Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 59

سورة الأنفال

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَبَقُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ لَا یُعۡجِزُوۡنَ ﴿۵۹﴾

And let not those who disbelieve think they will escape. Indeed, they will not cause failure [to Allah ].

کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے ۔ یقیناً وہ عاجز نہیں کر سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Making Preparations for War to strike Fear in the Hearts of the Enemies of Allah Allah says to His Prophet, وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَبَقُواْ إِنَّهُمْ لاَ يُعْجِزُونَ And let not those who disbelieve think that they can outstrip (escape from the punishment). Verily, they will never be able to save themselves (from Allah's punishment). And let not those who disbelieve think that they can outstrip, Do not think that such disbelievers have escaped Us or that We are unable to grasp them. Rather, they are under the power of Our ability and in the grasp of Our will; they will never escape Us.' Allah also said, أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّيَاتِ أَن يَسْبِقُونَا سَأءَ مَا يَحْكُمُونَ Or think those who do evil deeds that they can outstrip Us (escape Our punishment) Evil is that which they judge! (29:4) لااَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مُعْجِزِينَ فِى الااٌّرْضِ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِيْسَ الْمَصِيرُ Consider not that the disbelievers can escape in the land. Their abode shall be the Fire, and worst indeed is that destination. (24:57) and, لااَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى الْبِلَـدِ مَتَـعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ Let not the free disposal (and affluence) of the disbelievers throughout the land deceive you. A brief enjoyment; then their ultimate abode is Hell; and worst indeed is that place for rest. (3:196-197) Allah commands Muslims to prepare for war against disbelievers, as much as possible, according to affordability and availability. Allah said,

کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے ۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے ۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے ، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے ۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر و ثواب پانے والے ، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے ۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا ، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں ۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے ۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہو جائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں ۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے ۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں ۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے ۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے ۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابو ذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی ۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہرصبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے ۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت ۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ ، فارس اور محلوں کے شیاطین ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں ۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بد نصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے ۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے ۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ١٠١؀ۚ ) 9- التوبہ:101 ) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٦١؁ ) 2- البقرة:261 ) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦١۔ الف ] یعنی کافروں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کا جھوٹ، دغا، مکر و فریب، عیاری و مکاری اور ان کی سازشیں اسلام کا راستہ روکنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گی۔ اس آیت کے مخاطب بھی یہود مدینہ اور منافقین ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو زیر کرنے کی تدبیر سوچتے اور ایک دوسرے کے ہمراز بنے رہتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا : یہاں سب سے پہلے وہ کفار قریش مراد ہیں جو میدان بدر سے جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر نکل گئے ہیں، اس کی گرفت سے کون نکل سکتا ہے اور اسے کون عاجز اور بےبس کر کے بھاگ سکتا ہے ؟ ویسے الفاظ کے عموم کا تقاضا اور حقیقت واقعی یہی ہے کہ کافر کوئی بھی ہو وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نکلنے میں ہرگز کامیاب نہ سمجھے، اگر دنیا میں اس گرفت کا مظاہرہ نہ ہو تو موت کے وقت اور اس کے بعد وہ بچ کر کہاں جائیں گے ؟ وہ کبھی اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جیسا چاہے ان پر عذاب بھیج سکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the first of the four verses cited above are disbeliev¬ers who had not participated in the battle of Badr, therefore, they sur¬vived or there were those of them who deserted the battlefield after showing up as participants and were thus able to save their lives. It is about these people that it was said in this verse that these people should not think that they have made their escape good because the battle of Badr was Divine punishment for disbelievers and escaping from its grip was not possible for anyone. Therefore, it was said: إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ &Surely, they will not frustrate [ the Divine will ] - 59&. It means that these people cannot outsmart the will and power of Allah by their cleverness. If He decides to seize them, they would be unable to move even one step. May be, they are seized right here in this mortal world, otherwise, their detention in the Hereafter is all too obvious. This verse has given a clear indication that a sinner who finds himself delivered from some hardship or pain, yet he fails to repent and make amends, rather stands adamant and obstinate over his sin, then, one should never take this to be a sign of success and everlasting deliverance. In fact, such a person is in the grip of Allah Ta` ala all the time and this respite given to him is actually adding on to his punish¬ment and distress - though, he may not realize it as such.

خلاصہ تفسیر اور کافر لوگ اپنے کو یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ گئے یقینًا وہ لوگ ( اللہ تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے کہ اس کے ہاتھ نہ آئیں یا تو دنیا ہی میں مبتلائے عقوبت کردے گا ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے) اور ان کافروں سے (مقابلہ کرنے) کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو کہ اس ( سامان) کے ذریعہ سے تم ( اپنا) رعب جمائے رکھو ان پر جو کہ ( کفر کی وجہ سے) اللہ کے دشمن ہیں اور ( تمہاری فکر میں رہنے کی وجہ سے) تمہارے دشمن ہیں ( جن سے شب و روز تم کو سابقہ پڑتا رہتا ہے) اور ان کے علاوہ دوسرے (کافروں) پر بھی ( رعب جمائے رکھو) جن کو تم ( بالیقین) نہیں جانتے (بلکہ) ان کو اللہ ہی جانتا ہے (جیسے کفار فارس اور روم وغیرہم جن سے اس وقت سابقہ نہیں پڑا مگر صحابہ کا ساز و سامان و فن سپہگری اپنے وقت میں ان کے مقابلہ میں بھی کام آیا اور ان پر بھی رعب جما، بعض مقابل ہو کر مغلوب ہوئے بعض نے جزیہ قبول کیا کہ یہ بھی اثر رعب کا ہے) اور اللہ کی راہ میں ( جس میں جہاد بھی آگیا) جو کچھ بھی خرچ کرو گے ( جس میں وہ خرچ بھی آگیا جو ساز ویراق درست کرنے میں کیا جائے) وہ ( یعنی اس کا ثواب) تم کو ( آخرت میں) پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارے لئے ( اس میں) کچھ کمی نہ ہوگی اور اگر وہ ( کفار) صلح کی طرف جھکیں تو آپ ( کو) بھی ( اجازت ہے کہ اگر اس میں مصلحت دیکھیں تو) اس طرف جھک جایئے اور ( اگر باوجود مصلحت کے یہ احتمال ہو کہ یہ ان کی چال نہ ہو تو) تو اللہ پر بھروسہ رکھئے ( ایسے احتمالوں سے اندیشہ نہ کیجئے) بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (ان کے اقوال اور احوال کو سنتا جانتا ہے ان کا خود انتظام کردے گا) اور اگر ( واقع میں وہ احتمال صحیح ہو اور) وہ لوگ ( سچ مچ صلح سے) آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ ( کی مدد اور حفاظت کرنے) کے لئے کافی ہیں ( جیسا کہ اس کے قبل بھی آپ کی کفایت فرماتے تھے چنانچہ) وہ وہی ہے جس نے آپ کو اپنی ( غیبی) امداد ( یعنی ملائکہ) سے اور ( ظاہری امداد یعنی) مسلمانوں سے قوت دی۔ معارف ومسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ان کفار کا ذکر ہے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں تھے اس لئے بچ گئے یا شریک ہونے کے بعد بھاگ نکلے اس طرح اپنی جان بچالی۔ ان لوگوں کے متعلق اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ یوں نہ سمجھیں کہ ہم بچ نکلے۔ کیونکہ غزوہ بدر کفار کے لئے ایک عذاب الہی تھا اور اس کی پکڑ سے بچنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس لئے فرمایا (آیت) اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ ، یعنی یہ لوگ اپنی چالاکی سے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ جب پکڑنا چاہیں گے یہ ایک قدم نہ سرک سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا ہی میں پکڑ لئے جائیں ورنہ آخرت میں تو ان کی گرفتاری ظاہر ہے۔ اس آیت نے اس طرف اشارہ کردیا کہ کوئی مجرم گناہگار اگر کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات پا جائے اور پھر بھی توبہ نہ کرے بلکہ اپنے جرم پر ڈٹا رہے تو یہ اس کی علامت نہ سمجھو کہ وہ کامیاب ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا بلکہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور یہ ڈھیل اس کے عذاب اور مصبیت کو اور بڑھا رہی ہے گو اس کو محسوس نہ ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ۝ ٥٩ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی قریظہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہمارے عذاب سے بچ گئے اور ہمارے عذاب سے بالکل نہیں بچ سکتے

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط) غزوۂ بدر میں کفار کے ایک ہزار افراد میں سے بہت سے لوگ صحیح سلامت بچ بھی نکلے تھے۔ یہ ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ہیں۔ (اِنَّہُمْ لاَ یُعْجِزُوْنَ ) ۔ وہ ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: یہ ان کافروں کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر کے موقع پر بھاگ نکلے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٩۔ ٦٠۔ اللہ پاک نے اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی فرمائی کہ جنگ بدر سے جو کفار بچ کر بھاگ نکلے ہیں یہ خیال نہ کیا جاوے کہ ان پر پھر کوئی موقعہ ہاتھ نہ آویگا کیونکہ یہ لوگ اگرچہ اب بچ گئے ہیں مگر اللہ کو وہ عاجز نہیں کرسکتے وہ ہر وقت اللہ کے قبضہ میں ہیں تم ان کے واسطے سامان جنگ تیار رکھو اور جہاں تک ممکن ہو تیر اندازی کے ہنر کی مشقیں کرو آیت میں جو سن قوۃ کا لفظ ہے اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ قوۃ سے مطلب تیراندازی ہے عقبہ (رض) بن عامر کی حدیث جو مسلم وابن ماجہ و ابوداؤد میں ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قوۃ تیرا ندازی کا نام ہے اور دو بار اسی طرح آپ نے فرمایا حضرت عبداللہ (رض) بن عباس کا بھی یہی قول ہے کہ قوت تیر اندازی اور لڑائی کے ہتھیاروں کے فراہم کرنے کو کہتے ہیں پھر اللہ جل شانہ نے تیراندازی اور باقی سامان جنگ کی تیاری کے بعد گھوڑوں کا ذکر فرمایا کہ لڑائی کے واسطے گھوڑے بھی پالو بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعض شخصوں کے لئے گھوڑا اجر ہے اور بعضوں کے واسطے پردہ اور بعضوں کے لئے گناہ ہے جس شخص کے واسطے گھوڑا اجر ہے وہ شخص وہ ہے جس نے محض خدا کے واسطے کسی چرا گاہ یا باغ میں گھوڑا باندھ رکھا ہے وہ جو کچھ وہاں سے کھاتا پیتا ہے وہ سب اس شخص کی نیکیوں میں شمار ہوتا ہے اور لید اور پیشاب تک اس کی حق میں حسنات ہوں گے اگر وہ گھوڑا کسی نہر میں سے پانی پی لے گا تو وہ بھی اس کی نیکی میں لکھا جاویگا اور جس شخص نے گھوڑا اس لئے باندھ رکھا ہے کہ خدا نے اس کو دولت دی ہے اس کے واسطے یہ گھوڑا پردہ ہے اور جس نے محض دنیا کے دکھاوے کو گھوڑا رکھا ہے اس کے لئے وہ گھوڑا گناہ ہے خدا کی راہ میں گھوڑے پالنے کے اجر کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سامان جنگ اور گھوڑے باندہنے کا اس لئے حکم دیا کہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں رعب پیدا ہو دشمنوں کی تفسیر میں مفسرین کا یہی قول ہے کہ مشرک اور کافر وغیرہ سب عرب کے کفار مراد ہیں پھر یہ فرمایا کہ ان کفار کے سوا اور بھی لوگ ہیں جن کو تم نہیں جانتے ہو اللہ کو ان کا علم ہے بعضے سلف نے کہا ہے کہ یہ لوگ یہود اور فارس وروم کے لوگ ہیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ منافق ہیں جن کے باب میں اللہ نے یہ فرمایا کہ میں انہیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور بعضے مفسریہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ خاص بنی قریظہ ہیں مگر اس کو خدا ہی کے علم پر موقوف رکھنا بہتر ہے کیونکہ اللہ پاک نے خود حضرت کو فرمایا کہ تم ان کو نہیں جانتے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ یہ خدا کی راہ میں تمہارا خرچ کرنا برباد نہیں جائے گا اس کا پورا پورا بدلہ آخرت میں تمہیں ملے گا ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا بلکہ سات سو تک اجر زیادہ ملے گا چناچہ اس کا ذکر سورة بقر کی تفسیر میں گذر چکا ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی جو فرمائی اس کا ظہور بھی وقت مقررہ پر یوں ہوتا رہا کہ جو مشرکین مکہ بدر کی لڑائی میں بچ گئے تھے ان میں کے کچھ تو فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے جنانچہ احد کی لڑائی میں جب تک اللہ کے رسول کا بتلایا ہوا پہاڑ کا ناکہ مسلمان تیراندازوں نے نہیں چھوڑا تھا اس وقت تک اس لڑائی میں مسلمانوں کا ایسا غلبہ تھا کہ اور دشمنوں کے علادہ دشمنوں کے نو نشانے بردار طلحہ بن عثمان وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گے آخر یہ سب بدر کی لڑائی میں کے بچے ہوئے لوگ تھے بدر کی لڑائی میں کے بچے ہوئے مشرکوں میں سے جو لوگ فتح مکہ تک مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے نہیں گئے فتح مکہ پر آخر وہ عاجز ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے چناچہ وہ ابوسفیان جس کے قافلہ کے سبب سے بدر کی لڑائی ظہور میں آئی فتح مکہ پر مسلمان ہو کر صحیح بخاری کی برائ (رض) بن العازب کی روایت کے موافق حنین کی لڑائی میں خدا مت گاروں کی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے خچر کی باگ پکڑ کر ان ابوسفیان (رض) نے اللہ کے رسول کا ساتھ دیا سورة بقر کی جس آیت کا حوالہ اوپر گذرا ہے جس میں ایک نیکی کا اجر سات سو نیکیوں تک کا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اجر کے ملنے کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کی تفصیل سورة بقر کی آیت من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا (٢: ٢٤٥) کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:59) لایحسبن۔ نہی غائب واحد مذکر غائب۔ بانون ثقیلہ (باب سمع) وہ ہرگز خیال نہ کرے۔ سبقوا۔ انہوں نے سبقت کی۔ وہ آگے نکل گئے۔ سبق سے ماضی جمع مذکر غائب وہ بازی لے گئے۔ لایحسبن الذین کفروا سبقوا۔ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے گئے۔ انھم لا یعجزون۔ یقینا وہ (پیروان حق کو ) درماندہ نہیں کرسکتے۔ یقینا وہ (اللہ تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے۔ ہرا نہیں سکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کبھی ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکتے۔ ہم جب چاہیے ان کی گردن مروڑ دیں اور جس قسم کا عذاب چاہیں ان پر نازل کردیں، ( کذافی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٥٩ تا ٦٤ اسرار و معارف اور کو کفار ابھی تک عذاب سے دوچار نہیں ہوئے یابدر کی شکست کے اثرات سے بچ رہے ہیں وہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے باہر ہیں انہیں بھی نہ دنیا کے عذاب ہے اب تک روے زمین پر بیشمار جدید ایجادات کے باو جود کفار ہر طرح سے عجیب و غریب عذابوں میں گرفتار ہیں مغربی معاشرہ جس پر ہمارے لوگ فدا ہیں اس کی اخلاقی حالت جنسی بےراہ روی اور ان پر آسمانی آفتیں زلزلے طوفان اور خطرناک ترین اور رذیل ترین بیماریاں یہ سب عذاب الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں یہی حال مشرق کے کفار کا ہے ان کا کھانا تک عذاب کی صورت ہے ۔ کتے بندر چوہے مینڈ اور سانپ کھانا کیا بجائے خودعذاب کی صورت نہیں پھر اخلاقی دیوالیہ پن اور آفات سماوی ان سے امور پر نگاہ کی جائے ۔ جائے پناہ تو دوعالم میں جائے پناہ صرف ایک ہے اور وہ ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلوص دل سے غلامی اور بس ۔ ورنہ بجالت کفر کوئی بھی اللہ کے عذاب کی گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا ۔ جہاد کے لیے تیار رہنے کا حکم نیز مسلمانوں کے لیے ارشاد ہوا کہ جہاد کے لیے اور کفر کو جارحیت سے روکنے کے لیے جس قدرممکن ہواسقدرتیاری کرکے رکھو یہاں ما استطعتم فرما کر یہ فرمایا کہ ایسی تیاری ضروری ہے جو تمہارے اختیار میں ہو اور کسی ایسے سامان کی ضرورت نہیں جو تمہارے بس میں ہی نہ ہو لہٰذا مسلم حکومتوں کی اسلحہ کے لیے گٹھیا اور نقصان دہ شرائط کفار سے مدد لینا جائز نہیں ہاں جو کچھ بس میں ہو وہ ضرور کیا جائے اس کے بعد اللہ مالک ہے خود اسباب پیدافرمادے گا وہ عہد تو تھا ہی برکات کا عہد اب کے زمانہ میں افغان مجاہدین نے خالی ہاتھ کفر کی بہت بڑی طاقت کے دانت توڑ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمان اور عمل جیسے بہترین ہتھیار اور کوئی نہیں ۔ ہاں جس قدرہوسکے خوبصورت پلے ہوئے گھوڑے یعنی سامن حرب کہ اس دور کا بہترین جنگی ساتھی گھوڑاہی تھا ۔ وقت ملک اور حالات کے اسباب تو بدل سکتے ہیں اصول نہیں اگر اس وقت گھوڑے تھے اب ان کی جگہ ٹینک آگئے ہیں اسی طرح ہوائی افواج میں جدید طیارے وغیرہ تو یہ سب چیزیں اسی حکم میں ہیں ۔ یعنی سامان حرب بھی ہو جنگی مشقیں بھی کی جائیں اور افواج اسلامی ہمیشہ شان و شوکت کے ساتھ بہترین تیاری میں رہیں اسی لے حدیث شریف میں جہاد کی تیاری خواہ نشانہ ہازی ہو یا ورزش جنگی مشقیں ہوں یا سامان جنگ کی دیکھ بھال سب سے اعلیٰ عبادت قراردی گئی ہے کہ وقت ضرورت کام تو آئے گی ہی دشمنوں پر اسی کی ہیبت اور رعب بھی تو ہوگا کہ صرف یہی دشمن نہیں جو آپ کے سامنے ہیں ابھی تو دنیا میں ایسی اقوام باقی ہیں جن سے آپ لوگ واقف بھی نہیں مگر راہ حق میں ان سے مقابلہ ہوگا اور اللہ کریم انہیں خوب جانتے ہیں ۔ چناچہ خلفاء راشددین کے زمانے میں ۔ وم وفارس کے علاوہ چین سے افریقہ اور سپانیہ تک مختلف اقوام عالم سے مقابلہ کرنا پڑا اور ہر جاتا ئیدباری نے فتح سے ہمکنار فرمایا ۔ نیز اللہ کے راہ میں محنت کوشش یا مال و دولت جو بھی صرف ہوتا ہے کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور جہاد اور ترویح حق تو بہترین عمل ہے اس میں جو خرچ ہوگا وہ بھی بہترین طریقے پہ واپس وصول ہوگا اللہ کریم تو کسی کا حساب نہیں مارتے اور زیادتی نہیں کرتے ۔ اسلام اور جنگ نیز اگر کفار صلح کے لیے کہیں اور مناسب شرائط پر صلح کریں اسلام جنگ چاہئیے اگر کفار سرکشی اور زیادتی سے بازآجائیں تو آپ ان سے ضرورصلح کرلیں ہاں یہ نہ ہوگا کہ وہ سرکشی پہ آمادہ ہوں اور مسلمان صلح تلاش کریں اس طرح تو وہ کمزور جان کر ظلم پر اور دلیر ہوں گے اگر وہ باز آئیں تو ضرور صلح کرلی جائے اور اندر کی بات کہ دھوکہ نہ دیں اس کے لیے اللہ پر بھروسہ کریں کہ وہ سب کچھ سنتا ہے جو وہ مشورے کرتے ہیں اور جو ان کے دلوں میں ہے جانتا ہے ۔ محض کمزور احتمالات پہ مومن کو ڈرنا نہ چاہیئے کہ اگر کفار نے آپ کو دھوکا بھی دینا جاہا تو ان کے مقابل آپ کو اللہ کافی ہے جس نے پہلے بھی مدد فرمائی کہ اپنی تائید ونصرت سے نواز فرشتوں کو نازل فرمایا اور بہترین خدام عطافرمائے ۔ شا صحابہ (رض) صحابہ کرام (رض) ایسے جان نثار تھے کہ اللہ کریم ان غلاموں کو اپنی طرف سے بطور تحفہ شمار کرتے ہیں کہ دیکھئے فرشتے بھی نازل فرمائے اور یہ غلام بھی بخشے سبحان اللہ برکات رسالت میں سے ایک کا ذکر اور پھر آپ سب کے دلوں میں الفت ڈال دی اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکات میں سے عظیم برکت تھی کہ دلوں سے کدورتیں اور نفرتیں مٹ گئیں اور محبت والفت نے جگہ پائی حالانکہ وہ معاشرہ ایسا تھا جہاں نفرت جنگ اور قتال ہی کی بات ہوتی تھی اور اگر کوئی چاہتا کہ روئے ذمین کی ساری دولت لٹاکر انہیں اس طرح ایک دوسرے کی محبت کا اسیر کردے تو بھی ممکن نہ تھا لیکن رب جلیل نے یہ کردیا کہ آپ کے وجود باجود میں وہ برکت رکھ دی وہ کمال پیدا فرمایا کہ جو بھی منسلک ہوتا گیا اس کے دل میں اللہ کی محبت آپ کی محبت اسلام کی محبت مسلمان سے محبت اور آخرت سے محبت یعنی محبتوں کے چشمے جاری ہوگئے ۔ خلافت شیخین اور یہ کمال حلافت صدیقی اور فاروقی میں بھی ایسے کمی قائم رہا اس لیے علماء حق نے شیخین کی خلافت کو علی منہاج النبوۃ قراردیا ہے کہ ان دونوں زمانوں میں برکات نبوت کا ظہور پوری طرح سے تھا پھر اختلافات درآنے لگے اور یہ محبت ہی آج بھی معیارحق ہے کسی شیخ کی نسبت اور تعلق سے یہ محبت ملے تو یہ مقصود ہے ورنہ نفرتیں اور محض فرقہ بندیاں کمال کی دلیل نہیں ۔ اور اے حبیب آپ کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور ظاہر اجوجماعت خدام کی اللہ نے بخشی ہے وہی کافی ہے یعنی حقیقی اعتبار سے تو اللہ ہی بس ہے ۔ اب بظاہر مقابلے میں کثرت وقلت یا اسباب ظاہری کی پروانہ کی جائے اور یہی قانون مومنین کے لیے ہمیشہ کا ہے کہ اللہ اور اس کے حبیب کے ساتھ خالص اور کھری محبت رکھیں تو آپس کی محبت نصیب ہو اور کفر کے مقابلہ میں آج بھی اگر مسلمان ریاستیں متحد ہوجائیں تو دنیا کی عظیم عسکری قوت بن سکتی ہیں اور اتفاق انفرادی آراء پر نہیں ہوا کرتا صرف اللہ کی بات اور آپ کی اطاعت پہ ہوسکتا ہے اور پھر یہ قوت کفر کے تمام ترفتنوں کو فرد کرنے کے لیے بس ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ہدایات اور صاف ستھری پالیسی کے نتیجے میں اللہ وعدہ کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو فتح و سرخروئی حاصل ہوگی اور یہ کہ ان کے لیے کفار کی قوت کا مقابلہ بہت ہی آسان ہوجائے گا۔ ان لوگوں کے خفیہ مشورے اور بد عہدی کے ارتکاب کے بارے میں منصوبے ان کو کامیاب اور مسلمانوں پر برتری عطا نہ کرسکیں گے کیونکہ اللہ مسلمانوں کی پشت پر ہے۔ اور خائن لوگ اللہ سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ کفار کو جب اللہ پکڑنا چاہے تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اور جب اللہ مسلمانوں کی مدد کرنا چاہے تو یہ ان کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ لوگ جو اچھے مقاصد کے لیے اچھے ذرائع اختیار کرتے ہیں ، اگر ان کی نیت درست ہے تو انہیں مطمئن رہنا چاہیے کہ اوچھے ہتھیار استعمال کرنے والے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس لیے کہ انہیں اللہ کی امداد حاصل ہے اور وہ اس کراہ ارض پر سنت الہی قائم کرنا چاہتے ہیں ، وہ اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ اللہ کا نام لے کر چلتے ہیں اور ان کا نصب العین یہ ہے کہ لوگوں کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی اور غلامی میں داخل کردیں اور اس میں اللہ کے ساتھ کوئی بھی شریک نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 اور جن لوگوں نے کافرانہ روش اختیار کررکھی ہے وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ بچ گئے بلاشبہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ممکن ہے کہ غدر و خیانت سے بچنے کی تاکید سن کر یہ سمجھے ہوں کہ اب ہم مسلمانوں کے قبضے میں نہ آسکیں گے جب یہ اطلاع دیکر حملہ کریں گے تو ہم بچ جائیں گے شاید اس کا جواب دیا کہ خدا کو عاجز نہیں کرسکتے نہ اس کو ہرا سکتے ہو۔