Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 1

سورة التكوير

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾

When the sun is wrapped up [in darkness]

جب سورج لپیٹ لیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What will happen on the Day of Judgement, and that is the rolling up of the Sun Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ When the sun is Kuwwirat. "This means it will be darkened." Al-`Awfi reported from Ibn Abbas; "It will go away." Qatadah said, "Its light will go away." Sa`id bin Jubayr said, "Kuwwirat means it will sink in." Abu Salih said, "Kuwwirat means it will be thrown down." At-Takwir means to gather one part of something with another part of it (i.e., folding). From it comes the folding of the turban (Imamah) and the folding of clothes together. Thus, the meaning of Allah's statement, كُوِّرَتْ (Kuwwirat) is that part of it will be folded up into another part of it. Then it will be rolled up and thrown away. When this is done to it, its light will go away. Al-Bukhari recorded from Abu Hurayrah that the Prophet said, الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يُكَوَّرَانِ يَوْمَ الْقِيَامَة The sun and the moon will be rolled up on the Day of Judgement. Al-Bukhari was alone in recording this Hadith and this is his wording of it. Dispersing the Stars وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ

یعنی سوج بےنور ہو جائیگا ، جاتا رہے گا اوندھا کر کے لپیٹ کر زمین پر پھینک دیا جائیگا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو لپیٹ کر بےنور کر کے سمندروں میں ڈال دیا جائیگا اور پھر مغربی ہوائیں چلیں گی اور آگ لگ جائیگی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اس کو تہہ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائیگا ( ابن ابی حاتم ) اور ایک حدیث میں سورج کے ساتھ چاند کا ذکر بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث الفاظ کی تبدیلی سے مروی ہے ، اس میں ہے کہ سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ لیے جائیں گے امام بخاری اسے کتاب بدء الخلق میں لائے ہیں لیکن یہاں لانا زیادہ مناسب تھا یا مطابق عادت وہاں اور یہاں دونوں جگہ لاتے جیسے کہ امام صاحب کی عادت ہے حضرت ابو ہریرہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے دن یہ ہو گا ، تو حضرت حسن کہنے لگے ان کا کیا گناہ ہے؟ فرمایا میں نے حدیث کہی اور تم اس پر باتیں بناتے ہو سورج کی قیامت والے دن یہ حالت ہو گی ستارے سارے متغیر ہو کر جھڑ جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ Ą۝ۙ ) 82- الإنفطار:2 ) یہ بھی گدلے اور بےنور ہو کر بجھ جائیں گے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اچانک سورج کی روشنی جاتی رہیگی اور پھر ناگہاں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے پھر اچانک پہاڑ زمین پر گر پڑیں گے اور زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگے گی اور بےطرح ہلنے لگے گی بس پھر کیا انسان کیا جنات کیا جانور اور کیا جنگلی جانور سب آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ، جانور بھی جو انسانوں سے بھاگے پھرتے ہیں انسانوں کے پاس آ جائیں گے لوگوں کو اس قدر بد حواسی اور گھبراہٹ ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال اونٹیاں جو بیاہنے والیاں ہوں گی ان کی بھی خیر خبر نہ لیں گے ۔ جنات کہیں گے کہ ہم جاتے ہیں کہ تحقیق کریں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ سمندروں میں بھی آگ لگ رہی ہے ، اسی حال میں ایک دم زمین پھٹنے لگے گی اور آسمان بھی ٹوٹنے لگیں گے ، ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمانوں کا یہی حال ہو گا ادھر سے ایک تند ہوا چلے گی جس سے تمام جاندار مر جائیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سارے ستارے اور جن جن کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے سب جہنم میں گرا دیئے جائیں صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم بچ رہیں گے اگر یہ بھی اپنی عبادت سے خوش ہوتے تو یہ بھی جہنم میں داخل کر دئیے جاتے ( ابن ابی حاتم ) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے ، زمین چٹیل اور ہموار میدان رہ جائے گی ، اونٹنیاں بیکار چھوڑ دی جائیں گی ، نہ ان کی کوئی نگرانی کریگا نہ چرائے چگائے گا نہ دودھ نکالے گا نہ سواری لے گا عشار جمع ہے عشرا کی جو حاملہ اونٹی دسویں مہینہ میں لگ جائے اسے عشراء کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بد حواسی بےچینی اور پریشانی اس قدر ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال کی بھی پرواہ نہ رہیگی قیامت کی ان بلاؤں نے دل اڑا دیا ہو گا کلیجے منہ کو آئیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور لوگوں کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو گا ہاں ان کے دیکھنے میں یہ ہو گا اس قول کے قائل عشار کے کئی معنی بیان کرتے ہیں ایک تو یہ کہتے ہیں اس سے مراد بادل ہیں جو دنیا کی بربادی کی وجہ سے آسمان و زمین کے درمیان پھرتے پھریں گے بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ زمین ہے جس کا عشر دیا جاتا ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد گھر ہیں جو پہلے آباد تھے اب ویران ہیں امام قرطبی ان اقوال کو بیان کر کے ترجیح اسی کو دیتے ہیں کہ مراد اس سے اونٹنیاں ہیں اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں کہ سلف سے اور ائمہ سے اس کے سوا کچھ وارد ہی نہیں ہوا واللہ اعلم اور وحشی جانور جمع کیے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) یعنی زمین پر چلنے والے کل جانور اور ہوا میں اڑنے والے کل پرند بھی تمہاری طرح گروہ ہیں ہم نے اپنی کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر یہ سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے سب جانداروں کا حشر اسی کے پاس ہو گا یہاں تک کہ مکھیاں بھی ان سب میں اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلے کریگا ان جانوروں کا حشر ان کی موت ہی ہے البتہ جن و انس اللہ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے حساب کتاب ہو گا ربیع بن خثیم نے کہا مراد وحشیوں کے حشر سے ان پر اللہ کا امر آنا ہے لیکن ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا کہ اس سے مراد موت ہے یہ تمام جانور بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ ہو جائیں گے خود قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ 1٩؀ ) 38-ص:19 ) پرند جمع کیے ہوئے پس ٹھیک مطلب اس آیت کا بھی یہی ہے کہ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے؟ اس نے کہا سمندر میں آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ سچا ہے قرآن کہتا ہے آیت ( وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ Č۝ۙ ) 52- الطور:6 ) اور فرماتا ہے آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مغربی ہوائیں بھیجے گا وہ اسے بھڑکا دیں گی اور شعلے مارتی ہوئی آگ بن جائیگا آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) کی تفسیر میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے حضرت معاویہ بن سعید فرماتے ہیں بحر روم میں برکت ہے یہ زمین کے درمیان میں ہے سب نہریں اس میں گرتی ہیں اور بحر کبیر بھی اس میں پڑتا ہے اس کے نیچے کنویں ہیں جن کے منہ تانبہ سے بند کیے ہوئے ہیں قیام کے دن وہ سلگ اٹھیں گے ، یہ اثر عجیب ہے اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ہاں ابو داؤد میں ایک حدیث ہے کہ سمندر کا سفر صرف حاجی کریں اور عمرہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے غازی اس لیے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے پانی ہے اس کا بیان بھی سورہ فاطر کی تفسیر میں گزر چکا ہے سجرت کے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ خشک کر دیا جائیگا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہیگا ، یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ بہا دیا جائے گا اور ادھر ادھر بہ نکلے گا پھر فرماتا ہے کہ ہر قسم کے لوگ یکجا جمع کر دئیے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ظالموں کو اور ان کے جوڑوں یعنی ان جیسوں کو جمع کرو حدیث میں ہے ہر شخص کا اس قوم کے ساتھ حشر کیا جائے گا جو اس جیسے اعمال کرتی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً Ċ۝ۭ ) 56- الواقعة:7 ) تم تین طرح کے گروہ ہو جاؤ گے کچھ وہ جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوں گے کچھ بائیں ہاتھ والے کچھ سبقت کرنے والے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ پڑھتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ہر جماعت اپنے جیسوں سے مل جائیگی ، دوسری روایت میں ہے کہ وہ دو شخص جن کے عمل ایک جیسے ہوں وہ یا تو جنت میں ساتھ رہیں گے یا جہنم میں ساتھ جلیں گے ، حضرت عمر سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا نیک نیکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور بدبدوں کے ساتھ آگ میں ، حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو سب خاموش رہے ، آپ نے فرمایا لو میں بتاؤں ، آدمی کا جوڑا جنت میں اسی جیسا ہو گا اسی طرح جہنم میں بھی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب اس سے یہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ہو جائیں گے یعنی اصحاب الیمین اصحاب الشمال اور سابقین ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر قسم کے لوگ ایک ساتھ ہوں گے یہی قول امام ابن جریر بھی پسند کرتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے پاس سے پانی کا ایک دریا جاری ہو گا جو چالیس سال تک بہتا رہیگا اور بڑی نمایاں چوڑان میں ہو گا اس سے تمام مرے سڑے گلے اگنے لگیں گے اس طرح کے ہو جائیں گے کہ جو انہیں پہچانتا ہو وہ اگر انہیں اب دیکھ لے توبہ یک نگاہ پہچان لے پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽ ) 81- التكوير:7 ) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے ( تذکرہ قرطبی ) پھر ارشاد ہوتا ہے آیت ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) جمہور کی قراۃ یہی ہے اہل جاہلیت لڑکیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ان سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ یہ کیوں قتل کی گئیں؟ تاکہ ان کے قاتلوں کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور شرمندگی ہو اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب مظلوم سے سوال ہوا تو ظالم کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خود پوچھیں گی کہ انہیں کس بنا پر زندہ درگور کیا گیا ؟ اس کے متعلق احادیث سنئے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو حالت حمل کی مجامعت سے روک دوں لیکن میں نے دیکھا کہ رومی اور فارسی یہ کام کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا ۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا یعنی بروقت نطفہ کو باہر ڈال دینے کے بارے میں تو آپ نے فرمایا کہ یہ درپردہ زندہ گاڑ دینا ہے اور اسی کا بیان واذا الموؤدۃ الخ میں ہے ۔ سلمہ بن یزید اور ان کے بھائی سرکار نبوت میں حاضر ہو کر سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھیں وہ صلہ رحمی کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور بھی نیک کام بہت کچھ کرتی تھیں لیکن جاہلیت میں ہی مر گئی ہیں تو کیا اس کے یہ نیک کام اسے کچھ نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا کہ اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کر دیا ہے کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی؟ آپ نے فرمایا زندہ گاڑی ہوئی اور زندہ گاڑنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کر لے ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم میں ہے زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا آپ نے فرمایا نبی ، شہید ، بچے اور زندہ درگور کی ہوئی ۔ یہ حدیث مرسل ہے حضرت حسن سے جسے بعض محدثین نے قبولیت کا مرتبہ دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں کے چھوٹی عمر میں مرے ہوئے بچے جنتی ہیں جو انہیں جہنمی کہے وہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) ( ابن ابی حاتم ) قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی بچیوں کو زندہ دبا دیا ہے میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم غلام والا تو میں ہوں نہیں البتہ میرے پاس اونٹ ہیں فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پر قربان کرو ( عبدالرزاق ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کر دی ہیں آپ نے فرمایا ان کی گنتی کے مطابق غلام آزاد کرو انہوں نے کہا بہت بہتر میں یہی کروں گا دوسرے سال وہاں یک سو اونٹ لے کر آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ میری قوم کا صدقہ ہے جو اس کے بدلے ہے جو میں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں ہم ان اونٹوں کو لے جاتے تھے اور ان کا قیسیہ رکھ چھوڑا تھا ۔ پھر ارشاد ہے کہ نامہ اعمال بانٹے جائیں گے کسی کے داہنے ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، اے ابن آدم تو لکھوا رہا ہے جو لپیٹ کر پھیلا کر تجھے دیا جائے گا دیکھ لے کہ کیا لکھوا کے لایا ہے آسمان گھسیٹ لیا جائے گا اور کھینچ لیا جائے گا اور سمیٹ لیا جائے گا اور برباد ہو جائے گا جہنم بھڑکائی جائے گی اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں سے اس کی آگ تیز ہو جائے گی جنت جنتیوں کے پاس آ جائے گی جب یہ تمام کام ہو چکیں گے اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں کیا کچھ اعمال کیے تھے وہ سب عمل اس کے سامنے موجود ہوں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا ) 3-آل عمران:30 ) جس دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو پا لے گا نیک ہیں تو سامنے دیکھ لے گا اور بد ہیں تو اس دن وہ آرزو کریگا کہ کاش! اس کے اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان کو اس کے تمام اگلے پچھلے اعمال سے تنبیہہ کی جائے گی حضرت عمر اس سورت کو سنتے رہے اور اس کو سنتے ہی فرمایا اگلی تمام باتیں اسی لیے بیان ہوئی تھیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] کوّر بمعنی کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا۔ اور اس میں گولائی اور تجمع کے دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ مطلب یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں، اس کی روشنی اور اس کی حرارت سب کچھ سمیٹ لیا جائے گا اور وہ بس ایک بےنور جسم رہ جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اذا الشمس کورت :” کور العمامۃ و تکویریھا “ پگڑی لپیٹنا۔ ” تکویر المتاع “ سامان جمع کر کے باندھ دینا۔ (خلاصہ قاموس)” کو رث “ یعنی اتنی وسعت والے سورج، اس کی شعاعوں اور روشنی کو لپیٹ دیا جائے گا اور وہ بالکل بےنور ہوجائے گا۔ چاند کا بھی یہی حال ہوگا، چناچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الشمس والقمر مکوران یوم القیامۃ) (بخاری، بدہ الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر : ٣٢٠٠)” سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ دیئے جائیں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَ‌تْ (When the sun will be folded up...81:1) The word kawwara is derived from Takwir which denotes for the sun &to lose its light&.1 Sayyidna Hasan Basri (رح) has attached this interpretation to it. Another sense of the word is &to cause to fall&. Rabi` Ibn Khaitham assigns the following interpretation to this verse: The Sun will be thrown into the ocean, and as a result of its heat the entire ocean will turn into fire. The two interpretations are not contradictory. They may be reconciled thus: first, its light will be put off and then it may be thrown into the ocean. Sahih of Bukhari records from Sayyidna Abu Huharirah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that on the Day of Resurrection the Sun and the Moon would be thrown into the ocean. Musnad of Bazzar has the addition that they will be thrown into Hell. Ibn Abi Hatim, Ibn Abid-Dunya and Abush-Shaikh stated that on the Day of Resurrection Allah will throw the Sun, the Moon and all stars into the ocean. Then a violent wind will blow over them, as a result of which the entire ocean will turn into fire. Thus it is correct to say that the Sun and the Moon will be put into the ocean. It is likewise correct to say that they will be put into Hell, because the entire ocean at that time will have been turned into Hell. [ Derived from Mazhari and Qurtubi ] (1) Another meaning of Takwir is &to fold&, and the translation in the text is based on this meaning. The sense of folding the sun is that its function will come to an end, and it will lose its light. As such, it comes to mean same thing as mentioned in first interpretation. Muhammad Taqi Usmani

خلاصہ تفسیر جب آفتاب بےنور ہوجاوے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور جب پہاڑ چلائے جاویں گے اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی، اور جب وحشی جانور (مارے گھبراہٹ کے) سب جمع ہوجاویں گے اور جب دریا بھڑکائے جاویں گے ( یہ چھ واقعے تو نفخہ اولیٰ کے وقت ہوں گے جبکہ دنیا آباد ہوگی اور اس نفخہ سے یہ تغیرات و تبدلات واقع ہوں گے اور اس وقت اونٹنیاں وغیرہ بھی اپنی اپنی حالت پر ہوں گی جنمیں بعضے وضع حمل کے قریب ہوں گی جو کہ عرب کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی مال ہے جس کی ہر وقت دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں مگر اس وقت ہل چل میں کسی کو کسی کا ہوش نہ رہے گا اور وحوش بھی مارے گھبراہٹ کے سب گڈمڈ ہوجاویگے اور دریاؤں میں اول طغیانی پیدا ہوگی اور زمین میں شقوق واقع ہوجاویں گے جس سے سب شیریں اور شور دریا ایک ہوجاویں گے جس کا ذکر آئندہ سورة میں (آیت) واذا البحار فجرت میں فرمایا ہے۔ پھر شدت حرارت سے سب کا پانی آگ ہوجاوے گا، شاید اول ہوا ہوجاوے پھر ہوا آگ بن جاوے اس کے بعد عالم فنا ہوجاوے گا) اور (اگلے چھ واقعات بعد نفخہ ثانیہ کے ہوں گے جن کا بیان یہ ہے کہ) جب ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھے کئے جاویں گے (کافر الگ مسلمان الگ، پھر ان میں ایک ایک طریقہ کے الگ الگ) اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاوے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کیے گئی تھی ( مقصود اس پوچھنے سے زندہ درگور کرنیوالے ظالموں کا اظہار جرم ہے) اور جب نامہ اعمال کھول دیئے جاویں گے (تاکہ سب اپنے اپنے عمل دیکھ لیں کقولہ تعالیٰ (یلقہ منشورا) اور جب آسمان کھل جاوے گا (اور اس کے کھلنے سے آسمان کے اوپر کی چیزیں نظر آنے لگیں گی اور نیز اس کے کھلنے سے غمام کا نزول ہوگا جسکا ذکر پارہ 19 (آیت) وقال الذین لایرجون ، ( آیت) و یوم تشقق السماء میں آیا ہے) اور جب دوزخ (اور زیادہ) دہکائی جاوے گی، اور جب جنت نزدیک کردی جاوے گی (کمافی سورة ق (آیت) وازلفت الجنتہ للمتقین، جب یہ سب واقعات نفخہ اولیٰ اور ثانیہ کے واقع ہوجاویں گے تو اس وقت) ہر شخص ان اعمال کو جان لیگا جو لے کر آیا ہے) اور جب ایسا واقعہ ہائلہ ہونیوالا ہے) تو ( میں منکرین کو اس کی حقیقت بتلاتا ہوں اور مصدقین کو اسکے لئے آمادہ کرتا ہوں، اور یہ دونوں امر قرآن کی تصدیق اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس میں اس کا اثبات اور نجات کا طریق ہے اسلئے) میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو (سیدھے چلتے چلتے) پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں (اور پھر پیچھے ہی کو) چلتے رہتے ( اور کبھی پیچھے چلتے چلتے اپنے مطالع میں) جا چھپتے ہیں (ایسا امر پانچ سیاروں کو پیش آتا ہے کہ کبھی سیدھے چلتے ہیں کبھی پیچھے چلتے ہیں اور ان کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ زحل، مشتری، عطارد، مریخ، زہرہ) اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے، اور قسم ہے صبح کی جب وہ آنے لگے (آگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن (اللہ کا) کلام ہے ایک معزز فرشتہ (یعنی جبرئیل علیہ السلام) کا لایا ہوا جو قوت والا ہے (کمافی النجم علمہ شدید القوی اور) مالک عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے (اور) وہاں (یعنی آسمانوں میں) اس کا کہنا مانا جاتا ہے (یعنی فرشتے اس کا کہنا مانتے ہیں جیسا حدیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انکے کہنے سے فرشتوں نے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے اور (امانتدار ہے) کہ وحی کو صحیح پہنچا دیتا ہے پس وحی لانیوالا تو ایسا ہے) اور (آگے جن پر وحی نازل ہوئی ان کی نسبت ارشاد ہے کہ) یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا حال بخوبی تم کو معلوم ہے) مجنوں نہیں ہیں (جیسا منکرین نبوت کہتے تھے) اور انہوں نے اس فرشتہ کو (اصلی صورت میں آسمان کے) صاف کنارہ پر دیکھا بھی ہے (صاف کنارہ سے مراد بلند کنارہ ہے کہ صاف نظر آتا ہے کمافی النجم وھو بالافق الاعلے ٰ ، اور اس کا مفصل بیان سورة نجم میں گزرا ہے) اور یہ پیغمبر مخفی (بتلائی ہوئی وحی کی) باتوں پر بخل کرنیوالے بھی نہیں (جیسا کاہنوں کی عادت تھی کہ رقم لے کر کوئی بات بتلاتے تھے اس سے کہانت کی بھی نفی ہوگئی اور اس کی بھی کہ آپ اپنے کام کا کسی سے معاوضہ لیں) اور یہ قرآن کسی شیطان مردود کی کہی ہوئی بات نہیں ہے ( اس سے نفی کہانت کی اور تاکید ہوگئی، حاصل یہ کہ نہ آپ مجنوں ہیں نہ کاہن، نہ صاحب غرض، اور وحی لانیوالے کو پہچانتے بھی ہیں اور وحی لانیوالا ایسا ایسا ہے پس لا محالہ یہ اللہ کا کلام اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ قسمیں مطلوب مقام کے نہایت مناسب ہیں چناچہ ستاروں کا سیدھا چلنا اور لوٹنا اور چھپ جانا مشابہ ہے فرشتے کے آنے اور واپس جانے اور عالم ملکوت میں جا چھپنے کے اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا مشابہ ہے قرآن کے سب ظلمت کفر کے رفع ہوجانے اور نور ہدایت کے ظاہر ہوجانے کے، جب یہ بات ثابت ہے) تو تم لوگ (اس بارہ میں) کدھر کو چلے جارہے ہو (کہ نبوت کے منکر ہو رہے ہو) بس یہ تو (بالعموم) دنیا جہان والوں کے لئے ایک بڑا نصیحت نامہ ہے (اور بالخصوص) ایسے شخص کے لئے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے (عام لوگوں کے لئے ہدایت اس معنے سے ہے کہ ان کو سیدھا راستہ بتلادیا اور مومنین متقین کے لئے اس معنے سے کہ ان کو منزل مقصود پر پہنچا دیا) اور (بعض کے نصیحت قبول نہ کرنے سے اسکے نصیحت نامہ ہونے میں شبہ نہ کیا جاوے کیونکہ) تم بدون خدائے رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ہو (یعنی فی نفسہ تو نصیحت ہے لیکن تاثیر اس کی موقوف مشیت پر ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے اور بعض کے لئے کسی حکمت سے متعلق نہیں ہوتی) معارف ومسائل اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ، تکویر سے مشتق ہے اسکے معنے بےنور ہو جانے کے بھی آتے ہیں۔ جس بصری (رح) کی یہی تفسیر ہے اور اسکے معنے ڈال دینے پھینک دینے کے بھی آتے ہیں۔ ربیع ابن خیثم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ آفتاب کو سمندر میں ڈالدیا جائیگا جس کی گرمی سے سارا سمندر آگ بن جائیگا، اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا ہے کہ اول آفتاب کے بےنور کردیا جائے پھر اس کو سمندر میں ڈال دیا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شمس و قمر قیامت کے دن دریا میں ڈال دیئے جاویں گے اور مسند بزار میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جہنم میں ڈال دیئے جاویں گے ابن ابی حاتم، ابن ابی الدنیا اور ابو الشیخ نے ان آیات کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ شمس وقمر اور تمام ستاروں کو سمندر میں ڈال دیں گے اور پھر اس پر تیز ہوا چلے گی جس سے سارا سمندر آگ ہوجاوے گا، اس طرح یہ کہنا بھی صحیح ہوگیا کہ شمس وقمر کو دریا میں ڈالدیا جائے گا، اور یہ کہنا بھی درست رہا کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ سارا سمندر اس وقت جہنم بن جائے گا۔ (مستفاد من المظہری و القرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝ ١ ۠ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ كور كَوْرُ الشیءِ : إدارته وضمّ بعضه إلى بعض، كَكَوْرِ العمامةِ ، وقوله تعالی: يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر/ 5] فإشارة إلى جریان الشمس في مطالعها وانتقاص اللیل والنهار وازدیادهما . وطعنه فَكَوَّرَهُ : إذا ألقاه مجتمعاواکْتَارَ الفَرَسُ : إذا أدار ذنبه في عدوه، وقیل لإبل کثيرة : كَوْرٌ ، وكَوَّارَةُ النّحل معروفة . والْكُورُ : الرّحلُ ، وقیل لكلّ مصر : كُورَةٌ ، وهي البقعة التي يجتمع فيها قری ومحالّ. ( ک و ر ) الکور ۔ کے معنی کسی چیز کو عمامہ کی طرح لپیٹنے اور اس کو اوپر تلے گھمانے کے ہیں چناچہ آیت : ۔ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر/ 5] اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ میں مطالع شمسی کے تبدیل ہونے سے دن رات کے بڑھنے اور گھنٹے کو تکویر سے تعبیر فرمایا ہے ۔ طعنہ فکو رہ اس کو نیز ہ مار کر گچھلی کردیا اکتارالفرس ۔ گھوڑے کا دوڑ تے وقت اپنی دم گھمانا اور بہت سے اونٹوں کو بھی کور کہا جاتا ہے اور کو ارۃ النحل کے معنی شہد کے چھتہ کے ہیں ۔ الکور کے معنی اونٹ کا پالان بھی آتے ہیں اور ہر بڑے شہر کو کورۃ کہاجاتا ہے یعنی وہ علاقہ جس میں بہت سی بستیاں اور دیہات جمع ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) جب سورج عمامہ کی طرح پلٹ جائے گا، یا یہ کہ بےنور ہوجائے گا، اور جب ستارے ٹوٹ پھوٹ کر روئے زمین پر گر پڑیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 This is a matchless metaphor for causing the sun to lose its light. Takwir means to fold up; hence takwir al- `amamah for folding up the turban on the head. Here, the light which radiates from the sun and spreads throughout the solar system has been likened to the turban and it has been said that on the Resurrection Day the turban will be folded up about the sun and its radiation will fade.

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :1 سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے ۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں ۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا ، یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یہاں سے آیت نمبر 14 تک قیامت اور آخرت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں۔ سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج میں روشنی باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’جب سورج بے نور ہوجائے گا۔‘‘ چونکہ لپیٹنے کو عربی میں ’’تکویر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے اس سورت کا نام سورۃ تکویر ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٤۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو لپیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اس حدیث کی شرح میں علماء نے لکھا ہے کہ دنیا میں بعض لوگ سورج اور چاند کو پوجا کرتے ہیں ان کے ذلیل کرنے کے لئے سورج اور چاند کو دوزخ کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ مسند امام احمد ترمذی ٢ ؎ مستدرک حاکم طبرانی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ منظور ہو کہ قیامت کو دنیا میں بھی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے تو اس کو چاہئے کہ اذا الشمس کورت و اذا السماء انفطرت و اذالسماء انشقت پڑھے کہ اس سورتوں میں دنیا کے ختم ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا پورا حال ہے حضرت عبد اللہ بن عمر کی اس حدیث کو ترمذی نے حسن اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور مسند امام احمد کی سند بھی معتبر ہے ‘ ہاں ترمذی کی روایت موقوف ہے لیکن وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے کیونکہ ایسی بات قرآن کی تفسیر میں عقل سے نہیں کی جاسکتی۔ مستند ابو یعلی ٣ ؎ میں حضرت انس (رض) کی روایت سے اس کی صراحت بھی آئی ہے کہ جو لوگ دنیا میں سورج اور چاند کو پوجتے ہیں قیامت کے دن ان کے قائل اور ذلیل کرنے کے لئے سورج اور چاند کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ آیت انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت کے مطلب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ سوا خدا کے سورج چاند وغیرہ کو پوجتے ہیں ان کے ذلیل کرنے کو یہ فرمایا کہ تمہارے جھوٹے معبود سب دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے جس کا حاصل یہ ہوا کہ سورج اور چاند کا دوزخ میں ڈالا جانا صرف اس کے پوجنے والوں کے ذلیل کرنے کے لئے ہوگا حسن بصری اور ابو سلمہ راوی حدیث کا جھگڑا جو اس حدیث کے باب میں ہوا ہے وہ مشہور ہے کہ جب ابو سلمہ نے بصرہ کی مسجد میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے حوالہ سے اس حدیث کی روایت کی تو حسن بصری نے کہا سورج اور چاند کا کیا قصور ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ ابو سلمہ نے خفا ہو کر جواب دیا کہ میں اللہ کے رسول کی حدیث بیان کرتا ہوں اور حسن بصری تم حدیث کے ماقبلہ میں عقلی باتیں کرتے ہو یہ سن کر حس بصری چپکے ہو رہے۔ اس جھگڑے کی پوری تفصیل مسند ١ ؎ بزار کی روایت میں ہے اس قصہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تابعیوں کے زمانہ تک حدیث کی اتنی عظمت تھی کہ حدیث کے مقابلے میں عقلی بات کو منہ سے نکالنا بہت معیوب گنا جاتا تھا اب قرب قیامت کے سبب سے یہ بات دنیا سے بالکل اٹھ گئی۔ تفسیر ابن جریر ٢ ؎ اور ابن ابی حاتم میں اذا الشمس کو رت سے واذ البحار سجرت تک کی تفسیر میں ابی بن کعب سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ پہلے صور کی یہ چھ نشانیاں ہیں کہ سورج کی روشنی جاتی رہے گی تارے زمین پر گر پڑیں گے۔ پہاڑ ٹوٹ کر اڑنے لگیں گے حاملہ اونٹنیوں کو جو عرب میں بڑی عزیز چیز ہے بدحواسی کے سبب سے لوگ چھوڑ دیں گے۔ جنگلی جانور گھبرا کر آدمیوں میں گھس آئیں گے دریا سلگ کر آگ ہوجائیں گے تفسیر عبدبن حمید ٣ ؎ اور ابن منذر میں سلف سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اذا النفوس زوجت سے و اذا الجنۃ ازلفت تک چھ نشان دوسرے صور کے وقت کے ہیں۔ اوپر گزر چکا ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس سے آدمیوں کے جسم بن کر تیار ہوجائیں گے اب ان جسموں میں روحوں کا تعلق جو کیا جائے گا اس کو واذا النفوس زوجت فرمایا۔ یہی تفسیر سلف کے مشہور قول کے موافق ہے۔ مودۃ وہ لڑکی ہے جس کو عرب کی رسم کے موافق جیتا گاڑ دیا جاتا تھا کیونکہ اسلام سے پہلے وہ لوگ دامادی کے رشتہ کو ایک شرم کا رشتہ خیال کرتے تھے قیامت کے دن اس جرم کی دریافت ہو کر قاتل کو سزا دی جائے گی۔ جب تک آدمی دنیا میں زندہ رہتا ہے اس کے ہر طرح کے عمل لکھے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے وہی کاغذ نکالے جائیں گے اور ہر شخص اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر اپنے عملوں کے حال سے خوف واقف ہوجائے گا دوسرے صور کے بعد آسمان کے پھٹ جانے کا جو مطلب ہے وہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حشر کے میدان میں طرح طرح کا انتظام کرنے کے لئے آسمان سے زمین پر بہت سے فرشتے جو آئیں گے ان کے لئے نئے آسمان میں دروازے کئے جائیں گے حال کے آسمان کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا پہلے صور کے وقت ہوگا جو اس کے علاوہ ہے بخاری ومسلم ٤ ؎ ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کی موجودہ حرارت دنیا کی آگ سے اونہتر درجہ زیادہ ہے اس پر قیامت کے دن اس کی آگ کو اور بھڑکایا جائے گا کہ اس کے منکر اس کا خوب مزہ چکھیں۔ اپنے اپنے عمل کے موافق کوئی ہوا کی طرح کوئی تیز گھوڑے کی طرح اور کوئی پیدل کی طرح پل صراط کا راستہ طے کرکے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ اس لئے واذا الجنۃ ازلفت کا یہ مطلب ہے کہ ہر شخص کو اس کے عمل کے موافق جنت کا راستہ قریب کردیا جائے گا۔ (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة تکویر ص ١٩١ ج ٢) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٧٥ ج ٤) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٧٥ ج ٤) (٢ ؎ تفسیر الدرا لمنثور ص ٢١٨) (٣ ؎ ایضاً ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ النار وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٢ ج ٢ و صحیح مسلم باب جہنم اعاذنا اللہ منھاص ٣٨١ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:1) اذا الشمس کورت : اذا شرطیہ (جب) الشمس فعل محذوف کا فاعل۔ کورت اسی فعل محذوف کی تفسیر ہے۔ کورت۔ ماضی مجہول صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تکویر (تفعیل) مصدر سے بمعنی تہ کرکے لپیٹنا۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لئے تکویر العمامۃ کے لفظ بولے جاتے ہیں۔ (اکار العمامۃ علی رأسہ اس نے پگڑی کو اپنے سر کے گرد لپیٹا) ۔ کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اس کو لپیٹا جاتا ہے اسی نسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے عمامہ سے تشبیہ دی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا۔ یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہوجائے گا۔ آیت یکور الیل علی النھار ویکور النھار علی الیل (39:5) وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹنا ہے میں مطالع شمسی کے تبدیل ہونے سے دن رات کے بڑھنے اور گھٹنے کو تکویر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے کورت بمعنی اظلمت (تاریک ہوجائے گا) فرمایا ہے۔ اذا شرطیہ جہاں جہاں آیا ہے اس کا جواب آیت نمبر 14 (علمت نفس ما اخضرت) میں دیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یا جب سورج لپیٹ لیا جائے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة التکویر۔ آیات ١ تا ٢٩۔ اسرار ومعارف۔ جب سورج بےنور ہوجائے گا اور ستارے ٹوٹ کر گرجائیں گے اور جب پہاڑ اکھیڑ کر اڑادیے جائیں گے اور لوگوں کو مال و دولت بھول جائے گا کہ عربوں کے نزدیک دس ماہ کی گابھن اونٹنی سب سے قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے ہر وقت دم کے ساتھ لگے پھرتے تھے کہ صحرا میں اس کادودھ نعمت غیر مترقہ ہوتا تھا مگر وہ بھی آوارہ پھر رہی ہوں گی یعنی لوگوں کو مال وزر کا ہوش نہ رہے گا اور نفخہ اولی سے گھبرا کر جنگلی جانور اور درندے آبادیوں میں آگھسیں گے اور دریا سمندر میں مل جائیں گے کہ زمین شق ہوجائے گی اور پھر ان میں اجرام فلکی گریں گے تو بھاپ بن کر اڑجائیں گے اور پھر فضا میں وہ بھاپ آگ پکڑلے گی تب دوسرا نفخہ ہوگا لوگوں کو جمع کرکے الگ الگ یکجاکیاجائے گا ، حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ تمام اقوام الگ الگ جمع ہوں گی مگر قومیت نسب سے نہ ہوگی بلکہ عقیدے اور عمل سے مرتب کی جائے گی لہذا ایک جیسے عقیدے اور ایک جیسے عمل والے لوگوں کے گروہ بنائے جائیں گے تب ہر عمل کا ھساب ہوگا کہ وہ بچی جسے پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اس کا بھی حساب لیاجائے گا جبکہ اس کی طرف سے نہ کوئی مدعی ہوگانہ گواہ گویا پوشیدہ ترین جرائم بھی سامنے لائے جائیں گے زندہ درگور بچی ۔ اخلاقی بدحالی اور بدکاری اس عروج پر تھی کہ لوگ بچی کا ہونا برداشت نہ کرپاتے اور زندہ دفن کردیتے اسلام نے نہ صرف یہ رسم ختم کی بلکہ بیٹیوں کو زندگی کا حقیقی اور باعزت ماحول فراہم کیا اور عزت وآبرو کی حفاظت فرمائی پردے کا حکم دیامردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا اور جب سب اعمال نامے کھولے جائیں گے تب آسمانوں سے پردے ہٹادیے جائیں گے کہ عالم بالا سامنے ہوگا اور دوزخ سب کے سامنے لائی جائے گی جو دہک رہی ہوگی اور جنت بھی سجی سنواری ہوئی روبرو ہوگی توہرشخص اپنے اعمال کو خود جان لے گا قسم ہے ان ستاروں کی جو کبھی پیچھے ہٹتے ہیں پھر سیدھے چلتے ہیں اور کبھی دبک رہتے ہیں یہ پانچ سیارے جو خمس متحیرہ کہلاتے ہیں ، زحل ، مشتری ، عطار ، مریخ ، اور زہرہ ، یعنی ان کی روش اور الٹ پلٹ جس سے لوگ مقدر کا اندازہ کرتے ہیں اور آنے والے واقعت کے تخمینے لگاتے ہیں توعجیب بات ہے ہر آدمی کے حالات میں بالا آخر زندگی کا خاتمہ ہی سمجھ میں آتا ہے۔ گویا یہ بھی قیام قیامت پر گواہ ہیں اور ان حقائق کی تصدیق کرتے ہیں جو قرآن بیان کرتا ہے لہذا یہ قرآن اللہ کا ایک برگزیدہ فرشتہ جبرائیل امین لے کر آیا جو بہت طاقتور ہے کوئی اس سے نہ چھین سکتا ہے اور نہ ملاوٹ کرسکتا ہے اور وہ مالک عرش پروردگار عالم کا بہت مقرب فرشتہ ہے تمام فرشتوں کا سردار اور امین ہے اسکی طرف سے ذرہ بھرکھٹکا نہی پھر یہ کلام رسول اللہ پہ آیا جن کی عظیم ذات اور کمالات سے تم آگاہ ہو وہ ایسے دانشور ہیں کہ جہان کو دانش تقسیم فرمائی اور فرشتہ کو کھلی آنکھوں کھلے آسمان کے کنارہ پر دیکھا لہذا غلطی کا امکان نہیں پھرو ہ ایسی غیب کی خبروں کو جن سے تمہارا مستقبل وابستہ ہے چھپاتے نہیں بلکہ موت بعد الموت اور حشر تک کے حالات وواقعات اور ذات وصفات باری ، فرشتہ ، عرش ، جنت و دوزخ سب تمہارے سامنے بیان فرما رہے ہیں اور ایسی باتیں جو حق کی طرف راہنمائی کرتی ہوں کبھی شیطانی نہیں ہوسکتیں کہ تمہیں یہ خیال گزرے معاذ اللہ کشف ہی تو ہے کہیں شیطان نے دھوکانہ دے دیا ہو ، معاذ اللہ اگر ایسا ممکن ہوتوگمراہی کا سبب بن جائے جو یہاں ہرگز نہیں ہے۔ کشف ، خواب اور شیطانی بات۔ کشف ولی کا بھی نبی کے کمال کا عکس ہوتا ہے جو نبی کے اتباع سے نصیب ہوتا ہے مگر ولی نبی کی طرح معصوم نہیں ہوتالہذا اسے دھوکا لگ سکتا ہے تو معیار یہ ہے کہ جو بات خلاف شریعت سمجھ میں آئے وہ شیطانی دھوکہ ہوگا یہی حال خواب کا ہے لہذا لوگو رسالت کونہ مان کر کیوں تباہی کی طرف جا رہے ہو کہ یہ سب صرف ہدایت اور راہنمائی ہے اور بھلے کی نصیحت ہے تمام جہانوں کے لیے مگر یہ سب تب ہی ہوسکے گا جب تم میں حق کی طلب تک ختم ہوچکی ہوتومرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔ مسئلہ ضبط تولید۔ جس طرح بچوں کا قتل کرنا یا زندہ دفن کرنا ظلم ہے ویسے چار ماہ یعنی ایک صدبیس روز بعد اسقاط کرنا بھی قتل ہے کہ بچے میں جان پڑجاتی ہے حتی کہ عورت کو اگر ماراجائے اور اس سے حمل گرجائے تودیت لازم آئے گی جو ایک غلام آزاد کرنا یاس کی قیمت ادا کرنا ہوگی نیز اگر زندہ پیدا ہو کر اسی صدمے کے باعث مرجائے تو پورے بڑے آدمی کے قتل کے مطابق دیت ہوگی اور چارماہ سے پہلے حمل گرانا بدون شرعی حرام ہے مگر پہلے جتنا جرم نہیں۔ ضبط تولید کے نام سے ایسے علاج جو عورت کو بانجھ کردیتے ہوں یا مرد کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیں حدیث شریف کے مطابق بچے کو خفیہ طریقے سے زندہ دفن کرنا ہے اور بعض وقتی تدابیر جیسے ، عزل ، یعنی مرد الگ ہوکرفارغ ہو کہ نطفہ رحم میں نہ جائے پرسکوت ہے یعنی ضرورت کے ساتھ مخصوص ہے۔ مظہری۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ کورت۔ لپیٹ دے گیا۔ انکدرت۔ ماند پڑگئی۔ (پڑ گئے) سیرت۔ چلا دی گئی۔ العشار۔ گابھن اونٹنیاں۔ عطلت۔ چھٹ کر پھری۔ الوحوش (وحش) ۔ جنگلی جانور۔ حشرت۔ آپس میں گڈ مڈ ہوجائیں۔ سجرت۔ جھونکے گئے۔ زوجت۔ جوڑے جوڑے بنا دئیے گئے۔ الموئو دۃ ۔ زمین میں گاڑدی گئی لڑکی۔ سئلت۔ پوچھا گیا۔ الصحف۔ اعمال نامے۔ نشرت۔ پھیلا دئیے۔ کشطت۔ پرت کے پرت اتا رلئے گئے۔ کھال کھینچ لی گئی۔ سعرت۔ بھڑکائی گئی۔ ازلف۔ قریب کردی گئی۔ احضرت۔ وہ لے کر حاضر ہوا۔ الخنس۔ پیچھے ہٹ جانے والے۔ الکنس۔ چھپ جانے والے۔ عسعس۔ پھیل گیا۔ تنفس۔ روشن ہوا۔ مکین۔ مرتبہ والا۔ مطاع۔ جس کی اطاعت کی جائے۔ کہا مانا جائے۔ الافق۔ کنارہ۔ بضنین۔ کنجوسی کرنے والا۔ تشریح : قیامت کے ہولناک دن جب پورے نظام کائنات کو درہم برہم کرکے میدان حشر میں تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا وہ دن انسان اور کائنات کے لئے بڑا بھاری اور ہیبت ناک لمحہ ہوگا۔ جس میں کسی کے ساتھ بےانصافی نہ کی جائے گی اور ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق یا تو عذاب اور سزا دی جائے گی یا وہ اللہ کے فضل و کرم اور انعام کا مستحق ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ معصوم لڑکی جس کو ناحق قتل کیا گیا تھا اس کی فریاد سن کر قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ اس دن سورج کی پھیلی ہوئی کرنوں اور روشنی کی لپیٹ کر اس کو بےنور کردیا جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے پہاڑ جو زمین پر میخوں کی طرف گاڑ دئیے گئے ہیں جس سے زمین اپنا تو ازن قائم رکھے ہوئے تھی وہ کود بےوزن ہو کر اڑتے پھریں گے۔ دس ماہ کی گابھن اونٹنی جو عربوں کے نزدی بےانتہا قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی اور ہر وقت اس کی نگرانی کرتے تھے انہیں اس کی حفاظت کا ہوش تک نہ ہوگا اور وہ اونٹنی آوارہ پھرتی ہوگی۔ وحشی جانور جو انسانوں اور ان کی آبادیوں سے گھبراتے ہیں وہ سب پریشان ہو کر آبادیوں میں گھس آئیں گے اور ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔ جب ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور اس کا پانی آگ بجھانے کے بجائے خود آگ بن کر بھڑک اٹھے گا۔ جب مختلف گروہ آپس میں جوڑ دئیے جائیں گے یعنی جس کا تعلق جس گروہ سے ہوگا وہ اس کے ساتھ جڑ جائے گا۔ اس دن ان ظلاموں اور قاتلوں کو سخت سزا دی جائے گی جنہوں نے معصوم بچیوں کو قتل کیا ہوگا۔ اس معصوم لڑکی کو فریادی بنا کر پوچھا جائے گا کہ آخر یترا جرم کیا تھا جس کی وجہ سے تجھے مارا گیا تھا ؟ اس طرح اس کے قاتلوں سے انتقام لیا جائے گا۔ جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی یعنی جس طرح جانور کی کھال اتارنے کے بعد اس کے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا اسی طرح آسمان کو کھول دیا جائے گا۔ اور ابھی تک انسانوں کی نظروں سے جو چیزیں پوشیدہ تھیں وہ ظاہر کردی جائیں گی۔ اس دن جہنم کی آگ میں شدت پیدا کرنے کے لئے اس کو دھونکایا جائے گا اور جنت کو اہل ایمان سے قریب تر کردیا جائے گا۔ اس وقت ہر شخص کے اپنے کئے ہوئے اعمال اس کے سامنے آجائیں گے۔ نامہ اعمال ان کے ہاتھوں میں دیدئیے جائیں گے اور ہر شخص اندازہ لگالے گا کہ آج وہ اپنے پروردگار کے سامنے کیا کچھ لے کر آیا ہے۔ فرمایا کہ جس طرح قیامت کا آنا برحق ہے اسی طرح یہ بھی سچائی ہے کہ اللہ نے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا جو کلام نازل کیا ہے وہ انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہی ہدایت ہے جو بھی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے اور اس کو اللہ کی طرف سے توفیق بھی مل جائے تو اس کو اس نصیحت سے بہت فائدہ حاصل ہوگا ۔ یہ وہ پاکیزہ کلام ہے جو ہر طرح محفوط ہے جس کی حفاظت اس کے فرشتے کرتے ہیں۔ شیطانوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اس میں کسی طرح بھی مداخلت کرسکیں یا اللہ کے کلام جیسا کلام لے کر آسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کی قسم کھائی ہے جو پلٹنے اور چھپ جانے والے ہیں۔ رات کے اندھیرے کی قسم جب وہ سمٹ جاتا ہے اور اس سے صبح کی روشنی ظاہر ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اس قرآن کو لانے والا وہ پیغام برفرشتہ جبرئیل ہے جو بڑی قوت والا، عرش والے کے نزدیک بڑے رتبے والا، جس کی بات فرشتے بھی مانتے ہیں اور نہایت امانت دار ہے وہ اس قرآن کو لے کر اس ہستی پر نازل ہوتے ہیں جو اپنے اخلاق کے اعتبار سے نہایت بلند ہیں وہ کوئی دیوانے یا مجنون نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی اس فرشتے کو آسمان کے صاف کنارے پر دیکھا ہے۔ جب وہ اللہ کے حکم سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اللہ کا پیغام پہنچا دیتے ہیں تو آپ ان کاہنوں کی طرح نہیں ہیں جو لوگوں کو پوری بات نہیں بتاتے بلکہ آپ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہر حکم اور پویشدہ باتوں کو ہر شخص کے سامنے کھول کر بیان فرما دیتے ہیں اس کے پہنچانے میں آپ کسی بخل اور کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے ہولناک دن حضرت جبرئیل کی قوت و طاقت، دیانت و امانت اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رسالت اور قرآن کریم کے سراسر نصیحت ہونے کے دلائل کے بعد ان لوگوں سے سوال کیا ہے جو اتنی سچائیوں کے باوجود ان کو تسلیم نہیں کرتے کہ لوگو ! تم کدھر جا رہے ہو ؟ اللہ کی توفیق کیوں نہیں مانگتے ؟ کیونکہ جب تک اس کی تو فقی عطا نہیں کی جائے گی اس وقت تک یہ سعادت تمہارے حصے میں نہیں آسکتی۔ وجہ یہ ہے کہ اس کائنات میں وہی ہوتا ہے جسے جس طرح رب العالمین چاہتا ہے۔ اس کی مشیت یا چاہت کے بغیر کوئی سعادت نصیب نہیں ہوسکتی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورت عبس کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کے چہروں پر ذلّت اور سیاہی چھائی ہوگی۔ التکویر میں قیامت کے ابتدائی مراحل ذکر فرما کر بتلایا ہے کہ انسان نے دنیا میں رہ کر جو کچھ کیا ہوگا وہ قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس حالت میں کہ اس کے ایک طرف جہنم دھک رہی ہوگی اور دوسری طرف جنت مہک رہی ہوگی۔ اس سورة کی ابتدا میں قیامت کے پہلے ہولناک مرحلہ کا منظر پیش کیا گیا ہے اسرافیل جونہی پہلی صور پھونکے گا تو زمین و آسمانوں میں ہلچل مچ جائے گی۔ ہر جاندار موت کے گھاٹ اتر جائے گا یہاں تک کہ سورج اپنی روشنی اور حرارت کھو بیٹھے گا۔ جس کے لیے ” کُوِّ رَتْ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” کُوِّ رَتْ “ کا لفظ تکویر سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کسی چیز کے لپیٹنے کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے عرب ” تکویر العمامہ “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی دستار کو سر پر لپیٹنا۔ سورج کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اس کے چار سو پھیلی ہوتی ہے یہ روشنی قیامت کے دن سمٹ کر بالآخر ختم ہوجائے گی۔ اس مناسبت سے فرمایا ہے کہ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ آج سورج ایک کُرّہ کی شکل میں موجود ہے اسے بےنور کرنے کے ساتھ سکیڑ دیا جائے گا۔ شمسی نظام میں چاند، ستارے اور سورج آپس میں کسی نہ کسی لحاظ سے منسلک ہیں، جب سورج، چاند اور ستاروں کا آپس میں اتصال ختم ہوجائے گا تو چاند، ستارے اور سورج بھی بےنور ہو کر گرپڑیں گے۔ صور پھونکنے کی وجہ سے زمین میں انتہادرجے کے زلزلے ہوں گے جن سے پہاڑوں کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی اور یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرپڑیں گے اور بالآخر ریت کے ذرّات بن کر اڑنے لگیں گے، چوپاؤں اور وحشی جانوروں کی کیفیت یہ ہوگی کہ جس شیر اور بھیڑیے کا کام پھاڑ ڈالنا ہے وہ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اس قدر گھبرائے ہوئے ہوں گے کہ کسی پر پنجہ اٹھانے کی سکت نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ سانپ اور بچھو بھی کسی کو کاٹ نہیں سکیں گے۔ اس حالت میں جنگل کے جانور ایک دوسرے کے ساتھ سمٹے اور سہمے ہوئے ہوں گے۔ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی بھی اپنا حمل گر ادے گی اور مدہوش پھرے گی کوئی اس کا والی وارث نہیں ہوگا۔ حاملہ اونٹنی کا ذکر فرما کر بات ثابت کی ہے کہ لوگ اپنی عزیز سے عزیز تر چیزکو بھی بھول جائیں گے۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت عربوں کے ہاں دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کی بڑی قدروقیمت تھی۔ اس سے ان کے مال میں اضافہ ہوتا تھا، وہ اس اونٹنی کا دودھ پیتے اور اسے سواری کے لیے استعمال کرتے تھے، اس بنا پر عرب اس اونٹنی کا دوسرے جانوروں سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اونٹوں کے چرواہے حاملہ اونٹنی سے بھی بےپرواہ ہوں گے۔ قیامت کی وحشت سے صرف زمین و آسمانوں میں ہلچل نہیں مچے گی بلکہ سمندر کا پانی بھی آگ بن کر بھڑکنے لگے گا۔ سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پانی دو گیسوں پر مشتمل ہوتا ہے آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ آکسیجن کا کام آگ کو بجھانا اور ہائیڈروجن آگ کو تیز کرتی ہے، اس دن سمندر کا پنی ہائیڈروجن بن کر آگ کی شکل اختیار کرجائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یُکَوِّرَانِ فِیْ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَقَالَ الْحَسَنُ مَا ذَنْبَہُمَا ؟ فَقَالَ إِنِّیْ أُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَسَکَتَ الْحَسَنُ ) (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت حسن (رض) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سنا رہا ہوں ان کی یہ بات سن کر حضرت حسن (رض) خاموش ہوگئے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم سے ہر چیز تباہ کردی جائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن پہاڑوں کو روئی کی شکل میں اڑا دیا جائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک منظر ہے جس میں اس پوری کائنات میں مکمل انقلاب کے نظارے کی عکاسی کی گئی ہے۔ تمام موجودات کے اندر انقلاب برپا ہے ، یہ انقلاب اجرام سماوی اور اس کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ وحشی جانور اور خانگی جانور بھی اس سے متاثر ہیں ، نفس انسانی اور اس کی حرکات بدل چکی ہیں ، ہر نامعلوم حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے اور ہر راز طشت ازبام ہوچکا ہے۔ اور انسان اپنی کمائی اور اپنے اس زادراہ کے سامنے کھڑا ہے اور حساب و کتاب شروع ہے اور حیران وپریشان ہے کہ اس کے ارد گرد ہر چیز اس عظیم طوفان کی زد میں آچکی ہے ، اور کائنات کا تمام نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے۔ یہ عظیم کائناتی واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہ حسین و جمیل اور یہ عظیم کائنات اور اس کا نظام ، جس کی تمام حرکات موزوں اور مرتب ہیں ، جس کی شاخت نہایت ہی مستحکم ہے۔ اور جس کے اندر قائم کشش نہایت موزوں ہے اور جسے نہایت علیم و حکیم ہاتھوں نے بنایا ہے ، یہ پوری کائنات بکھر بکھر جائے گی ، اس کے اس مستحکم نظام کی بندش کھل جائے گی۔ جن قوتوں اور جن صفات کی وجہ سے یہ اس طرح چل رہی ہے ، یہ سب جاتی رہیں گی ، غرض یہ پورا موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر یہ کائنات اور اس کی مخلوقات ایک نئی زندگی پائیں گے۔ یہ نئی کائنات اور یہ نئی زندگی موجودہ خصوصیات سے مختلف ہوگی۔ یہی تصور ہے جو یہ سورت قلب ونظر میں بٹھانا چاہتی ہے تاکہ انسان سوچ لے اور انسانی شعور ان ظاہری اور عارضی مناظر سے ہٹ جائے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ بہت ہی مضبوط نظر آئیں اور ان حقائق کو اپنے اندر سمولے جو باقی رہنے والے ہیں۔ انسان اس ذات باری کات صور کرے جو باقی اور لازوال ہے اور وہ ذات اس وقت بھی باقی ہوگی جبکہ یہ پوری کائنات زائل ہوجائے گی اور عظیم حوادث اس کی شکل ہی بدل دیں گے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس ظاہری اور عادی اور صرف نظر آنے والی کائنات کے دائرے سے نکل کر اس مطلق حقیقت اور ذات باری کے ساتھ جڑ جائے جو زمان ومکاں سے وراء ہے جو انسانی احساس اور تصور سے آگے ہے ، جو کسی دائرے اور حد کے اندر محدود نہیں ہے۔ یہ ہے وہ حقیقی شعور جو ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان ان عظیم انقلابی مناظر کو اس سورت میں دیکھتا ہے۔ اس مشاہدے سے گویا انسان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور اللہ کی عظمت کا شعور ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن عملاً کیا ہوگا ؟ تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ہمارا شعور اور ہمارا تصور بہت محدود ہے۔ آج ہم ان عظیم انقلابات کا پور اتصور نہیں کرسکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس زمین پر ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ اور یہ زلزلہ ہر طرف تباہی مچا دے گا اور زمین کے اندر سے ایک ایسا ناقابل کنٹرول آتش فشانی کا عمل ہوگا اور زمین کے اوپر سیارے اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے اور سمندروں کا پانی طوفانی شکل اختیار کرلے گا اور یہ کو سورج کے اندر بھی آتش فشانی کا عمل ہوگا اور اس کے شعلے لاکھوں میلوں تک اٹھیں گے اور یہ مشاہدات انسان دیکھ بھی سکے گا۔ لیکن قیامت کے برپا ہونے کے وقت جو کائناتی انقلابات ہوں گے ، ہماری یہ سوچ یہ باتیں اور یہ مشاہدات ان کے مقابلے میں طفل تسلیاں ہیں۔ اگر ہمارے لئے ان کا سمجھنا ضروری ہے تو ہم صرف ایسی عبارات میں لاسکتے جو ان واقعات کا مجمل سا تصور پیش کریں کیونکہ اس کے سوا ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اذا الشمس کورت (1:81) ” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا “۔ اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے اندر برپا اشتعال ختم ہوجائے گا۔ اس وقت سورج کے اندر جلن کا عمل شروع ہے اور اس سے جو شعلے اٹھ رہے ہیں ، وہ اس کے اردگرہزاروں میل تک بلند ہوتے ہیں۔ جب سورج گرہن ہوتا ہے تو اس وقت رصدگاہوں سے یہ عمل صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ سورج کے اس جلنے کے عمل سے سورج پر موجود تمام مواد ایک اڑتے ہوئے گیس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یہ گیس جلتی ہوئی سورج کی فضا میں بلند ہوتی ہے۔ یہ حالت اس طرح نہ رہے گی اور سورج اسی طرح ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جس طرح ہماری یہ زمین ٹھنڈی ہوگئی ہے اور اس کے اوپر کوئی التہابی عمل نہیں ہے۔ اس کے سوا سورت کا اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یہ عوامل کس طرح وجود میں آئیں گے ، ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس سورت میں قیامت کے دن کے احوال اور اھوال بیان کیے گئے ہیں کچھ نفخہ اولیٰ کے وقت اور کچھ نفخہ ثانیہ کے وقت کے ہیں، نفخہ اولیٰ کے وقت کے چھ حالات بیان فرمائے ہیں۔ اولاً ﴿اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۪ۙ٠٠١﴾ (جب سورج کو لپیٹ دیا جائے) ۔ کورت لغوی ترجمہ یہ ہی ہے اس کا لپیٹ دینا بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب بتایا کہ سورج کی روشنی لپیٹ دی جائے گی یعنی بےنور کردیا جائے گا۔ یہ مطلب حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت حسن اور قتادہ اور مجاہد سے مروی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں وفزعت الجن الی الانس، والانس الی الجن واخلطت الدواب والطیر والوحوش ماجوا بعضہم فی بعض (ابن جریر ج 30 ص 63) ۔ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) فرماتے ہیں۔ یعنی جنگل کے جانور جو آدمی کے سایہ سے بھاگتے ہیں مضطرب ہو کر شہر میں آ گھسیں اور پالتو قسم کے جانوروں میں مل جائیں جیسا کہ اکثر خوف کے وقت دیکھا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) جب آفتاب لپیٹ دیا جائے یعنی اس کو دھوپ تہ کردی جائے مطلب یہ ہے کہ آفتاب بےنور ہوجائے اور اس کی روشنی سلب کرلی جائے۔