Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 54

سورة الأنفال

کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ فَاَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ ۚ وَ کُلٌّ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ ﴿۵۴﴾

[Theirs is] like the custom of the people of Pharaoh and of those before them. They denied the signs of their Lord, so We destroyed them for their sins, and We drowned the people of Pharaoh. And all [of them] were wrongdoers.

مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں ۔ پس ان کے گناہوں کے باعث ہم نے انہیں برباد کیا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔ یہ سارے ظالم تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Similar to the behavior of the people of Fir`awn, and those before them. They belied the Ayat of their Lord, so We destroyed them for their sins, and We drowned the people of Fir`awn for they were all wrongdoers. meaning, He punished Fir`awn and his kind, those who denied His Ayat. Allah destroyed them because of their sins, and took away the favors that He granted them, such as gardens, springs, plants, treasures and pleasant dwellings, as well as all of the delights that they enjoyed. Allah did not wrong them, but it is they who wronged themselves.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یہ اس بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کردیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کردیا کہ اللہ نے ان کو غرق کر کے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا (وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) 41 ۔ فصلت :46)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٧۔ الف ] یعنی ان کفار مکہ سے پہلے ہم نے آل فرعون پر اور بہت سی دوسری اقوام پر انعامات کی بارش کی تھی۔ لیکن انہوں نے ان انعامات کی ناقدری کی۔ ان کی نیتوں میں فتور آگیا۔ اللہ کا شکر ادا کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کے بجائے وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تھے۔ لہذا ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں تباہ و برباد کر ڈالا اور آل فرعون کو تو سمندر میں ڈبو کر ان کا نام و نشان تک ختم کر ڈالا۔ یہ سب قومیں نافرمان تھیں اور سب ہی ہلاک کردی گئی تھیں تو اب کیا یہ کافر اپنے انجام بد سے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ : یعنی آپ سے لڑنے والے ان لوگوں کا حال آل فرعون اور ان سے پہلے کفار جیسا ہے۔ یہ بات دہرانے سے مقصود ایک تو پہلی بات کی تاکید ہے، جیسے فرمایا : (اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى۔ ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى) [ القیامۃ : ٣٤، ٣٥ ] دوسرا اس میں پچھلی آیت کی کچھ تفصیل ہے، اس میں ”ۭكَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ “ یعنی اللہ کی آیات کے انکار اور نہ ماننے کا ذکر تھا، یہاں تفصیل ہے کہ انھوں نے انکار کے ساتھ انھیں جھٹلایا بھی تھا۔ تیسرا اس میں گناہوں پر گرفت کا ذکر تھا، اس میں آل فرعون پر اس گرفت کی تفصیل، یعنی غرق کا بیان ہے اور عذاب کے سبب کی صاف الفاظ میں وضاحت ہے کہ وہ سب ظالم تھے، جب کہ اس سے پہلے قریب ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں، اگر وہ ظالم و گناہ گار نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی ذاتی بیر نہ تھا کہ انھیں بلاوجہ ہلاک یا غرق کردیتا۔ واضح رہے کہ اللہ کی آیات سے مراد رسولوں کے لائے ہوئے احکام بھی ہیں اور نشانیاں اور معجزات بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The words used in the first of the verses cited above are almost the same as have appeared a verse earlier in: كَدَأْبِ آلِ فِرْ‌عَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَ‌بِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ & (Their way is) like the way of the people of Pharaoh and of those before them - 52.& But, the purpose behind these two state¬ments differs in both. The purpose in the first verse (52) was to state that the disbelief of those people became the cause of their punishment while, in the present verse (54), the purpose is to state that, according to the common law of Allah Ta` ala - when the blessings of Allah Ta` ala descend upon a people and they fail to recognize their worth and value and refuse to bow down before Him - then, His blessings are transformed into misfortunes and punishments. When the people of Pha¬raoh and the peoples before them failed to appreciate the blessings of Allah Ta` ala as due, blessings were taken away from them and they were seized &by punishment instead. Apart from this difference in pur¬pose, changes have also been introduced in words used at some places which serve to release particular hints in the text. For example, in the first verse (52), the words used were: كَفَرُ‌وا بِآيَاتِ اللَّـهِ (They disbelieved the signs of Allah) while here, the words used are: بِآيَاتِ رَ‌بِّهِمْ the signs of their Lord - 54). Thus, by mentioning the attribute: رَبّ (Rabb: Lord) instead of the name, &Allah,& hint was given that these people were terri¬bly unjust and insensate against truth, people who would just go ahead and start belying the signs of the very Being who was their Rabb رَبّ (sustainer, nourisher, cherisher) under whose blessings they all, from their dawn of existence to their present condition, have been brought up. In addition to that, in the first verse (52), said there was: فَأَخَذَهُمُ اللَّـهُ بِذُنُوبِهِمْ (so, Allah seized them for their sins) while what has been said here is: فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ (so, We destroyed them for their sins - 54). This explains the brevity in the first statement because, in the first verse, mentioned there was their being seized in punishment which could take different forms. May be, they are overtaken by misfortunes with-in their lifetime on this earth, or that their very existence in eliminat¬ed outright. In the present verse (54), by saying: أَهْلَكْنَاهُم (We destroyed them), it was made clear that the punishment all those peoples deserved was the punishment of death, therefore, they were destroyed. The destruction of every set of such people took different forms. Since the Pharaoh from among them claimed godhood and his people attest¬ed to his claim, therefore, he was mentioned particularly: وَأَغْرَ‌قْنَا آلَ فِرْ‌عَوْنَ (and drowned the people of Pharaoh - 54). As for the forms in which de¬struction came upon other peoples, it has not been described here. However, details pertaining to these too have appeared in other verses where it has been said that some of them were overrun by an earthquake, some others were made to sink into the earth, or transformed into animals, or seized by wind storms - and finally, came the punish¬ment for the disbelievers of Makkah at the hands of Muslims in the battle of Badr.

خلاصہ تفسیر (پس اس امر تغییر میں بھی) ان کی حالت فرعون والوں اور ان سے پہلے والوں کی سی حالت ہے کہ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا اس پر ہم نے ان کو ان کے (ان) گناہوں کے سبب ہلاک کردیا اور (ان میں) فرعون والوں کو خاص طور پر ہلاک کیا کہ (ان کو) غرق کردیا اور وہ (فرعون والے اور پہلے والے) سب ظالم تھے بلاشبہ بدترین خلائق اللہ کے نزدیک یہ کافر لوگ ہیں (جب یہ علم الہی میں ایسے ہیں) تو یہ ایمان نہ لائیں گے جن کی یہ کیفیت ہے کہ آپ ان سے (کئی بار) عہد لے چکے ہیں (مگر) پھر (بھی) وہ ہر بار اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں اور وہ (عہد شکنی سے) ڈرتے نہیں سو اگر آپ لڑائی میں ان لوگوں پر قابو پائیں (اور یہ آپ کے ہاتھ آئیں) تو ان پر حملہ کرکے (اس) کے ذریعہ سے اور لوگوں کو جو کہ ان کے علاوہ ہیں منتشر کردیجئے تاکہ وہ لوگ سمجھ جائیں (کہ نقض عہد کا یہ وبال ہوا ہم ایسا نہ کریں۔ یہ حکم تو اس وقت ہے کہ جب ان لوگوں نے عہد علانیہ توڑ دیا ہو) اور اگر (ابھی تک علانیہ تو نہیں توڑا لیکن) آپ کو کسی قوم سے خیانت (یعنی اس طرح اس عہد کے باقی نہ رہنے کی اطلاع کردیجئے) کہ آپ اور وہ (اس اطلاع میں) برابر ہوجائیں (اور بدون ایسی صاف اطلاع کے لڑنا خیانت ہے اور) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت کا مضمون بلکہ الفاظ تقریبا وہی ہیں جو ایک آیت پہلے آچکے ہیں (آیت) كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ، مگر مقصد بیان دونوں میں جدا جدا ہے پہلی آیت میں اس کا بیان مقصود تھا کہ ان لوگوں کا کفر ان کے عذاب کا سبب بنا اور اس آیت میں مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں مبذول ہوں اور وہ ان کی قدر نہ پہچانے اور اللہ کے سامنے نہ جھکے تو اس کی نعمتیں نقمتوں اور مصیبتوں سے بدل دی جاتی ہیں۔ قوم فرعون اور ان سے پہلی اقوام نے بھی جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو ان سے تعمتیں چھین لی گئی اور نعمتوں کے بجائے عذاب میں پکڑ لئے گئے کچھ الفاظ میں بھی کہیں کہیں فرق کرکے خاص خاص اشارے فرمائے گئے ہیں۔ مثلا پہلی آیت میں كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ کے الفاظ تھے اور یہاں بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ کا لفظ اللہ کے بجائے صفت رب ذکر کرکے اس کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ لوگ بڑے ہی ظالم ناحق شناس تھے کہ جو ذات ان کی رب ہے ان کے ابتداء وجود سے لے کر موجودہ حالات تک اس کی تعمتوں ہی میں ان کی پرورش ہوئی اسی کی نشانیوں کو جھٹلانے لگے۔ نیز پہلی آیت (آیت) فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ فرمایا تھا یہاں فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ارشاد فرمایا۔ اس میں اس اجمال کی تفصیل و تشریح ہوگئی کیونکہ آیت میں ان کا عذاب میں پکڑا جانا ذکر کیا گیا جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ زندہ اور باقی رہتے ہوئے مصیبتوں میں گرفتار ہوجائیں یا سرے سے ان کا وجود ہی ختم کردیا جائے۔ اس آیت میں اَهْلَكْنٰهُمْ فرما کر واضح کردیا کہ ان سب قوموں کی سزا سزائے موت تھی ہم نے ان سب کو ہلاک کر ڈالا۔ ہر قوم کی ہلاکت کی مختلف صورتیں ظاہر ہوئیں ان میں سے فرعون چونکہ خدائی کا دعویدار تھا اور اس کی قوم اس کی تصدیق کرتی تھی اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کردیا گیا (آیت) وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ یعنی ہم نے آل فرعون کو غرق کردیا۔ دوسری قوموں کی ہلاکت کی صورتیں یہاں بیان نہیں کی گئی، دوسری آیات میں اس کی بھی تفصیل موجود ہے کہ کسی پر زلزلہ آیا، کوئی زمین کے اندر دھنسا دی گئی، کسی کی صورتیں مسخ ہوگئی، کسی پر ہوا کا طوفان مسلط ہوگیا۔ اور آخر میں مشرکین مکہ پر غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے عذاب آیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۚ وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ۝ ٥٤ دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) ان کی حالت فرعون کی جماعت اور ان سے پہلے والوں کی سی ہے جیسا کہ ان لوگوں نے آسمانی کتابوں اور رسولوں کی تکذیب کی، اسی طرح یہ کفار مکہ کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے انکی اس تکذیب کی وجہ سے ہلاک کیا اور فرعون والوں کو غرق کردیا اور یہ سب کافر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:54) کداب ۔۔ قبلہم۔ یہ تکریر تاکید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اگر گنہگار نہ ہوتے اور صحیح طرز عمل اختیار کر ن تو اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی ذاتی بیر نہ تھا کہ انہیں بلاوجہ ہلاک یا غر کردیتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : آل فرعون کی طرح اہل مکہ کی تباہی ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ورنہ اللہ تعالیٰ کسی کو بےوجہ نہ تباہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے انعام کو عتاب میں تبدیل کرتا ہے۔ قرآن مجید اپنے طے شدہ اسلوب کے مطابق وضاحت کرتا ہے کہ آل فرعون کی اقتدار اور اختیار سے محرومی، مصر جیسے سبز و شاداب ملک سے بےدخلی اور انواع و اقسام کی نعمتوں کے بدلے مختلف قسم کی تنگیوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کا سبب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بلاوجہ انھیں اپنی نعمتوں سے محروم کردیا۔ یہ تو کسی قوم کا مسلسل منفی کردار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے انعام و کرام سے محروم ہو کر مصائب و آلام میں گھر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انھیں آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں آل فرعون کا جرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کی آیات یعنی اس کے احکام کا انکار کرنے والے تھے۔ یہاں آل فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے والے تھے جس کی وجہ سے ہم نے انھیں غرق کردیا اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین پر چلنے والے جانوروں سے بد ترین ہیں۔ لفظ رب کا ایک معنی ہے پالنے اور مختلف قسم کی نعمتوں سے نوازنے والا۔ یہاں رب کا لفظ استعمال فرما کر اپنی قربت کا احساس دلاتے ہوئے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یاد رہے اللہ کے نام میں جلال اور اسم رب میں محبت و قربت کا احساس پایا جاتا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ کَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِکَ ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں سے یہ ایک دعا ہے۔” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِک “ (اے اللہ میں تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے پھرنے، اور تیرے اچانک عذاب اور ہر طرح کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ اپنی نعمت واپس نہیں لیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر کسی کے ارادے کو جاننے والا ہے۔ ٣۔ آل فرعون نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی جس کی وجہ سے انھیں غرق کردیا گیا۔ ٤۔ مشرکین مکہ کا انجام بھی آل فرعون کی طرح ہوا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات کو نہ ماننے والے لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور آل فرعون کا انجام : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ قحط سالی میں مبتلا کردیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے غر ق فرمادیا۔ ( البقرۃ : ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی گناہوں کی پاداش میں پکڑ فرمائی۔ (آل عمران : ١١) ٤۔ ہم نے انہیں انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ( الانفال : ٥٤) ٥۔ قیامت کے دن آ ل فرعون کو برے عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٥) ٦۔ آل فرعون کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٦) ٧۔ آسمان و زمین میں کوئی ان پر رونے والا نہیں تھا اور نہ وہ مہلت دئیے گئے۔ (الدخان : ٢٩) ٨۔ ہم نے اسے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کا کوئی حامی اسے نہ بچاسکا۔ (القصص : ٧٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پہلے (کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ) فرمایا اور دوسری جگہ (کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ ) فرمایا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت کا بھی انہوں نے خیال نہ کیا جس نے پیدا فرمایا، پرورش فرمائی، پرورش کے سامان پیدا فرمائے۔ حاجات پوری کیں، اس کی آیات کو جھٹلانا سراسر نا شکری اور بےعقلی ہے لہٰذا ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کردیا گیا۔ پھر آل فرعون کے غرق کیے جانے کی تصریح فرمائی۔ (وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ ) (اور ہم نے فرعون والوں کو ہلاک کردیا) ۔ آخر میں فرمایا (وَ کُلٌّ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ) اور یہ سب آل فرعون اور اس سے پہلے تکذیب کرنے والی امتیں تھی (جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عاد اور ثمود) یہ سب ظالم تھے انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کفر اختیار کیا اور معاصی میں بڑھتے چلے گئے۔ ان کی حرکتیں ان کی بربادی کا باعث بنیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56: تخویف دنیوی ہے۔ یہ مضمون ماقبل کی تمثیل ہے۔ قوم فرعون اور ان سے پہلے کی سرکش اقوام کا حال دیکھو، ہم نے ان کو تمام دنیوی نعمتیں اور آسائشیں دے کر سرفراز کیا مگر جب ہمارے پیغمبر ہماری آیتیں لے کر ان کے پاس گئے تو انہوں نے ان کی تکذیب کی اور گناہوں میں منہمک ہوگئے اور ہماری نعمتوں کی ناشکری کی تو ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ “ کُلٌّ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ” یہ تمام اقوام ظالم تھیں۔ انہوں نے ہماری دی ہوئی نعمتوں کا غلط اور بےموقع استعمال کیا۔ میری نافرمانی کی میرے پیغمبروں اور میری کتابوں کو جھٹلایا اور اسی کی پاداش میں مبتلائے عذاب کیے گئے۔ بالکل یہی حال ان مشرکین مکہ کا تھا۔ ان کو ہم نے عقل و فہم کی دولت سے نوازا، مال و زر سے ان کے خزانے بھر دئیے۔ پورے عرب میں ان کی سرداری اور برتری قائم کردی۔ لیکن جب ہمارا آخری پیغمبر ہمارا آخری پیغام لے کر ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے ہماری دی ہوئی تمام نعمتوں اور صلاحیتوں کو اس کی عداوت اور مخالفت میں صرف کر ڈالا۔ جنگ بدر میں قتل اور قید و بند سے اسی جرم کی ان کو سزا دی گئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 ان لوگوں کا حال سلب نعمت میں ایسا ہی ہے جیسے فرعون والوں کا اور ان لوگوں کا حال جوان سے پہلے تھے انہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کو جھٹلایا اور آیات الٰہی کی تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا اور ڈبو دیا اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔ یعنی یہ بات بتائی تاکہ منکروں کو تنبیہہ ہو اور وہ ڈریں کہ کہیں ہمارا بھی وہی حال ہو جو آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا ہوا۔