Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 60

سورة الأنفال

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۰﴾

And prepare against them whatever you are able of power and of steeds of war by which you may terrify the enemy of Allah and your enemy and others besides them whom you do not know [but] whom Allah knows. And whatever you spend in the cause of Allah will be fully repaid to you, and you will not be wronged.

تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی ، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انھیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم ... And make ready against them all you can, whatever you can muster, ... مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ ... of power, including steeds of war. Imam Ahmad recorded that Uqbah bin Amir said that; he heard the Messenger of Allah saying, while standing on the Minbar; وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ (... And make ready against them all you can of power), أَلاَ إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْي Verily, Power is shooting! Power is shooting. Muslim collected this Hadith. Imam Malik recorded that Abu Hurayrah said, "The Messenger of Allah said, الْخَيْلُ لِثَلَثَةٍ لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ Horses are kept for one of three purposes; for some people they are a source of reward, for some others they are a means of shelter, and for some others they are a source of sin. فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ اثَارُهَا وَأرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ فَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ The one for whom they are a source of reward, is he who keeps a horse for Allah's cause (Jihad) tying it with a long tether on a meadow or in a garden. The result is that whatever it eats from the area of the meadow or the garden where it is tied, will be counted as good deeds for his benefit; and if it should break its rope and jump over one or two hillocks then all its dung and its footmarks will be written as good deeds for him. If it passes by a river and drinks water from it, even though he had no intention of watering it, then he will get the reward for its drinking. Therefore, this type of horse is a source of good deeds for him. وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللهِ فِي رِقَابِهَا وَلاَ ظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ As for the man who tied his horse maintaining self - sufficiency and abstinence from begging, all the while not forgetting Allah's right concerning the neck and back of his horse, then it is a means of shelter for him. وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْر And a man who tied a horse for the sake of pride, pretense and showing enmity for Muslims, then this type of horse is a source of sins. When Allah's Messenger was asked about donkeys, he replied, مَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَيَّ فِيهَا شَيْيًا إِلاَّ هَذِهِ الاْايَةَ الْجَامِعَةَ الْفَاذَّة Nothing has been revealed to me from Allah about them except these unique, comprehensive Ayat: فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ Then anyone who does an atom's weight of good, shall see it. And anyone who does an atom's weight of evil, shall see it. (99:7-8)" Al-Bukhari and Muslim collected this Hadith, this is the wording of Al-Bukhari. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Prophet said, الْخَيْلُ ثَلَثَةٌ فَفَرَسٌ لِلرَّحْمَنِ وَفَرَسٌ لِلشَّيْطَانِ وَفَرَسٌ لِلِْنْسَانِ There are three reasons why horses are kept: A horse that is kept for Ar-Rahman (the Most Beneficent), a horse kept for Shaytan and a horse kept for the man. فَأَمَّا فَرَسُ الرَّحْمَنِ فَالَّذِي يُرْبَطُ فِي سَبِيلِ اللهِ فَعَلَفُهُ وَرَوْثُهُ وَبَوْلُهُ وَذَكَرَ مَا شَاءَ اللهُ وَأَمَّا فَرَسُ الشَّيْطَانِ فَالَّذِي يُقَامَرُ أَوُ يُرَاهَنُ عَلَيْهَا وَأَمَّا فَرَسُ الاْأِنْسَانِ فَالْفَرَسُ يَرْبِطُهَا الاْأِنْسَانُ يَلْتَمِسُ بَطْنَهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ مِنَ الْفَقْر As for the horse kept for Ar-Rahman, it is the horse that is being kept for the cause of Allah (for Jihad), and as such, its food, dung and urine, etc., (he made mention of many things). As for the horse that is for Shaytan, it is one that is being used for gambling. As for the horse that is for man, it is the horse that one tethers, seeking its benefit. For him, this horse will be a shield against poverty. Al-Bukhari recorded that Urwah bin Abi Al-Ja`d Al-Bariqi said that the Messenger of Allah said, الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الاَْجْرُ وَالْمَغْنَم Good will remain in the forelocks of horses until the Day of Resurrection, (that is) reward, and the spoils of war. Allah said next, ... تُرْهِبُونَ ... to threaten, (or to strike fear), ... بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ ... the enemy of Allah and your enemy, the disbelievers, ... وَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ ... and others besides them, According to Mujahid,such as Bani Qurayzah, or Persians, according to As-Suddi. ... لااَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ ... whom you may not know but whom Allah does know. Muqatil bin Hayyan and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that this Ayah refers to hypocrites, as supported by Allah's statement, وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الاٌّعْرَابِ مُنَـفِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النَّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ And among the Bedouins around you, some are hypocrites, and so are some among the people of Al-Madinah who persist in hypocrisy; you know them not, We know them. (9:101) Allah said next, ... وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ And whatever you shall spend in the cause of Allah shall be repaid to you, and you shall not be treated unjustly. Allah says, whatever you spend on Jihad will be repaid to you in full. We also mentioned Allah's statement, مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَلَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّاْيَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَـعِفُ لِمَن يَشَأءُ وَاللَّهُ وَسِعٌ عَلِيمٌ The parable of those who spend their wealth in the way of Allah, is that of a grain (of corn); it grows seven ears, and each ear has a hundred grains. Allah gives manifold increase to whom He wills. And Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. (2:261)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 فُوَّۃِ کی تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَا... َعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) 8 ۔ الانفال :60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] سامان حرب و فنون سپہ گری کی ترغیب :۔ یعنی مسلمانوں کو عام حالات کے علاوہ کسی غدار معاہد کے ہنگامی حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسلحہ جنگ مہیا رکھنا چاہیے۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ تمہارے کھلے اور چھپے دشمن سب تم سے مرعوب رہیں گے اور اس ... غرض پر جتنا بھی تمہارا خرچ ہوگا سب فی سبیل اللہ شمار ہوگا، اور اس کا تمہیں اللہ تعالیٰ سے پورا پورا اجر مل جائے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اسلحہ جنگ میں تیر نیزے تلوار اور جنگی گھوڑے ہوتے تھے۔ اور دفاعی سامان میں ڈھال، زرہ اور خود وغیرہ تھے اور جنگی تربیت کے لحاظ سے پہلا نمبر تیر اندازی کا تھا۔ مسلمانوں کی جنگی ترتیب اور سامان حرب کے استعمال اور فراہمی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلچسپیوں کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ ١۔ عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے برسر منبر یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ قوت سے مراد تیر چلانا ہے۔ آپ نے اسے تین بار دہرایا اور فرمایا۔ سن لو ! اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں فتح دے گا اور محنت سے کفایت کرے گا۔ لہذا کوئی بھی تم میں سے اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٢۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی، پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم سے نہیں یا اس نے نافرمانی کی۔ && (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ الخ) ٣۔ سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں کہ آپ قبیلہ اسلم کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے وہ تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && اے بنی اسماعیل ! تیر اندازی کرو۔ بیشک تمہارے باپ بڑے تیر انداز تھے اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔ && اب دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ نے فرمایا : && تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے ؟ && انہوں نے کہا : && ہم کیسے تیر پھینکیں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔ && آپ نے فرمایا : && تیر اندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔ && (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب التحریص علی الرمی) ٤۔ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جو گھوڑے گھڑ دوڑ کے لیے تیار کئے گئے تھے۔ آپ نے ان کی دوڑ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے۔ ان کی دوڑ مسجد بنی زریق تک مقرر فرمائی اور میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، باب ھل یقال مسجد بنی فلاں ) ٥۔ سیدۃ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک (عید کے) دن میں نے آپ کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا۔ اور حبشی مسجد میں اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے اور آپ اپنی چادر سے مجھے ڈھانپے ہوئے تھے اور میں بھی ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب اصحاب الحراب فی المسجد) مگر آج تیر و تلوار کا زمانہ نہیں۔ بلکہ کلاشن کو فوں اور میزائلوں اور بموں کا زمانہ ہے۔ لہذا آج مسلمانوں کو ان جدید آلات سے پوری طرح آگاہ اور ان کے استعمال کرنے کی تربیت ہونی چاہیے۔ آج مسلمان اس معاملہ میں جتنی غفلت برت رہے ہیں اسی نسبت سے دوسری قوموں کے محتاج اور ان کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔ جہاد اور امریکی پالیسی :۔ آج مسلمانوں کی ایمانی حرارت سرد پڑچکی ہے۔ ان کا اللہ پر توکل اٹھ گیا ہے۔ وہ زبان سے تو ہر روز اپنی نمازوں میں سینکڑوں مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ امریکہ کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں اور امریکہ کی ناراضگی کا خوف انہیں اللہ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ لہذا وہ امریکہ سے دوستی بڑھانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق امریکہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا۔ وہ اس دوستی کی آڑ میں بھی مکر و فریب سے ان مسلمانوں کا ستیا ناس ہی کرے گا۔ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ نے بےپناہ مادی وسائل عطا فرمائے ہیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ متحد نہیں ہوتے اور سب کے سب ہی امریکہ کے دست نگر اور اس کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ امریکہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور امریکہ صرف ان ممالک سے خوش ہوتا ہے جو اپنے ملک سے جہاد کی روح کا جنازہ نکال دیں۔ جو ملک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس منصوبے کو بالکل ملیا میٹ کردیں۔ مجاہدین کے لیے اس نے ایک نئی اصطلاح && دہشت گرد && تجویز فرمائی ہے اور مسلمان ملک اس بات سے ہر وقت خائف رہتے ہیں کہ کہیں امریکہ بہادر ان کو دہشت گرد قرار نہ دے دے۔ گویا امریکہ بہادر مسلمان ممالک سے جہاد کی روح کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے اور جنگی قوت کو بھی جس کے لیے اس آیت میں مسلمانوں کو تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے، اور اگر مسلمان ممالک کا یہی وطیرہ رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کی بدبختی کے دن ختم نہیں ہوئے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ : ” قُوَّةٍ “ کا لفظ نکرہ لایا گیا ہے، ” مِّنْ “ کے ساتھ عموم اور زیادہ ہوگیا ہے، یعنی ہر قسم کی قوت، خواہ جو بھی ہو، تاکہ اس میں وہ تمام چیزیں آجائیں جو جنگ میں قوت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی ... اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے یہ آیت تلاوت کی : (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) اور فرمایا : ( أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ، أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ) تین دفعہ فرمایا کہ یاد رکھو اصل قوت ” رَمْیٌ“ ہے۔ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ۔۔ : ١٩١٧ ] ” رَمْیٌ“ کا لفظ اگرچہ تیر اندازی کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر اس میں تیر کے ساتھ ساتھ وہ تمام چیزیں آجاتی ہیں جو دور سے پھینکی جاتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ ) [ الأنفال : ١٧ ] سے مرادمٹی اور کنکریوں کی مٹھی پھینکنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دور سے مار کرنے والی جو بھی چیز تھی آپ نے جنگ میں استعمال فرمائی، حتیٰ کہ منجنیق بھی دشمن کے خلاف استعمال فرمائی، جس کے ساتھ دور سے پتھر پھینک کر قلعوں کی دیواریں توڑ دی جاتی تھیں اور ہمیشہ مسلمانوں نے اپنے غلبے کے زمانے میں ہر جدید ہتھیار مثلاً نفط (پٹرول وغیرہ) کے ہتھیار استعمال کیے۔ بارود کی ایجاد کے بعد بھی ترک خلفاء توپوں کی تیاری سے غافل نہیں رہے، مگر افسوس اس کے بعد مسلمانوں نے اس حکم سے اتنی بےپروائی کی کہ دشمن اس میدان، یعنی اسلحہ کی تیاری میں ان سے بہت آگے نکل گیا۔ اب عالم اسلام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت کے باوجود اسلحے کے لیے غیروں کا محتاج ہے، چھوٹے موٹے ہتھیار تو بنتے ہیں، مگر ہوائی جہاز، ہیلی کا پٹر، گاڑیاں، کمپیوٹر، توپیں، ریڈار وغیرہ تمام چیزوں میں وہ دوسروں کا دست نگر ہے۔ (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں کفار مسلمانوں کی دولت بھی لوٹ رہے ہیں، ان کے وسائل اور دینی اقدار کو بھی چھین رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان ہتھیاروں اور جہازوں کی ضروریات وغیرہ روک کر بےبس کردیتے ہیں، حالانکہ پاکستان اگر ایٹم بم بنا سکتا ہے تو وہ کون سی چیز ہے جو مسلم ممالک نہیں بنا سکتے ؟ مگر مسلمانوں کی دین سے بےگانگی، دشمن کی چال بازی، اپنوں کی غداری اور طمع و حرص کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بزدلی ان میں یہ چیزیں بنانے کی جرأت ہی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم کسی گاڑی، ریل یا ہوائی جہاز پر سوار ہو کر اپنے ملک میں یا بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو دل میں سخت تکلیف ہوتی ہے کہ یہ تمام سواریاں ہمارے دشمنوں کی بنائی ہوئی ہیں، ہم اپنے بل بوتے پر کچھ بھی نہیں بنا سکے۔ یہ سب مسلمانوں کے رہنماؤں کا کیا دھرا ہے، جو اپنے عوام ہی کی تصویر ہیں، مگر مایوس ہونا کسی صورت بھی جائز نہیں اور نہ کفار کو ناقابل شکست سمجھ کر ہاتھ توڑ کر بیٹھ جانا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کفار جتنی بھی کوشش کرلیں کبھی نور اسلام کو بجھا نہ سکیں گے، فرمایا : (يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ) [ الصف : ٨ ]” وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کے ساتھ بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت قائم ہونے تک اس کی خاطر لڑتی رہے گی۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٢، عن جابر بن سمرۃ (رض) ] مغیرہ بن شعبہ، جابر بن عبداللہ اور معاویہ (رض) سے مروی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں ان لوگوں کے دین پر قائم رہنے اور غالب رہنے کی خوش خبری بھی آئی ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢١، ١٩٢٣، ١٠٣٧، بعد ح : ١٩٢٣ ] اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس وقت مجاہدین اسلام اور کفار کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس میں اہل اسلام کی کس قدر آزمائش باقی ہے ؟ اور کفار اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی جس حد تک پہنچ چکے ہیں ان کی سزا میں کتنی دیر ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ اپنے کن بندوں کے ہاتھوں کفار کو کس طرح کیفر کردار تک پہنچاتا ہے ؟ فرمان الٰہی ہے : (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ ) [ محمد : ٣٨ ] ” اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ تمہارے سوا اور لوگ لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ “ اور دیکھیے سورة مائدہ ( ٥٤) ۔ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ : اس حکم سے سوار فوج کی اہمیت ظاہر ہے۔ ” قُوَّةٍ “ اور ” رِّبَاطِ الْخَيْلِ “ میں فوجی گاڑیاں، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، جنگی جہاز، آبدوزیں، بحری بیڑے، جاسوسی کے آلات اور ادارے، اعلام کے ذرائع، سب آجاتے ہیں، مگر ان سب کے باوجود قیامت تک جنگ میں گھوڑوں کی ضرورت اور اہمیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ جو کام یہ مبارک جانور سر انجام دے سکتا ہے دنیا کی کوئی چیز نہیں دے سکتی۔ عروہ بارقی اور جریر بن عبداللہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ” یہ گھوڑے، ان کی پیشانیوں میں قیامت کے دن تک خیر باندھ دی گئی ہے، اجر اور غنیمت۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الخیل ۔۔ : ١٨٧٢، ١٨٧٣ ] اس لیے مسلمانوں کو ڈرائیور، پائلٹ، ملاح، بحری مجاہد، تیراک اور غوطہ خور ہونے کے ساتھ ساتھ گھڑ سوار ہونا بھی لازم ہے۔ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ : یعنی اس قدر مضبوط تیاری رکھو کہ اللہ کا دشمن اور تمہارا دشمن اور تمہارے ساتھ کد رکھنے والا ہر شخص تم سے خوف زدہ رہے اور لڑنے کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ ان واضح دشمنوں میں مشرکین، یہود و نصاریٰ اور جانے پہچانے منافق سب شامل ہیں۔ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ : اس سے مراد مسلمانوں کی صفوں میں کفار کے چھپے ہوئے ہمدرد منافق ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠١) علاوہ ازیں کئی اقوام جو بظاہر اس وقت تمہارے خلاف نہیں، مگر موقع پانے پر دل میں تم سے لڑائی کا ارادہ رکھتی ہیں، تمہاری مکمل تیاری اور ہر وقت جہاد میں مصروف رہنا سب کو خوف زدہ رکھے گا۔ بعض مفسرین نے اس سے جن و شیاطین کے لشکر مراد لیے ہیں، تمہاری تیاری کی بدولت وہ بھی دشمنوں کے دلوں میں لڑائی کے جذبات نہیں ابھار سکیں گے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ : اس سے جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب مقصود ہے۔ فی سبیل اللہ خرچ کی فضیلت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٦١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Production and Supply of Military Hardware for Jihad is a Re¬ligious Obligation Given in the second verse (60), there are injunctions relating to preparations for the defence of Islam against disbelievers. It was said: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم (And make ready against them whatever you can - 60). Here, by placing the restriction of: مَّا اسْتَطَعْتُم (whatever you can) with the need to p... roduce and supply war materials, the hint given is that it is not necessary for your success that you go about acquiring the same quantity and quality of military equipment as is available to your ad¬versary. Instead of that, it is quite sufficient that you put together whatever supplies you can possibly acquire. If so, the help and support of Allah Ta ala shall be with you. After that, some details about the direction of these preparations were stated tersely. It was said: مِّن قُوَّةٍ (min quwwah : of power). It means: Collect and keep ready the power to fight. Included here is everything in the form of military equipment, weapons, means of transportation and other relevant support - and also learning to stay physically fit and training in fighting skills and strategy. The Qur&an, however, does not mention the weapons commonly used during those days at this place. Instead, by using the general word, قُوَّةٍ &quwwah& or power, it has pointed out in the direction that this power could be dif¬ferent in terms of every age, country or area. The weapons of those days were arrows, swords and spears. Then came the age of guns and cannons and now is the time of bombs and rockets (and what not). The word: قُوَّةٍ &Quwwah& or power used here covers everything. Therefore, Mus¬lims of today should acquire nuclear capability as far as they can - and tanks and fighter planes and submarines - because all these are in¬cluded within the sense of this very قُوَّةٍ &Quwwah& or power. It should also be borne in mind that should we need to learn any art or science to achieve this end and if such effort be made with the intention that it will be employed to defend Islam and Muslims and to meet any aggres¬sive challenges from the disbelievers - then, that too will fall under the procedure of Jihad and will carry reward. After having mentioned the word: قُوَّةٍ &Quwwah& (power) in a general sense, also mentioned there was a particular form of power in clear terms by saying: مِن رِبَاطِ الْخَيْلِ (and of the trained horses). The word: رِّ‌بَاطِ (Ribat) is used in its sense as a verbal noun as well as in the sense of: مَربُوط (marbut). Taken in the first sense, it would mean to tie horses and in the second, tied horses. The outcome of both is the same, that is, to breed, break and train horses and hold them tied in readiness with the intention of using them in Jihad, or to assemble together a collection of such trained horses. Out of the supplies needed in a war, horses were mentioned particularly for the reason that those were times when the most effective mode of winning a war against countries and peoples of that period was no other but horses. Even today, there are inaccessible areas which cannot be overtaken without horses. Therefore, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: Allah Ta` ala has placed barakah on the forehead of horses. There are other sound Ahadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has declared the efforts to procure and assemble war materials and the learning of the ability to use them efficiently to be a great act of ` Ibadah deserving supreme rewards from Allah. Similarly, equally great returns have been promised for making and shooting arrows. And since the real purpose of Jihad is to protect and defend Islam and Muslims - and defence as conceived in every period of time and by every set of people remains different - therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: جَاھِدُوا المُشرِکینَ بِاَموَالِکُم وَ اَنفُسِکُم وَ اَلسِنَتِکُم (Carry out Jihad against the Mushrikin with your belongings, and your own selves and your eloquence (of speech or writing). (Hadith reported by Abu Dawud and An-Nasa&i and Ad-Darimi from Sayyidna Anas (رض) . This Hadith tells us that the way Jihad - defensive or initiated - is waged with weapons, it is also carried out at times with the power of speech, and the Jihad carried out with the power of pen or writing is governed by the same injunction which governs speech. When Islam and Qur&an are defended through the medium of speech or writing against attacks from the forces of disbelief and atheism, or from agents of disinformation, distortion and interpolation, that too is in¬cluded in Jihad as based on this clear and definitive textual authority of the Qur&an (Nass). After having given the command to make war materials ready for use, also described there was the wisdom of assembling these materi¬als together - and its real purpose - in the following words: تُرْ‌هِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ |" (whereby you frighten the enemy of Allah and your own enemy - 60). It means that the real purpose of acquiring and storing military hardware, whether for initiated action or defence, is not to indulge in an exercise of killing and being killed. The purpose, in fact, is to bring down the force of Kufr and Shirk and fill the hearts of their protago¬nists with awe so that they stay suppressed. On occasions, that can be done by the power of the spoken or the written word only. Then, there are other occasions when fighting and killing become necessary. So, defence is obligatory (fard) as dictated by the prevailing condition. Then it was said that Muslims do know some of those people who are to be impressed with preparations and readiness for combat - and these are people engaged in an ongoing confrontation with Muslims, that is, the disbelievers of Makkah and the Jews of Madinah. Then, there were other peoples too, those whom the Muslims did not know yet. The reference here is to the disbelievers and polytheists of the whole world who had not come up against Muslims, yet in future, they too were to clash against them. This verse of the Holy Qur&an has told Muslims clearly that, in case they do make full preparations to fight against their present adversary, it will not only cow them down but will also cast its shadows over disbelievers living in distant lands, as it did happen in the case of Cyrus and Ceaser and others of those days. They all were deterred and suppressed during the age of the rightly-guided Khulafa& of Islam. It goes without saying that the process of putting war materials to¬gether and fighting a war has to be backed financially and when it comes to actual production or procurement of military support, that too can be made available through investment of money. Therefore, at the end of the verse, the great merit and reward of spending wealth in the way of Allah has been described by saying that &the return for whatever you spend in the way of Allah shall be given to you in full.& There are times when this return is received in the form of war spoils right here in this mortal world as well, otherwise, the return to be re¬ceived in the Hereafter stands already determined - and, as obvious, that is more praiseworthy.  Show more

جہاد کے لئے اسلحہ اور سامان حرب کی تیاری فرض ہے : دوسری آیت میں اسلام سے دفاع اور کفار کے مقابلہ کے لئے تیاری کے احکام ہیں، ارشاد فرمایا (آیت) وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ ۔ یعنی سامان جنگ کی تیاری کرو کفار کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے۔ اس میں سامان جنگ کی تیاری کے ساتھ مّا اسْـتَـطَعْتُمْ...  کی قید لگا کر یہ اشارہ فرمادیا کہ تمہاری کامیابی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے مقابل کے پاس جیسا اور جتنا سامان ہے تم بھی اتنا ہی حاصل کرلو۔ بلکہ اتنا کافی ہے کہ اپنی مقدور بھر جو سامان ہوسکے وہ جمع کرلو تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد اس سامان کی کچھ تفصیل اس طرح فرمائی مِّنْ قُوَّةٍ یعنی مقابلہ کی قوت جمع کرو اس میں تمام جنگی سامان اسلحہ، سواری وغیرہ بھی داخل ہیں اور اپنے بدن کی ورزش، فنون جنگ کا سیکھنا بھی، قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے اس زمانہ کے اسلحہ تیر، تلوار، نیزے تھے اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا۔ پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت ان سب کو شامل ہے اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت، ٹینک اور لڑاکا طیا رے، آب دوز کشتیاں جمع کرنا چاہئے کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اور اس کے لئے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔ لفظ قوت عام ذکر کرنے کے بعد ایک خاص قوت کا صراحةً بھی ذکر فرما دیا (آیت) وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ لفظ رباط مصدری معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مربوط کے معنی میں بھی پہلی صورت میں اس کے معنی ہوں گے گھوڑے باندھنا اور دوسری صورت میں بندھے ہوئے گھوڑے۔ حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ جہاد کی نیت سے گھوڑے پالنا اور ان کو باندھنا یا پلے ہوئے گھوڑوں کو جمع کرنا۔ سامان جنگ میں سے خصوصیت کے ساتھ گھوڑوں کا ذکر اس لئے کردیا کہ اس زمانہ میں کسی ملک و قوم کے فتح کرنے میں سب سے زیادہ موثر و مفید گھوڑے ہی تھے۔ اور آج بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کو گھوڑوں کے بغیر فتح نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے۔ صحیح احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سامان جنگ فراہم کرنے اور اس کے استعمال کی مشق کرنے کو بڑی عبادت اور موجب ثواب عظیم قرار دیا ہے۔ تیر بنانے اور چلانے پر بڑے بڑے اجر وثواب کا وعدہ ہے۔ اور چونکہ جہاد کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ہے ہر زمانہ اور ہر قوم کا جدا ہوتا ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاھدوا المشرکین با موالکم وانفسکم والسنتکم ( رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی عن انس) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح دفاع و جہاد ہتھیاروں سے ہوتا ہے بعض اوقات زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلم بھی زبان ہی کے حکم میں ہے۔ اسلام اور قرآن سے کفر و الحاد کے حملوں اور تحریفوں کی مدافعت زبان یا قلم سے یہ بھی اس صریح نص کی بنا پر جہاد میں داخل ہے۔ آیت مذکورہ میں سامان جنگ کی تیاری کا حکم دینے کے بعد اس سامان کے جمع کرنے کی مصلحت اور اصل مقصد بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا (آیت) تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ یعنی سامان جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل و قتال نہیں بلکہ کفر و شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کردینا ہے وہ کبھی صرف زبان یا قلم سے بھی ہوسکتا ہے اور بعض اوقات اس کے لئے قتل و قتال ضروری ہوتا ہے۔ جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ جنگ و جہاد کی تیاری سے جن لوگوں کو مرعوب کرنا مقصود ہے ان میں سے بعض کو تو مسلمان جانتے ہیں اور وہ وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا مقابلہ جاری تھا یعنی کفار مکہ اور یہود مدینہ۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو ابھی تک مسلمان نہیں جانتے۔ مراد اس سے پوری دنیا کے کفار و مشرکین ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے مقابلہ پر نہیں آئے مگر آئندہ ان سے بھی تصادم ہونے والا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت نے بتلا دیا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے موجودہ حریف کے مقابلہ کی تیاری کرلی تو اس کا رعب صرف انہیں پر نہیں بلکہ دور دور کے کفار کسرٰی و قیصر وغیرہ پر بھی پڑے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اور خلفائے راشدین کے عہد میں یہ سب مغلوب و مرعوب ہوگئے۔ جنگی سامان جمع کرنے اور جنگ کرنے میں ضرورت مال کی بھی پڑتی ہے بلکہ سامان جنگ بھی مال ہی کے ذریعہ تیار کیا جاسکتا ہے اس لئے آخر آیت میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اس کا اجر عظیم اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دے دیا جائے گا۔ بعض اوقات تو دنیا میں بھی مال غنیمت کی صورت میں یہ بدلہ مل جاتا ہے ورنہ آخرت کا بدلہ تو متعین ہے اور ظاہر ہے وہ زیادہ قابل قدر ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝ ٠ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝ ٠ ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْل... َمُوْنَ۝ ٦٠ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ رَبْطُ رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران/ 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ [ الكهف/ 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال/ 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة/ 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش . ( ر ب ط ) ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران/ 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا میں تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال/ 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔ خيل الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل : كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ رهب الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» . ( ر ھ ب ) الرھب والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔ _ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جہاد کے لئے قوت کی فراہمی قول باری ہے (واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل۔ اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قتال کے وقت کی آمد سے پہلے ہتھیار اور گھوڑے تیار رکھنے کا حک... م دیا ہے تاکہ دشمن کے دل میں ان کا خوف طاری ہوجائے۔ نیز بندھے رہنے والے گھوڑے پہلے سے تیار رکھجنے کا حکم دیا گیا تاکہ مشرکین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پوری تیاری ہوجائے۔ ایک روایت کے مطابق قوت سے مراد تیراندازی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں عبداللہ بن وہب نے، انہیں عمرو بن الحارث نے ابو علی ثمامہ بن شفی ہمدانی سے کہ انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) کو یہ کہتے سنا تھا کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (واعدوا لھم ماستطعتم من قوۃ، الا ان القوۃ الرمی، الا ان القوۃ الرمی، الا ان القوۃ الرمی، اور تم جہاں تکتمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت ان کے مقابلہ کے لئے مہیا کرو… آپ نے فرمایا ” لوگو، آگاہ رہو، قوت تیر اندازی کا نام ہے، قوت تیر اندازی کا نام ہے، قوت تیراندازی کا نام ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن الفضل نے۔ انہیں فضل بن مستحب نے، انہیں ابن ابی اویس نے سلیمان بن بلال سے، انہوں نے عمرو سے۔ انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمر کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ارموا وارکبوا، و ان ترموا احب الی من ان ترکموا، و کل لھوالمومن باطل الارمیہ بقوسہ او تادیبہ فرسہ او ملاعبتہ امراتہ فانھن من الحق، تیراندازی اور گھڑ سواری کی مشق کرو، میرے نزدیک تیراندازی گھڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ مومن کے لئے ہر لہو و لعب باطل اور غلط ہے۔ البتہ اگر ایک مومن اپنی کمان سے تیر چلانے کی مشق کرے یا اپنے گھوڑے کو سدھائے یا اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرے۔ یہ باتیں اس کے لئے درست ہیں) ۔ ہمیں محمد بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہی (رح) سعید بن منصور نے، انہیں عبداللہ بن المبارک نے، انہیں عبدالرحمان بن زید بن جابر نے، انہیں ابو سلام نے خالد بن زید سے، انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے، انہوں نے کہا۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلاثۃ نفرالجنۃ صائعہ یحتسب، فی صنعتہ الخیر والرامی بہ و منبلہ وارموا، وارکبوا، و ان ترموا احب الی من ان ترکبوا لیس من اللھو ثلاثۃ، تادیب الرجل فرسہ، و ملاعبتہ اھلہ و رمیہ بقوسہ و نبلہ و من ترک الرمی بعد ما علمہ رغبۃ عنہ فانھا نعمۃ ترکھا او قال کفرھا۔ اللہ تعالیٰ ایک تیر یک بنا پر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا، تیر بنانے والے کو بشرطیکہ وہ تیر سازی میں اللہ سے اجر ک حصول کی امید کرے۔ تیر چلانے والے کو اور تیر پکڑانے وال کو، تم لوگ تیراندازی اور گھڑ سواری کی مشق کرو، میرے نزدیک تمہاری تیر اندازی گھڑ سواری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ صرف تین قسم کے لہو و لعب درست ہیں۔ انسان اپنے گھوڑے کو سدھائے اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرے اور کمان سے تیر چلانے کی مشق کرے، جس شخص نے تیراندازی سیکھنے کے بعد بےرغبتی کی بنا پر اس کی مشق ترک کردی اس نے گویا ایک ہاتھ آئی ہوئی نعمت کو ترک کردیا۔ (یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) اس نے کفران نعمت کیا۔ باپ بیٹے کو تربیت جہاد دے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے، انہیں مغیرہ بن عبدالرحمن نے، انہیں عثمان بن عبدالرحمن نے، انہیں الجراح بن منہال نے ابن شہاب سے، انہوں نے حضرت ابورافع (رض) کے آزاد کردہ غالم ابو سلیمان سے، انہوں نے حضرت ابو رافع (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حق الولد علی الوالد ان یعلمہ کتاب اللہ والسباحۃ والرمی۔ بیٹے کا باپ پر یہ حق ہے کہ باپ اسے کتاب اللہ کی تعلیم دے اور تیراکی نیز تیراندازی سکھائے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشد صالا ال قوۃ الرمی، لوگو، آگاہ رہو قوت تیراندازی کا نام ہے) کے معنی یہ ہیں کہ دشمن سے پنجہ آزمائی کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے تیراندازی اس کا ایک بڑا حصہ ہے۔ آپ نے اس سے تیراندازی کے سوا دوسری تیاریوں کو طاقت اور قوت کا حصہ قرار دینے کی نفی نہیں کی۔ بلکہ لفظ کا عموم ان تمام آلات جنگ اور ہتھیاروں کو شامل ہے جن سے دشمن کے مقابلہ میں کام لیا جاسکتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، انہیں جعفر بن ابی التقیل نے، انہیں یحییٰ بن جعفر نے، انہیں کثیر بن ہشام نے۔ انہیں عیسیٰ بن ابراہیم الثمالی نے حضرت حکم بن عمیر (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ ہم جہاد کے اندر اپنے ناخن نہ کٹوائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ت ھا کہ قوت ناخنوں میں ہوتی ہے۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ چیز جس کے ی ذریعے دشمن مقابلہ میں قوت حاصل کی جاسکتی ہو اس کی تیاری کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ قول باری ہے (ولوارادوا الخروج لااعدولہ عدۃ۔ اگر ان منافقین کا جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے ضرور سامان تیار کرلیتے) اللہ تعالیٰ نے تیاری نہ کرنے اور دشمن کا سامنا کرنے سے پہلے تیاریاں مکمل نہ کرنے پر ان کی مذمت کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھوڑے باندھنے کے سلسلے میں ایسی روایت بھی منقول ہے جو آیت کے مفہوم سے مطابقت رکھتی ہے۔ گھوڑے کے گلے میں پٹہ ڈالاجائے نہ کہ تانت ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اساق التستری نے، انہیں احمد بن عمر نے، انہیں ابن وہب نے ابن لھیعہ سے، انہوں نے عبید بن ابی حکیم ازدی سے، انہوں نے حصین بن حرملہ المھری سے۔ انہوں نے ابو المصبح سے، وہ کہتے ہیں ک میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الخیل معقود فی نوا صیھا الخیر والنیل الی یوم القیمۃ و اصحابھا معانون، قلدوھا ولا تقلدوھا الاوتار گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیر اور کامیابی کی گرہ باندھ دی گئی ہے۔ گھوڑوں کے مالکان ان کے لئے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، گھوڑوں کی گردنوں میں پٹے ڈال دیا کرو لیکن ان کی گردنوں میں تانت نہ ڈالا کرو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث میں آپ نے یہ بیان کیا کہ خیر اجر اور غنیمت کا نام ہے۔ اس میں یہ بات موجود ہے جو جس امر کی موجب ہے کہ گھوڑے باندھنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے بشرطیکہ اس میں جاہد کی نعمت ہو۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ قیامت تک جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لئے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر گھوڑوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت پر اجر کا استحقاق قیامت تک جاری رہے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ک یارشاد (ولا تقلدوھا الاوتار) کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں تانت کی وجہ سے گھوڑے کا دم نہ گھٹ جائے۔ دوم یہ کہ الہ جاہلیت کا طریقہ تھا کہ جب انتقام لینے اور بدلہ چکانے کے لئے نکل کھڑے ہوتے تو اپنے گھوڑوں کی گردنوں میں تانت ڈال دیتے۔ صوتر انتقام کو کہتے ہیں اور تانت کو بھی، دونوں میں لفظی مشابہت ہے) تانت ڈال کر وہ یہواضح کرتے ہیں کہ انتقام لینے جا رہے ہیں اور جنہیں قتل کرنا مقصود ہیں انہیں ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ جاہلیت کے انتقام ک اس طریقے کو باطل قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر آپ نے فتح مکہ کے دن اعلان کردیا تھا کہ (الا ان کل دم دماثرہ فھر موضوع تحت قدمی ھاتین و اول دم اضعہ دم ربیعۃ بن الحارث، لوگوں آگاہ ہو جائو، خ ہر خون کا بدلہ اور ہر قتل کا انتقام میرے ان دونوں قدموں کے نیچے رکھ دیا گیا، یعنی معاف کردیا گیا اور سب سے پہلے جس قتل کی معافی کا میں اعلان کرتا ہوں وہ میرے شرتہ دار ربیعہ بن الحارث کا خون ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) تم قبیلہ بنی قریظہ وغیرہ کے لیے ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھو اور ان گھوڑوں سے ان کو ڈراتے رہو یہ دین اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اور لڑائی میں تمہارے دشمن ہیں، اس قبیلہ بنی قریظہ کے علاوہ تمام عرب پر بھی یا یہ کہ تمام کفار اور جنوں پر اپنا رعب جمائے رکھو جن کی تعداد تمہیں م... علوم نہیں اللہ تعالیٰ ہی ان کی تعداد جاننے والا ہے۔ اور اطاعت خداوندی میں جو کچھ بھی مال تم ہتھیاروں اور گھوڑوں پر خرچ کرو گے اس کا تمہیں کو پورا پورا ثواب دیا جائے گا، تمہارے ثواب میں کسی قسم کا کوئی کمی نہیں ہوگی ،  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ ) یہاں مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ اب جبکہ تمہاری تحریک تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے تو تم لوگ اپنے وسائل کے مطابق ‘ مقدور بھر فن حرب کی صلاحیت و اہلیت ‘ اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ جہاد کے لیے تی... ار رکھو۔ اگرچہ ایک مؤمن کو اللہ کی نصرت پر توکل کرنا چاہیے ‘ مگر توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور امید رکھے کہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہی ہوجائے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے تمام ممکنہ مادی اور تکنیکی وسائل مہیا رکھے جائیں اور پھر اللہ کی نصرت پر توکل کیا جائے۔ یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تیاری کا یہ حکم ہر دور کے لیے ہے۔ آج اگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت ‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ (compromise) کیا گیا تو یہ اللہ ‘ اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہوگی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے ‘ تاکہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوت مزاحمت کا توازن (deterrence) قائم رہے۔ (تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ) (وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ ط) یعنی تمہاری آستینوں کے سانپ منافقین جو درپردہ تمہاری تباہی اور بربادی کے درپے رہتے ہیں۔ تمہاری نظروں سے تو وہ چھپے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔ (وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ ) یعنی اگر اسلحہ خریدنا ہے ‘ سازو سامان فراہم کرنا ہے ‘ گھوڑے تیار کرنے ہیں تو اس سب کچھ کے لیے اخراجات تو ہوں گے۔ لہٰذا جنگی تیاری کے ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی آگیا ‘ اس ضمانت کے ساتھ کہ جو کوئی جتنا بھی اس سلسلے میں اللہ کے رستے میں خرچ کرے گا اس کو وعدے کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا اور کسی کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں سورة البقرۃ کے رکوع ٣٦ اور ٣٧ میں دیے گئے اَحکام کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو ! اب تمہاری تحریک کا وہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے جہاں تمہارا جنگ کے لیے ممکن حد تک تیاری کرنا اور کیل کانٹے سے لیس ہونا نا گزیر ہوگیا ہے۔ لہٰذا اب آگے بڑھو اور اس عظیم مقصد کے لیے دل کھول کر خرچ کرو۔ اللہ تمہیں ایک کے بدلے سات سو تک دینے کا وعدہ کرچکا ہے ‘ بلکہ یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ جذبۂ ایثارو خلوص جس قدر زیادہ ہوگا یہ اجر وثواب اسی قدر بڑھتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اپنا مال سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالو ‘ تاکہ دنیا میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کام آجائے اور آخرت میں تمہاری فلاح کا ضامن بن جائے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44. Muslims should he equipped with military resources and should have a standing army in a state of preparedness, in order that it may be used when needed. Never should it happen that the Muslims are caught unawares and have to hurriedly look around right and left to build up their defences and collect arms and supplies in order to meet the challenge of the enemy. For then it might be too late an... d the enemy might have accomplished its purpose.  Show more

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :44 اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ( Standing army ) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو ۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس...  اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو ، دشمن اپنا کام کر جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: یہ پوری امت مسلمہ کیلئے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لئے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے، قرآن کریم نے طاقت کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک ہھتیار پر موقوف نہیں ؛ بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت ک... ا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے، لہذا اس میں تمام جدید ترین ہھتیار اور آلات بھی داخل ہیں اور وہ تمام اسباب ووسائل بھی جو مسلمانوں کی اجتماعی معاشی اور دفاعی ترقی کے لئے ضروری ہوں، افسوس ہے کہ اس فریضے سے غافل ہو کر آج مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اور ان سے مرعوب ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو اس صورت حال سے نجات عطا فرمائے۔ امین۔ 43: اس سے مراد مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں جو اس وقت تک سامنے نہیں آئے تھے ؛ بلکہ بعد میں سامنے آئے، مثلاً روم اور فارس کے لوگ جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری دور اور خلافت راشدہ کے زمانے میں یا اس کے بھی بعد سابقہ پیش آیا۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:60) اعدوا۔ تم تیار کر رکھو۔ اعداد سے امر جمع مذکر حاضر۔ الاعداد بمعنی تیار کر نا۔ مہیا کرنا۔ یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعدوت ھذا لک کے معنی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو۔ رباط۔ باندھنا۔ سرحد پر چوکی دینا۔ باب ... مفاعلہ سے مصدر ہے ثلاثی مجرد میں ربط کا بھی مصدر ہے۔ جس کے معنی ہیں مضبوط اور مستحکم باندھنا۔ نیز اسم بھی آتا ہے۔ جس چیز کے ساتھ گھوڑے باندھے جائیں اس کو بھی رباط کہتے ہیں اور جس جگہ دشمن کے دفاع کے لئے گھوڑے باندھے جائیں مثلاً پڑاؤ۔ چھاؤنی اس کو بھی رباط کہتے ہیں۔ یہاں بطور مصدر ہی استعمال ہوا ہے۔ بمعنی گھوڑے باندھنا۔ یعنی گھوڑوں کو دشمن سے دفاع کی خاطر چاک و چوبند باندھے رکھنے کہ جب ضرورت پڑے استعمال میں لائے جاسکیں۔ ترھبون۔ تم ڈراؤ۔ تم ڈرا سکو۔ تم ڈراتے ہو۔ تم ڈراؤگے۔ ارھاب (افعال) سے جس کا معنی خوف زدہ کرنے کے ہیں۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ بہ ضمیر ہ کا مرجع ما استطعتم ہے۔ واخرین من دونہم۔ اور دوسرے (دشمن ) جو ان (کھلے دشمنوں) کے علاوہ ہیں۔ یعنی جن کا مسلمانوں کو علم نہیں ہے لیکن ان کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یوف۔ مضارع مجہول ۔ واحد مذکر غائب۔ توفیہ (تفعل) مصدر۔ وہ پورا پورا نہیں واپس دیا جائے گا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعن تمہیں دشمن کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور ضرورت اور زمانہ کے حالات کے مطابق جس قدر اسلحہ حرب اور مسلح افواج تم بہم پہنچا سکتے وہ بہم پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (کذافی الکبیر و ابن کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں کہ ترھبو ن بہ فرمایا تاکہ سمجھ لیں کہ فتح کا نحصار صرف اسباب پر نہیں...  اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی نصرت وامداد پر ہے ( موضح)4 جن کے دلوں کا حال تم نہیں جانتے لیکن وہ ہر آن موقع کی تلاش میں ہیں کہ کبھی تمہیں کمزور پائیں تو حملہ کردیں یا تمہارے کھلم دشمنوں سے مل جائی ایسے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودی اور منا فق تھے۔5 یعنی تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور معمولی سے معمولی خرچ کو بھی رائیگاں نہ جانے دیا جائے گا ارویہ جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک نیکی دس گنے سے ساتھ سو گنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھتی ہے تو اس کا مدار حسن نیت پر ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 60 تا 62 لغات القرآن۔ اعدوا۔ تیاری رکھو۔ تیاری کرو۔ استطعتم۔ جتنی تمہاری طاقت ہے۔ قوۃ۔ طاقت۔ ہیبت۔ رباط الخیل۔ پلے ہوئے گھوڑے۔ ترھبون۔ تم ہیبت طاری کرتے ہو۔ عدواللہ ۔ اللہ کے دشمن۔ اخرین۔ دوسرے۔ یوف۔ پورا کرد یا جائے گا۔ جنحوا۔ وہ جھکیں۔ مائل ہوں۔ السلم۔ صلح۔ اجنح۔ تو جھک جا۔ توکل۔ بھروسہ کر... ۔ یخدعوک۔ وہ آپ کو دھوکہ دیں گے۔ حسبک اللہ۔ اللہ آپ کا کافی ہے۔ ایدک۔ اس نے تجھے طاقت دی۔ تیری مدد کی۔ بنصرہ۔ اپنی مدد سے ۔ تشریح : غزوہ بدر کے پس منظر میں اہل ایمان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اے اہل ایمان تم دشمن کی چالوں سے ہوشیار رہو۔ غزوہ بدر کی کامیابی پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائو جب تم نے دشمن کو ایسی چوٹ دیدی ہے جس سے اس کے اوسطان خطا ہوگئے ہیں تو وہ چوت کھائے ہوئے سانپ کی طرف تم پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا تم ہر طرح کے ہتھیاروں سے تیاری کرلو اس میں غزوہ بدر کے بعد سے غزوہ تبوک تک کی پیشن گوئی فرما دی گئی ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) کہ جہاں تک ہوسکے تمام جنگی قوتوں کے ساتھ ایک لشکر قائمہ تیار رکھو تاکہ جیسے ہی دشمن سے کوئی خطرہ ہو تو تم اس خطرے سے نبٹنے کے لئے تیار رہو۔ تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے اور تمہارے معلوم اور نامعلوم دشمنوں پر ایسی ہیبت اور رعب طاری رہے کہ وہ فوری طور پر کوئی کاروائی کرتے ہوئے دس مرتبہ غور کریں۔ ان دنوں عربوں میں باقاعدہ فوج رکھنے کا رواج نہ تھا۔ جب ضرورت ہوئی لوگوں کو آواز دی گئی۔ رضا کار دوڑے دوڑے اس آواز پر جمع ہوگئے جلدی جلدی جو سامان مہیا کرنا تھا وہ کردیا گیا اور چند گھنٹوں یا چند دنوں میں فوج کو دشمن کے مقابلے میں اتار دیا گیا۔ پھر جب لڑائی ختم ہوجاتی تو پھر سارے سپاہی اپنے اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے۔ یہ اسلام ہے جس نے پہلی مرتبہ دنیا میں لشکر قائم یعنی باضابطہ اور مستقل فوج کی ضرورت کا احساس کیا اور وہ بھی اس طرح کہ وہ فوج ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو۔ تاک اس کا رعب دشمنوں پر اس طرح پڑجائے کہ وہ پھر پلٹ نہ سکیں۔ چناچہ جنگ احد میں جب کفار مکہ کو شدید جانی و نقصان اٹھا کر احد کے درمیان سے بھاگنا پڑا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سرکردگی میں دشمنوں کے پیچھے مجاہدین کا ایک دستہ دوڑا دیا گیا جس کے رعب سے دشمن واپس مکہ جانے پر مجبور ہوگیا اور اس کو پلٹ کر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسی طرح جنگ موتہ کے بعد شہنشاہ روم تبوک کے مقام پر لاکھوں فوجیوں اور ہتھیاروں کے باوجود مقابلہ کی جرأت نہ کرسکا اور اس کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ دشمن پر رعب اور ہیبت سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بدولت غزوات میں بہت کم جانی نقصان ہوا اور نتیجہ زیادہ بہتر سامنے آیا۔ ان آیات میں ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جنگ کی تیاری ہو یا عمل کا میدان ہر جگہ ہر طرح کی مالی قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے اگر ملت کے افراد اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کریں تو اس سے بڑی رکاوٹوں کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اس لئے فرمایا کہ اے مومنو ! تم اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ نہ صرف تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا بلکہ اس میں تمہاری آخرت کا اس طرح سامان کردیا جائے گا کہ تمہارا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ تیسرا اصول یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو صلح کرنے میں دیر نہ کی جائے کیونکہ دین اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے۔ ایک نظریہ حیات ہے اس کے آگے بڑھنے میں وہی مومس زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے جب امن و سلامتی ہو۔ لہٰذا جب بھی کفار ور دشمنان اسلام کی طرف سے صلح کی بات کی جائے تو اس میں اہل ایمان کے قدم سب سے آگے ہونے چاہیں۔ اگر وہ اس صلح سے کوئی جنگی چال یا انے دام فریب میں پھنسانے کیلئے مکر کر رہے ہوں گے تو فرمایا گیا کہ اللہ پر بھروسہ کر کے صلح مندی کی طرف آجائو۔ اس جگہ پر اللہ تعالیٰ نے قوت و طاقت اور پلے ہوئے گھوڑوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جس قدر ممکن ہو اس جنگی طاقت کو حاصل کرلو تاکہ اللہ کا اور تمہارا دشمن تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے قابل نہ رہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت فوجی طاقت و قوت اور پلے ہوئے گھوڑے جو جنگ کے مقصد کے لئے پالے جاتے تھے یہی اسلحہ تھا۔ لیکن آج دنیا میں اسلحہ کا انداز بہت مختلف ہوگیا ہے تو اس آیت کا مفہوم آج بھی یہی ہے کہ اس زمانہ کے مطابق جو بھی جنگ میں طاقت اور اسلحہ تیار کیا جاتا ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ کیونکہ اس آیت میں صرف قوت جمع کرنے کا ہی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ اصل چیز ہے ” ترھبون بہ “ یعنی جس سے تم دشمن پر رعب جما سکو۔ اگر ہم آج تلواریں گھوڑے لیکر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے تو رعب تو دور کی بات ہے اپنی جان بچانا ہی مشکل ہوجائے گا۔ اگر ایٹمی جنگ ہے تو ہمیں ایٹمی جنگ کے ہی وہ ہتھیار تیار کرنے ہوں گے جن کے ذریعہ ہم دشمن کے ہتھیاروں کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ اور مقابلہ میں دشمن کو تہس نہس کرنے کا موقع ہاتھ آسکے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حدیث میں تیراندازی کی مشق اور گھوڑوں کے رکھنے اور سواری سیکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے اب بندوق اور توپ قائم مقام تیر کے ہے اور عموم قوت میں یہ سب اور ورزش بھی داخل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جب تک مسلمان اپنا دفاع مضبوط رکھیں گے کافر مسلمانوں کو کبھی عاجز اور بےبس نہیں کرسکتے۔ مسلمان اگر کفار کی سازشوں اور جارحیت سے بچنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنا دفاع ہر وقت مضبوط رکھنا ہوگا قرآن مجید نے مضبوط دفاع کا اصول اس وقت پیش کیا جب دنیا کے بڑے بڑے جنگجو اس کا تصور بھی نہیں ... کرسکتے تھے اگر مسلمان دشمن کی جارحیت سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہترین اصول یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھیں۔ جس سے اللہ اور مسلمانوں کے دشمن اور وہ دشمن بھی جو خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ خوف زدہ ہوں گے اور مسلمانوں پر جارحیت کرنے کا تصور بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ مضبوط دفاع کے لیے جو کچھ بھی ہوسکے کرو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اس کا تمہیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ زیادتی سے پہلی مراد دشمن کی جارحیت ہے۔ اس آیت کریمہ میں تین قسم کے دشمن بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے مراد اس کی ذات کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے، دین کے مخالف اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمنی رکھنے والے۔ مسلمانوں کے دشمنوں سے مراد ان کی ذات اور دین کی بنیاد پر عداوت رکھنے والے ہیں۔ تیسرے دشمن منافق اور وہ لوگ ہیں جو دین کی سربلندی اور مسلمانوں کی ترقی نہیں چاہتے لیکن اپنی کمزوری اور مصلحت کی خاطر کھلی دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔ دفاع کے لیے نقل و حمل کے ذرائع اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔ یہ اتنا اہم عنصر ہے کہ قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کے تذکرہ میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم آیا ہے۔ یہاں دفاعی فنڈ میں حصہ لینے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ تمہیں اس کے بدلے پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ زیادتی سے مراد اجر وثواب میں کمی ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جب تم دل کھول کر اپنے دفاع میں خرچ کرو گے تو دشمن کے ظلم سے محفوظ رہو گے۔ دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے حربی قوت بڑھانے اور کھلے عام جنگی گھوڑے باندھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قوت سے مراد ہر قسم کی طاقت اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ پرانے زمانے میں نقل و حمل کے لیے گھوڑا مضبوط اور تیز رفتار سواری تھی لیکن آج اس کی جگہ ٹینک اور بمبار طیاروں نے لے لی ہے۔ تاہم گھوڑے کی اہمیت اپنی جگہ پر قائم ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔ کیونکہ پہاڑی علاقے میں جیپ، ٹینک یہاں تک کہ بلند پہاڑوں میں جہاز اور ہیلی کا پٹر بھی کام نہیں دیتے۔ جس کی بنا پر دنیا میں کوئی ایسی فوج نہیں جن کے پاس جنگی گھوڑے موجود نہ ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تیر، تلوار اور گھوڑے جنگی ضروریات میں سب سے اہم تھے۔ اس وجہ سے آپ نے ان چیزوں کی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے۔ تاہم ان کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دور کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بارے میں پوری توجہ فرمائی۔ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہُوَ عَلٰی الْمِنْبَرِ یَقُولُ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما رہے تھے کافروں کے لیے حسب استطاعت طاقت تیار رکھو۔ آگاہ ہوجاؤ بلاشبہ قوت تیر پھینکنے میں ہے۔ آگاہ رہو بلاشبہ قوت تیر اندازی میں ہے۔ “ (عن سَلَمَۃَ بن الْأَکْوَعِ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلَانٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَکُمْ لَا تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب التحریض علی الرمی ] ” حضرت سلمہ بن اکوع (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلم قبیلہ کے لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر ٹھیک کررہے تھے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنو اسماعیل تیر اندازی کرو بلاشبہ تمہارے والد تیر انداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں۔ صحابی فرماتے ہیں مقابل فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آپ کو کیا ہوا کہ آپ نے تیر اندازی چھوڑ دی ہے ؟ انہوں نے عرض کی ہم آپ کے مد مقابل کس طرح تیر اندازی کریں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیر اندازی کرو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ “ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ الْجُہَنِی (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ تَعَلَّمَ الرَّمْیَ ثُمَّ تَرَکَہٗ فَقَدْ عَصَانِی) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الجہاد، باب الرمی فی سبیل اللہ ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے نشانہ بازی سیکھی پھر اس کو چھوڑدیا اس نے میری نافرمانی کی۔ “ (عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الْجَعْدِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر ] ” حضرت عروہ بن جعد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔ “ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَلْوِی نَاصِیَۃَ فَرَسٍ بِإِصْبَعِہِ وَہُوَ یَقُولُ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر ] ” حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ نے اپنی انگلی سے گھوڑے کی پیشانی چھوتے ہوئے فرمایا گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ وہ ثواب اور مال غنیمت ہے۔ “ مسائل ١۔ کافروں کے خلاف جس قدر استطاعت ہو قوت جمع کرنی چاہیے۔ ٢۔ جو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے گا وہ پورے کا پورا واپس لوٹا دیا جائے گا۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکن اسلام یہ حکم بھی دیتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے دائرہ قوت کے اندر جو بھی ہوسکے وہ جائز ذرائع اختیار کرے اور تیاری کرے ، اگرچہ ان کو یہ اطمینان ہے کہ انہیں نصرت خداوندی حاصل ہے ، تاہم پھر بھی ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تیاری مکمل رکھیں اور وہ وسائل فراہم کریں جن کو انسانی فطرت جانتی ہے اور جو انسانوں کے...  تجربے کے اندر ہیں ، اسلام ان لوگوں کو عالم بالا کی نصرت کی طرف دیکھنے کا مشورہ اس وقت دیتا ہے جب وہ ظاہری اعتبار سے اپنی مکمل تیاری کرلیں اور حقیقت پسندانہ جدوجہد کے لیے تیار ہوں تاکہ وہ اعلی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہوں جو اسلام کے پیش نظر ہیں۔ اپنی قوت اور مقدرت کے مطابق تیاری کرنا فریضہ جہاد کے ساتھ ساتھ ضروری ہے۔ یہ آیت حکم دیتی ہے مسلمانوں کو مختلف قسم کی جنگی تیاریاں اور سازوسامان فراہم رکھنا چاہئے اور یہاں خصوصا تیار بندھے رہنے والے گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ اس وقت کے جنگی سامان کا اہم حصہ تھے ، جس وقت قرآن کریم نازل ہو رہا تھا۔ اگر قرآن کریم اس وقت گھوڑوں کے بجائے موجودہ دور کے سازوسامان کی تیاری کا حکم دیتا تو یہ ایک نامعلوم اور حیران کن سازوسامان کا حکم ہوتا اور وہ سن کر ہی حیران ہوجاتے۔ اس لیے اللہ نے لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق بات کی اور اللہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی بات کرے جسے مخاطب سمجھ ہی نہ سکیں۔ مناسب بات یہی ہے ، عام حکم دیا جائے اور وہ یہ ہے واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ " اور تم جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت تیار رکھو "۔ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ضروری قوت موجود ہو اور وہ اس قوت کے بل بوتے پر آگے بڑھے اور تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے رہا کرائے۔ چناچہ اس قوت کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس قدر آزاد کرادے کہ وہ کوئی بھی نظریہ قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو اور نہ دنیا میں ایسی قوت ہو کہ کسی کسی مخصوص عقیدے کے اختیار پر مجبور کرسکتی ہو۔ دوسرا فریضہ یہ ہے کہ یہ قوت دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر خوفزدہ کردے کہ وہ اسلامی قوت کے مرکز دار الاسلام پر حملے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ اور تیسرا فریضہ یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر مرعوب کردیا جائے کہ وہ اسلام کی راہ روکنے کے بارے میں کسی بھی وقت نہ سوچیں۔ تاکہ اسلامی تحریک اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو آزاد کرسکے۔ اور چوتھا فریضہ یہ ہے کہ ہی اسلامی قوت ان تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے جو اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت قائم کرتی ہیں اور لوگوں پر اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت اور اپنا قانون جاری کرتی ہیں اور وہ یہ اعتراف نہیں کرتیں کہ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ کیونکہ وہی الہ ہے ، وحدہ لاشریک۔ اسلام کوئی اس لاہوتی نظام نہیں ہے جس کا تعلق صرف عقائد و نظریات سے ہو ، یا وہ کچھ مراسم عبودیت میں دخیل ہو اور آگے بس اس کا کام ختم ہو۔ بلکہ اسلام پوری زندگی کا ایک عملی نظام ہے اور وہ تمام دوسرے نظاموں کے مقابلے میں آکر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ان تمام قوتوں سے برسر پیکار ہوجاتا ہے جو ان باطل نظآموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہیں۔ لہذا اس کے سوا اسلام کے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی راہ میں حائل ہونے والی تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے کیونکہ یہ قوتیں اسلام کی راہ روکتی ہیں اور اسے قائم ہونے نہیں دتیں بلکہ یہ قوتیں ، اسلام کے بالمقابل دوسرے نظآم قائم کرتی ہیں۔ اس عظیم حقیقت کے اعلان کے وقت کسی بھی مسلمان کو شف شف نہیں کرنا چاہئے اور نہ جلدی جلدی سرسری بات کرنا چاہئے کہ کوئی سمجھ بھی نہ سکے۔ پھر اس حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو شرم بھی محسوس نہ کرنا چاہیے بلکہ انہیں اس حقیقت کا اعلان سر اٹھا کر کرنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ یہ در اصل انسان کی آزادی کی تحریک ہے اور وہ اس کا علمبردار ہے۔ یہ کسی انسانی نظام حیات کا علمبردار نہیں ہے ، نہ کسی لیڈر کی حکومت کا قیام چاہتا ہے۔ نہ کسی طبقے کی نسلی گروہ اور فرقے کی حکومت چاہتا ہے۔ اس کا نصب العین یہ نہیں ہے کہ وہ مزارعین کو غلام بنائے تاکہ وہ جاگیر داروں کی خدمت کریں جیسا کہ رومی تہذیب والوں کا مقصد تھا ، اور اس کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا پر قبضہ کرکے تمام دنیا کے خام مال پر قبضہ کیا جائے اور اپنی صنعتوں کو فیڈ کیا جائے جس طرح مغربی استعمال کا یہ مقصد تھا اور نہ وہ اس لیے اٹھا ہے کہ کسی علاقے میں کسی پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرکے دوسرے لوگوں کو مویشیوں کی طرح غلام بنا دے جیسا کہ نظام اشتراکیت میں تھا۔ یہ تو علیم وخبیر اور حکیم وبصیر کے اقتدار اعلی کے قیام کا علمبردار ہے۔ وہ اللہ کی حاکمیت کا قیام چاہتا ہے اور دنیا میں تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے نجات دینا چاہتا ہے ۔ اس طرح کہ کوئی بندہ کسی بندے کا غلام نہ ہو۔ یہ ہے وہ عظیم حقیقت جسے شکست خوردہ ذہنیت کے مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ، جو دین اسلام اور نظآم اسلامی کی بےجا مدافعت کرتے ہیں اور اس مدافعت میں بھی وہ محض شف شف کرتے ہیں اور کوئی بات صاف ستھری اور واضح نہیں کرسکتے اور اسلام کے نظریہ جہاد کے لیے عذر لنگ تلاش کرتے ہیں۔ ـ(تفصیلات کے لیے دیکھئے ابو الاعلی مودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان کا قیمتی رسالہ الجہاد فی الاسلام) نیز ہم نے سورت انفال کے مقدمے میں اسلام کے نظریہ جہاد پر جو تفصیلی بحث کی ہے اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ پھر اس آیت میں ہمیں جس حد تک تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی حدود کا بھی ہمیں اچھی طرح علم ہونا چاہی کہ و اعدوا لھم ما ستطعتم۔ یعنی جس قدر تمہاری استطاعت میں ہو یعنی تیاری میں اپنی پوری قوت صرف کردو ، یعنی جنگ اور فتح کے تمام وسائل فراہم کیے جائیں یعنی ممکن حد تک۔ پھر اس آیت میں تیار کی غرض وغایت بھی بتا دی گئی ہے کہ اس کی غرض یہ ہے ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم و اخرین من دونہم لا تعلمونہم اللہ یعلمہم۔ تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے دشمنوں اور اللہ کے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوفزدہ کرسکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ یعنی اس تیار کے مقاصد یہ ہیں کہ اس سے تمہارے دشمن جو اللہ کے دشمن ہیں ، خوفزہ ہوجائیں۔ ان میں وہ ظاہری دشمن بھی شامل ہیں جن کو مسلمان جانتے ہیں اور کچھ ان کی پشت پر دشمن طاقتیں ہیں جن کا علم مسلمانوں کو تو نہیں ہے لیکن اللہ کو ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی دشمنی کا اظہار نہیں کیا ہے اور اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے۔ ان لوگوں کو اسلام کی قوت مرعوب کردے گی۔ اگرچہ ابھی ان کو مسلمانوں کی جنگی قوت عملاً نہ پہنچی ہو۔ غرض مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ وہ صاحب قوت ہوں اور ان پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک قوت جمع کریں تاکہ وہ زمین کے تمام لوگوں کے لی باعث خوف ہوں اور یہ اس لیے کہ دنیا پر اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ اب جنگی تیاریوں کے لیے چونکہ اخراجات ہوں گے اور تھے۔ پھر اس وقت اسلام معاشرہ صرف باہم تکافل پر چل رہا تھا۔ لہذا جنگی تیاریوں کے حکم کے ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں اپنی دولت کو خرچ کرو۔ وما تنفقوا من شیء فی سبیل اللہ یوف الیکم وانتم لا تظلمون " اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے وہ پورے کا پورا تمہیں مل جائے گا اور تم پر ظلم نہ ہوگا " اس طرح اسلام جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو تمام دنیاوی اغراض و مقاصد سے پاک کردیتا ہے۔ ان مقاصد کو ذاتی خواہشات سے بلند کردیتا ہے۔ ہر قسم کی قومی ، طبقاتی اور وطنی شعور اور جذابت سے انہیں جدا کردیتا ہے تاکہ وہ محض فی سبیل اللہ ہوں اور اللہ کی رضا مندی کے لیے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آغاز ہی سے ان تمام جنگوں کی ممانعت کردیتا ہے جو بعض اشخاص کی برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں ، یا بعض حکومتوں کی برتری کے لی لڑی جاتی ہیں یا منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی جاتی ہیں یا لوگوں پر غالب ہونے اور انہیں ذلیل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ یا ایک ملک کی دوسرے ملک پر برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں ، یا ایک قوم کی دوسری قوم پر برتری کے لی لڑی جاتی ہیں یا ایک نسل کی برتری کے لیے یا ایک طبقے کی دوسرے طبقات پر برتری کے لیے لڑی جاتی ہیں اسلام صرف ایک جنگ کی اجازت دیتا ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی نسل دوسری نسلوں ، یا کوئی وطن اور دوسرے اوطان پر یا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقات پر ، یا فرد دوسرے افراد پر یا کوئی دوسری قوم دوسری اقوام پر غالب ہو کر اپنی حاکمیت ، اپنی حکومت اور اپنا اقتدار اعلی کو قائم کرے۔ وہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے۔ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی حاکمیت دنیا میں قائم ہو تاکہ دنیا میں خیر و برکت ، آزادی اور شرافت کا دور دورہ ہو۔ اور یہ صرف اللہ کی حاکمیت کے زیر سایہ ہوسکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دشمنوں سے مقابلہ کے لیے سامان حرب تیار رکھو اور انہیں ڈراتے رہو ان آیات میں اول تو کافروں کو تنبیہ فرمائی کہ یہ کفار جو جنگ کے موقعہ پر بچ کر نکل گئے مقتول بھی نہ ہوئے اور قید میں بھی نہ آئے یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے اور بچ نکلے تو کامیاب ہوگئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت... ی طور پر بچ جانا مستقل بچاؤ نہیں ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہیں وہ اسے عاجز نہیں کرسکتے، وہ چاہے گا تو دنیا میں بھی انہیں عقوبت میں مبتلا فرمائے گا اور آخرت میں تو بہرحال ہر کافر کے لیے سخت سزا ہے جس کا بیان قرآن مجید میں بار بار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم سے جو بھی کچھ ہو سکے دشمنوں سے لڑنے اور ان کا دفاع کرنے کے لیے ہر طرح کی قوت تیار رکھو۔ لفظ (مَّا اسْتَطَعْتُمْ ) بہت عام ہے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق تیاری کرنے کو شامل ہے اور مِنْ قُوَّۃٍ بھی نکرہ ہے یہ بھی عام ہے اور ہر قسم کی قوت جمع کرنے کو اس کا عموم شامل ہے، جس طرح کے ہتھیاروں کی جس زمانہ میں ضرورت ہو ان سب کا بنانا فراہم کرنا اور دوسری ہر طرح کی قوتیں اتحاد و اتفاق اور باہمی مشورہ یہ سب لفظ (مِنْ قُوَّۃٍ ) میں داخل ہیں۔ نیز (وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ ) فرما کر پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھنے کا بھی حکم فرمایا آیت بالا میں جو مِنْ قُوَّۃٍ فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو ہر طرح کی قوت تیار کرو اس کی تفسیر فرماتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اَلَآ اِنَّ الْقُوَّۃَ اَلرَّمْیُ ۔ اَلَآ اِنَّ الْقُوَّۃَ اَلرَّمْیُ ۔ اَلاآ اِنَّ الْقُوَّۃَ اَلرَّمْیُ ) یعنی قوت تیر پھینکنا ہے۔ تین بار ایسا ہی فرمایا۔ (رواہ مسلم ص ١٤٢ ج ١) اور تیر پھینکنے کی قوت اس لیے فرمایا کہ اس میں دور سے دشمن پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ دو بدو سامنے آجائیں تو تلوار ہی سے لڑنا پڑے گا اور دور سے مقابلہ ہو تو دور ہی سے تیر اندازی کر کے دشمن کو پسپا کیا جاسکتا ہے اسی لیے غزوۂ بدر کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرات صحابہ سے فرمایا کہ جب دشمن تمہارے قریب آجائیں تو تیر مارنا اور اپنے تیروں کو حفاظت سے رکھنا۔ (رواہ البخاری ص ٥٦٧) مطلب یہ ہے کہ جب دشمن دور ہے تو اپنے تیروں کو پھینک کر ضائع نہ کرو کیونکہ وہ زمین میں گرجائیں گے۔ جب دشمن اتنا قریب آجائے کہ ان کو تیر لگ سکے تو ان پر تیروں کی بو چھاڑ کر دو رہا مسئلہ تلوار سے قتل کرنے کا تو جب بالکل سامنے آجائیں تو پھر جم کر تلوار کے ذریعہ جنگ کی جائے۔ اَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ اَلرَّمیُ کا عموم دور حاضر کے بموں کو بھی شامل ہے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اَلَآ اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ فرمایا اور لفظ رمی کا مفعول ذکر نہیں کیا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ پھینکنے کی جب کبھی کوئی چیز ایجاد ہوجائے وہ سب قوت کے مفہوم میں داخل ہوگی اور مسلمانوں کو اس کے حاصل کرنے پر اہتمام کرنا بھی لازم ہوگا۔ جدید ہتھیار میزائل، بم سب اسی عموم میں داخل ہیں مسلمانوں پر لازم ہے کہ بحکم وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ ) ہر طرح کے جدید ہتھیار تیار کرلیں اور خود بنائیں۔ ضرورت پڑے تو دوسروں سے بھی خرید سکتے ہیں لیکن صرف خریداری ہی پر موقوف نہ رکھیں آج کل تو جدید اسلحہ بنانے والے اہل کفر ہی ہیں اور کفر ملت واحدہ ہے۔ وہ کافروں کو پہلے دیں گے اور زیادہ دیں گے اور مسلمانوں کو اگر چاہیں گے تو تھوڑے ہتھیار دیں گے اور قیمت بہت زیادہ لیں گے۔ مسلمانوں کی یہ کتنی بڑی غفلت ہے کہ اہل کفر سے ہتھیار خریدتے ہیں اور خود نہیں بناتے اور اہل کفر کو اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے، وہ مجبور کرتے ہیں کہ تم کیا بنا رہے ہو ہمیں دکھاؤ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں، یہ بہت بڑی بھول ہے۔ اسلام نے برتر ہو کر زندہ رہنا بتایا ہے۔ کافروں کے سامنے جھکنے اور انہیں اپنا راز داربنانے کی اجازت نہیں دی۔ اپنی قوت تیار رکھنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا (تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ ) (اس کے ذریعہ تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو ڈراتے رہو) جب طاقت ہوگی اور دشمنوں کو اس کی خبر ہوگی تو وہ تم سے ڈرتے رہیں گے اور حملہ آور ہونے کی ہمت نہ کریں گے۔ (وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھِمْ ) جو فرمایا اس کے بارے میں حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ اس سے یہود کا قبیلہ بنو قریظہ مراد ہے اور حضرت حسن نے فرمایا کہ اس سے منافقین مراد ہیں جو مسلمانوں میں مل جل کر رہتے ہیں اور اندر سے دشمن ہیں ان کو تمہاری طاقت کا پتہ ہوگا تو خود بھی ڈریں گے اور دوسروں کو بھی حملہ کرنے کی دعوت نہ دیں گے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے فارس اور روم کے کافر مراد ہیں۔ جن سے نزول قرآن کے وقت تک مقابلہ نہیں ہوا تھا۔ بعد میں حضرات صحابہ نے ان کو شکست دی اور ان کے ممالک فتح کیے۔ (لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ) میں اس طرف اشارہ ہے، پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ) (اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہ ہوگا) یعنی ایسا نہ ہوگا کہ ثواب ضائع کردیا جائے۔ چونکہ ہتھیار تیار کرنے میں مال خرچ ہوتا ہے اور گھوڑے پالنے میں بھی خرچہ کرنا پڑتا ہے اور جہاد میں شریک ہونے کے لیے بھی مال کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہتھیاروں کی تیاری کا حکم دینے کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو بھی کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس سب کا پورا پورا اجر پاؤ گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60: تیسرا قانون جنگ برائے مؤمنین یہاں مسلمانوں کو جنگی سامان کی تیاری کا حکم دیا گیا۔ یعنی مسلمان ہر زمانے کے مطابق دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے سامان جنگ تیار رکھیں جب تیر و تفنگ اور نیز و تلوار کا زمانہ تھا اس وقت ان ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال کی ٹریننگ ضروری تھی۔ اب جبکہ مشین گن، توپ، ٹینک...  اور بمبار طیاروں کا زمانہ ہے اس وقت ان ہتھیاروں کا استحاصل اور ان کے استعمال کی تربیت لازمی ہے۔ تاکہ اللہ کے دین اور مسلمانوں کے دشمن مرعوب رہیں یعنی سامان جنگ کی اس لیے ضرورت ہے کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے کافروں پر تمہاری طاقت کا رعب بیٹھ جائے باقی فتح و شکست کا مدار سامان کی کثرت و قلت پر نہیں وہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ “ مِنْ قُوَّةٍ ” قوت سے ہر وہ ہتھیار اور جنگی تدبیر مراد ہے جو جنگ میں ممد و معاون ہوسکے۔ “ اي من کل ما یتقوی به فی الحرب کائنا ما کان ” (روح ج 10 ص 24) ۔ 62: مشرکین عرب تو مسلمانوں سے علانیہ بر سر پیکار تھے اور ان کی دشمنی کوئی چھپی ہوئی چیز نہ تھی ان کے علاوہ منافقین اور یہود بنی قریظہ تھے جو درپردہ مسلمانوں کے دشمن تھے یا اس سے اہل فارس اور دیگر اقوام مراد ہیں جن سے بعد میں مسلمانوں کا مقابلہ ہونے والا تھا۔ “ و ھم الیھود او المنافقون او اھل فارس ” (مدارک ج 2 ص 84)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60 اور اے مسلمانو ! تم سے جس قدر ہوسکے اور تم میں جس قدر استطاعت ہو کافروں کے مقابلے کیلئے ہر قسم کی جنگی قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں کے باندھنے سے تیاری کرتے رہو تاکہ اس تیاری اور آمادگی کی وجہ سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک اور ہیبت بٹھائے رکھو اور ان موجودہ کافروں کے علاوہ جن کا ... تم سے رات دن سابقہ پڑتا رہتا ہے اور دوسرے کافروں پر بھی ہیبت او دھاک پڑے جن کو تم نہیں جانتے پر اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمہاری کوئی حق تلفی نہیں کی جائے گی اور تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جہاد کیلئے تیاری اور مستعدی کرتے رہو اور سامانِ جنگ فراہم کرو جس میں ہر قسم کے ہتھیار آگئے۔ حدیث میں قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی گئی ہے بہرحال وقتی ضرورت اور زمانے کے لحاظ سے جو کچھ بھی ہو گھوڑے باندھنا بھی سامانِ جہاد میں داخل ہے خواہ جنگ نہ بھی ہو تب بھی سامان کی کثرت اور اس کی فراہمی سے اللہ کے اور مسلمانوں کے دشمنوں پر ہیبت قائم ہوتی ہے موجودہ دشمن تو وہی کفار عرب ہیں اور جن کا تم کو علم نہیں وہ یا تو منافق ہوں گے یا کفار کی دوسری حکومتیں ہونگی جن سے صحابہ (رض) کے زمانے میں لڑائیاں ہوئیں آخر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر فرمایا جس میں جہاد کا تمام خرچ اور سامان کی فراہمی کا خرچ مجاہدوں کے نان و نفقہ کا خرچ سب آگیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہی حکم فرمایا کہ جہاد کا سرانجام کرو جو ہوسکے زور فرمایا تیراندازی کو اور ہتھیار کو کسب اسی میں داخل ہے اور گھوڑے پالنے میں جو خرچ ہو اس کی خوراک میں بلکہ اس کا سب فضلہ ترازو میں چڑھے گا قیامت کو فرمایا کہ یہ واسطے رعب کے ہے تانا نہ جانیں کہ فتح ہوگی اسباب سے فتح ہے اللہ کی مدد سے اور وہ لوگ جن کو تم نہیں جانتے وہ منافق ہیں کہ ظاہر مسلمان کے پردے میں ہیں۔ 12  Show more