Surat ut Takveer
Surah: 81
Verse: 8
سورة التكوير
وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾
And when the girl [who was] buried alive is asked
اورجب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا ۔
وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾
And when the girl [who was] buried alive is asked
اورجب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا ۔
[٩] زندہ درگور کرنے کی وجوہ اور اس رسم کا سد باب :۔ ایک قراءت میں سُئِلَتْ کے بجائے سَئَلَتْ بھی آیا ہے یعنی زندہ درگور کردہ لڑکی خود اپنے پروردگار سے فریاد کرے گی کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں زمین میں گاڑا گیا تھا ؟ لیکن سُئِلَت کی قرائت سَئَلَت سے زیادہ ابلغ ہے جس کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ ایسے بےرحم اور سنگدل ظالموں کی طرف نہ دیکھنا پسند کرے گا اور نہ ان سے بات کرنا پسند کرے گا بلکہ ان کے بجائے مظلوم لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا ؟ اور یہ انداز خطاب اللہ تعالیٰ کا مجرموں پر انتہائی غضب ناک ہونے پر دلیل ہے۔ رہی یہ بات کہ اہل عرب اتنے سنگدل کیوں واقع ہوئے تھے جو اپنی بیٹیوں کو اس قدر حقیر جنس تصور کرتے تھے کہ انہیں زندہ گاڑ دیتے تھے ؟ تو اس کا بیان پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ مختصراً اس کی تین وجوہ تھیں (١) وہ تنگدست اور مفلس ہوجانے کے خطرہ سے اولاد کو مار ڈالتے تھے اور اس وجہ کے لحاظ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ (٢) وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ (٣) اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اہل عرب ہر وقت قبائلی جنگوں میں مشغول رہتے تھے اور ایسی جنگوں میں نرینہ اولاد تو ان کی جانشین یا مددگار بنتی تھی۔ مگر لڑکیوں کا معاملہ لڑکوں سے بالکل الگ تھا۔ وہ جس قبیلہ میں بیاہی جاتیں انہیں اسی کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور لڑکی کے والدین کے قبیلہ کو اس کے آگے سرنگوں ہونا پڑتا تھا۔ اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اہل عرب نے لڑکیوں کو وراثت سے محروم کر رکھا تھا۔ اسلام نے اس نظریہ کو ختم کرنے کے لیے دو طرفہ اقدام کیے۔ ایک تو قتل اولاد اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کو عام قتل سے بھی زیادہ شدید جرم قرار دیا اور لوگوں کے اس خیال کی پرزور تردید کی کہ وہ اپنی اولاد کو مار ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور دوسرے لڑکیوں کی تربیت اور پرورش کو بہت بڑا نیک عمل قرار دے کر اس کی ترغیب دی۔ چناچہ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے۔ پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کے عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقات علی البنات)
٨، ٩(١) واذا الموء دۃ سئلت…:” الموء د ۃ “ وہ لڑکی جسے زندہ دفن کردیا گیا ہو۔ جاہلیت میں بعض عرب عار سے بچنے کیلئے لڑکیاں زندہ دفن کردیتے تھے کہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائیں یا کوئی ان کا داماد نہ بنے۔ بعض فقر کی وجہ سے ایسا کرتے تھے اور بعض تو فقر کی وجہ سے لڑوں اور لڑکیوں دونوں کو قتل کر یدتے تھے۔ ہندوستان کے راجپوتوں اورب عض دوسری قوموں میں بھی یہ رواج رہا ہے، آج کل برتھ کنٹرول کے نام سے حکومتیں م نظم طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں۔ چین میں شہروں میں ایک بچے اور دیہاتوں میں صرف دو بچوں کی اجازت ہے۔ چونکہ اکثر لوگوں کو لڑکے مرغوب ہوتے ہیں، سالئے لڑکی پیدنا ہونے کی صورت میں کئی مائیں دودھ ہی نہیں پلاتیں اور اس طرح قتل کا ارتکاب کرتی ہیں۔ مسلمان ملکوں کے بعض حکمران بھی کفار کی ترغیب سے رزق کے وسائل کی کمی (املاق) کا بہانہ بنا کر تحدید نسل بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لئے ایسے طریقے پھیلا رہے ہیں جن سے بچہ پیدا ہونے کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے۔ مثلا جرثوثمے اور بیضے کی رگ ہی کاٹ دینا اور دوسرے ناقابل بیان طریقے اور یہ کام اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ کر رہے ہیں جس نے عزل اجتماع کرتے ہوئے انزال کے وقت بیوی سے علیحدہ ہوجانے) کو بھی نپاسند فرمایا، حالانکہ عزل کی صورت میں حمل کا امکان رہتا ہے، کیونکہ منی کے جرثومے انزال سے پہلے بھی مذی کے ذریعے سے رحم میں داخل ہوسکتے ہیں اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حقیقت کا اظہار فرمایا کہ عزل کردیا نہ کرو، جو بچہ پیدا ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ جب لوگوں نے آپ سے عزل کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ذلک الواد الخفی وھی :(واذا الموء دۃ سئلت) (التکویر : ١٨) (مسلم ، النکاح، باب جواز الغلیہ…: ١٣١/١٣٣٢)” یہ پوشیدہ طریقے کا زندہ دفن کرنا ہے اور یہ فعل اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وعید کے تحت آتا ہے کہ جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔ “ مقصد یہ ہے کہ عزل میں امکان حمل کے باوجود اس کے تسلسل کا نتیجہ نسل انسانی کی ہلاکت ہے۔ اس حدیث سے منع حمل کے دوسرے ظلمانہ طریقوں کی وعید خود بخود سمجھ میں آرہی ہے۔
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (and when the girl-child that was buried alive will be asked, for what sin she was killed...81:8) The word mau&udah is the girl-child buried alive. It was a common practice in pre-Islamic time of ignorance that people would take the birth of a girl as a matter of shame for their fathers, and therefore they would bury them alive as soon as they were born. Islam has abolished this barbaric practice completely. This verse, while depicting the scene of Resurrection, mentions that the girls who were buried alive will be questioned for what crime they were killed. Apparently, it seems that the question will be posed to the girl herself. This will give the victim an opportunity to prove her complete innocence and thus the perpetrators of this crime will be hauled up in the Divine Court of Justice, and will be duly punished for their wrongdoing. It is also possible that the question will be posed to the killers of the girls why they committed infanticide. Important Note In any case, one question may arise here: The day referred to in these verses is named as the &Day of Requital& and the &Day of Judgment&. This name itself sows that every person, on that day, will be put to a trial where he will be asked all sorts of questions about his deeds. Why has the Holy Qur&an, at this place, singled out only the question asked about the girl that was buried alive. Carefully considered, it would appear that such a girl was the victim of the barbarism of her own parents. As such, there was no one to raise a plaint against such a brutal act, and to demand retaliation, especially when she was buried secretly with no evidence left. The verse, therefore, signifies that on the Day of Reckoning, even those criminals will be exposed and hauled up in the Divine Court of Justice against whom there was no evidence, nor was there anyone who could stand up on their behalf to demand justice. Allah knows best! Abortion after Four Months is Tantamount to Infanticide Ruling [ 1] Burying alive infants or killing them is a major sin and a heinous brutality. Aborting a foetus after four months falls under the same category in Shari` ah, because within four months the foetus receives the soul and treated as a living human being. Likewise, if a person strikes on the stomach of a pregnant woman which causes the baby to abort, then, according to the common consent of the Muslim jurists, it would be incumbent upon him to set free a slave or pay its price in blood-wit or diyah. If the baby was alive at the time of aborting and then died, full diyah will be incumbent. Abortion before four months is also unlawful, except in cases of necessity, but compared to the first case, it is a sin of lesser degree, because it does not amount to killing of a living human being clearly. Ruling [ 2]: Birth Control Birth control, whose many forms are invented today, is also termed by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as &hidden infanticide& in a hadith reported by Muslim from Judhamah bint Wahb (رض) . There are, however, some ahadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have allowed ` azl (coitus interruptus) or to have observed silence when asked about it, which is a sign of permissibility of such an act. But it should be remembered that its permissibility is restricted to genuine needs, and that too in a way that productivity of the woman is not permanently blocked. [ Mazhari ]. The present-day medical science has invented some measures that prevent pregnancy forever. The Shari&ah does not permit such measures under any circumstances. Allah knows best!
وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ، موءودة وہ لڑکی جس کو زندہ دفن کردیا گیا جیسا کہ جاہلیت عرب میں یہ رسم تھی کہ لڑکی کو اپنے لئے موجب عار سمجھتے تھے اور زندہ ہی اس کو دفن کردیتے تھے اسلام نے یہ رسم بد مٹائی، اس آیت میں قیامت ومحشر کے حالات کے بیان میں ارشاد ہوا کہ جب اس لڑکی سے سوال کیا جائے گا جس کو زندہ درگور کرکے مار دیا گیا تھا، ظاہر الفاظ سے یہ ہے کہ یہ سوال خود اس لڑکی سے ہوگا، اس سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مقصود اس سے سوال کرنے کا یہ ہے کہ یہ اپنی بےگناہی اور مظلوم ہونے کی پوری فریاد بارگاہ رب العزت میں پیش کرے تاکہ اسکے قاتلوں سے انتقام لیا جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مراد یہ ہو کہ موءودہ لڑکی کے بارے میں اسکے قاتلوں سے سوال کیا جائے گا کہ اس کو تم نے کس جرم میں قتل کیا۔ فائدہ مہمہ یہاں بہر حال ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کا تو نام ہی یوم الحساب یوم الجزاء یوم الدین ہے اس میں تو ہر شخص سے اس کے سبھی اعمال کا محاسبہ اور سوال ہوں گے اس جگہ خصوصی احوال اور اہوال قیامت کے سلسلہ میں خاص موءودہ لڑکی کے معاملے میں اور اسکے متعلق سوال ہونے کو اتنی اہمت اور خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وجہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مظلوم لڑکی جس کو خود اسکے ماں باپ نے قتل کیا ہے اسکے خون کا انتقام لینے کے لئے اس کی طرف سے کوئی دعویٰ کرنے والا تو ہے نہیں خصوصاً جبکہ اس کو خفیہ دفن کردیا ہو تو کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی کہ شہادت دے سکے محشر کے میدان میں جو عدل و انصاف کی عدالت الہیہ قائم ہوگی، وہ ایسے مظالم کو بھی سامنے لائے گی جس کے ظلم پر نہ کوئی شہادت ہے نہ کوئی اس مظلوم کا پرسان حال ہے۔ واللہ اعلم چار ماہ کے بعد اسقاط حمل قتل کے حکم میں ہے مسئلہ : بچوں کو زندہ دفن کردینا یا قتل کردینا سخت گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم ہے اور چار ماہ کے بعد کسی حمل کو گرانا بھی اسی حکم میں ہے کیونکہ چوتھے مہینے میں حمل میں روح پڑجاتی ہے اور وہ زندہ انسان کے حکم میں ہوتا ہے اسی طرح جو شخص کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس سے بچہ ساقط ہوجائے تو باجماع امت مارنے والے پر اس کی دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے اور اگر بطن سے باہر آنے کے وقت وہ زندہ تھا پھر مر گیا تو پوری دیت بڑے آدمی کے برابر واجب ہوتی ہے اور چار ماہ سے پہلے اسقاط حمل بھی بدون اضطراری حالات کے حرام ہے مگر پہلی صورت کی نسبت کم ہے کیونکہ اس میں کسی زندہ انسان کا قتل صریح نہیں ہے (مظہری) مسئلہ : کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے حمل قرار نہ پائے جیسے آج کل دنیا میں ضبط تولید کے نام سے اس کی سینکڑوں صورتیں رائج ہوگئی ہیں اس کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واد خفی فرمایا ہے یعنی خفیہ طور سے بچہ کو زندہ درگور کردینا (کمار واہ مسلم عن خدا متہ بنت وہب) اور بعض دوسری روایت میں جو عزل یعنی ایسی تدبیر کرنا کہ نطفہ رحم میں نہ جائے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے سکوت یا عدم ممانعت منقول ہے وہ ضرورت کے مواقع کے ساتھ مخصوص ہے وہ بھی اس طرح کہ ہمیشہ کے لئے قطع نسل کی صورت نہ بنے (مظہری) آجکل ضبط تولید کے نام سے جو دوائیں یا معالجات کئے جاتے ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ ہمیشہ کے لئے سلسلہ نسل و اولاد کا منقطع ہوجائے اس کی کسی حال اجازت شرعاً نہیں ہے واللہ اعلم
وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ ٨ موؤدة : اسم للجارية تدفن حيّة، وهو اسم مفعول من الثلاثيّ وأد، وزنه مفعول . وَأَدَ : الوَأْدُ والوَئِيدُ : الصوتُ الْعَالِي الشدیدُ كَصَوْتِ الْحَائِطِ إِذا سَقَطَ وَنَحْوِهِ؛ قَالَ المَعْلُوط : أَعاذِل، مَا يُدْرِيك أَنْ رُبَّ هَجْمَةٍ ، ... لأَخْفافِها، فَوْقَ المِتانِ ، وئِيدُ ؟ قَالَ ابْنُ سِيدَهْ : كَذَا أَنشده اللِّحْيَانِيُّ وَرَوَاهُ يَعْقُوبُ فَديدُ. وَفِي حَدِيثِ عَائِشَةَ : خَرَجْتُ أَقْفُو آثَارَ الناسِ يومَ الْخَنْدَقِ فسمعتُ وئيدَ الأَرض خَلْفِي . الوئيدُ : شِدَّةُ الوطءِ عَلَى الأَرض يُسْمَعُ کالدَّوِيّ مِنْ بُعد . وَيُقَالُ : سَمِعْتُ وَأْدَ قوائمِ الإِبلِ ووئيدَها . وَفِي حَدِيثِ سَوَادِ بْنِ مطرف : وأْدَ الذِّعْلِبِ الوجناء أَي صوتَ وَطْئِها علی الأَرض . ووَأْدُ الْبَعِيرِ : هَدِيرُه؛ عَنِ اللِّحْيَانِيِّ. ووأَدَ المَوْءُودةَ ، وَفِي الصِّحَاحِ وأَدَ ابنتَهُ يَئِدُها وأْداً : دَفَنها فِي الْقَبْرِ وَهِيَ حَيَّةٌ؛ أَنشد ابْنُ الأَعرابي : مَا لَقِيَ المَوْءُودُ مِنْ ظُلْمِ أُمّه، ... كَمَا لَقِيَتْ ذُهْلٌ جَمِيعًا وعامِرُأَراد مِنْ ظُلْمِ أُمِّهِ إِياه بالوأْدِ. وامرأَة وئيدٌ ووئيدةٌ: مَوْءُودةٌ ، وَهِيَ الْمَذْكُورَةُ فِي الْقُرْآنِ الْعَزِيزِ : وَإِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ قَالَ الْمُفَسِّرُونَ : كَانَ الرَّجُلُ مِنَ الْجَاهِلِيَّةِ إِذا وُلِدَتْ لَهُ بِنْتٌ دَفَنَهَا حِينَ تَضَعُهَا وَالِدَتُهَا حَيَّةً مَخَافَةَ الْعَارِ وَالْحَاجَةِ ، فأَنزل اللَّهُ تَعَالَى: وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ : وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَة وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَواری مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ. وَيُقَالُ : وأَدَها الوائدُ يَئِدُها وأْداً ، فَهُوَ وائدٌ ، وَهِيَ موءُودةٌ ووئيدٌ. وَفِي الْحَدِيثِ : الوئيدُ فِي الْجَنَّةِأَي الموءُودُ ، فَعِيلٌ بِمَعْنَى مَفْعُولٍ. ومنهم من کان يَئِدُ البَنِين عند المجاعةِ ، وَكَانَتْ كِنْدَةُ تَئِدُ البناتِ؛ وَقَالَ الْفَرَزْدَقُ يَعْنِي جَدَّهُ صَعْصَعَةَ بْنَ نَاجِيَةَ : وجَدّي الَّذِي مَنَعَ الوائداتِ ، ... وأَحْيا الوئيدَ فَلَمْ يُوأَدِ وَفِي الْحَدِيثِ : أَنه نَهَى عَنْ وَأْدِ البناتِأَي قَتلِهِنَّ. وَفِي حَدِيثِ الْعَزْلِ : ذَلِكَ الوَأْدُ الخَفِيُّ. وَفِي حَدِيثٍ آخَرَ : تِلْكَ المَوْءُودةُ الصُّغْرَى؛ جَعَلَ العَزْلَ عَنِ المرأَة بِمَنْزِلَةِ الوأْد إِلا أَنه خَفِيٌّ لأَنَّ مَنْ يَعْزِلُ عَنِ امرأَته إِنما يَعْزِلُ هرَباً مِنَ الْوَلَدِ ، وَلِذَلِكَ سَمَّاهَا الموءُودة الصُّغْرَى لأَن وأْدَ البناتِ الأَحياء الموءُودةُ الْكُبْرَى. قَالَ أَبو الْعَبَّاسِ : مَنْ خَفَّفَ هَمْزَةَ الموءُودة قَالَ مَوْدةٌ كَمَا تَرَى لِئَلَّا يُجْمَعَ بَيْنَ سَاكِنَيْنِ. وَيُقَالُ : تَوَدّأَتْ عَلَيْهِ الأَرضُ وتَكَمَّأَت وتَلَمَّعتْ إِذا غَيَّبَته وذهبَت بِهِ؛ قَالَ أَبو مَنْصُورٍ؛ هُمَا لُغَتَانِ ، تَوَدَّأَتْ عَلَيْهِ وتَوَأْدَتْ عَلَى الْقَلْبِ ( لسان العرب) سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔
(٨۔ ٩) اور جس وقت زمین میں زندہ دفن کردی گئی لڑکی اپنے باپ سے پوچھے گی کہ مجھے کس گناہ میں قتل کیا گیا، یا یہ کہ دفن کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ اس کو کس گناہ میں قتل کیا۔
(81:8) واذا الموء ودۃ سئلت عطف حسب بالا۔ الموء ودۃ۔ واد (باب ضرب) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مؤنث۔ زندہ دفن کی ہوئی۔ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض قبائل مفلسی اور عار کی وجہ سے لٹکیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے کسی کو داماد بنانا باعث عار جانتے تھے لڑکی کمائی تو کر نہیں سکتی تھی اس لئے اس کو کھلانا دشوار تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بروایت عکرمہ مروی ہے کہ گڑھا کھود کر حاملہ عورت اس کے کنارہ پر بیٹھ جاتی تھی اگر لڑکا ہوا تو خیر۔ اگر لڑکی ہوتی تو فورا گڑھے میں پھینک کر اوپر سے مٹی پاٹ دی جاتی تھی۔ ترجمہ :۔ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں :۔ آیت میں مدفونہ سے سوال کرنے کی غرض یہ ہے کہ دفن کرنے والے کی تذلیل کی جائے جیسے آیت یعیسی ابن مریم انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ (5:116) میں نصاری کی تذلیل مقصود ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ موء دۃ کی طرف سوال کی نسبت مجازی ہے یعنی آیت میں مراد اس سے سوال کرتا نہیں بلکہ اس کے متعلق سوال کرنا ہے۔ جیسا کہ آیت ان العھد کان مسئولا (17:34) کہ عہد کے بارے میں ضرور پرستش ہوگی۔ میں عہد سے سوال کیا جانا مقصود نہیں بلکہ صاحب عہد سے عہد کے متعلق باز پرس کی جانی مقصود ہے۔ یا موء دۃ بمعنی دائدۃ ہے۔ یعنی دفن کرنے والی سے باز پرس کی جائے گی۔ اسم مفعول کو بمعنی اسم فاعل بولا جاتا ہے جیسے آیت انہ کان وعدہ ماتیا (19:61) ہے بیشک اس کا وعدہ نیکو کاروں کے سامنے آنے والا ہے۔ یا الموء دۃ سے مراد الموء دۃ لہا (مدفونہ کی ماں اور دائی جن کی سازش سے بچی کو دفن کیا جاتا تھا) ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الوائدۃ والموء دۃ لہا فی النار۔ یعنی وائدہ (دفن کرنے والی دائی) اور موء دۃ لہا جس کی طرف سے دائی جاکر بچی کو دفن کرتی تھی (یعنی ماں) دونوں دوزخی ہیں۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے اچھی سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے اور سوائے مذکورہ بالا تاویل کے کوئی صورت مفہوم حدیث کی صحت کی نہیں ہے۔
2﴿ وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ۪ۙ٠٠٨﴾ (اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کے بارے میں پوچھا جائے) ۔ ﴿ بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْۚ٠٠٩﴾ (کہ وہ کس گناہ میں قتل کی گئی) زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ انتظار میں رہتے تھے کہ دیکھو کیا پیدا ہوتا ہے اگر لڑکا پیدا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے تھے اور اگر لڑکی پیدا ہوتی تھی تو اپنے لیے عار سمجھتے تھے اور اسے اسی وقت زندہ ہی دفن کردیتے تھے اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوجاتی تو اسے عیب سمجھ کر چھپا چھپا پھرتا تھا جیسا کہ سورة النحل (آیت : ٩٥) میں فرمایا ﴿ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ﴾ زندہ نومولود لڑکی کو دفن کردیا جاتا تھا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کی بخشش سے ناراض تھے بےگناہ بچی کو زندہ درگور کردیتے تھے آیت بالا میں اسی کو بیان فرمایا کہ یہ سوال کیا جائے گا کہ لڑکی کو کس گناہ میں زندہ دفن کیا گیا۔