Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 10

سورة الإنفطار

وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾

And indeed, [appointed] over you are keepers,

یقیناً تم پر نگہبان عزت والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كِرَامًا كَاتِبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وان علیکم لحفظین…: حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں، یعنی فرشتے۔ ” حافظین “ یعنی کوئی عمل ان کی نگرانی سے باہر نہیں۔ ” کراماً “ عزت والے، اس لئے کہ وہ لکھنے میں کوئی خیانت نہیں کرتے، نہ کوئی بات لکھنے سے چھوڑتے ہیں اور نہ زیادہ لکھتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ۝ ١٠ ۙ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:10) وان علیکم لحفظین واؤ حالیہ ان حرف تحقیق بمعنی بیشک ، یقینا۔ لحفظین میں لام تاکید کا ہے۔ حافظین، حفظ (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بحالت ، حفاظت کرنے والے۔ نگہبان یہ جملہ حالیہ ہے اور تکذیون کے فاعل سے حال ہے۔ کراما : کاتبین ، یعلمون ما تفعلون : صفات ہیں۔ حفظین کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان علیکم ............................ تفعلون (10:82 تا 12) ” حالانکہ تم پر نگران مقرر ہیں ، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں “۔ یہ محافظ وہ روحانی مخلوقات ہیں جو فرشتوں سے ہیں۔ یہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں ، اس کی نگرانی کرتے ہیں ، اور جو اعمال وہ کرتا ہے اسے لکھتے ہیں ، ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس طرح ریکارڈ تیار کرتے ہیں ، اللہ کی طرف سے ہم پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ ہم اس کی تفصیلی کیفیات بھی جانیں۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ہمارے اندر ان غیبی امور کے ادراک کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ ہے کہ ہم ریکارڈ کیے جانے کی کیفیت بھی جانیں۔ کیونکہ یہ علم ہمارے فرائض میں سے نہیں ہے اور نہ اس سے انسان کے مقصد تخلیق کا تعلق ہے۔ لہٰذا اس میں مشغول ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق ان غیبی امور سے ہے جن کا انکشاف اللہ نے ہمارے سامنے نہیں کیا۔ ہمارے لئے صرف یہی شعور اور یقین دہانی ہے کہ انسان شتر بےمہار نہیں ہے۔ اور اللہ نے ایسے کارندے اس کے اوپر نگراں مقرر کردیئے ہیں ۔ جو اس کی ہر بات کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ جاگ اٹھے اور خوف کے مارے کانپ جائے اور اپنے مقصد زندگی کو پورا کرتے ہوئے آداب زندگی کو ملحوظ رکھے۔ اس سورت کی فضا اللہ کے انعامات اور اللہ کے فضل وکرم کی تھی ، اس لئے ان فرشتوں کی یہ صفت یہاں لائی گئی کہ وہ ” کرام “ ہیں قابل قدر اور صاحب منزلت ہیں۔ یہ اس لئے کہ انسان کو یہ خوف لاحق ہو کہ اس پر معززلوگ نگران ہیں۔ لہٰذا اسے ارتکاب جرائم وقبائح کے وقت شرم آنی چاہئے کیونکہ یہ بات انسان کی فطرت کا حصہ ہے کہ جب وہ شرفاء اور معزز لوگوں کے اندر بیٹھا ہو تو وہ قبیح حرکات نہیں کرتا ، متبذل الفاظ کا استعمال نہیں کرتا اور اپنی روش درست رکھتا ہے لیکن اگر انسان کو یہ شعور مل جائے کہ اللہ کے معزز فرستادہ اس کی باتوں کو نوٹ کررہے ہیں تو انسان بیشمار قباحتوں سے بچ سکتا ہے جو شرفاء کے ساتھ لاحق نہیں۔ قرآن کا یہ کمال ہے کہ وہ انسانی شعور کو زندہ وبیدارکھتا ہے اور تصور قیامت اور عقیدہ کاتبان الٰہی کے ذریعہ انسان کو اعلیٰ خیالات اور اعمال کے لئے پرجوش بناتا ہے۔ اس کے بعد نیک لوگوں کے انجام اور برے لوگوں کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے کہ فرشتے اور اللہ کے معززنمائندے جو ریکارڈ تیار کرتے ہیں ، وہ بہت اہم ہے اور اس کی بناء پر دائمی سعادت یا دائمی شقاوت نصیب ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” وان علیکم “ تم حشر و نشر اور جزاء و سزاء کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم پر نگران فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے نزدیک عزت والے ہیں اور تمہارے تمام نیک و بد اعمال کو لکھتے رہتے ہیں وہ تمہارے تمام چھوٹے بڑے اور اچھے برے عملوں کو جانتے ہیں۔ کیونکہ خلوت و جلوت میں وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ” یعلمون ما تفعلون “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے صرف ظاہری اعمال ہی کو جانتے ہیں اور دلوں کے ارادوں کو نہیں جانتے ان کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ” ان الابرار لفی نعیم “ یہ بشارت اخرویہ ہے، نیک لوگ اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے قیامت کے دن ہر قسم کی نعمتوں میں ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) حالانکہ تم پر ایسے نگہبان مقرر ہیں۔