Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 21

سورة التكوير

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾

Obeyed there [in the heavens] and trustworthy.

جس کی ( آسمانوں میں ) اطاعت کی جاتی ہے امین ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مُّطَـعٍ ثَمَّ ... Obeyed there, meaning, he has prestige, his word is listened to, and he is obeyed among the most high gathering (of angels). Qatadah said, مُّطَـعٍ ثَمَّ (Obeyed there) "This means in the heavens. He is not one of the lower ranking (ordinary) angels. Rather he is from the high ranking, prestigious angels. He is respected and has been chosen for (the delivery of) this magnificent Message." Allah then says, ... أَمِينٌ trustworthy. This is a description of Jibril as being trustworthy. This is something very great, that the Almighty Lord has commended His servant and angelic Messenger, Jibril, just as He has commended His servant and human Messenger, Muhammad by His statement, وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(مطلع ثم امین): وہاں اس کی بات مانی ہوئی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں میں سے ہے، خ جیسا کہ حدیث معراج میں ہے کہ جبریل (علیہ السلام) کے کہنے پر آسمان کے دروازے کھلے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ۝ ٢١ ۭ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے امین : امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔ امانۃ باب کرم مصدر سے ۔ بمعنی امانت دار ہونا۔ ا میں ہونا۔ اور امن باب سمع مصدر بمعنی امن میں ہونا۔ مطمئن ہونا۔ محفوظ ہونا سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے یہ رسول کی پانچویں صفت ہے اور وہ وہاں کا امین ہے۔ پر اعتماد ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ۔ } ” جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امانت دار بھی ہے۔ “ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تمام فرشتوں کے سردار ہیں ۔ اس لحاظ سے آپ (علیہ السلام) تمام فرشتوں کے مطاع ہیں یعنی تمام فرشتے آپ (علیہ السلام) کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور آپ (علیہ السلام) امانت دار ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام جوں کا توں انبیاء و رسل - تک پہنچاتے رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 That is, he is the chief of the angels and alI angels work under his command. 17 That is, he is not one who would tamper with Divine Revelation, but is so trustworthy that he conveys intact whatever he receives from God.

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :16 یعنی وہ فرشتوں کا افسر ہے ۔ تمام فرشتے اس کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں ۔ سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :17 یعنی وہ اپنی طرف سے کوئی بات خدا کی وحی میں ملا دینے والا نہیں ، بلکہ ایسا امانت دار ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اسے جوں کا توں پہنچا دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی دوسرے فرشتے اُن کی بات مانتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:21) مطاع ثم امین : اطاعۃ (افعال) مصدر سے۔ اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر۔ (طلوع مادہ) اطاعت کیا گیا۔ وہ جس کی دوسرے تابعداری کریں۔ مراد حضرت جبرائیل جو سید الملائکہ ہیں۔ اور فرشتے ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ رسول کی چوتھی صفت ہے۔ ثم اسم اشارہ ہے مکان بعید کے لئے آتا ہے اور باعتبار اصل کے ظرف ہے بمعنی وہاں۔ وہیں۔ اس جگہ۔ ای فی السموت آسمانوں میں (جلالین) ۔ امین : امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔ امانۃ باب کرم مصدر سے ۔ بمعنی امانت دار ہونا۔ ا میں ہونا۔ اور امن باب سمع مصدر بمعنی امن میں ہونا۔ مطمئن ہونا۔ محفوظ ہونا سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے یہ رسول کی پانچویں صفت ہے اور وہ وہاں کا امین ہے۔ پر اعتماد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی فرشتے اس کا کہنا مانتے ہیں۔ 3۔ امانت دار ہے کہ وحی کو صحیح صحیح بےکم وکاست پہنچا دیتا ہے، پس وحی لانے والا تو ایسا ہے، آگے جن پر وحی نازل ہوئی ان کی نسبت ارشاد ہے کہ۔ (آگے دیکھو ترجمہ)

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اس عالم میں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے ایک لانے والے میں جتنی باتیں خوبی کی ہونی چاہئیں وہ سب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) میں جمع ہیں یعنی زبردست قوۃ والا ہے۔ کوئی اس سے پیغام راستے میں چھین نہیں سکتا، ضبط اور حفظ کی قوت کا مالک ہے بڑی بات یہ کہ عرش کے مالک کے نزدیک ذی مرتبہ اور صاحب مرتبہ ہے درگاہ الوہیت میں بڑا قرب اور بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ عالم بالا یعنی ملائکہ میں مطاع ہے یعنی آسمانوں کے فرشتے اس کی بات اور اس کا حکم مانتے ہیں اور ان کے امانت دار ہونے میں کسی کو سبہ نہیں۔ یہ تمام حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے اوصاف تھے آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان فرماتے ہیں۔