Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 47

سورة الأنفال

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ﴿۴۷﴾

And do not be like those who came forth from their homes insolently and to be seen by people and avert [them] from the way of Allah . And Allah is encompassing of what they do.

ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators leave Makkah, heading for Badr Allah says; وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِيَاء النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ ... And be not like those who come out of their homes boastfully and to be seen of men, and hinder (men) from the path of Allah; After Allah commanded the believers to fight in His cause sincerely and to be mindful of Him, He commanded not to imitate the idolators, who went out of their homes بَطَرًا (boastfully) to suppress the truth, وَرِيَاء النَّاسِ (and to be seen of men), boasting arrogantly with people. When Abu Jahl was told that the caravan escaped safely, so they should return to Makkah, he commented, "No, by Allah! We will not go back until we proceed to the well of Badr, slaughter camels, drink alcohol and female singers sing to us. This way, the Arabs will always talk about our stance and what we did on that day." However, all of this came back to haunt Abu Jahl, because when they proceeded to the well of Badr, they brought themselves to death; and in the aftermath of Badr, they were thrown in the well of Badr, dead, disgraced, humiliated, despised and miserable in an everlasting, eternal torment. This is why Allah said here, ... وَاللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ and Allah is Muhit (encompassing and thoroughly comprehending) all that they do. He knows how and what they came for, and this is why He made them taste the worst punishment. Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and As-Suddi commented on Allah's statement, وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِيَاء النَّاسِ (And be not like those who come out of their homes boastfully and to be seen of men), "They were the idolators who fought against the Messenger of Allah at Badr." Muhammad bin Ka`b said, "When the Quraysh left Makkah towards Badr, they brought female singers and drums along. Allah revealed this verse, وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِيَاء النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَاللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ And be not like those who come out of their homes boastfully and to be seen of men, and hinder (men) from the path of Allah; and Allah is Muhit (encompassing and thoroughly comprehending) all that they do. Shaytan makes Evil seem fair and deceives the Idolators Allah said next,

میدان بدر میں ابلیس مشرکین کا ہمراہی تھا جہاد میں ثابت قدمی نیک نیتی ذکر اللہ کی کثرت کی نصیحت فرما کر مشرکین کی مشابہت سے روک رہا ہے کہ جیسے وہ حق کو مٹانے اور لوگوں میں اپنی بہادری دھانے کے لئے فخر و غرور کے ساتھ اپنے شہروں سے چلے تم ایسا نہ کرنا ۔ چنانچہ ابو جہل سے جب کہا گیا کہ قافلہ تو بچ گیا اب لوٹ کر واپس چلنا چاہئے تو اس ملعون نے جواب دیا کہ واہ کس کا لوٹنا بدر کے پانی پر جا کر پڑاؤ کریں گے ۔ وہاں شرابیں اڑائیں گے کباب کھائیں گے گانا سنیں گے تاکہ لوگوں میں شہرت ہو جائے ۔ اللہ کی شان کے قربان جائیے ان کے ارمان قدرت نے پلٹ دیئے یہیں ان کی لاشیں گریں اور یہیں کے گڑھوں میں ذلت کے ساتھ ٹھونس دیئے گئے ۔ اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے ان کے ارادے اس پر کھلے ہیں اسی لئے انہیں برے وقت سے پالا پڑا ۔ پس یہ مشرکین کا ذکر ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سرتاج سے بدر میں لڑنے چلے تھے ان کے ساتھ گانے والیاں بھی تھیں باجے گاجے بھی تھے ۔ شیطان لعین ان کا پشت پناہ بنا ہوا تھا انہیں پھسلا رہا تھا ۔ ان کے کام کو خوبصورت بھلا دکھا رہا تھا ان کے کانوں میں پھونک رہا تھا کہ بھلا تمہیں کون ہرا سکتا ہے؟ ان کے دل سے بنوبکر کا مکہ پر چڑھائی کرنے کا خوف نکال رہا تھا اور سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا کہ میں تو اس علاقے کا سردار ہوں بنو مدلج سب میرے تابع ہیں میں تمہارا حمایتی ہوں بےفکر رہو ۔ شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ جھوٹے وعدے دے ، نہ پورا ہونے والی امیدوں کے سبز باغ دکھائے اور دھوکے کے جال میں پھنسائے ۔ بدر والے دن یہ اپنے جھنڈے اور لشکر کو ساتھ لے کر مشکوں کی حمایت میں نکلا ان کے دلوں میں ڈالتا رہا کہ بس تم بازی لے گئے میں تمہارا مددگار ہوں ۔ لیکن جب مسلمانوں سے مقابلہ شروع ہوا اور اس خبیث کی نظریں فرشتوں پر پڑیں تو پچھلے پیروں بھاگا اور کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جس سے تمہاری آنکھیں اندھی ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں بدر والے دن ابلیس اپنا جھنڈا بلند کئے مدلجی شخص کی صورت میں اپنے لشکر سمیت پہنچا اور شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں نمودار ہوا اور مشرکین کے دل بڑھائے ہمت دلائی جب میدان جنگ میں صف بندی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی مٹھی بھر کر مشرکوں کے منہ پر ماری اس سے ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام شیطان کی طرف چلے اس وقت یہ ایک مشرک کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے تھا آپ کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر اپنے لشکروں سمیت بھاگ کھڑا ہوا اس شخص نے کہا سراقہ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے حمایتی ہو پھر یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ ملعون چونکہ فرشتوں کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو اللہ سے ڈرنے والا آدمی ہوں اللہ کے عذاب بڑے بھاری ہیں اور روایت میں ہے کہ اسے پیٹھ پھیرتا دیکھ کر حارث بن ہشام نے پکڑ لیا ۔ اس نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا جس سے یہ بیہوش ہو کر گر پڑا دوسرے لوگوں نے کہا سراقہ تو اس حال میں ہمیں ذلیل کرتا ہے؟ اور ایسے وقت ہمیں دھوکہ دیتا ہے وہ کہنے لگا ہاں ہاں میں تم سے بری الذمہ اور بےتعلق ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھ رہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑی سی دیر کے لئے ایک طرح کی بےخودی سی طاری ہو گئی پھر ہوشیار ہو کر فرمانے لگے صحابیو خوش ہو جاؤ یہ ہیں تمہاری دائیں جانب حضرت جبرائیل علیہ السلام اور یہ ہیں تمہاری بائیں طرف میکائیل علیہ السلام اور یہ ہیں حضرت اسرافیل علیہ السلام تینوں مع اپنی اپنی فوجوں کے آ موجود ہوئے ہیں ۔ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی صورت میں مشرکوں میں تھا ان کے دل بڑھا رہا تھا اور ان میں پشین گوئیاں کر رہا تھا کہ بےفکر رہو آج تمہیں کوئی ہرا نہیں سکتا ۔ لیکن فرشتوں کے لشکر کو دیکھتے ہی اس نے تو منہ موڑا اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ میں تم سے بری ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہں جو تمہاری نگاہ میں نہیں آتے ۔ حارث بن ہشام چونکہ اسے سراقہ ہی سمجھے ہوئے تھا اس لئے اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اس نے اس کے سینے میں اس زور سے گھونسہ مارا کہ یہ منہ کے بل گر پڑا اور شیطان بھاگ گیا سمندر میں کود پڑا اور اپنا کپڑا اونچا کر کے کہنے لگایا اللہ میں تجھے تیرا وہ وعدہ یاد دلاتا ہوں جو تو نے مجھ سے کیا ہے ۔ طبرانی میں حضرت رفاعہ بن رافع سے بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں جب قریشیوں نے مکے سے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہیں بنی بکر کی جنگ یاد آ گئی اور خیال کیا کہ ایسا نہ ہو ہماری عدم موجودگی میں یہاں چڑھائی کر دیں قریب تھا کہ وہ اپنے ارادے سے دست بردار ہو جائیں اسی وقت ابلیس لعین سراقہ کی صورت میں ان کے پاس آیا جو بنو کنانہ کے سرداروں میں سے تھا کہنے لگا اپنی قوم کا میں ذمہ دار ہوں تم ان کا بےخطر ساتھ دو اور مسلمانوں کے مقابلے کے لئے مکمل تیار ہو کر جاؤ ۔ خود بھی ان کے ساتھ چلا ہر منزل میں یہ اسے دیکھتے تھے سب کو یقین تھا کہ سراقہ خود ہمارے ساتھ ہے یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی اس وقت یہ مردود دم دبا کر بھاگا ۔ حارث بن ہشام یا عمیر بن وہب نے اسے جاتے دیکھ لیا اس نے شور مچا دیا کہ سراقہ کہاں بھاگا جا رہا ہے؟ شیطان انہیں موت اور دوزخ کے منہ میں دھکیل کر خود فرار ہوگیا ۔ کیونکہ اس نے اللہ کے لشکروں کو مسلمانوں کی امداد کے لئے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا صاف کہدیا کہ میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اس بات میں وہ سچا بھی تھا ۔ پھر کہتا ہے میں اللہ کے خوف سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ کے عذاب سخت اور بھاری ہیں ۔ اس نے جبرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ساتھ اترتے دیکھ لیا تھا سمجھ گیا تھا کہ ان کے مقابلے کی مجھ میں یا مشرکوں میں طاقت نہیں وہ اپنے اس قول میں تو جھوٹا تھا کہ میں خوف الٰہی کرتا ہوں یہ تو صرف اس کی زبانی بات تھی دراصل وہ اپنے میں طاقت ہی نہیں پاتا تھا ۔ یہی اس دشمن رب کی عادت ہے کہ بھڑکاتا اور بہکاتا ہے حق کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیتا ہے پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔ قران فرماتا ہے شیطان انسان کو کفر کا حکم دیتا ہے پھر جب وہ کفر کر چکتا ہے تو یہ کہنے لگتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور آیت میں ہے کہ جب حق واضح جاتا ہے تو یہ کہتا ہے اللہ کے وعدے سچے ہیں میں خود جھوٹا میرے وعدے بھی سراسر جھوٹے میرا تم پر کوئی زور دعویٰ تو تھا ہی نہیں تم نے تو آپ میری آرزو پر گردن جھکا دی اب مھے سرزنش نہ کرو خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہیں بچا سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو گے ۔ اس سے پہلے جو تم مجھے شریک رب بنا رہے تھے میں تو آج اس کا بھی انکاری ہوں ۔ یقین مانو کہ ظالموں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں آج بھی ہوتیں تو میں تمہیں بدر کے میدان میں وہ گھاٹی دکھا دیتا جہاں سے فرشتے آتے تھے بیشک و شبہ مجھے وہ معلوم ہے انہیں ابلیس نے دیکھ لیا اور اللہ نے انہیں حکم دیا کہ مومنوں کو ثابت قدم رکھو یہ لوگوں کے پاس ان کے جان پہچان کے آدمیوں کی شکل میں آتے اور کہتے خوش ہو جاؤ یہ کافر بھی کوئی چیز ہیں اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے بےخوفی کے ساتھ شیر کا سا حملہ کر دو ۔ ابلیس یہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اب تک وہ سراقہ کی شکل میں کفار میں موجود تھا ۔ ابو جہل نے یہ حال دیکھ کر اپنے لشکروں میں گشت شروع کیا کہہ رہا تھا کہ گھبراؤ نہیں اس کے بھاگ کھڑے ہونے سے دل تنگ نہ ہو جاؤ ، وہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے سیکھا پڑھا آیا تھا کہ تمیں عین موقعہ پر بزدل کر دے کوئی گھبرانے کی بات نہیں لات و عزیٰ کی قسم! آج ان مسلمانوں کو ان کے نبی سمیت گرفتار کرلیں گے نامردی نہ کرو دل بڑھاؤ اور سخت حملہ کرو ۔ دیکھو خبردار انہیں قتل نہ کرنا زندہ پکڑنا تاکہ انہیں دل کھول کر سزا دیں ۔ یہ بھی اپنے زمانے کا فرعون ہی تھا اس نے بھی جادوگروں کے ایمان لانے کو کہا تھا کہ یہ تو صرف تمہارا ایک مکر ہے کہ یہاں سے تم ہمیں نکال دو ۔ اس نے بھی کہا تھا کہ جادوگرو یہ موسیٰ تمہارا استاد ہے حالانکہ یہ محض اس کا فریب تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کے دن جس قدر ابلیس حقیر و ذلیل رسوا اور درماندہ ہوتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا ۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام معافی اور عام رحمت اتری ہے ہر ایک کے گناہ عموماً معاف ہو جاتے ہیں ہاں بدر کے دن اس کی ذلت و رسوائی کا کچھ مت پوچھو جب اس نے دیکھا کہ فرشتوں کی فوجیں جبرائیل کی ماتحتی میں آ رہی ہیں ۔ جب دونوں فوجیں صف بندی کر کے آمنے سامنے آ گئیں تو اللہ کی قدرت و حکمت سے مسلمان کافروں کو بہت کم نظر آنے لگے اور کافر مسلمانوں کی نگاہ میں کم جچنے لگے ۔ اس پر کافروں نے قہقہہ لگایا کہ دیکھو مسلمان کیسے مذہبی دیوانے ہیں؟ مٹھی بھر آدمی ہم ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا رہے ہیں ابھی کوئی دم میں ان کا چورا ہو جائے گا پہلے ہی حملے میں وہ چوٹ کھائیں گے کہ سر ہلاتے رہ جائیں ۔ رب العالمین فرماتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ یہ متوکلین کا گروہ ہے ان کا بھروسہ اس پر ہے جو غلبہ کا مالک ہے ، حکمت کا مالک ہے اللہ کے دین کی سختی مسلمانوں میں محسوس کر کے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ انہیں ذہبی دیوانگی ہے ۔ دشمن الٰہی ابو جہل ملعون ٹیلے کے اوپر سے جھانک کر اللہ والوں کی کمی اور بےسروسامانی دیکھ کر گدھے کی طرح پھول گیا اور کہنے لگا لو پالا مار لیا ہے ، بس آج سے اللہ کی عبادت کرنے والوں سے زمین خالی نظر آئے گی ، ابھی ہم ان میں سے ایک ایک کے دو دو کر کے رکھ دیں گے ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دین میں طعنہ دینے والے مکہ کے منافق تھے ۔ عامر کہتے ہیں یہ چند لوگ تھے جو زبانی مسلمان ہوئے تھے لیکن آج بدر کے میدان میں مشرکوں کے ساتھ تھے ۔ انہیں مسلمانوں کی کمی اور کمزوری دیکھ کر تعجب معلوم ہوا اور کہا کہ یہ لوگ تو مذہبی فریب خوردہ ہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں یہ قریش کی ایک جماعت تھی قیس بن ولید بن مغیرہ ، ابو قیس بن فاکہ بن مغیرہ ، حارث بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب اور علی بن امیہ بن خلف اور عاص بن منبہ بن حجاج یہ قریش کے ساتھ تھے لیکن یہ متردد تھے اور اسی میں رکے ہوئے تھے یہاں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ تو صرف مذہبی مجنوں ہیں ورنہ مٹھی بھر بےرسد اور بےہتھیار آدمی اتنی ٹڈی دل شوکت و شان والی فوجوں کے سامنے کیوں کھڑے ہو جاتے؟ حسن فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بدر کی لڑائی میں نہیں آئے تھے ان کا نام منافق رکھ دیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ قوم اسلام کا اقرار کرتی تھی لیکن مشرکوں کی رو میں بہہ کر یہاں چلی آئی یہاں آکر مسلمانوں کا قلیل سا لشکر دیکھ کر انہوں نے یہ کہا جناب باری جل شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ جو اس مالک الملک پر بھروسہ کرے اسے وہ ذی عزت کر دیتا ہے کیونکہ عزت اس کی لونڈی ہے ، غلبہ اس کا غلام ہے وہ بلند جناب ہے وہ بڑا ذی شان ہے وہ سچا سلطان ہے ۔ وہ حکیم ہے اس کے سب کام حکمت سے ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو اس کی ٹھیک جگہ رکھتا ہے ۔ مستحقین امداد کی وہ مدد فرماتا ہے اور مستحقین ذلت کو وہ ذلیل کرتا ہے وہ سب کو خوب جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخرو غرور کرتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کو اس کافرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] لشکر کفار کا شان وشوکت کا مظاہرہ :۔ یہاں && ان لوگوں && سے مراد مشرکین ہیں۔ جن کا سردار ابو جہل اپنا لشکر لے کر مکہ سے بڑی دھوم دھام اور باجے گاجے کے ساتھ نکلا تھا تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر ہی مرعوب ہوجائیں۔ نیز دوسرے قبائل عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ راستہ میں اسے ابو سفیان کا یہ پیغام مل بھی گیا کہ قافلہ خطرہ سے بچ نکلا ہے لہذا تم واپس آجاؤ۔ لیکن ابو جہل نے غرور سے کہا۔ && اب ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک بدر کے چشمہ پر پہنچ کر مجلس طرب و نشاط منعقد نہ کرلیں۔ وہاں گانے بجانے والی عورتیں خوشی اور کامیابی کے گیت گائیں گی۔ ہم وہاں شراب پئیں گے۔ مزے اڑائیں گے اور تین دن تک اونٹ ذبح کر کے قبائل عرب کی ضیافت کا اہتمام کریں گے تاکہ یہ دن عرب میں ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں اور ان مٹھی بھر مسلمانوں پر ہمارا ایسا رعب طاری ہو کہ پھر کبھی ہمارے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکیں۔ && گویا اس وقت تک ابو جہل کا ارادہ صرف اپنی شان و شوکت جتلانے اور مسلمانوں پر رعب طاری کرنے کا تھا، لڑائی کا نہ تھا۔ پھر جب مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت وہاں پہنچ گئے اور لڑائی کی فضا بن گئی تو اس وقت بھی چند سرداروں نے ابو جہل کو لڑائی سے روکا۔ مگر پھر اس کا پندار اور غرور غالب آیا اور جن لوگوں نے اسے لڑائی روک دینے کا مشورہ دیا تھا انہیں بزدلی کے طعنے دینے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوگئی اور ابو جہل کو بالخصوص اس عذاب سے دوچار ہونا پڑا جس کی وہ طنزیہ دعا کیا کرتا تھا۔ اس کی موت دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں واقع ہوئی اور وہ نہایت ذلت کی موت مرا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ : مسلمانوں کو لڑائی میں ثابت قدمی اور ذکر الٰہی کی کثرت کا حکم دینے کے بعد اب کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی، جو تین مقصد لے کر نکلے تھے، ” بَطَرًا “ اپنی اکڑ اور بڑائی ثابت کرنے کے لیے، ” وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ “ لوگوں کو اپنی شان و شوکت اور شجاعت دکھانے کے لیے اور ” وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے لوگوں کو روکنے کے لیے، جبکہ مومن صرف اور صرف اللہ کا دین غالب کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شان و شوکت کا اظہار، فخریہ اشعار اور شراب نوشی کی محفلوں کے بجائے انھیں موت کے پیالے پی کر، ذلت و رسوائی اور دردناک مصیبتوں کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ یہ لوگ گویا اپنے رب کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے تھے اور اس قادر وقہار کے احاطے سے تو ان کا کوئی چھوٹا بڑا عمل باہر نہ تھا، اس کے آگے ان کی کیا پیش جاسکتی تھی۔ خندق کے موقع پر کعب بن مالک (رض) نے کیا خوب کہا تھا : جَاءَتْ سَخِیْنَۃُ کَیْ تُغَالِبَ رَبَّھَا وَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلاَّبِ ” سخینہ یعنی قریش اپنے رب سے مقابلے کے لیے آئے اور اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا یقیناً ہر صورت مغلوب ہوگا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Another negative and detrimental aspect of conduct against which warning has been given in verse 47 and from which abstinence has been advised is that believers should not wax proud over their strength and numbers nor should they be guilty of nursing some per-sonal interest of theirs rather than remaining sincere to their mission at hand, because these two approaches would usually bring down great powers of the world on their knees. Embedded in this verse, there is an allusion to the circumstances under which the Quraysh of Makkah who had marched off from their city to give military cover to their trade caravan with the heavy back¬ing of men and materials and waxing proud over their number and strength. And even when the trade caravan had passed far beyond the range of any possible attack by Muslims, they elected not to return even then - because, they had other axes to grind by giving a little demonstration of their valour on the site of combat. According to authentic reports, when Abu Sufyan succeeded in get¬ting past the range of Muslim attack with his trade caravan, he sent a courier to Abu Jahl bearing the message that there was no need for him to go any further and that he should better return. Many other Quraysh chiefs had also concurred with this advice. But, driven by his pride, arrogance and the desire for recognition, Abu Jahl declared on oath that they would not return until they reach the site of Badr and celebrate their victory there for a few days. The outcome was that he and his well-known accomplices found themselves dumped there forever. Muslims have been instructed to abstain from the methods adopted by them.

سینتالیسویں آیت میں ایک اور مضر پہلو پر تنبیہ اور اس سے پرہیز کی ہدایت دی گئی ہے وہ ہے اپنی قوت و کثرت پر ناز یا کام میں اخلاص کے بجائے اپنی کوئی اور غرض مضمر ہونا کیونکہ یہ دونوں چیزیں بھی بڑی طاقتور جماعتوں کو پسپا اور زیر کردیا کرتی ہیں۔ اس آیت میں اشارہ قریش مکہ کے حالات کی طرف بھی ہے جو اپنے تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لئے بھاری تعداد اور سامان لے کر اپنی قوت و کثرت پر اتراتے ہوئے نکلے تھے۔ اور جب تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے باہر ہوگیا اس وقت بھی اس لئے واپس نہیں ہوئے کہ اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنا تھا۔ مستند روایات میں ہے کہ جب ابوسفیان اپنا تجارتی قافلہ لے کر مسلمانوں کی زد سے بچ نکلے تو ابوجہل کے پاس قاصد بھیجا کہ اب تمہارے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں رہی واپس آجاؤ اور بھی بہت سے قریش سرداروں کی یہی رائے تھی۔ مگر ابوجہل اپنے کبر و غرور اور شہرت پرستی کے جذبہ میں قسم کھا بیٹھا کہ ہم اس وقت تک واپس نہ ہوں گے جب تک چند روز مقام بدر پر پہنچ کر اپنی فتح کا جشن نہ منالیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اور اس کے بڑے بڑے ساتھی سب وہیں ڈھیر ہوئے اور ایک گڑھے میں ڈالے گئے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کے طریقہ کار سے پرہیز کرنے کی ہدایت فرمائی گئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝ ٤٧ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ بطر البَطَر : دهش يعتري الإنسان من سوء احتمال النعمة وقلّة القیام بحقّها، وصرفها إلى غير وجهها . قال عزّ وجلّ : بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال/ 47] ، وقال : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص/ 58] أصله : بطرت معیشته، فصرف عنه الفعل ونصب، ويقارب البطر الطرب، وهو خطّة أكثر ما تعتري من الفرح، وقد يقال ذلک في التّرح، والبیطرة : معالجة الدابّة . ( ب ط ر ) البطر ۔ وہ دہشت جو خوشحالی کے غلط استعمال حق نعمت میں کرتا ہی اور نعمت کے غلط طور پر صرف کرنے سے انسان کو لاحق ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال/ 47] جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ۔ بَطِرَتْ مَعِيشَتَها[ القصص/ 58] بطرت معش تھا ( اپنی معشیت میں اترا رہے تھے ۔ یہ اصل میں بطرت معشیعۃ ہے فعل کی نسبت اس سے قطع کرکے بطور تمیز اسے منصوب کردیا گیا ہے ۔ اور قریبا طوف بمعنی بطر آتا ہے مگر طوف اس خفت کو کہتے ہیں جو فرط مسرت کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی طرف بمعنی غم بھی آجاتا ہے ۔ البیطرۃ حیوانات کا علاج کرنا انکی چیر پھاڑ کرنا ۔ ریاء قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور نافرمانی میں ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو مکہ مکرمہ سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھلاتے ہوئے باہر نکلے اور یہ بھی مقصود تھا کہ لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ کے لیے نکلنے سے بخوبی آگاہ ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ولا تکونو کالذین خرجوا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا ہے کہ قریش جب مکہ مکرمہ سے بدر کی طرف بڑھے تو گانے اور دف بجانے والیاں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِءَآء النَّاسِ ) یہ قریش کے لشکر کی طرف اشارہ ہے۔ جب یہ لشکر مکہ سے روانہ ہوا تو اس کی شان و شوکت واقعی مرعوب کن تھی۔ اس کے ساتھ عیش و طرب کا سامان بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابو جہل اور دیگر سرداران قریش اپنے غرور اور تکبر کے باعث اس زعم میں تھے کہ مٹھی بھر مسلمان ہمارے اس طاقتور لشکر کے سامنے خس و خاشاک ثابت ہوں گے اور اہم انہیں کچل کر رکھ دیں گے۔ (وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ) وہ اپنی ساری کوششیں اور توانائیاں مخلوق خدا کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے تھے ‘ مگر ان کی کوئی تدبیر اللہ کے قابو سے باہر جانے والی تو نہیں تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. This alludes to the army of the disbelieving Qurayash, which, when it proceeded on a military expedition against the Muslims, was accompanied by singing and dancing minstrels. (See Ibn Sa'd. vol. 2, p. 13 - Ed.) Whenever the army halted, dancing and drinking parties were held. Also the army arrogantly vaunted its military power and numerical strength before the tribes and localities which fell on the way, and boasted of its invincibility. (See al-Waqidi, vol. 1, p. 39 - Ed.) This much is about the moral state of the Quraysh army. What was even worse was the object of their fighting. They were not fighting for any lofty ideal. What they aimed at was merely to defeat the forces of truth and justice, to suppress and obliterate the only group which sought to uphold the truth. They simply did not want any one to champion the cause of truth and justice. This occasion was considered appropriate to warn the Muslims not to let themselves degenerate into a group like the Quraysh. God had favoured them with faith and devotion to the truth. and gratitude to God for this favour required that they should purify both their conduct and their reason for fighting. This directive was not meant just for the time in which it was revealed. It is equally applicable today, and will remain applicable in all times to come. The forces of Unbelief today are no different from those in the time of the Prophet (peace he on him) for the moral state of the present-day armies is no better than of armies in the past. Arrangements for prostitution and drinking are as much a part of the present-day armies of unbelievers as ever before. The soldiers in these armies feel no shame in openly demanding the maximum amount of alcoholic drinks and as many call-girls as possible. Without any sense of shame the soldiers virtually ask their compatriots to make available to them their daughters and sisters for the gratification of their lust. That being the case how can one expect that the soldiers of today would not go about committing debauchery and polluting the life of the people in the lands which they happen to conquer? Apart from moral corruption, the soldiers of the present-day armies are known for their arrogance and affrontery to the conquered peoples. Their gestures and conversation - both of ordinary soldiers and officers - bespeak of their arrogance. Arrogance is also reflected in the statements made by the statesmen of the militarily-strong and triumphant nations who in effect boastfully say to their people, in the words of the Quran: 'No one shall overcome you today' (al-Anfal 8: 48) and challenging the whole world in their vainglory: 'Who is greater than us in strength?' (Fusilat 41: 15). These powers are evidently wicked, but the purposes for which they wage war are even more so. These powers are keen, out of sheer trickery, to assure the rest of the world that in waging war they are prompted only by the welfare of mankind. In actual fact, they might have either one motive for waging war or another, but it is absolutely certain that the motive is not the welfare of mankind. Their purpose is to establish their exclusive control and to exploit the resources created by God for all mankind. Their goal is to reduce other nations to the position of hewers of wood and drawers of water and to subject them to thraldom and servitude. Here Muslims are being told, in effect, that they should eschew the ways of non-Muslims and desist from devoting their lives, energy, and resources to the evil purposes for which non-Muslims engage in warfare.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :38 اشارہ ہے کفار قریش کی طرف ، جن کا لشکر مکہ سے اس شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں ، جگہ جگہ ٹھہر کر رقص و سرور اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے ، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے ۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت ۔ ، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا ۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو ، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے ، ور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھانے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے ۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا ۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پاکیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو ۔ یہ ہدایت اسی زمانہ کے لیے نہ تھی ، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے ۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اس وقت تھا وہی آج بھی ہے ۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزلاینفک کی طرح لگے رہتے ہیں ۔ خفیہ طور پر نہیں ۔ بلکہ علی الاعلان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے ۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے ۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں ۔ ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ ناپاک ان کے مقاصد جنگ ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاح انسانیت ہی نہیں ہے ، باقی سب کچھ ہے ۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہاان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں ۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور ان ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32:: اس سے مراد کفار قریش کا وہ لشکر ہے جو جنگ بدر کے موقع پر بڑا اکڑتا اور اتراتا اور اپنی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکلا تھا۔ سبق یہ دینا ہے کہ جنگی طاقت کتنی بھی ہو، اس پر بھروسہ کرکے تکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ بھروسہ صرف اﷲ تعالیٰ پر رکھنا چاہئے۔ 33: مطلب غالباً یہ ہے کہ بعض مرتبہ ایک شخص بظاہر اخلاص سے کام کرتا نظر آتا ہے، لیکن اس کی نیت دکھاوے کی ہوتی ہے، یا اس کے بر عکس بعض مرتبہ کسی شخص کا انداز بظاہر دکھاوے کا ہوتا ہے (جیسے دُشمن کو مرعوب کرنے کے لئے کبھی طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے) لیکن وہ اخلاص کے ساتھ بھروسہ اللہ ہی پر کرتا ہے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو تمام اعمال کی اصل حقیقت کا پورا علم ہے، اس لئے وہ ان کی جزا یا سزا کا فیصلہ اپنے اسی علم پر محیط کی بنیا پر فرمائے گا، محض ظاہری حالت کی بنیاد پر نہیں (تفسیر کبیر) واللہ سبحانہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٧۔ تفسیر ابن جریر تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو شان نزول اس آیت کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے دن شام کی طرف سے قافلہ جو مشرکین مکہ کی تجارت کا مال لارہا تھا جب وہ قافلہ مسلمانوں کے ہاتھ سے بچ گیا تو ابوسفیان نے ابوجہل سے کہا تھا کہ تم لوگ مکہ سے اپنے قافلہ کی مدد کو آئے تھے اب قافلہ تو بچ گیا چلو مکہ کو واپس چلنا چاہئے ابوجہل نے کہا نہیں تین روز بدر میں ٹھہریں گے اور شراب پیویں گے اور کئی کئی اونٹ روز ذبح کریں گے اور گانے والی چھوکریاں جو ہمارے ساتھ ہیں ان کا گانا سنیں گے جس سے لوگوں پر ذرا ہمارا رعب پڑیگا چناچہ اس کے موافق بدر پر مقام ہوا اور نتیجہ اس شیخی مارنے اور اترانے کا یہ ہوا کہ بجائے شراب کے جام کے جام مرگ ستر آدمیوں کے ساتھ ابوجہل کو پینا پڑا اور بجائے گانے کے ہر طرف نوحہ کی آواز بلند ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو اس طرح کے اترانے سے منع فرمایا صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں عبداللہ بن عمر (رض) ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کا اترانا اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ پچھلی امتوں میں کے بعضے اترانے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں دھنسا دیا آیت میں اترانے کی جو ممانعت ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گذر چکی ہے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی ڈال دی تھی یہ حدیث اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ویصدون عن سبیل اللہ کی تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ طرح طرح سے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کو اللہ کے راستہ سے روکتے تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ (رض) بن عمرو بن العاص کی حدیث گذر چکی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس حدیث سے واللہ بمایعلون محیط کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:47) بطرا۔ مصدر۔ اترانا۔ اشارہ ہے لشکر کفار کی طرف جو قافلہ کی حمایت میں مکہ سے بڑے طمطراق سے نکلا تھا۔ بطر (سمع) بطرا زیادہ نعمت میں پڑکر اترانا یا بہک جانا۔ بطرالحق۔ تکبر سے حق کے قبول کرنے سے انکار کرنا۔ محیط اسم فاعل۔ واحد مذکر قیاسی احاطۃ مصدر (باب افعال) حوطمادہ۔ ہر طرف سے گھیر لینے والا۔ یہاں بمعنی عالم کل ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مسلمانوں کے کو لڑائی میں ثبات اور کثرت ذکر الہیٰ کا حکم دین کے بعد ابن کفار کے تشبہ سے منع فرمایا ہے۔ ( ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی جو باجے گاجوں اور گانے والی لو نڈیوں سمیت ابو سفیان کے تجاریت قافلہ کر بچانے مکہ سے نکلے، جب حجفہ کے مقام پر پہنچے تو انہیں اگرچہ معلوم ہوگیا کہ قافلہ تو مسلمانوں کو زد سے بچ کر نکل آیا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اس وقت تک مکہ واپس نہ جائیں گے جب تک مقام بدر پہنچ کر خوب شرابیں نہ پی لیں اور اونٹ ذبح کر کے گانا بجانا نہ کرلیں اور ہمارے نکلنے کی سارے عرب میں دھوم نہ مچ جائے۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ وہ بدر میں وارد ہوئے تو شراب کے بجائے موت کے پیالے پئے اور گانے والیوں کی بجائے نوحہ گر عورتوں نے حلقہ بدوش ماتم کیا یا للہ العلم غیب، ( کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں جہ اس عبادت ہے، عبادت پر اترا دے یا دکھانے کو کرے تو قبول نہیں ( موضح) جملہ ویصدون عن سبیل اللہ کا عطف بطر پر ہے علی قدیر نہ حال بتا ویل اسم الفا عل۔ ( روح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنگ کے بارے میں مزید ہدایات۔ جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کی ہدایات دینے کے بعد شکست سے دو چار کردینے والی مذموم حرکات سے روکا گیا ہے۔ ١۔ غرور، تکبر اور اترانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٢۔ شہرت، نمائش سے بچ کر اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ٣۔ بےمقصد جنگ کرنے کے بجائے اللہ کی رضا کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ مشرکین مکہ بدر کے لیے نکلے تو ان میں اس قدر غرور تھا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کی حالت یہ تھی کہ جس کسی نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تجارتی قافلہ بچ کر مکہ پہنچ چکا ہے اور قافلے کے سردار ابو سفیان کا پیغام آچکا ہے کہ اب لڑنے کی بجائے واپس آجانا چاہیے۔ اس کے بعد آگے بڑھنے کا کیا جواز ہے ؟ اس کا جواب ابو جہل یہی دیتا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ اس غرور اور تکبر کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور جہاں پڑاؤ ڈالتے، شراب اور شباب کا دور چلتا۔ مکہ سے نکلتے وقت انھوں نے ناچ گانے اور عیاشی کے لیے کچھ بےحیا عورتوں کو ساتھ لیا ہوا تھا۔ اس گھناؤنے کردار کے ساتھ ان کا جنگ کرنے کا مقصد محض عربوں پر دھاک بٹھانا اور شہرت حاصل کرنا تھا۔ تاکہ لوگ ان کی کامیابی اور قوت و سطوت دیکھ کر اسلام قبول کرنے سے رک جائیں۔ انھیں کیا خبر کہ انسان کی تدبیر اور اس کی کوئی کوشش بھی اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ کفار کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور دنیوی رعب اور دبدبہ جمانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس لیے شکست اور ذلت ان کا مقدر ٹھہری۔ مسلمانوں کو ان حرکات سے منع کیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں صحابہ کرام (رض) کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کو بلند کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ تھوڑے اور کمزور ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ (عَنْ أَبِی مُوْسٰی (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال الرَّجُلُ یُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ شَجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ رِیَاءً فَأَیُّ ذٰلِکَ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیل اللّٰہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ )] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا ایک آدمی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اسے غیرت مند اور حمیت والا کہا جائے اور وہ بہادری جتلانے کے لیے لڑتا ہے دوسرا آدمی وہ ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون سا قتال فی سبیل اللہ ہے ؟ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ “ مسائل ١۔ جہاد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ ٢۔ غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے : ١۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٢٦) ٢۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سب چیزوں کو اللہ نے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٠٨) ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک میرے رب نے جو تم کرتے ہو اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ (ھود : ٩٢) ٤۔ جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ (البقرۃ : ٢٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہدایات امت مسلمہ اور جماعت مجاہدین کی تطہیر کے لیے دی جا رہی ہیں کہ وہ قتال اور جہاد میں شرکت ایسے حالات میں نہ کریں کہ اپنی قوت اور کثرت پر اترا رہے ہوں اور اپنی قوت کو جو انہیں اللہ نے عطا کی ہے ان راہوں میں خرچ نہ کریں جن کے بارے میں اللہ کا حکم نہیں ہے۔ کیونکہ مومنین کے دستے قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلتے ہیں ، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں اللہ کی بادشاہت نافذ ہو۔ لوگ صرف اللہ کے غلام ہوں اور یہ اس لیے علم جہاد بلند کرتے ہیں کہ ان تمام طاغوتی طاقتوں کو کرش کرکے رکھ دیں جنہوں نے لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اور جو طاقتیں زمین پر خدا کے مقابلے میں اپنی الوہیت قائم کر رہی ہیں حالانکہ اللہ کی جانب سے ان کو ایسا کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ نہ اللہ کی شریعت ان کے اس فعل کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ علم اس لیے بلند ہوتا ہے کہ پورے کرہ ارض کے تمام انسانوں کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد کردیا جائے ، کیونکہ یہ غلامیاں انسان کی کرامت اور شرافت کے خلاف ہیں اور اسلامی دستے جہاد و قتال کے لیے نکلتے ہی اس لیے ہیں کہ لوگوں کی شرافت اور ان کی آزادی کا تحفظ ہو۔ ان کا مقصد اپنا اقتدار قائم کرنا ، زمین میں علو حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ نہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنا غلام بنائیں یا اتراتے پھریں اور انہیں اللہ نے جو قوت دی ہے اسے غلط مد میں صرف کریں۔ اس طرح اسلامی دستوں کے مقاصد میں ذاتی مقاصد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور اگر انہیں نصرت نصیب ہوتی ہے اور وہ غالب ہوجاتے ہیں تو انہوں نے امتثال امر کیا ہوتا ہے ، اسلامی نظام حیات قائم کرتے ہیں ، اللہ کا کلمہ بلند کرتے ہیں اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ معرکے کے نتیجے میں جو اموال غنیمت ملتے ہیں ، وہ ان سے بھی بےنیاز ہوتے ہیں۔ کون اترا کر نکلا تھا ، کون لوگوں کے سامنے اپنی قوت کی نمائش کر رہا تھا ؟ اور کون لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتا تھا ، یہ لوگ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ یہ قریش کے لشکر کی شکل میں موجود تھے۔ جس طرح کہ یہ لشکر نکلا تھا۔ اور جو قریش فخر و مباہات کے ساتھ نکلے تھے ، ان کا انجام بھی مسلمانوں کے سامنے تھا اور جس طرح ذلیل و خوار ٹوٹ پھوٹ کا وہ شکار ہوچکے تے وہ بھی اہل اسلام کے سامنے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے خود دستوں سے جو خطاب کیا اس کا مصداق ان کے سامنے تھا۔ ذرا دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۔ اور ان لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اترانا اور شان دکھانا اور اللہ کے راستے سے روکنا ، یہ سب امور ابوجہل کے اس تبصرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ابوجہل کے پاس جب ابوسفیان کا پیغام آیا ہے کہ میں ساحل کی جانب سے بچ کر نکل آیا ہوں اور آپ اپنے لشکر کو لے کر واپس ہوجائیں اس لیے کہ تمہیں محمد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قریش کی حالت یہ تھی کہ وہ ساتھ گانے والی لونڈیوں کو بھی لے کر چلے تھے۔ راستے پر گاتے بجاتے اور مویشی کاٹتے اور شراب و کباب کے دور چلاتے ہوئے آ رہے تھے۔ ابوجہل نے اس پیغام کے جواب میں کہا : " ہم اس وقت تک واپس نہ ہوں گے جب تک ہم بدر کے میدان میں پہنچ نہ جائیں ، تین دن قیام نہ کریں ، جانور نہ کاٹیں ، شراب نہ پئیں اور گانے بجانے کی محفلیں منعقد نہ کریں ، اگر ہم نے ایسا کیا تو تمام عرب ہم سے خوف کھائیں گے۔ جب ابو سفیان کا ایلچی واپس ہوا اور ابوجہل کا جواب پہنچایا تو ابوسفیان نے کہا : " افسوس کہ میری قوم کا کیا بنے گا ! یہ ابوجہل کی حرکت ہے۔ اس نے واپسی کو نہ پسند کیا کیونکہ ہی قوم کا لیڈر تھا ، اور اس نے سرکشی اختیار کی۔ سرکشی بہرحال ایک نقص ہے اور شگون بد ہے۔ اگر محمد نے اس لشکر کو کرش کردیا تو ہم ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوجائیں گے۔ ابو سفیان کی فرات درست نکلی۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے اس لشکر کو تہس نہس کردیا اور اس اترانے کی وجہ سے لشکر کفار ذلیل ہوا ، اس لیے کہ وہ سرکشی ، دکھاوے اور راہ خدا کو روکنے کے مقاصد لیے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بدر میں ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ واللہ بما یعملون محیط۔ " جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت میں ہے " اللہ سے ان کی کوئی تدبیر بچ کر نہیں نکل سکتی۔ ان کی کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ان کی قوت اور ان کا علم سب کچھ اس کی گرفت میں ہے۔ اس سے آگے بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان مشرکین کو مسلسل ابھار رہا تھا کہ وہ یہ جنگ لڑیں اور چونکہ یہ لوگ شیطان کے دھوکے میں آگئے تھے ، اس لیے ان کو اس طرح ذلیل ہونا پڑا۔ اور وہ شکست و ریخت کا شکار ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اکڑتے مکڑتے ریا کاری کے لیے نکلے پھر فرمایا (وَ لَا تَکُوْنُوْاکَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَّ رِءَآء النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (یعنی تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے) جو لوگ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان میں اکڑ مکڑ اور اترانے اور فخر کرنے کا مرض ہوتا ہے۔ پھر وہ اس کی وجہ سے نیچا دیکھتے ہیں۔ علامہ بغوی (رح) معالم التنزیل ص ٢٥٤ ج ٢ میں لکھتے ہیں کہ آیت بالا مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو فخر اور تکبر کے انداز میں چلے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ لوگ اپنے تکبر اور فخر کے ساتھ آتے ہیں آپ سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ آپ نے جو مدد کا وعدہ فرمایا ہے اس کے مطابق مدد فرمائیے۔ ابو سفیان تو اپنا قافلہ لے کر بچ نکلا جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے قریش کو رائے دی کہ اب آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں واپس ہونا چاہئے اس پر ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ہم جب تک بدر نہ پہنچ جائیں واپس نہ ہوں گے وہاں تین دن قیام کریں گے اونٹ ذبح کریں گے کھانے کھلائیں گے۔ شرابیں پلائیں گے اور گانے والیاں ہمارے پاس گانے گائیں گی اور عرب میں ہماری شہرت ہوجائے گی پھر وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ بات تو بڑی کہی تھی لیکن قریش کے تکبر اور فخر کا نتیجہ یہ ہوا کہ شرابوں کی جگہ موت کے پیالے پئے اور گانے والی عورتوں کی بجائے نوحہ کرنے والی عورتوں نے ان پر نوحہ کیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو منع فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا اور مومن کو حکم دیا کہ نیت خالص اللہ کی رضا کی رکھیں اور دین کی مدد اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں لگے رہیں۔ ١ ھ اگر لشکر زیادہ ہو تب بھی اترانا اور شہرت کے لیے جنگ کرنا اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا لے بیٹھتا ہے اور شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ غزوۂ حنین میں ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کو اولاً شکست ہوگئی کیونکہ انہیں اپنی کثرت پر گھمنڈ ہوگیا تھا۔ کما قال تعالیٰ (اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْءًا) (الآیۃ) نماز ہو یا جہاد یا انفاق مال یا کوئی بھی نیک عمل ہو اس کا ثواب اسی وقت ملتا ہے جبکہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ مال غنیمت ملے اور ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی شہرت ہو اور ایک شخص اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اس کی بہادری کا چرچا ہو تو ارشاد فرمائیے ان میں اللہ کی راہ میں کون ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس لیے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٣١ از بخاری و مسلم) اکڑ مکڑ، اپنی ذات اور جماعت پر بھروسہ یہ سب اہل ایمان کی شان کے خلاف ہے۔ اس سے اخلاص جاتا رہتا ہے جو لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہیں ان میں تواضع ہوتی ہے اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اللہ ہی کے لیے لڑتے ہیں اور اسی کے لیے مرتے ہیں عین قتال کے موقع پر کافروں کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اکڑ مکڑ دکھانا بھی اللہ کو محبوب ہے۔ دل میں تواضع اور اللہ پر بھروسہ اور ظاہر میں کافروں کو جلانے کے لیے اتراتے ہوئے کافروں کے مقابلہ میں آنا یہ محبوب و مرغوب ہے۔ فی الحدیث فاما الخلاء التی یحب اللہ فاختیال الرجل عند القتال و اختیالہ عند الصدقۃ (کمافی المشکوٰۃ ص ٢٨٧) حدیث میں ہے وہ اترانے والے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ قاتل کے وقت کا اترانا ہے اور صدقہ کے وقت کا اترانا (یعنی صدقہ دل کی خوشی سے اور استغفار سے دے) ۔ مشرکین کا تذکرہ فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا (وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) کہ وہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، قریش مکہ خود بھی اسلام قبول نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے تھے۔ اگر اسلام قبول کرلیتے تو جنگ کا موقعہ ہی نہ آتا لیکن ان کی شرارت نفس نے ان کو یہاں پہنچایا کہ بدر میں آکر مقتول ہوئے۔ (وَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ) (اور اللہ ان کے تمام اعمال سے باخبر ہے لہٰذا وہ ان کو ان کی سزا دے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50 یہ زجر ہے۔ “ بَطَرًا ” فخر اور غرور۔ موصول سے ابوجہل اور اس کا لشکر مراد ہے جو کہ قافلہ کی حمایت کے لیے اپنی تعداد اور بہادری اور سامان جنگ پر فخر و ناز کرتے ہوئے اور لوگوں سے داد شجاعت وصول کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ سے نکلے تھے۔ “ والمراد بھم اھل مکة ابوجهل و اصحابه حین خرجوا الحمایة العیر ”(روح ج 10 ص 14) ۔ “ وَ یُصُدُّوْنَ ” یہ “ بَطَرًا ” پر معطوف ہے اور بتاویل اسم فاعل “ خَرَجُوْا ” فاعل سے حال ہے۔ “ سَبِیْلِ اللّٰه ” سے اللہ کا دین مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 اور تم ان کافروں کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے گھروں سے اتراتے اور شیخی مارتے ہوئے اور لوگوں کے دکھانے کو نکل آئے اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور ان لوگوں کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہیں۔ بدر میں ابوجہل نہایت مفرورانہ انداز میں پہنچا اور باوجود ابو سفیان کے بچکر نکل جانے پر بھی جشن منانے کو ٹھہر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے مغرور، ریاکار اور شیخی خورو (رح) ں کا طرزعمل اختیار کرنے سے مسلمانوں کو روکا ان ریاکاروں کا مقصد نیک نہیں تھا بلکہ یہ لوگ ایک طرف ریاکاری کرتے اور اتراتے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور غلبہ حاصل کرکے دین حق پر چلنے والوں اور دین حق کی راہ کو تلاش کرنے والوں کی گمراہی کے درپے ہوتے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ ایسے بدکاروں کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور وہ ان کی تمام جارحانہ کارروائیوں سے پوری واقفیت رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جہاد عبادت ہے عبادت پر اتراوے یا دکھانے کو کرے تو قبول نہیں۔ 12