Surat Abas

Surah: 80

Verse: 31

سورة عبس

وَّ فَاکِہَۃً وَّ اَبًّا ﴿ۙ۳۱﴾

And fruit and grass -

اور میوہ اور ( گھاس ) چارہ ( بھی اگایا ) ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And fruits (Fakihah) and herbage (Abb). Fakihah includes every type of fruit. Ibn Abbas said, - "Al-Fakihah is everything that is eaten ripe, and - Al-Abb is what the earth grows that is eaten by grazing animals and not people." In one narration reported from him he said, "It is the grass for the livestock animals." Abu `Ubayd Al-Qasim bin Sallam reported from Ibrahim At-Taymi that he said, "Abu Bakr As-Siddiq was asked about Allah's statement, وَفَـكِهَةً وَأَبّاً (And fruits (Fakihah) and herbage (Abb). and he said, `What sky would shade me and what earth would carry me if I said about the Book of Allah that which I did not have knowledge of.' " In reference to what Ibn Jarir recorded from Anas, that he said, "Umar bin Al-Khattab recited عَبَسَ وَتَوَلَّى then when he reached this Ayah وَفَـكِهَةً وَأَبّاً (And fruits (Fakihah) and herbage (Abb).) he said, `We already know what Al-Fakihah is, but what is Al-Abb?' Then he said, `By your life, O Ibn Al-Khattab, this is something over burdensome (i.e., unnecessary to ask about)."' This report has an authentic chain of narration. More than one person has narrated it from Anas. The meaning of the narration is that Umar wanted to know how it looks, its type and its exact description, because he (Umar) and everyone who reads this Ayah knows that it is one of the plants that grows from the earth. This is clear due to the Allah's saying, فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبّاً وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلً وَحَدَايِقَ غُلْباً وَفَـكِهَةً وَأَبّاً And We cause therein the Habb to grow. And grapes and Qadb, and olives and date palms. And Ghulb Hada'iq. And fruits (Fakihah) and herbage (Abb). And then He says, مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلاَِنْعَامِكُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وفاکھۃ واباً :” ابا “ زمین سے اگنے والی وہ نباتات جسے جانور کھاتے ہیں، لوگ نہیں کھاتے۔ (طبری عن ابن عباس وغیرہ) یہ ” اب “ (ن) (قصد کرنا) سے مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی ” قصد کیا ہوا “ کیونکہ جانور اس کی طرف لکپتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّفَاكِہَۃً وَّاَبًّا۝ ٣١ ۙ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔ أب ( گه اس) قوله تعالی: وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] . الأبّ : المرعی المتهيّئ للرعي والجز من قولهم : أَبَّ لکذا أي : تهيّأ، أبّاً وإبابةً وإباباً ، وأبّ إلى وطنه : إذا نزع إلى وطنه نزوعاً تهيّأ لقصده، وکذا أبّ لسیفه : إذا تهيأ لسلّه . ا ب ب الاب : اس گھاس کے کہتے ہیں جو جانوروں کے چرنے اور کٹنے کے لئے بالکل تیار ہو یہ أَبَّ لکذا، أبّاً وإبابةً وإباباً کے محادرہ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی کوئی کام کرنے کے لئے تیا ر ہوجانا کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ أبّ إلى وطنه۔ وطن کا مشتاق ہو کر جانے کے لئے تیار ہوگیا اب لسیفهتلوار سونتنے کو مستعد ہوجانا اور اسی سےإبّان ذلک کی ترکیب ہے جس میں ابان بروزن فعلان ہے یعنی وہ زمانہ جو کسی کام کرنے کے لئے بلکل مناسب ہو ۔ قرآن میں ہے : { وَفَاكِهَةً وَأَبًّا } [ عبس : 31] اور میوے اور چارہ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(80:31) وفاکہۃ وابا۔ اور پھل (جن کو مزہ کے لئے کھایا جاتا ہے) فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کسی نے فاکھۃ نہ کھانے کی قسم کھالی تو کھجور۔ انگور زیتون کھانے سے قسم نہ ٹوٹے گی کیونکہ یہ پھل طاقت کے لئے کھائے جاتے ہیں۔ تنہا مزے کے لئے نہیں کھائے جاتے۔ اسی طرح اس پھل کو کھانے سے بھی قسم نہیں ٹوٹے گی جس سے مقصود غذا اور دواء دونوں ہوتے ہیں۔ جیسے انار۔ ابا۔ گھاس۔ چراگاہ۔ جانوروں کے کھانے کی گھاس اور چارہ : فاکھۃ وابا کا عطف بھی حبا پر ہے۔ اور ہم نے پھل اور چارہ (بھی) اگائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 اب سے مراد دراصل وہ گھاس یا چارہ ہے جسے لوگ نہیں کھاتے بلکہ جانور کھاتے ہیں اور وہ زمین سے آدمی کی کوشش کے بغیر خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاکھة وہ میوہ جو باغات اسے حاصل ہو۔ ابا (31:80) کا مفہوم غالباً وہ جسے انسان چارے کے لئے کاشت ونگہداشت کریں۔ اس کے مفہوم کے بارے میں حضرت عمر (رض) سے پوچھا گیا۔ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے آپ کو ملامت کیا تھا جیسا کہ سورة نازعات میں گزر گیا ہے۔ یہ تو تھا انسان کے طعام کا قصہ ، اور انسانی طعام کی تمام ضروریات صرف اللہ فراہم کرتا ہے اور اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں بلکہ انسان دخیل ہونے کا مدعی ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے مختلف مراحل میں سے کسی مرحلے میں دخیل ہے۔ یہاں تک کہ زمین کے اندر وہ جو بیج بوتا ہے اس کی نشوونما میں بھی وہ دخیل نہیں ہے۔ نہ انسان نے بیج پیدا کیا اور نہ ایجاد کیا ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ حیوانات کس طرح ایجاد ہوئے ، یہ ایک معجزہ ہے۔ اور انسان تصور اور ادراک سے وراء ہے۔ یہ مٹی انسان کے سامنے ہے اور ایک ہے ، اور ہر دانہ ایک ہی زمین میں اور باہم متصل قطعات میں اپنے اپنے پھل اور پھول لاتا ہے جبکہ ایک ہی پانی اور دوسرے عناصر اسے غذا دیتے ہیں لیکن یہ درست قدرت ہی کا کام ہے کہ پودے اور پھل مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان پودوں اور پھلوں سے آگے جو بیج پیدا ہوتے ہیں ان میں ” ماں بیج “ کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں۔ یہ باتیں اور یہ ٹیکنالوجی انسان سے مخفی ہے۔ اس کا راز کوئی نہیں جانتا ، نہ اس میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے ، اور نہ اس سے کوئی مشورہ لیا جاتا ہے۔ بہرحال دست قدرت نے جو کچھ کیا وہ یہ ہے اور

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور مختلف میوے اور گھاس یعنی چارا پیدا کیا۔