Surat ut Takveer
Surah: 81
Verse: 3
سورة التكوير
وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾
And when the mountains are removed
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔
وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾
And when the mountains are removed
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔
And when the mountains are made to pass away; meaning, they will not remain in their places and they will be destroyed. Then the earth will be left as a flat, level plain. Then Allah says, وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ
3۔ 1 یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔
[٤] یعنی زمین کی کشش ثقل ختم ہوجائے گی تو پہاڑوں کی زمین میں جڑیں بھی ڈھیلی پڑجائیں گی۔ پہلے تو پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ بعد ازاں ان کی بھر بھری ریت کو ہوا ادھر سے ادھر اڑاتی پھرے گی۔
(واذا الجبال سیرت): اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کے اندر گاڑ رکھا ہے اور زمین میں وہ کشش رکھی ہے جو انہیں باندھ کر رکھے ہوئے ہے۔ اللہ کے حکم سے قیامت کے دن وہ کشش ختم ہوجائے گی اور یہ جامد پہاڑ ڈھنی ہوئی اون کی طرح ذرہ ذرہ ہو کر بادلوں کی طرح چل پڑیں گے، حتیٰ کہ سراب کی طرح ہوجائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(و سیرت الجبال فکانت سراباً ) (النبا : ٢٠)” اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن جائیں گے۔ “ مزید تفصیل کیلئے سورة نبا کی اسی آیت کی تفسیر دیکھیے۔
وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ ٣ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ سار السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ. والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، والتَّسْيِيرُ ضربان : أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] . والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، والسِّيرَةُ : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا . ( س ی ر ) السیر ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔
(٣۔ ٧) اور جب پہاڑ زمین پر سے ہٹا دیے جائیں گے اور جب گابھن اونٹنیوں کے مالک اپنی مشغولیت کی بنا پر ان سے غافل ہوجائیں گے اور جب قصاص کے لیے تمام جانوروں کو جمع کیا جائے گا، یا یہ کہ گھبراہٹ کی وجہ سے جمع ہوجائیں گے اور جب کھارے دریا کا پانی شیریں میں ملا کر ایک کردیا جائے گا، یا یہ کہ آگ ہوجائیں گے اور جس وقت ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھے کیے جائیں گے یعنی اپنے ساتھیوں سے مل جائیں گے کہ نیک نیک کے ساتھ اور گنہگار گنہگار کے ساتھ۔
3 In other words, the earth also will lose its force of gravity because of which the mountains have weight and are firmly set in the earth. Thus, when there is no more gravity the mountains will be uprooted from their places and becoming weightless will start moving and flying as the clouds move in the atmosphere.
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :3 دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہو جائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی ہیں اور جمے ہوئے ہیں ۔ پس جب وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہو کر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں ۔
(81:3) واذا الجبال سیرت اس کا عطف بھی آیت نمبر 1 پر ہے ترکیب بھی وہی ہے۔ سیرت ماضی مجہول کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تسییر (تفعیل) مصدر ۔ وہ چلائی جائے گی وہ (پہاڑ) چلائے جائیں گے۔ سیر بمعنی چلنا، سیر کرنا۔ الجبال جمع الجبل واحد۔ پہاڑ۔
واذا .................... سیرت (3:81) ” جب پہاڑ چلائے جائیں گے “۔ پہاڑوں کے چلائے جانے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ، پیس کر ہوا میں بکھیر دیا جائے گا جیسا کہ دوسری سورت میں ہے۔ ویسئلونک ............................ نسفا (105:20) ” تم سے یہ لوگ پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دیں کہ تمہارا رب انہیں دھول بنا کر اڑادے گا “ اور دوسری جگہ ہے۔ وبست ............................ منبثا (6, 5:56) ” اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے “۔ وسیرت ........................ سرابا (20:78) ” اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے “۔ ان سب آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ پہاڑوں کو ایک ایسا حادثہ پیش آئے گا ، جس سے ان کی مضبوطی ، ان کا باہم پیوست ہونا ، اور اپنی جگہ پر برقرار رہنا جاتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس پورے عمل کا آغاز عملی زلزلہ سے ہو۔ اور اس زلزلہ کے بارے میں خود قرآن کریم تصریح کرتا ہے۔ اذا زلزلت ............................ اثقالھا (2, 1:99) ” جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی “۔ یہ سب واقعات قیامت کے طویل دن میں رونما ہوں گے۔
ثالثاً ﴿ وَ اِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ۪ۙ٠٠٣﴾ (اور جبکہ پہاڑ چلا دیئے جائیں) پہاڑوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا، سورة النمل، سورة طٰہٰ ، سورة مزمل میں بھی مذکور ہے، پہاڑ ریت کی طرح ہوجائیں گے اور اپنی اپنی جگہوں سے چل دیں گے جیسے بادل چلتے ہیں (وھی تمر مر السحاب) ۔