Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 13

سورة الإنفطار

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ۱۳﴾

Indeed, the righteous will be in pleasure,

یقیناً نیک لوگ ( جنت کے عیش آرام اور ) نعمتوں میں ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Righteous and the Sinners Allah informs of what the righteous will receive of delight. إِنَّ الاَْبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ

ابرار کا کردار جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار ، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوش خبری دیتا ہے حدیث میں ہے کہ انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے ، بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے ، قیامت ... کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہو گا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے ۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمھیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے ۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کر لو میں تمھیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ یہ حدیث سورہ شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 16؀ ) 40-غافر:16 ) اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا 26؀ ) 25- الفرقان:26 ) اور فرمایا آیت ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ Ǽ۝ۭ ) 1- الفاتحة:4 ) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہو گی ۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت ، ملکیت اور امر بھی نہ ہو گا ۔ سورہ انفطار کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان الابرار لفی نعیم…:) فرشتوں کے تیار کردہ اعمال ناموں کا نتیجہ یہ ہے کہ نیک لوگ نعمت میں اور نافرمان بھڑکتی ہوئی آگ میں ہوں گے۔” الابرار “ ” بر “ کی جمع ہے، وہ شخص جس میں ” بر “ (نیکی ) پائی جائے۔ نیکی کیا ہے اور نیک کون ہے اس کی تفصیل سورة بقرہ کی آیت (١٧٧) یعنی ” آیت بر “ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (ال... فجار “ (فاجر “ کی جمع ہے، یہاں مراد کافر ہیں، کیونکہ مومن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الْأَبْرَ‌ارَ‌ لَفِي نَعِيمٍ وَإِنَّ الْفُجَّارَ‌ لَفِي جَحِيمٍ (Surely the righteous will be in bliss, and surely the sinners will be in Hell,...82:13-14). These two statements are connected with verse [ 5] above: عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَ‌تْ &then one will know what he sent ahead and what he left behind. [ 5] & The verse informs us that each person, on the Day of Re... ckoning, will know what he has done, and what will be the consequences of his deeds. The present verse says that the righteous will be in perfect bliss, while the sinners will be in a Blazing Fire of Hell.  Show more

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ ، وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ ، اس کا تعلق اس جملے سے ہے جو پہلے گزرچکا یعنی عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ کہ قیامت کے روز انسان کو اپنا اپنا عمل سامنے آجائیگا۔ اس جملے میں اس عمل کو سزا وجزاء کا ذکر ہے کہ اطاعت شعار ابرار تو اس روز اللہ تعالی... ٰ کی نعمتوں میں مسرور ہوں گے اور سرکش نافرمان جہنم کی آگ میں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ۝ ١٣ ۚ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب... ، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

نیک حضرات مثلا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور ان کے ساتھی جنت کی آسائش میں ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٩۔ اوپر کی آیتوں میں انسان کے پیدا کرنے اور حشر کا ذکر تھا ان آیتوں میں سب کا یہ نتیجہ فرمایا کہ نیکوں کو نیکی کی جزا میں جنت کی طرح طرح کی نعمتیں ملیں گی اور بدوں کو بدی کی سزا میں دوزخ کا طرح طرح کا عذاب بھگتنا پڑے گا پھر قیامت کا تاکید کے طور پر دو دفعہ ذکر فرما کر یہ جتلا دیا کہ اس دن کے عذ... اب سے بغیر مرضی الٰہی کوئی کسی کو چھوڑا نہیں سکتا کیونکہ دنیا کی طرح اس دن اللہ تعالیٰ کے رو برو بیجا سفارش کرنے کا کسی کا مقدور نہیں اس آیت میں فاجر سے وہی لوگ منکر حشر مراد ہیں جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزرا۔ اہل ایمان گناہ گار اس میں داخل نہیں ہیں کس لئے کہ صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان گناہ گاروں میں سے جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا اس کی بھی شفاعت قبول ہوگی اور وہ اخیر کو جنت میں جائے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:13) ان الابرار لفی نعیم ان حرف مشبہ بالفعل، بمعنی تحقیق، الابرار اس کا اسم فی نعیم اسکی خبر۔ الابرار برو بار کی جمع۔ نیک آدمی۔ نیک لوگ۔ البر یہ بحر کی ضد ہے (اور اس کے معنی خشکی کے ہیں) پھر معنی وسعت کے اعتبار سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ۔ جس کے معنی وسیع پیمانے پر نیکی کرنے کے ہیں۔ پھر اس کی ... نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے انہ ھو البر الرحیم (52:28) بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بر العبد ربہ : بندہ نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی۔ البر نیکی دو قسم پر ہے : اعتقادی، عملی، آیت کریمہ لیس البر ان تولوا وجوکہم ۔۔ (2:177) دونوں قسم کی نیکیوں کے بیان پر مشتمل ہے۔ بزالو الدین کے معنی ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا جیسے و (جعلنی) برا بوالدتی ولم یجعلی جبارا شقیا (19:32) اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ ایک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ نعیم اسم نکرہ مجرور۔ نعمت۔ راحت ، عیش۔ ترجمہ :۔ بیشک نیک لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان جو کچھ کرتا ہے فرشتے اسے اس کے اعمال نامے میں درج کرتے ہیں۔ خوش قسمت انسان اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور بدقسمت لوگ اپنے برے اعمال کرنے کی وجہ سے جہنم میں سزا پائیں گے۔ پچھلی آیات میں ذکر ہوا کہ انسان جو کچھ کرتا ہے کراماً کاتبین اسے لکھتے ... جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کراماً کاتبین کو یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ نہ صرف انسان کا دن رات میں کیا ہوا ہر عمل ضبط تحریر میں لاتے ہیں بلکہ انسان جو عمل جس نیت کے ساتھ کرتا ہے اسے بھی اس کے عمل کے ساتھ درج کرلیتے ہیں۔ جس کا عقیدہ اور عمل ٹھیک ہوگا اسے جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا اور جن کا عقیدہ اور عمل برے ہونگے انہیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ قیامت کے دن سب نے اپنے رب کے حضور اکٹھا ہونا ہے اور کوئی بھی اس سے اپنا کوئی عمل چھپا نہیں سکے گا، یہ جزا کا دن ہوگا۔ جس دن نیکیوں کا کئی گنا اضافہ کے ساتھ بدلہ دیا جائے گا اور برے لوگوں کو ان کی برائی کے برابر ہی سزا ہوگی۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ دن کیسا ہوگا ؟ اس دن کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور صرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ آیت ١٦ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی مجرم جہنم سے بھاگ کر غائب نہیں ہو سکے گا۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ ) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفاک اور نخوت و غرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر کراماً کاتبین مقرر کردیئے ہیں۔ ٢۔ انسان جو بھی عمل کرتا ہے کراماً کاتبین اسے من وعن لکھ لیتے ہیں۔ ٣۔ قیامت کا دن بڑا بھاری ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے دن کوئی شخص بھی اپنا کوئی عمل چھپا نہیں سکے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اللہ کا حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ ٦۔ نیک لوگ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے اور برے لوگوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک اور جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ٥۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٦۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢٤) ٧۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣١) ٨۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبہ : ٨١) ٩۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الابرار ............................ بغئبین (13:82 تا 16) ” یقینا نیک لوگ مزے میں ہوں گے اور بیشک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہوسکیں گے “۔ لہٰذا یقین کرو کہ یہ انجام لازمی ہونے والا ہے۔ یہ طے شدہ انجام ہے کہ نیک لوگ جنت میں اور برے لوگ جہنم...  میں داخل ہوں گے۔ بر ، ابرار کا واحد ہے۔ وہ شخص کہ نیکی اس کی عادت ثانیہ بن جائے۔ نیک کاموں میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اچھے کام ہیں۔ اور نیکی کی یہ صفت انسانی شرافت کے ساتھ متناسب ہے۔ اس کے مقابلے کا لفظ بھی ایسا ہی ہے۔ فجار ، وہ گستاخ ، بےادب جو اثم ومعصیت کے کاموں میں بےدھڑک کود پڑتے ہیں۔ جہنم ان کے فسق وفجور کے لئے موزوں جگہ ہے ۔ مناسب جائے مقام ہے۔ ان کا حال کیا ہوگا ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) بے شک نیک لوگ بڑے آرام میں ہوں گے یعنی بہشت میں۔