زیادہ آپ کو چاہتے ہیں اگر وہ یہ جانتے کہ مقابلہ پیش آئے گا تو پیچھے نہ رہتے بلکہ یہاں آن کر آپ کی مدد کرتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد (رض) کی تعریف کی اور دعا دی انہوں نے چھپر ڈال دیا جس میں آنحضرت اور ابوبکر بیٹھ گئے اور ان کے ہمراہ اور کوئی نہ تھا صبح کو قریش کوچ کر کے سامنے آئے اور مقابلہ ہوگیا اس کو اللہ پاک نے فرمایا کہ ہم نے بغیر میعاد کے دونوں لشکروں کو جمع کردیا تھا کہ حق وناحق ظاہر ہوجاوے تمہیں فتح نصیب ہو اور دشمنوں کو شکست ہو اور ایمان اور کفر علیحدہ علیحدہ ہو کر پھر کسی کو کچھ شک وشبہ باقی نہ رہے پھر فرمایا جس کو زندہ رکھنا تھا اسے زندہ رکھا اور جسے ذائقہ موت چکھانا تھا اسے نیست ونابود کیا پھر آیت کو ان لفظوں پر ختم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سمیع علیم ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہارے دعائیں سن لیں اور تمہاری حاجتیں پوری کردیں وہ تمہاری کمزوری جانتا تھا تم اپنے دشمنوں سے بہت کم تھے مگر اس نے پوری پوری مدد پہنچائی صحیح بخاری میں کعب بن مالک (رض) کی حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے سفر کے وقت فقط ابوسفیان کے قافلہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر کے مدینہ سے نکلے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ کے موافق مسلمانوں اور قریش کی فوج کا مقابلہ کرادیا صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل اور اس کے چند ساتھیوں نے مشورہ کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیٹھ پر نجاست کی بھری ہوئی اوجھڑی ڈال دی اور آپ نے نماز سے فارغ ہونے کہ بعد ان لوگوں کے نام لے لے کر ان پر بددعا کی عبداللہ (رض) بن مسعود اس قدر قصہ کی روایت کے بعد قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن لوگوں پر بدعا کی تھی وہ سب مارے گئے امیہ بدر کی لڑائی میں بچ گیا لیکن پھر دیوانہ ہو کر بڑی خرابی سے مرا ان حدیثوں کو آیت کے ٹکڑے لیقضی اللہ امرا کان مفعولا کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت کے اس ٹکڑے اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ بدر کے سفر کے وقت اگرچہ مسلمانوں کا ارادہ مشرکوں کی فوج سے لڑنے کا نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادہ ازلی میں یہ تھا کہ وہ اپنے رسول کی کئی برس پہلے کی بددعا کا اثر لوگوں کو دکھلاوے اس لئے اس نے مسلمانوں کے ارادہ کے بغیر اس لڑائی کا موقعہ پیش کرا دیا اور جن صحابہ نے اللہ کے رسول کی بدعا کا موقعہ دیکھا تھا کئی برس کے بعد ان کو اس بدعا کے اثر کا موقعہ بھی دکھا دیا سمیع علیم مطلب ہے کہ کئی برس پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بددعا سن لی تھی اور وہ بددعا قبول بھی ہوگئی تھی لیکن علم آلہی میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس لئے اپنے وقت پر اس بدعا کے اثر کا ظہور ہوا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:42) اذ یا تو یوم الفرقان سے بدل ہے یا اس کی تقدیر یوں ہے اذکروا اذ انتم۔ العدوۃ۔ جانب ، وادی، کنارہ ۔ اس کی جمع عدی ہے اس کو عین کی کسر کے ساتھ عدوۃ بھی پڑھا جاتا ہے اس صورت میں اس کی جمع عدی ہوگی۔ بدر کے اطراف و جوانب میں جو پہاڑ ہیں ان کے مختلف حصے مختلف ناموں سے موسوم ہیں ان میں سے دو پہاڑیاں جو دور سے ریت کے دو سفید تودوں کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اب بھی ان میں سے جو پہاڑی مدینہ منورہ کی جانب ہے اس کا نام العدوۃ الدنیا ہے اور دوسری جو مکہ کی طرف ہے العدوۃ القصویٰ سے موسوم ہے اور جو بہت اونچا سا پہاڑ ان دونوں کے درمیان ہے وہ آجکل جبل اسفل کہلاتا ہے کیونکہ اس کے نیچے نیچے ابو سفیان اپنے تجارتی قافلہ کا راستہ کاٹ کر سمندر کے کنارے کنارے گزر گیا تھا جو بدر سے تین میل کے فاصلہ پر ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بایں الفاظ آیا ہے والرکب اسفل منکم (اور کارواں تم سے نیچے تھا) الدنیا۔ ادنی کی مؤنث ہے جو دنی یدنو (قریب ہونا) سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے مراد وادی بدر کی وہ سمت جو مدینہ منورہ سے قریب تر تھی۔ القصوی۔ اقصی سے مؤنث ہے جو قصی یقصو سے اسم تفضیل ہے اور یہاں العدوۃ القصویٰ سے مراد بدر کی وادی کی وہ جانب جو مدینہ منورہ سے دور والی جانب واقع تھی۔ الرکب۔ کارواں۔ قافلہ سوار۔ راکب کی جمع جس کے معنی سوار کے ہیں۔ تواعدتم۔ تم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تواعد (تفاعل) سے ماضی جمع مذکر حاضر ہے۔ لاختلفتم۔ اختلاف سے ماضی جمع مذکر حاضر۔ لام تاکید کے لئے ۔ تم ضرور آپس میں اختلاف کرتے۔ المعیاد۔ ظرف زمان۔ وعدہ کا وقت۔ ولو تواعدتم لاختلفتم فی المیعاد۔ اور اگر تم ہر دو فریق یعنی مسلمان ایک طرف اور کفار دوسری طرف ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کا وعدہ کرتے تو تم دونوں وقت وعدہ کی خلاف ورزی کرتے اور تقدیم و تاخیر سے کام لیتے ۔ یعنی تم اس واسطے باز رہتے کہ تمہارے مقابلہ میں ان کی تعداد کثیر تھی اور وہ باقاعدہ مسلح تھے اور وہ اس واسطے کترا جاتے کہ ان کے دلوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی ہیبت تھی۔ اس طرح تم ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہ آتے۔ الکن۔ ای ولکن اللہ جمعکم علی غیر میعاد۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تم ہر دو فریق کو نکلے تھے اور کفار مکہ کے بغیر ہی آپس میں ٹکرا دیا۔ (کیونکہ مسلمان مدینہ سے قافلہ کے لئے نکلے تھے اور کفار مکہ سے قافلہ کی حفاظت کے لئے نکلے تھے۔ لیکن بعد میں حالات نے مشیت ایزدی کے تحت ان کو جنگ بدر میں باہم ٹکرا دیا) ۔ لیقضی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ قضاء مصدر۔ (باب ضرب) قضی یقضی کہ وہ پورا کر دے۔ لیقضی اللہ امرا کان مفعولا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اس امر کو پورا کر دے جس نے ہونا ہی تھا۔ (یعنی جس کے ظہور میں آجانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرچکا تھا) ۔ لیہلک من ہلک عن بینۃ۔ جو ہلاک ہوتا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو۔ یعنی دلیل روشن ظاہر ہوگئی۔ حق و باطل کی تمیز کھلم کھلا سامنے آگئی۔ حق کی فتح اور باطل کی شکست نے ہر دو کی حقیقت کو واضح کردیا۔ اچھا اور برا راستہ معلوم ہوگیا۔ اب اگر کوئی جان بوجھ کر باطل اختیار کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینا چاہتا ہے تو ڈال دے (کیونکہ کفر ہلاکت ہے) ویحیی من حی عن بینۃ۔ اور جسے زندہ رہنا ہے تو وہ اب حق کی فتح کو دیکھ کر یقین محکم سے حق پر زندہ رہے (حق زندگی ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی وادی بدر کے اس سرے پر جو مدینہ منورہ کی سمت ہے۔ ( کبیر)5 یعنی ساحل بحر کی طرف، یہ منصوب علی الطرفیتہ ہے یا موضع حال میں ہے جیسا کہ جمہور علمان کا خیال ہے جنگ کے اس نقشہ کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اسو قت بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ ( روح)6 یعنی تم اپنے مقابلے میں ان کی کثرت تعداد سے ڈرتے اور وہ رسول اللہ صلعم کے رعب اور ہیبت سے ( کذافی الوحیدی)7 مراد اہل اسلام کی فتح اور اہل کفر کی شکست ہے۔ ( ازا بن کثیر)8 یا یہ کہ اتمام حجت ہو اور کسی کے لیے عذر کا ماقع نہ رہے یعنی اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھکر کافر رہے ( اور ہلاکت میں پڑے) اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو۔ ( وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٢ تا ٤٤ اسرار و معارف جب جہاد کے میدان کی بات ہوئی تو غنیمت کا مسئلہ ارشاد فرمادیا گیا غنیمت وہ مال ہوتا ہے جو فتح کے نتیجہ میں کفار سے ہاتھ آئے یہ تو فطری بات ہے کہ شکست کھانے والا لشکر مال ومنال بہت کچھ کھو بیٹھتا ہے ۔ اور فاتح اسے اپنا حق سمجھتے ہیں مگر انبیاء علہیم الصلوۃ والسلام نے جب کبھی جہاد کیا اور کفار کا مال ہاتھ لگاتو اسے میدان میں جمع کردیا جاتا تھا آسمان سے آگ آتی شعلہ لپکتا اور وہ مال راکھ ہوجاتا یہ بات قبولیت جہاد اور خلوص کی دلیل بھی تھی اگر لوگوں نے جہاد کا حق ادانہ کیا ہوتا یا زیادتی کی ہوتی تو یہ مال جلانے آسمان سے آگ یا بجلی نہ آتی تھی غزوئہ بدروہ پہلا جہاد تھا جو باقاعدہ ایک فوج کی صورت میں امت مرحومہ نے اللہ پاک کی اجازت سے کیا اور اس میں بیشمار فضیلتوں کے ساتھ یہ خصوصیت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطاہوئی کہ مال غنیمت جلائے جلائے جانے کی بجائے مجاہدین پر حلال کردیا گیا وہ کیسے تقسیم ہوگا تو فرمایا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مال غنیمت خالص اللہ کی طرف سے بطور انعام عطا ہوا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور آپ کی امت کے لیے یوں تو ساری کاتنات اسی کی ہے مگر کچھ عارضی قوانین ملکیت اسی کے رانج کردہ ہیں کوئی چھوٹی ہو یا بڑی چیز تو اس کی تقسیم یوں ہوگی کہ پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے چار حصے مجاہدین پر تقسیم ہوں گے ۔ اور پانچواں حصہ خالص اللہ کے لیے پھر اللہ کے رسول کے لیے اور ان کے قرابت داروں کے لیے یتیم ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہوں گے یعنی مال خاص اللہ کا ہوگا جس میں سے خرچ کرنا یہ اللہ کے رسول کا کام ہے اپنی ضرورت پر اپنے اقارب کی ضرورت پر یا یتیموں مساکین اور مسافروں پر منسرین کرام کے مطابق رب جلیل نے غنیمت کے مال سے پانچواں حصہ اپنے نام یعنی بیت المال میں لیکر اس کی تقسیم رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑدی اور مصارف مقررفرمادیئے کہ ان قسموں کے اندر اسے اللہ کی راہ میں یعنی ریاست کی ضرورت پر خود نبی کریم کے ذاتی مصارف یا آپ کے اقربا کی ضروریات پر چونکہ زکوۃ کے مال سے نبی رحمت اور آپ کے اقارب کو منع فرمادیا گیا اس لیے کہ اس مال کو اوساخ الناس یعنی میل کچیل کہا گیا ہے جو شان نبوت اور آپ کے اقربا کی شان کے لائق نہ تھا اس کے مقابل غنیمت کو اطیب الا موال سب سے پاکیزہ مال فرمایا کہ براہ راست ذات باری سے نصیب ہوتا ہے تو اس میں ان ضروریات کو مقدم رکھا نیز یتیم مساکین اور مسافر بھی مستحقین میں شمارفرمائے یہ ضروری نہیں کہ سب میں برابرتقسیم ہو یہ آپ کی عطاپر ہے کہ ان کی ضروریات ملا خطہ فرما کر جو عطافرمادیں اسی لیے حضرت فاطمہ (رض) نے جب ایک خادم کے لیے عرض کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل صفہ زیادہ ضرورتمند ہیں انہیں کی ضروریات پوری کی جائیں گی ان سے زیادہ اقارب میں کون تھا مگر آپ کی رائے عالی کا فیصلہ ہی اللہ کو پسند ہے اور یہ اختیار آپ کو بخشا ہے یاد رہے خمس مال غنیمت میں یعنی جو مال کفار سے جہاد کے ذریعے حاصل ہو اسمیں ہے شیعہ نے اسے تمام مال میں زکٰوۃ کا قائم مقام قرار دے کر غلط کیا ہے آپ کے بعد خلفاء راشد ین ضرورت مند ذوی القربی میں تقسیم فرمایا کرتے تھے بلکہ سیدنافاروق اعظم (رض) تو حضرت علی (رض) کو متولی بناکر ان سے تقسیم کرواتے تھے مگر اکثر ذوی القربی بھی باقی چارحصے جو مجاہدین میں تقسیم ہوتے تھے ان کی وجہ سے محتاج نہ رہے تھے بلکہ محتاج کیا بہت زیادہ امیر ہوگئے تھے ۔ فرمایا اگر تمہیں اللہ کے ساتھ ایمان نصیب ہے اور اس غیبی امداد پر جو اللہ کریم نے اپنے بندے پر اس دن اتاری تھی جو فیصلہ کا دن تھا یوم الفرقان جس نے حق و باطل میں ہر طرح سے فرق ظاہر کردیا کہ حق غالب رہا اور باطل نے منہ کی کھائی اور معرکہ بدر اس روز سے لیکر قیامت تک اعلائے کلمۃ اللہ کی بنیاد بن گیا اور یہی دن تھا جس سے دائمی ابدی حقیقی انقلاب کی بنیاد علی الا علان استوارہوئی اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی وہ فیصلے کا دن جب حق والے ایک طرف تھے اور باطل دوسری طرف تھا سرمیدان دونوں نے ارمان نکالے اور نصرت الہیہ کا پتہ چل گیا کہ اللہ کس کے ساتھ ہے یہ اتنا بڑا انقلاب تھا کہ صرف اللہ ہی کی مدد سے یہ ہوسکا کہ وہ ہرچیز پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے ورنہ محض مادی وسائل یا انسانی تدابیر سے یہ سب کچھ ہرگز ممکن نہ تھا مال غنیمت اسی کی عطا ہے گویا یہ سبق بھی ہے کہ اگر مال غنیمت میں کوئی بددیانتی کی گئی تو اللہ کی مدد سے محرومی کا خطرہ موجود ہے ۔ تائیدباری مال غنیمت اور خلاف راشدہ میں روئے زمین اور اقوام عالم کا مسخر ہوجانا تائیدباری کی واضح دلیل ہونے کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کی پسند کے مطابق خرچ فرماتے رہے ورنہ اللہ کی حمایت حاصل نہ کرسکتے ۔ شیعہ حضرات جو اہل بیت کے حقوق کا روناروتے ہیں یہ محض ان کی افسانہ تراشی ہے خود تو سارا اسلا م بدل کرنئے ارکان ایجاد کرلیے اور دوسری طرف مسلمان ہونے کا دعوی بھی ہے اور عتراض صحابہ (رض) پر کرتے ہیں بہرحال یہاں عزوئہ بدرکاپورانقشہ بیان فرمایا اور وہ معجزات جو بظاہرنظر نہیں آتے ارشاد فرما کر وہ بہت بڑا نتیجہ جو اس کا حاصل تھا ارشاد فرمادیا کہ جب تم لوگ یعنی مسلمان اس کنارے پر تھے اور مشرکین مکہ میدان کی پرلی طرف کے کنارے پ ر اور قافلہ تم لوگوں سے نیچے ہو کر تقریبا تین میل کے فاصلہ سے ساحل سمندر سے گذررہا تھا تو یہ صورت حال ایسی تھی کہ کوئی فوج بھی لڑنے کی پوزیشن میں نہ تھی مسلمان تعداد میں کم تھے اسلحہ نہ ہونے کے برابر کھانے کو کچھ نہیں میدان بدر کا جو حصہ مسلمانوں کے پاس تھا وہاں پانی بھی نہ تھا بلکہ دور تھا اور زمین بہت زیادہ ریتلی جس میں قدم اٹھا نا دشوار نیز قافلہ بھی بچ کر گذر گیا تو بظاہر کوئی صورت جنگ کرنے کی نہ تھی دوسری طرف مشرکین تعداد اسلحہ اور راشن وغیرہ کی کمی سے تو دوچار نہ تھے مگر جس قافلے کی مدد کو نکلے تھے وہ تو بچ کر گذر گیا اور انہیں اس کی خبر بھی گئی کس کس طرح ناکام ہوئیں شب ہجرت کیسے ذلیل ہوئے پھر راستے میں تلاش کرنے کی ساری کوشش کیسے نامرادی سے دوچار ہوئی تو اب انہیں یوں لڑنے کی ضرورت نہ تھی البتہ اگر واپس جاتے منصوبہ بندی کرتے تو بات اور ہوتی یہ سب صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی کہ اگر تم دونوں فریق وعدہ کرکے بھی آتے تو یہاں آکر ارادے بدل دیتے اور وعدئہ جنگ پورانہ کرتے کہ بظاہر کسی کو اپنا نفع نظر نہیں آرہا تھا ۔ الٹا ہلاکت کا خطرہ موجود۔ اللہ کریم جو کام کرنا چاہیں اس کے لیے اسباب مہیافرمادیتے ہیں لیکن اللہ کریم اس کام کو کرنا چاہتے تھے ایسی حالت میں کہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے لہٰذا مادی اسباب میں سے کوئی ایساسبب مسلمانوں کی طرف نہ ہو جس کو فتح کا باعث قراردیا جاسکے اور مادی اعتبار سے کوئی کمی لشکر کفار میں بھی نہ ہو جو شکست کا سبب قرار پائے بلکہ یہ واضح ہوجائے کہ فتح صرف اور صرف اللہ کی مدد اور تائیدغیبی کے باعث ہوئی جو آپ کی نبوت کی صداقت اور اسلام کے حق ہونے کی دلیل ہے اور راہل مکہ کو شکست صرف اللہ کے غضب اور ناراضگی کی وجہ سے ہوئی جو ان کے باطل پر ہونے کی دلیل ہے اور اہل مکہ ہلاک ہونا ہو یعنی گمراہ ہی رہنا ہو اسے بھی غلط فہمی نہ رہے ۔ واضح دلائل کے بعد اگر موت بھی قبول کرتا ہے تو اس کی اپنی پسند یہاں موت سے مراد کفر اور حیات درون یعنی قلب کی زندگی سے محرومی ہے اور قرآن حکیم نے متعدومقامات پر ایسی حالت کو موت ہی کہا ہے اور جسے زندگی نصیب ہو یا جو حیات کو پاناچا ہے تو اس کے پاس بھی دلیل ہو ۔ یہاں حیات اور زندگی سے مراد بی نور ایمان اور کیفیات قلب ہیں کہ جو پاناچا ہے اسے تلاش میں کوئی دشواری نہ ہو اہل حق ستاروں کی مانندروشن ہو کر سامنے آجائیں ۔ وار دنیا میں اہل اللہ کی مددکیلے بھی اسباب مہیاترک سبب درست نہیں اللہ کریم تو سب کی سنتے بھی ہیں کہ کوئی کیا مشورہ کررہا ہے یا کیا ارادے باندھتا ہے بلکہ جانتے ہیں کہ کس کے اندرون دل کیا جھپا ہے اس کے مطابق ہی نتائج پیدافرماتے ہیں ۔ اہل مکہ کا باطن بھی عیاں تھا اور مسلمانوں کے دلوں کی خواہشات بھی روشن چناچہ اہل حق کی مدد فرمائی اور ایسے اسباب پیدافرمادیئے کہ ان کی عظمت سارے عالم اسلام پہ واضح ہوجائے ۔ مثلا قافلے کی اطلاع ۔ مسلمانوں کا اسے روکنے کا فیصلہ پھر اس کی خبراہل مکہ کو ان کا اس کی حفاظت کے لیے نکلنا اور پھر قافلے کا بچانا اور دونوں لشکروں کو آمنے سامنے پہنچا دینا اور پھر آپ کو خواب میں کفار کی تعدادبہت کم کرکے دکھانا جس کی تعبیر آپ نے کفار کی ناکامی سے لی اور صحابہ (رض) بہت خوش ہوئے اور حوصلہ پایا کہ اگر آپ کفار کو شان و شوکت میں ملا خطہ فرماتے تو جب آپ خدام سے بیان فرماتے تو فطرتایہ بات ایسی تھی کہ جہاد اور مقابلے پہ اتفاق نہ ہوپاتا بلکہ کچھ لوگ جوش میں کہتے کہ لڑنا چاہیئے کچھ ہوش استعمال کرتے کہ لڑنامناسب نہیں اس طرح اختلاف کمزوری کا باعث بنتا۔ اہل اللہ میں بھی فطرت انسانی کے تقاضے بدستورہوتے ہیں لیکن اللہ نے آپ کے خواب مبارک کو ہی اس سب خطرے سے سلامتی کا سبب بنادیا اور مسلمانوں کو ایسی آزمائش سے بچالیا اس لیے کہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے ۔ تہ دل میں جو خلوص تھا اس کو قبول فرمایا اور ایسے اسباب پیدافرمائے کہ مسلمانوں کو ابتل اسے سلامتی نصیب ہوئی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہل اللہ کوئی مافوق الفطرت لوگ نہیں ہوتے ۔ ان کے احساسات وجذبات بھی بالکل انسانی جذبات ہی ہوتے ہیں ہاں اللہ کریم کبھی اسباب کو ان کے مزاج کے مطابق بنادیتے ہیں یا پھر انہیں قوت برداشت عطا کردیتے ہیں اور کبھی دونوں صورتیں مہیا فرمادیتے ہیں جیسے یہاں میدان بدر میں دونوں صورتیں عطافرمادیں اور یہ انعام خلوص قلبی پہ مرتب ہوتے ہیں۔ آپ کے خواب کے بعد سب دونوں لشکر آمنے سامنے تھے تو پھر یہ اہتمام فرمایا کہ مسلمانوں کو کفار کی تعداد کم کرکے دکھائی حتی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں نے اپنے ساتھی ہے کہا کہ اہل مکہ کی تعداد ٩٠ ہوگی تو اس نے کہاغالبا ١٠٠ سوہونگے حالانکہ ان کی تعدادایک ہزار تھی اسی طرح تمہاری تعدا اگر چہ کفار کے مقابلہ میں بہت کم تھی مگر پھر مزید کم کرکے کفار کو دکھائی گئی جیسا کہ روایت میں ہے کہ ابو جہل نے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا کہ اتنے آدمی ہونگے جن کی خوراک ایک اونٹ ہو اور عرب ایک اونٹ سو آدمی کی خوراک شمار کرتے تھے ۔ اللہ کریم کی قدرت دیکھئے بغیر کسی سبب کے سب کچھ کرسکتا ہے مگر کتنے اسباب مہیافرمانے فرشتوں کا نزول مقابل لانے کے اسباب میدان میں اترنے کے اسباب گویا سنت اللہ ہے کہ عالم اسباب میں ترک سبب بلاضرورت شرعی نہ لیا جائے ۔ اللہ نے یہ سب اسباب اس لیے جمع فرمادیئے کہ اللہ جو کرنا چاہتے ہیں یعنی اسلام اور مسلمانوں کا عنداللہ محبوب ہونا اور کفار اور صحابہ (رض) کے مخالفین کا اللہ کے غضب کی زد میں ہونا ان امور کی وضاحت کردی جائے کہ تا قیامت اہل حق اس فریق کے نقوش کف پا اپنا لیں جو حق پر تھے اور تباہ ہونے والے یہ نہ کہہ سکیں کہ بظاہر کوئی دلیل نظر نہیں آئی اور سب چیزوں اور تمام امور کو اللہ کی بارگاہ میں ہی لوٹ کرجانا ہے یعنی چیزیں ہوں یا اسباب و کیفیات سب اسی کے ارادے اور اسی کے حکم کے تابع ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 42 تا 44 لغات القرآن۔ بالعدوۃ ال دنیا۔ قریب کے کنارے پر۔ بالعدوۃ القصوی۔ دور کے کنارے پر۔ الرکب۔ قافلہ۔ اسفل۔ نیچے۔ تو اعدتم۔ تم نے وعدہ کیا۔ میعاد۔ مدت مقرر۔ لیقضی۔ تاکہ فیصلہ کردے۔ امر۔ کام۔ مفعول۔ کیا گیا۔ لیھلک۔ تاکہ ہلاک ہوجائے۔ بینۃ۔ پہنچان کر۔ یحی۔ زندہ رہے گا۔ یریکھم۔ تمہیں دکھایا اس نے۔ منام۔ نیند۔ خواب۔ لفشلتم۔ البتہ تم بزدلی دکھاتے ۔ لتنازعتم۔ البتہ تم ضرور جھگڑے۔ سلم۔ اس نے حفاظت کی۔ فی اعینکم۔ تمہاری آنکھوں میں ۔ قلیل۔ تھوڑے۔ ترجع الامور۔ کام لوٹائے جائیں گے۔ تشریح : سورة انفال میں اللہ تعالیٰ نے دس رکوعوں میں مسلسل جہاد و قتال کے متعلق بیان فرمایا ہے یہ آیات جو صرف حکمت عملی کے اصول و قوانین سے بحث نہیں کرتیں بلکہ جغرافیہ ترتیب عمل نقشہ جنگ اور نفسیات وغیرہ سے بھی بحث کرتی ہیں بلکہ اللہ کے ان غیبی فیصلوں کو بھی بتاتی ہیں کہ جب اللہ نے دونوں فریقوں کو سامنے لا کر کھڑا کردیا تھا جہاں جنگ کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ اپنے اپنے گھروں سے نکلتے وقت صحابہ کرام (رض) کو معلوم نہ تھا کہ انہیں قریش کے مرتب و مسلح لشکر جرار سے مقابلہ کرنا ہے وہ تو ابو سفیان کے اس تجارتی قافلے کا راستہ کاٹنے کے لئے آرہے تھے جو مدینہ کے راستے سے گزر رہا تھا اسی لئے نہ ان کے پاس جنگ کے ہتھیار تھے نہ سواریاں تھیں اور نہ وہ ذہنی طور پر اس جنگ کے لئے تیار تھے۔ اسی طرح قریشی لشکر کا ذرا بھی خبر نہ تھی کہ انہیں مدینہ منورہ سے بہت پہلے بدر کے مقام پر جنگ سے واسطہ پڑے گا۔ وہ تو اس مگن میں تھے کہ بدر میں تین دن پر پڑائو ڈالیں گے خوب رنگرلیاں منائیں گے اور پھر مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ وہ تو بدر کے میدان میں اسلامی لشکر کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئے اسی لئے اپنی اس شرمندگی کو مٹانے اور اپنے لشکریوں کی ہمت بڑھانے کیلئے ابو جہل نے کہا کہ یہ مسلمان تو ہمارے اونٹوں کا ایک لقمہ ہیں انکی حیثیت ہی کیا ہے ! دوسری طرف چونکہ مسلمان تین سو تیرہ تھے نیز پورے ہتھیار اور جنگ کا سازوسامان بھی نہ رکھتے تھے اور جیسا کہ عرض کیا گیا وہ ذہنی طور پر بھی تیار نہ تھے۔ اگر انہیں معلوم ہوجاتا کہ دشمن کے تعداد تین گنا ہے اور ہر طرح کے ہتھیاروں اور انتقامی جذبوں سے بھر پوری ہیں تو شائد وہ کم ہمتی دکھاتے اور شدید اختلاف ہوجاتا اس لئے مصلحت غیبی سے یہ انتظام کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دشمنوں کی تعداد کم کرکے دکھائی گئی جو آپ نے صحابہ کرام (رض) کو بتا دی تھی خاص طور پر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں تو مسلمانوں کی نگاہوں میں دشمن کی تعداد کم دکھائی گئی حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم نے دشمن کی صفوں میں نظر ڈالی تو نوے یا سو کے قریب نظر آئے۔ دوسری طرف دشمن کی نگاہوں میں بھی مسلمان بہت تھوڑے نظر آرہے تھے تاکہ دشمنان اسلام بھی کسی بڑے مقابلہ کو توقع پر گھبرا نہ جائیں اس لئے بعض روایات کے مطابق ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے تو مسلمانوں کی تعداد سو سے زیادہ نہیں لگتی۔ اہل ایمان اور کفار کو ایک دوسرے کی نگاہوں میں کم دکھانے سے قدرت کا فیصلہ یہ تھا کہ آج کھرا اور کھوٹا واضح ہو کر دنیا کے سامنے آجائے۔ اسی لئے اس دن کو اللہ تعالیٰ نے ” یوم الفرقان “ فرمایا یعنی حق و باطل کے فیصلے کا دن۔ اللہ انے اپنی سنت کے مطابق باطل کو نیچا کر دکھایا کیونکہ جب بھی حق نکھر کر سامنے آتا ہے تو باطل کی مجال نہیں ہے کہ وہ حق کے سامنے ٹھر سکے۔ غزوہ بدر نے ساری دنیا پر واضح کردیا کہ یہ جنگ دو نظریات کے درمیان جنگ تھی۔ اسلام بمقابلہ کفر کی بمقابلہ زیادتی۔ اس جنگ اور اس کے نتیجے کے بعد اب جس کا جی چہاے وہ اسلام کا ساتھ دے اور جس کا دل چاہے وہ کفر کے راستے پر چلے لیکن جو بھی اس حق کے راستے پر چلے گا اس کا نتیجہ یہی ہے کہ حق کے مقابلے میں باطل کو نیچا ہو کر رہنا ہے۔ صرف ہمت کی ضرورت ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ادھر والے سے مراد مدینہ سے نزدیک کا موقع اور ادھر والے سے مراد مدینہ سے دور کا موقع ہے۔ 3۔ یعنی سمندر کے کنارے کنارے جارہا تھا۔ 4۔ مطلب یہ کہ اللہ کو منظور تھا لڑائی ہونا تاکہ ایک خاص طریق سے اسلام کا حق ہونا ظاہر ہوجائے کہ اس قلت عدد وکم سامانی پر مسلمان غالب آئے جو کہ خارق عادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام حق ہے پس اس سے حجت الہیہ تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق کو قبول کرے گا خلاصہ حکمت کا یہ ہوا کہ حق واضح ہوجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میدان بدر کا نقشہ اور فریقین کا ایک دوسرے کو اصل تعداد سے کم دکھائی دینا۔ اس سے پہلی آیت میں غزوۂ بدر کے معرکہ کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا دن جس میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان دو اور دو چار کی طرح فرق واضح کردیا گیا۔ غزوۂ بدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ جو مرے وہ دلیل پر مرے اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر زندہ رہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکلنے کے بارے میں فرمایا کہ آپ کو آپ کے رب نے ہی گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک جماعت اسے پسند نہیں کر رہی تھی۔ (الانفال : ٦) یہاں بدر کا نقشہ پیش کیا گیا ہے کہ جب تم نے بدر میں مدینہ کی جانب اور کفار نے مکہ کی جانب پڑاؤ ڈالا تھا اور جس قافلہ کے لیے تم نکلے تھے وہ نیچے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے نکل گیا۔ اگر کفار اور تم آپس میں جنگی اصول طے کرتے تو یہ معرکہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ جس طرح تم جنگ کرنے میں متردد تھے اسی طرح کفار کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ سیرت کی کتب میں تفصیل ہے کہ بدر سے پہلے ابو جہل اور ان کے ساتھیوں کے درمیان اختلاف ہوا، کہ جب قافلہ بچ کر نکل چکا ہے تو اب جنگ کرنے کا کیا مقصد ؟ لیکن ابو جہل کی رائے غالب آئی جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما تھی۔ اس آیت میں اسی اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح غزوہ بدر کی جزیات بیان کی گئی ہیں۔ اس طرح احد، احزاب، فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کی جزیات کی تفصیل بیان نہیں کی گئیں کیونکہ اس معرکہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ ہم نے اس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر رزم آرا کیا تھا ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے ساتھ حق ثابت کرنا چاہتا تھا تاکہ حق، حق اور باطل، باطل ثابت ہوجائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں جو فیصلہ کر رکھا تھا اسے لوگوں کے سامنے آشکار کرنا چاہتا تھا۔ ٣۔ ہلاک ہونے والا دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔ دلیل پر مرنے اور دلیل کی بنیاد پر زندہ رہنے کا میرے نزدیک دو معانی ہوسکتے ہیں۔ بدر میں مرنے والے کفار نے اپنی آنکھوں سے اللہ کا وہ وعدہ دیکھ لیا۔ جس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں انھیں بتایا کرتے تھے کہ تم جتنی چاہو مخالفت کرلو۔ اللہ تعالیٰ دین کو غالب کرکے رہے گا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا گویا کہ دونوں فریق نے حق کی پاسداری اور باطل کی ناپائیداری اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرلی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے وجود کی ایک بنیاد قائم فرمائی خواہ وہ چیز روحانی وجود رکھتی ہو یا مادی۔ انسانی وجود روح اور جسم پر مشتمل ہے۔ انسان کا وجود زمین سے بنا ہے۔ اس کی خوراک بھی زمین سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر اسے مادی خوراک نہ ملے تو وجود لاغر، کمزور یہاں تک کہ مردہ ہوجاتا ہے۔ روح آفاقی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس کی خوراک روحانی یعنی آسمانی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اتارا ہے۔ جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا روح مردہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے حق زندۂ جاوید اور حیات بخش ہے۔ باطل کے لیے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے مردہ اور مردگی کی علامت ہے۔ اس بنا پر ایمان والا زندہ اور کفر والا مردہ ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا حقائق کو نمایاں اور مسلمانوں کو غالب کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کفار کی تعداد اصل تعداد سے کم دکھائی۔ آپ نے اسی طرح صحابہ کرام (رض) کے سامنے اپنا خواب بیان فرمایا اور مسلمانوں کی تعداد کفار کو کم دکھائی گئی۔ جس سے فریقین کے حوصلے دوبالا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم کثیر تعداد دکھلا دیتے تو اے مسلمانو ! تم بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں اختلاف سے بچا لیا۔ اسی کا مقصد تھا کہ اللہ وہ کام پورا کردے جو اس کے ہاں ہونا طے پا چکا تھا اور ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے خیالات اور دلوں کے جذبات کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ فریقین کے نہ چاہنے کے باوجود بدر کا معرکہ برپا ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ آشکار کرنا چاہتا تھا۔ ٣۔ باطل مردہ اور اس کی دلیل بھی مردہ ہے۔ ٤۔ حق زندۂ جاوید اور اس کی دلیل بھی حیات بخش ہے۔ ٥۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ تمہارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ١٨٧) ٢۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اللہ جانتا ہے۔ (النور : ٤١) ٣۔ اللہ نے جان لیا جو ان کے دلوں میں ہے۔ (الفتح : ١٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ : ٧) ٥۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : ٦١) ٦۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : ١٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ : ٧٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سیاق کلام یوم الفرقان کی مزید تفصیلات میں چلا جاتا ہے۔ معرکے کی جھلکیاں دی جاتی ہیں۔ ان میں اس معرکے کو نہایت ہی عجیب موثر اور منظر کشی کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ گویا یہ منظر اسکرین پر چل رہا ہے اور اس کے مناظر میں اللہ کی تدبیر اور تقدیر عیاں و نمایاں ہیں۔ اس طرح کہ دست قدرت صاف صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنا کام کرتا ہے۔ نیز ان جھلکیوں سے وہ مقاصد صاف صاف عیاں ہیں جو اللہ کو مطلوب ہیں اور ابھی ایمان کا مقصود ہیں۔ اس معرکے میں فریقین کے کیمپ سامنے نظر آتے ہیں اور اس میں دست قدرت رواں دواں ہے۔ اللہ کی قدرت کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا کیمپ ہے اور وہ دوسری جانب فریق مخالف ہے اور قافلہ دور سمندر کے ساحل سے گزر رہا ہے۔ الفاظ قرآن رسول اللہ کی خواب کا نقشہ کھینچ رہے ہیں ، س نقشے میں مسلمانوں کو کفار کم نظر آتے ہیں اور کفار کو مسلمان۔ یہ مناظر چند الفاظ میں صرف قرآن کریم ہی کا خاصہ ہے۔ مشاہد و مناظر اور ان کا پس منظر دونوں صاف و شفاف نظر آتے ہیں۔ منظر میں حرکات اور تگ و دو صاف نظر آتی ہے ، صرف چند فقرات میں۔ یہ مناظر جن کو ان آیات نے پیش کیا ہے۔ ان مناظر کی طرف ہم اس سے قبل سیرت سے تفصیلات دے چکے ہیں جب مسلمان مدینہ سے نکلے تو وہ وادی میں مدینہ کے قریب اترے اور اسی وادی کی دوسری طرف اہل کفار نے کیمپ لگایا۔ ان دونوں کے درمیان ایک اونچا ٹیلہ تھا جو ان دونوں کے درمیان جدائی کر رہا تھا۔ رہا قافلہ ، تو ابو سفیان اسے ساحل کی جانب لے چلا تھا۔ دونوں افواج سے نیچے کی طرف۔ کوئی فوج یہ نہ جانتی تھی کہ فریق مخالف کہاں ہے۔ اللہ نے ان کو ایک ٹیلے کے دونوں طرف جمع کردیا۔ یہ اللہ کی خاص منشا تھی۔ اگر ان کے درمیان جگہ کا تعین پہلے ہوچکا ہوتا تو وہ اس طرح ایک دوسرے کے قریب نہ آسکتے۔ شاید ایک دوسرے سے پہلوتہی کرجاتے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کی خاص تدبیر تھی۔ اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ ۭوَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا : یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرار داد ہوچکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کرجاتے ، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا اسے ظہور میں لے آئے۔ یوں ایک دوسرے کے ساتھ آمنا سامنا ہوجانا اور اس قدر قریب کہ بھاگنے کی صورت ہی نہ ہو۔ یہ بھی اللہ کی منشا تھی ، کچھ نتائج تھے جن کا ظہور پذیر ہونا منشائے الہی تھا۔ اس لیے اللہ نے اس قدر خفیہ اور اچانک آمنا سامنا کرادیا۔ اور تمہیں ذریعہ بنا دیا۔ ان نتائج کے ظہور کے لیے اور تمہارے لیے تمام حالات سازگار بنا دیے گئے۔ آخر وہ کیا امر تھا ؟ وہ کیا بات تھی جس کے لیے یہ تمام تدابیر عالم بالا کے ذریعے ہوئیں ؟ لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحییٰ من حی عن بینۃ " تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے ، وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے " ہلاکت سے اس کا ظاہر مفہوم بھی لیا جاتا ہے اور کفر پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ حیات بھی اپنے لغوی اور براہ راست مفہوم میں بھجی استعمال ہوتا ہے اور ایمان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں یہ دوسرا مفہوم مراد ہے۔ اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے۔ اومن کان میتا فاحیینہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمات لیس بخارج منہا " وہ شخص جو مردہ ہو ، اور ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کو ایک اسی روشنی دے دی جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے۔ وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھیروں میں ہے اور ان سے نکلنے والا نہیں ہے "۔ یہاں کفر کو موت ، ایمان کو حیات قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح اسلام کا نظریہ حیات حقیقت ایمان اور حقیقت کفر کے بارے میں اپنا نقطہ نظر متعین کرتا ہے اور مذکورہ بالا آیت کی تشریح کرتے وقت ہم نے ، سورت انعام میں اس پر قدرے تفصیلی بحث کی ہے۔ دیکھیے سورة انعام۔ یہاں اس مفہوم کو ہم اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یوم بدر قرآن کے مطابق یوم الفرقان تھا۔ اس جنگ میں اللہ نے حق و باطل کے درمیان خوب جدائی کردی۔ جس کا تذکرہ ہم کر آئے ہیں۔ اس لیے اب جو شخص کفر اختیار کرتا ہے تو گویا وہ دلیل وبرہان کا منکر ہے اور جو شخس ایمان لاتا ہے تو وہ دلیل روشن پر ایمان لاتا ہے۔ اور یہ دلائل اب اس لیے روشن اور واضح ہیں کہ اس معرکہ نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ جنگ جن حالات میں ہوئی اور جن ظرفور و احوال میں وہ لڑی گئی بذات خود ایک ایسی محبت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں ایسے اشارات ہیں کہ انسانی تدابیر کے پیچھے دست قدرت کام کر رہی ہے ، یہ اشارات نہایت واضح اشارات تھے اور بتا رہے تھے کہ انسانی قوت کے علاوہ اور بھی فیصلہ کن قوتیں ہیں جو کام کرتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دین کا ایک رب ہے اور وہ اپنے مخلص مجاہد بندون کی پشت پر ہوتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کریں اور ثابت قدمی اختیار کریں۔ اگر فیصلہ ظاہری مادی قوت کے مطابق ہوتا تو مشرکین کو شکست نہ ہوتی اور جماعت مسلمہ کو اس قدر عظیم کامیابی نصیب نہ ہوتی۔ مشرکین نے خود اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے ، جب وہ جنگ کے لیے جا رہے تھے تو ان کے حلیف نے ان کو امداد کی پیش کش کی تو انہوں نے کہا : " خدا کی قسم اگر ہمیں صرف انسانوں سے جنگ کرنا پڑتی تو ہم کمزور نہیں اور اگر یہ جنگ ہم خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں ، جیسا کہ محمد کا دعوی ہے ، تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی بات نہیں ہے " وہ خود بھی یقین رکھتے کہ وہ خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں جیسا کہ محمد کا دعوی ہے ، تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی بات نہیں ہے "۔ وہ خود بھی یقین رکھتے کہ وہ خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں کیونکہ حضرت محمد نے ان کو یہ حقیقت بتا دی تھی اور وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ حضرت محمد صادق و امین ہیں۔ اب اگر وہ ہلاک ہوئے تو برحق ہلاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر یہ تبصرہ جو کیا ہے لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحییٰ من حی عن بینہ۔ تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک دوسرا اشارہ بھی نظر آتا ہے ، وہ یہ کہ میدان کارزار میں حق و باطل کا معرکہ آرائی کرنا ، اور میدان میں حق کا فاتح ہونا ، جبکہ نظریاتی اعتبار سے حق نے میدان مار لیا ہو ، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ لوگوں کی نظروں میں بالکل واضح اور نمایاں ہوجائے اور لوگوں کے دل و دماغ میں اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے۔ اس طرح کہ میدان میں حق کی فتح بالکل واضح ہوجائے اور اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی ہلاکت اور کفر اختیار کرتا ہے تو اسے کوئی شبہ نہ ہو۔ اب اگر کوئی کفر کرتا ہے تو خود کشی کرتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے تو وہ بھی علی وجہ البصیرت زندگی اور سچائی کو قبول کرتا ہے اور اللہ کی نصرت کا اسے یقین ہوتا ہے کیونکہ وہ حق پر ہوتا ہے۔ اور اسے اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں کو ہزیمت اور شکست ملتی ہے۔ اب ذرا پیچھے چلیے۔ نویں پارے اور سورت انفال کے تعارف میں ہم نے یہ بتایا تھا کہ جہاد اس لیے ضروری ہے کہ کرۂ ارض کے اوپر سے شر کی قوتوں کی کمر توڑ دی جائے اور طاغوتی اقتدار کو ختم کردیا جائے اور اللہ کے کلمے اور اللہ کے جھنڈے کو بلند کردیا جائے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ حق واضح اور جلی ہوجائے اور پھر اگر کوئی ہلاک ہوتا ہے تو علی وجہ البصیرت ہلاک ہو اور اگر کوئی زندہ ہوتا ہے تو علی وجہ البصیرت وہ زندہ ہو۔ اور اس سے اس سورت میں دی جانے والی ہدایت کے دور رس اثرات کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس میں حکم دیا گیا ہے۔ واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم " اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ، ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہٰں تم نہیں جانتے "۔ قوت کا تیار کرنا اور دشمنوں کو ڈرانا بھی ایک ذریعہ ہے جس کے باعث حق و اضح ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس طرح حق کو قبول کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قوت سے مرعوب ہوکر اور حق کی ضربات کو دیکھ کر سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا دیکھ کر نظر آتا ہے کہ یہ تحریک در حقیقت انسان کی آزادی کی تحریک ہے اور اس کے نتیجے میں انسان پوری کائنات میں آزادی حاصل کرتا ہے۔ اس پورے مضمون پر اس پہلو سے یہ تعقیب آتی ہے کہ اس معرکے میں تدبیر الہی ان مقاصد کے لی کام کر رہی تھی۔ وان اللہ لسمیع علیم " یقینا خدا سننے اور جاننے والا ہے " اللہ وہ ذات ہے کہ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ہے خواہ وہ سچے فریق کی ہو یا بر سر باطل فریق کی طرف سے ہو۔ اور اپنے افعال واقوال کی پشت پر جو سوچ وہ رکھتے ہیں اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ اس لیے وہ جو تدبیر کرتا ہے وہ ظاہر و باطن کی اطلاعات پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ تو سمیع وعلیم ہے۔ یہ تو تھا تبصرہ نظام تدبیر الہیہ پر کہ اس کی تدابیر کس قدر گہری ، خفیہ اور لطیف تھیں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ ان تدابیر کی شکل و صورت کیا تھی ؟ (دیکھیے اگلی آیت)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بدر میں محاذ جنگ کا نقشہ اور اللہ تعالیٰ کی مدد ان آیات میں اول تو غزوۂ بدر کے محاذ جنگ کا نقشہ بتایا ہے پھر اپنے انعامات ذکر فرمائے ہیں جو غزوۂ بدر کے دن مسلمانوں کے فتح یاب ہونے کا ذریعہ بنے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ مشرکین مکہ نے مقام بدر میں پہنچ کر ایسی جگہ پر قیام کیا تھا جو مدینہ سے دور ہے اور وہ لوگ ایسی جگہ لے چکے تھے جو بظاہر محاذ جنگ کے لیے زیادہ مناسب تھی جب مسلمان پہنچے تو ان کو نیچے والی جگہ ملی یہ جگہ ریتلی تھی اور مدینہ سے قریب تھی اور تیسری جماعت یعنی ابو سفیان کا تجارتی قافلہ وہ اس جگہ سے نیچے کی طرف تھا۔ کیونکہ یہ لوگ ساحل سمندر پر چل رہے تھے جو مقام بدر سے تین میل دور تھا۔ پہلے سے مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان آپس میں جنگ کرنے کا نہ خیال تھا اور نہ کوئی اس کا وقت مقرر تھا۔ مسلمان ابو سفیان کے قافلے کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے تھے اور شدہ شدہ بدر تک پہنچے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا پہلے سے فیصلہ تھا کہ ایمان اور اہل ایمان بلند ہوں اور فتح یاب ہوں اور کفر اور کافر نیچا دیکھیں اور شکست کھائیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر فرمائی کہ دونوں جماعتیں پیشگی بات چیت کے بغیر جمع ہوگئیں اور ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ مشرکین کی تعداد کم ہے۔ جب یہ بات حضرات صحابہ (رض) کے سامنے آئی تو ان کا حوصلہ بلند ہوگیا اور جنگ کرنے کے لیے دل سے آمادہ ہوگئے۔ اگر ان کی تعداد زیادہ دکھائی جاتی تو مسلمانوں میں بزدلی آجاتی اور آپس میں اختلاف کرتے کہ جنگ کے لیے آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مسلمانوں کے حوصلے بلند فرما دیئے اور بزدلی اور کم ہمتی سے بچا لیا اور باہمی اختلاف سے محفوظ رکھا۔ اسی کو فرمایا۔ (وَ لَوْ اَرٰیکَھُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ) اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا (اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب کے دلوں کا حال معلوم ہے کس کو اللہ سے محبت ہے اور کس کا رخ آخرت کی طرف ہے اور کون دنیا کا طالب ہے اور کون بزدل ہے اور کون دل اور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مزید یہ کرم فرمایا کہ جب مقابلہ کا قوت آیا اور مڈ بھیڑ ہوگئی تو مسلمانوں کی آنکھوں میں کافروں کو اور کافروں کی آنکھوں میں مسلمانوں کو کم تعداد میں دکھایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان شجاعت اور بےجگری سے لڑے اور کفار بھی یہ سمجھ کر لڑے کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں ان کو ختم کرنا آسان ہے پھر انجام یہ ہوا کہ کافر مغلوب ہوئے اور شکست کھائی اور مسلمان غالب ہوئے اور فتح پائی اور اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ مقرر اور مقدر تھا اسی کے مطابق ہو کر رہا۔ معالم التنزیل (ص ٢٥٣ ج ٢) میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا بیان نقل کیا ہے کہ بدر کے دن مشرکین کی تعداد ہماری آنکھوں میں اس قدر کم ہوگئی تھی کہ میں نے ایک ساتھی سے پوچھا جو میرے پہلو میں تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ لوگ ستر تو ہوں گے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خیال میں سو ہیں۔ اس کے بعد ہم نے مشرکین میں سے ایک شخص کو قید کرلیا اور اس سے پوچھا تمہاری کتنی تعداد ہے تو اس نے کہا کہ ایک ہزار کی نفری ہے۔ یہ جو فرمایا (لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ ) اس میں یہ بیان کیا کہ واقعہ بدر میں دین اسلام کی کھلی اور واضح حقانیت ظاہر ہوگئی اور کفر و شرک کے باطل ہونے کا خوب واضح طریقہ پر لوگوں کو علم ہوگیا۔ اب بھی جو شخص ہلاک ہوگا یعنی کفر پر جما رہے گا وہ حجت تمام ہونے کے بعد اس کو اختیار کرے گا اور جو شخص ایمان پر پختگی کے ساتھ جما رہے گا۔ وہ بھی حجت کے ساتھ دین حق پر رہے گا۔ ہلاکت سے کفر پر باقی رہنا اور حیات سے اسلام پر جما رہنا اور اسلام قبول کرنا مراد ہے۔ حق واضح ہوجانے کے بعد ہر طرح کی غلط فہمی کا احتمال ختم ہوگیا، اب کافر دیکھتی آنکھوں دہکتی آگ میں جائے گا اور خود اپنی ہلاکت کے راستہ کو اختیار کرے گا اور جو شخص اسلام پر جمے گا اور اسی طرح جو کافر اسلام قبول کرے گا وہ بھی دلیل و حجت کے ساتھ دین حق پر مستقیم ہوگا۔ فائدہ : سورة آل عمران کے دوسرے رکوع میں بھی غزوۂ بدر کا ذکر ہے۔ وہاں (یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْھِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ) فرمایا ہے اس کا ترجمہ اور تفسیر وہیں دیکھ لیں۔ (انوار البیان ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44: یہ حکم سابق کی پہلی علت ہے۔ یہاں تینوں جماعتوں کے مراکز قیام کا ذکر کیا گیا۔ “ اَلْعُدْعَةِ الدُّنْیَا ” یعنی وادی کا وہ کنارہ جو مدینہ سے قریب تھا یہاں مسلمانوں کا پڑاؤ تھا۔ “ اَلْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي ” وادی کا دوسرا کنارہ جو مدینہ سے دور تھا اس پر مشرکین کی فوجیں خیمہ زن تھیں۔ “ والرَّکْبُ ” یہ راکب کی اسم جمع ہے۔ مراد مشرکین کا تجارت قافلہ ہے یعنی قافلہ دونوں لشکروں سے نچلی جانب ساحل سمندر پر تھا۔ حاصل یہ کہ مشرکین کا تجارتی قافلہ مشرک فوج کی پشت پر تھا اس طرح مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کی قوت و شوکت کئی گنا تھی مگر اس کے باوجود الہک نے ان کو مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب کیا۔ 45: میدان بدر میں اچانک دونوں فوجوں کے درمیان مڈ بھیڑ ہوگئی۔ اگر دونوں فریق پہلے لڑائی کا وقت مقرر کرلیتے تو ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی وعدے کے مطابق نہ پہنچ پاتا یا پہنچنے میں پس و پیش کرتا لیکن اللہ تعالیٰ ایک ایسے کام فیصلہ کرنا چاہتا تھا جو کرنے کے لائق تھا یا س کے علم قدیم میں مقدر تھا۔ “ کان ینبغی ان یفعل ای لیحکم ما قد علم انه یکون کائنا ” (مدارک ج 2 ص 80) اور اس سے اعزاز دین اعلاء کلمۃ اللہ، امداد مؤمنین اور قہر اعداء مراد ہے۔ (مدارک) ۔ مسلمان قافلہ پر حملہ کرنے کو نکلے تھے اور مشرکین کی فوج قافلہ کی حفاظت کو آئی تھی دونوں کو ایک دوسرے کا علم نہیں تھا قافلہ بچ گیا اور یہ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوگئیں۔ اس طرح اللہ نے تدبیر سے دونوں فوجوں کو بھڑا دیا۔ 46: جنگ بدر کی عظیم الشان فتح کے معجزے کافروں پر اسلام اور پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کی صداقت واضح ہوگئی اور انہیں آپ کی سچائی کا یقین ہوگیا اس لیے جو مشرکین جنگ بدر میں مرے وہ بھی اس یقین کے ساتھ مرے اور جو زندہ رہے وہ بھی حق پہچان کر زندہ رہے اس طرح اللہ کی حجت قائم ہوگیئ۔ اس صورت میں “ مَنْ ھَلَکَ ” اور “ مَنْ حَيَّ ” سے مشرکین ہی مراد ہوں گے یا “ مَنْ ھَلَکَ ” سے مشرکین اور “ مَنْ حَيَّ ” سے مسلمان مراد ہیں۔ “ ان الذین ھلکوا انما ھلکوا بعد مشاھدة ھذا المعجزة والمؤ منون الذین بقوا فی الحیوة شاھدوا ھذه المعجزة القاھرة ” (کبیر ج 4 ص 547) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42 یہ وہ وقت تھا جس وقت تم میدان کے ورلے کنارے پر تھے اور وہ کافر میدان کے پرلے کنارے پر تھے اور وہ قریش کا قافلہ تم سے نیچے کی جانب اتر چکا تھا اور تم سے نشیب میں تھا اور اگر تم اور کافر باہمی جنگ کا وقت مقرر کرتے تو تم میں مقررہ میعاد پر اختلاف ہوجات لیکن ہوا یہ کہ بغیر میعاد کے مڈبھیڑ ہوگئی تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو پورا کردے جس کام کا ہونا اس کے علم ازلی میں مقرر ہوچکا تھا اور جو کام طے شدہ تھا یہ اس لئے ہوا کہ جس کو گمراہی کی موت مرنا ہے وہ قیام حجت اور روشن دلیل آجانے کے بعد مرے اور جس کو ہدایت یافتہ ہو کر جینا ہے وہ بھی قیام حجت اور روشن دلیل آنے کے بعد جئے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ یعنی مدینہ کے مسلمان ابو سفیان کے قافلہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور ابو جہل کی فوج قافلہ کی مدد کو آئی تھی قافلہ تو نشیب میں اتر گیا اور مدینہ کے مسلمانوں کا اور مکہ کے کافروں کا مقابلہ ہوگیا اس کا سبب بیان فرمایا کہ یہ بد دن وقت مقرر کئے جو لڑائی ٹھن گئی تو اس میں مصلحت یہ تھی کہ اگر وقت مقرر کیا جاتا تو ممکن تھا کہ مسلمانوں میں باہم اختلاف ہوجاتا یا مسلمانوں اور کافروں میں وقت کے تقرر پر اختلاف ہوجاتا یا مسلمان اپنی بےسرو سامانی کے باعث اور کافر مسلمانوں کی حق پرستی کے رعب کے باعث ایک دوسرے سے بھڑتے ہوئے گھبراتے اس لئے خلاف توقع دونوں کے ہاتھ مل گئے تاکہ ایک دفعہ اہل باطل کی کمرٹوٹ جائے اور امر حق ظاہر ہوجائے پھر کوئی ہلاک ہوتا ہے اور کفر کی موت مرتا ہے تو وہ حق کا نشان آجانے کے بعد مرے اور جو زندہ رہنا چاہتا ہے وہ قیام حجت اور دلیل آجانے کے بعد روحانی زندگی اختیار کرے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قریش اپنے قافلہ کی مدد کو آئے تھے اور تم قافلہ کے غارت کو قافلہ بچ گیا اور دونوں فوجیں ایک میدان میں دو کناروں پر آپڑیں ایک کو دوسرے کی خبر نہیں یہ تدبیر اللہ کی تھی اگر تم قصداً جاتے تو ایسا بروقت نہ پہنچتے اور اس فتح کے بعد کافروں پر صدق پیغمبر کا کھل گیا جو مرا وہ بھی یقین جان کر مرا جو جیتا رہا وہ بھی حق پہچان کرتا اللہ کا الزام پورا۔ 12