Surat ul Infitaar
Surah: 82
Verse: 12
سورة الإنفطار
یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾
They know whatever you do.
جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں ۔
یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾
They know whatever you do.
جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں ۔
But verily, over you to watch you (are) Kiraman Katibin, they know all that you do. meaning, `indeed there are noble guardian angels over you, so do not meet them with evil deeds, because they write down all that you do.'
[١٠] اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ حالانکہ ہم نے تم پر نگران چھوڑ رکھے ہیں جو ہر وقت تمہارے ساتھ لگے رہتے ہیں وہ تمہاری ایک ایک حرکت، ایک ایک قول اور ایک ایک فعل کو ساتھ ساتھ ریکارڈ کرتے جارہے ہیں اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے والے نہایت معزز فرشتے ہیں۔ لکھنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ تمہاری کسی حرکت کو ریکارڈ نہ کریں یا تم نے کوئی کام نہ کیا ہو اور وہ تمہارے اعمال میں درج کردیں۔ پھر وہ تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہیں جس کے تحت تم نے کوئی فعل سرانجام دیا تھا۔ لہذا ان کے اندراج میں کسی غلطی کا ہونا ناممکن ہے۔
یعلمون ماتفعلون : تمہارا کوئی مخفی سے مخفی کام ، حتیٰ کہ تمہاری نیتیں اور ارادے بھی ان سے پوشیدہ نہیں۔ لہٰذا تمہارا یہ سمجھنا کہ تمہارے چھپا کر کئے ہوئے گناہ ریکارڈ میں نہیں آئیں گے اور تم ان کی سزا سے بچ جاؤ گے، ، زبردست نادانی ہے۔ ان فرشتوں کا مزید ذکر سورق ق (١٧، ١٨) میں دیکھیے۔
يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ١٢ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
آیت ١٢{ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ } ” وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو۔ “ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے بطور نگران مقرر کر رکھے ہیں جو اس کا ایک ایک عمل لکھ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا محاسبہ کرنا منظور نہیں ہے تو گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کا فرشتوں کو بطور نگران مقرر کرنا اور ان فرشتوں کا ایک ایک انسان کے ایک ایک عمل کا ریکارڈ مرتب کرنا سب کا رعبث ہے۔ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ” کارِعبث “ اللہ کے شایانِ شان نہیں ‘ وہ احتساب ضرور کرے گا اور اس احتساب کے نتائج بھی ضرور نکلیں گے ‘ جن کا ذکر اگلی آیات میں ہے :
7 That is, "whether you deny the meting out of rewards and punishments, belie it, or mock it, the reality cannot change. The reality is .that your Lord has not left you to your self in the world, but has appointed over each one of you honest and upright guardians, who are recording objectively and faithfully all your good and evil acts, and none of your acts is hidden from them, whether you commit it in darkness, or in private, or in far off jungles, or in secret when you are fully satisfied that whatever you have done bas remained hidden from human eye. For these guardian angels Allah has used the words kiram-an katibin, i.e. writers who are honorable and noble They are neither attached in personal love with somebody, nor are inimical to anybody, so that they would prepare a fictitious record on the basis of their favouring one man and disfavouring another unduly. They are neither dishonest that without being present on duty they would make wrong entries by themselves; nor are they bribable so that they would take bribes and make false reports in favour of or against somebody. They are far above these moral weaknesses. Therefore, both the good and the bad people should be fully satisfied that each man's good acts will be recorded without any omission, and no one will have an evil act recorded in his account which he has not done. Then the second quality that has been mentioned of these angels is: "They know whatever you do " That is, they are not like the secret, intelligence agencies of the world, from which, despite all their search and scrutiny, many things remain hidden. They are fully aware of everyone's deeds. They accompany every person, at all places, under all conditions, in such a way that he himself does not know that someone is watching him, and they also know with what intention has somebody done a certain thing. Therefore the record prepared by them is a complete record in which nothing has been left un-recorded. About this very thing it has been said in Surah Al-Kahf 49: "Woe to us! What sort of a book it is, it has left mothing unrecorded of our doings, small or great. They will see before them everything, whatever they had done."
سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :7 یعنی تم لوگ چاہے دارالجزاء کا انکار کرو یا اس کو جھٹلاؤ یا اس کا مذاق اڑاؤ ، اس سے حقیقت نہیں بدلتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اس نے تم میں سے ایک ایک آدمی پر نہایت راستباز نگران مقرر کر رکھے ہیں جو بالکل بے لاگ طریقے سے تمہارے تمام اچھے اور برے اعمال کو ریکارڈ کر رہے ہیں ، اور ان سے تمہارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں ہے ، خواہ تم اندھیرے میں ، خلوتوں میں ، سنسان جنگلوں میں ، یا اور کسی ایسی حالت میں اس کا ارتکاب کرو جہاں تمہیں پورا اطمینان ہو کہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ نگاہ خلق سے مخفی رہ گیا ہے ۔ ان نگراں فرشتوں کے لیے اللہ تعالی نے کراماً کاتبین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، یعنی ایسے کاتب جو کریم ( نہایت بزرگ اور معزز ) ہیں ۔ کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں نہ عداوت کہ ایک کی بے جا رعایت اور دوسرے کی ناروا مخالفت کر کے خلاف واقعہ ریکارڈ تیار کریں ۔ خائن بھی نہیں ہیں کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر بطور خود غلط سلط اندراجات کرلیں ۔ رشوت خوار بھی نہیں ہیں کہ کچھ لے دے کر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں کر دیں ۔ ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے بلند ہے ، اس لیے نیک و بد دونوں قسم کے انسانوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ہر ایک کی نیکی بےکم و کاست ریکارڈ ہو گی ، اور کسی کے ذمہ کوئی ایسی بدی نہ ڈال دی جائے گی جو اس نے نہ کی ہو ۔ پھر ان فرشتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے وہ جانتے ہیں ، یعنی ان کا حال دنیا کی سی آئی ڈی اور اطلاعات ( Intelligence ) کی ایجنسیوں جیسا نہیں ہے کہ ساری تگ و دو کے باوجود بہت سی باتیں ان سے چھپی رہ جاتی ہیں ۔ وہ ہر ایک کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں ، ہر جگہ ہر حال میں ہر شخص کے ساتھ اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اسے یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی نگرانی کر رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص نے کس نیت سے کوئی کام کیا ہے ۔ اس لیے ان کا مرتب کردہ ریکارڈ ایک مکمل ریکارڈ ہے جس میں درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں گئی ہے ۔ اسی کے متعلق سورہ کہف آیت 49 میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جو نامہ اعمال پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے نہیں رہ گئی ہے ، جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب جو کا توں ان کے سامنے حاضر ہے ۔
3: اس سے مراد فرشتے ہیں جو اِنسان کے سارے اعمال کو لکھتے رہتے ہیں، اور اسی سے اُس کا اعمال نامہ تیار ہوتا ہے۔
(82:12) یعلمون ما تفعلون : ما موصولہ ہے وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔ صاحب تفسیر ضیاء القرآن تحریر فرماتے ہیں :۔ ان کا علم ادھورا اور ان کی معلمات ناقص نہیں تمہاری ہر بات تمہارا ہر کام بلکہ اس کے پس پردہ تمہارے جو جذبات اور نیتیں ہیں وہ ان سے بھی باخبر ہیں۔ تم غور کرو کہ ایسے غیر جانبدار، دیانت دار اور ہر بات سے خبردار تمہارے اعمال کا جو ریکارڈ تیار کریں گے اس کو تم کس طرح جھٹلاؤ گے۔
ف 9 لہذا تمہارا یہ سمجھ کر زندگی گزارنا سراسر حماقت ہے کہ شاید تمہارا کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ میں نہ آیا ہو، اور تم اس پر سزا پانے سے بچ جائو۔ یہ فرشتے ہر انسان پر چار کی چار تعداد میں مقرر ہیں۔ دو اس کی نیکیاں لکھتے ہیں اور دو برائیاں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورة رعد آیت 11 مع فائدہ)
(12) وہ ان سب اعمال کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو ان فرشتوں کی تعداد اور ان کے بیٹھنے کی جگہ اور ان کے اعمال کو لکھنے کا طریقہ ان سب باتوں میں علماء کے مختلف قول ہیں لیکن احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کاتب اعمال دو فرشتے ہیں جو دن کو لکھتے ہیں وہ شام کو چلے جاتے ہیں اور جو شام کو آتے ہیں وہ صبح کو چلیجاتے ہیں جیسا کہ ہم سورة ق میں عرض کرچکے ہیں ان کاتب اعمال فرشتوں کو کرام فرمایا یعنی عزت والے ان فرشتوں کا معزز ہونا ہی کہ اول تو وہ حافظ ہیں بندے کے ہر عمل سے بخوبی واقف ہیں وہ ہر ایک برائی اور بھلائی کو سمجھتے ہیں اور کوئی عمل ان سے ضائع نہیں ہوتا۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ تم کراماً کاتبین کا اکرام کرو وہو تم سے کسی حالت میں جدا نہیں ہوتے مگر جنات اور جائے ضرور کے وقت یہ ہر روز صحیفے بندے کے حق تعالیٰ کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں اگر کسی بندے کے صحیفے کی ابتداء میں اور آخر میں استغفار لکھا ہوا ہوتا ہے تو حضرت حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، قدغفرت بعبد ی مابین طرفے الصحیفۃ۔ یعنی اس صحیفے کے دونوں جانب کے درمیان میں جو چیز ہے اس کو میں نے بخش دیا دوسرے یہ کہ وہ انسان سے پوشیدہ رہتے ہیں سامنے نہیں آتے کہ انسان کو شرمندگی نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ انسان جو کچھ کرتا یا کہتا ہے اس کا اندراج کرلیتے ہیں یعنی امانت دار ہیں خائن نہیں ہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کو بندے کے متعلق جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کا وہ کسی سے اظہار نہیں کرتے بہرحال جب تمام اعمال ضبط تحریر میں آرہے ہیں اور ان سب کا حساب ہوکرجزاوسزا کا ملنا یقینی ہے تو انسان کو دھوکا نہیں کھانا چاہیے بلکہ اپنے انجام سے باخبر رہنا چاہیے کیونکہ قیامت اسی دن کا نام ہے جس دن نیکوں کو ان کے نیک اعمال کا صلہ اور بدوں کو ان کی بداعمالیوں کا بدلہ دیا جائے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔