Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 18

سورة التكوير

وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾

And by the dawn when it breathes

اور صبح کی جب چمکنے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And by the day when it Tanaffas. Ad-Dahhak said, "When it rises." Qatadah said, "When it brightens and advances." Jibril descended with the Qur'an and it is not the Result of Insanity Concerning Allah's statement, إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی جب طلوع آفتاب سے قبل اس کی روشنی پھیلنے لگے۔ بعض اس سے وقت مراد لیتے ہیں۔ جب موسم بہار میں نسیم سحر چلنے لگتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۝ ١٨ ۙ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ نَّفَسُ : الرِّيحُ الداخلُ والخارجُ في البدن من الفَمِ والمِنْخَر، وهو کا لغذاء للنَّفْسِ ، وبانْقِطَاعِهِ بُطْلانُها ويقال للفَرَجِ : نَفَسٌ ، ومنه ما رُوِيَ : «إِنِّي لَأَجِدُ نَفَسَ رَبِّكُمْ مِنْ قِبَلِ الْيَمَنِ» »وقوله عليه الصلاة والسلام : «لَا تَسُبُّوا الرِّيحَ فَإِنَّهَا مِنْ نَفَسِ الرَّحْمَنِ» أي : ممَّا يُفَرَّجُ بها الكَرْبُ. يقال : اللَّهُمَّ نَفِّسْ عَنِّي، أي : فَرِّجْ عَنِّي . وتَنَفَّسَتِ الرِّيحُ : إذا هَبَّتْ طيِّبةً ، قال الشاعر : فَإِنَّ الصَّبَا رِيحٌ إِذَا مَا تَنَفَّسَتْ ... عَلَى نَفْسِ مَحْزُونٍ تَجَلَّتْ هُمُومُهَا والنِّفَاسُ : وِلَادَةُ المَرْأَةِ ، تقول : هي نُفَسَاءُ ، وجمْعُها نُفَاسٌ وصَبَّيٌّ مَنْفُوسٌ ، وتَنَفُّسُ النهار عبارةٌ عن توسُّعِه . قال تعالی: وَالصُّبْحِ إِذا تَنَفَّسَ [ التکوير/ 18] ونَفِسْتُ بِكَذَا : ضَنَّتْ نَفْسِي بِهِ ، وشَيْءٌ نَفِيسٌ ، ومَنْفُوسٌ بِهِ ، ومُنْفِسٌ. النفس کے معنی سانس کے ہیں ۔ جو منہ اور ناک کے نتھنوں کے ذریعہ بدن کے اندر جاتا اور باہر نکلتا ہے اور پہ روح کے لئے بمنزلہ غذا کے ہیں جس کے انقطاع سے روض زائل ہوجاتی ہے اور نفس کے معنی کشائش اور فراخی کے بھی آتے ہیں اور اسی سے ایک روایت میں ہے انی لا جد نفس ربکم من قبل الیمن کہ میں من کی جانب سے کشائش اور فراخی یعنی نصرت الہی پاتا ہوں ( نصار کا یمنی ہونا اس احساس کی تصدیق کے لئے کافی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ے فرمایا ہوا کو برا بھلا مت کہو بیشک یہ خدائے رحمٰن کے نفس سے ہے یعنی اس سے غم دور ہوتا ہے اور ایک دعا میں ہے اللھم نفسی عنی اے اللہ میری تکلیف دور فرما تنفست الریح عمدہ ہوا چلنا شاعر نے کہا ہے (435 ) فان الصباریح اذا ما تنفست علیٰ نفس محزون تجلت ھمو مھا بیشک باد صبا ایسی ہوا ہے کہ اس کے چلنے سے مغموم دلوں کے تمام غم دور ہوجاتے ہیں ۔ النفاس کے معنی عورت کے بچہ جننے یا حالت زچگی میں ہونے کے ہیں اور اس عورت کو جو حالت نفاس میں ہو نفساء کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع نفاس آتی ہے اور صبی منفوض کے معنی نوزا ئیدہ بچہ کے ہیں ۔ دن کا چڑھنا دو پہر ہونا قرآن پاک میں ہے ۔ وَالصُّبْحِ إِذا تَنَفَّسَ [ التکوير/ 18] اور صبح کی قسم جب نمودار ہوتی ہے ۔ اور نفست بکذا کے معنی کسی چیز کو عزیز سمجھنے اور اس پر بخل کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے نفیس اور منفس ہے جس کے معنی قیمتی چیز کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨{ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ ۔ } ” اور صبح کی جب وہ سانس لے۔ “ یعنی صبح صادق کا وہ وقت جب رات کے سناٹے میں سے زندگی انگڑائی لیتی ہوئی آہستہ آہستہ بیدار ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That for which the oath has been sworn, has been stated in the following verses. The oath means: "Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has not seen a vision in darkness, but when the stars had disappeared, the night had departed and the bright morning had appeared, he had seen the Angel of God in the open sky. Therefore, what he tells you is based on his own personal observation and on the experience that he had in full senses in the full light of day."

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :13 یہ قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ آگے کی آیات میں بیان کی گئی ہے ۔ مطلب اس قسم کا یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریکی میں کوئی خواب نہیں دیکھا بلکہ جب تارے چھپ گئے تھے ، رات رخصت ہو گئی تھی اور صبح روشن نمودار ہو گئی تھی ، اس وقت کھلے آسمان پر انہوں نے خدا کے فرشتے کو دیکھا تھا ۔ اس لیے وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ ان کے آنکھوں دیکھے مشاہدے اور پورے ہوش گوش کے ساتھ دن کی روشنی میں پیش آنے والےتجربے پر مبنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: صبح کے وقت عموما ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے جسے باد نسیم کہا جاتا ہے۔ اس ہوا کے چلنے کو بڑی بلاغت کے ساتھ صبح کے سانس لینے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:18) والصبح اذا تنفس واؤ قسمیہ ہے الصبح المقسم بہ۔ اذا ظرف زمان ۔ تنفس ماضی واحد مذکر غائب تنفس (تفعل) مصدر سے جس کا معنی سانس کی آمد و شد۔ مطلب ہے کہ اس نے سانس لیا۔ اس نے دم کھینچا۔ صبح کے تنفس کا مطلب ہے پوپھٹنا۔ قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والصبح اذا تنفس (18:81) ” اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا “۔ بھی ایک زندہ بلکہ تابندہ انداز تعبیر ہے اور اس میں زیادہ اشاریت ہے۔ سپیدہ صبح گویا زندہ ہے اور سانس لے کر نمودار ہوتا ہے۔ روشنی گو صبح کی سانس ہے اور صبح کے وقت وحوش وطیور اور انسانوں کی حرکت اس کی علامت زندگی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں عربی زبان کے خوبصورت ترین اسالیب اظہار کے اندر سپیدہ صبح کی نموداری کے لئے کوئی ایسا خوبصورت فقرہ نہیں ہے۔ زندہ حساس دل صبح کو دیکھ کر یہ شعور اچھی طرح پالیتا ہے کہ یہ صبح سانس لے رہی ہے اور جب ایسا احساس دل پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ یہ بھی میرے دل میں تھی۔ جو شخص اسالیب کلام کو سمجھنے کا ذوق رکھتا ہے اور وہ اچھی منظر کشی اور تصویر کشی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ، وہ جب یہ آیت پڑھتا ہے۔ فلا اقسم ........................ اذا تنفس (15:81 تا 18) پس نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے والے اور چھپ جانے والے تاروں کی ، اور رات کی جبکہ وہ تاریک ہوئی اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا “۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ عبارت شعور ومعافی اور انداز تعبیر کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے اندررکھتی ہے اور جن کائناتی حقائق کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ اسکے علاوہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی حقائق کو ایک تیز احساس اور شعور کے ساتھ لیا گیا ہے۔ یہ کائناتی مناظر جن کو زندگی کا لباس پہنایا گیا ہے ۔ اور ایک زندہ اور خوبصورت اسلوب بیان کے ذریعہ ان کی روح انسانی روح کے ساتھ ملادی گئی ہے۔ یہ مناظر انسان کی روح پر اس کے حقیقی اسرارورموز کھولتے ہیں ، اور اس وقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان سب چیزوں کے پیچھے کارفرما ہے۔ اور جس ایمانی حقیقت کی طرف بلایا جارہا ہے ، یہ مناظر اس کے زمزمہ خواں ہیں۔ اس کے بعد اس حقیقت کو نہایت ہی بہترین حالات میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ اسے یادرکھا جائے اور انسانی فطرت اس کا استقبال کرے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَۙ٠٠١٨﴾ (اور قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لے) یعنی جب وہ آنے لگے (اس سے فجر اول مراد ہے) ان چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ بلاشبہ یہ قرآن کلام ہے رسول کریم کا جسے ایک معزز فرشتہ لایا ہے یہ فرشتہ قوت والا ہے اور مالک عرش کے نزدیک رتبہ والا ہے اور وہاں یعنی آسمان میں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ فرشتہ امانت دار ہے جو وحی کو بالکل صحیح صحیح پہنچاتا ہے۔ اس میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی صفات بیان فرمائی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کلام یعنی قرآن کریم کو لایا کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچاتے تھے اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ جو تمہارے ساتھ رہنے والے ہیں یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا حال تم خوب جانتے ہو وہ مجنوں نہیں ہیں جیسا کہ منکرین نبوت کہتے ہیں وحی لانے کی صفات بھی تمہیں معلوم ہوگئی اور جس پر وحی آتی ہے اس کا حال بھی تمہیں معلوم ہے۔ لہٰذا قرآن کے بارے میں یہ شک کرنا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے یا نہیں یہ تمہاری غلطی ہے جس نے تمہیں کافر بنا رکھا ہے اوپر جو ستاروں کی اور رات کی اور صبح کی قسمیں کھائی ہیں ان قسموں کے بارے میں صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ مطلوب کے اعتبار سے نہایت مناسب ہے چناچہ ستاروں کا سیدھا چلنا اور رکنا اور چھپ جانا فرشتہ کے آنے اور جانے اور عالم الملکوت میں جا چھپنے کے مشابہ ہے اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا مشابہ ہے ظلمت کفر کے رفع ہوجانے کے اور نور ہدایت ظاہر ہوجانے کے اور ان دونوں کا سبب قرآن کریم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اور قسم ہے صبح کی جب وہ دم بھرے یعنی طلوع ہو اگرچہ مفسرین کے ان ستاروں میں کئی قول ہیں لیکن عام طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے تفسیر کرتے ہیں یعنی ان سے وہ پانچ ستارے مراد ہیں جن کو متحیر کہتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ زحل، مشتری، مریخ ، زہرہ، عطارد یہ ستارے اول مغرب سے مشرق کی طرف بروج کو ترتیب سے طے کرتے ہوئے جاتے ہیں پھر تھوڑے دنوں تک ان کی حرکت نمودار اور ظاہر نہیں ہوتی، پھر رجعت کرتے ہیں یعنی الٹے مشرق سے مغرب کی طرف جاتے ہیں علم ہیئت میں پہلی حالت کو استقامت کہتے ہیں یعنی جب مغرب سے مشرق کی طرف جاتے ہیں دوسری حالت کو وقوف کہتے ہیں یعنی جب ایک جگہ ٹھہرجاتے ہیں اور ظاہر نہیں ہوتے۔ تیسری حالت کو رجوع کہتے ہیں اور دوسرے ستاروں کی یہ حالت نہیں ہے یہ پانچوں متحیر ستارے اپنی چال سے حیرت پیدا کرتے ہیں اور فلکیات میں انقلاب کی خبر دیتے ہیں اور عالم علوی میں انقلاب کی دلیل بنتے ہیں جن سے قیامت کے وقوع کا امکان معلوم ہوتا ہے۔ خنس کے معنی انقبض کے ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ۔ الشیطان یوسوس الی العبد فاذا ذکر اللہ خنس یعنی انقبض۔ جواری کے معنی سیر کرنے والے چلنے والے، کنس ، وحشی جانوروں کے رہنے اور ٹھکانا پکڑنے کی جگہ کو کہتے ہیں، اسی وجہ سے خنس جواری کنس سے بعض متقدمین صحابہ اور تابعین نے ہرنیاں اور وحشی گائو بھی مراد لی ہیں اگرچہ یہ تفسیر مشہور نہیں ہے۔ عسعس سے کسی رات کا آنا اور اس کا پھیلنا مراد لیا ہے اور بعض نے ادبار کے معنی کئے ہیں یعنی رات کا لوٹنا اور واپس ہونا کیا ہے۔ ہم نے ترجمے اور تیسیر میں دونوں کا فرق کو ظاہر کردیا ہے یعنی ایک جگہ اقبال کیا ہے اور ایک جگہ ادبار کیا ہے۔ صبح کے روشن ہونے کو عرب تنفس الصبح بولا کرتے ہیں بعض نے کہا اس سے مراد نسیم سحری ہے لیکن راجح اور صحیح یہی ہے کہ والصبح اذا تنفس سے مراد صبح کا روشن ہونا ہوسکتا ہے کہ عسعس سے مراد فترۃ کا زمانہ ہو اور صبح کے دم بھرنے سے اشارہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی جانب ہو اور بالخنس الجوار الکنس سے مراد انبیائے سابقہ کی تبلیغ اور ان کی امتوں کا پیغمبروں کی ہدایت پر چلنا کبھی رک جانا اور کبھی ہدایت کو چھوڑ کر کفر کی طرف لوٹ جانا مراد ہو بہرحال یہ قسمیں کھا کر ارشاد فرماتے ہیں۔