Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 2

سورة التكوير

وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾

And when the stars fall, dispersing,

اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when the stars Inkadarat. meaning, when they are scattered. This is as Allah says, وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ And when the stars have fallen and scattered. (82:2) The basis of the word Inkidar is Insibab, which means to be poured out. Ar-Rabi` bin Anas reported from Abu Al-Aliyah, who reported from Ubayy bin Ka`b that he said, "Six signs will take place before the Day of Judgement. The people will be in their marketplaces when the sun's light will go away. When they are in that situation, the stars will be scattered. When they are in that situation, the mountains will fall down upon the face of the earth, and the earth will move, quake and be in a state of mixed up confusion. So the Jinns will then flee in fright to the humans and the humans will flee to the Jinns. The domestic beasts, birds and wild animals will mix together, and they will surge together in a wave (of chaos). وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ And when the mountains are made to pass away; وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ And when the pregnant she camels are neglected; This means their owners will neglect them. وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ And when the wild beasts are gathered together. This means they will be mixed. وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ And when the seas become as blazing fire." Then he (Ubayy) went on to say, "The Jinns will say, `We come to you with news.' So they will all go to the sea, and it will be a blazing fire. While they are in that state, the earth will be split with one huge crack that will extend from the lowest, seventh earth to the highest, seventh heaven. So while they are in that state, a wind will come that will kill all of them." Ibn Jarir recorded this narration with this wording. Concerning Allah's statement, وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گرجائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] اِنْکَدَرَ : کدر بمعنی گدلاپن (ضد صفائ) اور انکدر کا معنی کسی چیز کا خود گدلا ہونا۔ رنگ میلا اور ہلکا پڑجانا یا ماند پڑجانا، یعنی ستاروں اور چاند کو جو روشنی حاصل ہے وہ انعکاس نور کے نتیجہ میں سورج یا ایسے کسی دوسرے ستارے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب ان ستاروں کا باہمی ربط ختم ہوجائے گا تو ان میں چمک اور آب و تاب بھی نہ رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(واذا النجوم انکدرت :” انکدرت “ طبری نے اس کے دو معانی نقل فرمائے ہیں، پہلا ” تناثرت “ یعنی بکھر کر گرجائیں گے اور دوسرا ” تغیرت “ یعنی متغیر ہوجائیں گے۔ کدورت صفائی کی ضد ہے۔ دونوں ملحوظ رکھے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ستارے بکھر کر گرجائیں گے، ان کی روشنی اور صفائی ختم ہو جائیگی اور وہ بےنور ہوجائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَ‌تْ (and when the stars will swoop down...81:2). The word inkadarat is derived from inkidar and it denotes &to fall&. The righteous predecessors have interpreted it thus. It signifies that all the stars from the sky will fall into the oceans as explained in the preceding verses.

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ، انکدار سے مشتق ہے اس کے معنے سقوط اور گرنے کے ہیں۔ سلف سے یہی تفسیر منقول ہے اور مراد یہ ہے کہ آسمان کے سب ستارے سمندر میں گر پڑیں گے جیسا کہ مذکورہ روایات میں اس کی تفصیل آچکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝ ٢ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ كدر الْكَدَرُ : ضدّ الصّفاء، يقال : عيش كَدِرٌ ، والکُدْرَةُ في اللّون خاصّة، والْكُدُورَةُ في الماء، وفي العیش، والِانْكِدَارُ : تغيّر من انتثار الشیء . قال تعالی: وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ [ التکوير/ 2] ، وانْكَدَرَ القوم علی كذا : إذا قصدوا متناثرین عليه . ( ک د ر ) الکدر کے معنی کسی چیز میں گدلاپن کے ہیں اور یہ صفاء صفائی کی ضد ہے مثلا عیش کدر۔ تیرہ زندگی الکدرۃ کے معنی بھی گد لاپن کے ہیں مگر اس کا استعمال خصوصیت کے ساتھ رنگ میں ہوتا ہے اور کد ورۃ کا پانی اور زندگی میں ۔ الا نکدار ( انفعال ) اس تغیر کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے بکھر جانے سے واقع ہوتا ہے قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ [ التکوير/ 2] اور جب ستارے بکھر کر بےنور ہوجائیں گے ۔ قوم بکھر کر اس پر ٹوٹ پڑی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 That is, when the force which is keeping them in their orbits and positions is loosened and alI the stars and planets will scatter in the universe. The word inkidar also indicates that they will not only scatter away but will also grow dark.

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :2 یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے ، کھل جائے گی اور سب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہو جائیں گے ۔ اس کے علاوہ انکدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہو گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:2) واذا النجوم انکدرت۔ اس کا عطف آیت سابقہ پر ہے۔ انکدرت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب انکدار (انفعال) مصدر سے انکدار اس تغیر کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے بکھر کر بےنور ہوجائیں گے۔ الکدر (مادہ ک د ر) کے معنی کسی چیز میں گدلاپن کے ہیں ۔ اور یہ صفاء کی ضد ہے۔ الکدرۃ کے معنی بھی گدلا پن کے ہیں۔ مگر اس کا استعمال خصوصیت کے ساتھ رنگ میں ہوتا ہے اور کدورۃ کا پانی اور زندگی میں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“2 یا ” جب ستارے ماند پڑجائیں “۔ یعنی ان کے اپنی جگہوں سے زائل ہونے کی بنا پر۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا ........................ انکدرت (2:81) ” اور جب تارے بکھر جائیں گے “۔ یعنی اس بندش کے نظام سے باہر نکل آئیں گے جو اس کائنات کے نظام میں موجود ہے اور جس نے سب کو باہم باندھا ہوا ہے۔ اور یہ کہ ان کی روشنی ختم ہوجائے گی اور وہ تاریک ہوجائیں گے۔ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کن ستاروں کے ساتھ یہ حادثہ ہوگا۔ یہ تمام ستارے ہوں گے یا ستاروں کا ایک گروہ ہوگا جو ہمارے قریب ہے۔ مثلاً سورج کے قریبی ستاروں میں یہ عمل ہوگا یا ہماری کہکشاں میں یہ عمل ہوگا ، جس میں کروڑوں ستارے ہیں۔ یہ تمام ستاروں میں ہوگا جن کے مقامات ومدارات کا علم بھی اللہ کو ہے اور تعداد کا علم بھی اللہ کو ہے کیونکہ جہاں تک ہماری رصدگاہیں ہمارے مشاہدے کو پہنچاتی ہی ان سے آگے بھی بیشمار جہاں ہیں۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ ستارے بےنور ہوجائیں گے یا بکھر جائیں گے اور پوری حقیقت کا علم صرف اللہ کو ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ثانیاً ﴿ وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۪ۙ٠٠٢﴾ (اور جب ستارے گرپڑیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) اور جب ستارے ٹوٹ کر گرپڑیں یعنی ستارے بےنور اور میلے اور گدلے ہوجائیں اور لوٹ کر جھڑ پڑیں۔