Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 14

سورة التكوير

عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾

A soul will [then] know what it has brought [with it].

تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every person will know what he has brought. This is the conclusive response of the previous statements, meaning at the time these matters occur, every soul will know what it has done, and that will be brought forth for it, as Allah says, يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدَا بَعِيدًا On the Day when every person will be confronted with all the good he has done, and all the evil he has done, he will wish that there were a great distance between him and his evil. (3:30) Allah also says, يُنَبَّأُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ On that Day man will be informed of what he sent forward, and what he left behind. (75:13)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ جواب ہے یعنی مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقت آجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اس علم کے ذریعے دو ہوں گے۔ ایک تو ہر انسان اپنے اعمال کا ٹھیک ٹھیک محاسب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ حیلے بہانوں یا اپنے نفس کی طرفداری سے کام نہ لے۔ دوسرے ہر شخص کے اعمال نامے بھی کھول کر انہیں دے دیئے جائیں گے۔ ان دو چیزوں سے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عدالت سے فیصلہ سے پہلے ہی یہ سمجھ لے گا کہ آیا وہ جنت کا مستحق قرار پائے گا یا جہنم کا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(علمت نفس ما احضرت : شروع سورت سے یہاں تک کل بارہ چیزوں کا ذکر ہوا ہعے، جب یہ بارہ چیزیں ہوجائیں گی تو کیا ہوگا ؟ اس کا جواب ہے :(علمت نفس ما احضرت) کہ ہر جان جو کچھ لے کر آئی ہے اسے جان لے گی۔” نفس “ کی تنکیر عموم کے لئے ہے، اسلئے ترجمہ ” ہر جان “ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَ‌تْ (then everyone will know what he [ or she ] has put forward... 81:14). It means that when Resurrection, with all the horrors mentioned above, will take place, man will realise what he has brought with him. The word &what& here refers to his good and bad deeds, all of which will be in front of him, either in the form of the Record of Deeds that will be given in his hands or his deeds will assume a specific body shape as is understood from certain Traditions. Allah knows best! Having described the horrors of Resurrection, and the accountability of deeds, Allah swears an oath by a few stars to confirms that the Qur&an is the truth that has been sent down, fully protected from any interruption or distortion, and that the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who has received it is a great personality, and the angel (Jibra&il علیہ السلام) who descended with it was known to him before hand. Therefore, there can be no room for any doubt about its veracity. The verses here swear an oath by five stars which the ancient Greeks called khamsah mutahayyirah or &the five wandering stars&, since they seemed to stray irregularly across the sky. At times they are seen moving from East to West, and at others, from West to East. Different reasons have been assigned to their irregular movements. The ancient Greeks hold several contradictory explanations for this. The research of modern scientists concurs with some of the ancient philosophers, and differs from some others. The Creator alone knows the truth and reality. The scientists merely guess and conjecture which may be wrong. The Qur&an has, therefore, not involved its readers in such a useless debate. Allah showed us what was beneficial, that is, to observe the Divine Omnipotence, His Consummate Wisdom and to repose our faith in Him.

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ ، یعنی جب قیامت کے حالات مذکورہ پیش آویں گے اس وقت ہر انسان جان لیگا کہ وہ اپنے ساتھ کیا سامان لایا ہے۔ سامان سے مراد اس کا نیک یا بد عمل ہے کہ وہ سب اعمال اسکے سامنے آجاویں گے جو دنیا میں کئے تھے خواہ اس طرح کے صحائف اعمال میں لکھے ہوئے اسکے ہاتھ میں آجائیں یا اس طرح کے یہ اعمال کسی خاص شکل و صورت میں اسکے سامنے آویں جیسا کہ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم، قیامت کے احوال اور ہولناک مناظر اور وہاں محاسبہ اعمال کا ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے چند ستاروں کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ قرآن حق ہے اللہ کی طرف سے بڑی حفاظت کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور جس ذات پر نازل ہوا ہے وہ ذات ایک بڑی ہستی ہے وحی لانے والے فرشتے کو وہ پہلے سے جانتے پہچانتے تھے اسلئے اس کے حق ہونے میں کسی شک وشبہ کی راہ نہیں۔ جن ستاروں کی قسم یہاں کھائی گئی وہ پانچ ستارے ہیں جن کو علم ہیت فلکیات میں خمسہ متحیرہ کہتے ہیں اور متحیرہ کہنے کیوجہ یہ ہے کہ ان پانچوں ستاروں کی حرکت دنیا میں اس طرح دیکھی جاتی ہے کہ کبھی مشرق سے مغرب کی طرف چل رہے ہیں کبھی پھر پچھے کو مغرب سے مشرق کی طرف چلنے لگے ہیں اس کی وجہ کیا، اور دو مختلف حرکتوں کا سبب کیا ہے، اسکے بارے میں قدیم فلسفہ یونان والوں کے مختلف اقوام ہیں اور جدید فلسفہ والوں کی تحقیق ان میں سے بعض کے مطابق ہے بعض کے خلاف اور حقیقت کا علم، پیدا کرنیوالے کے سوا کسی کو نہیں، سب تخمینے اور اندازے ہی ہیں جو غلط بھی ہوسکتے ہیں صحیح بھی، قرآن حکیم نے امت کو اس فضول بحث میں نہیں الجھایا، جتنی بات ان کے فائدہ کی تھی وہ بتلادی کہ وہ رب العزت جل شانہ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا اس میں مشاہدہ کریں اور ایمان لائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۝ ١٤ ۭ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ ۔ } ” (اُس دن) ہر جان جان لے گی کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے۔ “ یعنی ہر انسان کے تمام اعمال کی پوری تفصیل اس کے سامنے آجائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:14) علمت نفس ما احضرت۔ آیت 1 سے لے کر 13 تک جہاں جہاں اذا شرطیہ آیا ہے یہ آیت سب کے لیے جواب ہے۔ اس وقت ہر شخص اپنی کی ہوئی اچھائی یا برائی کو جان لے گا۔ احضرت ماضی معروف واحد مؤنث غائب احضار (افعال) مصدر سے۔ اس نے حاضر کیا۔ وہ ساتھ لایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اچھے اعمال لایا ہے یا برے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

علمت .................... احضرت (14:81) ” اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے “۔ اس خوفناک دن کے اندر ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس کیا ہے اور اس کے ذمہ کیا ہے ، اس روز اس کو معلوم ہوجائے گا اور اس کی حالت یہ ہوگی کہ وہ کانپ رہا ہوگا اور اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اب وہ اپنے اعمال نامے میں کچھ بھی تغیر وتبدل نہیں کرسکتے گا۔ نہ اس میں کوئی زیادتی ہوگی اور نہ کمی ہوگی ، اسے یہ بات ایسے حالات میں معلوم ہوگی کہ وہ دنیا سے کٹ چکا ہوگا ، مستقبل کے بارے میں ان کے جو تصورات تھے ، وہ نہ رہے۔ وہ دنیا سے کٹ گئے اور دنیا ان سے دور ہوگئی۔ ہر شے متغیر ہوگئی اور ہر شے بدل سی گئی ہے۔ آج تو صرف ذات باری ہی قائم ودائم ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ لوگ اس دنیا ہی میں رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے تاکہ قیامت میں بدلتے ہوئے حالات میں بھی اللہ ان کے سامنے موجود ہوتا۔ ان موثر اشارات پر یہ پہلا پیرگراف ختم ہوتا ہے اور انسانی احساس کو گہرے شعور سے بھر دیتا ہے اور قیامت کے مناظر انسان کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں اور انقلاب مکمل ہوتا ہے۔ اب دوسرا پیرگراف آتا ہے ، اس میں اس کائنات کے خوبصورت ترین مناظر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اس کے لئے نہایت ہی خوبصورت تصورات چنے گئے ہیں۔ وحی کیا ہے ، اس پر قسم ہے ، منصب رسالت اور وہ فرشتے کیسے ہیں جو اس کو لے کر آرہے ہیں اور اس قرآن کے مقابلے میں لوگوں کا جو رد عمل ہے وہ بھی دائرہ مشیت الٰہیہ میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّاۤ اَحْضَرَتْؕ٠٠١٤﴾ (ہر شخص ان اعمال کو جان لے گا جو اس نے حاضر کیے) یعنی جب مذکورہ بالا امور پیش آئیں گے تو ہر جان کو اپنے کیے دھرے کا پتہ چل جائے گا، اعمال نامے سامنے ہوں گے اور خیر اور شر کا جو بھی عمل کیا ہوگا وہ وہاں موجود ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) تو اس وقت ہر شخص ان اعمال کو جان لے گا جو لے کر آیا ہوگا یعنی ہر نفس اس کو جان لے گا جو اس نے حاضر کیا ہوگا۔ یوم تجد کل نفس ماعملت من خیر محضرا وما عملت من سوئ۔