Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 15

سورة التكوير

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾

So I swear by the retreating stars -

میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Explanation of the Words Al-Khunnas and Al-Kunnas Muslim recorded in his Sahih, and An-Nasa'i in his Book of Tafsir, in explaining this Ayah, from `Amr bin Hurayth that he said, "I prayed the Morning prayer behind the Prophet , and I heard him reciting, فَلَ أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ

ستارے ، نیل گائے اور ہرن حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سورہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اس نماز میں میں بھی مقتدیوں میں شامل تھا ( مسلم ) یہ ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں جو دن کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں یعنی چھپ جاتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں اور بھی صحابہ تابعین وغیرہ سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے بعض ائمہ نے فرمایا ہے طلوع کے وقت ستاروں کو خنس کہا جاتا ہے اور اپنی اپنی جگہ پر انہیں جوار کہا جاتا ہے اور چھپ جانے کے وقت انہیں کنس کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے اس سے مراد جنگلی گائے ہے یہ بھی مروی ہے کہ مراد ہرن ہے ۔ ابراہیم نے حضرت مجاہد سے اس کے معنی پوچھے تو حضرت مجاہد نے فرمایا کہ ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا البتہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ستارے ہیں ۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ جو تم نے سنا ہو وہ کہو تو فرمایا ہم سنتے ہیں کہ اس سے مراد نیل گائے ہے جبکہ وہ اپنی جگہ چھپ جاتے ۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا وہ مجھ پر جھوٹ باندھتے ہیں جیسے حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اسفل کو اعلیٰ اور اعلی کو اسفل کا ضامن بنایا امام ابن جریر نے اس میں سے کسی کی تعبین نہیں کی اور فرمایا ہے ممکن ہے تینوں چیزیں مراد ہوں یعنی ستارے نیل گائے اور ہرن ۔ عسعس کے معنی ہیں اندھیری والی ہوئی اور اٹھ کھڑی ہوئی اور لوگوں کو ڈھانپ لیا اور جانے لگی ۔ صبح کی نماز کے وقت حضرت علی ایک مرتبہ نکلے اور فرمانے لگے کہ وتر کے بارے میں پوچھنے والے کہاں ہیں ؟پھر یہ آیت پڑھی ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں کہ رات جب جانے لگے کیونکہ اس کے مقابلہ میں ہے کہ جب صبح چمکنے لگے ، شاعروں نے عسعس کو ادبر کے معنی میں باندھا ہے میرے نزدیک ٹھیک معنی یہ ہیں کہ قسم ہے رات کی جب وہ آئے اور اندھیرا پھیلا ئے اور قسم ہے دن کی جب وہ آئے اور روشنی پھیلائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) اور جگہ ہے آیت ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1 ) اور جگہ ہے آیت ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96؀ ) 6- الانعام:96 ) اور بھی اس قسم کی آیتیں بہت سی ہیں مطلب سب کا یکساں ہے ، ہاں بیشک اس لفظ کے معنی پیچھے ہٹنے کے ہی ہیں ۔ علماء اصول نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ آگے آنے اور پیچھے جانے کے دونوں کے معنی میں آتا ہے ۔ اس بناء پر دونوں معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں واللہ اعلم ، اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ طلوع ہو اور روشنی کے ساتھ آئے ۔ پھر ان قسموں کے بعد فرمایا ہے کہ یہ قرآن ایک بزرگ ، شریف ، پاکیزہ رو ، خوش منظر فرشتے کا کلام ہے یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ، وہ قوت والے ہیں جیسے کہ اور جگہ ہے آیت ( عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى Ĉ۝ۙ ) 53- النجم:5 ) یعنی سخت مضبوط اور سخت پکڑ اور فعل والا فرشتہ ، وہ اللہ عز و جل کے پاس جو عرش والا ہے بلند پایہ اور ذی مرتبہ ہے ۔ وہ نور کے ستر پردوں میں جا سکتے ہیں اور انہیں عام اجازت ہے ۔ ان کی بات وہاں سنی جاتی ہے برتر فرشتے ان کے فرمانبردار ہیں ، آسمانوں میں ان کی سرداری ہے ۔ کہ وہ فرشتے ان کے تابع فرمان ہیں ۔ وہ اس پیغام رسانی پر مقرر ہیں کہ اللہ کا کلام اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں یہ فرشتے اللہ کے امین ہیں مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں سے جو اس رسالت پر مقرر ہیں وہ بھی پاک صاف ہیں اور انسانوں میں جو رسول مقرر ہیں وہ بھی پاک اور برتر ہیں ۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا ، تمھارے ساتھی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیوانے نہیں ، یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہوئے تھے یہ واقعہ بطحا کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ کا دیکھنا تھا آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدار جبرائیل ہوا تھا ، اسی کا بیان اس آیت میں ہے آیت ( عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى Ĉ۝ۙ ) 53- النجم:5 ) یعنی انہیں ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے قوی ہے ، جو اصلی صورت پر آسمان کے بلند و بالا کناروں پر ظاہر ہوا تھا پھر وہ نزدیک آیا اور بہت قریب آ گیا صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم پھر جو وحی اللہ نے اپنے بندے پر نازل کرنی چاہی نازل فرمائی ، اس آیت کی تفسیر سورہ النجم میں گزر چکی ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت معراج سے پہلے اتری ہے اس لیے کہ اس میں صرف پہلی مرتبہ کا دیکھنا ذکر ہوا ہے اور دوبارہ کا دیکھنا اس آیت میں مذکور ہے ۔ آیت ( وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13۝ۙ ) 53- النجم:13 ) یعنی انہوں نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا ہے جس کے قریب جنت الماویٰ ہے ۔ جبکہ اس درخت سدرہ کو ایک عجیب و غریب چیز چھپائے ہوئی تھی ۔ اس آیت میں دوسری مرتبہ کے دیکھنے کا ذکر ہے ۔ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی ۔ بضنینٍ کی دوسری قرأت بظنینٍ بھی مروی ہے ۔ یعنی ان پر کوئی تہمت نہیں اور ضاد سے جب پڑھو تو معنی ہوں گے یہ بخیل نہیں ہیں بلکہ ہر شخص کو جو غیب کی باتیں آپ کو اللہ کی طرف سے معلوم کرائی جاتی ہیں یہ سکھا دیا کرتے ہیں یہ دونوں قرأت یں مشہور ہیں ، پس آپ نے نہ تو تبلیغ احکام میں کمی کی ، نہ تہمت لگی ، یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں ، نہ شیطان اسے لے سکے نہ اس کے مطلب کی یہ چیز نہ اس کے قابل جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ ٢١٠؁ ) 26- الشعراء:210 ) اسے لیکر شیطان اترے نہ انہیں یہ لائق ہے نہ اس کی انہیں طاقت ہے وہ تو اس کے سننے کے بھی محروم اور دور ہے ۔ پھر فرمایا تم کہاں جا رہے ہو یعنی قرآن کی حقانیت اس کی صداقت ظاہر ہو چکنے کے بعد بھی تم کیوں اسے جھٹلا رہے ہو؟ تمھاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟حضرت ابو بکرصدیق کے پاس جب بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا مسلمیہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے جسے تم آج تک مانتے رہے اس نے جو کلام گھڑ رکھا ہے ذرا اسے تو سناؤ ، جب انہوں نے سنایا تو دیکھا کہ نہایت رکیک الفاظ ہیں بلکہ بکواس محض ہے تو آپ نے فرمایا تمھاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟ذرا تو سوچو کہ ایک فضول بکواس کو تم کلام اللہ سے اور اطاعت اللہ سے کہاں بھاگ رہے ہو ؟پھر فرمایا یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پند و نصیحت ہے ۔ ہر ایک ہدایت کے طالب کو چاہیے کہ اس قرآن کا عامل بن جائے یہی نجات اور ہدایت کا کفیل ہے ، اسکے سوا دوسرے کے کلام میں ہدایت نہیں ، تمھاری چاہتیں کام نہیں آتیں کہ جو چاہے ہدایت پا لے اور جو چاہے گمراہ ہو جائے بلکہ یہ سب کچھ منجانب اللہ ہے وہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اسی کی چاہت چلتی ہے ، اس سے اگلی آیت کو سن کر ابو جہل نے کہا تھا کہ پھر تو ہدایت و ضلالت ہمارے بس کی بات ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ، سورہ تکویر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] بطلیموسی نظریہ ہیئت اور خمسہ متحیرہ :۔ مندرجہ بالا آیات میں بارہ واقعات کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے پہلی چھ آیات یا چھ واقعات قیامت کی ابتدا یا نفخہ ئصور اول سے متعلق ہیں اور دوسرے چھ نفخہ صور ثانی یا میدان محشر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اسی دنیا کے چند اہم امور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت ٤٠٠ قبل مسیح سے لے کر سترہویں صدی تک یعنی دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ اتنا مقبول رہا کہ دنیا کے تمام مدارس اور یونیورسٹیوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی رہی۔ اس نظریہ کے مطابق زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک قرار دیا گیا۔ سات آسمان اور افلاک تسلیم کیے گئے اور ان پر سات سیارے۔ یعنی ہر فلک میں ایک سیارہ محو گردش ہے۔ اور اس نظریہ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ہندو پاکستان میں جنتریاں اسی نظریہ کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق پہلے آسمان پر چاند، دوسرے پر زہرہ، تیسرے پر عطارد چوتھے پر سورج پانچویں پر مشتری، چھٹے پر مریخ اور ساتھویں پر زحل گردش کرتے ہیں۔ چاند اور سورج کی گردش ہمیشہ سیدھی آگے کو رہتی ہے۔ جیسے فرمایا ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ 33؀ۚ ) 14 ۔ ابراھیم :33) (١٤: ٣٣) مگر باقی پانچ سیارے سیدھے آگے چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر آگے کو بڑھنے لگتے ہیں اور پھر کسی وقت غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان سیاروں کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ ان دو آیات میں غالباً انہی سیاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فلا اقسم بالخش…:” الخنس “” خنس “ (ض) (پیچھے ہٹنا) سے ” خانس “ کی جمع بروزن ” رکع “ ہے۔” خناس “ بھی اسی سے ہے۔ اسی طرح ” الکنس “ ” کانس “ کی جمع ہے۔ ” کناس “ ہرن وغیرہ کی درختوں میں بنئای ہوئی جگہ، جہاں وہ چھپ جاتے ہیں۔ ” کنس “ (ض) چھپنے کی جگہ میں داخل ہوگیا ، چھپ گیا۔ ” الجوار “ ” جزی یجری “ سے ” جاریۃ “ کی جمع ہے۔ مراد سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ انہیں ” الخنس “ (پیچھے ہٹنے والے) اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب مغرب میں غروب ہونے کے بعد پھر پیچھے یعنی مشرق کی طرف آنا شروع ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرق سے دوبارہ نمودار ہوجاتے ہیں۔” الجوار “ چلنے والے ، یعنی ان کا کام ہی چلتے رہنا ہے، مغرب سے واپس مشرق کی طرف اور وہاں سے دوبارہ مغرب کی طرف۔” الکنس “ چھپنے والے، یعنی مغرب سے مشرق کی طرف چلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۝ ١٥ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ خنس قوله تعالی: مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس/ 4] ، أي : الشیطان الذي يَخْنُسُ ، أي : ينقبض إذا ذکر اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير/ 15] ، أي : بالکواکب التي تخنس بالنهار، وقیل : الخنّس هي زحل والمشتري والمرّيخ لأنها تخنس في مجراها أي : ترجع، وأَخْنَسْتُ عنه حَقَّه : أخّرته . ( خ ن س ) الخنس ( ن ) کے معنی پیچھے ہٹنے اور سکڑجانے کے ہیں اسی سے شیطان کو خناس کہاجاتا ہے کیونکہ وہ ذکر الہی سے پیچھے ہٹ جانا ہے ۔ اور وسوسہ انداز نہیں ہوپاتا ۔ قرآن میں ہے :۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس/ 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سن کر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير/ 15] ہم کو ان ستاروں کی قسم جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ میں خنس سے وہ ستارے مراد ہیں جو دن کو الٹی رفتار چلتے ہیں یہ خانس کی جمع ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے زحل ۔ مشتری اور مریخ مراد ہیں ۔ کیونکہ یہ الٹی چال سکتے رہتے ہیں ۔ اخنست عنہ حقہ میں نے اس کے حق کو موخر کردیا ۔ روک لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ ‘ ١٦{ فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ - الْجَوَارِ الْکُنَّسِ ۔ } ” تو نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ‘ چلنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔ “ یعنی ایسے ستارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں : ” کئی سیاروں (مثلاً زحل ‘ مشتری ‘ مریخ ‘ زہرہ ‘ عطارد) کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں ‘ یہ سیدھی راہ ہوئی ‘ کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب رہیں۔ “ بہرحال یہ آیات آج کے ماہرین فلکیات کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں کہ وہ جدید معلومات کی روشنی میں ان الفاظ (الْخُنَّساور الْجَوَارِ الْکُنَّس) کے لغوی معانی کے ساتھ ستاروں کی دنیا کے رموز و حقائق کی مطابقت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, "You are not correct that what is being presented in the Qur'an is the bragging of an insane person, or the evil suggestion of a devil." br>

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :12 یعنی تم لوگوں کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ٢٩۔ خنس کے معنی پچھے ہٹ جانے اور کنس کے معنی نکلنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ تارے جو دن کو سورج کی روشنی میں چھپ جاتے ہیں اور رات کو نکل آتے ہیں ان کی اور اول شب کی تاریکی اور طلوع صبح کی تاکید کے طور پر قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو کلام اللہ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول فرمایا ہے اگرچہ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ انہ لقول رسول کریم میں رسول سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے لیکن صحیح قول وہی ہے جو امام المفسرین ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس اور سلف نے فرمایا ہے کہ رسول سے مراد اس آیت میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ مشرکین مکہ کبھی کہتے تھے انما یعلمہ بشر۔ کبھی کہتے تھے افتری علی اللہ کذبا ام بہ جنتہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کے قول کے جھٹلانے کو یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ نہ اللہ کے رسول مجنوں اور دیوانے ہیں نہ انہوں نے اپنی طرف سے اس قرآن کو بنایا ہے نہ کسی انسان نے اس قرآن کو انہیں سکھایا ہے بلکہ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس طرح شیاطین چوری سے بعضی باتیں آسمان کی سن کر کاہنوں سے کہہ دیتے ہیں بلکہ پیغام کے طور پر اللہ کی طرف سے ایک صاحب قوت معتبر امانت دار فرشتہ نے یہ قرآن اللہ کے نبی کو پہنچایا ہے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت کا ذکر یہاں اس لئے فرمایا ہے کہ حضرت جبرئیل کی قوت کے سبب سے شیطان حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے بھگاتا ہے۔ چناچہ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت پہلے تو شیطان قبیلہ بنی کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی شکل بن کر مشرکوں کے لشکر میں موجود تھا اور مشرکوں کو کہا تھا کہ آج تمہاری فتح ہے جب لشکر اسلام کی مدد کو فرشتے آئے اور اس ملعون نے جبرئیل (علیہ السلام) کو پہچانا تو فوراً بھاگ گیا۔ غرض حاصل معنی یہ ہیں کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت کے سبب سے ان کی پیغام رسانی میں نہ شیطان کا کچھ دخل ہے نہ ان کی امانت داری کے سبب سے اس پیغام رسانی میں کچھ خیانت کا دخل۔ اس طرح کے صاحب قوت امانت دار فرشتہ کی معرفت جو اللہ کا پیغام اللہ کے نبی کو پہنچاتا ہے وہ بلا شک اللہ کا کلام ہے بعض مفسروں کے قول کی بنا گر اگر اس آیت میں رسول سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات قرار دی جائے تو مشرکین کی جس بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ہیں وہ مطلب ہرگز حاصل نہیں ہوتا بلکہ مشرکوں کے قول کی تائید ہوجاتی ہے کس لئے کہ مشرک لوگ بھی یہی کہتے تھے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہے اور آیت کا بھی یہی مطلب ہوگا کہ قرآن اللہ کے رسول محمد کا کلام ہے شریعت میں جس طرح حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی قوت مشہور ہے کہ قوم لوط کی چار بستیوں کو ایک دفعہ ہی اٹھا کر الٹ دیا۔ ایک چنگھاڑ میں ثمود کو غارت کردیا۔ اسی طرح شریعت میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) فرشتوں کے سرداروں میں سے ہیں معراج کی صحیح حدیث اوپر گزر چکی ١ ؎ ہے کہ اس رات حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے حکم پر آسمان کے دروازے کھلے۔ بعض علماء نے ان آیتوں سے یہ مطلب جو نکالا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر ہے کیوں کہ ان آیتوں میں حضرت جبرئیل کی چند صفتیں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط اتنا ہی فرمایا ہے کہ اللہ کے نبی مجنوں نہیں ہیں یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ آیتوں میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا مرتبہ قاصد کا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ مکتوب الیہ کا۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ کاتب کے نزدیک قاصد سے مکتوب الیہ کا مرتبہ ہمیشہ بڑھ کرہوتا ہے خود مکتوب الیہ کو خط لکھا جاتا ہے اور قاصد تو محض قاصد ہوتا ہے۔ بظنین میں ظاہر کی قراۃ اولیٰ ہے۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ اللہ کے رسول پر اس تہمت کا لگانا غلط ہے کہ قرآن خود ان کا کلام ہے بلکہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے کیونکہ جب تم لوگوں سے اس کی مانند ایک آیت بھی نہ بن سکے تو جان لو کہ اس طرح کا کلام کسی انسان سے ہرگز نہیں سن سکتا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے پہلی دفعہ مقام حراء میں اور دوسری دفعہ معراج کی رات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ‘ اس آیت میں پہلی دفعہ کے دیکھنے کا ذکر ہے جس کی تفصیل صحیح حدیثوں میں ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری باب المعراج ص ٥٤٨ ج ١ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨١ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:15) فلا اقسم بالخنس اس میں الفاء تفریح کے لئے ہے۔ (تفریع المسائل من الاصل) ۔ اصل سے استباط کرکے فروعی مسائل نکالنا۔ یہاں اس (فاء تفریح) کا مطلب یہ ہے کہ :۔ جب ہم نے احوال قیامت کے متعلق آیات نازل کردیں تو (آئندہ کی خبریں دینے سے ہی) سمجھ لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے اس پر کوئی دروغ بیانی نہیں کی گئی ۔ میں قسم کھاتا ہوں۔ لا اقسم کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) لا زائدہ ہے۔ مطلب ہے اقسم میں قسم کھاتا ہوں۔ (2) بعض کے نزدیک لا زائدہ ہے بلکہ نافیہ ہے تب اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں ان ستاروں کی قسم نہیں کھاتا ہوں کیونکہ غور کرنے والے کے نزدیک خود بخود قرآن کی صداقت ظاہر ہے۔ (3) لا اقسم : میں لا کا الف زائدہ ہے اصل میں لاقسم ہے اس صورت میں لام تاکید کا ہوگا۔ بالخنس : المقسم بہ۔ (جس کی قسم کھائی گئی ہو) ۔ خنس (باب ضرب و نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ جس کے معنی ہیں چھپ جانے والے۔ پیچھے ہٹ جانے والے۔ پھرجانے والے ۔ رک کانے والے۔ خانس کی جمع۔ (1) بعض کے نزدیک اس سے مراد سیارے ہیں۔ کیونکہ وہ دن میں چھپ جاتے ہیں ۔ (2) بعض کے نزدیک چاند اور سورج کے علاوہ پانچوں سیارے کہ جن کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں ، مراد ہے : یہ پانچ سیارے۔ مریخ، زحل، عطارد، زیرہ، مشتری۔ ان کو خمسہ متحیرہ (حیران کردینے والے۔ سیارے) اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی چال کچھ اس ڈھب کی ہے کہ کبھی یہ مشرق سے مغرب کی طرف چلتے ہیں اور کبھی یہ ٹھٹھک کر الٹے پھرتے ہیں۔ اور کبھی یہ سورج کے قریب آکر غائب رہتے ہیں۔ (3) اور بعض کے نزدیک نیل گائے مراد ہے کیونکہ اس میں بھی پیچھے ہٹ جانے ، پھرجانے رکنے اور چھپنے کی صفت موجود ہے۔ یہ تینوں تفسیریں سلف صحابہ اور تابعین سے مروی ہیں۔ خناس بھی اسی سے ہے یہ خانس سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور شیطان کا لقب بھی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی دعوت کا تیسرا مضمون قیامت ہے جو ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ اہل مکہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ اس وجہ سے قرآن مجید کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ یہ ” اللہ “ کی کتاب ہے۔ اس لیے یہاں ایک مرتبہ پھر وضاحت کی جا رہی ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ یہ بات کئی مرتبہ عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کے بنیادی مضامین تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ باقی مسائل انہیں کی تفصیل اور تقاضے ہیں۔ قرآن مجید ان عقائد پر بار بار زور دیتا ہے کیونکہ مکہ کے لوگ کسی نہ کسی انداز میں ان تینوں باتوں کا انکار کرتے تھے جس بنا پر ان کی کوشش تھی کہ لوگوں کی نظروں میں قرآن مجید کو ہی مشکوک بنا دیا جائے۔ اس لیے کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور دیوانہ کہتے اور کبھی قرآن مجید کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ شیطانی اور شاعرانہ خیالات کا مجموعہ ہے۔ قرآن مجید نے ان کے الزامات کا ہر موقع پر مدلل اور مؤثر جواب دیا لیکن پھر بھی وہ پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس موقع پر ان کی ہرزہ سرائی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھائی ہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے اور چھپ جانے والے ستاروں کی، میں قسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ رخصت ہوتی ہے اور میں قسم کھاتا ہوں صبح کی جب وہ نمودار ہوتی ہے۔ قسمیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح یہ باتیں حقیقت ہیں اسی طرح قرآن بھی ایک حقیقت ہے یہ ایک معززفرشتے کا کلام ہے جو بڑی ہی طاقت والا ہے جو عرش والے یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ اس کا فرشتوں میں حکم مانا جاتا ہے اور وہ بڑا امانت دار ہے۔ اس کے رب کی طرف سے جو اسے حکم صادر ہوتا ہے وہ جوں کا توں آگے پہنچا دیتا ہے۔ اے مکہ والو ! تمہارا ساتھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ نہیں ہے۔ اس نے پیغام پہنچانے والے ملائکہ کے سردار جبرائیل (علیہ السلام) کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ رسول پر جو غائب کی باتیں نازل کی جاتی ہیں انہیں پہنچانے میں بخل اور کمزوری سے کام نہیں لیتا بعض مفسرین نے رسول سے مراد جبریل امین لیے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش موجود ہے۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اس میں شیطان کا کسی لحاظ سے رائی برابر عمل دخل نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے۔ یادرکھو ! تمہاری چاہت اور مخالفت کی بنا پر کچھ نہیں ہوسکتا، وہی ہوتا ہے جو رب العالمین چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن مجید کو جبریل امین کا قول قرار دیا ہے اور سورة الحاقہ کی آیت ٤٠ میں اسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول فرمایا ہے جس کا یہ معنٰی نہیں کہ قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا جبریل امین کا کلام ہے۔ اس کا حقیقی معنٰی یہ ہے کہ قرآن مجید کسی شاعر یا شیطان کا کلام نہیں اور نہ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے جبریل امین اپنی زبان سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تلاوت کرتے ہیں، گویا کہ قرآن مجید صرف اور صرف رب العالمین کا کلام ہے جو نصیحت کے طور پر اتارا گیا ہے۔ اس میں کسی فرشتے، انسان اور شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے۔ جہاں تک کفار کی مخالفت کا معاملہ ہے انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ ان کے چاہنے اور مخالفت سے کچھ نہیں ہوگا، وہی ہوگا جو رب العالمین چاہتا ہے اس کا فیصلہ ہے۔ ” وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ “ (الفتح : ٢٨) ان آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو روشن افق پر دیکھا ہے اور آپ غیب کے معاملہ میں بخیل نہیں ہیں اگر اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو غیب سے مراد وہ غیب ہے جو قرآن مجید اور حدیث کی صورت میں آپ پر نازل ہوا ہے اس میں کوئی بات چھپانے کے آپ مجاز نہیں اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی بات چھپائی ہے۔ یقینی طور پر آپ نے ہر بات من وعن بلا خوف وخطر لوگوں تک پہنچا دی ہے اس لیے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب پر بخل کرنے والے نہیں ہیں اگر اس سے مراد جبریل ہیں تو معنی ہوگا کہ جبریل نے کسی بات میں بخل نہیں کیا اس نے ہر بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دی جو اللہ تعالیٰ نے اسے پہچانے کا حکم دیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھا کر ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید صرف اور صرف اللہ کا کلام ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جبریل امین بڑے مرتبے کے حامل فرشتے ہیں۔ ٣۔ جبریل امین امانت دار اور ملائکہ کے سردار ہیں۔ ٤۔ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ رب العالمین چاہتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانے نہیں ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جبریل امین کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا جبریل (علیہ السلام) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلی آنکھوں کے ساتھ روشن افق پر دیکھا تھا۔ ٧۔ قرآن مجید جبریل امین کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے۔ ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی وحی لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کا بخل اور کمزوری نہیں کی۔ ٩۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ اس میں کسی فرشتے انسان اور شیطان کا ذرہ بھر عمل دخل نہیں ہے۔ ١٠۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ١١۔ کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتاوہی ہوتا ہے جو ” اللہ “ چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید صرف اور صرف ” اللہ “ کا کلام ہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہے : ١۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٢۔ قرآن مجید کسی کاہن و شاعر کا کلام نہیں ہے۔ (الحاقہ : ٤١، ٤٢) (الحجر : ٩) ٣۔ قرآن مجید شیطان کی شیطینت سے پاک ہے۔ (التکویر : ٢٥) (القدر : ١) ٤۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الخنس ۔ الجوار ۔ الکنس تینوں سے مراد ستارے ہیں۔ الخنس وہ ستارے جو اپنے دورہ فلکی میں پلٹتے ہیں ، الجوار جو چلتے ہیں اور الکنس ، جو چھپتے ہیں۔ انداز بیان کے استعارات ان ستاروں کو ہر نوں کی طرح زندگی کی خصوصیات بخش دیتے ہیں ، جو پلٹتی ہیں ، دوڑتی ہیں اور اپنے غار میں گھس جاتی ہیں۔ ایک طرف سے دوسری طرف لوٹ جاتی ہیں ، یہ ستارے گویا زندہ ہر توں کی طرح دوڑتے گھومتے اور زندہ نظر آتے ہیں۔ انداز تعبیر ان ستاروں کی حرکت کو ایک حسن رفتار عطا کردیتا ہے۔ اور ان کے ظہور میں بھی جمال نظر آتا ہے۔ اور فضا میں بھی اس کا جمال ہے ۔ چھپنا بھی خوبصورت اور نمودار ہونا بھی خوبصورت۔ دوڑنا بھی اچھا اور مڑنا بھی اچھا۔ پھر الفاظ بھی خوبصورت اور ان کا تلفظ بھی پر نغمہ اور پر ترنم اور خوبصورت۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں اللہ جل شانہ نے چند مخصوص ستاروں اور رات کی اور صبح کی قسم کھا کر قرآن کریم کی اور قرآن مجید لانے والے فرشتے یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانگی کی طرف منسوب کرتے تھے ان کی تردید کی ہے۔ جن ستاروں کی قسم کھائی ہے ان کے بارے میں الخنس اور الکنس فرمایا ہے۔ الخنس خانس کی جمع ہے جس کا معنی پیچھے ہٹنے والا ہے اور الجوار جاریۃ کی جمع ہے جو (جری یجری) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور فواعل کے وزن پر ہے، ی کو لکھنے اور پڑھنے میں حذف کردیا گیا ہے اس کا معنی ہے چلنے والے اور الکنس کانس کی جمع ہے اور کنس یکنس کا اسم فاعل ہے جس کا معنی چھپ جانے کا ہے، یقال کنس الوحش اذا دخل کناسہ الذی یتخذہ من اغصان الشجر۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان سے پانچ ستارے مراد ہیں یعنی زحل اور عطارد اور مشتری اور مریخ اور زہرہ، ان کو خمسہ متحیرہ بھی کہتے ہیں یہ چلتے چلتے پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں پھر پیچھے ہی کو چلتے رہتے ہیں اور کبھی پیچھے چلتے چلتے اپنے مطالع میں جا چھپتے ہیں۔ ووصفت بما ذکر فی الآیة لانھا تجری مع الشمس والقمر وترجع حتی تخفی تحت ضوء الشمس فخنوسھا رجو عھا بحسب الرؤیة وکنوسھا اختفاء ھاتحت ضوئھا وتسمی المتحیرة لاختلاف احوالھا فی سیرھا فیما یشاھد فلھا استقامة ورجعة واقامة فبینما تراھا تجری الی جھة اذا بھا راجعة تجری الی خلاف تلک الجھة وبینما تراھا تجری اذا بھا مقیمة لا تجری وسبب ذلک علٰی ما قال المتقدمون من اھل الھیئة کونھا فی تداویر فی حوامل مختلفة الحرکات علی مابین فی موضعہ و للمحدثین منھم النافسین لما ذکر مما ھو مذکور فی کتبھم، وھی مع الشمس والقمر یقال لھا السیارات السبع لان سیرھا بالحرکة الخاصة مما لا یکاد یخفی علی احد بخلاف غیرھا من الثوابت) (روح المعانی صفحہ ٦٦: ج ٣٠)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” فلا اقسم “ یہ تخویف اخروی ہے سورة عبس کے مقابلہ میں بطور ترقی اور دن رات اور تاروں کے احوال سے قیامت کے دن لوگوں کے مختلف احوال پر شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ” الخنس “ خانس اور خانسۃ کی جمع ہے سیدھے چل کر پھر واپس آنے والے۔ ” الجوار “ جاریۃ کی جمع ہے۔ تیزی کے ساتھ رواں دواں۔ ” الکنس “ کانس اور کانسۃ کی جمع ہے یعنی روشنی دکھانے کے بعد تحت الشعاع آکر چھپ جانے والے۔ ” عسعس “ ای ادبر، جب رات اپنی تاریکی کے ساتھ پیٹھ پھیرتی ہے۔ ” تنفس “ ای اسفر، جب صبح کا اجالا نمودار ہوتا ہے جس طرح خمسہ متحیرہ، زحل، مشتری مریخ زہرہ اور عطارد ابتداء سفر میں سیدھے چلتے ہیں پھر الٹے چل کر واپس اپنے مقام میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح تم بھی دنیوی زندگی کا سفر ختم کر کے پھر الٹے پاؤں چل کر جہاں سے آئے تھے وہیں واپس پہنچ جاؤ گے۔ ” الجوار “ تیزی کے ساتھ سیدھے چلنے والے، اسی طرح تم بھی اپنے مقاموں کی طرف سیدھے چلو گے اور جس طرح تارے روشنی دکھانے کے بعد چھپ جاتے ہیں اسی طرح تم دنیا میں زندگی بسر کرنے کے بعد مرجاؤ گے۔ اور جس طرح رات جاتی ہے اور اس وقت مختلف حالات پیدا ہوتے ہیں اور صبح ہوتی ہے اور مختلف حالات آتے ہیں۔ اسی طرح تم بھی مختلف احوال سے گذرو گے۔ جواب قسم محذوف ہے ای لترکبن طبقا عن طبق بقرینۃ فلا اقسم بالشفق الخ (انشقاق) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) پس میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو ایک سمت کو چلتے چلتے پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔