Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 7

سورة التكوير

وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۷﴾

And when the souls are paired

اور جب جانیں ( جسموں سے ) ملا دی جائیں گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when the souls are joined with their mates. meaning, every type (of soul) will be gathered with its peer (or mate). This is as Allah says, احْشُرُواْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزْوَجَهُمْ It will be said to the angels: "Assemble those who did wrong, together with their companions (from the devils). (37:22) Ibn Abi Hatim recorded from An-Nu`man bin Bashir that the Messenger of Allah said, وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (And When the souls are joined with their mates). Those who are alike. Every man will be with every group of people who performed the same deeds that he did. This is because Allah says, وَكُنتُمْ أَزْوَاجاً ثَلَـثَةً فَأَصْحَـبُ الْمَيْمَنَةِ مَأ أَصْحَـبُ الْمَيْمَنَةِ وَأَصْحَـبُ الْمَشْـَمَةِ مَأ أَصْحَـبُ الْمَشْـَمَةِ وَالسَّـبِقُونَ السَّـبِقُونَ And you (all) will be in three groups. So those on the Right Hand - how (fortunate) will be those on Right Hand! And those on the Left Hand - how (unfortunate) will be those on the Left Hand! And those foremost will be foremost. (56: 7-10) Questioning the Female Infant Who was buried Alive Allah says, وَإِذَا الْمَوْوُودَةُ سُيِلَتْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اس کے کئے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومنوں کو مومنوں کے ساتھ اور بد کو بدوں کے ساتھ یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] زوج کا لفظ بڑا وسیع المعنی ہے اور اس لحاظ سے اس آیت کے مطلب بھی متعدد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ ہے کہ قیامت کے دن مردوں کے جسم کو ان کی قبروں سے اٹھا کر ان کے ارواح کو ان جسموں میں ملایا جائے گا اور یہی دوبارہ زندگی کا مفہوم ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جرائم کے لحاظ سے ان کے گروہ بنا دیئے جائیں گے۔ مثلاً مشرکوں کا گروہ الگ ہوگا، منافقون کا الگ، کافروں کا الگ، مومنوں کا الگ یا جیسے زانیوں کا الگ، قاتلوں کا الگ وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(واذا النفوس زوجت):” اور جب جانیں ملائی جائیں گی “ اس کی دو تفسیریں ہیں، پہلی یہ کہ جانیں جسموں کیساتھ ملائی جائیں گی۔ یہاں سے دوسرے نفخہ کے بعد کے حالات ہیں، تو سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ دوسری یہ کہ جانوں کی قسمیں بنادی جائیں گی، نیکوں کو نیکوں کے ساتھ اور گناہ گ اورں کو گناہ گ اورں کے ساتھ ملا دیا جائے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(احشروا الذین ظلموا وازواجھم و ما کانوا یعبدون) (الصافات : ٢٢)” جمع کرو ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کے ہم شکلوں کو اور ان کو جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے۔ “ دوسری تفسیر عمر (رض) عنہمانے فرمائی ہے۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، باب :(اذ الشمس کورت) ، بعد ج : ٣٩٣٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (and when the people will be arranged in categories...81:7). It means that the people on the Plain of Gathering will be grouped, like with like, in terms of belief and deeds. Disbelievers will be grouped together and believers will be grouped together. There are differences between the deeds and habits of believers and there are differences between the deeds and habits of disbelievers. The non-believers will be regrouped according to their essential characteristics and the Muslims too will be regrouped according to their essential characteristics as is reported in Baihaqi on the authority of Sayyidna Nu` man Ibn Bashir (رض) that Sayyidna ` Umar Ibn Khattab (رض) said that the people doing similar deeds, good or bad, will be joined together. For example, the knowledgeable persons from among the Muslims who were serving Islamic studies will be made into one group; the people who devoted themselves for worship will be made into another group; the people performing jihad will be together, and the people whose main characteristic was to spend in charities will be gathered in one place. On the other hand, those who were involved in wicked activities like thieves, robbers, adulterers will also be assembled in their respective groups. Sayyidna ` Umar (رض) based this statement on the verse of the Holy Qur&an in which Allah says in Surah [ and you will be (divided into) three categories. (56:7) It is mentioned further in that Surah that out of the three categories, two will attain salvation who are named as the &foremost& and &people of the right& while another group, namely the &people of the left& will be comprised of the infidels.

وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ، یعنی جبکہ حاضرین محشر کے جوڑے جوڑے اور جتھے بنادیئے جاویں گے یہ جتھے اور جماعتیں ایمان وعمل کے اعتبار سے ہوں گے کہ کافر ایک جگہ مومن ایک جگہ، پھر کافر و مومن میں بھی اعمال و عادات کا فرق ہوتا ہے، انکے اعتبار سے کفار میں بھی مختلف قسم کے گروہ ہوجائیں گے اور مسلمان میں بھی یہ گروہ عقیدے اور عمل میں اشتراک کی بنا پر ہوں گے جیسا کہ بیہقی نے بروایت حضرت نعمان بن بشیر حضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے کہ جو لوگ ایک جیسے اعمال کرتے ہوں گے وہ ایک جگہ کردیئے جاویں گے اعمال حسنہ ہوں یا سیہ، مثلاً اچھے مسلمانوں میں علم دین کی خدمت کرنیوالے علماء ایک جگہ، عباد وزہاد ایک جگہ جہاد کرنے والے غازی ایک جگہ، صدقہ خیرات میں خصوصیت رکھنے والے ایک جگہ، اسی طرح بد اعمال لوگوں میں چور ڈاکو ایک جگہ، زنا کار فحاش ایک جگہ، دوسرے خاص خاص گناہوں میں باہم شریک رہنے والے ایک جگہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر میں ہر شخص اپنی قوم کے ساتھ ہوگا (مگر یہ قومیت نسبی یا وطنی نہیں بلکہ عمل و عقیدہ کے اعتبار سے ہوگی) نیک عمل کرنیوالے ایک جگہ بدعمل والے دوسری جگہ ہوں گے اور اس پر آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا (آیت) وکنتم ازواجا ثلثة، یعنی محشر میں لوگوں کے بڑے گروہ تین ہوں گے جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے کہ ایک گروہ سابقین اولین کا ہوگا، دوسرا اصحاب الیمین کا، یہ دونوں گروہ نجات پانیوالے ہوں گے، تیرا گروہ اصحاب الشمال کا ہوگا جو کفار فجار پر مشتمل ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۝ ٧ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ۔ } ” اور جب جانوں کے جوڑ ملائے جائیں گے۔ “ یعنی پوری نسل انسانی کے مختلف افراد کی گروہ بندی کردی جائے گی۔ یہ گروہ بندی لوگوں کے اعمال اور انجام کے حوالے سے ہوگی جیسے سورة النمل ‘ آیت ٨٣ اور سورة حٰمٓ السجدۃ ‘ آیت ١٩ میں اہل جہنم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے جانے کا ذکر آیا ہے ۔ اس آیت کا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ جب جانیں جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 From here begins mention of the second stage of Resurrection. 8 That is, men will be resurrected precisely in the state as they lived in the world before death with body and soul together.

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :7 یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :8 یعنی انسان از سرنو اسی طرح زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی ایک قسم کے لوگ ایک جگہ جمع کردئیے جائیں گے، کافر ایک جگہ، اور مومن ایک جگہ۔ نیز نیک لوگ ایک جگہ، اور بدکار ایک جگہ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:7) واذا النفوس زوجت : عطف علی آیۃ نمبر 1 ۔ النفوس جمع ہے النفس کی اشخاص ، لوگ۔ زوجت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب ، تزویج (تفعیل) مصدر سے۔ اس کا جوڑا ملا دیا جائے گا۔ تزویج کے معنی ہیں ایک شے کا دوسری شے کی جفت و قریں کردینا۔ اسی اعتبار سے مرد اور عورت کے عقد کرنے کے معنی بھی آتے ہیں ۔ بیہقی (رح) نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کے حوالہ سے حضرت عمر بن خطاب (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ :۔ آیت اذا النفوس زوجت میں وہ شخص مراد ہیں جو ایک ہی کام کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے دونوں جنت یا دوزخ میں چلے جائیں گے۔ امام راغب (رح) نے تین قول نقل کئے ہیں :۔ (1) ہر گروہ کو اس کے گردہ کے ساتھ جنت یا دوزخ میں ملا دیا جائے گا۔ (2) ارواح کو اجساد کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ (3) نفوس کو اپنے اعمال کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یا یہ مطلب ہے کہ جنت میں نیکیوں کو نیکوں کے ساتھ اور دوزخ میں بدوں کو بدوں کے ساتھ جو ڑدیا جائے۔ وغیرذلک۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دوسرے مرحلے کی ابتدا۔ ہر شخص اس حقیقت کو جانتا ہے کہ جب انسان کی روح اس کے قفس عنصری سے نکل جاتی ہے تو انسان کا جسم کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کرتا، جب جسم میں روح ہوتی ہے تو انسان کا نٹا چبھنے سے بھی تڑپ اٹھتا ہے۔ روح نکل جانے کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اجسام کے سوا ہر انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے اِلّا یہ کہ جس کے جسم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ عالم برزخ میں صرف روح کو ہی اذّیت یا راحت پہنچتی ہے۔ جونہی اسرافیل دوسری مرتبہ صور پھونکے گا تو اللہ کے حکم سے ہر انسان کا جسم اپنی حالت میں آجائے گا اور اس میں روح ڈال دی جائے گی۔ جسے یوں بیان کیا ہے کہ جب جسموں کے ساتھ ان کی روحیں جوڑ دی جائیں گی۔ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بھی لیا ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال کی مناسبت سے اکٹھا کردیا جائے گا یعنی چور اور ڈاکو الگ الگ کردیئے جائیں گے، بدکار اور شرابیوں کو الگ الگ کردیا جائے گا، مشرک آپس میں اکٹھے ہوں گے اور کفار کو الگ جمع کردیا جائے گا۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ سے پہلا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ جونہی لوگوں کا محشر کے میدان میں حساب و کتاب شروع ہوگا تو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں ان معصوم بچیوں کو پیش کیا جائے گا جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ جن ماں باپ اور لوگوں نے بچیوں کو قتل کیا ہوگا، رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرنے کی بجائے ان لڑکیوں اور ننھی منھی بچیوں کو مخاطب فرمائیں گے کہ تمہیں کیوں قتل کیا گیا تھا ؟ وہ عرض کرے گی کہ اے ” رب “ میرے ماں باپ نے مجھے بیٹی ہونے کی بنا پر قتل کیا تھا۔ عربوں میں کچھ قبائل قبل از اسلام اپنی بیٹیوں کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر قتل کرتے تھے۔ ١۔ جنگ کے دوران انہیں لڑکیوں کی حفاظت کرنا پڑتی تھی۔ ٢۔ کچھ قبائل دوسرے کو اپنا داماد بنانے میں عار سمجھتے تھے۔ ٣۔ خوردونوش اور دیگر اخراجات کے حوالے سے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو بوجھ تصور کرتے تھے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر عرب کے کچھ قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ (أَخْبَرَنَا الْوَلِیدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِیُّ عَنْ مَسَرَّۃَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ ابْنِ أَبِی الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ ، عَنِ الْوَضِینِ أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا کُنَّا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ وَعِبَادَۃِ أَوْثَانٍ فَکُنَّا نَقْتُلُ الأَوْلاَدَ وَکَانَتْ عِنْدِی بِنْتٌ لِی فَلَمَّا أَجَابَتْ وَکَانَتْ مَسْرُورَۃً بِدُعَاءِی إِذَا دَعَوْتُہَا فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِی فَمَرَرْتُ حَتَّی أَتَیْتُ بِءْرًا مِنْ أَہْلِی غَیْرَ بَعِیدٍ فَأَخَذْتُ بِیَدِہَا فَرَدَّیْتُ بِہَا فِی الْبِءْرِ وَکَانَ آخِرَ عَہْدِی بِہَا أَنْ تَقُولَ یَا أَبَتَاہُ یَا أَبَتَاہُ فَبَکَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی وَکَفَ دَمْعُ عَیْنَیْہِ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَحْزَنْتَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُ کُفَّ فَإِنَّہُ یَسْأَلُ عَمَّا أَہَمَّہُ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ أَعِدْ عَلَیَّ حَدِیثَکَ فَأَعَادَہُ فَبَکَی حَتَّی وَکَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَیْنَیْہِ عَلَی لِحْیَتِہِ ، ثُمَّ قَالَ لَہُ إِنَّ اللَّہَ قَدْ وَضَعَ عَنِ الْجَاہِلِیَّۃِ مَا عَمِلُوا فاسْتَأْنِفْ عَمَلَکَ ) (رواہ الدارمی : باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الجہل والضلالۃ) ” ولید بن نضر رملی کہتے ہیں کہ ہمیں سبرہ بن معبد یہ واقعہ وضین سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر جاہلیت کے دور کا اپنا واقعہ بیان کیا۔ کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم دور جاہلیت میں بتوں کی پوجا کرتے اور اپنی اولادوں کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، جب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے پاس دوڑتی ہوئی آتی۔ ایک دن میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا میں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک کنواں کے قریب ہوا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی آخری آواز میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی ہائے ابّا ! ہائے ابّا ! یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا روئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو بہنے لگے۔ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے میں سے ایک نے کہا تو نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمگین کردیا۔ آپ نے فرمایا اسے منع نہ کرو ! جس بات نے اسے بےقرار کر رکھا ہے اس کے بارے میں اسے پوچھنے دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنا واقعہ دوبارہ بیان کرو ! اس نے دوبارہ بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا لہٰذا اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کے مقدامات میں سب سے پہلے قتل کے فیصلے کیے جائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں یہ بات اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ قتل کے مقدمات میں سب سے پہلے فیصلے ان بچیوں کے ہوں گے جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَا ےُقْضٰی بَےْنَ النَّاسِ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ فِی الدِّمَاءِ ) (رواہ البخاری : کتاب الدیات) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان قتل کا فیصلہ ہوگا۔ “ ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ “ (بنی اسرائیل : ٣١) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ ) (رواہ البخاری : باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ۔۔ ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بیخبر عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما) مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر روح کو اس کے جسم میں داخل کردیا جائے گا۔ ٢۔ بیٹیوں کو قتل کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن زندہ درگور کی گئی بچی سے اس کے قاتل کو پوچھا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قتل کرنے کا گناہ : ١۔ جس جان کو اللہ نے تحفظ دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٣٣) ٢۔ جس نے کسی کو بغیر حق کے قتل کردیا گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ : ٣٢) ٣۔ قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کیا اور وہ خسارہ پانے والا ہوا۔ (المائدۃ : ٣٠) ٤۔ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (النساء : ٩٣) ٥۔ کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا……………. زوجت ( 7:81) ” اور جب جانیں جوڑ دی جائیں گی “۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ تمام روحیں ، اجسام کے ساتھ ملادی جائیں گی ، اور ان کو دوبارہ ملا کر از سر نو زندہ کردیا جائے گا اور یہ بھی احتمال ہے کہ معنی یہ ہو کہ لوگوں کے باہم متجانس گروپ بنا دیئے جائیں گے جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے۔ وکنتم……………. ثلثة (7:56) ” اور تم تین گروپ ہوگے “۔ یعنی مقربین الٰہی کا گروپ ، دائیں بازو والے اور بائیں بازو والے یا کسی اور اصول تقسیم کے مطابق لوگوں کو ملا دیا جائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے نفخہ ثانیہ سے متعلق چھ واقعات بیان کیے : 1 ﴿ وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۪ۙ٠٠٧﴾ (اور ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھے کیے جائیں) کافر علیحدہ اور مسلمان علیحدہ ہوں گے اور ہر فریق کی جماعتیں ہوں گی۔ سورة ٴ ابراہیم میں فرمایا ﴿ وَ تَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِۚ٠٠٤٩﴾ (اور تو اس دن مجرموں کو بیڑیوں میں ایک ساتھ جوڑے ہوئے زنجیروں میں دیکھے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور جب لوگوں کو اپنے اپنے ہم مشربوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا نفوس کی باہمی ترویج کے کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ اور کافروں کو کافروں کے ساتھ یا ہر شخص کو جوڑ اس شخص سے لگایا جائے گا جس سے وہ دنیا میں محبت کرتا تھا یا یہ کہ ہر شخص اپنیہم مذہب اور اپنی ملت کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ یہودی یہودیوں کے ساتھ، نصرانی نصرانیوں کے ساتھ مسلم مسلمانوں کے ساتھ، کافر کافروں کے ساتھ یا شیاطین کے ساتھ۔ حضرت عمر (رض) نے ایک دفعہ ممبر پر فرمایا وہ دو شخص جو دنیا میں ایک سا عمل کیا کرتے تھے وہ عمل جنتیوں کے ہوں یا دوزخیوں کے یعنی دوزخی دوزخی کے ساتھ جنتی جنتیوں کے ساتھ بعض نے کہا روح اور بدن کے تعلق کو فرمایا ہے کہ روح اور بدن کا جوڑا لگایا جائے گا۔ حضرت عمر (رض) نے ایک دفعہ فرمایا احشر وا الذین ظلموا وازواجھم ، یعنی جمع کرو گناہگاروں کو اور ان کے جوڑوں کو، مطلب یہ ہی ہے کہ ہم مشرب اور ہم مذہب آپس میں ایک ایک دوسرے کے ساتھ جمع کردیئے جائیں گے یہ دوسرے نفخہ صور کے بعد ہوگا۔