Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 73

سورة الأنفال

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ اِلَّا تَفۡعَلُوۡہُ تَکُنۡ فِتۡنَۃٌ فِی الۡاَرۡضِ وَ فَسَادٌ کَبِیۡرٌ ﴿ؕ۷۳﴾

And those who disbelieved are allies of one another. If you do not do so, there will be fitnah on earth and great corruption.

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers are Allies of Each Other; the Muslims are not their Allies Allah says; وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ ... And those who disbelieve are allies of one another, After Allah mentioned that the believers are the supporters of one another, He severed all ties of support between them and the disbelievers. In his Mustadrak, Al-Hakim recorded that Usamah said that the Prophet said, لاَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ وَلاَا يَرِثُ مُسْلِمٌ كَافِرًا وَلاَا كَافِرٌ مُسْلِمًا No followers of two religions inherit from each other. Therefore, neither a Muslim inherits from a disbeliever nor a disbeliever from a Muslim. The Prophet recited this Ayah, وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ And those who disbelieve are supporters of one another, (and) if you (Muslims) do not do so (protect one another), there will be Fitnah on the earth, and great corruption.) Al-Hakim said, "Its chain is Sahih, and they did not record it." However, the following, from Usamah bin Zayd, is in the Two Sahihs; the Messenger of Allah said, لاَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلاَا الْكَافِرُ الْمُسْلِم Neither a Muslim inherits from a disbeliever nor a disbeliever inherits from a Muslim. Allah said next, ... إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ If you do not do so, there will be Fitnah and oppression on the earth, and a great corruption, meaning, if you do not shun the idolators and offer your loyalty to the believers, Fitnah will overcome the people. Then confusion (polytheism and corruption) will be rampant, for the believers will be mixed with disbelievers, resulting in tremendous, widespread trials (corruption and mischief) between people.

دو مختلف مذاہب والے آپس میں دوست نہیں ہو سکتے ۔ اوپر مومنوں کے کارنامے اور رفاقت و ولایت کا ذکر ہوا اب یہاں کافروں کی نسبت بھی بیان فرما کر کافروں اور مومنوں میں سے دوستانہ کاٹ دیا ۔ مستدرک حاکم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بخاری و مسلم میں بھی ہے مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔ سنن وغیرہ میں ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ اسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حسن کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک نئے مسلمان سے آپ نے عہد لیا کہ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور جب اور جہاں شرک کی آگ بھڑک اٹھے تو اپنے آپ کو ان کا مقابل اور ان سے برسر جنگ سمجھنا ۔ یہ روایت مرسل ہے اور مفصل روایت میں ہے آپ فرماتے ہیں میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں ٹھہرا رہے ۔ کیا وہ دونوں جگہ لگی ہوئی آگ نہیں دیکھتا ؟ ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو مشرکوں سے خلا ملا رکھے اور ان میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے اللہ کے رسول رسولوں کے سرتاج حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تمہارے پاس وہ آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم رضامند ہو تو اس کے نکاح میں دے دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں زبردست فتنہ فساد برپا ہوگا ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ چاہے وہ انہیں میں رہتا ہو آپ نے پھر فرمایا جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام نکاح آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو اس کا نکاح کر دو تین بار یہی فرمایا ۔ آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمان داروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہو جائے گا ۔ یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا لوگوں میں زبردست فساد برپا ہو جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اس طرح اگر تم نے بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہوگا اور یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت وموالات سے دین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہوگی۔ بعض نے (بعضھم اولیآء بعض) سے وارث ہونا مراد لیا ہے یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے اگر تم وراثت میں کفر و ایمان کو نظر انداز کرکے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑافتنہ اور فساد پیدا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] مسلمانوں کے اتحاد نہ کرنے برے نتائج :۔ یعنی کافر اور مسلم میں نہ حقیقی رفاقت ہے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں۔ ہاں کافر کافر کا ولی بھی ہے اور وارث بھی۔ بلکہ سارے کے سارے کافر تمہاری دشمنی میں متحد ہو کر ایک بن جاتے ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کو پاتے ہیں ان کے درپے آزار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان بھی ایک دوسرے کے ولی اور مددگار نہ ہوں گے یا کمزور مسلمان اپنے آپ کو آزاد مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کی کوشش نہ کریں گے تو بہت بڑا فتنہ رونما ہوجائے گا۔ کمزور مسلمانوں پر ناروا ظلم و زیادتی ہوگی اور ان کا مال بلکہ ایمان بھی محفوظ نہ رہے گا اور اگر اس جملے کا تعلق سابقہ تمام احکام سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالحرب میں رہنے والے مسلمان دارالاسلام میں آنے میں کوتاہی کریں یا ایسے کمزور مسلمان آزاد مسلمانوں سے مددطلب کریں اور وہ مدد کو نہ پہنچیں & یا معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت اپنے معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے ان کمزور مسلمانوں کی مدد شروع کر دے تو ان سب صورتوں میں عظیم فتنہ رونما ہوجائے گا۔ ایسا فتنہ جو دارالاسلام میں بسنے والے آزاد مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ : یعنی کافر آپس میں خواہ جتنی بھی دشمنی رکھتے ہوں تمہارے خلاف سب کے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور حمایتی ہیں۔ کافر، کافر ہی کا دوست ہے، مسلمان کا نہیں، اس لیے مسلمان اور کافر کا آپس میں موالات (دوستی، حمایت اور مدد) کا رشتہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ : یعنی اگر تم آپس میں محبت، حمایت اور نصرت نہیں کرو گے اور کفار سے ترک موالات نہیں کرو گے، یعنی ان کے ساتھ باہمی محبت، تعاون اور ایک دوسرے کا وارث بننا نہیں چھوڑو گے اور قطع تعلق نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔ اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔ “ [ بخاری، الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر ۔۔ : ٦٧٦٤۔ مسلم : ١٦١٤ ] تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ : یعنی مسلمانوں کے راز افشا ہوتے رہیں گے، آئے دن جنگ رہے گی، کفار کے خلاف مسلمانوں کے یک جان نہ ہونے سے اسلام اور مسلمان کمزور ہوں گے، ان کا رعب جاتا رہے گا، کفار غالب آئیں گے، تو ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان مجبوراً مرتد ہوجائیں گے، یا ان کے رسوم و رواج، عقائد اور اعمال قبول کریں گے، یا ان پر خاموش رہیں گے، یا شدید آزمائش کا شکار ہوں گے۔ غرض کفار کے غلبے اور ان کے ساتھ رہ کر ان کی غلامی پر قناعت یا ان سے دوستی کی صورت میں اللہ کی زمین پر امن کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ ہر طرف فتنہ و فساد، جنگ و جدل، شرک و کفر، بےحیائی اور بدکاری ہی کا دور دورہ ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Said in the second verse (73) وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (And those who disbelieve are friends to each other). The word: وَلِی (waliyy) used here, as stated earlier, carries a general sense included wherein is in¬heritance as well as the guardianship and patronage of affairs. Therefore, from this verse, we learn that disbelievers shall be considered in¬heritors to each other and the very law of the distribution of inheritance which is in force in their own religion shall be implement¬ed as far as matters of their inheritance are concerned. In addition to that, the guardian وَلِی (waliyy) responsible for the upbringing of their or¬phaned children and for the marriage of their girls shall be from among them. In a nutshell, it means that, in family matters, the relig¬ious law of non-Muslims themselves shall stand duly protected in an Islamic state. At the end of the verse, it was said إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْ‌ضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ‌ (And if you will not do so, there shall be disorder on the earth, and a great corruption - 73). This sentence is connected with all those injunctions mentioned a little earlier, for instance, (1) the Muhajir and the Ansar should be friends to each other, which includes mutual help and support, as well as inheritance; (2) the Muhajir and non-Muhajir Muslims of that peri¬od of time should not consider themselves related to each other in terms of inheritance, but the doors of help and support should remain open subject to relevant conditions; (3) the disbelievers were caretak¬ers (waliyy) of each other, therefore, Muslims should not interfere with their law of guardianship and inheritance in any way. Thereafter the text says if things were not done according to these injunctions, there shall be disorder and corruption on the earth. Per¬haps, this warning has been given in view of the importance of the injunctions described here for they were based on major principles of eq¬uity, justice and public peace. The related verses make it amply clear that the way mutual help, support and inheritance depend on lineal bond - in the same manner, religious bond has its own importance in this matter. In fact, religious bond has precedence over lineal bond. This is the reason why a Kafir (disbeliever) cannot inherit from a Mus¬lim and a Muslim cannot inherit from a Kafir - even though, they be fathers or sons or brothers by lineage. Along with it, in order to block religious prejudice and pagan partisanship, instructions were given that, no doubt, the religious bond is so formidable, yet standing by the terms of a treaty comes first and is more preferable. Contravention of the terms of a treaty is not permissible under the heat of religious par¬tisanship. Similarly, also given was the instruction that the disbeliev¬ers are responsible for each other as guardians and inheritors, therefore, no interference should be made in their personal law of guardianship and inheritance. On the surface, these look like a few subsidiary injunctions, but they are, in reality, comprehensive basic principles of equity and justice for all which guarantee world peace. This is the reason why, at this place, following the description of these injunctions, warning has been given in words which have not been generally used in the case of other injunctions: &If you will not do so, there shall be disorder and corruption on the earth.& Also given within these words is a hint that these injunctions have an effectiveness of their own in checking disorder and corruption.

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۔ یعنی کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ لفظ ولی جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ایک عام مفہوم رکھتا ہے جس میں وراثت بھی داخل ہے اور معاملات کی ولایت و سرپرستی بھی۔ اس لئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث سمجھے جائیں گے اور تقسیم وراثت کا جو قانون ان کے اپنے مذہب میں رائج ہے ان کی وراثت کے معاملہ میں اسی قانون کو نافذ کیا جائے گا۔ نیز ان کے یتیم بچوں کا ولی لڑکیوں کے نکاح کا ولی بھی انھیں میں سے ہوگا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عائلی مسائل میں غیر مسلموں کا اپنا مذہبی قانون اسلامی حکومت میں محفوظ رکھا جائے گا۔ آخر آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۔ یعنی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پوری زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اس جملہ کا تعلق ان تمام احکام کے ساتھ ہے جو اس سے پہلے ذکر کئے گئے ہیں مثلا یہ کہ مہاجرین و انصار کو آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہونا چاہئے جس میں باہمی امداد و اعانت بھی داخل ہے اور وراثت بھی۔ دوسرے یہ کہ اس وقت کے مہاجر اور غیر مہاجر مسلمانوں کے آپس میں وراثت کا تعلق نہ رہنا چاہئے۔ مگر امداد و نصرت کا تعلق اپنی شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہئے۔ تیسرے یہ کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ان کے قانون ولایت اور وراثت میں کوئی دخل اندازی مسلمانوں کو نہیں چاہئے۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا گیا تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ یہ تنبیہ غالبا اس لئے کی گئی کہ جو احکام اس جگہ بیان ہوئے ہیں وہ عدل و انصاف اور امن عامہ کے لئے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان آیات نے یہ واضح کردیا کہ باہمی امداد و اعانت اور وراثت کا تعلق جیسے رشتہ داری پر مبنی ہے ایسے ہی اس میں مذہبی اور دینی رشتہ بھی قابل لحاظ ہے بلکہ نسبی رشتہ پر دینی رشتہ کو ترجیح حاصل ہے اسی وجہ سے کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ آپس میں نسبی رشتہ سے باپ اور بیٹے یا بھائی بھائی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مذہبی تعصب اور عصبیت جاہلیت کی روک تھام کرنے کے لئے یہ بھی ہدایت دے دی گئی ہے کہ مذہبی رشتہ اگرچہ اتنا قوی اور مضبوط ہے مگر معاہدہ کی پابندی اس سے بھی زیادہ مقدم اور قابل ترجیح ہے۔ مذہبی تعصب کے جوش میں معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت دے دی گئی کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہیں ان کی شخصی ولایت و وراثت میں مداخلت نہ کی جائے۔ دیکھنے کو تو یہ چند فرعی اور جزئی احکام ہیں مگر در حقیقت امن عالم کے لئے عدل و انصاف کے بہترین اور جامع بنیادی اصول ہیں۔ اسی لئے اس جگہ ان احکام کو بیان فرمانے کے بعد ایسے الفاظ سے تنبیہ فرمائی گئی جو عام طور پر دوسرے احکام کے لئے نہیں کی گئی کہ اگر تم نے ان احکام پر عمل نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد پھیل جائے گا۔ ان الفاظ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ احکام فتنہ و فساد کو روکنے میں خاص دخل اور اثر رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝ ٠ ۭ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝ ٧٣ ۭ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کافر کیسے ایک دوسرے کے دوست ہیں ؟ قول باری ہے (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض۔ جو لوگ منجر حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ض حضرت ابن عباس (رض) اور سدی کا قول ہے کہ اہل کفر میراث میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ نصرت اور معاونت میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ ابن اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قول باری (ان الذین امنوا و ھاجرو و جاھدو) تا قول باری (اولئک بعضھم اولیاء بعض) ہجرت کی بنا پر توارث کا موجب ہے اور قول باری (والذین آمنوا ولم بھاجروا مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجرو) میرا ث کی نفی کرتا ہے تو پھر یہ لازم ہوگیا کہ قول باری (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض ) کافروں کے درمیان توارث کے اثبات کا موجب بن جائے اس لئے کہ ولایت ان کے درمیان توارث کے اثبات سے عارت بن گئی۔ اس کا عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام کافروں کے درمیان خواہ ان کے مذاہب ایک دوسرے سے مختلف کیوں نہ ہوں توارث کا اثبات کردیا جائے اس لئے کہ یہ اسم ان سب کو شامل ہے اور ان سب پر اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ آیت میں کافروں کے کفر کے بعد ان کے مذاہب کے اختلاف کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ کافروں کو اپنی نابالغ اولاد پر ولایت حاصل ہے۔ اس لئے کہ آیت کے الفاظ دیوانگی اور بالغ نہ ہونے کی حالت میں نکاح اور مال میں تصرف کے جواز کے اندر اس امر کے مقتضی ہیں۔ اہل ایمان کو انتظار پر تنبیہ قول باری ہے (الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر۔ اگر تم (اہل ایمان) ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ ) مراد یہ ہے… واللہ اعلم… کہ اگر تم وہ امور سرانجام نہیں دو گے جن کا تمہیں ان دونوں آیتوں میں حکم دیا گیا… یعنی ایک دوسرے کے ساتھ سوالات اور ایک دوسرے کی نصرت کا ایجاب نیز مواخات اور ہجرت کی بنا پر توارث، اور ترک ہجرت کی بنا پر عدم توارث… تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اگرچہ لفظی طور پر آیت کا انداز جملہ خبریہ والا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے یہ امر ہے۔ اس لئے کہ جب ایک مومن اس شخص سے موالات اور دوستی نہیں کرے گا جو اپنی ظاہیر حالت یعنی ایمان اور اس کی فضیلت کی بنا پر اس مومن کے حسب حال ہے اور دوسری طرف فاجر اور گمراہ شخص سے اس طور پر پانی بیزاری کا اظہار نہیں کرے گا جو اس کی گمراہی اور فسق و فجور کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو اس کے نتیجے میں زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) اور کافر ایک دوسرے کے وراث ہیں، رشتہ داروں میں اگر اس طریقہ کے ساتھ میراث نہیں تقسیم کرو گے تو دنیا میں شرک و ارتداد قتل و خونریزی اور نافرمانی پھیلتی رہے گی۔ شان نزول : (آیت ) ” والذین کفروا بعضھم (الخ) ابن جریر (رح) اور ابوالشیخ نے سدی (رح) اور ابومالک (رح) کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ ہم اپنے مشرک رشتہ داروں کے وارث ہوسکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط) ۔ عرب کے قبائلی معاشرے میں باہمی معاہدوں اور ولایت کا معاملہ بہت اہم ہوتا تھا۔ ایسے معاہدوں کی تمام ذمہ داریوں کو بڑی سنجیدگی سے نبھایا جاتا تھا۔ مثلاً اگر کسی شخص پر کسی قسم کا تاوان پڑجاتا تھا تو اس کے ولی اور حلیف اس کے تاوان کی رقم پوری کرنے کے لیے پوری ذمہ داری سے اپنا اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ ولایت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی شرائط اور حدود واضح طور پر بتادی گئیں کہ کفار باہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں ‘ جب کہ اہل ایمان کا رشتۂ ولایت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ مسلمان جنہوں نے ہجرت نہیں کی ‘ ان کا اہل ایمان کے ساتھ ولایت کا کوئی رشتہ نہیں۔ البتہ اگر ایسے مسلمان مدد کے طلب گار ہوں تو اہل ایمان ضرور ان کی مدد کریں ‘ بشرطیکہ یہ مدد کسی ایسے قبیلے کے خلاف نہ ہو جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے۔ (اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ ) ۔ تم لوگوں کا ہر کام قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔ فرض کریں کہ مکہ میں ایک مسلمان ہے ‘ وہ مدینہ کے مسلمانوں کو خط لکھتا ہے کہ مجھے یہاں سخت اذیت پہنچائی جا رہی ہے ‘ آپ لوگ میری مدد کریں۔ دوسری طرف اس کے قبیلے کا مسلمانوں کے ساتھ صلح اور امن کا معاہدہ ہے۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان اپنے اس بھائی کی مدد کے لیے اس کے قبیلے پر چڑھ دوڑیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی وعدہ خلافی اور ناانصافی کو پسند نہیں کرتا۔ اس مسلمان کو دوسرے تمام مسلمان کی طرح ہجرت کرکے دارالاسلام پہنچنا چاہیے اور اگر وہ ہجرت نہیں کرسکتا تو پھر وہاں جیسے بھی حالات ہوں اسے چاہیے کہ انہیں برداشت کرے۔ چناچہ واضح انداز میں فرمایا دیا گیا کہ اگر تم ان معاملات میں قوانین و ضوابط کی پاسداری نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔ اب وہ آیت آرہی ہے جس کا ذکر سورة کے آغاز میں پرکار (compass) کی تشبیہہ کے حوالے سے ہوا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52. If the words 'unless you also help one another' in the verse are regarded as a continuation of the preceding verse, they would mean that if Muslims do not support each other in the way, unbelielers do, this would give rise to much mischief and disorder in the world. However, if these words are considered to be connected with the directives embodied in verse 72 onwards, their purpose would be to emphasize that the world would become full of mischief and disorder if the Muslims of Dar al-Islam (a) failed to help one another; (b) failed to provide political support and protection to the Muslims who have settled down in non-Islamic states and have not migrated to Dar al-lslam; (c) failed to help the Muslims living under oppression in territories outside Dar al-Islam when they ask for it, and (d) failed to sever their friendly ties with the unbelievers.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :52 اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اہل ایمان اسی طرح آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔ اور اگر اس کا تعلق ان تمام ہدایات سے مانا جائے جو آیت ۷۲ سے یہاں تک دی گئی ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے ولی نہ بنیں ، اور اگر ہجرت کر کے دارالاسلام میں نہ آنے والے اور دارالکفر میں مقیم رہنے والے مسلمانوں کو اہل دارالاسلام اپنی سیاسی ولایت سے خارج نہ سمجھیں ، اور اگر باہر کے مظلوم مسلمانوں کے مدد مانگنے پر ان کی مدد نہ کی جائے ، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس قاعدے کی پابندی بھی نہ کی جائے کہ جس قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو اس کے خلاف مدد مانگنے والے مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے گی ، اور اگر مسلمان کافروں سے موالاة کا تعلق ختم نہ کریں ، تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

53: اس جملے کا تعلق ا ن تمام احکام سے ہے جو ان آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں، جن میں میراث کے مذکورہ بالااحکام بھی داخل ہیں، اور غیر مہاجر مسلمانوں کی مدد کے احکام بھی، تنبیہ یہ کی جارہی ہے کہ ان احکام کی خلاف ورزی سے زمین میں فتنہ اور فساد پھیلے گا۔ مثلا اگر وہ مسلمان جو کفار کے ہاتھوں ظلم وستم برداشت کررہے ہیں، ان کی مددنہ کی جائے تو فساد پھیلنا ظاہر ہے، اور اگر ان کی مدد کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ بد عہدی کی جائے تب بھی وہ تمام مصلحتیں پامال ہوں گی جن کی خاطر وہ معاہدہ کیا گیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ اللہ پاک مسلمانوں کے درمیان میں باہیمی میل جول کرنے کا ذکر فرما کر کفار کے ساتھ قطع تعلق کرنے کا حکم فرماتا ہے اس لئے یہ ارشاد کیا کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں اور سب کے سب ایک ہیں اگر تم بھی آپس میں اتفاق نہ پیدا کرو گے اور ایک نہ بن جاؤ گے اور کفار سے تعلق نہ قطع کرو گے تو بڑا فتنہ فساد دنیا میں پھیل جاویگا تم میں کمزوری آجاوے گی ایک سے ایک جدا ہوجاؤ گے اور کفار کا زور بڑھ جاوے گا حاکم نے اسامہ بن زید (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ دو ملت کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے نہ مسلمان کافر نہ کافر مسلمان کا اسی مضمون کی حدیث اسامہ بن زید (رض) سے صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہے یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہے اور نہ کافر مسلمان کا اسامہ بن زید (رض) کی جس حدیث کا ذکر اوپر گذر یہ حدیث سوا صحیح بخاری ومسلم کے صحاح کی باقی کتابوں میں بھی ہے اگرچہ صاحب منتقی نے یہ لکھا ہے کہ اسامہ بن زید (رض) کی حدیث صحیح مسلم اور نسائی میں نہیں ہے اور صاحب جامع الاصوح نے لکھا ہے کہ یہ حدیث نسائی میں نہیں ہے لیکن یہ سہو نظر ہے اسامہ بن زید (رض) کی یہ حدیث ان دونوں کتابوں میں موجود ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:73) الا تفعلوہ۔ الا اور لا سے مرکب ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ ای الا تفعلوا ما امرتکم من تو اصل المسلمین وتولی بعضہم بعضا حتی فی التوارث تفضیلا لنبۃ الاسلام علی نسبۃ القرابۃ ولم تقطعوا العلائق بینکم وبین الکفار۔ اے مسلمانو ! اگر تم باہمی مقاربت ومواصلت نہ رکھو گے اور ایک دوسرے کی مددگاری نہیں کرو گے اور دین اسلام کو نسبت کو رشتہ داری کی نسبت پر فضیلت نہ دو گے۔ اور اپنے اور کفار کے درمیان تعلقات کو منقطع نہیں کروگے تو ۔۔ الخ۔ تکن اصل میں تکون تھا۔ جواب شرط کی وجہ سے حرف آخرت پر جزم آگئی واؤ اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی۔ تکن ہوگا۔ مضارع مجزوم واحد مؤنث غائب۔ کون مصدر ۔ (فتنہ برپا) ہوجائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 یعنی کفار سے ترک موالات ( دوستی و میراث) اور باہم دوستی و تعاون۔ حدیث میں ہے کہ کافر اور مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔ ( ابن کثیر)9 یعنی آئے دن جنگ رہیگی اور رات دن کے اور میرث کے دعوے چلتے رہے گے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر اور مو منوں کے باہم موالات اور مل جل کر رہنے سے امنب قائم نہیں رہ سکتا ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی نہ تم انکے وارث نہ وہ تمہارے وارث۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دوست اور وارث قرار دینے کے بعد کفار کے بارے میں فیصلے کا اعلان۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور باہمی وارث ہونے کے بارے میں ارشاد تھا۔ اب کفار کے بارے میں فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ کافر ایک دوسرے کے خیر خواہ، دوست اور وارث ہیں۔ اسی بنیاد پر پوری دنیا کے کفار کو ایک ملت قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر دو قومی نظریہ کی اصطلاح معرض وجود میں آئی اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر کسی قوم کا تشخص علاقائی ٗلسانی اور جغرافیائی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ حقیقی تشخص نظریہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس لیے اسلام نے کفار اور مشرکین سے قلبی دوستی، رشتہ داری اور ایک دوسرے کی موروثیت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر مسلمان معاہد قوم کے ساتھ عہد شکنی اور کفار کے ساتھ قلبی دوستی اور رشتہ داری قائم کریں گے تو دنیا میں دنگا فساد پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، دین میں بگاڑ، مسلمانوں کے وقار میں کمی اور ایک دوسرے کے معاملات میں بلا سبب مداخلت کرنے سے دنیا میں مسلسل جنگ وجدال جاری رہے گا۔ جو کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دارالکفر میں مسلمانوں کی مدد کا معاملہ ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں اگر وہ منظم ہو کر اپنے حقوق منوائیں گے تو جلد انھیں تحفظ مل جائے گا کیونکہ ہر ملک کے دستور میں اقلیتوں کے حقوق تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے بالخصوص جس کافر ملک کے ساتھ مسلمان حکومت کا معاہدہ ہو پہلے زمانے میں ایسی گارنٹی نہیں ہوتی تھی۔ تفسیر بالقرآن کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں : ١۔ کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥١) ٢۔ اے ایمان والو کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ : ٢٣) ٣۔ جو بھی کفار کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالم ہوگا۔ (الممتحنۃ : ٩) ٤۔ کفار کے شیطان دوست ہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٥۔ ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (الجاثیۃ : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ) (کہ جو لوگ کافر ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ ) وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے ہیں۔ کافروں کے درمیان آپس میں میراث جاری ہوگی کوئی مومن کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مومن کا وارث نہیں ہوسکتا۔ پہلا حکم یعنی یہ کہ مہاجر غیر مہاجر کا وارث نہ ہو منسوخ کردیا گیا اور ہجرت کے بجائے رشتہ داری کے اصول پر میراث کے احکام نازل ہوگئے لیکن یہ دوسرا حکم کہ مومن اور کافر کے درمیان توارث نہیں، دائمی ہے اور قیامت تک کے لیے یہی قانون ہے ہاں کافر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ اگر وہ لوگ مسلمانوں کی عملداری میں رہتے ہوں گے تو قاضی اسلام ان کے درمیان میراث تقسیم کر دے گا اگر کوئی مسلمان کسی کافر کا بیٹا ہو یا کوئی کافر کسی مسلمان کا بیٹا ہو تو ان کے درمیان میراث جاری نہ ہوگی۔ اگرچہ دارالاسلام میں رہتے ہوں۔ پھر فرمایا : (اِلَّاتَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ) کہ جو احکام اوپر بیان کیے گئے اگر ان پر عمل نہ کرو گے اور ان کی خلاف ورزی کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد ہوگا۔ اگر اپنے دینی بھائیوں کی مدد کے جوش میں معاہدے کی خلاف ورزی کر بیٹھے یا کافروں کو اپنا ولی یا وارث سمجھ لیا تو اس کے نتائج بہت خطر ناک ہوں گے اور زمین میں بڑا فتنہ ہوگا اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73: جس طرح مہاجرین وا نصار باہم ایک دوسرے کے رفیق اور معاون ہیں۔ اسی طرح کفار بھی باہم ایک دوسرے کے رفیق و معاون اور باہم دیگر وارث ہیں۔ “ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ ” ضمیر منصوب سے امور مذکورہ مراد ہیں۔ یعنی کافر، کافر کا رفیق ہوگا۔ مسلمان کا رفیق نہیں بن سکتا۔ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اس لیے دار الحرب کے مسلمانوں کو ہجرت کر کے دار الاسلام کے مسلمانوں سے جا ملنا چاہئے۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس کا نتیجہ شرک کی ترقی اور فساد عظیم کی شکل میں رونما ہوگا۔ کیونکہ دارالحرب میں رہ کر کمزور مسلمان اپنا ایمان محفوظ نہیں رکھ سکیں گے اور نہ ان کا مال وجان خطرے سے بالا ہوگا نہ ان کی عزت و آبرو۔ نیز جب تک مسلمانوں کی طاقت ایک مرکز پر مجتمع نہیں ہوگی اس وقت کفر و شرک کا زور نہیں ٹوٹے گا۔ “ اي ان لا تفعلوا ما امرتکم به من تو اصل المسلمین و تولی بعضهم بعضا تحصل فتنة فی الارض و مفسدة عظیة لان المسلمین ما لم یصیروا یدا واحدة علی الشرک کان الشرک ظاھرا والفساد زائدا ” (مدارک ج 2 ص 87) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 اور جو لوگ کافر ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں اگر اس حکم کی تعمیل نہ کروگے تو ملک میں بڑا فتنہ اور فساد برپا ہوجائے گا۔ مدعا یہ ہے کہ کفر و اسلام کا جھگڑا تو چل ہی رہا ہے پھر وراثت کے جھگڑے بھی شروع ہوجائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کافر سب آپس میں ایک ہیں تمہاری دشمنی سے جہاں پاویں گے ضعیف مسلمان اس کو ستاویں گے سو تم مسلمانوں کو ستادو کہ جو ہمارے پاس ہو اس کا ذمہ ہمارا ہے اور جو اپنے گھر رہے وہ جس طرح جانے سمجھ لے۔ 12 خلاصہ یہ کہ جو دارالحرب میں رہتا ہے وہ اپنی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے اور جو دارالاسلام میں آجاتا ہے اس کے ہم ذمہ دار ہیں۔