Surat ut Takveer
Surah: 81
Verse: 6
سورة التكوير
وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾
And when the seas are filled with flame
اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے ۔
وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾
And when the seas are filled with flame
اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے ۔
And when the seas become as blazing fire. Ibn Jarir recorded from Sa`id bin Al-Musayyib that `Ali said to a Jewish man, "Where is the Hell" The man said, "The sea." Ali then said, "I think he is truthful, as Allah says وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ And by the seas kindled (Masjur). (52:6) and; Joining the Souls Concerning Allah's statement, وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ
[٧] قیامت کو سمندروں کا انجام :۔ سُجِّرَتْ : سجر میں کسی چیز کے بھرے ہوئے ہونے اور اس میں مخالطت یا تلاطم کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ البحر المسجور سے مراد وہ سمندر ہے جو بھرا ہوا بھی ہو اور جوش تلاطم سے ابل بھی رہا ہو۔ اور سجّرالتنّور کے معنی تنور کو ایندھن سے بھر کر گرم کرنا تاکہ آگ پوری شدت سے بھڑک سکے اور سجور اس ایندھن کو کہتے ہیں جس سے تنور گرم کیا جائے۔ گویا ہر وہ چیز جو آگ میں شدت پیدا کرنے کے لیے تنور میں جھونک دی جائے وہ سجور ہے۔ اب دیکھیے کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مجموعہ ہے۔ ہائیڈروجن خود آتش گیر گیس ہے جو آگ دکھانے سے ہی فوراً بھڑک اٹھتی ہے اور آکسیجن آگ کو بھڑکنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہی دو گیسیں جب کیمیائی طریقہ سے ملائی جاتی ہیں تو جو پانی حاصل ہوتا ہے وہ ان گیسوں سے بالکل برعکس خاصیت رکھتا ہے اور آگ کو فوراً بجھا دیتا ہے۔ قیامت کے دن سمندروں کے پانی کو پھر سے انہی دو گیسوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ پھر ان میں آگ لگ جائے گی اور بالآخر وہ خشک ہوجائیں گے۔
(واذا البحار سجرت :)” سحر التنور “ اس نے تنور جلایا۔” سبحر “ میں مبالغہ ہے، خوب بھڑکایا۔ سمندروں کے بھڑکائے جانے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ زمین کے نیچے جو بےپناہ حرارت اور آگ ہے، جو آتش فشاں پہاڑوں کے بیدار ہونے کی صورت میں کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہے، وہ اللہ کے حکم سے سمندروں کو بھڑکا کر انہیں بھاپ بنا کر اڑا دے گی۔ پھر پہاڑوں کی بلندی اور سمندروں کی گہرئای ختم ہو کر زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن دو گیسوں کا مرکب ہے، جن میں سے ایک جالنے اولی اور دوسری جلنے والی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عجیب قدرت ہے کہ ان دونوں کو ملا کر آگ بجھانے والا پانی بنادیا ہے۔ قیامت کے وقت اللہ کے حکم سے ان دونوں کا ملاپ ختم ہوجائے گا اور وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ کر بھڑکانے اور بھڑکنے لگیں گی، جس سے سمندروں کا یہ بےحساب پانی چشم زدن میں اڑ جائے گا۔ بہرحال اللہ کا حکم ہوگا تو سمندر آ سے بھڑکنے لگیں گے۔
وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (and when the seas will be flared up...81:6). The word sujjirat is derived from tasfir and it signifies &to set ablaze&. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) assigns this interpretation to the word in this context. Another sense of the word is &to fill& and a third sense of the word is &to mix or admix&. Some commentators have interpreted it in this sense. None of these interpretations is contradictory to each other. First, the salt and sweet water are admixed and the rivers are made to flow forth into the sea; then the seas will meet together and become one and having more water; then the seas will be set on fire; and then the Sun and the Moon and the stars will be thrown into the water. Then all the water will be turned into fire which will become part of Hell. [ Mazhari ]
وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ، سجرت، تسجیر سے مشتق ہے جس کے معنے آگ لگانے اور بڑھکانے کے بھی آتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے اس جگہ یہی معنے لئے ہیں اور اسکے معنے بھر دینے کے بعد آتے ہیں اور گڈ مڈ خلط ملط کردینے کے بھی بعض ائمہ تفسیر نے یہی معنے لئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ پہلے سمندر اور میٹھے دریاؤں کو ایک کردیا جائے گا درمیان کی رکاوٹیں ختم کردی جاوینگی جس سے دریائے شور اور شیریں دریاؤں کے پانی خلط ملط ہوجائیں گے اور زیادہ بھی، پھر شمس وقمر اور ستاروں کو اس میں ڈال دیا جائے گا پھر اس تمام پانی کو آگ بنادیا جائے گا جو جہنم میں شامل ہوجائیگا (مظہری)
وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ٦ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ سجر السَّجْرُ : تهييج النار، يقال : سَجَرْتُ التَّنُّورَ ، ومنه : وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور/ 6] ، قال الشاعر :إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسما وقوله : وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير/ 6] أي : أضرمت نارا، عن الحسن وقیل : غيضت مياهها، وإنما يكون کذلک لتسجیر النار فيه، ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر/ 72] ، نحو : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، وسَجَرَتِ الناقة، استعارة لالتهابها في العدو، نحو : اشتعلت الناقة، والسَّجِيرُ : الخلیل الذي يسجر في مودّة خلیله، کقولهم : فلان محرق في مودّة فلان، قال الشاعر سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة ( س ج ر ) السجر اس کے اصل معنی زور سے آگ بھڑ کانے کے ہیں ۔ اور سجرت التنور کے معنی ہیں میں نے تنور جلا دیا اسے ایندھن سے بھر دیا اسی سے فرمایا : ۔ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور/ 6] اور ( نیز ) جوش مارنے والے سمندر کی ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( المتقارب ) إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسماجب وہ چاہتا ہے تو پانی سے پر گڑھا اسے نظر آجاتا ہے جس کے گردا گرد نبع اور سمسم کے درخت اگے ہوئے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير/ 6] اور جس وقت دریا پاٹ دیے جائیں ۔ کے معنی حسن (رض) ( بصری ) نے یہ کئے ہیں کہ جب ان کے پانی خشک کردیئے جائیں اور یہ ان میں آگ بھڑکانے کی غرض سے ہوگا ۔ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر/ 72] پھر آگ میں جھونکے جائیں گے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ اور استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ وسَجَرَتِ الناقة : اونٹنی دوڑ میں بھڑک اٹھی یعنی سخت دوڑی جیسے اشتعلت الناقۃ کا محاورہ ہے اور السجیر کے معنی مخلص دوست کے ہیں گویا وہ محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے فلان محرق فی مودۃ : کہ فلاں سوختہ محبت ہے کسی شاعر نے کہا ہے سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة
آیت ٦{ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ۔ } ” اور جب سمندر دہکا دیے جائیں گے۔ “ اگلی سورت یعنی سورة الانفطار میں سمندروں کے پھاڑے جانے { وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ۔ } کا ذکر ہے۔ ان دونوں آیات پر غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ جب زمین کو کھینچ کر پھیلایا جائے گا { وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ۔ } (الانشقاق) تو اس کی اندرونی تپش اوپری سطح پر آجائے گی۔ چناچہ دہکتے ہوئے لاوے کے عین اوپر سمندراُبل رہے ہوں گے اور اس طرح سمندروں کا پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم !
6 The word sujjirat as used in the original in passive voice from tasjir in the past tense. Tasjir means to kindle fire in the oven. Apparently it seems strange that on the Resurrection Day fire would blaze up in the oceans. But if the truth about water is kept in view, nothing would seem strange. It is a miracle of God that He combined oxygen and hydrogen, one of which helps kindle the fire and the other gets kindled of itself and by the combination of both He created a substance like water which is used to put out fire. A simple manifestation of Allah's power is enough to change this composition of water so that the two gases are separated and begin to burn and help cause a blaze, which is their basic characteristic.
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ سجرت استعمال کیا گیا ہے جو تسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے ۔ تسجیر عربی زبان میں تنور کے اندر آگ دہکانے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی ۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگوں کی نگاہ میں ہو تو اس میں کوئی چیز بھی قابل تعجب محسوس نہ ہو گی ۔ یہ سراسر اللہ تعالی کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ھائیڈروجن ، دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑکانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے ۔ اور ان دونوں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے ۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اس بات کے لیے باکل کافی ہے کہ وہ پانی کی اس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہو جائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے ۔
4: سمندروں کے بھڑکانے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُن میں طغیانی آجائے گی اور دَریا سمندر آپس میں مل کر ایک ہوجائیں گے، اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ ان کا پانی خشک ہوجائے گا، اور ان میں آگ لگادی جائے گی۔
ف 6 جیسے تنور کو دھونکا جاتا ہے یعنی ان کا پانی گرم ہو کر دھواں اور آگ بن جائے یا مطلب یہ ہی کہ ان کا پانی مل کر ایک ہوجائے یا سوکھ جائیں۔ عربی زبان میں ” سجر “ کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے۔
1۔ یہ چھ واقعے تو نفخہ اولی کے وقت ہوں گے جبکہ دنیا آباد ہوگی اور اس نفخہ سے یہ تغیرات و تبذلات ہوں گے اور اس وقت اونٹنیاں وغیرہ بھی اپنی اپنی حالت پر ہوں گی جن میں بعض وضع حمل کے قریب ہوں گی جو کہ اہل عرب کے نزدیک عزیز ترین اموال ہیں مگر اس وقت ہلچل میں کسی کو کہیں کا ہوش نہ رہے گا، اور وحوش بھی مارے گھبراہٹ کے سب گڈ مڈ ہوجائیں گے، اور دریاوں میں اول طغیانی پیدا ہوگی اور زمین میں شقوق واقع ہوجائیں گے، جس سے سب شیریں اور شور دریا ایک ہوجائیں گے، پھر شدت حرارت سے سب کا پانی مستحیل بآتش ہوجائے گا۔ اس کے بعد عالم فنا ہوجائے گا اور اگلے چھ واقعات بعد نفخہ ثانیہ کے ہوں گے۔
واذا ................ سجرت (6:81) ” اور جب سمندر بھرکا دیئے جائیں گے “۔ سجرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں۔ سمندروں کو پانی سے بھر دیا جائے گا ۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ سمندروں میں یہ پانی اس طرح آئے گا جس طرح بادلوں اور بارشوں کے طوفان زمین پر حملہ آور ہوئے ، جبکہ زمین سرد ہوئی اور اس کا چھلکا سخت ہوا۔ جس کا ذکر ہم نے سورة نازعات میں کیا یا یوں کہ زمین میں جب زلزلے پیدا ہوں گے اور آتش فشانی کا عمل ہوگا تو سمندر کے درمیان سے خشکی ختم ہوجائے گی اور سمندر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ دوڑیں گے۔ یا اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں آگ لگ جائے گی اور وہ پھٹ پڑیں گے جیسا کہ دوسری جگہ میں ہے۔ واذا .................... فجرت (3:82) ” اور جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے “۔ سمندروں کے پھٹنے کی عمل شکل یوں ہوسکتی ہے کہ پانی کے اجزاء ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک جگہ جمع ہوجائیں یا ان کے اجزاء اس طرح پھٹ جائیں جس طرح ذرات اور ایٹم پھٹ جاتے ہیں۔ اور یہ شکل نہایت ہی ہولناک ہوگی ، جب یہ صورت ہوگی تو ایک ناقابل تصور آگ ان سمندروں میں شعلہ زن ہوجائے گی۔ ایک محدود تعداد میں اگر ایٹمی یا ہائیڈروجن کا دھماکہ ہوجائے تو اس سے بھی ایک ہولناک دھماکہ ہوتا ہے ، لیکن اگر تمام سمندروں کے ذرات پھٹ جائیں تو انسان اس ہولناک دھماکے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس سے کس قدر عظیم جہنم برپا ہوجائے گا۔
سادساً ﴿ وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۪ۙ٠٠٦﴾ (اور جب سمندروں کو دہکا دیا جائے) لفظ سُجِّرَتْ تسجیر سے ماخوذ ہے یہ لفظ آگ جلانے دہکانے بڑھکانے اور تیز کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ صاحب روح المعانی اس کا مطلب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں : ای احمیت بان تغیض میاھھا وتظھر النار فی مکانھا یعنی سمندروں کو گرم کردیا جائے گا جس سے ان کے پانی خشک ہوجائیں گے اور ان کی جگہ آگ ظاہر ہوجائے گی۔
3:۔ ” واذا البحار سجرت “ اور جب دریا پانی سے بھر دئیے جائیں۔ زلزلہ قیامت کی وجہ سے سمندر میں ایسا ابال آئے گا کہ تمام دریا پانی سے بھر جائیں گے، بلکہ خشکی بھی زیر آب ہوجائے گی۔ یہاں تک وہ چھ احوال مذکور ہوئے جو نفخہ اولی کے بعد ظاہر ہوں گے آگے ان احوال کا بیان ہے جو نفخہ ثانیہ کے بعد ظہور پذیر ہوں گے۔ ” واذا النفوس زوجت “ اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی اور تمام مردے زندہ ہوجائیں گے یہ نفخہ ثانیہ کے بعد کے احوال میں سے پہلا حال ہے۔ ” واذا الموء ودۃ سئلت “ اور جب زندہ درگور لڑکی کے بارے میں اس کو زندہ دفن کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ اس کو کس جرم میں قتل کیا گیا۔ ” واذا الصحف نشرت “ اور جب اعمالنامے حساب کتاب کے لیے کھولے جائیں گے یا مومنوں اور کافروں کے درمیان ان کے اعمالنامے تقسیم کیے جائیں گے۔ ” واذا السماء کشطت “ اور جب آسمان چھیل دئیے جائیں گے۔ ” واذا الجحیم شعرت “ اور جب دوزخ بھڑکا دیا جائے گا۔ ” واذا الجنۃ “ اور جب جنت نزدیک کردی جائیگی۔ ” علمت نفس ما احضرت “ یہ تمام قسموں کا جواب ہے جب مذکورہ بالا امور ظاہر ہوں گے یعنی قیامت قائم ہوجائے گی اس وقت ہر شخص کو اپنے اعمالِ خیر و شر معلوم ہوجائیں گے جو اس نے دنیا میں کیے تھے۔
(6) اور جب دریا بھڑکائے جائیں یعنی دریا کا پانی آگ بن جائے پہلے ہوا بن جائے پھر ہوا آگ کی شکل میں تبدیل ہوجائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پانی دریا کا دھواں اور آگ بن جائے جس کے سبب ہوا نہایت گرم ہو کر محشر کے بےایمانوں کو دکھ پہنچائے اور تنور کی طرح جھونکے سے ابلے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ سجرت کا مطلب یہ ہے کہ دریائوں کا تمام پانی خشک ہوجائے اور ایک قطرہ بھی نام کونہ رہے ۔ بہرحال ! یہ چھ باتیں تو نفخہ اولیٰ کی ہیں اور یہ جب ہوں گی جب دنیا آباد ہوگی اور نفخہ اولیٰ سے عالم تباہ و برباد ہوگا آگے کی چھ باتیں اس عالم کی ہیں جو نفخہ ثانیہ کے بعد ہوں گی۔