Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 5

سورة الأنفال

کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾

[It is] just as when your Lord brought you out of your home [for the battle of Badr] in truth, while indeed, a party among the believers were unwilling,

جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Following the Messenger is Better for the Believers Allah said, كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنَ الْمُوْمِنِينَ لَكَارِهُونَ As your Lord caused you to go out from your home with the truth; and verily, a party among the believers disliked it. After Allah described the believers as fearing their Lord, resolving matters of disput... e between themselves and obeying Allah and His Messenger, He then said here, "since you disputed about dividing war spoils and differed with each other about them, Allah took them away from you. He and His Messenger then divided them in truth and justice, thus ensuring continued benefit for all of you. Similarly, you disliked meeting the armed enemy in battle, who marched in support of their religion and to protect their caravan. You disliked fighting, so Allah decided that battle should occur and made you meet your enemy, without planning to do so on your part.' This incident carried guidance, light, victory and triumph. Allah said; كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْيًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْيًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ Jihad is ordained for you though you dislike it, and it may be that you dislike a thing which is good for you, and that you like a thing which is bad for you. Allah knows but you do not know. (2:216) As-Suddi commented, وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنَ الْمُوْمِنِينَ لَكَارِهُونَ (And verily, a party among the believers disliked) "to meet (the armed) idolators." يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ   Show more

شمع رسالت کے جاں نثاروں کی دعائیں ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لئے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہار... ی اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کر دیا کہ اللہ کی بات بلند ہو جائے اور تمہیں فتح ، نصرت ، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم الخ ) ، تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بد تر ہو ۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا ۔ کہنے لگے تھے آپ نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابو سفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا ۔ حضور نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے ۔ ابو سفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکے دوڑایا ۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کر لو ہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکے سے آ رہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار ۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈ بھیڑ ہو جائے اور حق وباطل کی تمیز ہو جائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں ؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے ۔ ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ نے ہم سے فرمایا کہ قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہو گیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں ۔ ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں ۔ آپ نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا ۔ اب حضرت مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے ، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا ، پس یہ آیت اتری ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں ۔ آپ نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ حضرت عمر فاروق نے یہی جواب دیا آپ نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر حضرت سعد بن معاذ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ہم سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو عزت وبزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک الغماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ کی رکاب تھامے آپ کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہدیا تھا کہ تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔ نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لئے صدق دل سے تیار ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو بسم اللہ کیجئے ، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں ۔ آپ جس سے چاہیں ناطہ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں ۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں ، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے ۔ پس حضرت سعد کے اس فرمان پر قران کی یہ آیتیں اتری ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور حضور نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے ۔ اس کے بعد ان کے لئے واضح ہو گیا یعنی یہ امر کہ حضور بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے ۔ دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا ۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بےمعنی ہے اس لئے کہ اس سے پہلے کا قول آیت ( يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ Č۝ۭ ) 8- الانفال:6 ) اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے ۔ ابن عباس اور ابن اسحاق ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی ۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی ۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ ( واللہ اعلم ) ۔ مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالین اب کوئی روک نہیں ہے ۔ اس وقت عباس بن عبدالمطلب کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور ایسا نہ کیجئے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کیوں؟ انہوں نے جواب دیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ کو مل گئی ۔ مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈ بھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے ، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ تمھاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو ۔ اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سنئے ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ابو سفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا ۔ اس لئے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے ۔ ابو سفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضور اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں ۔ اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں ۔ حضور مع اپنے اصحاب کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کر لی اور نکل کھڑے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہو گیا ۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کر دی ۔ حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا ۔ پھر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا ۔ پھر حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئے ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی سے کہدیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے آپ نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو اس سے مراد آپ کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لئے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے ۔ دوسرے اس لئے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ مکے سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ کا ساتھ دیں گے اس لئے آپ چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کرلیں ۔ یہ سمجھ کر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ شاید آپ ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی بات ہے تو حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا آپ پر ایمان ہے ہم آپ کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کر چکے ہیں ۔ اے اللہ کے رسول جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے ، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے ۔ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں ۔ ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ ہمارے کام دیکھ کر انشاء اللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے ۔ ان کے اس جواب سے آپ بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ چلو اللہ کی برکت پر خوش ہو جاؤ ۔ رب مجھ سے وعدہ کر چکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمان کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہوجانا، بعض...  طبائع کے لئے ناگوار تھا لیکن اس میں بھی بلآخر فائدہ مسلمانوں ہی کا تھا۔ 5۔ 2 یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ صرف بےسروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] جنگ بدر کا پس منظر :۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ کرنے اور مومن کو پند و نصائح کے بعد اب یہ بتلایا جا رہا ہے کہ غزوہ بدر کی ابتداء کن حالات میں اور کیسے ہوئی۔ صورت حال یہ تھی کہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اور لٹ پٹ کر مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے۔ مگر ان کفار نے پھر بھی مسلمانوں کا...  پیچھا نہ چھوڑا اکا دکا ناکام سے حملے بھی کرچکے تھے اور آئندہ مسلمانوں کے مکمل طور پر استیصال کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں نے یہ سوچا کہ قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کردی جائے چناچہ اس غرض کے لیے آپ نے اس شاہراہ کے قریب بسنے والے قبائل سے معاہدے بھی کئے، ان میں سے بعض قبائل تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بعض سے غیر جانبدار رہنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اور اس ناکہ بندی سے مقصود یہ تھا کہ اس تجارت سے کمایا ہوا مال جو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ ہونا ہے اس پر مسلمان کنٹرول کرسکیں۔ دوسرے ان مشرکوں نے مسلمانوں کو بےسرو سامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ پھر انہی جائیدادوں کو بیچ کر ان سے اس تجارتی قافلہ کے لیے سرمایہ مہیا کیا گیا تھا۔ اور طے یہ ہوا تھا کہ اس تجارتی قافلہ کا منافع تو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ کیا جائے۔ اور اصل زر ان لوگوں کو واپس کردیا جائے۔ جنہوں نے مسلمانوں کی جائیدادیں فروخت کر کے سرمایہ لگایا تھا۔ اس طرح وہ گویا مسلمانوں پر دوہرا ظلم ڈھا رہے تھے۔ اور ان واقعات کی خبریں مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ لہذا مسلمانوں کے لیے اس قافلہ کی ناکہ بندی ضروری ہوگئی تھی۔ چناچہ ٢ ھ میں قریش کا یہی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے واپس مکہ جا رہا تھا۔ اس قافلہ کے محافظ تو صرف چالیس پچاس آدمی تھے۔ جبکہ یہ قافلہ ایک ہزار بار بردار اونٹوں پر مشتمل تھا اور تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال لے کر مکہ جا رہا تھا۔ مسلمانوں نے ارادہ کیا کہ اس قافلہ پر حملہ کردیا جائے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قافلہ پر حملہ کی تیاری :۔ سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ معلوم کر کے آئیں کہ ابو سفیان کا قافلہ کس حال میں ہے۔ بسیسہ جب واپس آئے تو اس وقت گھر میں میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی نہ تھا۔ بسیسہ نے خبر سنائی تو آپ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا : ہمیں قافلہ کی طلب ہے۔ لہذا جس کے پاس سواری ہو وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے دور کے مقام سے اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں جس کی سواری حاضر ہے وہ چلیں۔ پھر آپ صحابہ (رض) کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ (مسلم، کتاب الامارہ، باب ثبوت الجنۃ للشہید) ابوجہل کا جنگ پر اصرار :۔ اسی وجہ سے آپ نے جہاد کی غرض سے کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی تھی۔ مگر آپ کو گھر سے نکال لانے میں اللہ کی حکمت یہ تھی کہ کافروں سے مڈ بھیڑ ہو اور حق و باطل کا معرکہ بپا ہو۔ چناچہ حالات کا پانسہ یوں بدلا کہ ابو سفیان کو بھی مسلمانوں کے اس ارادہ کی خبر ہوگئی تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے لیے ایک تیز رفتار سوار کو مکہ بھیج کر کفار مکہ کو مسلمانوں کے اس ارادہ سے مطلع کردیا۔ چناچہ ایک ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر ابو جہل کی سر کردگی میں اس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اپنی راہ بدل کر خیر خیریت سے واپس مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور کافروں کا یہ لشکر میدان بدر تک جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ان لوگوں کو بھی خبر مل گئی کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ لہذا کچھ لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ اب ہمیں واپس مکہ چلے جانا چاہیے کیونکہ جس مقصد سے ہم آئے تھے وہ پورا ہوچکا۔ لیکن ابو جہل اس بات پر مصر تھا کہ یہاں تک تو یہ لشکر پہنچ ہی چکا ہے اور مسلمان بھی آپہنچے ہیں تو اب ان سے جنگ کر کے اور ان کا استیصال کر کے ہی جانا چاہیے۔ اس طرح اس معرکہ حق و باطل کے لیے فضا سازگار بن گئی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ بھی اسی طرح ہے جیسے تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا۔ مفسرین نے اس ”ۚكَمَآ “ (جس طرح) کی کئی توج ہیں کی ہیں، بعض نے وہ بیس تک پہنچا دی ہیں، البتہ صاحب کشاف ن... ے صرف دو توج ہیں کی ہیں، جن میں سے زیادہ واضح یہ ہے کہ یہاں مبتدا محذوف ہے اور عبارت یوں ہوگی ” ھٰذِہِ الْحَالُ کَحَالِ إِخْرَاجِکَ یَعْنِیْ اَنَّ حَالَہُمْ فِیْ کَرَاہِیَۃِ مَا رَأَیْتَ مِنْ تَنْفِیْلِ الْغَزْوَۃِ مِثْلُ حَالِہِمْ فِیْ کَرَاہَۃِ خُرُوْجِکِ لِلْحَرْبِ “ یعنی غزوۂ بدر سے حاصل ہونے والی غنیمت کی تقسیم کے بارے میں آپ کی رائے اور فیصلے کو ناگوار سمجھنے میں ان کا حال ایسا ہی ہے جس طرح ان کا حال آپ کے لڑائی کے لیے نکلنے کے بارے میں تھا، حالانکہ دونوں ہی میں آپ کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر تھی۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” غنیمت کا یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ نکلتے وقت عقل سے تدبیریں کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو ۔ “ (موضح)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It has already been stated at the beginning of the Su-rah that most of the subjects taken up in Surah Al-Anfal relate to the retribution and punishment which visited the disbelievers and polytheists, and to the favour shown and reward given to Muslims. Also, described there as a corollary are injunctions which provide for both parties necessary lessons and advices. Out of what had trans... pired between them, the first and the most important event was that of the battle of Badr in which the polytheists were defeated, suffering heavy losses in men and materials, despite the support of military hardware, numbers and strength at their disposal - and Muslims were blessed with a great victory despite their overall lack of men and materials. Beginning from the verse cited above, there appears in this Surah a detailed descrip¬tion of the battle of Badr. The Battle of Badr: A Detailed Description The first verse mentions that some Muslims did not like to take the risk of initiating and advancing for Jihad on the occasion of& Badr. But, when Allah Ta` ala commanded the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to initiate the Jihad through His special decree, those who had disliked the idea came along with him. The phraseology of the Qur&an employed to state this situation is worth consideration from many angles. First of all, the verse begins with: كَمَا أَخْرَ‌جَكَ (It is like when your Lord made you leave ...). Here the word: كَمَا (kama) is a word used for comparison. Now, the point is what is being compared here, and with what? Commentators have given various interpretations possible here. Abu Hayyan has reported fifteen such statements. Out of these, three are more likely as probable: 1. The simile aims to state that the way the Companions had encountered some mutual difference at the time of the distribution of spoils obtained from the battle of Badr, then, they all obeyed the command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) under Divine decree, and its blessings and good results became manifest before them - similarly, at the beginning of this Jihad, there was an expression of dislike from some people, then, it was under Divine decree that everyone obeyed and the beneficial outcome and superb rewards it brought in its wake were witnessed by everyone openly. This interpretation is credited to Farra& and al-Mubarrad (Al-Bahr Al-Muhit). Maulana Ashraf Thanavi (رح) has preferred the same view in Tafsir Bayan al-Qur&an. 2. The second probable interpretation is that a promise of &high ranks, forgiveness and dignified provision& in the Hereafter was made for true believers in previous verses (4). In these verses, the fact of this promise being certain was described in a manner which pointed out that - though the promise due to be fulfilled in the Hereafter is not yet openly visible for eyes to see, but the promise of Divine help and victory does stand fulfilled in the case of the battle of Badr all too manifestly. So, take your lesson from here and be certain that the way this promise has been fulfilled right here in this mortal world, so it shall be with the promise of the Hereafter - that too shall come to be definitely fulfilled. (Tafsir al-Qurtubi with reference to Al-Nahhas) 3. The third probability is what Abu Hayyan states after having reported fifteen interpretative positions taken by commentators. He says: I was not comfortable with any of these positions. One night, pondering over this verse, I went to sleep. Then, I saw in a dream that I am going somewhere and there is a person with me. I am discussing this verse with him and I am telling him that I have never faced a difficulty similar to what I have faced in the case of the words of this verse. It seems that there is an elision of some word here. Then, all of a sudden, right there within the dream sequence, it transpired into my heart that the elision here is that of the word: نَصَرَکَ , (nasaraka : He helped you). This I liked and so did the other person I was talking to in the dream. When I woke up, I thought about it. My difficulty was all gone since, in this situation, the word: كَمَا &kama& has not been used for comparison, instead, it has been used for the statement of cause. Thus, the verse comes to mean that the cause of the very special help and support given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by Almighty Allah on the occasion of the battle of Badr was that he did what he did in this Jihad, not by some wish or discretion of his own, but by remaining obedient to the Divine Command exclusively. It was under His Command that he left his home and what happened thereafter should have happened precisely as it did - and it always does - that Divine support accompanies such a person. Nevertheless, in this sentence of the verse, all these three mean¬ings are probable and sound. Next, let us consider why the Holy Qur&an has elected not to mention that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came out for this Jihad on his own. Instead of that, the text states: &your Lord made you leave.& Embedded here is a hint towards the perfect servitude and obedience of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It signifies that his act is, in reality, the act of God which issues forth from the parts of his body - as it appears in an Hadith al-Qudsi wherein the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: When a servant of Allah is blessed with nearness to Allah through obedience and servitude, Allah says about him (or her): &I become his eye. What he sees, he sees through Me. I become his ears. What he hears, he hears through Me. I become his hands and feet. Whomsoever he grips, he overpowers through Me and towards whomsoever he walks, he walks through Me.& The essential outcome is that a very special help and support from the most exalted Allah accompanies him all along. It means that the acts which obviously seem to issue forth from his eyes and ears or hands and feet are, in reality, the workings of the power of Allah. To sum up, it is by the use of the word: أَخْرَ‌جَكَ (akhajaka: made you leave), a clear indication has been given that the act of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in coming out for Jihad was really the act of God which made him leave, though manifested through his deed. Also worth noticing here is that the text chooses to say: أَخْرَ‌جَكَ رَبَّکَ (your Lord made you leave) which mentions Allah Almighty with His attribute of being the Rabb, the Nurturer and Sustainer of all. This points out to the fact that the act of making him leave for this Jihad was undertaken as required by the majesty of the Supreme Nurturer and Sustainer and in the interest of teaching and training His prophet and the Muslim community through him. The reason is that, through this arrangement, the oppressed and subdued Muslims were to be made victorious and the arrogant and unjust disbelievers were to be subjected to their first taste of punishment. The next phrase: مِن بَیتِکَ means &from your home.& The sense of the sentence is: &Your Lord made you leave your home.& According to the majority of commentators, this &home& means the home in Madinah, or the fair city of Madinah itself where he came to live after Hijrah - for the event of Badr took place during the second year of Hijrah. Then, by adding the expression: بِالحَق (bil-haqq) translated as: &for the sake of truth,& it has been made very clear that the entire action has been initiated to see that truth prevails and the false stands frustrated. Thus, also established here is that this action has not been triggered because of hunger of land or anger of monarch, as customary with other states. At the conclusion of the verse, it was said: وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِ‌هُونَ (while a group from the believers were averse to it). The sense is that a group from among the Muslims took the idea of this Jihad to be burdensome and unpleasant. How and why the noble Companions came across this unpleasant situation is something which needs to be understood. In fact, not only to understand the present statement but to fully understand verses which will soon follow, it is appropriate to first find out the initial circumstances and causes of the battle of Badr. So, let us first go to what happened at the battle of Badr. According to the report of the event as narrated by Ibn &Uqbah and Ibn ` Amir, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard the news in Madinah that Abu Sufyan was on his way to Makkah al-Mu` azzamah with a trading caravan carrying merchandise from Syria and that all Quraysh tribes of Makkah were partners in this business venture. According to the statement of Ibn &Uqbah, there was no Quraysh man or woman in Makkah who did not hold a share in this venture. If someone had even one mithqal (approximately 4.50gr.) of gold, he or she had still taken a share in it. As for the total invested capital of this trade caravan, it was fifty thousand dinars - as reported by Ibn &Uqbah. Dinar is a gold coin which weighs approximately 4.50 grams. According to current (1970) market rates for gold, it is equal to Rupees fifty two and the value of the total capital of the caravan comes to Rupees twenty six lakhs Let us bear in mind that these rupees are not what we know them to be now. Instead, they are twenty six lakhsl which belong to a period 1400 years behind us - which, it goes without saying, had value and strength of its own, much higher than twenty six crones2 of our time. It is interesting to note that seventy strong youngmen and their chiefs accompanied this trade caravan to manage the security and business concerns of the enterprise. This tells us that this trade caravan was, in real terms, a trading corporation of the Quraysh of Makkah. 1. $ 48, 148 2. $ 4, 81, 481 On the authority of narrations from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and others, Al-Baghawi reports that there were forty Quraysh chiefs among the mounted force accompanying the caravan, with ` Amr ibn al-` As and Mukhramah ibn Nawfal being noteworthy among them. Then, it is also established that the strongest base of power the Quraysh had was no other but this very trading activity and the financial support of the capital which backed it. In fact, this was their seemingly innocent weapon with which they had harassed and compelled the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to leave Makkah. In this background, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to know about the return of this trading caravan after their visit to Syria, it occurred to him that this was the time to confront the caravan and break the main source of strength the Quraysh had. He consulted his Companions (رض) . But, these were the days of Ramadan. They had made no battle plans in advance. So, some of them supported the idea readily and courageously, but some others were a little hesitant. Under this situation, he too did not make participation in this Jihad compulsory for all. Instead, he ordered that those who have a ride should go with him. At that time, there were many people who stayed behind unable to go on Jihad. As for those who wanted to go, their rides were in the adjoining villages. They sought permission to go and bring their rides before they could go with him. But, there was not much time to wait. Therefore, the order given was that only those who have their rides with them and do wish to go on Jihad should get ready to go. There was no time left to summon rides from outside. Therefore, only a few participants who were ready to go could be assembled together. As for those who did not intend to go from the very outset, that too was caused by the absence of a general call for Jihad. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had not made participa¬tion in this Jihad obligatory on everyone. Then, people thought that they were to handle a trade caravan, not an army which could need a matching force of fighters. Therefore, a fairly large number of the Companions did not take part in this Jihad. After reaching Bi&r Suqya, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ordered Qays ibn Sa` sa` ah (رض) to count the number of mujahidin with him. He counted and told him that they were three hundred and thirteen. Hearing that, he was delighted. He said, &This is the number of the companions of Talut.1 Therefore, this is a good omen, that of victory.& The noble Companions (رض) had a total of seventy camels with them. There was one camel for every three of them. They would ride turn by turn. This applied to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم as well. Besides him, there were two other riding partners in the one camel allotted to them. They were Sayyidna Abu Lubabah (رض) عنہ and Sayyidna Ali (رض) . When came his turn to walk, they would submit: &You ride. We shall do the walking for you.& The reply he gave was - as it would be from the one created to be mercy for all creation: &Neither are you stronger than me, nor am I need-free of the reward of the Hereafter that I let you have the chance of earning a little thawab for myself.& Therefore, when it was his turn to walk, the Holy Prophet too used to walk. 1. An Israeli King (Saul). See for details v.1, p. 627, 628 On the other hand, someone reached as far as ` Ain al-Zarqa&, a well-known place in Syria and passed on information to Abu Sufyan, the leader of the trade caravan, that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is waiting for the caravan and will definitely come after them. Abu Sufyan made necessary precautionary arrangements to meet the threat. When this caravan entered Hijaz, he picked up an intelligent and efficient agent known as Damdam (ضمضم) ibn ` Umar, gave him 20 mithqal of gold (about 90 grams) as his wages, and made him agree to rush to Makkah on a speedy camel, and tell them about the danger the caravan apprehended from the companions of the Prophet of Islam. To proclaim the danger, Damdam ibn ` Umar followed the particular custom of that time, cut off the ears and the nose of his she-camel, tore off his shirt from the front and the back and placed the camel-litter or seat upside down on the back of the camel. These signs served as danger bells during those days. When he entered Makkah in that style, the entire city was electrified. Everyone from the Quraysh was ready to put up a defence. Those who could go out to fight went out personally and those who were unable to do so for some reason, they arranged for someone to go and fight in their behalf. Thus, it was within three days that they had an armed force with necessary support ready to march. When they noticed someone hesitating from participating in this battle, they suspected them, taking them to be pro-Muslim. Therefore, they particularly forced such people to come out and fight. There were others who professed Islam openly but were unable to migrate due to their personal compulsions. Having no choice, they had just stayed out in Makkah. These people too - as well as anyone from the family of Banu Hashim about whom it was suspected that he had his sympa¬thies with Muslims - they were all cornered and goaded to come out for this fight. Right there among these helpless people, there was Sayyidna ` Abbas (رض) the uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the two sons of Abu Talib namely Talib and ` Aqil also. Thus, this Makkan army which had one thousand armed men, two hundred horses, six hundred coats of mail, female war-song chanters and their drums marched out to Badr. On every stage of their journey, ten camels were slaughtered to feed them. On the other side, it was on Saturday, the 12th of Ramadan that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم moved out of Madinah with preparations good enough to confront a trade caravan. After covering several stages, when he reached close to Badr, he sent an advance reconnaissance party of two men to gather information about the caravan of Abu Sufyan. (Mazhari) The informers came back with the report that Abu Sufyan&s caravan being aware of the coming of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in hot pursuit after them had passed by keeping close to the sea shore, and that an army of one thousand men was coming from Makkah to give cover to the caravan and fight the Muslims off. (Ibn Kathir) As obvious, this information changed all plans as projected. Given the gravity of the situation, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) went into consultation with his Companions (رض) to determine whether or not they have to fight against this advancing army. Sayyidna Abu Ayyub al-Ansari (رض) and some other Companions submitted that they do not have the necessary force to fight against them, nor have they come out there for that purpose. Thereupon, Sayyidna Abu Bakr رضی اللہ تعالیٰ عنہ rose and pledged his obedience to whatever the Messenger of Allah decided. Then, rose Sayyidna ` Umar (رض) pledging his obedience to him and his readiness for Jihad in the same spirit. Finally, it was Sayyidna Miqdad (رض) who stood up and said: Ya Rasul Allah! Go by the command of Allah you have been given and enforce it. We are with you. By Allah, we shall never say to you what was said to Sayyidna Musa (علیہ السلام) by the Bani Isra&il: اذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (Go, you and your Lord, and fight. As for us, we are sitting right here - 5:24). By the Being that has sent you with the true faith, if you were to take us as far as Bark al-Ghamad in Ethiopia, we shall follow you to fight there.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was very pleased. He made prayers for them. But, an expression of support was yet to come from the Ansar which seemed to point out to the probability that the pledge of help and support given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) by the Ansar of Madinah was limited to and valid within the city of Madinah, and that they were not bound to extend their support for areas outside Madinah. Therefore, he addressed the gathering once again asking them to advise him whether or not he should take the initiative in this Jihad. This address was beamed at the Ansar. Sayyidna Sa&d ibn Mu` adh al-Ansari (رض) got the point and asked him: &Ya Rasul Allah! Are you asking us?& He said: &Yes.& Sayyidna Sa&d ibn Mu&dh then submitted: &Ya Rasul Allah! We have believed in you and we have testi¬fied that everything you say is all true, and we have given solemn pledges to you that we shall obey you under all condi-tions. Therefore, enforce whatever command you have been given by Allah Ta` ala. By the Being that has sent you with the true faith, if you take us into the sea, we shall go with you into the sea and no one from among us shall lag behind you. It is all right for us if you were to take us as soon as tomorrow and throw us against the enemy. We strongly hope that Allah Ta` ala will have you witness conditions generated by our deeds, conditions which would become the delight of your eyes. Take us wherever you wish in the name of Allah.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was pleased with the response and ordered the group of Mujahidin to march forward with the name of Allah. And to them he gave the good news that Allah Ta` ala has promised him that they shall overcome one of the two groups. The two groups mentioned here mean: One, the trade caravan of Abu Sufyan; and the other, this army coming from Makkah. Then, he said: &By Allah, it is as if I am seeing the killing fields of disbelievers with my own eyes.& (This whole event has been taken from Tafsir Ibn Kathir and Mazhari) Explanation of Verses in the Light of the Details of the Event After having heard the details of the event, let us go back to the verses cited above. That it has been said in the first verse (5): وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِ‌هُونَ (while a group from the believers was averse to this Jihad) is actually a hint towards the state of mind which some noble Compan¬ions were in while being consulted on the advisability of waging Jihad and to which they seemed to be averse or not courageous enough to undertake it.  Show more

خلاصہ تفسیر ( مال غنیمت کا لوگوں کی مرضی کے موافق تقسیم نہ ہونا بلکہ منجانب اللہ اس کی تقسیم ہونا اگرچہ بعض لوگوں کو طبعا گراں گزرا ہو مگر مصالح کثیرہ کی وجہ سے یہی خیر اور بہتر ہے۔ اور یہ معاملہ خلاف طبع مگر مصلح کثیرہ کو متضمن ہونے میں ایسا ہی ہے) جیسا آپ کے رب نے آپ کے گھر ( اور بستی) سے مصلحت ... کے ساتھ آپ کو ( بدر کی طرف) روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت ( اپنی تعداد اور سامان جنگ کی قلت کی وجہ سے طبعا) اس کو گراں سمجھتی تھی وہ اس مصلحت ( کے کام) میں ( یعنی جہاد اور مقابلہ لشکر کے معاملے میں) بعد اس کے کہ اس کا ظہور ہوچکا تھا ( اپنے بچاؤ کے لئے بطور مشورہ کے) آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لئے جاتا ہے اور وہ ( موت کو گویا) دیکھ رہے ہیں ( مگر آخر کار انجام اس کا بھی اچھا ہوا کہ اسلام غالب اور کفر مغلوب ہوا) ۔ معارف ومسائل شروع سورت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ سورة انفال کے بیشتر مضامین کفار و مشرکین پر عذاب و انتقام اور مسلمانوں پر احسان و انعام کے متعلق ہیں اور اس کے ضمن میں دونوں فریق کے لئے عبرت و نصیحت کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور ان معاملات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم واقعہ غزوہ بدر کا تھا جس میں بڑے ساز و سامان اور تعداد و قوت کے باوجود مشرکین کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ شکست اور مسلمانوں کو باوجود ہر طرح کی قلت اور بےسامانی کے فتح عظیم نصیب ہوئی۔ اس سورت میں واقعہ بدر کا تفصیلی بیان ہے۔ جو آیات مذکورہ سے شروع ہو رہا ہے۔ پہلی آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ بعض مسلمانوں کو بدر کے موقع پر جہاد کے لئے اقدام ناپسند تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فرمان کے ذریعہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہاد کا حکم دیا تو ناپسند کرنے والے بھی ساتھ ہوگئے۔ اس بات کے بیان کرنے کے لئے قرآن کریم نے جو الفاظ اختیار فرمائے ہیں وہ کئی طرح سے قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ آیت کا شروع (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ سے ہوتا ہے۔ اس میں لفظ كَمَآ ایک ایسا لفظ ہے جو تشبیہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو غور طلب یہ ہے کہ یہاں تشبیہ کس چیز کی کس چیز سے ہے، حضرات مفسرین نے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں۔ امام تفسیر ابوحیان نے اس طرح کے پندرہ اقوال نقل کئے ان میں زیادہ قرب تین احتمال ہیں۔ اول یہ کہ اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ جس طرح غزوہ بدر کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت صحابہ کرام کے آپس میں کچھ اختلاف رائے ہوگیا تھا۔ پھر حکم خداوندی کے تحت سب نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کی برکات اور اچھے نتائج کا ظہور سامنے آگیا۔ اسی طرح اس جہاد کے شروع میں کچھ لوگوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار ہوا پھر حکم ربانی کے ماتحت سب نے اطاعت کی اور اس کے مفید نتائج اور اعلی ثمرات کا مشاہدہ ہوگیا۔ یہ توجیہ فراء اور مبرد کی طرف منسوب ہے ( بحر محیط) اسی کو بیان القرآن میں ترجیح دی ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں سچے مومنین کے لئے آخرت میں درجات عالیہ اور مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان آیات میں اس وعدہ کے یقینی ہونے کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ آخرت کا وعدہ اگرچہ ابھی آنکھوں کے سامنے نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ نصرت و فتح غزوہ بدر میں آنکھوں کے سامنے آچکا ہے اس سے عبرت پکڑو اور یقین کرو کہ جس طرح یہ وعدہ دنیا ہی میں پورا ہوچکا ہے اسی طرح آخرت کا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ ( تفسیر قرطبی بحوالہ نحاس) تیسرا احتمال وہ ہے جس کو ابوحیان نے مفسرین کے پندرہ اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مجھے ان میں سے کسی قول پر اطمینان نہیں تھا۔ ایک روز میں اسی آیت پر غور و فکر کرتے ہوئے سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی جگہ جارہا ہوں اور ایک شخص میرے ساتھ ہے میں اسی آیت کے متعلق اس سے بحث کررہا ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے کبھی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جیسی اس آیت کے الفاظ میں پیش آئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی لفظ محذوف ہے۔ پھر یکایک خواب ہی میں میرے دل میں پڑا کہ یہاں لفظ نصرک محذوف ہے اس کو خود میں نے بھی پسند کیا اور جس شخص سے بحث کررہا تھا اس نے بھی پسند کیا۔ بیدار ہونے کے بعد اس پر غور کیا تو میرا اشکال ختم ہوگیا کیونکہ اس صورت میں لفظ کما تشبیہ کے لئے نہیں بلکہ بیان سبب کے لئے استعمال ہوا ہے اور معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ غزوہ بدر میں اللہ جل شانہ کی طرف سے جو خاص نصرت و امداد آپ کی ہوئی اس کا سبب یہ تھا کہ اس جہاد میں آپ نے جو کچھ کیا کسی اپنی خواہش اور رائے سے نہیں بلکہ خالص امر ربی اور حکم خداوندی کے تابع کیا۔ اسی کے حکم پر آپ اپنے گھر سے نکلے۔ اور اطاعت حق کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے اور یہی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ بہرحال آیت کے اس جملہ میں یہ تینوں معنی محتمل اور صحیح ہیں۔ اس کے بعد اس پر نظر ڈالئے کہ قرآن کریم نے اس جہاد کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود نکلنا ذکر نہیں کیا بلکہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا فعل درحقیقت حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو آپ کے اعضاء وجوارح سے صادر ہوتا ہے۔ جیسا ایک حدیث قدسی میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بندہ جب اطاعت و عبدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ جو کچھ دیکھتا ہے میرے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے۔ میں اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جس کو پکڑتا ہے میرے ذریعہ پکڑتا ہے جس کی طرف چلتا ہے میرے ذریعہ چلتا ہے۔ خلاصہ اس کا یہی ہے کہ حق تعالے کی خاص نصرت و امداد اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ جن افعال کا صدور بظاہر اس کے آنکھ کان یا ہاتھ پاؤں سے ہوتا ہے، درحقیقت اس میں قدرت حق تعالیٰ شانہ کی کارفرما ہوتی ہے رشتہ در گردنم افگندہ دوست میبرد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست خلاصہ یہ ہے کہ لفظ اَخْرَجَكَ میں اس طرف اشارہ کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جہاد کے لئے نکلنا درحقیقت حق تعالیٰ کا نکالنا تھا جو آپ کی ذات سے ظاہر ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ فرمایا جس میں اللہ جل شانہ کا ذکر صفت رب کے ساتھ کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ اس جہاد کیلئے آپ کو نکالنا شان ربوبیت سے اور تربیت کے تقاضا سے تھا۔ کیونکہ اس کے ذریعہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کے لئے فتح یاب اور مغرور و ظالم کفار کے لئے پہلے عذاب کا مظاہرہ کرنا تھا۔ مِنْۢ بَيْتِكَ کے معنی ہیں آپ کے گھر سے، مطلب یہ ہوا کہ نکالا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر یا خود مدینہ طیبہ ہے جس میں ہجرت کے بعد آپ مقیم ہوئے۔ کیونکہ واقعہ بدر ہجرت کے دوسرے سال میں پیش آیا ہے۔ اس کے ساتھ لفظ بالْحَقِّ کا اضافہ کرکے بتلا دیا کہ یہ ساری کارروائی احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے عمل میں آئی ہے۔ دوسری حکومتوں کی طرح ملک گیری کی ہوس یا بادشاہوں کا غصہ اس کا سبب نہیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو گراں سمجھتی اور ناپسند کرتی تھی۔ صحابہ کرام کو یہ گرانی کس طرح اور کیوں پیش آئی اس کے سمجھنے کے لئے نیز آئندہ آنے والی دوسری آیات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے غزوہ بدر کے ابتدائی حالات اور اسباب کا پہلے معلوم کرلینا مناسب ہے۔ اس لئے پہلے غزوہ بدر کا پورا واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔ ابن عقبہ و ابن عامر کے بیان کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ طیبہ میں یہ خبر ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام سے مال تجارت لے کر مکہ معظمہ کی طرف جا رہے ہیں۔ اور اس تجارت میں مکہ کے تمام قریشی شریک ہیں۔ ابن عقبہ کے بیان کے مطابق مکہ کا کوئی قریشی مرد یا عورت باقی نہ تھا جس کا اس میں حصہ نہ ہو۔ اگر کسی کے پاس صرف ایک مثقال ( یعنی ساڑھے چار ماشہ) سونا بھی تھا تو اس نے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا تھا۔ اس قافلہ کے پورے سرمایہ کے متعلق ابن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ پچاس ہزار دینار تھے۔ دینار سونے کا سکہ ہے جو ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے سونے کے موجودہ بھاؤ کے حساب سے اس کی قیمت باون روپیہ اور پورے سرمایہ کی قیمت چھبیس (26) کروڑ سے بھی زیادہ کی حیثیت رکھتے تھے، اس تجارتی قافلہ کی حفاظت اور کاروبار کے لئے قریش کے ستر جوان اور سردار ساتھ تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ تجارتی قافلہ درحقیقت قریش مکہ کی ایک تجارتی کمپنی تھی۔ بغوی نے بروایت ابن عباس وغیرہ نقل کیا ہے کہ اس قافلہ میں قریش کے چالیس سوار قریش کے سرداروں میں سے تھے جن میں عمرو بن العاص، محزمہ بن نوفل خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ قریش کی سب سے بڑی طاقت ان کی یہی تجارت اور تجارتی سرمایہ تھا جس کے بل پر انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو تنگ کرکے مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر شام سے اس قافلہ کی واپسی کی اطلاع ملی تو آپ کی رائے ہوئی کہ اس وقت اس قافلہ کا مقابلہ کرکے قریش کی طاقت توڑ دینے کا موقع ہے۔ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو زمانہ رمضان کا تھا پہلے سے کسی جنگ کی تیاری نہ تھی۔ بعض حضرات نے تو چستی اور ہمت کا اظہار کیا مگر بعض نے کچھ پس و پیش کی۔ آپ نے بھی سب پر اس جہاد کی شرکت کو لازم نہ قرار دیا بلکہ یہ حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس سواریاں موجود ہیں وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ اس وقت بہت سے آدمی جہاد میں جانے سے رک گئے اور جو لوگ جانا چاہتے تھے اور ان کی سواریاں دیہات میں تھیں انہوں نے اجازت چاہی کہ ہم اپنی سواریاں لے آویں تو ساتھ چلیں۔ مگر وقت اتنے انتظار کا نہ تھا۔ اس لئے حکم یہ ہوا کہ جن لوگوں کی سواریاں پاس موجود ہیں اور جہاد میں جانا چاہیں صرف وہی لوگ چلیں۔ باہر سے سواریاں منگانے کا وقت نہیں اس لئے ساتھ جانے کا ارادہ رکھنے والوں میں سے بھی تھوڑے ہی آدمی تیار ہوسکے۔ اور جن حضرات نے اس جہاد میں ساتھ جانے کا ارادہ ہی نہیں کیا اس کا سبب بھی یہ تھا کہ آپ نے سب کے ذمہ اس جہاد کی شرکت کو واجب نہ قرار دیا تھا۔ اور ان لوگوں کو یہ بھی اطمینان تھا کہ یہ تجارتی قافلہ ہے کوئی جنگی لشکر نہیں جس کے مقابلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو زیادہ لشکر اور مجاہدین کی ضرورت پڑے۔ اس لئے صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد اس جہاد میں شریک نہ ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بیر سقیا پر پہنچ کر قیس بن صعصعہ کو حکم دیا کہ لشکر کو شمار کریں تو انہوں نے شمار کرکے اطلاع دی کہ تین سو تیرہ حضرات ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ تعداد اصحاب طالوت کی ہے اس لئے فال نیک، فتح اور کامیابی کی ہے۔ صحابہ کرام کے ساتھ کل ستر اونٹ تھے ہر تین آدمی کے لئے ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی دو حضرات ایک اونٹ کے شریک تھے ابو لبابہ اور حضرت علی، جب آپ کی باری پیدل چلنے کی آتی تو یہ حضرات عرض کرتے کہ آپ سوار رہیں ہم آپ کے بدلے پیدل چلیں گے۔ رحمتہ اللعالمین کی طرف سے یہ جواب ملتا کہ نہ تو تم مجھ سے زیادہ قوی ہو اور نہ میں آخرت کے ثواب سے مستغنی ہوں کہ اپنے ثواب کا موقع تمہیں دے دوں، اس لئے اپنی باری میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پیدل ہی چلتے تھے۔ دوسری طرف کسی شخص نے ملک شام کے مشہور مقام عین زرقا پر پہنچ کر رئیس قافلہ ابو سفیان کو اس کی خبر پہنچا دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے قافلہ کے انتظار میں ہیں ان کا تعاقب کریں گے۔ ابو سفیان نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ جب یہ قافلہ حدود حجاز میں داخل ہوا تو ایک ہوشیار مستعد آدمی ضمضم بن عمر کو بیس مثقال سونا یعنی تقریبا دو ہزار روپیہ اجرت دے کر اس پر راضی کیا کہ وہ تیز رفتار سانڈنی پر سوار ہو کر جلد سے جلد مکہ مکرمہ میں یہ خبر پہنچا دے کہ ان کے قافلہ کو صحابہ کرام سے خطرہ لاحق ہے۔ ضمضم بن عمر نے اس زمانہ کی خاص رسم کے مطابق خطرہ کا اعلان کرنے کے لئے اپنی اونٹنی کے ناک کان کاٹ دیئے اور اپنے کپڑے آگے پیچھے سے پھاڑ ڈالے۔ اور کجاوہ کو الٹا کرکے اونٹنی کی پشت پر رکھا۔ یہ علامات اس زمانہ میں خطرہ کی گھنٹی سمجھی جاتی تھی۔ جب وہ اس شان سے مکہ میں داخل ہوا تو پورے مکہ میں ہلچل مچ گئی اور تمام قریش مدافعت کے لئے تیار ہوگئے جو لوگ اس جنگ کے لئے نکل سکتے تھے خود نکلے اور جو کسی وجہ سے معزور تھے انہوں نے کسی کو اپنا قائم مقام بنا کر جنگ کے لئے تیار کیا۔ اور صرف تین روز میں یہ لشکر پورے سامان کے ساتھ تیار ہوگیا۔ ان میں جو لوگ اس جنگ میں شرکت سے ہچکچاتے اس کو یہ لوگ مشتبہ نظروں سے دیکھتے اور مسلمانوں کا ہم خیال سمجھتے اس لئے ایسے لوگوں کو خصوصیت سے جنگ کے واسطے نکلنے پر مجبور کیا۔ جو لوگ علانیہ طور پر مسلمان تھے اور ابھی تک بوجہ اپنے اعذار کے ہجرت نہیں کرسکے تھے بلکہ مکہ میں بس رہے تھے ان کو اور بنو ہاشم کے خاندان میں جس پر بھی یہ گمان تھا کہ یہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا ہے ان کو بھی اس جنگ کے لئے نکلنے پر مجبور کیا۔ انھیں مجبور لوگوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس اور ابو طالب کے دو بیٹے طالب اور عقیل بھی تھے۔ اس طرح اس لشکر میں ایک ہزار جوان دو سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں اور ترانے گانے والی لونڈیاں اور ان کے طبلے وغیرہ لے کر بدر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہر منزل پر دس اونٹ ان لوگوں کے کھانے کے لئے ذبح ہوتے تھے۔ دوسری طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ایک تجارتی قافلہ کے انداز سے مقابلہ کی تیاری کر کے بارہ رمضان کو شنبہ کے دن مدینہ طیبہ سے نکلے اور کئی منزل طے کرنے کے بعد بدر کے قریب پہنچ کر آپ نے دو شخصوں کو آگے بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لائیں ( مظہری) مخبروں نے یہ خبر پہنچائی کہ ابو سفیان کا قافلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعاقب کی خبر پاکر ساحل دریا کے کنارے کنارے گزر گیا اور اس کی حفاظت اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ مکرمہ سے ایک ہزار جوانوں کا لشکر جنگ کے لئے آرہا ہے۔ ( ابن کثیر) ظاہر ہے کہ اس خبر نے حالات کا نقشہ پلٹ دیا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رفیق صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کہ اس آنے والے لشکر سے جنگ کرنا ہے یا نہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری اور بعض دوسرے حضرات نے عرض کیا کہ ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور نہ ہم اس قصد سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور تعمیل حکم کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر فاروق اعظم کھڑے ہوئے اور اسی طرح تعمیل حکم اور جہاد کے لئے تیار ہونے کا اظہار کیا پھر حضرت مقداد (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ : یا رسول اللہ جو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہے آپ اس کو جاری کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا تھا۔ (آیت) فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ، یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب لڑ بھڑ لیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں ملک حبشہ کے مقام برک الغماد تک بھی لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں گے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوئے اور ان کو دعائیں دیں۔ مگر ابھی تک حضرات انصار کی طرف سے موافقت میں کوئی آواز نہ اٹھی تھی اور یہ احمتال تھا کہ حضرات انصار نے جو معاہدہ نصرت و امداد کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا تھا وہ اندرون مدینہ کا تھا۔ مدینہ سے باہر امداد کرنے کے وہ پابند نہیں اس لئے آپ نے پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا کہ لوگو مجھے مشورہ دو کہ اس جہاد پر اقدام کریں یا نہیں۔ اس خطاب کا روئے سخن انصار کی طرف تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاری سمجھ گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ ہم سے پو چھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں، سعد بن معاذ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور اس کی شہادت دی کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں سب حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد و پیمان کئے ہیں کہ ہر حال میں آپ کی اطاعت کریں گے۔ اس لئے آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہو اس کو جاری فرمائیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ دریا میں گھس جائیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی آپ سے پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں اس میں کوئی گرانی نہیں کہ آپ کل ہی ہمیں دشمن سے بھڑا دیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے کام سے ایسے حالات کا مشاہدہ کرائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ ہمیں اللہ کے نام پر جہاں چاہیں لے چلئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر بہت مسرور ہوئے اور قافلہ کو حکم دے دیا کہ اللہ کے نام پر چلو۔ اور یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر ہمارا غلبہ ہوگا۔ دونوں جماعتوں سے مراد۔ ایک ابو سفیان کا تجارتی قافلہ اور دوسرا یہ مکہ سے آنے والا لشکر ہے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم میں گویا اپنی آنکھوں سے مشرکین کی قتل گاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ پورا واقعہ تفسیر ابن کثیر اور مظہری سے لیا گیا ہے۔ واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد ان آیات مذکور الصدر کو دیکھئے۔ پہلی آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو بھاری سمجھ رہی تھی۔ اس سے اشارہ اس حال کی طرف ہے جو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کے وقت بعض صحابہ کرام کی طرف سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے جہاد سے پست ہمتی کا اظہار کیا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝ ٥ ۙ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ ... القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) یہ امر بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو آپ کے پروردگار نے مدینہ منورہ سے قرآن حکیم کے ساتھ یا جنگ کے ارادہ سے (بدر کی طرف) روانہ کیا اور ایک جماعت لڑائی کو شاق اور ناگوار سمجھ رہی تھی اور اس کے باوجود کہ ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ آپ بغیر حکم خداوندی کے کوئی کام...  نہیں کرتے، وہ آپ سے جنگ کے بارے میں بطور مشورہ جھگڑ رہے تھے۔ شان نزول : (آیت) ” کما اخرجک ربک من “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منور میں تھے ہمیں اطلاع ملی کہ ابوسفیان کا قافلہ آرہا ہے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ارادہ ہے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت عنایت فرمائے، چناچہ ہم نکلے اور ایک یا دو دن چلے کہ ابوجہل لشکر لے کر بدر میں آگیا آپ نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کی کیا رائے ہے، ہم نے عرض کیا اس قوم سے قتال کی تو ہماری اندر طاقت نہیں، ہم تو صرف قافلہ کی نیت سے آئے تھے، اس پر حضرت مقداد (رض) نے فرمایا : ایسا مت کہو، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا کہ ” تم اور تمہارا اللہ جاکر لڑو “۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ “۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَیْتِکَ بالْحَقِّص وَاِنَّ فَرِیْقًًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ ) ۔ یہ اس پہلی مشاورت کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مدینہ ہی میں فرمائی تھی۔ لشکر کے میدان بدر کی طرف روانگی کو ناپسند کرنے والے دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک...  تو منافقین تھے جو کسی قسم کی آزمائش میں پڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے منصوبے کے تحت اس طرح کی کسی مہم جوئی کی روایت کو Nip the evil in the bud کے مصداق ابتدا ہی میں ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے دلائل بظاہر بڑے بھلے تھے کہ لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں ہے ‘ ہمیں تو اچھی باتوں اور اچھے اخلاق سے دین کی تبلیغ کرنی چاہیے ‘ اور لڑنے بھڑنے سے بچنا چاہیے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف کچھ نیک سرشت سچے مؤمن بھی ایسے تھے جو اپنے خاص مزاج اور سادہ لوحی کے سبب یہ رائے رکھتے تھے کہ ابھی تک قریش کی طرف سے تو کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں ہوا ‘ لہٰذا ہمیں آگے بڑھ کر پہل نہیں کرنی چاہیے۔ زیر نظر آیت میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بدر کی طرف روانہ ہونا اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ایک حصہ تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: جن لوگوں نے مالِ غنیمت جمع کیا تھا، ان کی خواہش یہ تھی کہ یہ مال انہی کے پاس رہے، لیکن فیصلہ اس کے برعکس ہوا، اب ان کو تسلی دی جارہی ہے کہ اِنسان کی ہر خواہش انجام کے اعتبار سے درست نہیں ہوتی۔ اسے بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جو واقعہ اس کی خواہش کے خلاف ہوا، بہتری اسی میں تھی۔ اور ایسا ہی ہے جیسے ابوج... ہل سے جنگ کرنے کا معاملہ میں ہوا، مدینہ منوَّرہ سے نکلتے وقت چونکہ صرف ابوسفیان کے قافلے پر حملہ کرنا پیش نظر تھا، اور کوئی باقاعدہ لشکر تیار نہیں کیا گیا تھا، اس لئے جب یہ بات سامنے آئی کہ ابوجہل ایک بڑا لشکر لے کر مقابلے پر آگیا ہے تو بعض صحابہؓ کی خواہش یہ تھی کہ ابوجہل سے جنگ کرنے کے بجائے فی الحال واپس چلے جائیں، کیونکہ اس بے سروسامانی کی حالت میں ایک مسلح فوج کا مقابلہ موت کے منہ میں جانے کے مرادف ہوگا۔ لیکن دوسرے صحابہ نے بڑی پر جوش تقریریں کیں، جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے، اور جب آپ کی مرضی معلوم ہوگئی توسب نے جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا، اور بعد میں ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا عظیم فائدہ اسی میں تھا کہ اس طرح کفر کی کمر توڑدی گئی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اور تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت ابوایوب انصاری (رض) سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابوسفیان کی شام سے مال لے کر راستہ میں ہونے کی خبر سن کر جب مدینہ سے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکل... ے اور ہزار آدمیوں کی جمعیت سے قریش ابوسفیان کی مدد کو آگئے تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت سے یہ عرض کیا کہ ہم تو فقط ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کی نیت سے مدینہ سے نکلے تھے لڑائی کے لئے حسب دل خواہ اس وقت ہم میں طاقت نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح لڑائی کے ختم ہونے کے بعد تم نے غنیمت کے مال میں جھگڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے حق حق اس کا فیصلہ کردیا اسی طرح لڑائی سے پہلے بھی تم نے لڑائی کے چھیڑنے اور نہ چھیڑنے میں جھگڑا کیا تھا اور فقط شام کے ملک سے ابوسفیان کے ساتھ جو قافلہ آرہا تھا اسی کا لوٹ لینا تمہارا مقصود تھا مگر اللہ تعالیٰ نے تدبیر سے تم کو لوٹ کا مال بھی دلوا دیا اور جس ارادہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مدینہ سے اس کی طرف نکالا تھا وہ ارادہ بھی پورا کردیا کہ کافروں کا زیر اور تم کو فتح مند کردیا اس تقریر سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں گھر سے نکالنے کا مقصد مدینہ سے بدر کی طرف کا سفر ہے ہجرت کے معنے جو بعضے مفسروں نے کئے ہیں وہ معنے مضمون آیت سے بعید ہیں اسی واسطے اکثر مفسروں نے آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ گھر سے مطلب یہاں مدینہ کا گھر ہے مکہ کا نہیں ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث اوپر گذرچ کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بدر کی لڑائی سے ایک رات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ جتلا دیا تھا کہ اس لڑائی میں مشرکین مکہ میں سے بڑے بڑے سرکش لوگ مارے جاویں گے بلکہ ان لوگوں کی لاشوں کے پڑے رہنے کے مقامات بھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے تھے۔ آیت ٹکڑے اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ وہ درست کام یہ تھا کہ اس لڑائی میں آخر کو اسلام کا غلبہ ہوگا اور مخالفوں کے بڑے بڑے سرکش لوگ اس لڑائی میں مارے جاویں گے اس لئے مسلمانوں کی ایک جماعت کا اس لڑائی پر رضا مند نہ ہونا مرضی الہی کی برخلاف ہے۔ یہ جماعت انصار میں کے کچھ لوگوں کی تھی ان لوگوں کو لڑائی کے شروع ہوجانے میں جو تامل تھا اس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ ابوسفیان نے بہت سا مال تجارت کا شام کے ملک سے خریدا تھا اور پھر تیس آدمیوں کا قافلہ وہ مال لے کر مکہ کو جارہا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ خبر سنی تو آپ نے مسلمانوں کو اس قافلے کے لوٹنے پر آمادہ کیا اور اسی رادہ سے کچھ اوپر تین سوآدمیوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے آپ باہر نکلے۔ ابوسفیان نے جب یہ خبر سنی تو مکہ کو جلدی سے ایک قاصد روانہ کیا اور قریش کو اس حال کی اطلاع دے کر اپنے قافلہ کی مدد چاہی۔ مکہ سے قریش میں کے ہزار آدمی مقام بدر تک ابوسفیان کی مدد کو آگئے اب ابوسفیان کا قافلہ تو سمندر کے کنارہ کے راستہ سے مکہ کو چلا گیا اور مسلمانوں کا تھوڑی سی فوج کو ہزار آدمیوں کی فوج سے لڑائی شروع کرنے کی نوبت آئی اسی لڑائی کے شروع کرنے میں انصار کے بعضے لوگوں نے وہ عذر کیا جس کا ذکر آیت کے آگے کے ٹکڑے کی تفسیر میں آتا ہے :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:5) کما جیسے۔ ان آیات کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے مختصراً ان کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ شعبان المعظم سنہ 2 ھ میں مدینہ کے شمال جانب ابو سفیان کی قیادت میں ایک تاجرتی وفد شام سے مکہ کی جانب لوٹ رہا تھا۔ ان کی گزرگاہ مسلمانان مدینہ کی زد میں تھی۔ ابو سفیان نے حفظ ما تقدم کے طور پر امداد کے لئے مک... ہ کو اپنا آدمی دوڑایا۔ جس نے حالات کو نہایت مبالغہ کے ساتھ مکہ والوں کے سامنے بیان کی۔ اس پر مکہ سے ابوجہل کی سرکردگی میں ایک لشکر جرار جملہ سامان حرب سے لیس ہوکر جنوب سے مدینہ کی جانب چڑھ نکلا۔ جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو ان وک معلوم ہوا کہ قافلہ مسلمانوں کی زد سے بچ کر نکل گیا ہے اس پر ابو جہل کے کئی آدمیوں نے رائے دی کہ اب جب کہ مقصد پورا ہوگیا ہے ہمیں لوٹ جانا چاہیے لیکن ابو جہل اور اس کے لشکر کی اکثریت اس پر رضا مند نہ ہوئی ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کی اس مختصر جمعیت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے جس سے نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی یہ تجارتی شاہراہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں سے محفوظ ہوجائے گی۔ لہٰذا انہوں نے آگے بڑھنے کا عزم کیا۔ ادھر مسلمانوں کو جب ایک طرف سے قافلہ کی آمد اور دوسری طرف کفار کے لشکر کی ہلغار کا علم ہوا تو ان کے سامنے دو راستے تھے شمال میں قافلہ پر حملہ کرکے مال حاصل کریں۔ یا جنوب میں کفار کے لشکر کا مقابلہ کرکے دین حق کی سربلندی قائم کریں۔ باہمی مشاورت کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤخر الذکر راستہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ چند ایک مسلمان اس فیصلہ پر اتنے خوش نہ تھے ان کے خیال میں وہ سیدھے موت کے منہ میں جا رہے تھے کیونکہ لشکر کفار کے جم غفیر اور مسلمانوں کی تعداد حقیر میں کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ پھر ادھر ہر شخص کیل کانٹے سے لیس اور ادھر مسلمانوں میں اکثر نہتے تھے۔ لیکن انجام کار حالات نے ثابت کردیا کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بالکل برحق تھا۔ اور آخر کار حق ہی کی ستح ہوئی اور نتیجہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لئے خوشگوار نکلا۔ (یہ غزوۂ بدر رمضان سنہ 2 ھ کا واقعہ ہے) اب ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح ایک فریق بدر کے میدان میں علی الرغم اور بمجبوری نکلا تھا اب مال غنیمت کی تقسیم پر بھی بعض ناخوش ہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں جو مال جس کے ہاتھ آجاتا وہی اس کا مالک بن بیٹھتا تھا۔ اب خداوند تعالیٰ کا حکم آگیا کہ سارے کا سارا مال غنیمت اللہ اور اللہ کے رسول کی ملکیت ہے جس طرح چاہیں تقسیم کریں۔ لیکن ان کو علم نہیں کہ گو بظاہر یہ طریقہ تقسیم ان پر شاق ہے لیکن اس کے دوررس نتائج نہ صرف اسلام بلکہ ان کے اپنے حق میں بغائیت خوشگوار ہوں گے۔ اخرجک ربک من بیتک بالحق۔ (جس طرح) تیرے رب کا تجھے اپنے گھر سے (کفار کے مقابلہ میں) نکالنا حق بجانب تھا۔ (اسی طرح خداوند تعالیٰ کا یہ فرمان کہ الانفال للہ و للرسول حق بجانب ہے) وان۔ میں واؤ حالیہ ہے حالانکہ یقیناً (مومنوں کا ایک گروہ ناخوش تھا)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ اخرج۔ نکالا۔ بیت۔ گھر۔ لکرھون۔ البتہ برا سمجھنے والے ہیں۔ ناگوار محسوس کرنے والے ہیں۔ یجادلون۔ وہ جھگڑتے ہیں۔ تبین۔ کھل گیا۔ کھل چکا۔ واضح ہوگیا۔ کانما۔ جیسے۔ گویا کہ وہ۔ یساقون۔ وہ ہانکے جا رہے ہیں۔ ینظرون۔ وہ دیکھ رہے ہیں۔ یعد۔ وہ عدد کرتا ہے۔ احدی۔ کوئی ایک۔ الطائفین۔ دو جماعتیں۔ تو...  دون۔ تم پسند کرتے ہو۔ غیر ذات الشوکۃ۔ کانٹانہ لگے۔ ان یحق۔ یہ کہ وہ ثابت کردے۔ یقطع۔ وہ کاٹتا ہے۔ دابر۔ (دبر) ۔ جڑ ۔ بنیاد۔ یبطل۔ وہ باطل کرتا ہے۔ مٹاتا ہے۔ کرہ۔ برا لگا۔ تشریح : درحقیقت غزوہ بدر ہر اعتبار سے اس قدر فیصلہ کن تاریخی واقعہ ہے جس نے کفار مکہ کو نہ صرف ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا تھا بلکہ غیر متوقع حالات نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ یہ غزوہ 17 /رمضان المبارک کو ہوا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا رمضان تھا اور اس سے پہلے باقاعدہ جنگ بھی نہ ہوئی تھی اس لئے یہ بہت ہی نازک وقت تھا مسلمانوں کا فقر و فاقہ، وطن سے بےوطنی، بےسروسامانی ، ایک ہزار فوج سے مقابلہ اور وہ بھی مدینہ منورہ سے باہر کافی دور۔ ایک طرف ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ سے گزرنے والا وہ قافلہ تھا جو مکہ والوں کی دولت سے مالا مال تھا۔ دوسری طرف مکہ سے آنے والا وہ لشکر تھا جو انتقام اور اپنی طاقت و قوت پر نازل کرتا ہوا بڑھا چلا آ رہا تھا۔ اللہ نے فرمادیا تھا کہ ان دونوں میں سے جس طرف بھی قدم بڑھائے جائیں گے فتح و کامرانی مسلمانوں کا مقدر ہوگی۔ لیکن اس کا فیصلہ کیسے ہوگا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جاں نثار صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب بھی کسی بات میں بالخصوص نازک حالات میں مشورہ کیا جاتا ہے تو رائے کا اختلاف ضرور ہوا کرتا ہے اور مشورہ کی جان بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر شخس کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہو۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے بھی پورے خلوس اور آزادی سے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ان صحابہ کرام (رض) میں جہاں وہ اولو العزم لوگ تھے جنہوں نے بےخوف و خطر اس آگے میں کودنے کا فیصلہ کرلیا تھا وہیں وہ حضرات بھی تھے جو کسی انجانے خوف سے پریشان تھے اور آسان راستہ کی طرف مائل تھے مسلسل پریشانیوں کی وجہ سے وہ اس طرف مائل تھے کہ سب سے پہلے ابو سفیان کے قافلے کو ٹھکانے لگا دیا جائے اور پھر کفار مکہ سے مقابلہ کیا جائے یا کوئی ایسا راستہ تلاش کرلیا جائے جس میں کانٹا بھی نہ لگے اور مسئلہ بھی حل ہوجائے۔ یہ تو مشورے کا ایک اختلافی انداز تھا لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال و دولت سے لدے ہوئے قافلہ کو چھوڑ کر کفار مکہ سے لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر کسی نے اختلاف نہیں کیا بلکہ عظیم ایثار و قربانی کا وہ عمل پیش کیا جس پر کائنات کا ذرہ ذرہ فخر کرتا رہے گا۔ جس سے کفار کی کمر بھی ٹوت گئی اور ساری دنیا کے سامنے حق حق بن کرچمک اٹھا اور باطل باطل ہوکر رہ گیا اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی حق و صداقت کی سربلندی کے لئے اپنے گھر سے نکلوایا اور میدان جنگ میں پہنچایا تاکہ حق کا بول بالا ہو۔ یہ بات اگرچہ کچھ لوگوں کو گراں تھی اور وہ ایسا مجھ رہے تھے کہ جیسے جانتے بوجھتے وہ موت کے منہ میں دھیکلے جا رہے ہوں حالانکہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا وعدہ کرلیا تھا کہ آج یہ جاں نثار جس طرف بھی قدم بڑھائیں گے فتح و کامرانی ان کے قدم چومے گی لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ اہل ایمان لشکر کفار سے مقابلہ کرکے اپنا ایثار و قربانی پیش کریں تاکہ کفر کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا جائے اور حق و صدات کی شمع کو اس طرح روشن کردیا جائے کہ سچ سچ بن کر جگمگا اٹھے اور جھوٹ باطل ہو کر رہ جائے خواہ یہ واقعہ کسی کو کتنا بھی ناگوار کیوں نہ ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ ایک قافلہ مختصر تاجران مکہ کا شام سے مکہ کو چلا جس کے ساتھ مال و اسباب بہت تھا آپ کو وحی سے معلوم ہوا آپ نے صحابہ کو خبر دی صحابہ کو قلت رجال اور کثرت مال کا حال معلوم ہونے سے غنیمت کا خیال ہوا اور اسی ارادہ سے مدینہ سے چلے یہ خبر جو مکہ پہنچی تو ابوجہل وہاں کے روساء وجنود کے ہمراہ اس قافلہ کی حف... اظت کے لیے نکلا اور قافلہ سمندر کے کنارہ کنارہ ہولیا اور ابوجہل مع لشکر بدر میں آکر ٹھہرا اس وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی وجران میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کو سارا قصہ بذریعہ وحی معلوم ہوا اور آپ سے وعدہ خداوندی ہوا کہ ان دو گروہ یعنی قافلہ اور لشکر میں سے آپ کو ایک گروہ پر غلبہ ہوگا آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا چونکہ بارادہ مقابلہ لشکر کے نہ آئے تھے اس لیے سامان حرب کافی ساتھ نہ تھا ونیز خود تین سو چند آدمی تھے اور لشکر میں ایک ہزار آدمی تھے اس لیے بعض کو پس وپیش ہوا اور عرض کیا کہ اس لشکر کا مقابلہ نہ کیجیے قافلہ کا تعاقب مناسب ہے آپ رنجیدہ ہوئے تو اس وقت حضرت ابوبکر وعمر و حضرت مقداد و حضرت سعد بن معاذ (رض) اجمعین نے اطاعت کی تقریریں کیں تب آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب آیت نمبر 5 سے 14 تک معرکے کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ اموال غنیمت ہاتھ آئے تھے اور نتیجۃً مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ الجھ گئے تھے جیسا کہ حضرت عبادہ ابن الصامت نے نہایت ہی خلوص ، وضاحت اور صاف گوئی سے بتایا۔ یہاں حالات و واقعات پر اجمالی تب... صرہ کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں مختلف لوگوں کے موقف اور احساس کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس پورے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معرکے میں مسلمان دست قدرت کے لیے گویا ایک پردہ تھے اور جو واقعات بھی پیش آئے اور ان کے جو نتائج بھی رونما ہوئے ان میں اموال غنیمت اور ان کے بارے میں تنازعات بھی شامل ہیں۔ یہ سب کے سب تقدیر الہی کے کرشمے تھے ، اللہ کی تدبیر ، تقدیر اور ہدایت کے مطابق سب کچھ رونما ہوا۔ اس جنگ کے بارے میں خود مسلمانوں کی جو پلاننگ تھی یا جو ارادے تھے وہ بہت ہی معمولی سی بات تھی ، نہایت ہی محدود۔ اور اللہ نے جو چاہا تھا وہ نہایت ہی بڑا اور لا محدود تھا۔ کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ یہ معرکہ عظیم ہو اور فیصلہ کن (یوم الفرقان) ہو۔ اور زمین اور آسمان دونوں پر اس کے اثرات ہوں۔ اس سے مالء اعلی ا کے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں اور زمین کی مخلوق بھی متاچر ہو۔ اس کے ذریعے انسانی تاریخ کا داھارا بدل کر رکھ دیا جائے۔ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ایک فریق تو نہایت ہی بد دلی کے ساتھ اس معرکے میں جا رہا تھا۔ بعض نے انفال پر تنازعہ شروع کردیا۔ تو دیکھو کہ تم جو کچھ سوچ رہے تھے اور جسے تم پسند یا ناپسند کرتے تھے۔ وہ اللہ کے ہاں جو فیصلے ہو رہے تھے ان کی نسب سے بہت ہی حقیر تھا۔ تمام امور آخر کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ ۔۔۔ اللہ نے اموال غنیمت کا اختیار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ آپ ان کے درمیان برابری کے اصول پر تقسیم کریں۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے کہ آپ کو اختیار دیا گیا کہ قومی مصارف کے لیے خمس حضور کے لیے مختص کردیا گیا اور یہ انتظام اس لیے کیا گیا کہ جہاد کے مقدس فریضے میں مسلمانوں کے دلوں سے یہ لالچ بھی جاتی رہے کہ انہیں اموال غنیمت میں سے بھی کچھ ملے گا۔ تاکہ اموال غنیمت پر آئندہ اس قسم کے تنازعات پیدا نہ ہوں۔ اس میں حق تصرف حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ حضور کی تقسیم کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ کسی کو کوئی شکایت پیدا ہونے کا سوال ہی نہ تھا اور تاکہ ان لوگوں کے دلوں سے خلش دور ہوجائے جنہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا تھا کیونکہ وہ بہرحال تمام لوگوں کے ساتھ اصول مساوات کے مطابق برابر کے شریک تھے۔ اب اللہ تعالیٰ یہاں خود ان کے طرز عمل سے ایک مثال پیش کرکے سمجھاتے ہیں کہ جو اللہ چاہتا ہے وہی بہتر ہے۔ اور جو وہ خود چاہتے ہیں وہ اللہ کی اسکیم کے مقابلے میں حقیر ہوتا ہے۔ لہذا ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ انفال کے بارے میں اللہ جو اسلامی قانون نازل کر رہا ہے وہی بہتر رہے گا۔ اس لیے کہ لوگ تو سامنے کے فائدے کو دیکھ سکتے ہیں ، عالم غیب پر ان کی نظروں کے سامنے نہیں ہے اور اللہ یہ تبصرہ اللہ اسی واقعہ کو موضوع بنا کر فرما رہا ہے جو ان کے سامنے ہے اور اسی معرکے کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں غنائم ملے اور انہوں نے جھگڑا شروع کردیا۔ اس معرکے کے بارے میں وہ کیا ارادہ رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کس کا ارادہ کرلیا۔ اب ذرا دیکھو اپنے ارادے کو بھی اور اللہ کے ارادے کو بھی۔ دونوں میں قدر و قیمت کے اعتبار سے کس قدر فرق ہے۔ دونوں ارادوں کا یہ فرق کس قدر بعید ہے۔ كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۔ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ ۔ وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ ۔ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ ۔ (اس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی وسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اس وقت پیش آئی تھی جب کہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے۔ در آں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہوچکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جاے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اموال غنیمت کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹانا اور پھر ان کو جمع کرکے مسلمانوں کے درمیان اصول مساوات کے مطابق تقسیم کرنا اور اس اصول مساوات کو بعض لوگوں کا ناپسند کرنا اور اس سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے بعض نوجوانوں کو دوسرے کے مقابلے میں بہتر حصہ دینا اسی طرح لوگوں کو پسند نہ تھا جس طرح ان لوگوں کو میدان جنگ کی طرف نکلنا پسند نہ تھا۔ کیونکہ مد مقابل بہتر ساز و سامان سے لیس تھا۔ اسلیے بعض مومنین اس وقت جنگ کو پسند نہ کرتے تھے لیکن نتائج سب کے سب ان کے سامنے تھے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غزوۂ بدرکا تذکرہ ان آیات میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے اور رکوع کے ختم تک بلکہ اس کے بعد بھی متعدد آیات میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور پھر مزید تفصیل اس سورت کے پانچویں اور چھٹے رکوع میں بیان فرمائی ہے، غزؤہ بدر کا کچھ تذکرہ سورة آل عمران کے رکوع دوم (انوار البیان ج ٢) میں اور کچھ آل عمران کے رکوع نمبر ١٢ ... (انوار البیان ج ٢) میں گزر چکا ہے۔ وہاں فرمایا ہے (وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ) (اور یہ بات واقعی اور حقیقی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقام بدر میں تمہاری مدد فرمائی جب کہ تم کمزور تھے) ۔ آگے بڑھنے سے پہلے پورا واقعہ ذہن نشین کرلینا چاہئے تاکہ آیت کریمہ میں جو اجمال ہے اس کی تشریح سمجھ میں آجائے۔ قریش مکہ ہر سال تجارت کے لیے ملک شام جایا کرتے تھے مکہ معظمہ سے شام کو جائیں تو راستہ میں مدینہ منورہ سے گزرنا ہوتا ہے۔ شہر مدینہ میں داخل نہ ہوں تو دور سے یا قریب سے اس کی محاذات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے، اب آگے یہ سمجھیں کہ قریش مکہ کا ایک قافلہ تجارت کے لیے شام گیا ہوا تھا بہت سے لوگوں نے اس تجارت میں شرکت کی تھی اور اپنے اموال لگائے تھے۔ قافلہ کے سردار ابو سفیان تھے جو (اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جب ابو سفیان کا قافلہ شام سے واپس ہو رہا تھا جس میں تیس یا چالیس افراد تھے اور ایک ہزار اونٹ تھے تو سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قافلہ کے گزرنے کا علم ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ قریش کا قافلہ ادھر سے گزر رہا ہے چلو اس قافلہ کو پکڑیں گے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اموال کو عطا فرما دے، آپ نے تاکیدی حکم نہیں فرمایا تھا اور یہ بھی نہیں فرمایا تھا کہ جنگ کرنے نکل رہے ہیں اس لیے بعض صحابہ آپ کے ہمراہ روانہ ہوگئے اور بعض مدینہ منورہ ہی میں رہ گئے، ابوسفیان کو خطرہ تھا کہ راہ میں مسلمانوں سے مڈ بیڑن نہ ہوجائے اس لیے وہ راستہ میں راہ گیروں سے اس بات کا کھوج لگاتا ہوا جا رہا تھا کہ کہیں مسلمان ہمارے قافلہ کے درپے تو نہیں ہیں۔ جب آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ مدینہ منورہ سے سفر فرمایا تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی اس نے اپنا راستہ بد ل دیا اور ضمضم بن عمرو غفاری کو اہل مکہ تک خبر پہنچانے کے لیے جلدی جلدی آگے روانہ کردیا، اس کو اس کام کا محنتانہ دینا بھی طے کردیا۔ ضمضم جلدی سے مکہ پہنچا اور اس نے خبر دے دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تمہارے قافلے کے درپے ہیں اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں اپنے قافلہ کی حفاظت کرسکتے ہو تو کرلو، یہ خبر سنتے ہی اہل مکہ میں ہل چل مچ گئی اور مقابلہ کے لیے ایک ہزار آدمی جن کا سردار ابو جہل تھا بڑے کروفر اور اسباب عیش و طرب کے ساتھ اکڑتے اور اتراتے ہوئے بدر کی طرف روانہ ہوگئے بدر ایک آبادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے براستہ رابغ مدینہ منورہ کو جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے یہاں سے مدینہ منورہ سو میل سے کچھ کم رہ جاتا ہے، بدر نامی ایک شخص تھا جس نے اس بستی کو آباد کیا تھا اس کے نام پر اس بستی کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ مقام بدر میں ایک کنواں تھا اس کا نام بدر تھا اسی کنویں کے نام سے یہ آبادی مشہور تھی، قریش مکہ اپنے ساتھ گانے بجانے والی عورتیں لے کر نکلے تھے تاکہ وہ گانا گائیں اور لڑائی کے لیے ابھاریں، اس لشکر میں تقریباً تمام سردار ان قریش شامل تھے، صرف ابو لہب نہ جاسکا تھا اس نے اپنی جگہ ابو جہل کے بھائی عاصی بن ہشام کو بھیج دیا تھا، ان لوگوں کے ساتھ دیگر سامان حرب کے علاوہ ساٹھ گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں اور سواری کے اونٹوں کے علاوہ کثیر تعداد میں ذبح کرنے اور کھانے کھلانے کے لیے بھی اونٹ ساتھ لے کر چلے تھے، سب سے پہلے ابو جہل نے مکہ سے باہر آکر دس اونٹ ذبح کر کے لشکر کو کھلائے پھر مقام عسفان میں امیہ بن خلف نے نو اونٹ ذبح کیے، پھر مقام قدید میں سہیل بن عمرو نے سو اونٹ ذبح کیے پھر اگلی منزل میں شیبہ بن ربیعہ نے نو اونٹ ذبح کیے پھر اس سے اگلی منزل میں (جو مقام حجفہ میں تھی) عتبہ بن ربیعہ نے دس اونٹ ذبح کیے۔ اس طرح ہر منزل میں دس دس اونٹ ذبح کرتے رہے اور کھاتے رہے، اور ابو البختری نے بدر پہنچ کر دس اونٹ ذبح کیے۔ قریش مکہ تو مکہ معظمہ سے چلے اور آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا آپ نے عبداللہ بن ام مکتوم (رض) کو اپنا خلیفہ بنایا وہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے ساتھ روانہ ہونے والوں میں حضرت ابو لبابہ (رض) بھی تھے۔ آپ نے انہیں مقام روحاء سے واپس کردیا اور امیر مدینہ بنا کر بھیج دیا۔ آپ کے لشکر کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور آپ کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر نمبر وار سوار ہوتے تھے۔ ہر تین افراد کو ایک اونٹ دیا گیا تھا۔ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابو لبابہ (رض) اور حضرت علی (رض) کے ساتھ ایک اونٹ میں شریک تھے۔ نوبت کے اعتبار سے آپ بھی پیدل چلتے تھے۔ مقام روحاء تک یہی سلسلہ رہا جب روحاء سے حضرت ابو لبابہ (رض) کو واپس فرما دیا تو آپ حضرت علی (رض) اور حضرت مرثد (رض) کے ساتھ ایک اونٹ میں شریک رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا کہ جب آپ کے پیدل چلنے کی نوبت آتی تھی تو حضرت ابو لبابہ اور حضرت علی (رض) عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ برابر سوار رہیں ہم آپ کی طرف سے پیدل چل لیں گے۔ آپ نے جواب میں فرمایا ما أنتما باقوی منی و لا أنا بأغنی عن الاجر منکما (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٠) (تم دونوں مجھ سے زیادہ قوی نہیں ہو اور ثواب کے اعتبار سے بھی میں تمہاری بہ نسبت بےنیاز نہیں ہوں۔ یعنی جیسے تمہیں ثواب کی ضرورت ہے مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی ذفران میں پہنچے تو وہاں قیام فرمایا۔ اب تک تو ابو سفیان کے قافلے سے تعرض کرنے کی نیت سے سفر ہو رہا تھا یہاں پہنچ کر خبر ملی کہ قریش مکہ سے جنگ کی نوبت آگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرات صحابہ (رض) سے مشورہ فرمایا کہ قریش ہمارے مقابلہ کے لیے نکل چکے ہیں اب کیا کیا جائے۔ حضرت ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور اچھا جواب دیا پھر حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے انہوں نے بھی اچھا جواب دیا پھر حضرت مقداد (رض) کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی رائے کے مطابق تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم ایسا نہ ہوگا جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہہ دیا تھا (اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ) (تو اور تیرا رب چلے جائیں دونوں قتال کرلیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) آپ تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ قتال کرنے والے ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد ١ ؂ تک ساتھ لے چلیں گے تو ہم ساتھ رہیں گے اور جنگ سے منہ نہ موڑیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اشیروا علی ایھا الناس (اے لوگو ! مشورہ دو ) آپ کا مقصد یہ تھا کہ انصاری حضرات اپنی رائے پیش کریں۔ آپ کی بات سن کر حضرت سعد بن معاذ (رض) نے عرض کیا (جو انصار میں سے تھے) کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہم سے جواب لینا چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! انہوں نے عرض کیا کہ ہم آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی تصدیق کی ہم نے گواہی دی کہ جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد کیا ہے کہ ہم آپ کی بات مانیں گے اور فرمانبر داری کریں گے آپ اپنے ارادہ کے موافق عمل کریں اور تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر راہ میں سمندر آگیا اور آپ اس میں داخل ہونے لگیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ داخل ہوجائیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا ہم جنگ میں ڈٹ جانے والے ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے والے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے آپ کو ایسی بات دکھا دے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ آپ اللہ کی برکت کے ساتھ چلئے۔ حضرت سعد بن معاذ (رض) کی بات سن کر آپ کو بہت خوشی ہوئی اور فرمایا کہ چلو خوش خبری قبول کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ دو جماعتوں میں سے تم کو ایک جماعت پر غلبہ عطاء فرمائیں گے (ایک جماعت ابو سفیان کا قافلہ اور دوسری جماعت قریش مکہ کا لشکر) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ جس جماعت سے مقابلہ ہوگا ان کے مقتولین کہاں کہاں پڑے ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں ایک غلام سے ملاقات ہوئی حضرات صحابہ (رض) نے اس سے پوچھا کہ ابو سفیان کا قافلہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا اس کا تو مجھے کوئی پتہ نہیں۔ یہ ابو جہل، عتبہ اور امیہ بن خلف آ رہے ہیں۔ بعض ١ ؂ ” برک الغماد “ یہ یمن میں ایک جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ جگہ مکہ معظمہ سے پانچ رات کی مسافت پر ہے۔ (نہایہ ابن کثیر) روایات میں یوں ہے کہ جب ابو سفیان کے قافلے سے تعرض کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تو ایک دن یا دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ نے صحابہ (رض) سے مشورہ لیا تھا کہ ابو سفیان کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم اس سے تعرض کرنے نکلے ہیں (وہ قافلہ تو نکل چکا ہے) اب قریش مکہ کے آنے کی خبر سنی گئی ہے۔ ان سے مقابلہ ہونے کی بات بن رہی ہے اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس پر بعض صحابہ (رض) نے کہا کہ ہمیں تو قریش کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں آپ تو ابو سفیان کے قافلہ کے لیے نکلے تھے آپ نے پھر وہی سوال فرمایا کہ قریش مکہ سے جنگ کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے اس پر حضرت مقداد (رض) نے وہ جواب دیا جو عنقریب گزر چکا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ سوال جواب مقام روحاء میں ہوئے، بعض صحابہ (رض) نے جو یہ کہا تھا کہ ہمیں قریش مکہ سے جنگ کی طاقت نہیں۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَ ھُمْ یَنْظُرُوْنَ ) (اور بلاشبہ مومنین کی ایک جماعت کو گراں گزر رہا تھا وہ آپ سے حق کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اس کے بعد کہ حق ظاہر ہوچکا تھا گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اس حال میں کہ وہ دیکھ رہے ہیں) جب ابو سفیان اپنے قافلہ کو لے کر مسلمانوں کی زد سے بچ کر نکل گیا تو اس نے قریش مکہ کے پاس خبر بھیجی کہ تم ہماری حفاظت کے لیے نکلے تھے اب جبکہ ہم بچ کر نکل آئے ہیں تو تمہیں آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا واپس چلے جاؤ اس پر ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ہم واپس نہیں لوٹیں گے جب تک کہ ہم بدر نہ پہنچ جائیں وہاں تین دن قیام کریں گے۔ اونٹ ذبح کریں گے کھانے کھلائیں گے، شرابیں پئیں گے اور گانے والیاں گانے سنائیں گی اور عرب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم مقابلہ کے لیے نکلے تھے ہمارے اس عمل سے ایک دھاک بیٹھ جائے گی اور لوگ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ لہٰذا چلو آگے بڑھو۔ اللہ جل شانہٗ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ فرمایا تھا کہ دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر تمہیں غلبہ دیا جائے گا۔ جب آپ نے حضرات صحابہ سے مشورہ فرمایا تو ان میں سے بعض صحابہ (رض) نے یہ مشورہ دیا کہ ابو سفیان کے قافلے ہی کا پیچھا کرنا چاہئے کیونکہ وہ لوگ تجارت سے واپس ہو رہے ہیں، جنگ کرنے کے لیے نہیں نکلے، ان میں لڑنے کی قوت اور شوکت نہیں ہے لہٰذا ان پر غلبہ پانا آسان ہے اور قریش کا جو لشکر مکہ مکرمہ سے چلا ہے وہ لوگ تو لڑنے ہی کے لیے چلے ہیں اور تیاری کر کے نکلے ہیں۔ لہٰذا ان سے مقابلہ مشکل ہوگا۔ ان لوگوں کی اس بات کو ان الفاظ میں ذکر فرمایا (وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ ) (اور تم چاہتے تھے کہ وہ جماعت تمہارے قابو میں آجائے جو قوت و طاقت والی نہیں تھی) ۔ قریش مکہ نے آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ساتھیوں کو بہت تکلیفیں دی تھیں اور مکہ مکرمہ کو چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حق نہ خود قبول کرتے تھے اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے۔ غیر متوقع طور پر بدر میں پہنچے اور معرکہ پیش آنے کی صورت بن گئی۔ اس میں گو بعض اہل ایمان کو طبعاً کراہت تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر سب پر غالب ہے۔ جنگ ہوئی اور اہل مکہ نے زبردست شکست کھائی اور ان کا فخر اور طمطراق سب دھرا رہ گیا۔ جس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب بیان ہوگی۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (وَ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ) (اللہ کو یہ منظور تھا کہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت فرما دے) (وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ ) اور کافروں کی بنیاد کو کاٹ دے) (لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ ) (تاکہ اللہ تعالیٰ حق کا حق ہونا ثابت فرما دے اور باطل کا باطل ہونا ثابت فرما دے) (وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ ) (اگرچہ مجرموں کو نا گوار ہو) ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر فرمائی کہ مشرکین مکہ ذلیل ہوئے، اسلام کا حق ہونا علی الاعلان ثابت ہوا اور باطل کا باطل ہونا بھی ظاہر ہوگیا۔ دوست اور دشمن سب نے دیکھ لیا اسی لیے یوم بدر کو یوم الفرقان فرمایا۔ جیسا کہ اس سورت کے پانچویں رکوع میں آ رہا ہے۔ (پوری تفصیل کے لیے البدایہ والنہایہ ص ٢٥٦ ج ٣ کا مطالعہ فرمائیں) فائدہ : (کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ ) میں جو کاف تشبیہ ہے اس کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اختلاف المغانم سے متعلق ہے اور مطلب یہ ہے کما انکم لما اختلفتم فی المغانم انتزعہ اللہ منکم کذلک لما کرھتم الخروج الی الاعداء کان عاقبۃ کراھتکم أن قدرہ لکم و جمع بہٖ بینکم و بین عدوکم علی غیر میعاد رشدا وھدیً ۔ (جیسا کہ تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے تم سے چھین لیا اسی طرح جب تم نے دشمن کی طرف نکلنے کو ناپسند کیا تو اس کے دشمنوں سے لڑائی مقدر کردی اور تمہاری اور دشمن کی مڈ بھیڑ کرا دی بغیر کسی وعدہ و میعاد کے) اور بعض حضرت نے اس تشبیہ کو اس طرح بیان کیا ہے۔ یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَال مجادلۃ کما جادلوک یوم بدر فقالوا اخرجتنا للعیر و لم تعلمنا قتالہ فسنعد لہ ذکرھما (وہ آپ سے مال غنیمت ایسے مانگتے ہیں جیسے وہ آپ سے بدر والے دن جھگڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے آپ نے ہمیں قافلہ کے لیے نکالا تھا لڑائی کی خبر تو نہیں دی تھی کہ ہم اس کی تیاری کرتے) (ابن کثیر ص ٢٨٤، ٢٨٥ ج ٢) صاحب روح المعانی نے متعدد وجوہ نقل کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حالھم ھذہ فی کراھۃ ما وقع فی امر الانفال کحال اخراجک من بیتک فی کراھتھم لہ (غنیمت کے معاملہ میں واقع ہونے والی صورت حال میں ان کی نا پسندیدگی ایسی ہے جیسے آپ کا ان کو گھر سے نکالنا انہیں ناپسند تھا) (یعنی یہ لوگ آپ سے اموال غنیمت کے بارے میں ایسے سوال کر رہے ہیں جیسا کہ اس وقت جھگڑ رہے تھے جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کے لیے مکہ معظمہ سے نکالا تھا۔ اس وقت یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں پہلے سے نہیں بتایا تھا کہ جنگ کرنی ہوگی۔ اگر آپ پہلے سے بتا دیتے تو ہم اس کے لیے تیاری کرلیتے) (ھذا راجع الی ماذکرہ ابن کثیر اولا) پھر صاحب روح المعانی نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ تقدیرہ و اصلحوا ذات بینکم کما اخرجک و قد التفت من خطاب جماعۃ الی خطاب واحد (اصل عبارت یہ ہے کہ اور تم آپس میں اصلاح کرلو جیسا کہ آپ کو نکالا ہے۔ اس میں پہلے جماعت کو خطاب ہے پھر روئے سخن ایک کی طرف ہوگیا) پھر لکھا ہے۔ و قیل المراد و اطیعوا اللہ و الرسول کما اخرجک اخراجا لامریۃ فیہ و قیل التقدیر یتوکلون توکلاً کما اخرجک۔ و فیہ اقوال اخر (بعض نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ اللہ و رسول کی اطاعت کرو جیسا کہ اس نے تجھے نکالا کہ اس میں کچھ شک نہیں ہے اور بعض نے کہا تقدیر یہ ہے کہ وہ بھروسہ رکھیں جیسا کہ اللہ نے تجھے نکالا) ۔ (راجع روح المعانی ص ١٦٩ ج ٩) فائدہ نمبر ٢: اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ سے مقابلہ کرنے کا مشورہ کہاں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے کہ مدینہ منورہ سے ایک دو دن کی مسافت پر پہنچنے کے بعد مشورہ فرمایا اور بعض روایات میں ہے کہ مقام روحاء میں اور بعض روایات میں ہے کہ وادی ذفران میں مشورہ کیا، ممکن ہے تینوں جگہ مشورہ فرمایا ہو اور بار بار انصار سے ان کی رائے کا اظہار مطلوب ہوتا کہ ان کی رضا اور رغبت کا خوب یقین ہوجائے اور ممکن ہے کہ راویوں سے جگہ کی تعیین میں بھول ہوئی ہو، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5: یہ دعوی اولی “ اَلْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْل الخ ” کی پہلی علت ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ “ کَمَا ” میں کاف تعلیلیہ ہے جیسا کہ علامہ ابو حیات اندلسی نے لکھا ہے۔ “ و یظھر ان الکاف فی ھذا التخریج المنامی لیست لمحض التشبیه بل فیھا معنی التعلیل الخ ” (بحر ج 4 ص 463) اور “ اَلْحَق ” سے حکم... ت اور صواب مراد ہے۔ “ اخراجاً متلبساً با لحکمة والصواب ” (مدارک ج 2 ص 72، جامع البیان ص 152) ۔ سن 2 ھ کا واقعہ ہے کہ ابو سفیان کی سر کردگی میں مشرکین کا ایک تجارتی قافلہ شام سے واپس آرہا تھا جو قریش کے ساٹھ آدمیوں اور دیگر ملازمین پر مشتمل ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا کہ آیا قافلہ کا تعاقب کیا جائے یا نہ کچھ صحابہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ چونکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کوئی باقاعدہ جنگ کی صورت تو ہے نہیں اس پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت سعد بن عبادہ نے پرجوش تقریریں کیں اور مسلمانوں کو تعاقب کرنے پر ابھارا چناچہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین سو تیرہ آدمیوں اور معمولی ساز و سامان کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے چونک ہجنگ ہوجانے کی کوئی توقع نہ تھی اس لیے فوری طور پر جتنے آدمی جمع ہوگئے اور جس قدر سرسری سامان فی الوقت ہاتھ لگا وہی لے کر چل دئیے۔ ادھر ابو سفیان کو بھی اپنے مخبر کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروگرام کا علم ہوگیا اس نے ابوجہل کی اطلاع کے لیے فوراً ایک آدمی مکہ روانہ کردیا۔ ابوجہل اطلاع پاتے ہی ایک ہزار جنگجو نوجوانوں کی معیت میں جو ہر قسم کے جنگی ہتھیاروں سے مسلح تھے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے دوبارہ صحابہ سے مشورہ کیا کہ اب ہمارے سامنے دو جماعتیں ہیں ایک تجارتی قافلہ اور ایک مشرکین کا لشکر جرار ان دونوں میں سے کس سے نبرد آزمائی کرنا چاہئے۔ بعض مسلمانوں نے کہا کہ ہم چونکہ جنگ کے لیے تیار ہو کر نہیں آئے اور مشرکین کی فوج تعداد میں ہم سے زیادہ اور سامان جنگ میں ہم سے مضبوط ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا دشوار ہوگا اس لیے قافلہ ہی سے مقابلہ کرنا چاہئےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند نہ تھی آپ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک کو ہمارے ہاتھوں مغلوب کرے گا۔ اس لیے ہمیں لشکر ہی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ تاکہ فیصلہ کن جنگ کے ذریعے مشرکین کی طاقت کا خاتمہ ہوجائے۔ حضرت ابوبکر، حضرت سعد اور حضرت مقداد (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے حق میں زور دار تقریریں کیں آخر میدان بدر میں مشرکین کا لشکر جرار اور مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج آپس میں بھڑ گئیں اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن مقابلہ ہوا مشرکین کے ستر سردار جن میں ابوجہل بھی تھا مارے گئے اور ستر قید ہوئے۔ اس طرح جزیرہ عرب میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس فتح میں بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں اختلاف مت کرو اور اپنی رائے کو اس میں دخیل مت بناؤ۔ اس کی تقسیم اللہ کے حکم سے اللہ کا پیغمبر فرمائے گا کیونکہ یہ فتح اور یہ اموال غنیمت تمہارے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھے اور تم تو اس لشکر کے سامنے آنے ہی سے جی چراتے تھے یہ سب اللہ کی مہربانی اور اس کی توفیق سے ہوا کہ اس نے قافلے کے تعاقب کے بہانے تم کو مدینہ سے نکالا اور ایک بڑے لشکر سے بھڑا دیا اور اس میں اس کی حکمت مضمر تھی کہ اس نے بےسرو سامان مٹھی بھر مسلمانوں کو اچانک ہی ایک مضبوط فوج سے بھڑا کر حق و باطل کا فیصلہ کردیا۔ اور ڈھیروں مال غنیمت ان کے قبضے میں دیدیا۔ 6: یعنی مدینہ سے قافلے کے تعاقب میں نکلتے وقت بعض مسلمانوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ “ يُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ ” الحق یعنی بالکل ظاہ ر اور واضح بات۔ “ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ ” یہ کراہیت کی تمثیل ہے یعنی مدینے سنکلنے کو اس طرح ناپسند کر رہے تھے گویا کہ انہیں مو نظر آرہی تھی۔ بتقاضائے بشریت بعض مسلمانوں سے اس کا ظہور ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو مومن ہی فرمایا ہے اور ان کی ناگواری بھی ابتداء ہی میں تھی جو بعد میں خوشی اور رضامندی میں تبدیل ہوگئی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں کراہیت بوقت خروج مراد نہیں بلکہ قافلہ چھوڑ کر لشکر سے مقابلہ کرنے پر کراہیت مراد ہے۔ “ ضمیر الرفع فی یجادلونک عائد علی فریق المومنین الکارھین وجدالھم قولھم ما کان خروجنا الا للعیر ولو عرفنا لاستعددنا للقتال ”(بحر ج 4 ص 463) لیکن سیاق سے پہلا مفہوم راجح معلوم ہوتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اے پیغمبر مال غنیمت کی تقسیم کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ آپ کے پروردگار نے ایک امر حق کے لیے آپ کو آپ کے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مسلمانوں کی ایک جماعت آپ کے نکلنے اور بدر کی طرف خروج کرنے کو ناپسند کرتی تھی ، یعنی یہ اختلاف بھی اسی قسم کا ہے جب مدینے سے ہم نے بدر کی طرف جانے کا حکم ایک مصلحت ... کے ماتحت دیا تھا اور چونکہ ہماری مصلحت کا علم عوام کو نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنی سمجھ کے موافق اس میں اختلاف کرتے ہیں جب مصلحت کے ماتحت نتیجہ سامنے آتا ہے تب مطمئن ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی غنیمت کا جھگڑا بھی ایس اہی ہے جیسا نکلتے وقت عقل کی تدبیریں کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی نکلا جو رسول نے ہر کام میں فرمایا یہی تدبیر اختیار کرو حکم برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو ۔  Show more