Surat ut Takveer
Surah: 81
Verse: 4
سورة التكوير
وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾
And when full-term she-camels are neglected
اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں ۔
وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾
And when full-term she-camels are neglected
اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں ۔
And when the pregnant she-camels (`Ishar) are neglected (`Uttilat); Ikrimah and Mujahid said, "`Ishar are (pregnant she) camels." Mujahid said, "`Uttilat means abandoned and left." Ubayy bin Ka`b and Ad-Dahhak both said, "Their owners will neglect them." Ar-Rabi` bin Khuthaym said, "They will not be milked or tied up. Their masters will leave them abandoned." Ad-Dahhak said, "They will be left with no one to tend to them." And the meaning of all of these statements is similar. What is intended is that the `Ishar is a type of camel. It is actually the best type of camel, and particularly the pregnant females of them when they have reached the tenth month of their pregnancies. One of them is singularly referred to as `Ushara', and she keeps that name until she gives birth. So the people will be too busy to tend to her, take care of her or benefit from her, after she used to be the most important thing to them. This will be due to what will suddenly overtake them of the great, terrifying and horrible situation. This is the matter of the Day of Judgement, the coming together of its causes, and the occurrence of those things that will happen before it. وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ
4۔ 1 جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی حاملہ اور قیمتی اونٹنی بھی ہوگی تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔
[٥] اہل عرب کے نزدیک اونٹ ایک قیمتی متاع سمجھا جاتا تھا اور دس ماہ کی حاملہ اونٹنی تو ان کے ہاں نہایت عزیز متاع تھی اس لیے کہ وہ ایک دو ماہ بعد بچہ بھی جنے گی اور دودھ بھی دیا کرے گی۔ اس آیت میں بتایا یہ جارہا ہے کہ قیامت کی دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ انسان کو اپنی قیمتی متاع سنبھالنے کا بھی ہوش نہ رہے گا۔
(واذا العشار عظلت :” العشار “ ” عشرائ “ کی جمع ہے، دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں جو عربوں کے ہاں نہایت عزیز ہوتی تھیں۔ صور پھونکے جانے کی ابتدا میں جو گھبراہٹ پیدا ہوگی اس میں اتنی نفیس اور عزیز چیزوں کو بھی کوئی نہیں سنبھالے گا، ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی۔
وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (and when the ten-months pregnant she-camels will be abandoned...81:4). The Arabic word ` ishar is the plural of the word ` ushara& and is applied to she-camels having ten months pregnancy. Such she-camels were considered by the Arabs to be a very valuable asset, because they expected her to give birth to more camels and abundant milk. As such, they used to protect her and never left her free. The verse referring to this custom of the Arabs, who were the immediate addressees, depicts the horrible scene of the Doomsday when even the most favorite wealth, like such a she-camel, will be abandoned and neglected by its owners because of the calamity they will be facing.
وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ، یہ عرب کی عادت کے مطابق بطور مثال کے فرمایا ہے کیونکہ اسکے پہلے مخاطب عرب لوگ تھے انکے نزدیک دس مہینے کی گابھن اونٹنی ایک بڑی دولت سمجھی جاتی تھی کہ اس سے دودھ اور بچے کا انتظار ہوتا تھا اور وہ اس کی دم سے لگے پھرت تھے، کسی وقت اس کو آزاد نہ چھوڑتے تھے۔
وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ٤ عشر العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] ، تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] ، وعَشَرْتُهُمْ أَعْشِرُهُمْ : صِرْتُ عَاشِرَهُمْ ، وعَشَرَهُمْ : أَخَذَ عُشْرَ مالِهِمْ ، وعَشَرْتُهُمْ : صيّرتُ مالهم عَشَرَةً ، وذلک أن تجعل التِّسْعَ عَشَرَةً ، ومِعْشَارُ الشّيءِ : عُشْرُهُ ، قال تعالی: وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] ، وناقة عُشَرَاءُ : مرّت من حملها عَشَرَةُ أشهرٍ ، وجمعها عِشَارٌ. قال تعالی: وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، وجاء وا عُشَارَى: عَشَرَةً عَشَرَةً ، والعُشَارِيُّ : ما طوله عَشَرَةُ أذرع، والعِشْرُ في الإظماء، وإبل عَوَاشِرُ ، وقَدَحٌ أَعْشَارٌ: منکسرٌ ، وأصله أن يكون علی عَشَرَةِ أقطاعٍ ، وعنه استعیر قول الشاعر : بسهميك في أَعْشَارِ قلب مقتّل والعُشُورُ في المصاحف : علامةُ العَشْرِ الآیاتِ ، والتَّعْشِيرُ : نُهَاقُ الحمیرِ لکونه عَشَرَةَ أصواتٍ ، ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] بیس آدمی ثابت قدم ۔ تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر/ 30] انیس ( درواغے ) میں ان میں دسواں بن گیا عشرھم ان سے عشر یعنی مال کا دسواں حصہ وصول کیا ۔ عشرتھم میں نے ان کے مویشی دس بنادیئے یعنیپہلے نو تھے ان میں ایک اور شامل کر کے دس بنادیا معشار الشئی دسواں حصہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ/ 45] اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ ناقۃ عشرء دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اس کی جمع عشار آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير/ 4] ، اور جب دس ماہ کی گابھن ( حاملہ ) اور نٹینیاں بیکار ہوجائیں گی ۔ جاؤ عشاری وہ دس دس افراد پر مشتعمل ٹولیاں بن کر آئے ۔ العشاری ہر وہ چیز دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشاری ہر وہ چیز جو دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشر اونٹوں کو پانی نہ پلانے کی مدت ( نودن ) ابل عواشر نودن کے پیا سے اونٹ قدح اعشار ٹوٹا ہوا پیالہ دراصل اعشار لا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو ٹوٹ کر دس ٹکڑے ہوگیا ہو اسی سے شاعر نے بطور استعارہ کہا ہے ( 311 ) بسھمیک فی اعشار قلب مقتل تم اپنی ( نگاہوں ) کے دونوں تیرے میرے شکستہ دل کے ٹکڑوں پر ( مارنا چاہتی ہو العشور کے معنی گدھے کی آواز کے ہیں کیونکہ گدھا جب آواز کرتا ہے تو دس مرتبہ آواز کرتا ہے عطل العَطَلُ : فقدان الزّينة والشّغل، يقال : عَطِلَتِ المرأةُ «6» ، فهي عُطُلٌ وعَاطِلٌ ، ومنه : قوس عُطُلٌ: لا وتر عليه، وعَطَّلْتُهُ من الحليّ ، ومن العمل فَتَعَطَّلَ. قال تعالی: وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ [ الحج/ 45] ، ويقال لمن يجعل العالم بزعمه فارغا عن صانع أتقنه وزيّنه : مُعَطِّل، وعَطَّلَ الدّار عن ساکنها، والإبل عن راعيها . ( ع ط ل ) العطل ( س ) زیور سے خالی ہونا یا مزدور کا بیکار ہونا کہا جاتا ہے عطلت المرءۃ عورت زیور سے خالی ہوگئی ایسی عورت کو عطل اور عاطل کہا جاتا ہے اسی سے قوس عطل ہے یعنی وہ کمان جس پر تانت نہ ہو عطلتہ من الحلی ادلعمل میں نے اسے زیور یا کام سے خالی کردیا فتعطل میں نے اسے زیور یا کام سے خالی کردیا فتعطل چناچہ وہ خالی ہوگیا ۔ بیکار ہوگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے کنوئں بیکار پڑے ہیں ۔ اور جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جہاں کا کوئی صانع نہیں ہے جس نے اسے محکم اور آراستہ کیا ہے انہیں معطلۃ کہا جاتا ہے عطل الدار گھر کو ویران کردیا عطل الابل اونٹ بغیر محافظ کے چھوڑ دیئے ان کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دیا
آیت ٤{ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ۔ } ” اور جب گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی۔ “ العِشار سے دس مہینوں کے حمل والی اونٹنیاں مراد ہیں ‘ یعنی ایسی اونٹنیاں جن کے وضع حمل کا وقت بہت قریب ہو۔ عربوں کے ہاں ایسی اونٹنی بہت قیمتی سمجھی جاتی تھی اور اس لحاظ سے وہ لوگ اس کی خصوصی حفاظت اور خدمت کرتے تھے ۔ آیت میں اس حوالے سے قیامت کی ہولناک کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو بہت قیمتی اونٹنیاں بھی لاوارث ہوجائیں گی ‘ انہیں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے اس وقت جبکہ خود عورتوں کو اپنے حمل کی کوئی فکر نہیں ہوگی تو اونٹنیوں کی کسے ہوش ہوگی۔
4 This was by far the best way of giving an idea of the severities and horrors of Resurrection to the Arabs. Before the buses and trucks of the present day there was nothing more precious for the Arabs than the she-camel just about to give birth to her young. In this state she was most sedulously looked after and cared for, so that she is not lost, stolen, or harmed in any way. The people's becoming heedless of such she-camels, in fact, meant that at that time they would be so stunned as to become unmindful of their most precious possessions.
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :4 عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کے لیے یہ بہترین طرز بیان تھا ۔ موجودہ زمانہ کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہل عرب کے لیے اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو ۔ اس حالت میں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تاکہ وہ کھوئی نہ جائے ، کوئی اسے چرا نہ لے ، یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہو جائے ۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہو جانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں پر پڑے گی کہ انہیں اپنے اس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا ۔
2: اُونٹنی اُس وقت عرب کے لوگوں کے لئے سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھی، اور اگر اُونٹنی گابھن یعنی حاملہ ہو تو اُس کی قیمت اور بڑھ جاتی تھی، اور دس مہینے کی گابھن ہو تو اُسے سب سے زیادہ قیمتی سمجھاجاتا تھا۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے وقت ہر شخص پر ایسی حالت طاری ہوگی کہ ُاسے اتنی بڑی دولت کو بھی سنبھالنے کا ہوش نہیں رہے گا، اس لئے ایسی اُونٹنیاں بھی بیکار چھٹی پھریں گی۔
(81:4) واذا العشار عطلت : اس کا عطف بھی آیت نمبر 1 پر ہے۔ اور ترکیب بھی وہی ہے۔ العشار دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں۔ ایسی اونٹنی اہل عرب کے نزدیک ایک نفیس ترین سمجھی جاتی ہے اس کا واحد عشراء ہے۔ علامہ فیومی کے نزدیک اس طرح کے واحد اور جمع کی نظیر صرف نفساء اور نفاس ہی ہے اور ان دونوں کے علاوہ تیسری نظیر موجود نہیں ہے۔ عطلت ماضی مجہول صیغہ واحد مؤنث غائب تعطیل (تفعیل) مصدر، جس کا مطلب ہے یوں ہی چھوڑ دینا۔ دیکھ بھال نہ کرنا۔ نفع نہ اٹھانا۔ بےکار چھوڑ دینا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں یوں ہی آوارہ پھریں گی۔
ف 4 یہ گابھن اونٹنیاں عربوں کی نظر میں انتہائی قابل قدر ہوتی تھیں اور وہ ان سے کسی حال میں غافل نہ ہوتے تھے لیکن قیامت کی ہولناکی ایسی ہوگی کہ کسی کو ان کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اس دن اپنے قیمتی سے قیمتی اور پیارے سے پیارے مالک کا بھی ہوش نہ رہے گا۔
واذا ................ عطلت (4:81) ” اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی “۔ العشار ، ان اونٹنیوں کو کہتے ہیں جو حاملہ ہوں اور حمل کے دس مہینے ہوچکے ہیں۔ عربوں کے نزدیک اس سے بہتر اور کوئی ملکیت نہ تھی۔ اس کی وہ بہت زیادہ دیکھ بھال کرتے تھے کیونکہ وہ قریب زمانے میں بچہ دینے والی ہوا کرتی تھی اور پھر دودھ دیتی اور اس کی افادیت قریب ہوتی۔ جس دن یہ عظیم انقلابات ہوں گے لوگ گھبراہٹ کے وجہ سے ایسے قیمتی مال کو بھی چھوڑ کر بھاگ نکلیں گے۔ کوئی بھی ایسے قیمتی مال کی طرف متوجہ نہ ہوگا۔ جس دور کے لوگوں سے قرآن مخاطب تھا ، خصوصاً عرب ، وہ ایسے مال کو ہرگز نہ چھوڑتے تھے الا یہ کہ ان پر کوئی عظیم مصیبت آجائے۔
رابعاً ﴿ وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۪ۙ٠٠٤﴾ (اور جب حمل والی اونٹنیاں بیکار کردی جائیں) اس میں لفظ العشار عشراء کی جمع ہے جس اونٹنی کو دس ماہ کا حمل ہو اسے عشراء کہتے ہیں اور بیکار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نہ کوئی طالب رہے گا نہ چرانے والا، نہ سواری کرنے والا، عرب کے لوگ حمل والی اونٹنیوں کو اپنے لیے بہت بڑا سرمایہ سمجھتے تھے اور قرآن کے اولین مخاطبین وہی تھے اس لیے اونٹنیوں کے بیکار ہونے کا تذکرہ فرمایا کہ تم جن چیزوں کو اپنی مرغوب ترین چیز سمجھتے ہو ان پر ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے کہ ان کی طرف ذرا بھی کوئی توجہ نہ کرے گا۔
(4) اور جب گیا بھن اونٹنیاں جو بیاہنے کے قابل ہوں وہ توجہ کے قابل نہ رہیں۔ یعنی دس مہینے کی گیا بھن اونٹنیاں جو اہل عرب کے نزدیک بہترین مال سمجھاجاتا ہے اور ایسی اونٹنی کی بہت حفاظت کی جاتی ہے اور بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن وہ وقت یعنی نفخہ اولیٰ ایسی ہلچل کا وقت ہوگا کہ ایسی اونٹنیاں جو بہت توجہ کے قابل ہوتی ہیں اس وقت ناقابل توجہ ہوجائیں گی اور کوئی ایسی بیش قیمت مال کو نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھے گا۔